ایم ۔نسیم اؔعظمی کا تنقیدی اختصاص

ایم۔ نسیم اؔعظمی کا نام اردو ادب کے عصری منظر نامے پر غیر متعارف نہیں، کیونکہ ان کی شخصیت ایک باشعور فن کار کی حیثیت سے ہمہ جہت ہے۔ وہ بیک وقت صحافی، شاعر، محقق،ناقد،ادبی کالم نویس اور بہترین تبصرہ نگار تھے۔ انھوں نے جس صنف ادب کو اپنا ذریعۂ اظہار بنایا اس کاپہلے گہرائی و گیرائی سے مطالعہ کیا ،اس کے اسرار و رموز کو سمجھا،اس کے  بطن میں اتر کر اس کا تجربہ کیا اور پھر اس تجربے میں اپنے قاری کو شریک کیا۔غرض یہ کہ انھوں نے اردو ادب کے جس شعبہ میں قدم رکھا پورے انہماک کے ساتھ اپنی ادبی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھایا ۔نسیم اعظمی جب کسی فن کار یا فن پارے پر قلم اٹھاتے ہیں تو یہ بات ان کے پیشِ نظر رہتی ہے کہ اس کا عہد اس پر کتنا اثر انداز رہاہے۔بچپن سے شعور کی پختگی تک اس کارویہ کیسا رہا، اور اس نے تعلیم و تربیت کو کس حد تک قبول کیا نیز اس پر کتنا عمل پیرا رہاہے۔نسیم اعظمی تخلیق کار کے معاشرے اور عہد و ماحول کا اس لیے جائزہ لیتے ہیں کہ فن کار کی مختلف جہت کھل کر ان کے سامنے آجائے تاکہ قلم کار کے رجحانات ، افکار اور ذہنی پرواز کو بہ آسانی سمجھا جاسکے۔گو کہ ان کی عملی اور تجزیاتی تنقید میں اس رویے کو صاف طور پر دیکھا جاسکتاہے۔

جب ہم ایم۔ نسیم اؔعظمی کے افکار و نظریات اور ان کے عمل کا جائزہ لیتے ہیںتو ان کی تنقید نگاری کے قائل ہوجاتے ہیں، کیونکہ ہمیں ان کی تنقید نگاری میں برجستگی،روانی، وضاحت، صراحت،قطعیت،استدلال اور پروقار اسلوب نظرآتاہے جس بنا پر قاری کا ذہن ان کے مضامین کی طرف منعطف ہوجاتاہے ،گو کہ ان کی زبان منطقی اور آئینہ کی طرح صاف ہے۔ ان کے مضامین کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ ان کی تحریریں ژولیدگی، ابہام اور گنجلک نہیں ہوتیں،تاہم ان کے تنقیدی سرمائے کو اردو ادب کا قیمتی جز وکہا جاسکتاہے۔انھوں نے تعلیم اور اردو ادب کے مختلف موضوعات پر تقریباً دو درجن کتابیں تصنیف و تالیف کی ہیں ،جس سے ان کی ادبی جہات کا اندازہ ہوتاہے ان کی گراں قدر کتابیں جو زیور طبع سے آراستہ ہوکر اہلِ علم و دانش سے داد و تحسین حاصل کر چکی ہیں ان میں’اثر انصاری :فکر و فن کے آئینے میں‘(۱۹۹۸ء)’نوائے سروش‘(۲۰۰۱ء)’تعلیمی تجزیئے‘(۲۰۰۲ء)’تعلیمی جہات‘(۲۰۰۶ء)’اثرؔانصاری:حیات اور خدمات‘(۲۰۰۷ء)’مولانا محمد قاسم نانوتوی کے تعلیمی تصورات‘(۲۰۰۸ء)’ نقد سخن‘ (۲۰۱۰ء )’میزانِ آگہی‘(۲۰۱۱ء)’ تعلیم اور تعلیمی افکار‘(۲۰۱۱ء) ’اثرؔانصاری پر چند تحریریں‘(۲۰۱۱ء)’ تعلیمی نکات‘(۲۰۱۳ء)’تعلیمی اشارات‘(۲۰۱۴ء)’اردو کے چند فکشن نگار:تنقید و تجزیہ‘(۲۰۱۵ء )’راجا رام موہن رائے اور ان کے تحریکی و تعلیمی کارنامے‘(۲۰۱۶ء)’فیضان آگہی‘(۲۰۱۶ء ) اور زیر مطالعہ کتاب’ اختر الایمان کی نظم نگار ی:تنقید و تجزیہ‘ وغیرہ اہمیت کی حامل ہیں۔ پروفیسر مولا بخش مطالعۂ اختر الایمان اور اس کی افہام و تفہیم میں ڈاکٹر ایم۔نسیم اعظمی کے اختصاص کو اجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ڈاکٹر ایم ۔نسیم اؔعظمی موجودہ اردو شاعری اور نثر کی تنقید لکھنے والے نقادوں میں ایک ایسا نام ہے جو محتاج تعارف نہیں۔انھوں نے فکشن کی تنقید میں بھی حد درجہ دلچسپی لی ہے اور ساتھ ہی شعبۂ تعلیم سے متعلق نظریات اور مسائل پر بھی شدت سے غور وخوض کیا ہے،شاعری کی تنقید میں ان کی حالیہ کتاب’نقد سخن‘نے انھیں شاعری کے پارکھ کے طورپر پیش کیاہے۔ زیر مطالعہ کتاب’اختر الایمان کی نظم نگاری: تنقید وتجزیہ‘اردو نظم کی تنقید میں ایک بلیغ پیش رفت کی حیثیت رکھتی ہے۔ہر چند کہ یہ کتاب اختر الایمان کی نظم نگاری کے تجزیاتی مطالعہ پر مبنی ہے لیکن سچ یہ ہے کہ اسی بہانے نسیم اعظمی نے اردو نظم نگاری اور اس کی صنفی خصوصیات کے ساتھ ساتھ اخترا لایمان سے قبل اردونظم نگاری کے بدلتے ہوئے رجحانات پر اپنی رائے پیش کی ہے۔‘‘  ؎۱

منقولہ اقتباس سے بات واضح ہوتی ہے کہ ’’اخترالایمان کی نظم نگاری:تنقید وتجزیہ‘‘نسیم اعظمی کی ایک بہترین کتاب ہے ۔یہ کتاب نہ صرف اخترا لایمان کی نظم نگاری کے حسن و قبح کا احاطہ کرتی ہے بلکہ اردو نظم نگاری کے بدلتے ہوئے رجحانات و تحریکات ،معاصرات اورحالات و نظریات کو پیش کرتی ہے۔

یہ بات بالکل درست ہے کہ اختر الایمان نے جس عہد میں اپنے شعور و فہم کی آنکھیں کھولیں وہ عہد تحریکات ورجحانات کے عروج کا تھا۔ادب اور ادبی تصورات کے خلاف رد عمل کی روایت زور پکڑ چکی تھی،اردو نظم کا ارتقائی سفر دکنی دور سے شروع ہوتا ہے، لیکن باضابطہ طور پر اردو نظم مجتمع اور منفرد شکل میں نظیرؔ اکبرآبادی کے یہاں ملتی ہے۔نظیرؔ شاعری میں کس درجہ پر فائز ہے اس کا فیصلہ وقت کرے گا، لیکن ان کی شاعری نے یقینا نئی نسلوں کی ذہنی آبیاری کی ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتاہے ۔نظیر ؔ اکبر آبادی کے بعد اردو نظم نگاری کو حالیؔ اور ان کے رفقا نے نئے رنگ و آہنگ سے آشنا کیا۔ ۱۸۵۷ء کی بغاوت کی ناکامی کے بعد معاشرے پر مغربی تعلیم کے اثرات ظاہر ہونے لگے تھے۔تاہم اس عہد میں علی گڑھ تحریک ایک توانا تحریک کے طور پر سامنے آئی ۔سرسید احمد خاں کی علی گڑھ تحریک کے تحت اردو ادب میں نت نئی تبدیلیاں رو نماہوئیں جس کی بناپر کرنل ہالرائڈ کے ایما پر ’’انجمن پنجاب‘‘کا قیام عمل میں آیا۔’’انجمن پنجاب‘‘کے کارکنان میں محمد حسین آزاد، خواجہ الطاف حسین حالیؔ،اسماعیل میرٹھی اور علامہ شبلی نعمانی پیش پیش نظر آتے ہیں۔محمد حسین آزاد نے نئی نظم نگاری کے پرچم کو بلند کیا اور نظم نگاری کی تحریک کو مستحکم کرنے کے لیے شعوری اقدامات اٹھائے،مناظر فطرت کے اظہار کے لیے خارجیت پر زور دیا۔در اصل اس تحریک کا مقصد اصلاحی تھا اس لیے جمعیت کو نظر انداز نہیں کیاگیا۔ یعنی فرد کے سماجی رخ اور زاویئے پر خصوصی توجہ دی گئی،جس کے نتیجے میں ’’ انجمن پنجاب‘‘ کا دائرہ تنگ ہوتاگیا۔یہ الگ بات ہے کہ غزل کی مقبولیت کے دور میں آزادؔ اور حالیؔ نے نہ صرف نظم کی صنف کو پروان چڑھانے کی کوشش کی بلکہ اس کے امتیازات کو بھی قائم کیا۔شبلیؔ کی سعادت اس بات میں مضمر ہے کہ انھوں نے اپنی نظموں کے موضوعات کو نہ صرف داخلی تقاضات سے ہم آہنگ کیابلکہ اس میں احساسات و جذبات کی تپش کو بھی شامل کیا ہے جس بنا پر ان کی نظموں میں لطافت اور شعریت آزادؔ اور حالیؔ کی نظموں کی بہ نسبت زیادہ نمایاں ہے۔شبلی کو معمولی سے معمولی واقعات کو شعری قالب میں ڈھالنے کا فن خوب آتاہے۔المختصر یہ کہ نئی نظم کو جن شعراء نے مزید تقویت بخشی ان میں اکبرؔ الہ آبادی،سرورؔ جہاں آبادی،عزیزؔ لکھنوی،نادرؔکاکوروی،نظم طبا طبائی اور عظمت اللہ خاں کا نام بہت نمایاں ہے۔ ان لوگوں کی بیشتر نظمیں سیاسی،سماجی ، تہذیبی ،ثقافتی اور عمرانی مسائل پر منتج ہیں۔علامہ اقبالؔ نے اردو نظم کو تفوق،وسعت،گہرائی، فکر کی رفعت اور بلوغت کے ساتھ ساتھ نئے رنگ و آہنگ سے آشناکیا۔یہی وجہ ہے کہ ان کی نظمیں عام طور پر ترشی ترشائی ہوتی ہیں۔علامہ اقبال کے علاوہ بیسویں صدی کے آغاز اور ۱۹۳۶ء سے ذرا پہلے جو شعرا اپنی شعری خصوصیات کی بناپر قابل احترام ہیں ان میں جوشؔ ملیح آبادی،اخترؔ شیروانی اور حفیظؔ جالندھری کے نام بہت نمایاں ہیں۔ ان شعرانے نہ صرف اردو نظم نگاری کی روایت کو آگے بڑھایا بلکہ نئی نسلوں کے لیے راہیں ہموار کیں۔

بہر کیف اختر الایمان کی شروع کی نظموں کے مطالعے سے ہمیں ان پر فیض احمد فیضؔ اور میراجیؔ کے طرز تحریر کے چھینٹے کا احساس ہوتاہے ،لیکن وہ مختصر عرصے میں ہی اپنی تخلیقات کو ان شعرا کے اثرات سے بچا لے جانے میں نہ صرف کامیاب نظر آتے ہیں بلکہ ایک نئے شعری اسلوب کی بنیاد کے حامل نظر آتے ہیںجس کی تفہیم کے لیے عمیق نگہی،ژرف بینی اور تربیت یافتہ مذاق کی ضرورت پڑتی ہے۔ غرض یہ کہ اختر الایمان نے نہ تو ترقی پسندوں میں پوری طرح ضم ہونے کی کوشش کی اور نہ ہی حلقۂ اربابِ ذوق سے اپنا رشتہ ہموار کیا۔یہی وجہ ہے کہ اختر الایمان کی شاعری کو کسی مخصوص عقیدے یا کسی نظریاتی فریم میں قید نہیں کیا جاسکتا،کیونکہ ان کے یہاں زندگی کے خارجی تجربوں کا ادراک اور داخلی زندگی کی پیچیدگیوں کااحساس بڑی مقدار میں پایاجاتاہے۔اس ضمن میں خلیل الرحمن اعظمی رقم طرازہیں:

’’اخترالایمان ان دو ایک شاعروں میں سے ہیں جن پر آسانی سے کوئی لیبل نہیں لگایاجاسکتا۔ان کے یہاں خارجی زندگی کا ادراک بھی ہے اور فرد کی داخلی زندگی کے پیچیدہ اور متنوع مسائل بھی،سیاسی اور اجتماعی محرکات بھی ہیں اور جنسی اور عشقیہ بھی، شعری روایات سے استفادہ بھی ہے اور نئے اسالیب و اظہار کی جستجو بھی،ان کی نظموں میں نہ تنہا موضوع اور طرزِ فکر کو اہمیت حاصل ہے اور نہ ہی ہیئت کا کوئی بہت چونکا دینے والا تجربہ،ان کے یہاں اظہار و بیان کے بعض اہم تجربے ہیں لیکن وہ موضوع سے اس قدر مربوط و ہم آہنگ ہیں کہ نامانوس اور اجنبی نہیں معلوم ہوتے۔اخترالایمان کو اس دور میں زیادہ مقبولیت حاصل نہ ہوسکی۔اس کے دو اسباب سمجھ میں آتے ہیں ایک تو یہی ہے کہ ان کی شاعری کو کسی ایک خانہ میں رکھنا مشکل ہے اسی لیے وہ واضح طور پر کسی گروپ سے متعلق نہیں کئے جاسکتے۔وہ زمانہ ہمارے ادب میں تحریکوں کا زمانہ تھا اور اسی ادب کو قبول عام کی سند ملتی ہے جو کسی ایک تحریک یا رجحان سے باقاعدہ وابستہ ہو۔اخترالایمان نہ تو ترقی پسندوں میں پورے طور پر کھپتے تھے اور نہ حلقۂ ارباب ذوق کے ساتھ مکمل طور پر وابستہ کیے جاسکتے ہیں۔انھوں نے نظم نگاری میں ایسے تجربے کرنے شروع کیے تھے جو ایک تحریک کی شکل اختیار کر گئے تھے، حالانکہ میراجی سے ان کے ذاتی تعلقات بہت گہرے تھے۔دوسرا سبب یہ ہے کہ ان کی تہہ داری اور سنجیدہ نظموں میں اس دور کے ہیجانی مزاج کے لیے تسکین کا کم سے کم سامان تھا۔‘‘  ۲؎

اخترالایمان کی نظموں کا جب ہم بغور مطالعہ کرتے ہیں تو ہم پر یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ ان کا طرز اظہار اور طرز احساس ان کے معاصرین سے متغائر اور متمائز ہے ۔ان کا لب ولہجہ اور اسلوب ان کا اپنا ہے۔انھوں نے کئی جگہوں پر اپنی شاعری کے متعلق اس بات کو دہرایاہے کہ ان کی شاعری ذات کا اظہار ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری وقتی مسائل کا راگ نہیں الاپاتی ہے، بلکہ دائمی اقدار ومعیار کا منظرنامہ پیش کرتی ہے۔ان کی نظموں میں اشارتی وعلامتی نظام، سیاسی،رومانی،تصوراتی، اور وجودی نظریۂ زندگی کا ایک ایسا جہاں آباد نظر آتاہے اور ساتھ ہی ساتھ روداد نگاری،رمزیت اور ڈرامائیت کے عناصر کو صاف طور پر دیکھاجاسکتاہے ان کی تخلیقات کا یہی انوکھا پن ان کی شاعری کو منفرد اور ممتاز کرتاہے اس سلسلے میں ایم۔نسیم اعظمی اپنے خیال کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ان کا شعری رویہ الگ بھی ہے اور منفرد بھی۔ابتدامیں انھوں نے بھی علامتی طرز اظہار کی جھلک اور ڈرامائی صورت حال کی پیش کش کے علاوہ تکنیک کے بعض نئے تجربے،مروجہ ہئیتوں سے انحراف اور آزاد نظم کی ہیئت میں انفرادی نقوش ابھارنے کی کاوش،منتاج کی ٹکنک کا استعمال، مختلف آہنگوں کے امتزاج سے نئی کیفیتوں کے اظہار کی سعی کی اور تاثیر پسندی سے داخلی امیج کی تخلیقی ہنرمندی اور ان کی شاعری میں پائے جانے والے نئے انداز و اسلوب کی کارفرمائی نے ان کی شاعری کو مزید روشن اور تابناک بنانے میں معاونت کرکے ان کی شاعری کو لائقِ توجہ اور حیران کن بنادیا،جس سے ان کے شعری اسالیب میں تنوع اور تنوع میں زیریںاداسی، لطیف طنز،تلخی، شکست خوردگی اور برگستگی کے رویے نے ان کی شاعری کو ایک ایسے بالیدہ،مہذب اور باشعورآدمی کی بامعنی شاعری بنادیا،اور ان کی شعری شخصیت کی ایسی تعمیر و تشکیل کی کہ وہ بھی بڑی تعجب خیز اور حیران کن بن کر اپنے دور کے ادبی اور شعری منظرنامے پر اجاگر کرنے میں کامیاب ہوگئے۔‘‘ ۳؎

اخترالایمان کی شاعری دنیا کے بدلتے حالات، سیاسی،سماجی،ثقافتی اور معاشرتی اقدار کی غماز ہے ،کیوں کہ انھوں نے اپنی شاعری میں اپنے معاشرے کی عمدہ ترین عکاسی کی ہے جس بنا پر وہ اپنے معاصرین میں ممتاز ہیں۔ایلیٹ کے قول کے مطابق بڑا شاعر معمولی سی معمولی باتوں پر غور و فکر اور چھوٹی سی چھوٹی تبدیلیوں سے اجتہاد کرتاہے۔چنانچہ جب ہم اس قول کی روشنی میں اخترالایمان کی نظموں کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ قول اخترالایمان پر صادق آتاہے در اصل ان کی شاعری انسان کی داخلی کیفیت کا المیہ ہے جو بدلتے ہوئے زمانے کے ہاتھوں بے بسی و بے حسی کا شکار ہوچکی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ پرانی اقدار نئے زمانے میں گہناسی گئی ہیں جس کی وجہ سے زندگی کے ہر شعبے میں بے چینی،مایوسی، اور بے بسی پیدا ہوگئی ہے جس سے شاعر نجات چاہتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نئے دور میں بھی پرانی اقدار کو ڈھونڈھ رہاہے مثال کے لیے ان کی نظم’پرانی فصیل‘،’موت‘،’تنہائی میں‘اور ’مسجد‘کو پیش کیا جاسکتاہے جو ان کے مجموعہ’گرداب‘میں شامل ہیں۔ اس طرف اشارہ کرتے ہوئے وزیر آغا اپنے خیالات کا اظہار اس انداز سے کرتے ہیں۔ اقتباس ملاحظہ ہو:

’گرداب‘ کا شاعر تذبذب اور گومگو کی کیفیت میں مبتلااس سنگم پر دم بہ خود کھڑا نظر آتاہے۔وہ بار بار اس دور کا ذکر کرتا ہے جسے وقت کے ریلے ختم کردینے کے در پے ہیں۔یہ دور مختلف علامتوں کی صورت میں ’گرداب‘کی کئی ایک نظموں میں ابھراہے مثلاً’مسجد‘کا ذکر کرتے ہوئے اخترالایمان نے ایک ایسی ویران مسجد کا نقشہ کھینچا ہے جو اب محض چند لمحوں کی مہمان ہے۔ اسی طرح’پرانی فصیل‘میں شاعر نے اپنی زندگی کے مٹتے ہوئے اور خاک ہوتے ہوئے دورکا منظر پیش کیا ہے ۔یہی حالت’تنہائی میں‘میں ابھری ہے جہاں شاعر نے ماحول کی ویرانی مختلف شعری علامتوں سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘ ۴؎

اخترالایمان کا شعری سفر’گرداب‘سے شروع ہوتاہے اور’زمستاں سرد مہری کا‘تک جاری رہتاہے۔ ’گرداب‘کی نظموں کا مطالعہ کرنے کے بعد اس بات کا بخوبی احساس ہوتا ہے کہ شاعر تنائو کی کیفیت میں مبتلا اور کرب کا شکار ہے، جو شاعر کے داخلی وخارجی تصادم کا نتیجہ ہے۔ان کی نظمیں رومانیت کے نئے رنگوں سے مزین اور انسانی اقدار سے قریب ترین ہیں ،کیوں کہ انھوں نے انسانی دکھ درد کو اپنا کرب اور معاشرے کے رنج و الم کو اپنی شخصیت کا جزوبنالیاتھا۔جب یہی دکھ درد ان کے دل کا ناسور بن جاتے ہیں تو اخترالایمان انھیں شعر کے قالب میں ڈھال دیتے ہیں۔انھوں نے اپنے احساسات و جذبات،خیالات و تجربات کے اظہار کے لیے روایتی لفظوں،استعاروں اور علامتوں کے استعمال سے نہ صرف اجتناب کیا ہے بلکہ نئی علامتوں،نئی ترکیبوں، نئے لفظوں اور نئے استعاروں کو اختراع کیاہے کیونکہ جب انھوں نے نئے موضوعات کو اپنے تجربات میں شامل کرنا چاہاتو انھیں وہ چیزیں دستیاب نہ ہوئیں جس کی ضرورت اخترالایمان کو تھی۔اخترالایمان آصف فرخی کو ایک انٹرویو کے درمیان ان دشواریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔اقتباس ملاحظہ ہو:

’’بہر صورت تو اس طرح لکھنا جب میں نے شروع کیا تو پھر اس میں قدم قدم پر ایسی چیزیں پیش آئیں کہ جب نیا موضوع لیا ہے تو اس کے لیے الفاظ نہیں ہیں،بندشیں نہیں ہیں، زبان نہیں ہے پھر اس میں ڈکشن میں جو تبدیلیاں اور جو تراکیب درکار ہیں وہ نہیں ہیں،پھر جس طرح مجھ سے بن پڑا، جس طرح زبان استعمال کرسکا جو میرے ذہن میںآیا کہ یہ صحیح ہے ، اپنی صلاحیت کے مطابق اپنی زبان کا استعمال کیا،جو مختلف ہے اور مختلف ہونے کے علاوہ یہ کہ وہ میرا ہی انداز ہے جس طرح میں نے استعمال کیاہے اسے۔‘‘۵؎

’گرداب‘کے متعلق ایم۔نسیم اعظمی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں جس سے مذکورہ باتیں پوری طرح واضح ہوجاتی ہیں۔

’گرداب‘میں شامل نظمیں اخترالایمان کے ابتدائی دور سے تعلق رکھتی ہیں۔ جن میں اس دور کی بدلتی زندگی کے منظرنامے کی عکاسی کا احساس ہوتاہے۔ساتھ ہی ان کی فکر،شعری رویے،انداز بیان،لب ولہجہ،فنی سروکار اور طریقۂ پیش کش میں اس دور کے عام اور ان کے ہم عصر دونوں قسم کے شعراسے بڑی حد تک انفرادیت پائی جاتی ہے۔ اس دور کی اردو شاعری میں عموماً طرز فکر اور موضوع کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ان کی نظمیں فرسودہ روایات کی تردیداور صالح روایات شکنی کے بغیر بھی بڑی حد تک شعری روایات کی توسیع بھی کرتی ہیں اور نئی روایات کی بنیاد گزاری کے فرائض بھی انجام دیتی ہیں،جو اہم،بڑی اور فطری شاعری کے امکانات کا اعلامیہ معلوم ہوتی ہیں۔‘‘۶؎

’پرانی فصیل‘اخترالایمان کی ایک منفرد نظم ہے ۔انہوںنے اس نظم کے توسط سے انسانی زندگی کے مختلف پہلوئوں کی نقاب کشائی کی ہے،علامتوں کے ذریعہ نظم آگے بڑھتی ہے در اصل یہ نظم شاعر کا پیکر معلوم ہوتی ہے کیوں کہ نظم کے ابتدائی بندوں سے یہ بات منکشف ہوتی ہے کہ شاعر اپنے احساسات وجذبات، افکار و نظریات،اطوار اور طرز و اسلوب سے قاری کو قریب کرتاہے اور اس نظم کے پس پردہ جن اقدار کا مشاہدہ کرتاہے اس کی سا  لمیت خطرے میں ہے۔معاشرہ داخلی اور خارجی دونوں اعتبار سے کھوکھلا ہوچکاہے،ماضی اور حال دونوں اپنی تہذیب کی شکستوں سے بدحال ہے،نظم کا مطالعہ کرتے وقت شاعر کی بے قرار روح اور رومانیت کی ندرت اور تازگی کو بخوبی محسوس کیا جاسکتاہے لیکن جیسے جیسے نظم آگے بڑھتی ہے ویسے ویسے فنی اور تکنیکی صلابت سے محروم اور سپاٹ بیانی کا مظہر معلوم ہوتی ہے کیوں کہ شاعر احساس تنہائی،ویرانی اور سرگوشیوں میں ہمیں شامل کرتاہے لیکن خیال کے ارتقا کے ساتھ نظم کا حسن قائم نہیں رہ پاتاہے جس بناپر اچانک نظم کا پیکر ٹوٹ جاتاہے اور شاعر کی چیخ سنائی دینے لگتی ہے۔نسیم اعظمی  ’پرانی فصیل‘کے متعلق اپنی رائے قائم کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

’پرانی فصیل‘ در اصل ایک ایسی نظم ہے جس میں شاعر نے ایک ایسے بحرانی دور کی عکاسی کی ہے جس میں شاعر نے ہوس سنبھالاتھا، پرانی تہذیب اپنے امکانات کھوچکی تھی اور شکست و ریخت کے عمل سے دوچارتھی۔ اس کی قدروں میں نہ اب زندگی کی رمق ہی باقی تھی اور نہ ہی جان رہ گئی تھی۔حرکت و عمل کی ساری توانائی ختم ہوچکی تھی اور اس کی جگہ لینے کے لیے جو نئی تہذیب پنپ رہی تھی وہ اختیار و تصرف سے باہر تھی اور کسی طرح بھی گرفت میں نہیں آرہی تھی جس سے ایک ذہنی اور تہذیبی بحران وانتشار کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی اور اسی کرب انگیز صورت حال میں شاعر نے جس پیشین گوئی کا اظہار کردیاتھا وہ چندسالوں بعد۱۹۴۷ء میں ہماری آنکھوں کے سامنے حقیقت بن کر سامنے بھی آگئی تھی۔‘‘۷؎

منقولہ اقتباس سے بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اخترالایمان کو جتنی انسیت انسان سے تھی اتنی ہی انسانی اقدار سے بھی۔ کیوں کہ انھوں نے انسانی زندگی کو بہت قریب سے دیکھا تھا، سماج کے نشیب و فراز پر ان کی گہری نظر تھی، وہ سماج کے بدلتے حالات وحوادث کو دیکھ کر یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ انسانی زندگی میں قدریں خاص اہمیت کی حامل ہیں اور انسان انھیں کی وساطت سے شرافت اور ترقی کے مدارج طے کرتاہے۔ اخترالایمان اقدار کے نہ صرف حامی تھے بلکہ اس کے مبلغ بھی تھے۔ اس ضمن میں وہ خود لکھتے ہیں۔ اقتباس ملاحظہ ہو:

’’ان قدروں کے مطابق انسان کی تخلیق نورایزدی سے ہوئی ہے۔ وہ ایک بڑے مقصد حیات کے تحت زمین پر بھیجا گیاہے، اور ایک دن اس کثیف میلی اور آلوہ زندگی سے اٹھ کر اپنے خالق، اپنے پروردگار کے روبرو پیش ہوجاناہے جس کا وہ حصہ ہے۔اس لیے انسان کو ذاتی مفاد ،خواہشوں اور لالچوں سے بلند ہوجاناچاہیے تاکہ خدائے بلند و برتر کی نظر میں خود کو اشرف المخلوقات اور خلیفۂ ارض ثابت کرسکے۔‘‘۸؎

محولہ اقتباس کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اخترالایمان کے خیالات،احساسات و جذبات واقعی بلند و ارفع ہیں ۔منقولہ نظریات ان کی شاعری میں جابہ جا نظر آتے ہیں جس سے ان کی شاعری کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتاگیاہے اور ان کی شاعری رومانیت کی منزلوں کو طے کرتی ہوئی انسانی زندگی کے مختلف پہلوئوں سے ہم آہنگ ہوجاتی ہے۔

’تنہائی میں‘اخترالایمان کی ایک علامتی نظم ہے ،نظم کا آغاز احساس تنہائی سے اور اختتام انسانی زندگی کے بنیادی حقائق کی جستجوپر ہوتاہے۔نظم’یادوں کی بازیافت ‘،’معاشرے کی تباہی‘،’جذباتی شکست‘زندگی کے دکھ درد اور زندگی کے تلخ حقائق کو پیش کرتی ہے۔ نظم کی تشبیہیں اور علامتیں حیرت انگیز ہیں کیونکہ شاعر نے دن کے خاتمے کو ریاکاری اور مغرب کو فنا گاہ سے تشبیہ دیاہے جب کہ ’تالاب‘انسانی زندگی اور معاشرت کی علامت ہے اور ’ببول‘ایک ایسے فرد کی علامت ہے جو تنہائی کاشکار ہے جس کے پس پردہ شاعرنے جمود اور تعطل کو تباہی اور بربادی کا پیش خیمہ بتایاہے یعنی تالاب کے ٹھہرے ہوئے پانی سے عفونت اور سڑاند سے مختلف بیماریوں کے وجود میں آنے کا خدشہ ہے، فرد کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں سماج کو جس طرح معاون ہونا چاہیے نظر نہیں آتا،جس کے نتیجہ میں فردکی شخصیت مجروح اور بے یار و مددگار نظر آتی ہے، چنانچہ تالاب کے کنارے ببول کا جودرخت ہے وہ تالاب سے مستفیض نہ ہونے کی بناپر اپنی شادابی کھو بیٹھتاہے۔گو کہ ’تنہائی میں‘علامتوں کے بلیغ استعمال اور فنی تنظیم کے سبب ایک منفرد اور معنویت خیز نظم بن گئی ہے۔اس سلسلے میں نسیم اؔعظمی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اس نظم میں عہد حاضر کی دنیا میں انسانوں کے جم غفیر کے باوجود فرد جو اکیلا اور تنہا پڑجاتا جا رہاہے جیسا کہ ببول کا پیڑ اکیلا اور تنہاہے۔انسانوں کے اس جم غفیر میں شاید فرد کی تنہائی آج کا سب سے بڑا سچ اور مسئلہ بن گئی ہے کیوںکہ انسانوں کے اس جم غفیر کی آنکھیں پتھرا گئیں ہیں ،اب ان میں نہ نم ناکی ہے اور نہ ہی فرد کے لیے کوئی خواب ہی ہے اور فرد سماج سے مسلسل دھوکہ کھاتا جارہاہے اور اس جمود کے ٹوٹنے،لوگوں کے سینوں میں دلوںکے بیدار ہونے اور ضمیر کے جاگنے کی کوئی امید بھی بر آتی ہوئی نظر نہیں آتی ۔اس نظم میں تالاب اور ببول کی جو تصویریں دکھائی گئی ہیں وہ بڑی موزوں، مناسب اور معنی خیز ہیں اور نظم کے کلیدی موضوع سے بھی پوری طرح ہم آہنگ ہیں۔‘‘۹؎

باقر مہدی’تنہائی میں‘کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی رائے قائم کرتے ہوئے لکھتے ہیں اقتباس دیکھیں:

’’اس میں جو گہری افسردگی ہے اثر کرکے ہی رہتی ہے اور قاری اپنے غموں کو شاعر کے آلام ومصائب، محبت کی ناکامی، زندگی کی ارزانی اور دل شکن حالات کے شکنجے سے ہم آہنگ پاتاہے۔ اس نظم پر قنوطیت کا الزام نہیں لگ سکتا گوکہ اس میں افسردگی اور شکست خوردگی کا گہرا احساس ہے۔مگر حالات سے شکست کھانے والا شاعر اپنی روح کی کرب ناکی کو پوری شاعرانہ کیفیت کے ساتھ الفاظ میں منتقل کرنے میں کامیاب ہے۔‘‘۱۰؎

متذکرہ اقتباسات کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ نظم’تنہائی میں‘فنی اعتبار سے ترشی ترشائی ہے۔ اخترالایمان نے ایک مصور کی طرح ایک ہی منظر کو مختلف زاویوں سے دیکھ کر دکھ،درد،رنج والم،مایوسی، کرب ذات، یادوں اور خوابوں کی مختلف کیفیات کو الفاظ کا جامہ پہنا کر احساسات اور متنوع ذہنی کیفیات کا احاطہ کیا ہے یہی وجہ ہے کہ یادوں کی بازیافت کا عمل آہستہ آہستہ وسیع تر اور گہری معنویت اختیار کرجاتاہے اور اختر الایمان نے یادوں کی دہلیزپر کھڑے ہوکرگزرتے ہوئے وقت اور اس کی بے پناہ قوت کا تماشا خوب دیکھا اور دکھایاہے، وقت کو اخترالایمان نے کس طرح برتاہے اس سلسلے کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

’’میری نظموں میں وقت کا تصور اس طرح ملتا ہے جیسے یہ بھی میری ذات کا ایک حصہ ہے ،اور یہ طرح طرح سے میری نظموں میں میرے ساتھ رہتاہے۔ کبھی یہ گزرتے ہوئے وقت کا علامیہ بن جاتاہے،کبھی خدا بن جاتاہے،کبھی نظم کا ایک کردار’باز آمد‘میں رمضانی قصائی وقت ہے،بیداد میں خدا وقت ہے وقت کی کہانی میں گرداب زیست وقت ہے اور کوزہ گر میں سامری وقت ہے۔وقت جبریل امین ہے جو زمیں سے تاحد نظرمسلط ہے، ہماری گذران حیات پر ہے جس کے پائوں تحت الثریٰ سے بھی نیچے ہیں اور سر عرش معلی سے اوپر ساتھ ہی یہ تصور نہ مایا کا تصور ہے نہ فنا کا، یہ ایک ایسی زندہ پائندہ ذات ہے جو اننت ہے جو اگر وقت نہ ہوتی تو خدا سے بڑی کوئی چیز ہوتی۔ اس لیے کہ اس کے ہاتھوں خدا کی شکل و صورت اور تصور بھی بدلتا رہتاہے۔‘‘۱۱؎

اخترالایمان کی شاعری سچی اور پر خلوص شاعری کا بہترین نمونہ اور اپنے عہد کے عمدہ خیالات ، احساسات، جذبات اور سنجیدہ افہام کی ترجمان ہے ’یادیں‘ایک عمدہ نظم ہے اس کا پس منظر ایک گائوں اور پیش منظر ایک صنعتی شہر ہے ۔اس نظم میں ایک معصوم ،لاچار اور غریب بچے کی حالات زندگی کو موثر انداز میں پیش کیا گیاہے ۔قصہ کچھ یوں ہے بچہ اپنے والد کی انگلی پکڑ کر میلہ دیکھنے کی غرض سے گھر سے جاتاہے لیکن میلے میں بھیڑ کی وجہ سے باپ کی انگلی بچے سے چھوٹ جاتی ہے اور بچہ میلے کی سج دھج،تمنائوں ،آرزوئوں اور کھلونوں کی رنگ برنگی میں گم ہوجاتا ہے، لیکن یہی بچہ جب آہستہ آہستہ بالغ النظر ہوجاتاہے تو اسے زندگی کے میلے کی چمک دمک کے پس پردہ عیاری،مکاری،دغابازی،صنعتی،مادی اور صارفی معاشرت کی خاص کارفرمائی نظر آتی ہے، غرض کہ بالک کا جو کردار ہے وہ محفوظیت کے احساس سے دور اور اجنبیت کے قریب نظر آتاہے در اصل شاعر نے بالک کے در پردہ ایک ایسی سچائی کا انکشاف کیا ہے جو اخلاقی اقدار کے زوال اور روحانی افلاس سے عبارت ہے جب کہ باپ کا کردار روایتی نظام ِاقدار کا نمائندہ ہے جو چھوٹے موٹے فائدے اور ادنیٰ مسرتوں کے لیے ناصیہ فرسائی کرتاہے گو کہ اخترالایمان نے انسان کے استعارہ کے توسط سے انسانی زندگی کے مختلف پہلوئوں اور معاشرے کی کھوکھلی اقدار کی عکاسی کی ہے۔اس نظم کے متعلق ایم ۔نسیم اعظمی اپنی رائے قائم کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ اقتباس ملاحظہ ہو:

’’یہ نظم اس دور کے ہر انسان کی کہانی بن گئی ہے جس میں موجودہ صنعتی، مادی اور صارفی معاشرت کی بھی خاص کارفرمائی شامل ہے۔جس میں ہر چیز بکائو بن گئی ہے۔اس میں ماضی کی بازیافت بھی اپنے پورے عروج پر نظر آتی ہے۔نظم کا کردار جن قدروں کو عزیز رکھتاہے وہ قدریں گم ہوگئی ہیں۔ وہ محبت کاخواہاں ہے مگر جگہ جگہ اسے صرف بازار نظر آتاہے۔انسانیت،مروت اور محبت ورواداری کے ادارے بند ہوچکے ہیں اس لیے اسے ہر جگہ تجارت اور خرید و فروخت سے سابقہ پڑتاہے۔جہاں انسانی شرافت، محبت،اخوت،مروت،ضمیر،وفا، آل اولاد یہاں تک کہ دیوی دیوتا اور خدا بھی خریدے اور فروخت کیے جاتے ہیں۔ایسے میں اپنی پرانی قدروں یعنی صرف ماضی اور ماضی کی یادوں کے سہارے زندگی گزارنا کافی مشکل اور دقت طلب عمل بن جاتاہے۔ جس کے نتیجے میں اس معصوم ذہن نے بھی حالات سے سمجھوتہ کرنے کی کوشش کی لیکن اس کوشش میں اس معصوم ذہن اور حالات سے سمجھوتہ نہ کرنے والے بالغ اور باشعور شخص کو کس قسم کی کشمکش اور ذہنی و فکری تصادم اور پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔‘‘۱۲؎

بہر کیف زندگی ظلم وستم، رنج و الم، درد وغم، استبداد واستحصال، نامساعد حالات اور روح فرسا مسائل سے دوچار ہوتی رہتی ہے، لیکن زندگی کی مدافعتی قوتیں زندگی کو جینے کا حوصلہ فراہم کرتی ہیں جیسا کہ نظم کے اس مصرعے کی تکرار سے بات منکشف ہوتی ہے ’’دیکھو ہم نے کیسے بسر کی اس آباد خرابے میں‘‘گو کہ اخترا لایمان نے نظم’یادیں‘میں نہ صرف زندگی کے مشکل مراحل کو اجاگر کیا ہے بلکہ معاشرتی حقائق پر پڑی دبیز چادر کو اٹھایا ہے جس سے زندگی کا وقار اور زندگی کی پنہائیوں کا ادراک واضح ہوتاہے۔

’ایک لڑکا‘ اختر الایمان کی ایک منفرد اور بہترین نظم ہے ،جو مناظر فطرت،بیانیہ اور جذبات کی عکاسی کے لیے نمایاں ہے ۔نظم کا آغاز یادوں کی بازیافت کی صداقت کی صدائے بازگشت سے ہوتاہے جس سے شاعر نے متصادم ہوکر اپنے شخصی لاشعور کی آسودگی کے لیے عہد طفلیت کی بازیابی کی ہے۔اخترالایمان نے اپنے بچپن کے اس دور کی یادوں کو تازہ کیا ہے جس عہد میں وہ خوش و خرم، آزاد اور محفوظ تھا ۔اس نظم میں اخترالایمان جس کردار سے ہم کلام ہے وہ ان ہی کا تراشیدہ ہے یعنی نظم میں واحد متکلم کی شکل میں دو متضاد کردار سامنے آتے ہیں ایک سیدھا سادہ، بھولا بھالا اور سادہ لوح لڑکے کا کردار ہے جو بار بار سوال قائم کرتاہے کہ ’اخترالایمان تم ہی ہو؟‘دوسرا وہ کردار جو بالغ النظر،دور اندیش اور پختہ ذہن ہے جو اپنے ضمیر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حالات سے سمجھوتہ کرتاہے اور زمانہ شناس شخص کی صورت اختیار کرکے مختلف ذرائع سے اپنے ضمیر کے خلاف کئے گئے اعمال پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتاہے۔

یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ شروع شروع انسان اپنی زندگی میں مجبوری کے تحت بہت سے ایسے سمجھوتے کرتا ہے جس سے ضمیر کا اتفاق نہیں ہوتاہے، لیکن اس پر آہستہ آہستہ دنیا کی عیاری،مکاری، دغابازی، جعل سازی اور مکر وفریب کا رنگ ایسا چڑھتا ہے کہ وہ دنیا کا ہوکر رہ جاتاہے لیکن جب کبھی وہ شخص اپنی کارکردگی کا جائزہ لیتا ہے تو اس کو اپنا اصل رنگ صاف دکھائی دیتاہے جیسا کہ نظم کے پہلے بند میں جس زندگی کی آرزوئوں کی تصویر کھینچی گئی ہے وہ بہت دیر تک قائم نہیں رہ پاتی ہے، کیوں کہ زندگی کی بے بسی،لاچاری اور مجبوری ان حالات سے معاملات بندی کے لیے مجبور کرتی ہے جسے نہ چاہتے ہوئے بھی کرنا پڑتاہے۔لہٰذا اخترا لایمان کا ہم زاد اخترالایمان سے برابر پوچھتا رہتا ہے کہ ’’اخترالایمان تم ہی ہو؟‘‘وہ ایسا سوال اختر الایمان سے اس لیے کرتا ہے کہ پہلے اور بعد کے اخترالایمان میں ایک بڑا فرق نظر آتاہے جسے وہ مٹانا چاہتاہے وہ اخترالایمان کو اس بات کا احساس اس لیے دلاتا رہتا ہے کہ اخترالایمان کا ضمیر جو حالات کے تحت کہیں دب گیاتھا وہ بیدار ہوجائے۔

نظم کے دوسرے بند میں جہاں شاعر نے خالق کائنات کی تعریف و توصیف،اس کی نعمتوں کاذکر،اس کی وحدانیت اور اس کے قادر مطلق ہونے کا اعتراف کیا ہے وہیں انسان کی کمزوری، بے بسی، لاچاری، بے بضاعتی کی شکایت بھی کی ہے۔ شاعر کی یہ شکایت خالق کائنات سے نہیں ہے بلکہ وقت اور معاشرے سے ہے جو انسان کو قدم قدم پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور کرتاہے۔ اگر چہ شاعر کا غم وغصہ اور طنزیہ لہجہ دوسرے بند میں ذرا مدھم ہے لیکن تیسرے بند میں یہ تیز تر ہوگیاہے۔ یوں تو نظم کے ہر بند کا آخری مصرع’’اخترالایمان تم ہی ہو؟‘‘ایک طرح کا طنز ہے لیکن اس مصرعے کے مسلسل تکرار سے جہاں نظم میں ڈرامائیت پیدا ہوگئی ہے وہیں پوری نظم طنزیہ لب ولہجہ کی ایک عمدہ مثال بھی بن گئی ہے جب کہ نظم کے آخری بند میں شاعر کا لب و لہجہ سخت ہوگیاہے جس سے شاعر کی مفاہمت اور بے بسی صاف ظاہر ہوتی ہے۔اس تجزیہ کا اختتام فضیل جعفری کے اس بیان پر کرنا چاہوں گا:

’’اختر الایمان کے شعری رویے کی ایک اہم سمت یہ ہے کہ وہ اپنی نظموں اور خصوصاً طویل نظموں میں پہلے ایک استعارہ خلق کرتے ہیں پھر اس سے متعلق امکانات کو کھنگالتے ہیں اور آخر میں ان امکانات کو کچھ دوسرے امکانات کے مقابل رکھ کر دیکھتے اور ان کا تجزیہ کرتے ہیں۔اس طرح ان کی نظموں میں کوئی باقاعدہ فلسفہ نہ ہونے کے باوجود فلسفیانہ زاویۂ نگاہ کا قابل قدر اشتباہ پیدا ہوجاتاہے۔ان کی مشہور نظم’ایک لڑکا‘ ان کی ایسی ہی کامیاب ترین اور موثر ترین نظموں میں سے ہے اور یہ لڑکا در اصل نظم کی مرکزی آواز یعنی خود شاعر کی اپنی ذات اور اس کے ضمیر کا استعارہ ہے۔‘‘۱۳؎

اخترالایمان کا شعری رویہ اپنے معاصرین سے بالکل مختلف ہے ان کے یہاں اپنے عہد کے مسائل کی سنجیدہ تفہیم اور اجتماعی سطح پر ایک گہری ذمہ داری کا احساس ہوتاہے۔انھوں نے نہ صرف روایتی اور رائج طریقے سے اپنے دامن کو بچاکر اپنے طرز اظہار کے لیے ایک نئی بوطیقا قائم کی بلکہ اپنی روحانی کشاکش اور فکری تشویش کے تبادلۂ خیال کے لیے ہر طرح کے اسلوب کو اختیار کیاہے۔ان کے شعری مجموعوں کی جب ہم ورق گردانی کرتے ہیں تو ہمیں ان کے تمام مجموعوں میں ایسی نظمیں بہ آسانی مل جاتی ہیں جن کا تعلق اخترالایمان کی سوانحی اور ذاتی تجربات پر مبنی ہے جن کے عناوین کچھ یوں ہیں۔’مسجد‘،’پگڈنڈی‘،’تاریک سیارہ‘،’ایک لڑکا‘، ’یادیں‘،’تلاش کی پہلی اڑان‘،’بچوں کو کھیلنے دو‘،’سچ کا جنگل‘،’سبزئہ بیگانہ‘،’زمستاں سرد مہری کا‘وغیرہ یہ تمام نظمیں ایسی ہیں جو اپنے قاری کو اپنی جانب متوجہ کرائے بغیر نہیں رہتیں۔کیوں کہ ان نظموں میں ہم خود کو شاعر کے طرز احساس اور طرز فکر سے بہت قریب پاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اختر الایمان کی شعری گتھیاں ہم پر آہستہ آہستہ کھلتی جاتی ہیں اور ہم ان کے احساسات،جذبات،خیالات،افکار اور افہام سے بہرہ ور ہوتے جاتے ہیں ۔ ’زمستاں سرد مہری کا‘اخترالایمان کی فکری کاوش کا نتیجہ ہے۔ یہ نظم ان کے آخری شعری مجموعہ’زمستاں سرد مہری کا‘میں شامل ہے جو ان کے انتقال کے بعد منظر عام پر آیا۔یہ نظم چھوٹے بڑے پینتیس مصرعوں پر مشتمل ہے شاعر نے نظم کو آزاد نظم کی ہیئت میں رقم کیاہے۔ آزاد ہیئت میں شاعر کو یہ آزادی ہوتی ہے کہ وہ جذبے اور خیال کی کیفیت و نوعیت کے اعتبار سے مصرعوں کو چھوٹا اور بڑا کرسکتاہے لیکن اس آزادی کے ساتھ اس ہیئت کا بنیادی اصول شاعر کے مد نظر رہنا چاہیے تاکہ مصرعوں کی ساخت،ارکان بحر اور خیال بنیادی اصول کے تابع رہیں۔گو کہ جب ہم اس نظم کا جائزہ اس بنیادی اصول کے تحت لیتے ہیں تو یہ نظم اپنی کسوٹی پر کھری اترتی ہے۔

ایم نسیم اؔعظمی کے متعلق یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ان کی انتقادی فکر میں ایک خاص قسم کی معنویت اور تجزیہ میں انتقادی بصیرت کارفرماہے، جس بنا پر انھوں نے تنقید کو ذاتی تعصبات اور ترجیحات سے بلند کرکے سائنسی،معروضی،علمی اور فلسفیانہ سطح دینے کی کوشش کی ہے۔ ان کی تنقیدی کتابوں کا مطالعہ بتاتاہے کہ انھیںجدید اور قدیم ادب پر دسترس حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مضامین فکری اور نظری اعتبار سے نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہیں۔

حواشی

۱۔مطالعۂ اخترالایمان اور ڈاکٹر ایم۔نسیم اعظمی،پروفیسر مولا بخش،اخترالایمان کی نظم نگاری : تنقید و تجزیہ از ڈاکٹر ایم ۔نسیم اؔعظمی،سن اشاعت۲۰۱۷ء صفحہ ۸

۲۔اخترالایمان،خلیل الرحمن اعظمی،زاویۂ نگاہ از خلیل الرحمن اعظمی،ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی،سنہ اشاعت ۲۰۰۸ء صفحہ ۳۸

۳۔حیات وشخصیت کے چند پہلو،ایم ۔نسیم اعظمی از اخترالایمان کی نظم نگاری :تنقید و تجزیہ ،ایم۔نسیم اعظمی،سنہ اشاعت ۲۰۱۷ء،صفحہ ۴۱

۴۔اخترالایمان:مراجعت کی ایک مثال طرز تدبیر،وزیر آغا،ازنظم جدید کی کروٹیں ،وزیر آغا،ناشر: ایجوکیشنل بک ہائوس علی گڑھ،سنہ اشاعت ۲۰۰۰ء صفحہ ۱۴۷

۵۔انٹرویو،آصف فرخی،فروری ۱۹۹۴ء،ماہ نامہ آج کل، نئی دہلی،صفحہ۵۱

۶۔شعری مجموعے از اخترالایمان کی نظم نگاری :تنقید و تجزیہ،ایم۔نسیم اعظمی سنہ اشاعت ۲۰۱۷ء صفحہ۵۶

۷۔پرانی فضیل از اخترالایمان کی نظم نگاری: تنقید و تجزیہ،ایم۔نسیم اعظمی سنہ اشاعت ۲۰۱۷ء صفحہ ۱۶۱

۸۔دیباچہ،بنت لمحات،اخترالایمان، سنہ اشاعت ۱۹۶۹ء

۹۔تنہائی میں از۔اخترالایمان کی نظم نگاری : تنقید وتجزیہ،ایم۔نسیم اعظمی،سنہ اشاعت ۲۰۱۷ء صفحہ ۱۷۰

۱۰۔اخترالایمان ایک منفرد نظم گوشاعر،باقر مہدی،فروری۱۹۹۴ء آج کل نئی دہلی صفحہ ۴۶

۱۱۔بنت لمحات،اخترالایمان از کلیات اخترالایمان،مرتبہ: سلطانہ ایمان،بیدار بخت،ناشر ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی،سنہ اشاعت ۲۰۰۶ء صفحہ ۳۰۔۳۱

۱۲۔یادیںازاخترالایمان کی نظم نگاری: تنقید و تجزیہ ،ایم۔نسیم اعظمی سنہ اشاعت ۲۰۱۷ء صفحہ ۲۰۴

۱۳۔اخترالایمان کی نظم’ایک لڑکا‘فضیل جعفری،اخترالایمان عکس اور جہتیں،مرتبہ :شاہد ماہلی،ناشر: معیار پبلی کیشنز،سال اشاعت ۲۰۰۰ء صفحہ ۲۱۰

۱۴۔زمستاں سرد مہری کاازاخترالایمان کی نظم نگاری :تنقید و تجزیہ،ایم۔نسیم اعظمی سال اشاعت ۲۰۱۷ء صفحہ ۳۰۰ تا ۳۰۱

   *****

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.