روحی قاضی مغربی بنگال کی اہم افسانہ نگار
حامد رسول
شعبہ اردو، یونی ورسٹی آف حیدر آباد، حیدرآباد
07893799192
rasool347@gmail.com
روحی قاضی کا شمار بنگال کے اہم افسانہ نگاروں میںہوتا ہے۔ یوں تو روحی قاضی اوائل عمری سے ہی لکھتی آرہی تھیں۔ والدِ محترم کی ضد پر انھوں نے اپنی کہانیاں ’’خاتونِ مشرق‘‘ اور بعد میں رسالہ ’’سہیل‘‘ کو بھی ارسال کرتی رہی ہیں۔ روحی قاضی کے دو افسانوی مجموعے ’’سلگتی چاندنی‘‘ اور ’’نئی کہانی‘‘ منظرِ عام پر آچکے ہیں۔ ’’سلگتی چاندنی‘‘ میں 16 افسانے اور تین کہانیاں خطوط کی شکل میں ہیں۔ دوسرا مجموعہ ’’نئی کہانی‘‘ میں بھی سولہ افسانے ہیں۔ پہلے افسانوی مجموعہ میں شامل افسانوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے بیشتر افسانے عشق کی ناکامی اور یاسیت کے شکار ہیں جیسا کہ ان افسانوں کے نام سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ’’بجھتی ہوئی نگاہیں‘‘، ’’آتشِ انتقام‘‘، ’’کانٹوں کی سیج‘‘، ’’چاندنی رات‘‘، ’’جیون جیوتی‘‘، ’’دکھ کی ساتھی‘‘، ’’درد کا رشتہ‘‘، ’’اداس نگاہیں‘‘، ’’اندھیرا اجالا‘‘، ’’الجھی وادیاں‘‘، ’’خواب تعبیر‘‘، ’’خونِ تمنا‘‘، ’’بوندوں کی دستک‘‘۔ یہ وہ افسانے ہیں جن میں متوسط گھرانوں کی تصویریں ملتی ہیں۔ ان میں موجود کرداروں کے چہروں پر نامرادی کے احساسات نمایاں نظر آتے ہیں۔ ان کے افسانے ہماری روز مرہ زندگی کے نشیب و فراز کے آئینہ دار ہیں۔ متوسط طبقے کی گھریلو زندگی اور افراد کے باہمی معاملات کی پیچیدگیوں پر روحی قاضی کی نظر بہت گہری ہے۔ وہ بہت باریکی سے مرد و عورت کے تعلقات کی الجھنوں اور ان کی گہرائیوں کا مطالعہ و مشاہدہ کرتی ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ان کی کہانیوں میں چھوٹے سے چھوٹے اور معمولی سے معمولی واقعات کے اندر چھپے ہوئے غیرمعمولی احساسات و جذبات کی جھلکیاں صاف صاف دکھائی دیتی ہیں۔ اس کی بہترین مثال ’’بوندوں کی دستک‘‘ میں ملتا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو۔
’’کل ہی تو اس کی بارات آئے گی ……… اس کی سوتیلی ماں ہمیشہ کے لیے اس کو ختم کر ڈالنا چاہتی ہے اور اس کے وجود کو ملیا میٹ کردینا چاہتی ہے۔ اس کے ارمان، جوانی کے ولولے، سہانے سپنے سب بکھیر دینا چاہی ہے۔ ایک بوڑھے کھوسٹ جاہل کالے کلوٹے سے بیاہ کر ……… نہیں میں پڑھ لکھ کر بھی گھاس نہیں کاٹوں گی ………. اپنے آپ کو قربان نہیں کروں گی بغیر کسی وجہ کے مجھے دولت نہیںچاہیے۔ کیا کروں گی دولت لے کر۔ کیا ملے گا مجھے! ایک بوڑھا کھوسٹ ،جاہل شوہر۔ کون سی خوشی دے گا مجھے؟ صرف سونے اور موتی میں تولے گا! میں کوئی بے جان مجسمہ تو نہیں ہوں جو اپنے آپ کوسونے چاندی میں تلواؤں گی؟ خواہ غریب، فقیر کیوں نہ ہوں؟ ہم عمر اور پڑھا لکھا شوہر جو ہر پل پیار اور سکھ دے سکتا ہے، وہ یہ امیر سیٹھ ساہوکار، ہوس کا پجاری کیا دے گا۔اسے تو ہم جیسی معصوم کلیوںکو کچلنا اچھا لگتا ہے۔ انسان کے روپ میں یہ لوگ درندے ہوتے ہیں۔‘‘
سلگتی چاندنی از روحی قاضی صفحہ نمبر 139-140
روحی قاضی کو ادبی ذوق ورثے میں ملا ہے۔ ان کے والد محترم بدرِ عالم جلیلی شاعری کرتے تھے اور اکثر اپنے تازہ کلام روحی قاضی کو سناتے اور اس پر رائے طلب کرتے تھے جس سے ان کے حوصلہ میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور جب زندگی کی سوجھ بوجھ بڑھی تو تخلیقیت کا شوق پیدا ہوا۔ شروعات میں کچھ بھی لکھتی تھیںتو اس کا ایک قاری ان کے والد ماجد بھی ہوتے تھے اور وہ ان کی خوب حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ والد محترم کی ضد پر انھوں نے اپنی ایک کہانی ’’خاتونِ مشرق‘‘ دہلی کو بھیج دی۔ اس کہانی کو پڑھنے کے بعد ’’خاتونِ مشرق‘‘ کے ایڈیٹر عبداللہ فاروقی نے بہت سراہا جس سے انھیں مزید کہانیاں لکھنے کاحوصلہ ملا۔ روحی قاضی کا افسانہ شروع سے ہی ’’خاتونِ مشرق‘‘ میں شائع ہوتا رہا ہے لیکن ’’خاتونِ مشرق‘‘ کے ایڈیٹر عبداللہ فاروقی کے انتقال کے بعد انھوں نے اپنا افسانہ دوسرے رسالوں کو بھیجنا بند کردیا۔ کچھ عرصہ بعد رسالہ ’’سہیل‘‘ ، گیا کے ایڈیٹر ادریس سنسہاروی نے ان کی کہانیوں کو چھاپنا شروع کیا۔ یوں کہا جائے کہ روحی قاضی کے افسانوی ذوق و شوق کو ان ہی دو رسائل کے مدیران سے جلا ملی تھی۔ اقتباس ملاحظہ ہو۔
’’ویسے میں نے جو بھی کہانیاں لکھی ہیں، وہ میری غیرشعوری کوشش کا نتیجہ ہیں کیوں کہ گزشتہ بیس برسوں میں میں ایسے حالات سے دوچار رہی ہوں کہ میرا غم خوار قلم اور کاغذ ہی رہا ہے۔ جب جب میرا ذہن پریشان ہوا ہے، میں قلم کاغذ لے کر بیٹھ گئی ہوں اور ایک تخلیق سامنے آگئی ہے۔ جس سے مجھے یک گونہ سکون میسر ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اپنی کہانیوں کو کسی خاص تحریک یا کسی دوسری روایت کے خانے میں رکھ کر نہیں دیکھتی۔‘‘
’’نئی کہانی‘‘ از روحی قاضی صفحہ نمبر ۶؎
بظاہر روحی قاضی یہ کہہ رہی ہیں کہ انھوں نے کسی تحریک سے متاثر ہوئے بغیر اپنی تخلیق کو سپردِ قلم کیا ہے لیکن روحی قاضی جس فضا میں پروان چڑھ رہی تھیں، وہ ترقی پسند تحریک، جدیدیت اور مابعد جدیدیت کا دور تھا۔ بنگال کے شعراء و ادباء ان تمام نظریات سے متاثر تھے او ران کی تخلیقات میں ان کے اثرات نمایاں تھے۔ ایسے میں روحی قاضی کا ذہن ان تحریکوں سے متاثر ہوئے بغیر کیسے رہ سکتا تھا۔ دوسری طرف ان کی قربت جن ادباء و شعراء سے رہی ہے، اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ روحی قاضی کی تحریریں ان تحریکوں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی ہیں۔
’’نامناسب حالات میں قلم اور کاغذ کے علاوہ تخلیقی عمل میں جنھوں نے میرا ساتھ دیا ہے، وہ ہیں جناب سالک لکھنوی۔ ان کی پدرانہ شفقت نے مجھے ہمیشہ حالات سے لڑنے کی ترغیب دی ہے۔‘‘
’’گزشتہ پندرہ برسوں میں علمی اور ادبی دنیا میں جن لوگوں سے میں متاثر ہوئی ہوں، ان میں ایک نمایاں نام ڈاکٹر ظفر اوگانوی کا ہے، وہ میرے مشفق استاد بھی ہیں۔‘‘
’’گزشتہ دہائی میں مجھے اردو زبان و ادب کے دو اہم ستون ڈاکٹر مظفر حنفی اور ڈاکٹر عنوان چشتی سے ملنے اور تبادلۂ خیال کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔‘‘ نئی کہانی‘‘ از روحی قاضی صفحہ نمبر 6-7
مندرجہ بالا اقتباسات کو پڑھنے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ روحی قاضی ترقی پسند تحریک سے متاثر تھیں۔ افسانہ ’’ہڈیوں کے فریم‘‘ میں رحمٰن چچا اور ندیم کے درمیان جو تبادلۂ خیال ہوتا ہے، اس سے بھی یہ واضح ہوجاتا ہے کہ روحی قاضی کے افسانے ترقی پسند تحریک کے اثرات سے خالی نہیں ہیں۔ اقتباس ملاحظہ کریں۔
’’ہاںوہ تو ہے۔ نظر نظر کی بات ہے۔ کوئی عظیم عمارت کو دیکھ کر حیرت میں پڑجاتا ہے تو کوئی اس عظیم عمارت کے نیچے مٹی اور ٹاٹ کے بنے گھروندوں کو دیکھ کر حیرت میں پڑ جاتا ہے جن میں جانوروں کی طرح جھک جھک کر چلتا پھرتا چار پیروں والا انسان رہتا ہے۔‘‘
’’جی ہاں! اسٹیشن سے یہاں آتے وقت جگہ جگہ کے فٹ پاتھوں پر بسے ہوئے لوگوں کو میں نے بھی حیرت سے دیکھا تھا ……. اتنا بڑا شہر اور اتنی مفلوک الحالی۔
دراصل آج کا آدمی حد سے زیادہ خودبین ہوگیا ہے ……… یہاں تک تو ٹھیک ہے چچا جان کہ آج کا آدمی خودبین، خودغرض ہوگیا ہے لیکن مفلوک الحالی کا وہ تو ذمہ دار نہیں۔ اس کے ذمہ دار تو وہ لوگ ہیں جن کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور ہے۔‘‘
نئی کہانی از روحی قاضی، صفحہ نمبر57-58
افسانہ نگار کی تحریر میں احتجاج کا شعلہ صاف دکھائی دے رہا ہے۔ سیاست اور سماج کے ٹھیکیدار لوگ حق تلفی کے وقت غریبوں کا استعمال کرتے ہیں، بڑے بڑے وعدے کرتے ہیں لیکن تخت نشیں ہونے کے بعداپنی طرف سے کیے ہوئے سارے وعدوں کو بھول جاتے ہیں اور صرف اپنے ہی فائدے کی سوچتے ہیں۔ اقتبا س ملاحظہ کیجیے۔
’’صرف اتنا ہی سوچ لینے سے بات ختم نہیں ہوتی۔ باگ ڈور جن کے ہاتھوں میں ہے، وہ کہاں سے آتے ہیں۔ انھیں خود پرستوں کے حدود سے نکل کر غریبوں کی غریبی دور کرنے کا وعدہ کر کے انھیں نئی زندگی کا خواب دکھا کر، ان کے سروں پر چھت اور بدن پر کپڑے کی امید دلا کر ان سے کاغذی نوٹ حاصل کرلیتے ہیں اور اس کے بعد سب وعدے، سارے خواب بھول کر اپنی کرسی، اپنا وعدہ، اپنا مستقبل خود بینوں کو یاد رہ جاتا ہے۔ غریب کا کپڑا اور پھٹنے لگتا ہے، ان کا پیٹ، ان کی آنکھیں دھنسنے لگتی ہیں پھر سروں پر چھت کو کون پوچھتا ہے۔ ساری دولت چند ہاتھوں میں سمٹ جاتی ہے۔ اجرت آٹھ آنے بڑھتی ہے تو چیزوں کی قیمتیں بارہ آنے بڑھ جاتی ہیں۔ پھر مفلوک الحالی بڑھے گی نہیں کیا ہوگا …….. ایک طرف سلائی سے بچوں کا پیٹ پالنے والی ایک غریب عورت تیس روپے کا چشمہ نہیں لے سکتی ہے تو دوسری طرف آنکھوں کانور بڑھانے کے لیے تین ہزار میں ٹی وی آجاتی ہے۔ کوئی پھٹی جیب والا مجبوربیس پیسے کے لیے دھکا دے کر بس سے اتار دیا جاتا ہے تو کوئی حیثیت والا بڑی آسانی سے بیس ہزار کی گاڑی لے آتا ہے۔ یہ نابرابری جب تک رہے گی، خود بینی کا مرض باقی رہے گا۔ دولت چند مٹھیوں میں مقید رہے گی۔ انسانیت چیختی رہے گی اور چیختے چیختے دم توڑ دے گی اور نہ جانے کیا کیا ہوگا۔‘‘
’’نئی کہانی‘‘ از روحی قاضی صفحہ نمبر 58-59
روحی قاضی کے افسانوں میں رومان اور تخیل کے علاوہ زیادہ زور حقیقت نگاری پردیا گیا ہے۔ انھوںنے صرف افسانہ نگاری نہیں کی بلکہ ناول بھی لکھے ہیں لیکن ان کا اصل میدان افسانہ نگاری ہے۔ وہ زندگی کے رنج و مصائب کو بڑی باریک بینی سے لکھتی تھیں اور حقیقتوں کو بے نقاب کرتی تھیں۔ روحی قاضی زندگی بھر استحصال اور ظلم کے خلاف جد و جہد کرتی رہیں۔ یہ جد و جہد حق کی آواز تھی، صداقت کا اعلان تھا۔ روحی قاضی نے خصوصیت کے ساتھ ترقی پسند افسانے تخلیق کیے جو اپنے اندر ایک خاصل دلکشی لیے ہوئے ہیں۔ اگرچہ وہ ترقی پسند تحریک سے براہ راست تعلق نہیں رکھتی تھیں پھر بھی ان کا طرزِ تحریر ترقی پسند تحریک کے زیر اثر ہونے کا غماز ہے۔ وہ عورتوں اور غریبوں کے ساتھ ہونے والے استحصال کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرتی ہیں۔ وہ صرف اور صرف کمزور طبقے کو زندگی کے نشیب و فراز سے متاثر پاتی ہیں۔ تعلیمِ نسواں کی طرف بھی ان کا خاص خیال رہا ہے۔ اقتباس ؎
’’جی ہاں وہ پروفیسر ہی تھے، وہ ترقی پسند کہلاتے تھے لیکن تھے وہ قدامت پسند اور ظاہری چمک دمک کے دل دادہ۔‘‘
’’تمھاری تعلیم کہاں تک ہے؟‘‘
’’میں نے میٹرک پاس کیا ہی تھا کہ اباّ نے شادی کردی۔‘‘
’’وہ خود تو اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے تو تمھیں آگے کیوں نہیں پڑھایا؟‘‘
’’کہا نا! سیما صاحبہ! کہ وہ پرانے خیالات کے مالک تھے۔ ان کا خیال تھا کہ زیادہ تعلیم سے عورت خراب ہوجاتی ہے اور پھر مرد کے مقابلے کی تعلیم ہوگئی تو بیوی شوہر کا مرتبہ نہیںسمجھ سکے گی۔‘‘ صفحہ نمبر 94-95
روحی قاضی کے افسانے متوسط گھرانوں کی روزمرہ زندگی سے عبارت ہے جس میں نمودار ہونے والے واقعات فرد کی زندگی کو الٹ پلٹ دیتے ہیں۔ اس کی مثال روحی قاضی کا افسانہ ’’کال کوٹھری ‘‘ ہے جس میں زندگی کی بے ثباتی کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ ایک چھوٹے سے گھر میں ماں، باپ، بیٹا بہو، بیٹی داماد، خود کی جوان بیٹی، پوتا پوتی، نواسہ نواسی تقریباً تیرہ لوگ اور اس پر زندگی کے دن رات کا سارا کاروبار اسی ایک کمرے میں چل رہا تھا۔ اس کہانی میں ایک غریب گھرانے کی حالتِ زار کی عکاسی کی گئی ہے اور کمزور بے بس بوڑھے ماں باپ جو سب کچھ جانتے ہوئے بھی بے بس اور بے حس معلوم ہوتے ہیں۔
’’ نہیں شکیلہ تم جا کر سو رہو۔ میرا تو کمرے میں دم گھٹ جائے گا۔ یہ سوچ کر کہ ایک چھوٹے سے کمرے میں تمھارے ماں باپ، بھائی بھابھی اور ان کے بچے ، تم اور پھر میں، باپ رے باپ۔‘‘
نئی کہانی از روحی قاضی صفحہ نمبر- 69
جوان لڑکی، اس کے جذبات، رات کے وقت کچن میں شکیلہ اور فریدہ کے سونے کا منظر، اس کی سہیلی کا رات میں واپس گھر آنا اور وہ مکالمہ، پھر سہیلی کے گھر جا کر رہنا، وہاں اس کے بھائی کی بدسلوکی اور اس کی مخالفت کرنے کے بجائے خوشی خوشی اس کی بیوی بننے کاارداہ کرلینا۔ یہ سارے منظر و واقعات دل دوز انداز میں پیش کیے گئے ہیں۔
افسانہ ’’تاریک گلیاں‘‘ میں افسانہ نگار نے کلکتہ شہر کے متوسط مسلم گھرانوں کی ابتر صورتِ حال کی عکاسی کی ہے۔ اس افسانے میں کلکتہ کی علاقائی زبان کو استعمال کیا گیا ہے۔ ’’نئی‘‘ بمعنی نہیں، ’’ہپتے ہپتے‘‘ بمعنی ’’ہفتہ ہفتہ‘‘، ’’کھیر‘‘ بمعنی ’’خیر‘‘، ’’اُو‘‘ بمعنی ’’وہ‘‘، ’’سووا‘‘ بمعنی ’’سویا‘‘، ’’ٹھونگا‘‘ بمعنی ’’لفاف‘‘، ’’ناگہ‘‘ بمعنی ’’غیرحاضر‘‘ اور ’’بڈڈے‘‘ بمعنی ’’برتھ ڈے‘‘ (Birthday) استعمال کیا گیا ہے۔ کلکتہ کی زبان کی اچھی مثال اس وقت دیکھنے کو ملتی ہے جب ماں اپنی بیٹی کو پڑھنے جانے سے روکتی ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔
’’ماں ہم کو آج اسکول جانے دو، آج سنیچر ہے، باجی بولی ہے سنیچر کو ناگہ ہوگا تو نام کاٹ دے گی۔‘‘
’’کیوں رہے۔ سنیچر کو تیری باجی کا کوئی بڈ ڈے (برتھ ڈے) ہے جو ناگہ نہیں ہوگا۔‘‘
’’نئی ماں، ہر سنیچر کو باجی امتحان لے ہے۔‘‘
’’ارے جا۔ چھ مہینہ کا امتحان سنا تھا، ایک سال کا امتحان سنا تھا، ای ہپتے ہپتے کا امتحان کب سے پیدا ہوگیا۔ کھیر تو گئی حرامجادی آج تو دکان میں ٹھونگا کون پہنچائے گا تیرا باپ۔ او سالا تو جوا شراب کے بعد دو بجے سوا ہے بارہ بجے سے پہلے نہیں اٹھے گا۔‘‘
’’نئی۔ چاہے جتنا مارو، ہم تو آج کا امتحان ناگہ نئی کریں گے۔‘‘
نئی کہانی از روحی قاضی صفحہ نمبر 103-104
روحی قاضی نے دنیا کی حقیقت کو کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ وہ اپنے کردار حقیقی زندگی سے منتخب کرتی ہیں۔ عام طور پر یہ کردار متوسط اور نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے افسانوں کے کرداروں میں ان کے ذاتی تجربات و مشاہدات موجود ہیں۔ ان کے افسانوں کے کردار میں ان کے تجربات و مشاہدات موجود ہیں۔ گھٹے گھٹے ماحول میں سسکتی دم توڑتی لڑکیاں ان کے افسانوں کا کردار بنتی ہیں اس لیے ان کے افسانوں کی فضا جانی پہچانی سی لگتی ہے۔ متوسط اور درمیانی طبقے کے وہ افراد جو سماج میں آس پاس موجود ہیں، وہ ان کرداروں کے باطن کا مشاہدہ کرتی ہیں اور اس مشاہدے میں وہ ان کے توہمات، ان کی جہالت، ان کی غربت، عاشقانہ جنون سب کچھ کا انتخاب کرتی ہیں اور ان مسائل کو بڑی خوبصورتی سے بیان کردیتی ہیں۔
روحی قاضی کے افسانوں میں جو نقطۂ نظر بطور خاص نمایاں ہے، وہ ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کرنا، کمزور اور نچلے طبقات کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو پیش کرنا، ان کے احساسات و جذبات کی دنیا کو جو کہ ان کی نظر میں بڑی اہم ہوتی ہے، لوگوں کے سامنے پیش کرتی ہیں۔ خاص کر غریب طبقے کے افراد کی زندگی کو بھرپور طور پر سمجھنا ہی دراصل ایک حساس ترقی پسند افسانہ نگار کا فرض ہے۔ روحی قاضی کی تحریر میں یہی سوچ اظہر من الشمس ہے۔
***
Leave a Reply
Be the First to Comment!