ذوقِ جمیل ایک جائزہ (یوسف جمیلؔ جامعی کا شعری مجموعہ ’’ذوقِ جمیل‘ؔ‘)

ڈاکٹرشاہ جہاں

بیگم گوہرؔ کرنولی، گیسٹ لیکچرر، ڈاکٹر عبدالحق اردو یونی ورسٹی، کرنول، آندھراپردیش،انڈیا۔

تحلیل نفسی کی رو میں یہ کہا جاتا ہے کہ ادیب یا شاعر نارمل انسان ہوہی نہیں سکتا ۔ ادیب اور شاعر کا قلم کسی اندرونی طاقت سے چلتا ہے۔ جس طرح بچہ کھیل میں لگ جاتا ہے ویسے ہی فن کار اپنے فن میں غیر اختیاری طور پر مصروف ہوتا ہے وہ اپنے احساسِ جرم کے لئے خفاظتی تدابیر ڈھونڈھتا ہے اور اس کا لاشعور اس کی تحریروں میں نمایاں ہوجاتا ہے ۔ جس کا تعلق شعور ہے ہی نہیں۔ جو بات حسیات سے ہوتی ہوئی شعور سے تحت شعور میں بس جاتی ہے۔ شعوری  محسوسات لا شعوری طور پر قلم کے ذریعہ صفحہ قرطاس پر بکھر جایا کرتے ہیں۔

صوبۂ آندھرا پردیش کا خطہ رائلسیما کا مشہور شہر کرنول ہے۔ شہر کرنول کے جن شعراء نے غزلوں میں خوش آہنگی گہرائی۔ گرائی، تنویم ، رنگارنگی دلآویزی اور بلند پروازی کے ذریعہ اپنے شعری قامت کو منوایا ہے۔ ان میں ایک بہت ہی اہم نام یوسف جمیلؔ جامعی کا ہے۔ جو شاعری کے توسط سے دینی جذبات اور فکری احساسات کو پیش کر کے مذہبی روش کی نشاندہی کی ہے۔

انکے مضامین لکھنے کا انداز سب سے جدا گانہ ہے امیر علی خان یسیرؔ، مولوی عبدالغنی صاحب غنی کی شاگردی سے انہوں نے امور شاعری اور لسانی ادراک حاصل کیا ہے۔چنانچہ تاثراتی مضامین میں لکھتے ہوئے شدید انداز میں تنقید و تادیب کرجاتے ہیں اور اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے مدلل جواب دیتے ہیں۔

جمیلؔ جامعی کے شعری سفر کی ابتداء 1968 ؁ء سے ہوئی ۔ اس لحاظ سے ان کی شاعری کی عمر پیتالیس سال سے تجاوز کر چکی ہے۔ جو ان کے کہنہ مشق ہونے پر دلالت کرتی ہے۔

یوسف جمیلؔ جامعی تہہ دار شخصیت کے مالک ہیں جہاں آپ ایک شاعر ، مولوی ، واعظ ، استاد، مصلح قوم اور مبلغ اسلام بھی ہیں۔ شاید یہی وجہہ ہے کہ  ایک مولوی کے لئے شاعری کے ذریعہ طعنہ کشی کرنا نہایت ہی غیر ممکن بات ثابت ہوئی۔

مشاعرے یوں ہی منعقد نہیں ہوا کرتے ۔ شعری تصانیف ایسے ہی شائع ہوکر ادب کے خزینے میں پیش بہا اضافہ نہیں ہوا کرتے۔ سچ تو یہ ہے کہ جب قاری یا سامع کوئی اچھا شعر پڑھتے یا سنتے ہیں تو ان کو یوں محسوس ہوتا ہے گویا ان کے خیالات و جذبات کی سچی اور موثر ترجمانی کی گئی ہے۔ دکھوں کا موثر اظہار کیا گیا ہے لوگ شاعر کی خدمت میں عقیدت کے پھول اور ہدیہ تشکر پیش کرتے ہیں اور اس کے جذبہ انسانیت کو سراہتے ہیں۔

زیر مطالعہ مجموعہ  ’’ ذوق جمیلؔ  ‘‘  شاعر کا دوسرا ضخیم شعری مجموعہ ہے جو 368 صفحات پر مشتمل جس کا پہلا حصہ موضوع اصناف (2)حمد،  (3)مناجات ، (20) نعتیں ،  (2)منقبت پر مشتمل ہے دوسرا حصہ جس میں  (32)رباعیات، (42) قطعات پر مبنی ہے اور تیسرا حصہ جو اس مجموعہ کلام کا اہم حصہ ہے  (108) غزلیات سے متعلق ہے۔ چوتھے حصے میں نظمیں  (37) منظومات شامل ہیں۔ اس کے بعد  (18) ترانے، (9) شخصیات ،  (35)تہنیات،  (18)وفیات اور(22)طنز و مزاح کے حصے شامل ہیں اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ شاعر اپنے فطری مزاج سے کس قدر ہم آہنگ ہے۔

زیر نظر مجموعہ میں شاعر نے  ’’ حسن انتساب‘‘ کے تحت دو بیتی شعر میں اپنی عقیدت سے ملفوب جذبات کو پیش کیا ہے۔

یہ صبح و شام وجود و کرم ، سب اُسی کے ہیں

’’ذوقِ جمیل ‘‘ کے یہ بھرم ، سب اُسی کے ہیں

منسوب ہیں جمیلؔ سبھی اُس کے نام سے

اقراء بیان ، لوح و قلم ، سب اُسی کے ہیں

      (ص-   3)

زنجیرذوق (فہرست ) کے بعد’’ پیام مسرت‘‘ کے عنوان سے عبدالقاسم جامعی شعر و ادب کی حقیقت اسلام کے متعلق یوں رقمطراز ہیں  ’’ شعر و ادب ہر زمانے میں مطلوب و محبوب رہا ہے۔ اسلام نے بھی اسے نظر استحسان سے دیکھا اور سراہا ہے قرآن کریم کی سورئہ شعراء کی آیت 224کے دائرے  سے نکل جائے تو شعر فرد اور معاشرے کی اصلاح کا بہترین ذریعہ ہے ‘‘ (ص-   5 ) ۔

’’پیام تبریک ‘‘ کے عنوان سے عبدالوہاب عبدالعزیز جامعی جامعہ محمدیہ قریب رائیدرگ کے طالب علمی کے زمانہ کو یاد کرتے ہوئے رقمطراز ہیں   ’’ اُن دنوں آپ بیت بازی اور ادبی انجمنوں کے میر مجلس ہوا کرتے تھے۔ اور میں نے برادرِ مکرم کی ملنساری و سادگی ساتھی طلباء کے ساتھ محبت والفت کے سبب آپ کے گروپ میں رہنا پسند کیا۔ کم عمری ہی سے آپ کی افتادِ طبع شاعرانہ تھی۔ مسلسل مشقِ سخن محنت و مشقت نے اور پھر کرنول جیسے ادبی ماحول نے

آپ کے کلام میں نکھار پیدا کیا۔ انکی غزلوں میں نازک خیالی ، معنی آفرینی، قدرت بیانِ سوز و گداز، درد مندی روانی سلاست صاف جھلکتی ہے۔

ذیل کے اشعار اس کے شاہد ہیں   ؎

فرارِ راہ ممکن ہی نہیں ہے حضرت یوسف

وہ گیسوئے پریشاں سے جو کار دام لیتے ہیں

بہا لیتا ہوں دو آنسو شب غم اس تصور میں

چھپا ہے دردِ دل جو بن کر اشک غم نکلے

      (ص-7)

جمیل جامعی ایک قادر الکلام شاعر ہیں آپ کو تمام اصناف سخن پر یکساں عبور اور شعر کہنے کی بے پناہ مشق حاصل ہے۔ اس ضمن میں’’ تسلسل میںآگے جمیلؔ جامعی شعور و آگہی کا شاعر ‘‘کے عنوان سے سید عارف نعمانی کا مضمون ہے۔ جس میں موصوف شاعر کے متعلق رقمطراز ہیں

’’ شعر کہنے کے لئے آپ کو کسی خاص وقت یکسوئی اور موڈ کی ضرورت نہیں ہے بلکہ آپ کسی بھی موضوع پر فی البدید اشعار کہنے پر قدرت رکھتے ہیں۔ چند نعتیہ

اشعار   ؎

یہ عطر بیزرا ہیں یہ چاند سے اُجالے

شاید گذر ہوا ہے سرکار کا اِدھر سے

سدرہ پہ منتہی ہوئی پرواز جبرئیل

اس پار جبرئیل تو اس پار ہیں حضور ؐ

    (ص  –  11)

متاعِ جمیل کے عنوان سے ڈاکٹر قیسی قمر نگری کی آرا بھی شامل ہے۔ جس میں وہ رقمطراز ہیں

’’ وقت نے دیکھا کہ ادب برائے زندگی کو راہ مل گئی یوسف جمیلؔ کا زیر نظر مجموعہ کلام بایں وجہ بھی قابل قدر ہے کہ اس میں انسانی فطرت کے گوشوں کی عکاسی کی گئی ہے جو ہر انسان کی زندگی کا لازمہ ہے۔ جمیلؔ کی شاعری میں اخلاقیات کی طرف رہنمائی کی گئی ہے بلکہ جنوبی ہند کی اردو تاریخ عموماً اور کرنول

کی اردو تاریخ خصوصاً  ’’ذوق جمیل‘‘ کی اشاعت کے ذریعہ اپنی خوبروئی میں اضافہ کی دعویدار ہوگی   ؎

واقعی مشہور ہو ذوقِ جمیلؔ

نظر بد سے اور ہو ذوقِ جمیلؔ

ہر محبِ شاعری کے قلب میں

ہے دعا محصور ہو ذوقِ جمیلؔ

     (ص-   15)

اسی صف کا اگلا مضمون ’’ذوق جمیل –   ایک تعارف ‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر وحید پاشاہ کوثرؔ نے اپنے تاثرات کو پیش کیا ہے۔

’’ جمیل جامعی کی فکر کا محور مذہب اسلام اور مشرقی اقدار ہیں‘‘۔  ’’ ذوق جمیل ‘‘ ان کی انہی کی دو باتوں کا آئنہ دار ہے اب وہ غزل کہیں یا قطعہ ، رباعی کہیں یا نظم یا پھر کوئی اور صنفِ شاعری میں طبع آزمائی کریں۔ ان کے خیالات کے سوتے ان اسلامی فکر اور مشرقی اقدار کی محبت ہی سے پھوٹتے ہیں وہ

غزل بھی کہتے ہیں تو حمد کا پہلو نکل آتا ہے یہ شعر ملاحظہ ہوں   ؎

یہ غنچے کی چٹک یا طائروں کی نغمگی کیا ہے

چمن والے بھی اس کا نام صبح و شام لیتے ہیں

ایک مین ہی نہیں ہوں ترے دیدار کا طالب

ہر ذرّہ ہے اک دیدئہ بینا مرے آگے

    (ص –   17)

جمیلؔ جامعی کی شاعری میں اپنے عہد کے مسائل سماجی ، سیاسی، معاشرتی، سماج اور حالات کا درد ، زندگی کے گرد و پیش کے علاوہ ان کے اپنے جمالیاتی عہد کی دبی دبی چنگاریوں کی آنچ بھی ملتی ہے۔ جمیلؔ جامعی کی شاعری کے طویل سفر کے عہد میں ادب میں نئی تحریکوں اور نئے رجحانات نے جنم لیا اور ادبی نظریوں نے ہیت بدلی ،نکتہ ہائے نگاہ میں تبدیلیاں بھی آئیں لیکن ان کی طبعی فکر نے محض تقلید ی جنوں میں اپنی روش اظہار و فن نہیں بدلی، انہوں نے

اپنے شعری عمل کو روایت وجدید یت کے حصار سے دور رکھ کر مہمل گوئی سے خود کو بچائے رکھا اور اظہار سخن میں معنویت کو اہمیت دی۔

’’ عقد نامہ سخن‘‘ کے عنوان سے جمیلؔ جامعی کی شاعری کے پابند پہلوں کو اُجاگرکرتے ہوئے رئوف خیر یوں رقمطراز ہیں

’’ یوں بھی غنائیت میں اگر کمی پیشی ہوتی ہے تو سماعت کو ٹھوکر لگتی ہے اس لئے آپ پابند شاعری میں یقین رکھتے ہیں۔ آپ کی نظمیں پابند شاعری کے دلغریب نمونے ہیں۔ حمد، نعت ، منقبت قطعہ رباعی وغیرہ میں یوسف جمیلؔ کی فکری قدآوری دو رہی سے پہچانی جاسکتی ہے۔ آپ اپنے صالح خیالات کوبڑے سلیقے سے پیش کرکے اپنے سر و شانہ بلند Head and Shoulder above   ہونے کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ ظاہر ہے مولانا جمیلؔ کے بھٹکنے کا کوئی موقع نہیں ہے کہ ہر ہر قدم پرقرآن و سنت سے ان کی وابستگی ان کو سنبھال دیتی ہے۔

چڑھ جائے کسی منڈو ے پر وہ بیل نہیں ہے

بے سمت چلی جائے جو وہ ریل نہیں ہے

لاریب کہ پابند ہے اک نظم کی ہر شئے

یہ کام جو اُمت کا ہے کچھ کھیل نہیں ہے

    (ص-   23)

اگلا  ’’ پیش لفظ‘‘ ہے’’ جو جاگتے خوابوں کی نذر‘‘ کے عنوان سے محمد انور محمد قاسم جامعی سلفی مرکز دعوۃ الحالیات کو یت کی جانب سے آپ کی چالیس سالہ دینی دعوتی ، علمی ادبی رفاہی اور جماعتی خدمات پر آب کی خدمت میں ایوارڈ پیش کیا گیا۔ اسکا ذکر کرتے ہوئے۔ سورہ شعراء ’’224،220‘‘ کی قرآنی آیت کے حوالے سے شاعری کی افادیت میںلکھا ہے۔

’’ میدان جنگ و جہاد میں جہاں آپ  ؐ سیدنا سعد بن ابی وقاص  ؓ  سے فرمارہے ہیں۔ ’’ ارُم یا سعد افداک ابی وامتی ‘‘ ترجمہ  :  اے سعد ! تم پر میرے ماں باپ قربان تم تیر پھنکو تو جب شعر و سخن سے مشرکین کا جواب دینا ہو تو سیدنا حسان ثابت ؓ  کو حکم ہوتا ہے قل وروح القدس معک  ‘‘  ترجمہ  : اے حسان آپ شعر کہتے جائیں روح القدس یعنی جبرائیل علیہ السلام ) آپ کی مدد کے لئے آپ کے ساتھ ہیں اور ذوق جمیل کی اشاعت پر مبارکباد دیتے ہوئے شعر لکھا ہے   ؎

خدا کرے فضا یونہی یہ خواب جاگتے رہیں

یہ خوشبوئیں جواں رہیں گلاب جاگتے رہیں

    (ص-   27)

’’حرف جمیل‘‘ کے عنوان سے خود شاعر نے اپنے پہلے شعری مجموعہ کلام  ’’عکس جمیل‘‘کا ذکر کیا ہے جو 1993 ء میں اُردو اکیدیمی اندھرا پردیش کی جزوی مالی تعاون سے شائع ہوکر کرنول کے ادبی و علمی حلقوں میں قدر کی نگا سے دیکھا گیا۔ زیر نظر مجموعے میں شاعر نے سب اصناف پر طبع آزمائی کئی

ہے۔ یہ مجموعہ ہوتے ہوئے کلیات کے رمزے میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ اس کے متعلق اپنے احساسات کا اظہار کرتے ہوئے شاعر یوں رقمطراز ہیں۔

’’ ذوق جمیل ‘‘ (میرے دوسرے مجموعہ کلام) یہ مجموعہ جیسے میں کلیات ‘‘ کی حیثیت دنیا چاہ رہا تھا۔ ڈاکٹر قیسی قمر نگر ی کے مشورے پر  ’’ مجموعہ ‘‘ کی حیثیت دینے پر اس لئے مجبور ہوا کہ شاعر کے حسین حیات ’’کلیات کی اشاعت کی رسم نہیںہے (اگرچہ کہ اس روایت کو کہیں کہیں توڑ ابھی گیاہے) اس لئے یہ’’ مجموعہ ‘‘ مجموعہ ہوتے ہوئے بھی کلیات ہی کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیونکہ میں نے اس میں اپنے ادبی سفر کے آغاز سے لیکر آج تک کے کلام کو یکجا کر دیا ہے یہ

سوچ کر کہ زندگی وفا کرے نہ کرے ‘‘(ص- 28)

دعا ہے کہ اللہ آپ کو لمبی عمر عطا فرمائے آمین ۔ زیر نظر مجموعہ ’’ ذوقِ جمیل ‘‘ کے عنوان سے شاعر کے قلم شاعری کی پختہ عظمی اور شاعرانہ روش کے عروج کا پتہ دیتا ہے ’’حرفِ جمیلؔ‘‘ میں مولانا نے لکھا ہے بقول حسرت    ؎

ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی

اک طرفہ تماشا ہے حسرتؔ کی طبیعت بھی

زیرِ نظر شعری کتاب کی شاعری کسی رومانیت پسند ذہن کی پیداوار نہیں بلکہ ایک سنجیدہ ذہن کے اظہارِ ذات و کائنات کا منظر نامہ ہے اور اس منظر نامے میں ان کی مذہبی حیثیت بھی عود کر آئی ہے پہلی ہی حمد میں وہ خالقِ کائنات وحدانیت کا اقرار اللہ کی ذات کے سوا کچھ نہیں جس نے اُس کو پالیا وہ جہاں کو پالیا۔ یقین کامل کا ایک تفصیلی بیان پیش کیا ہے۔ حمد باری تعالیٰ کے چند اشعار   ؎

ترے نام ہی سے باقی ہے عبادتوں کی عظمت

ترے نام جو نہیں ہے کوئی بندگی نہیں ہے

تجھے پالیا ہے جس نے وہ جہاں پالیا ہے

ترا وصل میرے مولا کوئی دل لگی نہیں ہے

ترا ذکر ذکرِ آخر، تری فکر فکرِ آخر

ترے بعد اب کسی کو پائندگی نہیں ہے

    (ص-   35)

اپنی اس فریادمیں ان کے ذہن و دل کا مذہبی شعور ، وسعتِ قلبی اُبھر کر آتا ہے وہ کس قدر مذہبی ہیں۔ جس کا ثبوت ان کے حمدیہ، نعتیہ اور منقبت و مناجات کے مطالعہ سے ملتا ہے نعتِ رسول ایسی صنف سخن ہے جس کا سلسلہ ابد تک جارہی رہے گا۔

نعتِ ’’شافعِ محشر  ؐ ‘‘ سے کچھ اشعار   ؎

حق کی تجلیات کا اظہار ہیں حضور ؐ

اُوجِ فلک پہ مطلعِ انوار ہیں حضور ؐ

کل انبیاء کے ہاتھوں تھی جس دن کی بناء

اُس دین حق کے خاتم ومعمار ہیں حضور ؐ

یہ آپ ؐ کی شفاعت کبریٰ ہی ہے جمیلؔ

محشر میں عاصیوں کے بھی غمخوار ہیں حضور ؐ

    (ص-   47)

شاعر عموماً رباعی اُس وقت لکھنا شروع کرتا ہے جب وہ دوسرے اصناف سخن پردسترس حاصل کرلیتا ہے۔

جمیلؔ جامعی نے ’’ ذوق جمیل‘‘ میں چوکا دینے والے قطعات اور رباعیات کہہ ہیں جو انکے عمدہ صلاحیتوں کے غماز ہیں۔

آپ کے کلام میں نمایاں چیز ادبِ اسلامی کی پہچان ہے ایک رباعی ملاحظہ فرمالیں    ؎

بُت کفر کا توڑو بھی مسلمان بنو

قرآن کی تعبر کا سامان بنو

حیوانوں کی دنیا میں کمی ہی کیا ہے

ہو آدمی لیکن ذرا انسان بنو

     (ص-   65)

جمیلؔ جامعی عمر عربی ہائی اسکول کرنول کے فارسی زبان و ادب کے اُستاد رہے ہیں۔ جہاں کا ماحول یکسر مذہبی تھا۔ یہ قطعہ انکے جذبات کی ترجمانی ہے   ؎

علم کی شمع ہر اک سمت جلاتے جائو

تیرگی جہل کی دنیا سے مٹاتے جائو

ہو اگر علم کے پروانے بلا خوف جمیلؔ

کو ہساروں کو بھی گلزار بناتے جائو

     (ص –  81)

اس تصنیف میں شامل ترانہ ’’ہم مسلمان ہیں‘‘ کو پڑھتے ہوئے بے اختیار علامہ اقبالؔ کی یاد آجاتی ہے ان کا ترانہ ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘‘ میں جذبہ کی وہی شدت اور وہی اضطراب محسوس کیا جاسکتا ہے جو اقبال کی فکر کا خاصہ ہے اس سے اس بات کی بھی نشاندہی ہوتی ہے کہ شاعر نے صرف اقبال کو پڑھا اور سمجھا ہے بلکہ ان سے ذہنی سطح پر اکتساب بھی کیا ہے ترانہ ’’ہم مسلمان ہیں‘‘ جس میں مسلمانوں کے کردار کی عظمتوں اور اسلام کی عظمت کے خاکے کو ابھارنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ دشمنوں کے ناپاک ارادوں اور سازشوں کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔

دراصل یہ نظم محب وطن اور اہلِ ایمان کیلئے ایک وعید کی حیثیت رکھتی ہے اسی تسلسل میں کتاب میں شامل دوسرے اصناف کا بھی مطالعہ کیا جاسکتا ہے ترانہ کا ایک بند ملاحظہ فرمالیں    ؎

ہم محب وطن اہلِ ایمان ہیں

حاملیں حدیث اور قرآن ہیں

حسن سیرت و صورت میں اک شان ہیں

دین حق کی شریعت کی پہچان ہیں

ہم کہ اخلاق حسنہ کا فیضان ہیں

ہم مسلمان ہیں ہم مسلمان ہیں

  (ص-   229)

علامہ اقبال کی طرح جمیلؔ جامعی نے بچوں کے لئے بھی بہت ساری نظمیں ہی ہیں جن میں حب وطن (15اگست) میں اخوات بھائی چارگی کاعُنصر نمایاں ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمالیں۔

ہے جانِ و دل سے پیارا ہندوستان ہمارا

ہم سب مکیں ہے اس کے یہ ہے مکاں ہمارا

ہند و ہو یا کہ مسلم سکھ ہو کہ یا عیسائی

وابستہ ہر کس سے دردِ نہاں ہمارا

خاکِ وطن میں یوسفؔ خونِ جگر ہے شامل

حق ہے جہاں سبھی کا حق ہے وہاں ہمارا

  (ص-   229)

جمیلؔ جامعی کی شاعری میں طنز ومزاح کا پہلو بھی کار فرماہے اس قطعہ میں انہوں نے سماج کی ایک خطر ناک رسم ’’جہز‘‘ کے خاتمہ کی طرف توجہ  مبذول کراوئی ہے قطعہ ملاحظہ فرمالیں

مانگنا سرال سے تو چھوڑدے

رسم باطل ہے اسے توڑدے

مرد ہے تو مرد کی پہچان بن

مانگنے والوں کی انکھیں پھوڑ دے

  (ص-   366)

ان کی بے شمار نظمیں حالات اور مسائل کی موثر نمائندگی کرتے ہوئے انسانیت کو درس عبرت سے وابستہ کرنے کا سلیقہ رکھتی ہے۔غزل کی شاعری میں انہوں نے فکر وفن کی گہرائی کے ساتھ ساتھ حسن و عشق کی شادابی کی طرف بھی توجہ دی ہے

وفائے عشق کی راہوں میں جب بھی دوقد نکلے

ہزاروں منزلیں آئیں ہزاروں پیچ و خم نکلے

    (ص-   93)

وہ برق روسا لمحہ تری دید کا جو گذرا

پروان چڑھ رہی ہے اس چاہ چپکے چپکے

    (ص-   92)

پھولوں کو چھوڑ خار سے دامن کو بھر لیا

شاید کسی کو پانے کا اک یہ بھی ڈھنگ

    (ص-   98)

یہ کوئی بات ہوئی راہِ وفا میں ہمدم

ہم بلاتے ہی رہیں اُن سے نہ آیا جائے

  (ص-   108)

جمیلؔ جامعی تصورات سے زیادہ حقائق کی پردہ دری کے عادی ہیں اس کے مفمرات سے واقف ہیں انھوں نے شعوری اور مکمل آگہی کے ساتھ ان جذبات اور احساسات کو عیاں کیا ہے جو بظاہر متاثر کن نہیں ہوئے اور ہماری زندگیوں میں رونماہونے والے واقعات کی نفسیات وضاحت بھی کرتے ہیں اور یہی ان کی شاعری کا روشن اور ضیا بار پہلو ہے۔

اپنی کوشش کا فقط اتنا خلاصہ ہے جمیلؔ

اک زمین آتی رہی اور آسماں جاتا رہا

 (ص-194)

وہ جانتے ہیں اپنی تو فاقوں پہ ہے گذر

پھر بھی وہ آزمانے کو مہمان بن گئے

  (ص-   193)

یوسف جمیلؔ ہم کو گوارا ہے ہر سزا

جائے مگر نہ ہاتھ سے اپنی خودی کا حق

  (ص-   191)

توڑ کر رکھ دے جو طاغوتی نظاموں کا ایاغ

جانے کس وقت میسر یہ قیادت ہوگی

  (ص-   187)

حضرت جمیل جامعی نے شعر و سخن میں اپنی حساس طبیعت اور خود اعتمادی خود کو بڑی کامیابی سے بنائے رکھا تب ہی ان کے کلام میں تازگی نشاط بر

جستگی بے ساختگی ادراک معنی کی جھلکیاں اور افہام کی چاشنی صاف دکھائی دیتی ہے۔

درسِ توحید و وفا سکھلائوں میں ان کو جمیلؔ

بتکدوں میں لے چلو یا بتگروں میں لے چلو

  (ص-   133)

بُت گری میرا شیوہ نہیں ہے جمیلؔ

بُت شکن ہوں مجھے اک عصا چاہئے

  (ص-   132)

اک ہاو ھو کا شور بپاہے یہاں وہاں

محشر خرام بن کے چلی آرہی ہے دھوپ

  (ص-   126)

حضرت جمیل جامعی کے لب و لہجہ کا انداز ان کے تیور اس وقت اور بھی تیکھے ہو جاتے ہیں جب وہ زندگی کی بے ثباتی سے دو چار ہوتے ہیں۔ان کے پاس تلخی حالات کے ساتھ شگفتگی کا انداز ظاہر ہوتا ہے۔ وہ طنز کے تیر و نشتر کے ہمراہ حقیقت بیانی کو قائم رکھتے ہیں:

غیرت قومی اگر ہے اس طرح بھا گانہ کر

جانہ دیدے وقت آنے پر مگر حیلہ نہ کر

  (ص-   125)

یہ کوئی بازار میں مل جائے ایسی شی نہیں

چند سکوں کے عوض ایمان کا سودانہ کر

  (ص-   125)

تجدید اس قدر ہوئی افکار میں جمیلؔ

مذہب بھی اور خدا بھی نیا چاہتے ہیںلوگ

  (ص-   119)

جو ٹھوکر کھا کے گرتے ہیں زمانہ اُن پہ ہنستا ہے

مگر پاتے ہیں وہ منزل جو گر گر کے سنبھلتے ہیں

  (ص-   116)

ادب میں مقصد یت کسی بھی ہیت میں منظر عام پر آئے انسانیت کے لئے امن تحفظ اور سلامتی کا پیغام لاتی ہے۔ جمیل جامعی نے اپنے دونوں مجموعوں میں سطحی شاعری سے گریز کیا ہے اظہار و بیاں میں محتاط رویہ ان کی پہچان ہے۔ زباں و بیاں اور اپنے فن پر خاص دسترس رکھتے ہیں اور اس سفر میں

آپ کہیں رکتے اور تھکتے نظر نہیں آئے بلکہ آپ کا ہر قدم خوب سے خوب ترکی جانب بڑھتا دکھائی دیتا ہے اسکا شاعرانہ انداز میں اعتراف کیا ہے   ؎

راہ دشوار ہی نہیں آبلہ پانی بھی سہی

رہردِ شوق کی منزل پہ نظر ہوتی ہے

(ص-   100)

یوسف جمیلؔ جامعی کی شعری مذہبی اورحسی روایت سے بھری شاعری کے مجموعہ  ’’ذوق جمیل‘‘ کا ہر گوشہ سے استقبال کیا جانا چاہئے اور توقع ہے یہ  کتاب اہلِ ذوق کو روحانی درجے بلند کرنے کا وسیلہ بنے گی۔

ان کی اس کاوش پر راقمہ اور بزمِ اُردو کرنول، بزم آئینہ کی پوری یونٹ کی طرف سے انہیں دلی مبارکباد پیش کرتی ہوں۔

٭

کتابیات:

عکس جمیلؔ

:

یوسف جمیل جامعی

جامعہ محمد عربیہ، رائے درگ، اے۔پی

ذوقؔ جمیل

:

یوسف جمیل جامعی

ٍجمعیت ابنائے قدیم، جامعہ محمد عربیہ، رائے درگ،  شاخ کویت

begum.shahjahan93@gmail.com 9347321587

Postal Adrees :  H.No : 49/50A/87/H8, Lakshmi Nagar, Kurnool – 518002. A.P., INDIA.

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.