راجستھان میں سندی تحقیق کا پیش رو:ڈاکٹر محمد علی زیدی

ڈاکٹر شاہد احمد جمالی

مکان نمبر629؍محلہ بساطیان،رام گنج بازار،جے پور۔302003(راج)

-mob-9664310287

ڈاکٹر محمد علی زیدی(۱۹۲۷ء۔۲۰۲۱ء)راجستھان کی اُن ادبی شخصیات میں سے ایک ہیں جن کی ادبی خدمات کو بھلایا نہیں جا سکتا۔صرف اور صرف آپ کی کاوشوں سے ہی راجستھان یونیورسٹی میں ۱۹۷۳ء میں شعبہ اردو قائم ہوا تھا۔اور آپ ہی اس کے پہلے صدر بنائے گئے تھے۔

ڈاکٹر محمد علی زیدی جے پور میں ۲۳؍مئی ،۱۹۲۷ء کو ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ان کے والد سید امرائو علی زیدی ٹھکانہ’ دھولا‘ میں ملازم تھے۔جن کا ۱۹۴۴ء میں انتقال ہو گیا تھا۔ڈاکٹر زیدی ابتدا سے ہی ذہین واقع ہوئے تھے۔انھوں نے اپنے والد کی زندگی میں ۱۹۴۴ء تک انٹر تک تعلیم حاصل کرلی تھی۔ابھی مزید تعلیم حاصل کرنے کا خیال تھا کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔سترہ سال کی عمر میں یتیم ہونے کے ساتھ ہی گھر کی ذمہ داریاں بھی ان پر آگئیں کیوں کہ وہ اپنے بھائی بہنوں میں سب سے بڑے تھے۔زیدی صاحب ایک با ہمت اور پُر عزم انسان تھے،انھوں نے حالات کا مقابلہ کیا،چھوٹی موٹی ملازمت بھی کرتے تھے اور تعلیم بھی جاری رکھے ہوئے تھے۔۱۹۴۶ء میں جے پور کے مہاراجا کالج سے امتیازی نمبروں سے بی ،اے کا امتحان پاس کیا۔اس کے کچھ عرصہ کورٹ آف وارڈ،میں ملازمت کی تاکہ گھر کا خرچ چلتا رہے۔لیکن یہ ملازمت مزید تعلیم میں مانع ہو رہی تھی اس لئے اس کو چھوڑ کر عثمانیہ مڈل اسکول میں ہیڈ ماسٹر ہو گئے۔اسی دوران ایم،اے کی ڈگری بھی انھوں نے حاصل کی۔۱۹۴۱ء میں جے پور کے لا کالج سے ایل،ایل،بی ،کی ڈگری بھی حاصل کی اور اگلے سال سے وکالت بھی شروع کردی۔لیکن یہ پریکٹس زیادہ عرصہ تک نہیں چل سکی۔کیوں نے اللہ نے انھیں تو درس وتدریس کے لئے پیدا کیاتھا۔۱۹۵۲ء میں مہاراجہ کالج میں عارضی طور پربحیثیت اردو لکچرار مقرر ہوئے۔اس کے بعد ۱۹۵۳ء میں مستقل طور پر گورنمنٹ کالج ٹونک میں اردو لکچرار مقرر ہوئے۔جہاں وہ ۱۹۶۰ء تک رہے۔

۱۹۶۲ء میں راجستھان یونیورسٹی ،جے پور نے تمام کالجوں کو اپنے تحت کرلیااورانھیں مخصوص تعلیم کے لئے منتخب کر لیا۔چنانچہ راجستھان کالج میں آرٹس،کامرس کالج میں کامرس اور مہاراجہ کالج میں سائنس کی تعلیم دی جانے لگی۔اس وجہ سے ڈاکٹر زیدی بھی راجستھان کالج میں آگئے،۱۹۶۳ء سے آپ یہاں اردو کے لکچرار کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دینے لگے۔

ابھی تک یہاں اردو میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کرنے کا انتظام نہیں تھا۔لیکن راجستھان یونیورسٹی نے خصوصی طور پر محمد علی زیدی کو پرو فیسر احتشام حسین کی نگرانی میں اردو میں پی ایچ ڈی کرنے کی اجازت دیدی۔ ان کا موضوع تھا ’’داغ اور ان کی شاعری‘‘۔آخر وہ دن بھی آیا کہ ۱۹۷۰ء میں محمد علی زیدی کو راجستھان کی پہلی اردو پی ایچ ڈی،کی ڈگری سے نوازا گیا۔یہ تما م راجستھانیوں کے لئے بڑے فخر کی بات تھی۔۱۹۷۴ء میں جب زیدی صاحب نے اپنے اس مقالے کو کتابی صورت میں بعنوان’’مطالعہ داغ‘‘شائع کیا تو اس کے پیش لفظ میں انھوں نے لکھا تھا،

’’احسان فراموشی ہوگی اگر میں اپنی یونیورسٹی کے اربابِ حل و عقد کا شکریہ ادا نہ کروں۔کیوں کہ ان کی ہمدردانہ توجہ نے میری راہ آسان بنادی اور میں اس قابل ہو سکاکہ اردو کا یہ پہلا مقالہ راجستھان یونیورسٹی میں پیش کر کے اس یونیورسٹی میں اردو کی تحقیقی ڈگری سب سے پہلے حاصل کر سکوں۔‘‘

(مطالعۂ داغ۔ڈاکٹر محمد علی زیدی۔ناشر کتاب نگر،لکھنو۔۱۹۷۴ء۔ص۔۱۸)

اب ڈاکٹر زیدی صاحب کی تمام تر کوشش یہ تھی کہ راجستھان یونیورسٹی میں شعبہ اردو کھولا جائے اور یہاں سے ایم،اے کی ڈگری کے ساتھ پی ایچ ڈی بھی اردو میں کرائی جائے۔آپ کی رات دن کی کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ ۱۹۷۲ء کے اواخر میں راجستھان یونیورسٹی شعبہ اردو قائم کرنے کے لئے رضامند ہو گئی۔مگر یہ اعلان ابھی تک صرف کاغذی تھا۔جب کئی ماہ گزر گئے اور نیا سال شروع ہو گیا،اور سنڈی کیٹ کی میٹنگ میں بہانہ بازی ہونے لگی  تو زیدی صاحب نے یہ طریقہ اپنا یا کہ ایک چھوٹی سی میز اور ایک کرسی لے کر humanities hall  کے سامنے بیٹھ گئے اور ایک بورڈ لگالیا جس پر شعبہ اردو لکھا تھا۔زیدی صاحب دن دن بھر اسی حالت بیٹھے رہتے۔کئی روز تک یہ سلسلہ جاری رہا۔آخر یونیورسٹی کی مشینری کو شرم آئی اور اس نے ایک کمرہ برائے آفس شعبہ اردو،زیدی صاحب کو دیا گیا۔چنانچہ،۱۹۷۳ء سے ۱۹۷۸ء تک آپ اس شعبہ کے صدر رہے۔

اب مسئلہ طلباء کا تھا کہ انھیں ترغیب دے کر ایم،اے میں داخلہ دلایا جائے ورنہ جب کوئی طالب علم ہی نہیں آئے گا تو شعبہ بند کر دیا جائے گا۔چنانچہ زیدی صاحب مہینوں جے پور کے گھروں میں جا جا کر اس شعبہ میں داخلے کے لئے لوگوں کو ترغیب دیاکرتے تھے۔زیدی صاحب کی کوششوں سے ہی باہر سے اردو اساتذہ کو اس شعبہ کے لئے بلایا گیا۔جن میں ڈاکٹر فضل امام رضوی،ڈاکٹر فیروز احمد، وغیرہ شامل ہیں۔زیدی صاحب کی اس مخلصانہ خدمت کا ہی نتیجہ ہے کہ آج بھی یہ شعبہ قائم ہے۔یہ اور بات ہے کہ آج وہاں،زیدی صاحب،فیروز صاحب،فضل امام صاحب،مدبر علی زیدی صاحب جیسے قابل قدر اساتذہ نہیں ہیں۔جو طلبا سے پورا تعاون کرتے تھے اور اس کی مدد کرتے تھے۔

زیدی صاحب نے رٹائر ہونے تک اپنی زندگی کا بڑ ا حصہ اسی شعبہ میں اردو کی خدمات کرتے ہوئے گزارا۔۱۹۸۲ء سے ۱۹۸۶ء تک آپ دوبارہ اس شعبہ کے صدر بنائے گئے۔اس دوران آپ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں بھی کلاس لیتے تھے اور راجستھان کالج میں بھی جاکر کلاسیں لیا کرتے تھے۔

۱۹۷۰ء میں زیدی صاحب کو نوازی گئی اردو پی ایچ ڈی کی ڈگری،راجستھان کی پہلی ڈگری ہے،اور جتنی ڈگریاں ملیں وہ سب اس کے بعد ملیں۔ساتھ ہی آپ کا مقالہ جو مطالہ داغ کے عنوان سے ۱۹۷۴ء میں شائع ہوا،وہ بھی پہلا مطبوعہ مقالہ ہے۔اس لحاظ سے زیدی صاحب کا نام راجستھان کی سندی تحقیق میں سر فہرست ہے اور وہ راجستھان میں سندی تحقیق کے پیش رو مانے جاتے ہیں۔

ذاتی طور پر زیدی صاحب ایک ملنسار اور خوش اخلاق انسان تھے۔بہت کم بولتے تھے اور دھیمی آواز میں بولتے تھے۔کبھی کسی مخالف کو پلٹ کر جواب نہیں دیا۔راقم الحروف نے زیدی صاحب سے بی،اے (۱۹۷۷ء۔۱۹۷۹ء)کے دوران راجستھان کالج میں اور ایم،اے کے دوران(۱۹۸۲ء۔۱۹۸۴ء)میں یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں پڑھا ہے۔میرے بزرگوں سے بھی ان کے دیرینہ تعلقات رہے ہیں۔مجھ پر بڑی شفقت فرماتے تھے۔

آپ راجستھان سرکار میں ایک جانی پہچانی اور معتبر شخصیت تھے،اس لئے سرکار نے کئی شعبوں میں آپ کی خدمات لیں۔۱۹۷۹ء سے ۱۹۸۴ء تک راجستھان اردو اکیڈمی کے چیر مین رہے۔۸۶۔۱۹۸۵ء میں ایڈوائزری بورڈ آپ ایجوکیشن سے منسلک رہے۔۱۹۸۸ء سے ۲۰۰۵ء تک اجمیر یونیورسٹی میں اردو،فارسی نصاب کمیٹی کے کنوینر رہے۔کئی سال تک آپ مسلم گرلس کالج کے پرنسپل رہے۔

اگر آپ کی تصانیف پر نظر ڈالی جائے تو یہ فہرست سامنے آتی ہے،

۱۔نگارستانِ اردو۔مطبوعہ۔۱۹۷۱ء

۲۔مقدمہ شعر و شاعری(ترتیب و مقدمہ)مطبوعہ۔۱۹۷۲ء

۳۔دیوان داغ کی تدوین۔۱۹۷۲ء

۴۔اردو ریڈر،حصہ اول و دوا ،سوم۔۱۹۷۵ء

۵۔انتخاب داغؔ(غزلیات)ترتیب و مقدمہ۔زیرِ طبع

۶۔منتخب ریڈیائی ڈرامے(مجموعہ)زیر طبع

۷۔افکارِ تازہ۔(مطبوعہ تنقیدی و تحقیقی مضامین)زیر طبع

۸۔انشائیے۔زیر طبع

۹۔تذکرہ ظہیر دہلوی۔(تلخیص و تعارف)

۱۰۔ریڈیائی تقریریں(طنزیہ و مزاحیہ)زیر ترتیب

ڈاکٹر محمد علی زیدی کی نگرانی میں جن طلباء نے پی ایچ ڈی کے مقالے تحریر کئے ان کی تفصیل یہ ہے،

۱۔سید مدبر علی زیدی۔اردو نثر کے رجحانات اور اسالیب،۱۸۷۰ء تک۱۹۸۱ء

۲۔حبیب الرحمن نیازی۔میکش اکبر آبادی:حیات اور شاعری۱۹۸۱ء

۳۔رفعت اختر خاںجدید اردونظم کا ارتقاء اور رجحانات،۱۹۳۶ء سے تا حال۱۹۸۱ء

۴۔یاد علی جعفریظہیر دہلوی کا تنقیدی مطالعہ۱۹۸۶ء

۵۔مسرت جہاںمرزا عظیم بیگ چغتائی:شخصیت اور فن۱۹۸۹ء

۶۔عمر جہاںمولانا احسن مارہروی:حیات و خدمات۱۹۹۱ء

    یہ فہرست آپ کی کتاب’’مطالعہ داغ‘‘ میں درج ہے۔مطالعہ داغ کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کتاب ملک کی کئی یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل رہی ہے۔

آج ڈاکٹر محمد علی زیدی صاحب ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن اردو کے لئے ان کی مخلصانہ خدمات کو ہمیشہ یاد کیا جاتا رہے گا۔۲۸؍اپریل،۲۰۲۱ء کو بہ سبب کوروناجے پور میں آپ کی وفات ہوئی۔

٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.