دکنی شاعری کی لسانی خصوصیات

ڈاکٹر شمیم سلطانہ
ایسوسی ایٹ پروفیسر، گورنمنٹ فرسٹ گریڈ ڈگری کالج، گلبرگہ
1347ء میں جب بہمنی سلطنت قائم ہو ئی تو اسی زمانے سے دکنی کا ارتقا ء ہو نے لگا۔ عوام کا ایک بڑا طبقہ سماجی اور مذہبی مقاصد کے لیے اس زبان کا استعمال کر نے لگا۔ اس دور کے حکمرانوں نے قومی اتحاد اور مذہبی رواداری کی اچھی مثالیں قائم کیں ۔ انہیں کی سر پرستی کی بدو لت دکنی زبان کو فرو غ ملا۔
اس دور کی سب سے اہم تصنیف ، فخر الدین نظامی کی مثنوی ’’کدم راؤ پدم راؤ‘‘ ہے ۔ ان کے علا وہ اشرف نے ’’نوسرہار ‘‘ لکھ کر اپنی صلاحیتوں کو دکنی زبان کے خون شامل کر کے آگے بڑھایا ۔ اس طرح سے اس عظیم سلطنت کے مختلف علاقوں میں ایک ساز گار ماحول پیدا ہوگیا۔جس سے آئندہ دور میں ادبی تخلیق کے لیے راستہ ہموار ہو جاتا ہے ۔ اس دور کے شعرا ء نے ضرورت ِشعری کے مطابق جس لفظ کو جس طرح چاہا استعمال کرلیا۔
بہمنی سلطنت کے روبہ زوال ہو تے ہی پانچ خود مختار سلطنتیں بن گئیں ۔ ان سلطنتوں میں عادل شاہی اور قطب شاہی دکنی ادب کے اہم مراکز سمجھے جانے لگے۔ یہا ں تک کہ عاد ل شاہی اور قطب شاہی عہد کی لسانی خصوصیات کم و بیش وہی رہی ۔
تذکیر و تانیث ۔ واحد اور جمع بنانے کے طریقے ۔ فعل اور متعلقات فعل کا استعمال اسماء و صفات میں ’’نا ‘‘ لگا کر مصدر بنانے کا طریقہ ’’چ‘‘ کا تاکیدی استعمال ساکن اور متحرک الفاظ کی بے قا عدگی مستقبل کے لیے ’’سی ‘‘کااستعمال حرف اضافت کا جمع ہونا یہ تمام ایسی خصوصیات ہیں جو کم و بیش دونوں میںایک جیسی ہیں۔
دکنی زبان میں کھڑی بولی ۔ بر ج بھا شا اور قدیم پنجا بی بولیوں کی ایسی خصوصیات محفوظ ہو گئیں جو اردو کی تشکیل کے ابتدائی دورمیں نمایاں تھیں ۔
دکنی میں پنجا بی کی طرح لفظوں کے دوسرے طویل مصتوتے کو مختصر بنانے کا رجحان ملتا ہے ۔ مثلاً لک (لاکھ ) کے لیے منگ (ما نگ ) کے لیے تٹنا (ٹوٹنا ) کے لئے ہت (ہاتھ ) کے لیے ڈُبا (ڈوبا ) کے لیے لیکن پنجا بی کی طرح اگلا مصمۃ مشتدد نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح نون غنہ کا زائد استعمال جیسے سو چ کو ’’سونچ‘‘ اور کو چہ کو ’’کو نچہ‘‘ کیا جاتاہے ۔ دکنی میں ’’ق‘‘ کے تلفظ کو ’’خ‘‘ سے بدل دیتے ہیں جیسے ’’قلم ‘‘ کو ’’خلم ‘‘ بو لیں گے۔
دکنی میں ضمائر کی مختلف شکلیں یہ ہیں ۔ مج،ہمنا ،تمنا ، اُنو ،اپس وغیرہ دکنی میں حرف عطف کے لیے ’’ہو ر ‘‘ استعمال کیا جاتا ہے ۔ صر فی و نحوی اعتبار سے دیکھیں تو دکنی میں ہندوستانی زبانوں کی بہت سی خصوصیات ملتی ہیں ۔ اس لحاظ سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دکنی اردو شمالی ہندکی بو لیوں ،کھڑی بو لی ، بر ج بھا شا ، ہر یانوی ، پنجابی وغیرہ سے مشا بہ ہے۔ اسی طرح الفاظ کی جمع واحد کے آگے ’’اں ‘‘ لا کر بناتے ہیں ۔ مثلاً ’’لوگ ‘‘ سے ’’لوگاں ‘‘ کام سے ’’کاماں ‘‘ ’’بات ‘‘ سے ’’باتاں ‘‘ گھر سے ’’گھراں ‘‘ دل سے ’’دلاں ‘‘ وغیرہ ۔
شمالی ہند کی اردو میں مذکر اسماء کی جمع نہیں بنائی جاتی بلکہ وہ واحد کی شکل میں مستعمل ہے۔ اسی طرح لفظ کے درمیان کبھی کبھی (ھ) کی جگہ بدل جاتی ہے۔ جیسے پتھر کی جگہ ’’پھتر ‘‘ ، پنکھڑی کی جگہ ’’پھنکڑی ‘‘ وغیرہ ۔
کسی امر کی صورت میں دینا ، لینا کے لیے دکنی میں ’’دیو ،لیو ‘‘کے روپ ہیں دکنی زبان میں ماضی مطلق کے یہ روپ بھی سامنے آتے ہیں ۔جیسے بو لیا ، کھولیا ،دیکھیا وغیرہ ۔
موجود ہ دور میں ایسے الفاظ تحریرمیں نہیں ملتے البتہ آج بھی ایسے الفاظ کا استعمال کیاجاتاہے۔
ایسے اسماء جس میں پہلے اور دوسرے رکنوں میں طویل مصوّتے آتے ہیں ۔ان میں پہلا مصوتہ عموماً مختصر ہوجاتاہے۔جیسے :آدمی کے لیے ’’اَدمی‘‘ آسمان کے لیے ’’اَسمان‘‘ اور آنکھ کے لیے ’’اَنکھ ‘‘وغیرہ ۔ اس کے علا وہ ایسے اسم جن سے مقام یا وقت کا مفہوم ظاہر ہوتاہے۔ عام طو رپر وہی مستعمل ہیں جو شمالی ہند میں بو لے جاتے ہیں ۔ کچھ مخصوص اسم ظرف ہیں جو دکنی زبان میں استعمال میں لائے جاتے ہیں ۔ جیسے مندر کے لیے ’’دیول‘‘ پھلواری کے لیے ’’پھلباری‘‘او زار یا اسم آلہ کا مفہوم رکھنے والے اسماء کثرت سے اور متنوع روپ میں نہیں ملتے ۔صرف چند اسم آلہ یہ ہیں جیسے چھلنی کے لیے ’’چھننی ‘‘ اور کو ئلہ کے لیے ’’کولسا ‘‘ لوہا کے لیے ’’لہوا‘‘ اسی طرح دکنی میں مرکب الفاظ بنانے کے لیے ہار کا لاحقہ استعمال کر تے ہیں ۔ جیسے لکڑہار یعنی لکڑی کاٹنے والا ۔
اسی طرح ’’پن ‘‘ سے بھی مرکبات بنائے جاتے ہیں۔ جیسے ’’میں پن‘‘ ’’تو پن ‘‘ وغیرہ ۔دکنی کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں فاعل جمع مونث ہے تو فعل بھی جمع مونث آتاہے۔ جیسے
خوش خر می میں اوبلتیاں چلیاں
اکھر یتاں و پھر تیاں او چھلتیاں چلیاں
علا مت فاعل ’’نے ‘‘ کا استعمال اس دور میں بہت کم ملتاہے۔ دکنی میں علامت ِ فاعل نہیں ہے لیکن ضمیر غائب میں خال خال ’’نے ‘‘ کا استعمال اس طرح کیا گیاہے۔
جہاندار نے میزبانی کریا
ضمائر کی مختلف شکلیں ایسی ملتی ہیں جس میں ’’چ‘‘ کے بڑھانے سے ’’ہی‘‘ کے معنی پیدا ہو تے ہیں۔جیسے ’’اِس کا چ ‘‘(اس کاہی ) کے لئے ’’تیراچ‘‘ (تیرا ہی) کے لیے ’’میراچ‘‘ (میرا ہی ) کے لیے ۔
مرہٹی اور گجری میں بھی یہ طریقہ رائج ہے۔
دکنی میں مذکر اور مو نث کے لیے کوئی اُصول متعین نہیں کیے گئے ۔ ایک شاعر کے یہاں ایک لفظ مذکر استعمال ہوتا ہے اور وہی لفظ دوسرے شاعر کے یہاں مونث استعمال ہوتاہے۔ اسی طرح تلفظ کا بھی کوئی مخصوص معیار نہیں تھا۔ ایک ہی لفظ کبھی متحرک اور کبھی ساکن ہوتاتھا۔
اسی طرح اِملا کا بھی کوئی یکساں معیار مقرر نہیںتھا۔ مثلاً یہ الفاظ اپنی دونوں شکلوں میں ملتے ہیں ۔
وضع کے لیے وضا
نفع کے لیے نفا
ضمیر کے لیے زمیر
حکم کے لیے ہُو کُم وغیرہ
دکنی زبان کے لسانی جائزہ سے یہ واضح ہوتاہے کہ یہاں کے شعراء شمالی ہند کی بولیوں کھڑی بولی ۔ برج بھا شا ،ہریانوی اور گجراتی سے بھی بڑی حدتک متاثر تھے بہر حال یہ کہاجاسکتاہے کہ دکنی کے شعراء نے مختلف زبانوں کی آمیزش سے دکنی کو ایک نیارنگ و آہنگ بخشاہے۔
****

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.