مغربی بنگال میں اردو تذکرہ نگاری
محمد قیصر عالم
سیکٹ، شعبہ اردو،اسلام پور کا لج، اتر دیناج پور،(مغربی بنگال)
تذ کرہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی ذکر کرنے کے ہیں اس لفظ کو عام بول چال کی زبان میں بھی استعمال کیا جا تا ہے گویہ کہ جب دو آدمی آپس میں ہم کلام ہوتے ہیں تو اگر تیسرے شخص کا ذکر آتا ہے تو وہ یوں کہہ کر گزرتا ہے کہ تمہارا ذکرفلاں مقام پر آیا تھا۔ اس طرح اس لفظ کے معنی یاد کرنے کے ہوتے ہیں ۔ لیکن جب ہم ادب کے توسط سے تذکرے کی باتیں کرتے ہیں تو اس کا معنی بالکل مختلف ہو جاتا ہے یعنی یہ اس وقت ایک صنف کی شکل میں ہمارے سامنے آتا ہے ۔ یہ بات واضح ہے کہ انسان میں تنقیدی شعور ابتداء سے ہی موجود ہے ۔ اور وہ اسی خصوصیت کی بنا پر کسی چیز کو پسند یا نا پسند کرتا ہے ۔ مثال کے طور پر جب ہم ایک بچے کے سامنے کھلونے رکھتے ہیں تو ان کھلونوں میں سے وہ اس کھلونہ کو زیادہ پسند کر یگا جودیگر کھلونوں سے زیادہ چمک دار اور ان کو لبھانے والا ہو گا لہذا اس بات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مذکورہ بچے میں بھی تنقیدی شعور ہے اور وہ اپنے اس شعور کی بنا پر اپنی پسندکا اوروں کے سامنے اظہار کرتاہے۔
مذکورہ نکات کو دیکھتے ہوئے میں بے تامل اس بات کو کہہ سکتا ہوں کہ جس فنکار ادیب و شاعر کے اندر جس قدر تنقیدی شعور ہوگا اس کی تنقید بنسبت اس کی تخلیق کے جس کے اندر تنقیدی شعور کم ہوگا بہتر ہوگی ، کیوں کہ جب کوئی فنکا ر جب کسی چیز کو تخلیق کرنا چاہتا ہے تو اس تخلیق سے پہلے اسکے ذہن میں وہ ساری باتیں موجود ہوتی ہیں جسکو وہ اپنے عمل میں لانا چاہتا ہے ۔ اور پھر انہیں باتوں کو اپنے ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے کام کو آگے بڑھا تا ہے
تذکرہ نگاری کی روایت بہت قدیم ہے ۔ اور غالبا یونان سے لی گئی ہے مولانا عبد الحلیم شرر نے اپنے ادبی مجلے”دلگذار” میں لکھا ہے کہ یونان میں شعری گلدستوں کا رواج تھا اور یہ روایت یونانی علوم کے ترجمے کے ساتھ ساتھ عربی تک پہنچی اور عربی میں جب آگے بڑھی تو شہروں کے بھی تذکرے مرتب ہوئے شعراء کے بھی فقہا ،اور صوفیوں کے بھی، ا کا برعلم اور اصحاب فن کے” تذکرۃ المحد ثین “، “تذکرة التعالمين “، “طبقات الصوفیاء”، جیسی کتا بیں تذکرو کی علمی روایت اور ا سکے تسلسل ہی کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور ان کے مطالعہ سے ان کی معنوی توسعیات کا بھی علم ہوتا ہے ۔ تذکرہ ایک ایسا ذریعہ ہے جوعلم وفن کے مختلف خزانوں کو اپنے دامن میں پناہ دیتا ہے بلکہ اہم شخصیتوں کے کارناموں کو یادگار زمانہ بنا دیتا ہے۔ تذکرہ کی اس افادیت کی بنا پر اسے ادب میں ایک صنف کی حیثیت حاصل ہے ۔ بقول ڈا کٹر منصور عالم
تذکرہ نگاری ایک کمپوزٹ آرٹ ہے اس سے علم وادب کے کئی سرچشے ہو تے ہیں ۔
لسانیات ،عمرانیات، تاریخ ادب تنقید وتحقیق ،سوانح ، خا کہ جیسے اصناف کے
علاوہ مختلف اداروں کی مختلف النوع تحریکات نیز دوسرے پہلو کی اس سے ملحق ہیں”
(بہار میں اردوتذ کرہ نگاری)
فارسی میں تذکرہ نگاری کی روایت عربی سے آئی اور اردو میں فارسی سے ، اور اس فن کو بنیادی طور پر بیاض نگاری کے شوق نے جنم دیا ،قد ما کا دستور تھا کہ وہ اپنے پسند کے مطابق اشعار کا انتخاب کرلیا کرتے تھے یہ انتخاب ذاتی لطف اندوزی کیلئے بھی تھے، اور دوسروں سے حسن انتخاب کی داد کیلئے بھی ،انتخاب کی نوعیتیں بھی مختلف تھیں بعض مختلف شعراء کے دواوین سے اپنے پسند کے اشعار جمع کرتے تھے ،بعض اپنے ہی کلام کے منتخب اشعار کی بیاض الگ مرتب کرتے تھے کچھ لوگ ادوار کے لحاظ سے شعراء کے کلام کا انتخاب کر تے تھے اور بعض حضرات اپنے پسند یدہ اشعار جمع کرتے تھے ۔ اور بعض صرف مشاہیرین کے کلام کے انتخاب ہی کو کافی سمجھتے تھے ۔ غرض کہ قدما کے منتخب اشعار کی بیاض رکھنے کا رواج عام تھا اور یہی بیاض اس زمانے میں جبکہ آج کی طرح نہ جگہ جگہ چھاپے خانے تھے اور نہ نشرواشاعت کے وسائل حسب ضرورت دوسروں کے کام سے لطف اٹھانے یا پسند یدہ اشعار کو ذہن میں محفوظ رکھنے کا واحدذریعہ تھا۔
اردوادب بالخصوص اردو شاعری نے فارسی اور عربی کے زیر سایہ اپنی آنکھیں کھولیں ۔ اردو شاعری کی بنیاد جن لوگوں نے ڈالی و ہ سب فارسی داں تھے ۔لہذ اشروع میں اردو شعراء کے تمام تذکرے فارسی میں مرتب ہوئے اور فارسی و عربی ادب کی تنقید کی روایات پرمشتمل ہیں ۔ اردو تذکروں میں میر کے “نکات الشعراء “( 5217ء کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ میر کے “نکات الشعراء “سے محمد حسین آزاد کے’’ آب حیات (۱۸۸۰ء) تک تقریبا ۵۴ تذکرے لکھے گئے” آب حیات “کے بعد تذکرہ نگاری کا دور ختم ہو جا تا ہے اور اسکی جگہ مغرب کے زیراثر تنقید ، تاریخ ، اور سوانح نگاری لے لیتی ہے خود “آب حیات “قدیم طرز کے تذکروں سے بالکل مختلف ہے اس میں اردو کی تاریخی لسانی مسائل مختلف ادوار کی خصوصیت اور شعراء کی شخصیت و کلام پر رائے زنی کا کم وبیش وہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے جو تاریخ ،تنقید اور سوانح میں برتا جا تا ہے ۔ اور غالبااردوزبان وادب کے تمام ناقدین’’ آب حیات” کو اردوادب کی پہلی تاریخی و تنقیدی کتاب خیال کرتے ہیں ۔لہذا’’ آب حیات‘‘ کے بعد بھی تذکرے کی متعدد کتا بیں اسی طرز پرلکھی گئی ہیں جیسے “آثار الشعراۓہود “مولفہ د پی پر شادلبشاش لکھنوی ، جلو خضر “مولفہ صغیر بلگرامی ،یادگارضیغم “مولفہ ضیغم “آثار الشعرا ، مولفہ ممتازعلی، تذکرہ شعرائے دکن‘‘ مولفہ عبدالجبار خان ملکا پوری ’’گل را عنا”ا مولفہ عبداحی ، تذکرہ ریختی‘‘ مولف تمکین کاظمی ” کاشف القائق مولفہ امد امام اثر کے تذکرے وغیرہ وغیرہ ،ان تذکروں میں زبان و بیان ،الفاظ و تراکیب محاورات و استعارات، اور صنائع و بدائع پر تبصرہ ملتے ہیں ۔ اور اسی بنیاد پر شاعر کے کلام کا معیار و مقام متعین کیا جا تا ہے اسلوب شاعری کی یہ جانچ پرکھ ہی در اصل اردو تنقیدی کا نقطہ آغازتھی، تذکرہ نگاروں نے اپنے تذکروں کو سوانحی خا کے، کلام پر تبصر ہ اور نمونہ کلام کے پیش کرنے تک محدود رکھا ، انھوں نے اپنے سے پہلے کے تذکرہ نگاروں پر تنقید یں کیں ، اور ساتھ میں انکی خامیاں گنوائیں ،ان تذکرہ نگاروں کی رائے زنی کوشخصی تنقید کہتے ہیں مختصر یہ کہا جاسکتاہے کہ تذکرے اپنی فنی حدود کے ساتھ قدیم شعراء کے مطالع میں ان کے ذاتی حالات اور عصری ماحول کی باز یافتگی میں بہت کچھ مدد کرتے ہیں ۔ اور جس حد تک ان کا تقابلی مطالعہ زیادہ گہرائی اور گیرائی کے ساتھ کیا جائے گا اتنا ہی ان تذکروں سے بہتر نتائج اخذ کئے جائیں گے ۔
جہاں تک اردوتذکرے کی افایت اواہمیت کی بات ہے تو اردوادب کا ایک بڑا اور اہم خزانہ اس کے تذکرے ہیں ابتداہماری زبان میں اردو شعراء کے جو تذکرے لکھے گئے وہ نہ صرف اردوادب میں گراں قدراضافے ہیں بلکہ ان سے نہ صرف سوانح نگاری کی بتدا ہوئی بلکہ ان میں ہی اردو تنقید کے اولین نمونے بھی ملتے ہیں ۔ اگر ان تذکروں سے آنکھ پھیر لی جائے تو ہم اپنے ادبی وتنقیدی شعور کے آغاز وارتقاء کی تاریخ سے محروم ہوجائیں گے ۔ بہر حال یہ طے شدہ امر ہے کہ اردو تنقید کے بتدائی نقوش انھیں تذکروں میں ملتے ہیں ۔ مگر یہ ابتدائی نقوش غیر واضع مبہم اور بعض نا قابل اعتنا ہیں ۔ ان سے اگر کچھ واضح طور پر بات آتی ہے تو اس قدر کی فلاں شعر کم در جے کا ہے اور فلاں شعروز ن سے گرا ہوا ہے بعض کے فنینقائص کا بھی ذکر ہے ۔
اردو میں تاثراتی تنقید کا سرمایہ اس لئے زیادہ ہے کہ اسکی ابتدا سب سے پہلے انھیں تذکروں کے ذریعے ہوئی ۔ادبی تنقید قدیم تذکروں میں دوسرے تنقیدی نظریات کے برعکس زیادہ نظر آتی ہے ۔ بات دراصل یہ تھی کہ تذکرہ نگاروں کے پیش نظر تنقیدی شعور نہ تھا۔ انھوں نے جو کچھ تنقید کی وہ لاشعوری طور پر محض حسن و قبح یا مدح وقد ح ہے ۔ اس لئے یہ کہنا بالکل درست ہو گاکہ
ہمارے قدیم تذکروں سے ناصرف طبقات ، ور جال اور سوانح کے فن کو ترقی ملی بلکہ ان سے تنقید اور خاص طور پر ادبی و تاثراتی تنقید کو بڑ افروغ حاصل ہوا ۔
تذکرہ نہ صرف کسی شاعر کی زندگی کے شب وروز کے احوال کو پیش کرتا ہے بلکہ وہ تاریخ ، سوانح حیات اور خاکے
کیلئے اہم مواد بھی فراہم کرتا ہے ۔ اس طرح تذکرہ نہ صرف کسی شاعر کے احوال زندگی کا در پن ہے بلکہ تاریخ وتمدن کا انعکاس بھی ہے۔
اردو میں تذکرانگاری کی روایت جہاں اردو کے اہم ادبی مراکز سے وابستہ ہے وہاں بنگال سے بھی متعلق ہے ۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے فورا بعد دلی کی عملی ، ادبی ،تہذیبی ، ثقافتی ، اور مذہبی بہار جاٹوں ، مراٹھوں سکھوں ، نادر شاہی تپیڑوں اور ابدالی کے پے در پے حملوں سے اس حد تک بکھر چکی تھی کہ عوام سے لیکر خواص تک اور شاہ سے لیکر گدا تک ایک ہی جوۓ ابتری میں غرق تھے۔ چناچہ وہ شعرا ، وادباء جو دلی اور لکھنوی کی زوال آمادہ شام کی سیاہی کو برداشت کر نے سے قاصر ہوۓ ہیں وہ تلاش معاش کی غرض سے عظیم آباد اور مرشدآباد میں وارد ہوتے ہیںیہ واضح رہے کہ مرشد آباد کومرکزی حیثیت حاصل تھی جبکہ عظیم آباد کی حیثیت ایک شاخ کی تھی ۔ جوشعراء واد با علماء وفضلاء یہاں آئے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور نگاہ تو قیر میں جگہ بھی دی گئی ۔ یہی وجہ ہے کہ بے شمارا با دو شعرا، مرشد آباد آئے اور قیام کیا۔ تاریخ واضح کرتی ہے کہ ان میں کچھ نے تو مستقل سکونت اختیار کر لی اور بعض دوبارہ اپنے وطن کو واپس لوٹ گئے ۔
اس ماحول نے بنگال میں علم و ادب اور شعروسخن کی جو شمعیں فروزاں کیں انکلی ضیا پاشی سے آج بھی بنگال کا ادب منور ہے۔ ظاہر ہے اس ادبی ماحول میں جتنے شعرا موجود تھے اور ہندوستان کے دوسرے خطوں ، اور علاقوں میں مقیم تھے انکی حیات و خدمات کا ذکر جہاں شمالی ہند میں ہورہا تھا اور عظیم آباد نے اس فن لازوال کو گلے سے لگایا تھا وہاں بنگال محوتما شہ نہیں تھا۔ بلاشبہ شعراء کے تذکرے یہاںبھی قلم بند کئے جارہے تھے۔ جن کی اہمیت سے انحراف فعل عبث ہے۔مثلامرزاعلی لطف کا تذکرہ “گلشن ہند”حیدر بخش حیدری کا تذکرہ “گلشن ہند”بینی نارائین جہاں کا تذکرہ “دیوان جہاں ” جمنےجے مترارماں کا تذکر ہ “انسخہ دلکشا ” عبدالغفور النساخ کا تذکرہ سخن شعراء “وفا راشد کا تذکرہ”بنگال میں اردو” سید محمد کا تذ کرہ “ارباب نثر اردو “سید لطف الرحمن کا تذکرہ “نساخ سے دحشت تک “شانتی رنجن بھٹا چاریہ کا تذ کرہ”بنگالی ہندوں کی ادبی خد مات “تذکرہ شعرائے ٹالیگنج ‘‘ جاوید نہاں کا تذکرہ “انیسویں صدی میں بنگال کا اردوادب”سید اقبال عظیم کا تذکرہ “مشرقی بنگال میں اردو” مشتاق احمدکا تذکرہ “بیسویں صدی میں مغربی بنگال کے اردو شعراء “یوسف علی خان کا تذکرہ “تذکرہیوسفی” اور اظفراو گانوی کا تذکرہ” جلوۂ خضر “تذکرہ کی تاریخ میں اہمیت کے حامل ہیں ۔
مذکورہ تذکرے کئی لحاظ سے قابل ذکر ہیں ۔ اولا یہ کہ یہ وہ تذکرے ہیں جو خالص شعراے اردو اور نثر نگاروں پر مشتمل ہیں ۔ اور ایسے تذکرے بھی شامل ہیں جن کی ترتیب واشاعت بنگال میں ہوئی ہے مختصر یہ کہ ان تمام تذکروں کاتعلق کسی نہ کسی طورپر بنگال سے رہاہے۔
اردوزبان میں اردو شعراء کا تذکرہ پہلی بار بنگال میں لکھا گیا۔ مرزاعلی لطف نے پہلی بار اردوزبان میں”تذکر و گلشن ہند”لکھا جوعلی ابراہیم خان خلیل کے گلزار ابراہیم کا ترجمہ ہے ۔ 19 ویں صدی سے لیکر آج تک تذکرہ کی تصنیف وتالیف کا کام جاری ہے لیکن اس اہم صنف کی طرف سے ہمارے اہل نقد و نظر نے اپنی توجہ ہٹالی تھی یہی وجہ ہے کہ مغربی بنگال میں لکھے جانے والے تذکروں کی وہ پذیرائی نہ ہوسکی جوا سکا حق تھا۔ اور یہی بات میرے اس مقالے کی تحریک بنی۔
Md Quisar Alam
Department of Urdu
Islampur college ,Uttar Dinajpur (WB)
٭٭٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!