شفیق فاطمہ شعریٰ: ایک مطالعہ
چودھری ناظرین
ریسرچ اسکالر ، شعبۂ اردو، ممبئی یونیورسٹی
اردو شاعری غالبا اتنی ہی پرانی ہوگی جتنی کہ اردو۔ قیاس اس بنیاد کی اس تقین پر ہے کہ فارغ البال لوگ ہر دور میں ہوتے ہوں گے۔ اب اردو کی تاریخ سے تو ہم زیادہ آگاہ نہیں تاہم اردو کے اساتذہ پر نظر ڈالی جائے تو کسی خاتون شاعرہ کا نام کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ تاہم اب خواتین شاعرات کی تعداد نہ صرف اچھی خاصی ہے بلکہ اب تو اس قدر بڑھ چکی ہے کہ ہرچوتھی خاتون شعر گوئی کی صلاحیت سے مالامال نظر آتی ہے۔
عورتوں کے لیے شاعری تو دور کی بات خارجی دنیا سے اس کی واقفیت بھی برائے نام تھی ۔ وہ گھر کی چار دیواری کے اندر کی زندگی گزارنے پر مجبور تھی۔ شاعری کا تعلق جذبہ واحساس کے ساتھ ساتھ مشاہدے سے بھی ہوتا ہے جو اس وقت کی خواتین کے یہاں مفقود تھا۔ نتیجتاً یا تو انہوں نے شاعری کے میدان میںقدم ہی نہیں رکھا یاکچھ نے چوری چھپے اس طرح کی کوششیںکی بھی تو ان کے یہاں وہ قطعیت، صداقت، اور واقعیت پیدانہ ہوسکی جو مردوں کا حصہ رہی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کلاسیکی شاعرات کے بہت کم نام ہمارے سامنے آسکے ہیں۔ پروفیسر عتیق اللہ خواتین کی شاعری کے سلسلے میں رقمطراز ہیں:
’’اردو ادب کی تاریخ وہ بھی ماضی کی تاریخ شاعرات کے ذکر سے خالی نہیں مگر حیرت کا مقام یہ ہے کہ ان میں ایک بھی ایسا دستخط نہیں جس کی شناخت قابل ذکر قرار دی جاسکے۔ ہماری شاعرات نے کلام تو کیا مگر مکالے سے محروم رہیں۔ اس صورت حال کی جڑیں ہمارے اس اقداری نظم میں گہری چلی گئیں ہیںجو اپنے کسی بھی آخری شمارمیں مرد اساس ہے۔‘‘
بیسویں صدی کا آغاز ہندوستان کی تاریخ میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس نے ہندوستانی ذہن وفکر کو نئی روشنی سے آشنا کرایا۔ یوں تو بیسویں صدی سے قبل ہی اصلاحی اور سیاسی تحریکات کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا لیکن بیسویں صدی کے اوائل میں بہت سارے دوسرے مسائل کے ساتھ ساتھ عورتوں کی تعلیم کی طرف بھی توجہ مرکوز کی گئی۔ عورتوں کے تئیں کئی طرح کے سفّاکانہ رسم و رواج کا خاتمہ ہوا اور اب عورت کسی قدر آزاد فضا میں سانس لینے لگی۔ سکون اور آزادی نصیب ہوئی تو ان کے نسوانی جوہر کھلنے لگے۔ ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں مردوں کے شانہ بہ شانہ لڑنے لگیں۔زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور تعلیم کے عام ہونے سے خواتین کے یہاں بھی ادبی رجحان بڑھنے لگا مگر ابھی یہ رجحان محض تقلید کی حد تک ہی تھا۔ اکثر خواتین شاعرات نے اپنے ہم عصر شعراکا اثر قبول کیا اور ان کی پیروی کرتے ہوئے انہی کے رنگ میں شاعری کی جو بیشتر نظموں پر مشتمل ہے۔
آزادی کے بعد خواتین ادبا کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوا عصر حاضر میں تو ان گنت شاعرات پڑھنے اور سننے کو مل رہی ہیں۔ مشاعرے، ریڈیواور ٹی- وی پر ان کی شرکت عام ہوگئی ہے۔ زمانہ کے ساتھ ساتھ زندگی کے انداز اور اس کی رفتارمیں بھی تبدیلی آئی توخواتین میں تعلیم کے ساتھ سا تھ علم وا دب کا ذوق بھی بیدار ہوا۔ ان کے ذہنی معیار،مزاج اور مذاق میں بھی تبدیلیاں آئیں۔جس کی وجہ سے شاعری میں ان کے یہاں موضوعات بھی مختلف ہونے لگے۔ خواتین کی شعور وآگہی نے انہیںہر قسم کے سماجی، سیاسی، ذاتی اور جنسی موضوعات پر کھل کر دلچسپی لینا سکھایا۔ان کے یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہیں اپنی ذات اور وجدان پر پورا بھروسہ ہے۔ وہ شاعری میں اس حوالے سے اپنی شناخت بنانے میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئیں ہیں۔جن شاعرات نے شہرت کی بلندیوں کو چھوا ان میں ادا جعفری ایک ممتاز حیثیت رکھتی ہیں۔ان کے علاوہ فہمیدہ ریاض، کشور ناہید، شفیق فاطمہ شعریٰ، پروین شاکر، زہرا نگاہ، ساجدہ زیدی، زاہدہ زیدی، داراب بانووفا، بیگم ممتاز مرزا، پروین فناسیّد، جمیلہ بانو، عذرا پروین،رفیعہ شبنم عابدی ، شہنازنبی اور شبنم عشائی وغیرہ کے نام اہم ہیں۔
اردو شاعرات میں شفیق فاطمہ شعریٰ کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ موضوعات کی گہرائی و گیرائی کے سبب ایک منفرد شاعرہ کے طور پر تسلیم کی جاتی ہیں۔شفیق فاطمہ شعریٰ کو عربی، فارسی، اردو، ہندی، مراٹھی اور انگریزی زبانوں پر دسترس حاصل ہے۔ ’’گلہ صفورا‘‘ ’’آفاق نوا‘‘ ’’سلسلہ مکالمات‘‘ جیسے شعری مجموعوں سے نہ صرف اردو ادب میں بیش بہا اضافہ کیا بلکہ اردو شاعری کوایک نئی جہت سے آشنا بھی کیا۔کئی اعزازات سے بھی نوازی گئیں۔
شفیق فاطمہ نام اور شعریٰ تخلص استعمال کرتی ہیں۔ ان کی ولادت ۱۷؍ مئی ۱۹۳۰ء کو ناگپور میں ہوئی۔ والد کا نام سید شمشاد علی تھا۔وہ سہارنپور (اترپردیش) کے رہنے والے تھے۔ تقسیم کے بعد حالات سے دوچار ہوئے اور اورنگ آباد چلے آئے۔ اورنگ آباد میں کچھ عرصہ قیام کرنے کے بعد حیدرآباد کا رخ کیا اور یہیں کے ہوکر رہ گئے۔
شعریٰ کی ابتدائی تعلیم اورنگ آباد میں ہوئی کمسنی ہی میں انھیں اردو، فارسی اور عربی زبانوں پر عبورحاصل ہوگیا تھا۔ ۱۹۵۷ء میں انھوں نے عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن مکمل کیا پھر مرہٹھواڑا یونیورسٹی سے ۱۹۶۰ء میں بی۔ ایڈ کی ڈگری حاصل کی اور دوسال بعد یعنی ۱۹۶۱ئمیں ناگپور یونیورسٹی سے ماسٹرس (M.A) کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۶۵ء میں ان کی شادی حیدرآباد کے ایک معزز گھرانے کے سید وجہہ اللہ سے ہوئی جو آندھرا پردیش اگریکلچر ڈپارٹمنٹ میں ملازم تھے۔ ۱۹۸۴ء میں وجہہ اللہ صاحب کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد شعریٰ نہایت ہی غمگین رہنے لگیں۔ رشتہ داروں کی صلح و مشورے کے بعد ممتاز کالج میں بحیثیت لکچرر ملازمت کرنے لگیں۔۲۰۱۰ء شفیق فاطمہ جگر کے عارضے میں مبتلا ہوگئیں دوسال تک اس بیماری سے لڑتی رہیں آخر کار ۱۳؍ اگست۲۰۱۲ء کو ان کی آنکھیں ہمیشہ کے لئے بند ہوگئیں۔
شفیق فاطمہ شعریٰ کو خدانے بے شمار نعمتوں سے نوازا تھا۔ ذہانت اس قدر تھی کہ کم عمری ہی میں ان کو زبان وبیان پر مکمل عبور حاصل ہوگیا۔ ادب سے غیر معمولی دلچسپی رکھتی تھیں۔ ان کی پہلی مطبوعہ نظم ’’فصیل اورنگ آباد‘‘ ہے جو ۱۹۵۵ء میں ماہنامہ ’’شاہراہ ‘‘ میں شائع ہوئی۔ یہ نظم سلسلہ مکالمات میں بھی شامل ہے۔اسی نظم کی اشاعت کے بعد وہ ادبی حلقوں میں متعارف ہوئیں۔ ’’فصیلِ اورنگ آباد‘‘میںشعریٰ ایک دھیمے لہجے کی شاعرہ نظر آتی ہیں۔ پوری نظم میں شعریٰ نے ایک تاریخی سماں باندھا ہے۔ جس کو پڑھنے سے اورنگ آباد سے ان کے جذباتی وابستگی کا اندازہ ہوتا ہے، اس نظم میں شاعرہ نے ایک کرب، درد، اور اضطراب کو بیان کیا ہے کہ کس طرح لوگوں کے چلے جانے کے بعد ان کے نقوش رہ جاتے ہیں۔ اور ان کی آواز ہمیشہ کے لئے اس جگہ گونجتی رہتی ہے۔ ’’فصیلِ اورنگ آباد‘‘ ایک طویل نظم ہے۔ نظم کا کچھ حصہ ملاحظہ ہو:
یہ فصیل پارینہ یہ کھنڈر یہ سناٹا
کس خیال میں گم سم ہے یہ رہگذر آخر
میں یہاں ٹھٹکتی ہوں سوچتی ہوں تھوڑی دیر
یہ شکستہ بام و در کیوں ہیں سو گوار آخر
گرد اڑرہی ہے اب جس وسیع میدان سے
اس کو روند کر گذرے کتنے شہ سوار آخر
کتنے انقلاب آئے کتنے حکمراں بدلے
ہے یہ خاک کس کس کے خو ں سے داغدار آخر
کھو کے اپنی رونق کو یہ اداس و یرانے
کب تلک رہیں گے یوں محو انتظار آخر
ان کے اب تک چار مجموعہ کلام منظر عام پر آچکے ہیں۔
mآفاق نوا(۱۹۸۷ء)
mگلۂ صفورہ(۱۹۹۰ء)
mکرن کرن یادداشست
mسلسلہ مکالمات
محمود ہاشمی نے ’’آفاق نوا‘‘ کی اشاعت پر ایک جائزہ شائع کیا تھا جس میں لکھتے ہیں:
’’ آفاق نوا‘‘ اس فنکار کی نظموں کا مجموعہ ہے جس سے اس صدی کی پانچویں دہائی میں جدید شاعریاور جدید نظم سے اپنا ر شتہ استوار کیا۔یہ زمانہ ادبی اعتبار سے غیر معمولی شکست و ریخت اور تبدیلیوں کا زمانہ ہے۔ شفیق فاطمہ شعری کی نظمیں بھی ایک نئے اندا ،میانہ طلبی کی حامل تھیں۔ ’’سوغات‘‘ ،’’صبا‘‘ اور بعد میں ’’شب خون‘‘ جیسے مستند ادبی رسائل میں شفیق فاطمہ شعریٰ کی نظمیںشائع ہوتی رہیں۔ اردو میں اور خصوصاً جدید نظم میں کسی نسوانی آواز کا عدم وجود بے حد کھلتا ہے۔ شفیق فاطمہ نے لکھنا شروع کیا اور اپنی نظموں کوایسے ادبی رسائل تک محدود رکھا جو اپنے ادبی مطالبات سے آگاہ تھے۔‘‘
۱۹۸۸ء میں ان کے شعری مجموعہ ’’آفاق نوا‘‘ پر جنوبی ہند کے ایک علمی ادارے میں انعام سے نواز تھا۔ ان کے کلام کو چھ ادبی و علمی جرائد نے اپنی اپنی اشاعتوں میں شامل کیا ہے۔شفیق فاطمہ کا رجحان جدید شاعری کی طرف تھا۔ جدیدیت کا ایک اہم پہلو ماضی کی گم گشتہ فضاؤں کا بیان بھی ہے۔ شفیق فاطمہ شعریٰ کے یہاں یہ عنصر بدرجہ اتم موجود ہے۔ ان کا فکری اور تاریخی شعور پختہ ہے وہ علامتی انداز میں اپنی بات پیش کرنے کا ہنر جانتی ہیں۔ انھیں وطن اور قوم سے بے پناہ محبت تھی اس محبت کا بیان ان کی بیشتر نظموں میں ملتا ہے۔ وہ کسی بھی واقعہ کو منظر کشی کے ذریعہ اور بھی پرکشش بنادیتی ہیں۔ ان کی نظم ’’یاد وطن‘‘ اسی سلسلے کی ایک خوبصورت نظم ہے۔ علامتی انداز میں انھوں نے ’’وطن‘‘ کو ’’آتما‘‘ کہا ہے کہ وطن میں ساری چیزیں موجود ہے یہاں پربت ہے، چاند تارے، نرناری کا ملن سبھی کچھ ہے لیکن اس کی آتما نہایت ہی اکیلی ہے۔
شفیق فاطمہ شعریٰ کے یہاں نسائی حسیت بھی منفرد انداز میں ملتی ہے وہ ڈھکے چھپے انداز میں، دھیمے لب ولہجہ میں نسائی احساسات کی ترجمانی کرتی ہیں۔ انھوں نے نسوانی جذبات کا بیان نہیں کیا بلکہ عورت کے جذبات اور اس کے سماجی مرتبے کو مذہب کے حوالے سے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس طرح کی نظموں میں ’’اے تماشاہ گاہِ عالم روئے تو‘‘ ،’’سیتا‘‘،’’ وہ رادھا رانی امر ‘‘اور ’’پریشتی‘‘ قابل ذکر ہیں۔ ان کی شاعری میں نسائی حسیت کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے ابوالکلام قاسمی رقم طراز ہیں:
’’شفیق فاطمہ شعریٰ دانشورانہ موضوعات، مذہبی اور روحانی محرکات سے دلچسپی اور گہری بصیرت کے سبب، ایک ایسی شاعرہ کا تاثر قائم کرتی ہیں جس کے لیے جنسی بنیاد پر قائم معاشرہ کوئی قابلِ توجہ مسئلہ نہیں محسوس ہوتا۔ تاہم شعریٰ نے اپنی بعض نظموں میں نسائی امیج کو مذہبی حوالوں کے ساتھ نمایاں کرنے کی طرف توجہ دی ہے۔‘‘
شفیق فاطمہ شعریٰ نے مذہبی موضوعات کے تحت نسوانی جذبات و احساسات کی ترجمانی کی ہے۔ ان کی نظم ’’اسیر‘‘ بھی نسوانی جذبات و احساسات کی عمدہ مثال ہے۔ علامتی انداز میں شاعرہ نے عورت کی زندگی کی تصویر کشی کی ہے کہ کس طرح خواتین جذبات اور بند شوں کے حصاروں میں اسیر ہوتی ہیں۔
شفیق فاطمہ شعریٰ کے یہاں عصری شعور آگہی ہے وہ زمانے کے انتشار اور نئی تہذیب کی بے راہ روی سے پریشان نظر آتی ہیں۔ ان کے نزیک دنیا ایک سراپا ہے۔ جہاں امن و امان کا ہونا ضروری ہے۔ دنیا کے شور شرابے میں انسان اپنے اقدار فراموش کررہا ہے۔ اپنی تہذیب اپنی روایت کو بھول رہا ہے۔ اگر دنیا ایسے ہی گمراہی کا شکار رہی تو پھر انسانوں کے نقوش بھی نہیں ملیں گے۔ چوں کہ ان کا انداز علامتی ہے اس لیے جذبات کی شدت ان کی شاعری میں کم ابھر کر سامنے آتی ہے لیکن ان کی شاعری ایک خاموش احتجاج ہے جو شعوری طورپر امن و امان کا پیغام دیتی ہے۔ دہشت گردی، خوں خرابا اور جنگ و بارود سے پرہیز کا مشورہ دیتی ہے۔ ’’شفیع الرحم‘‘ اور ’’افتاد گاہیں نجوم کی‘‘ اسی سلسلے کی خوبصورت نظمیں ہیں۔
شفیق فاطمہ شعریٰ کی شاعری مبہم علامتوں کی حامل ہے جسے آسانی سے سمجھا نہیں جاسکتا۔ وہ نظم گو شاعرہ ہیں۔ ان کا لہجہ دھیما لیکن پراثر ہے۔ ان کے یہاں تاریخی موضوعات کی بہتات ملتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے کسی تاریخی عمارت کو سامنے رکھ کر یا کسی تاریخی مقام کو ذہن میں رکھ کر نظمیں لکھی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے یہاں نسائی حسیت، عصری آگہی اور مذہبی حسیت منفرد انداز میں ملتی ہیں۔ ان کا انداز منفردہے جو انھیں اپنے ہم عصر شعرا سے جدا کرتا ہے۔ علامتوں کے علاوہ ان کے یہاں تشبیہات و استعارات کا بھی عمدہ استعمال ہوا ہے۔ وہ بیک وقت قلب اور ذہن دونوں پر اپنا اثر قائم کرتی ہیں۔ ان کی شاعری میں ایک لطیف کیف اور اطمینان ملتا ہے۔ دوسرے شعرا کی طرح شدت پسندی ان کی شاعری میں بہت کم نظر آتی ہے۔ ان کی شاعرانہ خصوصیات کی حمید نسیم ستائش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اب تک ہمارے جدید شعرا میں راشد صاحب سب سے مشکل گو شاعر مانے جاتے رہے ہیں۔ مگر شعریٰ کا کلام میں نے دیکھا تو راشد آسان نظر آنے لگے۔ اس لیے کہ شعریٰ کے ہاں ’’جگوں‘‘ کا سفر مصرعوں میں طئے ہوتا ہے۔ راہ کے جو کھم، عزم وہمت کی استواری پھریکا یک ہزمیت و پسپائی پھر ’’ظلوما‘‘’’جہولا‘‘ نوع کی سپاری کہ اپنے لہو میں نہائی بارِ امانت اٹھائے افساں خیزاں پھر نکل پڑتی ہے۔ کہیں یکا یک مشاہدے کی چکاچوند ہے کہیں بیداری کے عالم میں ایک نازک گلپوش خواب کی لطافت ہے۔ یہ سب مقامات سیر گھلے ملے ملتے ہیں۔ سب کو دل کلیت میں قبول کرے تو پھر شعریٰ کی شاعری کا کلید مل جاتی ہے۔‘‘
مختصر یہ کہ شفیق فاطمہ شعریٰ کے یہاں جذبات و احساسات کی ترجمانی، مذہب اور روایت کے اقدار، گہرا تاریخی شعوراور عصری معنویت کا اظہار منفرد انداز میں ملتا ہے۔ ان کی علامتیں مبہم ہونے کے باوجودتہہ در تہہ معنویت رکھتی ہیں۔
٭٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!