بہارسے شا ئع ہونے والے اُردو ادبی رِسائل ایک جائزہ

 شیبا  کوثر

 ریسرچ اسکا لر ، ویر  کنور سنگھ یونیور سٹی آرہ ۔

بہار ہمیشہ سے اُردو کے دبستا نو ں میں سے  ایک اہم دبستان  رہا ہے یہاں ہر زمانے میں گیسو ئے ادب کو سنوارنے کا کام ہوتا رہا ہے ۔تاریخ شاہد ہے کہ اُردو میں جو بھی تحریکیں رونما ہوئیں اس پر بہار کے ادبی کارناموں کے  گہرے اثرات مر تب ہوئے ۔  جس طرح ہندوستان کی سیاسی ،سماجی،اور معاشرتی تاریخ میں صوبہء بہار کو نما یاں حیثیت حاصل رہی ہے اسی طرح اس سر زمین کو ادب کے میدان میں بھی ایک نما یا ں حیثیت حاصل ہے۔ اس سر زمین سے کئی ایسے اعلٰی دانشور شاعر،ادیب اور ناقدینِ ادب پیدا ہوئے جو نہ صرف فخرِ بہار کہلا ئے بلکہ وہ فخر ِہندوستان کی بھی حیثیت رکھتے تھے ۔جن کے کار نامے ہر دٙور میں ادب کے لئے مشعل راہ ہیں ۔جن کی ہمہ گیر شخصیت، ادب کے نمایاں شخصیتوں میں سے  تھی۔

  جنہوں نے اردو زبان و ادب کی تر و یج و ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔شروعاتی دور میں اُردو زبان و ادب پر فارسی کے اثرات غالب رہے جن کی بنیادی وجہ فارسی شعراء کا صوبہءبہار کے ادبی فضاء پر چھائے رہنا تھا ۔

بہار میں اُردو زبان و ادب ستر ہو یں صدی کے آوا خر سے ایک واضح شکل اختیار کر چکی تھی اس سلسلے میں اردو کے مشہور محقیق و ناقد ڈاکٹر اختر اور ینوی اپنی تحقیقات کے بنیاد پر اس نتیجے پر پہنچےکہ عہد اورنگ زیب عالمگیر کے  زمانے میں شمال ہند میں اس کے اثرات دکن اور گجرات میں نمایاں طور پر پڑنے لگے تھے ۔ان کی تحقیق کی بنیاد شاہ مجتبیٰ حسین کے کتب خانے میں فقہ ہندی کے دو نسخے تھے جو بہار شریف ضلع پٹنہ سے تعلق رکھتے تھے ۔

جہاں تک ادبی رسائل کا تعلق ہے ادبی رسائل کا ادب کے فروغ میں ہمیشہ سے ہی ایک اہم حصّہ  رہا ہے اور رسائل زبان و ادب کی ارتقاء میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے کیوں کہ یہ اپنے عہد کے ادبی رجحانا ت و میلانا ت اور ادبی مزاج کے عکاس ہوتے ہیں اور مختلف نظریا ت و خیالا ت تک رسائل تبادلے کا اہم سلسلہ بنتے ہیں مختلف عہد کے ادبی رسائل سے ہمیں یہ اندازہ ہوتا ہے کس طرح اردو کے ادبی مزاج میں بتدر یج تبدیلی کا عمل واقع ہوا ۔اور رسائل و جرا ئد   نے اپنے پیرا ہن کس طرح آہستہ آہستہ تبدیل کئے اور کس  طرح  سے اردو ادب کے مختلف ادوار میں متنوع ادبی مزاج اور نظریات تشکیل پائے ۔ادبی رسائل دراصل اپنے عہد کے قلمکاروں کا شنا خت نامہ اور مستقبل کے محقیق کےلئے ایک مستند  ذریعہء تحقیق ہوتی ہے جس کی ہمہ گیر قوت کا اندازہ ما ضی کے ادبی رسائل و جرا ئدسے بخوبی کر سکتے ہیں ۔

رسالہ ایک عربی لفظ ہے جس کا معنی مکتو ب یا چھوٹی سی کتاب ہے عام طور سے مختلف حضر ات کےمضامین کامجمو عہ جومقررہ وقت پرشایعءہوتا ہے رسالہ کہلاتا ہے۔ رسائل مجلِّات نہ صرف ابلاغ و ترسیل کا وسیلہ ہوتے ہیں بلکہ ادب اور تہزیب کے بھی آئینہ دار ہوتے  ہیں ۔رسائل اپنے عہد کی ادبی اور تہذیبی صورت حال کو جاننے کا ماخذ بھی ہیں ۔ اردو ادب کا ایک بڑا سر مایہ رسائل کے صفحات میں پوشیدہ ہے یوں تو  ہر دور میں سرزمین بہار سے ایسے ایسے معیاری رسائل و جرا ئد منظر عام پر  آئے جس   نے ادب اور صحا فت کو اعتبار و وقار بخشا اس کے بال و پر کو سنوارا ،اس کے دامن میں نئے نئے گل و بوٹےلگا ئے اور  زبان و ادب کو فروغ دینے میں کلیدی رول ادا کیا ہے ۔یہاں کے قدیم اردو کے رسائل و مُجّٙلات کے پھٹے پرانے اوراق اپنے عظمتِ رفتہ کی داستا ن آج بھی سنا رہے ہیں ۔یہاں کے جو ادیب و صحافی قلم کار ہیں  جنہوں نے قابل فخر کارنامے انجام دئے ہیں ان میں سید خورشید احمد ،سید فخر الد ین سخن دہلوی،منشی حسن ،نصیر حسین خان ،لالہ بندا پر ساد حسرتی،بابو ایودھیا پرساد ،منشی قربان علی ،منشی سورج مل ،منشی رحمت اللہ ،شیخ نور محمد،شفیع داودی، یوسف رضوی،سید منظر علی ند وی ،ضیاء الملک  صدیقی عظیم آ بادی ،ادر یس سنسہا روی،سید نذیر حیدر،قاضی عبدا لودود ،عظیم الد ین احمد ،سہیل عظیم آبادی،شین مظفر پوری،ارشد کاکوی ،غلام سرور ،قیوم خضر ،پروفیسر ڈاکٹر عبدالمغنی،پروفیسر وہاب اشرفی، پروفیسر علیم اللّه حالی ،سلطان احمد ،سید عمر فرید ،شمس الھدیٰ استھانوی، معین شاہد، شاہد رام نگری،  عبدالرافع،شاہین محسن،تاج انور، پروفیسر جابر حسین ،ماہر آر وی ،پروفیسر تاج پیامی ،شاکر آر وی ،مشر ف عالَم ذوقی،تبسّم فاطمہ ،شکیلہ اختر ،رضوان احمد ،پروفیسر سید شاہ حسین احمد ،پروفیسر جمیل اختر ،پروفیسر ڈاکٹر  ارشاد حسین ،وغیرہ کے نام خو صیت  کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔یہاں کے ادبی رسائل میں ان لوگوں کے مضامین اور ادبی تخلیقات نمایاں طور سے شائع ہوتی رہی ہیں۔جہاں تک “ادبی رسائل “کا تعلق ہے اور بہار میں آزادی سے قبل جن ادبی جر یدو ں کے ناموں کی گونج سنائی دیتی تھی ان میں حسن و عشق (آرہ ) ،الامین( بہار شریف)، السبیل( گیا)معاصر( پٹنہ)،سہیل( گیا) نمایاں تھے ۔ان میں کئی رسالے بعد میں بھی جاری رہے۔

بیسویں صدی کے اختتام پر بہار کے چند اہم ادبی جر یدوں  میں ندیم،

صبح ،صنم ،اشارہ ،مسرّت،آہنگ ،اب ،ادیب ،ادراک ، تہذیب ،آکاش ،ابلاغ ،اصناف ،افق ،اقبال ،اقلیت ،الاحسان ،الاکرام،اردو نامہ ،اشمس، انتخاب، انجو، انعکاس،بحث و نظر ،بزم سخن ،تاج،بہار ستان ،پر تو، پندار ،تحفہء حنیفہ، تحقیق، تخلیق و تحقیق، تر جمان، جام نور،جرس،خدا بخش جنرل پٹنہ ، خرمن، دستک، دیارشب،رفاقت، رفیق، زیور،سازوآواز، سفینہ،سہیل، سیکولر محاذ، سنگ میل،شاخ گل،شام، شفق، صدف ،ظرافت شناس ،عظیم آبادایکسپرس،میز ان ،ندیم ،نو بہار   ،خوشبو ،صدف ،شفق ،زیور ،ساز و آواز،صر یر ،  ،فکر و فن،کرن ،کنول ،مفا ہیم ،مور چہ ،میل ملا پ ،نو بہار ،نور اسلام، نوجوان، نوید،مریخ ،مجلہ اردو فورم، المجیب، زبان وادب، وغیرہ شامل تھے ۔یہ سبھی رسائل و جرائد اپنے میعار اور مقبولیت کے اعتبار سے کسی سے کمتر نہیں تھے۔اس طرح سر زمین بہار کے اردو رسائل دیکھتے ہی دیکھتے بڑی تیزی سے ارتقا ئی منا زل طئے کرتے رہے اور معیار کے حساب سے وہ ہندوستان کے کسی بھی رسالے سے کمتر نہیں تھے ۔بلکہ ان میں چند تو اس میعار کے ہیں کہ ان کے ہم پلہ مشکل سے نکلیں گے ۔مثال کے طور پر ماہنامہ “ندیم “(گیا )جو (1931ء) انیس سو اکتیس سے نکلنا شروع ہوا تھا اور (1945ء) انیس سو پینتالس تک نکلتا رہا۔ اگرچہ اس کی مدت کچھ زیادہ نہیں ہیں تا ہم ادبی میعار کے لحاظ سے یہ بہت بلند ہے ۔دوسرا رسالہ میعار “ہے جسے(1936ء) انیس سو چھتیس  میں قاضی عبدالودود نے جاری کیا تھا۔ یہ ادبی تحقیقی رسالہ تھا بنیاد ی طور پر یہ ادارہ تحقیقات (پٹنہ )کا ترجمان تھا۔اسی ادار ے سے ایک رسالہ تحقیق بھی جاری ہوا ۔اس کو بھی قاضی عبدالودود کی سر پرستی حاصل رہی۔ بہار سے شائع ہونے والے دیگر رسائل میں ماہنامہ “صبح”اپنے لحاظ سے بہت اہم ہے اس نے (1959ء)  انیس سو انسٹھ میں “بہار نمبر شائع کیا۔ جس کی ادبی حلقوں میں بہت پذیرائ ہوئ۔ اسی طرح سہ ماہی “کارواں” (سنتھال پرگنہ صاحب گنج) ماہنامہ” نئی کرن “(دربھنگہ )اور “نئی کرن “(پٹنہ )کو بھی اردو رسائل کی تاریخ میں اہم مقام حاصل ہے ۔

اپنے زمانے میں جو چند رسالے اپنے اعلیٰ میعار کو برقرار رکھے ہوئے تھے اور پابندی اوقات سے شائع ہو رہے تھے ان میں “ماہنامہ سہیل “(گیا )۔”آہنگ ” (گیا )”مر یخ “(پٹنہ )شامل ہے ۔یہ رسالہ مختلف نظریات کا ترجمان ہیں جن میں ماہنامہ سہیل “ترقی پسند تحریک کی ترجمانی کرتا ہے۔کلام حیدری کی ادارت میں نکلنے والا ماہنامہ “آہنگ “(جدید اردو کا علمبردار ہے )یہ ماہنامہ پروفیسر احتشام حسین مرحوم اردو فکشن پر دو خاص نمبر شائع کیا۔ اردو کے مشہور ناقد ا ور انگریزی کے پروفیسر ڈاکٹر عبدا لمغنی کی ادارت میں نکلنے والا “مر یخ “( جدید یت اور ترقی پسند جیسی دو متضاد طاقتور تحریکوں کے درمیان غیر جانبدار رہکر اردو ادب میں اپنے افکار کو فروغ دیتا رہا )۔بہار کے ادبی افق سے (1940ء) انیس سوچالس عیسوی)  میں “معاصر” نکلاجو دیکھتے ہی دیکھتے ادب کی دنیا میں اپنا ایک الگ مقام بنا لینے میں کامیاب ہوا۔”معاصر” بنیادی طورپر تحقیقی وتنقیدی رسالہ ہے( 1951ء) انیس سو اکاون عیسوی سےاسکے مقاصدوتبدیلی وسطِ عمل میں آئ۔

اس رسالے کا بنیاد ی مقصد اردو کے معیاری تحقیقی ،

تنقیدی، مقالوں کی اشاعت ،اردوکے غیر مطبوعہ اہم مخطوطا ت کی اشا عت، اردو کےعلمی وادبی مسائل پربحث اور اردو کے ایسے مقالوں جن کی اشاعتِ فن کا تعلق سماجی شقا فتی ،اور تہذیبی مسائل پر گفتگو ہے ۔اگر ہم “معاصر” کا مطالعہ کریں تو ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ اپنے مقاصد میں بہت حد تک کامیاب رہا ۔شرو ع سے ہی اسے عظیم الدین احمد اور کلیم الدین احمد ،قاضی عبدالودود، سید حسن عسکری، عطاکاکوی، پروفیسر اختراورینوی،اور ڈاکٹر محمّد محسن جیسی نا بیغہ روزگار شخصیتوں کی سر پرستی حاصل رہی جنہوں نے اس کے ادبی تحقیقی،تنقیدی میعار کو بلند کرنے میں اہم کار نامہ انجام دیا ۔اس علاوہ اور بھی بہت سارے ادبی رسائل بہار کی سر زمین سے شائع ہوتے رہے ہیں جن میں ___دیوان ،آ ئندہ ، آغاز ، آمد،بہار ،بزمِ ادب ،سفیرِ ادب ،دستک،تمثیلِ نو، کوہسار، مباحثہ، بھاشا سنگم ،ساغر ادب ،کاوش،دربھنگہ ٹائمز ،ابجد ،ثالث،وغیرہ اہم ہیں جن میں متعبرشعراء و

ادیب کی تخلیقات شا ئع ہوتی رہیں ہیں ۔

دور حاضر میں بھی بہار سے شا ئع ہونے والے رسائل کی خاص تعداد ہے ۔جن میں ماہنامے،سہ ماہی،شسماہی، اورسالنامے شامل ہیں۔یہ تمام رسائل  کبھی  حکومتی طور پر یا کبھی غیر امدادی۔طریقے سےعوام تک پنہچتے رہتے ہیں۔کئی ادبی رسائل بڑی پابندی سے وقت مقررہ پر شائع ہوتے ہیں۔جیسے بہار اردو اکا د می سے نکلنے والا رسالہ “زبان و ادب “(پٹنہ )جس کی ادبی دنیا میں اپنی ایک الگ پہچان ہے۔اور دوسرا “بھاشا سنگم “ہے جو حکومت بہار کا لسانی ادبی و شقافتی مجلہ ہے جو سہ ما ہی ہے۔جس کا عام طور سے کوئی نہ کوئی شمارہ خاص نمبر کی شکل میں منظر عام پر آتا ہے  یہ دونوں رسالے ہر طور سے معیاری کہے جا سکتے ہیں ۔اس طرح سے ہم کہ  سکتے ہیں کہ بہار کے رسائل و جرا ئد ہر دور میں ادب کی بہترین خدمت کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں جس سے آج بھی اردو آبادی استفادہ کر رہی ہے اور جو زبان و ادب کے مختلف اصنافِ ادب کے فروغ میں ایک اہم کردار ادا کررہے ہیں اور خاص کر تحقیق کاروں کے لئے بھی یہ تحقیقی مواد فراہم کرنے میں رہنما ثابت ہو رہے ہیں حقیقت یہ ہے کہ آج بھی  بہار سے نکلنے والے اردو  ادبی رسائل و جرا ئد اپنی ایک الگ شنا خت رکھتے ہیں اور اردو ادب میں کار ہائے نمایا ں  انجام دے رہے ہیں ۔

Adress:

Sheeba Kausar

Mohallah: Brah Batrah

Post: Arrah,

Dist:  Bhojpur,

State: Bihar,INDIA.

Pin Code:802301.

E mail :_sheebakausar35@gmail.com

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.