کمال الدین کمال ؔ عظیم آبادی ۔ شخصیت اور شاعری

ڈاکٹر شاذیہ کمال

گسٹ فیکلٹی (اردو)، بی ۔آر۔ اے بہار یونیورسیٹی، مظفرپور

 9386134522

                کمال الدین کمالؔ عظیم آبادی سرزمین عظیم آباد کی ایک ناقابلِ فراموش ادبی شخصیت ہیں۔ ان کی شاعری ہمارے معاشرے، سماج وسیاست، مذہب واخلاق اور وطن وملت کی ایسی منھ بولتی تصویر ہے جسے باشعور قارئین تو کیا بے شعور قارئین بھی ہدیۂ نذرانہ پیش کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔ کچھ تحریریں ایسی ہوتی ہیں جنہیں سمجھنے کے لیے قاری کو بہت تگ ودو کرنی پڑتی ہے اور بعض تحریریں ایسی جو قاری کو بہت جلد اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں اور قاری کی دلچسپی وتجسس کو بڑھا دیتی ہیں۔ موصوف کی شاعری بھی اسی نوعیت کی شاعری ہے جسے قاری کے پاس جانے کی ضرورت نہیں بلکہ تھوڑی سی شناسائی کے بعد قاری خود اس میں ڈوبتا ہوا نظر آتا ہے۔

                موصوف کی شخصیت کے مشاہدے اور فن کے مطالعے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جس طرح ان کی زندگی سمندر میں آئی طغیانی کی مانند رہی۔ اسی طرح ان کی شاعری بھی سمندر میں چھپے ہیروں کو تلاش کرنے کی مہم کا ایک حصہ بنی رہی۔ اس سے پہلے کہ موصوف کی شاعرانہ حسیت کا جائزہ لیا جائے ایک نظر ان کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں پر ڈال لینا ضروری ہے۔

                موصوف کی پیدائش 16 جون 1939ء (میٹرک کی سرٹی فیکیٹ کے مطابق) کو اپنے آبائی گائوں مہدانواں (منیر شریف) کے ایک باعزت اور سادات گھرانے میں ہوئی۔ مہدانواں ایک قدیم اور مردم خیز بستی رہی ہے جو تقسیم ہند کے باعث متاثر ہوئی اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان ہجرت کرگئی۔ یہ بستی علمائے صادق پور کی اولین آماجگاہ رہی ہے۔ موصوف اسی بستی کی ایک جیتی جاگتی مثال تھے۔ ان کے والد کا نام سید محمد صلاح الدین تھا اور وہ نہال تخلص کرتے تھے۔ اردو وفارسی کے وہ ماہر تھے اور انگریزی زبان سے بھی خاصے واقف تھے مگر کسی ملازمت سے وابستہ نہیں تھے۔ کئی پشتوں سے چلا آرہا زمینداری کا سلسلہ قائم تھا اور وہی ذریعۂ معاش تھا۔ شاعری سے انہیں شغف تھا اور وہ اردو میں شاعری کیا کرتے تھے۔ بطور مثال

میں سوچتا ہوں یاروں خوشیاں منائوں کیونکر

خوش ہے بھی یا نہیں ہے ہم سے وہ رب اکبر

میری خوشی سے میرا رونا ہزار بہتر

اللہ ہی جانتا ہے، ہے عید عید کس کی

                موصوف پر ان کے خاندانی پس منظر اور ان کے والد گرامی کے شعری ذوق کے گہرے اثرات تھے۔ وہ اپنے والدین کی چوتھی اولاد تھے۔ ان کا بچپن ان کے آبائی گائوں مہدانواں میں بیتا اور ان کی ابتدائی زندگی شان وشوکت سے گزری۔ موصوف جب محض چھ سال کے تھے تو ان کے والد (42سال کی عمر میں) اللہ کو پیارے ہوگئے۔ شفقتِ پدری سے محرومی اور پیداشدہ نئے مسائل نے ان کے دل ودماغ کو بہت متاثر کیا مگر شفیق والدہ کی تربیت اور پیار ومحبت نے موصوف کو کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دی۔ خود موصوف کی زبانی۔

میری ماں نے دیا ہے پیار مجھ کو ایسی الفت سے

کہ زندہ رہ رہا ہوں آج بھی اس کی برکت سے

مجھے پالا ہے میری ماں نے اپنے پاس عشرت سے

کبھی دیکھا نہیں مجھ کو حقارت یا کہ نفرت سے

                موصوف کی ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر والد محترم کی زیرِ نگرانی انجام پائی۔ پھر اُن کا داخلہ پٹنہ مسلم اسکول میں درجہ دوم میں ہوا۔ وہاں سے درجہ چہارم تک کی تعلیم حاصل کی۔ پھر اپنے گائوں مہدانواں چلے آئے اور یہاں ان کا داخلہ درجہ ششم میں ہوا۔ درجہ ششم میں زیر تعلیم ہی تھے کہ ان کے مزاج میں ایک ہیجانی سی کیفیت پیدا ہوئی اور ان کے ذہن نے ایک خوبصورت حمد کی تخلیق کی۔ اس وقت اسکول کے ہیڈ مولوی (صاحبِ دیوان) حضرت سید شاہ مراد اللہ فردوسی برادرِ خرد سجادہ نشین خانقاہ منیر شریف حضرت سید شاہ عنایت اللہ فردوسی کی نظر سے گزری تو اصلاح کی حاجت محسوس کیے بغیر اسکول ہذا کی سالانہ میگزین میں شامل کرتے ہوئے اردو حصہ کے سرورق پر جگہ دی۔ منیر ہائی اسکول سے ہی انھوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور پھر رام موہن رائے سمینری ، پٹنہ سے آئی کام کی ڈگری حاصل کی۔ موصوف فٹ بال کے اچھے کھلاڑی تھے اور ضلع سطح پر منعقد ہونے والے مقابلوں میں حصہ لیا کرتے تھے۔دوران تعلیم ہی ان کی نوکری بہار سرکار میں بطور کوآپریٹیو انسپکٹر ہوگئی تھی۔ یہ 1960 کے بعد کی بات ہے۔ مگر جلد ہی اپنی غیر محکومانہ فطرت کے سبب اپنی سروس کو الوداع کیا۔ دو تین نجی اداروں میں مینجمنٹ اور اکائونٹس کے شعبے سے وابستہ رہے لیکن ان نوکریوں کو بھی جلد ہی چھوڑ دیا۔ دل میں ملی اور قومی جذبہ بدرجہ اتم موجود تھا۔ وہ 1982ء کے آس پاس اکائونٹنٹ کی حیثیت سے امارت شرعیہ کے مرکزی دفتر پھلواری شریف میں مامور ہوئے۔ تب سے لیکر 2011ء تک (جب تک ان کی صحت نے ساتھ دیا) امارتِ شرعیہ کے کاموں کو بخوبی انجام دیتے رہے۔ اکائونٹس کے علاوہ موصوف کی اردو وفارسی پر دسترس تو تھی ہی انگریزی کی بھی اچھی صلاحیت تھی۔ امارت شرعیہ کا اعلیٰ حکام اور سرکاری اداروں سے خط وکتابت کا جو سلسلہ تھا سب موصوف ہی انجام دیا کرتے تھے۔

                ادب کو برائے روزی نہیں بلکہ اسے خوراکِ حیات ماننے والی شخصیت سے اگر مجھے واسطہ پڑا ہے تو وہ شخصیت موصوف کی تھی۔ لالچ وطمع سے لاپرواہ، کچھ حاصل کرلینے کی جستجو سے کوسوں دور بلکہ ایسے مواقع سے دوریاں بنالینا ان کی ذات وصفات کا حصہ رہا ہے۔ شغف اور حرص وطمع تھی تو صرف یہ کہ ادب میں ڈوبنا اور ادب کے لیے مرنا۔

                ’’میں اردو کے لیے زندہ ہوں اور اسی پر مرتا ہوں‘‘

                موصوف کی شخصیت بھی سراپا شاعرانہ تھی۔ وہ کم گو اور ریزرو شخصیت کے مالک تھے۔ اپنے اندازِ گفتگو اور شخصیت سے پہچان لیے جاتے تھے کہ ایک شاعر باکمال آپ کے ذہن ودماغ میں اور صورت وسیرت میں زندگی گزارتا ہے۔ ان کی زندگی جہاں الائم سے بھری ہوئی تھی وہیں زندگی کے ٹیڑھے میڑھے رستوں کا وہ خندۂ پیشانی سے استقبال بھی کرتے تھے۔

                موصوف نے نظم اور غزل دونوں اصناف پر خوب خوب طبع آزمائی کی۔ ان کے علاوہ قطعات ورباعیات اور طنز ومزاح بھی ان کے تخلیقی سفر میں ساتھ ساتھ رہے۔ سہرا لکھنے پر بھی انھیں قدرت حاصل تھی۔ کئی خوبصورت اور دلپزیر سہرے تخلیق کیے۔ موصوف نے زندگی کے مشاہدوں، تجربوں اور اس کے نشیب وفراز یعنی کامرانیاں وناکامیاں جو زندگی کے مراحل میں بار بار آتی ہیں اپنی شاعری میں پیش کیا ہے۔ ان کی شاعری کسی جمشید کا ساغر نہیں ہے بلکہ ان کے مشاہدے اور ان کی اپنی زندگی میں حاصل شدہ تجربات کا گہرا ساگر ہے۔ موصوف کی شعری خصوصیات کا جائزہ لیتے ہوئے ایڈیٹر نقیب ہفتہ وار (امارت شرعیہ) عبدالرافع صاحب نے اپنے خیالات کا یوں اظہار کیا ہے۔

                ’’گرچہ وہ ایک ذی علم گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور ممکن ہے کہ ورثہ میں انھیں شعر گوئی اور شعر فہمی ملی ہو مگر ان کی غزلیں، نظمیں، قطعات وغیرہ پڑھ کر احساس ہوتاہے کہ وہ کسی جمشید کا ساغر نہیں ہیں۔ ان کے اشعار میں ان کی انفرادیت صاف نمایاں ہے جو قاری کو اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہے۔ وہ ایک حساس شاعر ہیں اور اپنے احساسات کو لفظوں میں ڈھال دیتے ہیں اور وہ بھی نہایت خوبی اور خوبصورتی کے ساتھ۔ وہ شعر کہتے ہیں معموں کے اشارے نہیں لکھتے کہ ان کو سمجھنے کے لیے قاری کو اتنی سرمغزنی کرنی پڑے کہ سردکھنے کو آجائے۔ خیالات سادہ، زبان سادہ اور اس کے ساتھ عام فہم بھی۔‘‘

                موصوف ادب کو مفاہیم سے وابستہ کرنا جانتے ہیں مگر ادب کو تحریک کے غول میں بندکرنا پسند نہیں کرتے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ انسان اور ادب کا رشتہ بہت مضبوط ہونا چاہیے۔ ادب کو زندگی کا ایک ضروری حصہ تسلیم کرتے ہیں مگر اسے خانوں میں تقسیم ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی طویل ادبی زندگی میں کسی بھی ادبی نظریہ یا تحریک سے وابستہ نہیں رہے۔ ایڈیٹر نقیب عبدالرافع ایک جگہ اور رقم طراز ہیں۔

                ’’اُن کے اشعار پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ نام نہاد ادبی تحریکوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی کوئی ادبی گروہ سے ان کی کوئی فکری یا عملی وابستگی نظر آتی ہے۔ اب اگر کوئی نقاد ان کو کسی ادبی گروپ یا ادبی نظریہ سے وابستہ کردے تو یہ اس کی ذہنی اختراع ہوگی۔ مگر میرے خیال میں کمال صاحب کے فن سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوگا۔‘‘

                ان کی شاعری کی خصوصیات یہ ہیں کہ انھوں نے شعری تخلیقات کے صرف انبار نہیں لگائے بلکہ فکری سطح پر جو زمین مہیا کی ہے وہ قوم وملت کے لیے بڑا سرمایہ ہے اور اردو ادب کا ایک ناقابل فراموش حصہ ہے۔ انھوں نے شاعری میں معیار کو برقرار رکھا ہے۔ ان کی شاعری Quantity based نہیں ہے بلکہ quality based ہے اور مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ اس نہج کی شاعری اردو میں خال خال نظر آتی ہے۔

                موصوف کی شاعری میں ایک جانب عظمتِ انسان کے نشان موجود ہیں وہیں زندگی کا کرب اور تلخیاں بھی ہیں۔ مصیبت زدوں، حادثہ زدوں اور حالات زدوں کا دکھ درد اور ان کے کہے الفاظ کو انھوں نے اپنی شاعری میں زندہ کیا ہے اور انھیں بے باکی اور جسارت عطا کی ہے۔ ان کی شاعری میں فنکاری بھی موجود ہے اور حقیقت بھی۔ ان کی شعری تخلیقات کا جائزہ لیتے ہوئے پروفیسر محمود نہسوی (سابق وائس چیئرمین، بہار اردو اکیڈمی) رقم طراز ہیں۔

                ’’میں سمجھتا ہوں کہ اردو شاعری کو جہت اور آواز عطا کرنے والوں نے بڑی جسارت کے ساتھ تخلیقی عمل کی راہوں کو طے کیا ہے اور انھیں فنکاروں میں ایک نام کمال الدین کمالؔ کا ہے جو شہرت سے پرے تخلیقی عمل کی راہوں کو طے کرتے آج زندگی کے نام ایک پیغام دے رہے ہیں۔ ان کے اندر ذوق سلیم بھی ہے، فطری میلان بھی ہے اور عرفان وآگہی بھی ہے۔ یہ اس خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں علم وادب کے چراغ سے چراغ جلتے رہے ہیں اور جہاں تک کمال الدین کمال کے افکار وتخلیقی سفر کی بات ہے تو ان کے یہاں زندگی کا کرب بھی ہے اور زندگی کی تلخیاں بھی ہیں اور یہی وہ سبب ہے جس نے عظمتِ زندگی کا درس دیا۔ دکھ درد کے مارے انسانوں کا درد بانٹنے والا بنایا اور ان کی شاعری کو استحکام عطا کیا۔ کمال الدین کمال نے گونگے الفاظ کو بے باکی اور جسارت عطا کی ہے اس لیے ان کی سادگی بھی پرکشش نظر آتی ہے۔

                موصوف کی شاعری نے بہتوں کو اپنا گرویدہ بنایا ہے۔ ان کی شاعری میں وہ خصوصیت موجود ہے کہ وہ کسی انسان کی نظر سے گذرے تو وہ انسان متاثر ہوئے بغیر اور اثر قبول کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ڈاکٹر محمد صابر علی (صدر شعبہ علم الادویہ، فارمالوجی، گورنمنٹ طبی کالج، پٹنہ) ان کی شاعری سے متاثرہوکر لکھتے ہیں۔

                ’’آپ کا مرتب شدہ شعری مجموعہ ’’مجموعہ کمالات‘‘ اس وقت ہمارے سامنے ہے جس کا مطالعہ نہایت دلچسپی کے ساتھ دو بار کرچکا ہوں پھر بھی پیاس نہیں بجھی اور جی چاہتا ہے بس پڑھتا ہی رہوں اور اس ادبی سرمایہ سے محظوظ ہوتا رہوں۔ ‘‘

                شعری خصوصیات : کمال الدین کمالؔ عظیم آبادی کے شعری مجموعہ ’’مجموعۂ کمالات‘‘ کی خصوصیات یہ ہیں کہ اس میں انھوں نے کائنات کے قریب قریب ہر شعبہ کو زیرِ قلم کیاہے چاہے وہ دینیات ہو یا فلکیات، مخلوقات ہو یا اخلاقیات، انقلابات ہو یا اقتصادیات، شخصیات ہو یا سیاسیات، اصلاحات ہو یا شادیات۔ غرض زندگی کا کوئی بھی شعبہ ان کی فکری پہنچ سے محروم نہیں رہا اور اپنے افکار کے اظہار کے لیے وہ کبھی غزل کا سہارا لیتے ہیں تو کبھی نظم کا دامن تھامتے ہیں۔ کبھی انھیں طنز ومزاح کی مدد لینی پڑتی ہے تو کبھی وہ رباعی وقطعہ کے ذریعہ اپنے خیالات کو پیش کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ موصوف کی نظم کسی بند دائرے کی پروردہ نہیں بلکہ اس کا کینوس بڑا ہے۔ ان کی نظموں میں روحانیت بھی ہے اخلاص بھی، دین ومذہب بھی، ملک وملت بھی اور سماج وسیاست کے مختلف چہرے موجود ہیں۔ ان کی نظموں میں جہاں ملت کا درد ہے وہیں حب الوطنی بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ خدا کے وجود اور اس کی وحدانیت، دنیا وفطرت کے مختلف موضوعات ومسائل موصوف کی نظموں میں سمٹ آئے ہیں۔ شاعر نے کئی حمد تخلیق کیے ہیں۔ ’’حمد‘‘ کے اشعار ملاحظہ کریں۔

یا خدا تو خود سے ہے، تجھ سے کہیں کوئی نہیں

تو جہاں حاضر نہ ہو ایسی زمیں کوئی نہیں

تیرے لیے تعریف سب، تیرے لیے تسبیح سب

بے جان ہے تمثیل سب، بے سود ہے تشبیہ سب

ابن آدم کی زباں قاصر تری تعریف سے

تیری عظمت کے لیے بے معنی ہے تشریح سب

                استفہامیہ انداز میں تحریر کردہ حمد ’’خدا ہے‘‘  کے چند اشعار ملاحظہ کریں۔

خدا است کہ نیست بہ ایں چہ معنی دارد

ایں چہ معنی دارد کہ خدا ہے کہ نہیں ہے

مسجد وکلیسا کے بھی قدروں میں خدا ہے

سید میں، برہمن میں ہے، شدروں میں خدا ہے

ہرسمت جمادات کے زروں میں خدا ہے

کعبہ ہو کہ بُت خانہ، پتھروں میں خدا ہے

                شاعر کی تخلیق کردہ نعت بھی اچھوتی ہے۔ ملاحظہ کریں۔

نہیں کوئی تصور اب کہ کوئی اور آئے گا

تیرے جیسا خدا کا پھر کوئی پیغام لائے گا

خدا نے تجھ کو بچپن سے ہی کچھ ایسا بنایا تھا

کہ جس نے بعد میں جبرئیل سے قرآن پایا تھا

                حب الوطنی اور اپنی زمین سے والہانہ محبت کا اظہار بھی شاعر کی نظموں سے نمایاں ہے۔

پرچم جمہور کو قومی ترانوں کا سلام

صبح آزادی تجھے ہم جاں نثاروں کا سلام

کہا کرتے ہیں بے شک لوگ سننا ہو غزل جب بھی

سفر لمبا بھی ہو پھر بھی عظیم آباد کو جائیں

                شاعر کے یہاں جہاں اپنے ملک سے محبت کا جا بجا اظہار ملتا ہے وہیں ویسے منفی اور خوفناک حادثات ولمحات کا بیان بھی موجود ہے جو ہمارے ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی جبیں پر بدنما داغ ہیں۔ ہندوستان آزاد تو ہوا مگر جس مقصد کے لیے آزادی حاصل کی گئی اس میں پوری طرح کامیابی نہیں ملی۔ جبر وزیادتی، ناانصافی، عدم مساوات، بدعنوانی، فرقہ وارانہ تشدد، مزدوروں وغریبوں کا استحصال، اقلیتوں وپسماندہ طبقوں کے ساتھ دوہری پالیسی، جرائم وبدکاریاں جیسے مسائل آج بھی برقرار ہیں۔ موصوف کی نظموں میں شکوہ سنجی کی کیفیت نمایاں ہے اور سماج وسیاست کے موجودہ صورتحال سے بیزاری کی کیفیت دیکھی جاسکتی ہیں۔ ملاحظہ کریں یہ اشعار۔

ہر طرف ڈاکو لٹیروں کو ملی آزادیاں

عصمتیں لٹنے سے ہیں مغموم صاحبزادیاں

قاتلوں کو چھوٹ ایسی کہ بجائے بانسری

ظلم وبربریت کی اب تو ہوگئی حد آخری

معصوم لاچاروں کا اپنی خوابگاہوں میں اگر

مظلوم بے گھر بار کا جائے پناہوں میں اگر

چلتے چلتے زندگی کی شاہراہوں میں اگر

خوں پہ خوں بہتا رہا تو جل نہ جائے گلستاں

                                ہے یہی میرا وطن، اپنا چمن ہندوستان

                موصوف فطری طور سے ترقی پسند، حقیقت پسند شاعر ہیں۔ ان کی شاعری میں برائیوں اور ناانصافیوں کے خلاف بہت پائیدار اور مضبوط آواز سنائی دیتی ہے۔ شاعر کی نظم کا کینوس بہت وسیع ہے۔ موصوف نے دنیا وفطرت کے مختلف موضوعات پر نظمیں تحریر کی ہیں۔ ان کی نظم نگاری کا بڑا حصہ شخصیات پر مبنی ہے۔ مختلف علمی وادبی، روحانی ومذہبی، سماجی وسیاسی شخصیات پر ان کے شایانِ شان نظمیں تخلیق کی ہیں۔

                حضرت مولانا ولی رحمانی صاحب کے امیر شریعت بننے پر موصوف نے جو نظم لکھی ہے اس کے اشعار دیکھیں۔

دیر سے آئے مگر منجانب قدر ت مرحبا

یوں پیاس بجھی سب پیاسوں کی از صاحب عظمت مرحبا

تجھ کو مبارک تاجِ امم اے شاہِ زمانہ مرحبا

تجھ کو مبارک علم وعمل کا اعلیٰ خزانہ مرحبا

تجھ کو مبارک لشکرِ ملت تیرا دیوانہ مرحبا

تجھ کو مبارک تیری ادا باطل ہے نشانہ مرحبا

                اسی طرح باشندۂ ہزاری باغ شہلا نگار کے آئی اے ایس میں دوم آنے پر موصوف نے ایک نظم بعنوان ’’شہلا نگار‘‘ تحریر کی تھی۔ اس کے اشعار ملاحظہ کریں۔

میں تجھے بیٹی کہوں یا کہوں چھوٹی بہن

اے میرے قلموں کی عظمت اے مری روحِ سخن

پردۂ آفاق پر لکھا گیا شہلا نگار

دخترِ ملت لقب پائی، بنی فخرِ وطن

                مرحوم قاضی مجاہد الالسلام ؒ کی وفات پر لکھی نظم ’’ایک تارا‘‘ میں شاعر نے انھیں یوں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔

سب سے حسین تھا وہ تاروں کی انجمن میں

تھا لاجواب سب میں وہ اپنے بانکپن میں

تاروں کی انجمن سے جب وہ آگیا چمن میں

رہتا تھا ہر گھڑی وہ جذبات کے گگن میں

                بہا رکے مشہور ومعروف اخبار روزنامہ قومی تنظیم کے بانی ومدیر سید عمر فریدؒ کو شاعر نے اس طرح یاد کیا ہے۔

زندہ وپائندہ ہے نفسِ شرافت آپ کی

چھائی ہوئی ہے ہر طرف بوئے نفاست آپ کی

آپ ہی کا علم ہے، آپ ہی کا ہے کمال

کر رہی ہے روشنی اردو صحافت آپ کی

                موصوف کے یہاں سوانحی طرز بیان بھی ہے۔ نظم ’’اپنی کہانی اپنی زبانی‘‘ میں موصوف نے اپنی داستانِ زندگی درج کی ہے اور اس کے نشیب وفراز کو بیان کیا ہے۔ نظم میں طوالت کے باوجود اکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی اور مطالعے کی روانی برقرار رہتی ہے۔ جس طرح موصوف کی نظموں میں موضوعاتی سطح پر رنگارنگی ملتی ہے اسی طرح ان کی غزلوں میں بھی زندگی کے مختلف حالات وکیفیات مثلاً خوشی وشادمانی، رنج والم، احساسِ خودی، پیغام برائے ملت، بے ثباتی عالم، مادیت کی حقیقت جیسے حساس اور اہم موضوعات پر اشعار ملتے ہیں۔ موصوف نے غزل کی کلاسیکیت سے فیض اٹھایا ہے مگر موضوعاتی سطح پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ہے۔ مزید یہ کہ منفرد اندازِ بیان نے ان کی غزل میں سحر انگیزی کی سی کیفیت پیدا کردی ہے۔ ملاحظہ کریں یہ اشعار۔

ہو جس میں خودی کا مقالہ نہیں

 میرے ذوق کا وہ رسالہ نہیں

کتابِ خودی اس کے بس کی بات نہیں

نگاہوں میں جس کی اجالا نہیں

کس نے بڑھا دیا ہے وہاں حسنِ کہکشاں

تارا ہے اس زمیں کا گیا ہے جو آسماں پر

نشانے لے چکے کتنے مری پرواز فطرت کے

وہ چاہیں آزمانا تو انھیں بھی آزمانے دو

نہیں بیکار ہیں ہر گز میرے قلب ودست وپا

ابھی کچھ ہوش باقی ہے زرا کچھ جوش آنے دو

بہے ہیں خون کتنی بار یونہی بے سبب یاروں

کبھی راہ خدا میں بھی لہو اپنا بہانے دو

تقاضے دن کے سمجھو ہوا کے رخ کو پہچانو

دلِ مسلم میں گرمی آئے کچھ ایسے ترانے دو

                شاعر نے قوم وملت کی شبیہ کو بڑی حقیقت پسندی سے بیان کیا ہے۔ موصوف نے اپنی شاعری کے ذریعہ قلب مسلم کو بیدار کرنے کی کوشش کی ہے اور انھیں حالاتِ حاضرہ سے آگاہ کیا ہے۔ موصوف کی فکر علامہ اقبال سے جاملتی ہے۔ شاعر کی نظر میں خودی انسان کے لیے بہت ضروری ہے۔ شاعر کا فکری کینوس وسیع ہے۔ انھوں نے زندگی کے مختلف حالات وکیفیات کو شعری پیکر میں ڈھال دیا ہے جہاں حقیقت نگاری بھی ہے اور فنکاری بھی۔ ملاحظہ کریں یہ اشعار۔

دولت کیا ہے، کیا ہے عشرت دنیا والے جانے ہیں

لاکھ چمک سے بجلی چمکے پل بھر میں مٹ جائے ہے

۔۔۔

نہ پوچھے میری چشم نم کا سبب وہ ہوئی ایک مدت یہی سلسلہ ہے

بجز آنسوئوں کے رہے کیا کمال کہ رو رو کے ہم نے تو اب تک جیا ہے

لگاتار ہچکی نزع میں یہ کیا ہے، ہے گتنی بدی کی کہ جو کچھ کیا ہے

کمال سخن سے کہو راگ بدلے کہ اب نہ رلائے بہت رولیا ہے

۔۔۔

عجب ہے یہ دنیا عجب سی ادا ہے

کوئی محوِ عشرت کوئی غمزدہ ہے

                موصوف نے اپنی غزل میں جس طرح مختلف شعبۂ حیات کو قید کیا ہے وہ یقیناً اردو غزل کی حد بندی پر ایک ضرب کاری ہے۔ شاعر نے غزل کو گل وبلبل کی نغمہ سرائی سے باہر نکالا ہے اور سماج، ملک وملت اور عصری حسیت سے وابستہ کرکے اسے آفاقیت عطا کی ہے۔

                ’’مجموعۂ کمالات‘‘ (جو ابھی زیر اشاعت ہے) کے علاوہ موصوف نے علمی واخلاقی، دینی، ملی، سماجی، سیاسی اور غیر سیاسی موضوعات پر مضامین تحریر کیے ہیں۔ ان کے مضامین کے دو مجموعے بعنوان (۱) نثری مجموعۂ کمالات اور (۲) دینی مجموعۂ کمالات (منتخب ترجمہ قرآنی آیات) ابھی زیر ترتیب ہیں۔ موصوف کا انتقال 12 جولائی 2014 مطابق 13 رمضان 1435ھ میں پھلواری شریف میں ہوا۔

٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.