اردو میں گیت کی روایت اور بیکل اتساہیؔ

تحریر: ڈاکٹر عبیدالرحمٰن، گیسٹ فیکلٹی،خواجہ معین الدین چشتی، اردو، عربی – فارسی یونیورسٹی، لکھنؤ

mob. 9696332864

زمانۂ قدیم سے ہی گیت جذباتِ انسانی کا عنائیت کے ساتھ اپنے اپنے لب و لہجہ میں اظہار کا سب سے خوبصورت اور موثر ذریعہ رہا ہے ۔گیت کی تاریخ پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو وہ اپنی خصوصیات اور اہمیت و افادیت کے پیشِ نظر ہمیں باور کراتی ہے کہ اسکی تاریخ بہت قدیم ہے اور ساتھ ہی ساتھ بہت مقبول بھی رہی ہے۔ کیوں کہ انسان کو جب خوشی حاصل ہوتی تھی تو وہ اس موقع پر اپنے خوشی کے جذبات کا اظہار پر سکون انداز میں لفظوں اور جملوں کو ٹھہر ٹھہر کر متانت کا جامہ پہناکر ادا کرتا تھا جو کبھی ا ختیاری بھی ہوتا تھالیکن عموماََ یہ صورتِ اس وقت پیش آتی تھی جب با قاعدہ مجلس و محفل اور جشن کی صورت میں ہوتا تھا ورنہ عام طور پر کسی خوشی کے حاصل ہونے کے وقت اس میںشدت آنے لگتی تھی تو اپنے کرب واضمحلال، اپنے درد و غم کو ٹھہر ٹھہر کر ایک خاص لب و لہجہ میں بیان کرنے کا جو سلسلہ رہا ہے جو ہم تک چلا آیا ہے۔ یہی درد و کرب جب اردو شاعری میں داخل  ہوتے ہیں اور شاعر ان جذبات و احساسات اور درد و غم ، کرب و اضمحلال کی کیفیت کو شاعری میں ان خاص لب و لہجہ میں پروتا ہے تو گیت کا نام دیا جاتا ہے ویسے گیت کا خاص طور پر تعلق عورتوں سے ہے جو ان کی جذبات کے اظہار اور اسکی تمام تر کیفیات کو تمام لوازمات کے ساتھ محفوظ کئے ہوئے ہے۔ لیکن بدلے ہوئے حالات نے گیت کا دائرہ وسیع سے و سیع تر کر دیا ہے۔ اور آج ہر طرح کے مو ضوعات کو گیت میں جگہ حاصل ہے ۔ لیکن اصلاََگیت وہ ہے جس میں عورت برہ کے درد کو پروتی ہے یعنی فراق زدہ عورت اپنے فراق کی کیفیت اور اپنے جذبات کو بیان کرتی ہے گویا کہ یہ عورت کے فراق کے جذبات ہیںجس میں وہ اپنے محبوب اپنے عاشق اور اپنے شوہر کو اپنے جذبات کا حوالہ دیکر بلاتی ہے۔

گیت میں شاعری ، مو سیقی کے علاوہ رقص و غنائیت بھی پائی جاتی ہے با لخصوص عورتوں نے جو روح اس میں پھونک دی اس سے اس میں مزید جاذبیت اور کشش پیدا ہوگئی ہے کیونکہ ان کے خاص لب و لہجہ اور اندازِ بیان نے اسے مقبولیت کی معراج عطاء کر دی ۔ مولوی عبدالحق عورتوں کی گیت کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔

’’وہ گیت جو عورتوں نے بنائے ہیں بہت ہی پر لطف اور دلکش ہیں اور نفسیاتی اعتبار سے خاص طور پر قابلِ قدر ہیں۔ ایسے الفاظ جن کا زبان سے نکالنا بد تمیزی سمجھا جاتا ہے ۔ جن کے کہنے میں شرم و حجاب مانع ہوتا ہے عورتیںایسے الفاظ نہیں بولتیں بلکہ وہ ایسے مفہوم کو لطیف پیرایہ میں یا تشبیہ واستعارے کے رنگ میں بڑی خوبصورتی سے بیان کرتی ہیں۔‘‘

(خطباب عبدالحق۔ مولوی عبدالحق، ص ۱۲۱ مطبوعہ انجمن ترقی اردو کراچی جون  ۱۹۵۲ء؁)

اردو میں گیت کی روایت بہت قدیم ہے۔ اس کا پتہ ہمیں امیر خسرو کے یہاں ملتا ہے۔ دراصل یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ صالح معاشرہ اور اس کی ترویج و ترقی میں خواتین کا سب سے اہم اور بنیادی کردار ہوتا ہے۔ اگر انہیں کسی طرح سے نظر انداز کردیا جائے تو معاشرہ مختلف طرح کے مسائل سے دوچار ہوجائیگا۔ ہمیں جہاں تک لگتا ہے اسی اہمیت کو دیکھتے ہوئے ہمارے اردو زبان و ادب کے اکثر و بیشتر شعراء نے دوسری تمام اصناف غزل ، قصیدہ مرثیہ ، مثنوی ، رباعی ، نعت، حمد، منقبت، کے ساتھ ساتھ ضرور گیت میں بھی طبع آزمائی کیا ہے ۔ اور کچھ شاعر تو ایسے بھی ہوئے ہیں جن کی شہرت ہی گیت کے سبب ہوئی ہے۔ اور ان کو گیت کا شاعرہی کہا جانے لگا، یہ بات الگ ہے بلکہ مستقل مو ضوع بحث ہے کہ دیگر اصناف کی طرح گیت کو ہمارے اردو ادب میں کوئی مقام حاصل نہیں ہوا نہ اسکو ایک صنف ادب یا صنف ِ شاعری کی طرح محفوظ کیا گیا ور نہ اس پر مستقل ضخیم کتا بیں مو جود ہوہیں۔ اور نہ ہی اس کو تا ریخ میں وہ مقام حاصل ہو ا۔ مگر چونکہ اس کا تعلق جذبات سے وابستہ تھا اس لئے وہ تاریخ اور ادب کا کوئی حصہ نہ ہوتے ہوئے بھی اس سے کم مقبول اور اہمیت کی حاصل نہیں رہی۔ بلکہ اپنی اہمیت و خصوصیت  کے پیشِ نظران سے بھی کہیں خاص مقام حاصل کئے ہوئے ہے اور خواص کے ساتھ ساتھ عوام میں مقبولیت کے سبب وہ اپنا ایک مقام بنائے ہوئے ہے ۔ دراصل اس کی یہ مقبولیت اس کی مٹھاس اس کی لچک اور دلچسپی کے سبب ہے ۔

اپنی انہیں اہمیت و مقبولیت کے پیشِ نظر عہدِ حاضر میں کچھ تحقیقی مقالے اور مضامین گیت کی خصوصیت اور امتیاز بیان کرنے کے لئے منظر عام پر آچکے ہیں۔ لیکن پھرضرورت مزیدان کی درسگی و جستجو کر کے انہیںمحفوظ کرنے کی ہے کہ یہ ایک اہم اور دلچسپ صنف اس بھیڑ بھاڑ اور بھاگ دوڑکی زندگی میں کہیں غیر محفوظ نہ ہو جائے۔گیتوں کی اسی اہمیت و افادیت کے پیشِ نظرآج ان کا دائرہ بھی وسیع سے وسیع تر ہو گیا ہے اور اب اس  میں صرف برہ کے درد ہی نہیں بیان کئے جاتے بلکہ ہر طرح کے مو ضوعات کو اس میں جگہ حاصل ہوگئی ہے۔ اور ہمارے شعراء نے اس کے دامن کو وسیع کردیا ہے اور مزیدوسعت و ترقی عطاء کرنے میں مصروف ہیں۔ گیت کی اہمیت کا اندازہ ہم اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ اردو شاعری کی ترقی کے ساتھ اس کا سلسلہ بھی چلتارہا اور امیر خسرو کے بعد دکن ، دہلی اور پھر لکھنؤ ہر جگہ اس نے برابر اپنی جگہ بنائی اور ترقی کے منازل کے ساتھ ساتھ وسعت بھی حاصل کیا۔

مرورِ ایام کے ساتھ گیت بھی اپنی زبان بدلتی رہی او رساتھ ہی ساتھ ترقی بھی کرتی رہی جس طرح دنیا ء کے تمام زبانوں کے ادب کے ساتھ ہو ا کہ زمانے کی تبدیلی کے ساتھ اصناف کی خوبی اور خوبصورتی میں اضافہ واقع ہوا۔ اسی طرح ہماری اردو گیت بھی مختلف مدارج سے نکل کر آج اور بھی نکھر ی اور ستھری صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ اردو میں مختلف طرح کے گیت پائے جاتے ہیں۔ صوفیائے کرام نے انہیں گیتوں سے مذہب کی ترویج و ترقی کا کام لیا ۔ کبھی گیت اظہارِ ذات کا ذریعہ بنی تو کبھی ان میں آزادی کے ترانے گائے گئے اور کبھی ان ہی گیتوں سے ملک کی سرحدوں پر تحفظ کرنے والے فوجیوں میں ملک کی حفاظت کے لئے جذبات جو پُرجوش کرنے کا کام لیاگیا۔ اور کبھی یہی گیت فلم سازوں کو خوب خوب راس آئے اور انہوں نے ان ہی گیتوں کی مدد سے اپنے فن کو کمالِ عروج پر پہنچایا اور کبھی یہی گیت مذہبی جذبات کے اظہار کا بہترین ذریعہ بنے جس کی بہترین مثال بیکل اتساہیؔ کے گیت ہیں۔

اردو میں گیت کہنے والے شعراء کی فہرست بہت طویل ہے۔ جن میں کچھ اہم اور کچھ بہت اہم گیت نگار ہیں اس مختصر سے مضمون میں سبھی پر گفتگو نہیں کی جا سکی ۔ لیکن چند اہم گیت نگار شعراء کا تذکرہ ضرور کیا جائیگا، جن کی اہمیت اردو گیت کی تاریخ میں مسلم ہے جب ہم اردو گیت کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ اردو گیت ہمیں اردو زبان کے ارتقائی سفر سے بھی بخوبی واقف کراتی ہے۔ اردو میں گیت کی شکل میں سب سے پہلے ہمیں جو کلام ملتے ہیں وہ امیر خسرو کے ہیں ان کے کلام کا نمونہ ملاحظہ ہو۔؎

کہ تابِ ہجران ندارم اوے جاں نہ لیہو کا ہے لگائے چھتیاں

سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

کسے پڑی ہے جو جاسُناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں

نہ نیند نینا نہ انگ چینا نہ آپ اویں نہ بھیجیں پتیاں

سُپیت من کے درائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں

میرا جی شمس العشاق کے صاحب زادے برہان الدین جانمؔ نے بھی گیت کہے ہیں۔؎

تس رن جاگے برہا ماری

نہ نیند دیکھے نین پڑے

پلکھن میں میری آگ جلے کیوں

پسلے دیکھون سوئی کھڑی

جے آپ کو کھوجیں پیو کو پائیں

پیو کو کھوجین آپ گنوائیں

(ہماری شاعری پر ہندی شاعری کے اثرات، سید وقار عظیم ص ۲۰۔۲۱)

اردو میں گیت دکن میں اکثر شعراء نے ککہے ہیں جن میں اہم قلی قطب شاہ ، عبداللہ قطب شاہ ، علی عادل شاہ، اور وجہی کے گیت خاص اپنے لب ولہجہ کی وجہ سے بھی اہم ہیں، قلی قطب شاہ کی گیت        ؎

پیا باج پیالہ پیا جائے نا

پیا باج اک پل جیا جائے نا

کہیتے پیا بن صبوری کروں

کہیا جائے اماں کہا جائے نا

نہیں عشق جس وہ بڑا کوڑ ہے

کدھیں اس سے مل جیا جائے نا

(کلیاتِ قلی قطب شاہ، قلی قطب شاہ، مرتبہ ڈاکٹر زور ص۲۳)

ملا وجہیؔ کے گیت سے مثال   ؎

طاقت نہیں دوری کی اب توں بیگی آمل رے پیارے

تم بن لنجے جینا بہوں ہوتا مشکل رے پیارے

کھانا برہ کھاتی ہوں میں پانی انجھو پیتی ہوں میں

تج سے بچھڑ کے جیتی ہوںمیں کیا سخت ہے دل رے پیارے

علی عادل شاہ کے گیت          ؎

کوئی جاؤ کہو مجھ ساجن سات

میں نیھ بندی تو گیتا گھات

پیو مورت دیکھوں سپنے میں

جب جاگو تب رہوسینے میں

تن جائے جھک جھک جینے میں

آرام اچھے مج کھینے میں

                                                                                (نادراتِ شاہی ، علی عادل شاہ ثانی شاہی ص ۱۰۰ ہندوستانی پریس رام پور)

نظیر اکبرآبادی کا نام اردو گیت کی تاریخ میں اپنی نوعیت کے اعتبار سے بہت اہمیت رھتا ہے کیوںکہ انہوں نے مختلف موضوعات کو اپنی نظموں میں باندھا ان کی طویل نظموں میں گیت کی کیفیت نظر آتی ہے ۔ آخری تاجدارِ ہند بہادر شاہ ظفرکو بھی شعر و شاعری میں خاصی دلچسپی تھی ان سے بھی مختلف اصناف یاد گار ہیں۔جن میں ان کے گیت خالص دیسی گیت کی بہترین مثال ہیںجسمیں درد و کرب کی کیفیت بھی پائی جاتی ہے اور برہ کی دبی ہوئی سسکیاں او ر اس کی مدھم آواز بھی سنائی دیتی ہے ۔ ان کے گیت کا نمونہ ملاحظہ ہو          ؎

پیم اگن نت موہے جراوے

یاکا بھید کہوں کا سے

پی ہو پاس تو جی ہو ٹھنڈا

اپنی بپتا کہوں واسے

میرے من کی موسو نہ پوچھو

پوچھو میری بپتا سے

نہ چھوٹے یہ برہا مو سوں

ن چھوٹوں میں برہا سے

(کلیاتِ ظفر جلد سوم، بہادرشاہ ظفر ص ۲۱۴، نول کشور پریس لکھنؤ)

بہادر شاہ ظفر کے گیتوں میں شاعرانہ خوبیاں زیادہ نظر آتی ہیں۔ اس کے برخلاف اودھ کے تاجدارواجد علی شاہ کے گیتوں میںموسیقی کے دھنوں کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ اور ساتھ ہی ان کے گیتوں پر عیش پرستی کی جھلکیاں نمایاں ہیں۔ مثال دیکھیں    ؎

سیاں کے کارن میں گندوا ہو جاؤں

گندوا ہو جاؤں رے پھلیا ہو جاؤں

جو مورے سیاں کو گرمی لگے

ندّی نالا تلیّاں ہو جاؤں

جو مورے سیاں کو سردی لگے

سال دو سالہ رجیّا ہو جاؤں

اس عہد میں ڈرامے کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے سبب گیت کو مزید مواقع فراہم ہوئے ۔خاص کر عوام کی پسند نے ڈراموں میں گیت کے سبب اسے اور مقبولیت عطاء کردی ، امانت ،مداری لال اور آغاحشر کاشمیری اس سلسلے میں قابلِ قدر ہیں جنہوں نے گیت کے فروغ میں اہم کردار ادا کئے، گو کہ اس عہد کے گیت کوئی بلند معار نہیں پیش کر سکے لیکن اردو گیت کی تاریخ میں ان کی اہمیت کو یکسر نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ عظمت اللہ خان نئے دور کی شاعری میں نمایاں حیثیت ے مالک ہیں انہوں نے ہندی اور اردو کے الفاظوں کو اس طرح اپنی شاعری میں استعمال کیا ہے کہ دونوں شیر و شکر ہوگئے ہیں اور کہیں بوجھل پن کا احساس نہیں ہوتا بلکہ ان کی نظموں پر گیت کا گمان ہونے لگتا۔ یا یوں کہا جائے کہ انہوں نے گیت نماں نظمیںلکھیں۔ انہوں نے عورتوںکی مظلومیت کو اپنے گیت میں جگہ دی ۔وہ گیتوں میں اپنی زبان اور لہجے سے ایسی مٹھاس پیدا کردیتے ہیں جو باجود نئے رنگ و آہنگ کے اپنی کشش میں کمی نہیں واقع ہونے دیتی۔؎

ہونٹ وہ کالے جامن کے سے

اور اودہٹ میں لالی

چال نشیلی جھومتا بادلی

یا کوئی ندی لہراتی

چور جوانی میں اٹھلاتی

(سریلے بول عظمت اللہ خاں، ص ۹۰، اردو اکیڈمی کراچی)

حفیظ جالندھری نے مختلف اصنافِ سخن کے ساتھ ساتھ گیت کیطرف بھی توجہ کی اور اردو میں انہوں نے اچھے گیت لکھے جو ان سے یادگار ہیں۔ حطیظ کے گیت صرف ہجر و وصال کے گر ہی نہیں گھومتے بلہ ان ا دور سیاسی، سماجی اور معاشرتی بیداری کا تھا۔ اس وقت ادب کی فضاء قومیت ، حریت اور آزادی کے نعروں سے گونج رہی تھی۔ اس لئے حفیظ کے یہاں بھی یہ سب چیزیں نظر آتی ہیں۔              ؎

اپنے من میں پریت بسالے

اپنے من میں پریت

پریت ہے تیری ریت پرانی

بھول گیا او بھارت والے

بھول گیا اور بھارت والے

پریت ہے تیری ریت

بسالے اپنے من میں پریت

(سوز و ساز، حفیظ ص۹۲، مجلس اردو ماڈل ٹاؤن لاہور)

اختر شیرانی رومانی شاعر ہیں انہوں نے بہت ہی جذباتی شاعری کی ہے ۔ جسمیں حسن و عشق کی بجلیاں بھی چمکتی نظر آتی ہیں دیگر اصناف کے ساتھانہوںنے گیت بھی لکھے ہیں جس میں برہ کا درد جھلکتا ہے اور دوسرے موضوعات پر بھی گیت لکھے ہیں۔ اختر نے اپنے گیتوں میں ایسا آہنگ پیش کیا ہے کہ جس سے گیت کی زبان میں ایک خاموش تبدیلی پیدا ہو گئی ۔ یہی وجہ ہے کہ اخت کے گیتوں نے اردو گیت کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

اب بھی نہ آئے من کے چین

بیت چلی ہے آدھی رین

نا کوئی ساتھی نہ کوئی سجنی نہ کوئی میرے پاس سہیلی

برہ کی لمبی رات گزاروں ڈر کے مارے کیسے اکیلی

نیر بہائیں کب تک نین

اب بھی نہ آئے من کے چین

(کلیاتِ اختر، اختر شیرانی ص ۳۸۳،)

میراجی نے اردو گیت کو نئے اُفق سے روشناس کرایا ، ان کے نزدیک گیت اولین صنف شاعری ہے جو تنہائی مٹانے کا ذریعہ ہے۔ جو دکھ درد کا مداوا ہے۔ جس کی تخلیق پہلے فرد کے لئے ہوئی تھی لیکن آہستہ آہستہ سماج اس کا موضوع بنتا گیا۔ میراجی کے گیت ، گیت کی تمام تر خوبیوں سے پر ہیں۔ ان کے گیتوں میں اپنی بے بسی اور بے کسی کا اظہار بھی ہے اور تشنہ آرزوؤں کا ماتم بھی ہے ۔ اردو گیتوں کی مقبولیت و اہمیت بڑھانے میں میراجی کا نمایاں حصہ رہا ہے ۔ان کے گیتوں میں روح کی پیاس اور جسم کی پکار موجود ہے ۔ ؎

دور ہے سکھ کی سندر بستی دور ہے اسکی بستی

دور دور رہ کر سوچوہستی کب ہے ہستی

دور کو پاس بناؤں آج تو انگ سے انگ لگاؤں

رس کا ساگر گھول رہا ہے جھوم کے برکھا لاؤں

میں انگ انگ سہلاؤں

(میراجی کے گیت، از میراجی ص۸۶، مکتبہ اردو لاہور)

عبدالقیوم نظر نے دیگر اصنافِ سخن کے ساتھ گیتوں پر بھی طبع آزمائی کی ہے، انہوں نے گیتوں میں جذبات و تاثرات کو اس طرح پیش کیا ہے کہ اسمیں دلکشی پیدا ہوگئی ہے۔ ان کے گیت سادہ اور مختصر ہوتے ہیں احساس کی نرمی ان کے گیتوں کو پر اثر بنادیتی ہے۔     ؎

آئے بہار کے دن پھرآئے

اٹک اٹک کے چلیں ممولے

چھپی چھپی کہیں شیاما بولے

کلی کلی بھنورا منڈلائے

اور گائے آئے بہار کے پھردن آئے

قتیل شفائی اردو گیت نگاری کی تاریخ میں اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ ان کے گیتوں میں عورت کے جذبات کا خوبصورت اظہار بھی ہے اور انہوں نے اپنے گیتوں میں دلی کیفیات کو زبان بھی دیدی ہے۔ قتیل نے زیادہ تر گیت فلموں کے لئے لکھے ہیں اس لئے ان میں آہنگ کا بھی پورا خیال کیا گیا ہے۔      ؎

مو ہے چاندی کی پائل منگادو سجن

خالی پیروں سے پنگھٹ کو میں کیا چلوں

اپنی سکھیوں کو سیکھوں تو من میں جلوں

وہ تو ناچیں میں شرما کے منھ پھیرلوں

مو ہے پنگھٹ کی رانی بنادو سجن

(جھومر، قتیل شفائی ،ص ۳۸، نیا ادارہ لاہور)

بیکل اتساہی ہماری اردو شاعری کی تاریخ میں بہت بلند مقام کے حامل ہیں کیونکہ بلا تفریقِ مذہب و ملت ان کے گیتوں نے شرفِ قبولیت حاصل کیا ۔ ان کے گیتوں میں ہندوستان کی صدیوں پرانی ہندوستانی تہذیب رچی بسی  ہے ان کے نعتیہ گیت بھی جذبات سے لبریز ہیں جو ہمیں بہت متاثر کرتے ہیں بہی نہیں ان کے گیتوں میں اردو کے ساتھ اودھ اور ہندی کی ایسی گھلاوٹ ہے جو کانوں میں رس گھولتی ہے۔ اور پورے ہندوستان میں ان کے گیتوں کے اس لب و لہجے نے دھوم مچا دی ، ہر خاص و عام ان کے اس لب و لہجے کا شیدائی ہوگیا۔ کیونکہ ان کے گیت جذبات کو اس طرح متحرک کردیتے ہیں کہ سامع اور قاری اس سے اپنے آپ کو بچا نہیں سکتا، بلکہ وہ جذبات اور ان کے گیتوں میں بہتا، ڈوبتا، اتراتاآگے اور بہت آگے چلا جاتا ہے ۔ وہ کچھہ ہی دیر کے لئے سحی لیکن سب کچھ بھول جا تا ہے ۔

بیکل اتساہی نے گیتوں کو خاصکر مذہبی حوالے سے اودھی میں پروکر بلند اور بہت بلند مقام تک پہنچادیا۔ گیت برہ کے درد اور عورت کے جذبات سے جب آگے بڑھی تو اس نے اپنے دامن کو وسیع اور بہت وسیع کیا اس میں طرح طرح کے موضوعات و مضامین داخل ہوگئے۔ اور ان گیتوں سے بہت ام لئے گئے۔ جس کا تذکرہ مذکورہ بالا سطور میں کیا جا چکا ۔لیکن ابھ بھی اس میں تشنگی تھی، ضرور کچھ چیزیں باقی تھیں، بیکل اتساہی نے اس کمی کو پورا کردی پوراہی نہیں کیا بلکہ اس کا حق ادا کر دیا ہے کہ ہماری اودی اور نعت کو جو ہمارے مذہبی جذبات کا ائینہ دار ہے اس میں نعتیہ گیت سے اردو گیت نگاری کی تاریخ کو ایک نیا اور بلند اور اہم مقام عطاء کیا ۔ جس سے گیت کو بھی نبی آخرالزماں ؐ کی شان میں ثنا خوانی کا شرف حاصل ہو گیا اور گیت بھی اب شاعری ے ساتھ ساتھ متبرک بھی ہو گئی۔

اردو گیت میں بیکل اتساہی نے ہندوستانی ماحول و معاشرت اور اسکی خاص تہذیب کو پرویا ہے جو اسکی شناخت ہے ۔ ساتھ ہی انہوں نے اپنے گیتوں میں اودھی کی بوباس اور دیسی کو بہت خوبصورتی سے ستعمال کر کے اس میں مزید حسن اور نغمگی کے ساتھ اسکو دلکش بنا دیا ہے جو ان کے اردو زبان کے ساتھ ہندی اور اودھی کے علاوہ فارسی پر دسترس اور اس کے استعمال پر قدرت کے سبب ممکن ہوا۔ یہ بیکل اتساہی کا خاص مال ہے کہ ایک خاص طرز کو گیتوں میں برت کر کمالِ بلندی پر پہنچا دیا ۔ بیکل اتساہی اپنی شاعری اور گیتوں کے متعلق ایک شعر میں یوں لکھتے ہیں ۔     ؎

گیتوں میں حسنِ غزل ، غزلوں میں گیتوں کا مزاج

تجھ کو بیکل تیرا اسلوبِ سخن اچھا لگا

بیکل اتساہی کی شاعرانہ امتیازات و خصوصیات اور اسکی اہمیت و معنویت اور انکے گیتوں کی اہمیت و خصوصیت کے متعلق ڈاکڑ شجاعت علی سندیلو یوں رقمطراز ہوئے ہیں۔              ؎

’’ بیکل اتساہی ایسے فن کار ہیں جو اپنے فرض ادا کرنے سے غافل نہیں رہے ۔ وہ جدید ماحول اور نئے تقاضوں کے بموجب اردو ادب کو اپنے افکار و خیالات سے مالا مال کرتے رہے ہیں۔ یہ انہیں کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج سخت سے سخت مخالفت ے با وجود اردو سعر و ادب عوام کے دلوں کی دھڑکن بنا ہوا ہے۔ اردو ہندی جس طرح ان کے گیتوں میں ایک جان دو قالب ہو گئی ہے بہت کم شاعروں کے کلام میں ملے گی ان کے گیتوںمیں حالات کی عکاسی بھی پائی جاتی ہے اور درد و غم، حسن وعشق کی پیکر سازی بھی ۔ بیکل کے گیتوں میں رسکھان کی شاعری جیسا سوز و گداز ہے اور کرب و اضطراب بھی۔ میر تقی میرؔ کی شاعری جیسی شدت احسا س و جذبات ہے تو سادی اور معصومیت اور مٹھاس بھی‘‘۔

(مٹی، ریت، چٹان۔ بیکل اتساہیؔ ص ۱۳۔۱۴، ہریانہ ارد اکادمی)

بیکل اتساہی کے گیتوں میں ہم ان کی زبان بیان ، ہندی اردو اور اودھ کے بر محل استعمال اور اس سے پیدا ہونے والی نغمگی اور اسکی مٹھاس کو ہم ان کے گیتوں میں دیکھیں جہاں ہماری تہذیب و معاشرت کی خوبصورت عکاسی بھی ہے ، جہاں جذبات کا بہتااور لہر یں مارتا ہو ا سمندربھی ہے جسمیں ہم اپنے ہندوستان کی تصویر بھی دیکھیں گے اور پھر ہم تھوڑی دیر کے لئے اس میں کھو جائیں گے ۔        ؎

روپ گلابی بال سنہرے بانہہ بھرے پچکاری

رنگ عبیر گلال نہ جانے بیاہی کون کنواری

جانے کس کی راہ تکے ہے کھڑی گاؤں کی گوری

پنگھٹ پر انواس رہی ہے لئے گگریا کوری

پیاسا جوگی کب آجائے لگی پریت کی ڈوری

کھیلے لاگی منے کن ما چھوری…. جنگیا کی ہوری

(۲)

چھم چھم ناچے گگن سانوری ساون کی انگنائی میں

انگ انگ سے چوٹ اُگائے آگ لگے پُروئی میں

پور پور چنگاری چھڑکے

یہ بیرن برسات۔۔۔ بتاؤ غزل کہوں یا گیت

ہری چنریا کھیت کی لہکی فصلوں کی رعنائی میں

ماضی کی تصویریں ابھریں دیوارون ی کائی میں

پاؤ میں چُبھ چُبھ جائے مہاور

مہندی کس گئی ہاتھ ۔۔ بتاؤ غزل کہوں یا گیت

بیکل اتساہی کے گیتوں میں ہمیں گیت نگاری کی تمام خوبیاں ملیں گی۔ اردو گیت نگاروں میں کو ان تمام خصوصیات کی بنا پر ہمیشہ بہترین گیت کا ر کہا جائیگا، اردو میں خاص ر اودھی اور ہندی کے حوالے سے ان کا نام ہمیشہ اہمیت کا حامل رہیگا۔ ان کے کارنامے کبھی انہیںفراموش نہیں ہونے دیں گے۔ اردو گیت کی تاریخ میں انکی جلائی ہوئی شمع ہمیشہ روشن رہے گی۔

بیکل اتساہی کو اودھی سے غایت درجہ کی محبت تھی ، اس کو گیتوں میں برتنے اور استعمال کرنے کا جو سلیقہ ان میں پایا جاتا ہے وہ بہت کم لوگوں کے یہاں ملتا ہے ۔ ان کو اودھی کی بولیوں پر اس قدر دسترس حاصل تھی کہ اس کے ہر لفظ کو اس خوبصورتی کے ساتھ بر محل استعمال کرتے ہیں کہ اس میں حسن کے ساتھ ساتھ ایسی نغمگی پہدا ہو گئی ہے کہ جو قاری اور سامع پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ان کے گیتوں میں گائوں ہی نہیں بلکہ اس کے پورے لوازمات دیکھے جا سکتے ہیں۔ کھیت ، کھلیان ، پگڈنڈی اور اس طرح کے نام ان کے گیتوں میں حسن پیدا کرتے ہیں۔ اودھ کے گائوں میں محبوبہ اور حسینائوں کے لئے ایک لفظ ” گوری” استعمال ہوتا ہے۔ اس کا بیکل نے اپنے گیتوں میں کتنا خوبصورت استعمال کیا ہے۔

تجھ کو چھیڑیں گی گیتوں کی پروائیاں

جب ترے شہر سے میں چلا جائوں گا

گائوں کی بھولی پگڈنڈیاں آئیں گی

اور سڑکوں سے پوچھیں گی میرا پتہ

ڈھونڈھیں گی سہمی سہمی ہوئی گوریاں

اپنی کھوئی ہوئی پائلوں کی صدا

راہ رُک رُک کے پوچھیں گی رسوائیاں

جب ترے شہر سے میں چلا جائوں گا

یہ دلہن جیسی شہروں کی نیرنگیاں

خامشی کے کھنڈر میں چلی جائیں گی

 ساحلِ جام ومینا کی سر مستیاں

تشنگی کے بھنور میں چلی جائیں گی

انجمن انجمن ہوں گی تنہائیاں

 جب ترے شہر سے میں چلا جائوں گا

چھٹ کے ہاتھوں سے گر جائیں گے آئینے

 سنورے سنورے سے گیسو بکھر جائیں گے

روٹھ جائیں گی مسکانیں کلیوں سے بھی

اور پھولوں کے چہرے اتر جائیں گے

 اجنبی اجنبی ہوں گی انگڑائیان

جب ترے شہر سے میں چلا جائوں گا

یہ پوری گیت آٹھ بندوں پر مشتمل ہے جو اسی طرح ہمیں اپنی آغوش میں لے کر تاریخ کے تاریک پردوں میں ہمہ تن گوش ہو جاتی ہے اور قاری اسی میں محو رہتا ہے۔

بیکل اتساہی اپنے ایک گیت میں ہندی کے الفاظ اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ اردو ،اودھی اور ہندی کا حسین امتزاج نظر آتاہے۔ گیت میں ہندی کے الفاظ آکاش ، دھرتی ، جنم سُکھ ، نیر ، جل ، دھول اور اس طرح کے بہت سے لفظوں کو وہ جس خوبصورتی سے اپنے گیتوں میں استعمال کرتے ہیں وہ ان کے کمالِ استعمال پر قدرتِ کمال کا خاصہ ہے ۔

اے میری شہنشاہِ غزل

اے گیتوں کی تصویر

 ———–

تجھے میں کیسے پیار کروں

میری تیری ایک ہی دھرتی ایک ہی آکاش

ایک ہی جیسا در دجنم کا ایک ہی جیسی لاش

دُکھ میرے چہرے پر لکّھا

سکھ تجھ میںتحریر

 ———–

تجھے میںکیسے پیار کروں

موم سے نازک تیرا بدن ہے پھول سے اچھا رنگ

مٹی ،ریت ،چٹان سے میری ہر اک دنیا تنگ

تو کیسر جل روز نہائے

میں ترسوں بن نیر

 ———–

تجھے میںکیسے پیار کروں

تجھے ہاتھ لگائوں کیسے تو گلشن کا پھول

تو اوشا ہے نیل گگن کی میں دھرتی کی دھول

میںسپنا اک لاچاری کا

تو دھن کی تعبیر

 ———–

تجھے میںکیسے پیار کروں

وطن کی محبت میں بہت سے لوگوں نے نظم اور گیت لکھے ہیں،اور اپنے وطن سے محبت کے جذبات کو اس میں پرویا اور سمویا ہے اس کے لئے خوبصورت سے خوبصورت لفظوں کا استعمال کیا ہے ۔ لیکن بیکل اتساہی نے جو گیت ” یادِ وطن” کے نام سے تحریر کیا ہے ۔ اس کا ہر مصرعہ اپنے وطن سے والہانہ محبت اور شیفتگی کامظہر ہے۔

سہانی رات ہے بھینی ہوا بھی گنگناتی ہے

میں ہوں پردیس میں مجھ کو وطن کی یاد آتی ہے

کہیں پچھلے پہر ٹیلے پہ وہ بجتی ہے شہنائی

وہ اکساتی ہوئی چوٹوں کی خاموشی کو پُروائی

وہ جنگل سے پپیہے کی لگن مستی میں لہرائی

اٹھی وہ سیج سے اوشاکی لالی لے کے انگڑائی

وہ کوئل باغ کے سناٹے میں جادو جگاتی ہے

میں ہوں پردیس میں مجھ کو وطن کی یاد آتی ہے

وہ لادے پیٹھ پر بستہ للّن اسکول جاتا ہے

دھرے کاندھے پہ ہل کھیتیہر وہ بیلوں کو مناتا ہے

وہ کوئی سائیکل پر لاد کر بازار جاتا ہے

کوئی ٹوٹی ہوئی کٹیا کی دیوار اٹھاتا ہے

نہا کر نہر میں گوری کوئی کپڑے سکھاتی ہے

میں ہوں پردیس میں مجھ کو وطن کی یاد آتی ہے

بیکل اتساہی کے گیتوں میں ہمیں گیت نگاری کی تمام خوبیاں ملیں گیں۔ ان کی ان تمام خصوصیات کی بنا پر خاص کر اردو میں اودھی اور ہندی کے حوالے سے ان کا نام ہمیشہ اہمیت کا حامل رہے گا۔ اور اردو گیت کی تاریخ میں ان کی جلائی ہوئی شمع ہمیشہ روشن رہے گی۔

٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.