انار کلی کا تجزیاتی مطالعہ

ڈاکٹر رضوانہ بیگم

 اسسٹنٹ پروفیسر،  صدر شعبۂ اُردو گورنمنٹ سٹی کالج

نیاپل حیدرآباد

Anar Kali ka Tajziyati Mutala by Dr Rizwana Begum

 1922ء میں امتیاز علی تاج نے اپنا شہر آفاق ڈراما’’ انارکلی‘‘ لکھا یہ دراصل ایک تاریخی المیہTragedy ڈراما ہے۔ اوراس کا موضوع’عشق اور فرض‘ ہے یہ تاج کا سب سے اہم ڈراما ہے جو اردو ڈراموں کے سفر میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔انارکلی کا واقعہ تاریخی حقیقت ہے یا محض روایت اس کا فیصلہ مشکل ہیں۔

                چنانچہ تاج ’’انارکلی‘‘‘ کے دیباچے میں یوں رقم طراز ہیں۔

’’میرے ڈرامے کا تعلق محض روایت سے ہے بچپن سے انارکلی کافرضی کہانی سنتے رہنے سے حسن وعشق اور ناکامی ونامرادی کا جو ڈراما میرے تخیل نے مغلیہ حرم کی شوکت وتجمل میں دیکھا اس کا اظہار ہے‘‘

 دیباچہ انارکلی مرتبہ ڈاکٹر محمود الہیٰ ص۔ ۲۳

 امتیاز علی تاج کے سحر قلم نے اس افسانے کو حقیقت کا لباس پہنایا ہے آخر وہ کون سی ایسی ادبی اور فنی خوبیاں ہیں جنہوں نے اس ڈرامے کو شاہکار کا درجہ عطا کیا ہے ۔آگے ہم انھیں اُمور پر گفتگو کریں گے۔

 ’’انارکلی‘‘ ایک طویل ڈراما ہے یہ تین ایکٹ (باب) اور تیرہ مناظر پر مشتمل ہے۔ پہلا باب عشق دوسرا باب رقص ،تیراباب موت اس طرح امتیاز علی تاج نے ڈرامے میں آغاز وسط او رانجام کے تقاضے کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔

 پہلے باب میں ڈرامے کاآغاز ہوتا ہے اور واقعات ایک کے بعد دیگر سامنے آتے ہیں شہنشاہ اکبر محل کی ایک کنیز نادرہ بیگم کو’انارکلی‘ کا خطاب عطا کرتا ہے ولی عہد سلطنت شہزادسلیم انارکلی میں دلچسپی لینے لگتا ہے اور اس پر عاشق ہوجاتا ہے۔ انارکلی بھی سلیم سے محبت کرتی ہے۔ لیکن اپنے جذبوں کا اظہار نہیں چاہتی اسی ایکٹ میں سلیم اورانارکلی کی ملاقات بھی ہوتی ہے۔ اور محل کی دوسری کنیز دل آرام جو سلیم کو حاصل کرنا چاہتی تھی اس راز سے واقف ہوجاتی ہے

 دوسرے باب میں انارکلی اور دل آرام کے مابین تصادم اپنے عروج کو پہنچتا ہے جس کے اثرات سلیم اور اکبر کی زندگی پر بھی پڑتے ہیں۔ ان دونوں کے مابین تصادم وکشمکش کا آغاز ہوتاہے۔ اکبر انارکلی او رسلیم کے عشق سے واقف ہوجاتا ہے۔ اور اس کے حکم سے انارکلی قید کرلی جاتی ہے۔ تیسراباب میں ڈارما اپنے انجام کو پہنچتا ہے۔ دل آرام کی چالوں سازشوں اور داروغہ، زندان کی دروغ گوئی کے زیر اثر اکبر انارکلی کو دیوار میں زندہ چنوانے کا حکم دیتا ہے۔ اس طرح یہ ڈراما بظاہر انارکلی کے الم ناک انجام پر ختم ہوجاتا ہے۔

 ڈراما’’انارکلی‘‘ رجحان کے اعتبار سے رومانیت کاترجمان ہے محض اس لیے نہیں کہ اس میں انارکلی اور شہزادہ سلیم کی داستان پیش کی گئی ہے بلکہ اس اس لئے کہ اس ڈرامے کی بنیاد تخیل اور مثالیت رکھی گئی ہے ڈراما میںتخیل کی کارفرمائی مغلیہ سلطنت کی شان شوکت اور جاہ وجلال کی پیش کشی میں نظر آتی ہے تو مثالیت شہزادا اور رقصہ کی محبت کے بیان میں ایک رقصہ کا محبت میں جان گنوانا اورشہزادے کا محبت کی خاطر تخت شاہی کو ٹھکرانے پرآمادہ رہنا مثالیت نہیں تو اور کیا ہے۔؟

 انارکلی کی موت کے سبب اس ڈرامہ کو انارکلی کی ٹریجیڈی قرار دیا ہے۔ لیکن انارکلی کی موت سے ہمارے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ دل آرام کی موت اور اکبر کے انجام سے ہمارے دل ودماغ کو ایک تسکین ملتی ہے۔ اس طرح اکبر کو ٹریجدڈ کا ذمہ دار قرار دے سکتے ہیں۔ کیوں کہ اکبر ہی سے وہ غلطیاں سرذر ہوئیں کہ انارکلی کی موت واقع ہوئی۔ اکبر اپنے مقاصد کی تکمیل میں ناکام رہا۔ اکبر کی اولین غلطی یہ ہے کہ وہ صرف شہنشا ہی بنارہا۔ اسے گورانہیں کہ ایک ادنیٰ کنیز مغلیہ سلطنت کی بہو بنے۔

 وہ اپنے بیٹے کے جذبات کوایک شہنشاہ کی نظروں سے دیکھتا رہا۔ اگر وہ باپ کی نظروں سے سلیم کو دیکھتا تو کہانی کا انجام کچھ اور ہوتا۔ اکبر نے ایک مستحکم حکومت قائم کی تھی۔ اکبر کی خواہش تھی کہ سلیم بھی اسی کی طرح کے کارنامے انجام دے اس نے اپنے بیٹے سلیم سے کوئی خواب وابستہ کررکھے تھے او روہ ان خوابوں کی تکمیل چاہتا تھا۔ شہنشاہ کو اپنے خواب عزیز تھے۔ انسان نہیں۔

 اس ڈرامہ کا ہر کردار اپنے خواہشات کا اسیر تھا۔ اکبر صر ف شہنشاہ ہے اس نے ایک باپ کی حیثیت سے واقعات پر نظر ڈالنا گوارانہ کیا لہذا سلیم کی محبت کو ایک باپ کی حیثیت سے سمجھنے سے قاصر رہا۔۔۔۔۔۔۔ اور سلیم بھی یہ بھول بیٹھا کہ وہ عام نوجوان نہیں ہے مغلیہ سلطنت کا شہزادہ ہے۔اس پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ لیکن وہ تو صرف عاشق بنارہا۔ دل آرام کو بھی اپنے خواب عزیز ہیں۔ وہ بھول گئی کہ دربار میںکنیزوں کے مقام شاہوں کی دلچسپی پر منحصر ہواکر تے ہیں۔ وہ اپنے حسن وجوانی اور فن کی مدد سے ان کی نظروں میں اچھا بن سکتی ہیں۔ لیکن ان کے دلوں تک نہیں پہنچ سکتی۔ دل آرام سلیم کی ملکہ بن نے کے خواب دیکھتی رہی۔ ان سب میں انسانی نقطہ نظر کا فقدان ہے۔

 مہارانی او روزیر ذادہ بختیار ہی دو ایسے کردار ہیں جو انسانی نقطہ نظر کے حامل ہیں۔ ڈرامے کے انجام سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ان سارے خواب دیکھنے والوں کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آتا۔ انارکلی چنوادی جاتی ہے۔ دل آرام ماردی جاتی ہے۔

 شہزادہ سلیم دیوانہ ہوجاتاہے۔ اکبر شہنشاہ کی حیثیت سے بھی اس کے خواب ادھورے ہی رہے۔ اور باپ کی حیثیت سے بھی اس کے خواب ادھورے ہی رہے۔ باپ کی حیثیت سے بھی وہ ناکام رہا۔ اکبر کے اس انجام کا ذمہ دار خود اکبر اور اس کی غلطیاں ہیں۔

 فنی اعتبار سے یہ ڈراما بے حد سبک اور چست واقع ہوا ہے۔ واقعہ بہ واقعہ کہانی کی گرفت مضبوط کرتی جاتی ہے کشمکش اور تجسس بڑھتا جاتا ہے۔ کرداروں کی جذباتی زندگی میں ارتقاء کا سبب بنتی ہیں ۔ اور کہانی میں زندگی بھی پیدا کرتی ہے کوئی واقعہ غیر ضروی محسوس نہیں ہوتا ہے۔

کردار نگاری:

 امتیاز علی تاج کو کردار نگاری پر بھی قدرت حاصل ہے۔ تاج نے کردار نگاری میں فنکارانہ شعور اور تخلیق بصیرت سے کام لیا ہے۔ اس لیے کوئی کردار کمزور نہیں لگتا جو جہاں ہے اپنی جگہ دلچسپ اور متاثر کرنے والا ہے ۔

                بقول ڈاکٹر حاتم رام پوری:

’’ انارکلی میں سب کی انفرادی نشوونما فطری طورپر ہوتی ہے ادنیٰ سے ادنیٰ کردار بھی اپنے افعال اپنی شہرت اپنی سیرت اور اپنے مزاج کے اعتبار سے محض پہچانا ہی نہیں جاتا بلکہ دلچسپ بھی ہے‘‘

                 ( موج ادب کوثر مظھری۔ ص 342،343)

                تصادم:

 فن ڈراما نگاری میں تصادم کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ تصادم کی فضاء ایک خاص فطری انداز میں’’انارکلی‘‘ کے پورے پلاٹ پر چھائی ہوتی ہے۔ کہانی کی بنیاد محبت کی کشمکش پر قائم ہے۔ دل آرام اکبر کی منظور نظر کنیز اور ایک عیاّر عورت ہے۔ وہ شہزادہ سلیم سے اس لیئے محبت کرتی ہے کہ ہندوستان کی ملکہ بن سکے۔ لیکن سلیم دل آرام سے نہیں کنیز نادرہ عرف انارکلی سے محبت کرتا ہے۔ او راسے ملکہ بنانے کا خواہش مند ہے۔

 انارکلی بھی شہزادہ سلیم سے نہیں صرف سلیم سے محبت کرتی ہے۔ ڈرامے میں تصادم کہیں دل آرام کے عمل سے پیدا ہوتا ہے کہیں انارکلی اور سلیم کی نادانیوں سے تو اکبر کے باپ اور شہنشاہ کے مابین کشمکش ہوتی ہے۔

 تاج نے انارکلی کے کردار میں کشمکش اور تجسس کے عنصر کو اچھی طرح نبھایا ہے۔

مکالمہ نگاری:

مکالمہ کے ذریعہ ہی کرداروں کی اصل صورت سامنے ابھر کرآتی ہے ڈاکٹر مسیح الزماں کے بقول:

 ’’ چست فقرے ’ہموارجملے‘ اختصار، ویجاز مکالمے کا جوہر ہے‘‘

                ( موج ادب کو ثر مظھری۔ ص 343)

 مکالموں سے جہاں کرداروں کے جذبات واحساسات اوران کی داخلی زندگی کی ترجمانی ہوتی ہے۔ وہیں کہانی میں دلچسپی پیدا کرنے کا سبب بھی ہیں۔

 ڈرامہ میں مغلیہ سلطنت کا جاہ وجلال عالی شان محل وقیمتی لباس ہی سے نمایاں نہیں بلکہ ان مکالموں سے بھی ٹپکتا ہے۔

  تاج نے چھوٹے پُر اثر اور خوبصورت جملے لکھ کر ڈارمے کے پورے پلاٹ کو دلچسپ بنائے رکھا ہے۔ آخری منظر میں ثریا جو انارکلی کی چھوٹی بہن ہے۔ شہنشاہ اکبر سے مکالمے میں گستاخی کی حد تک بڑ ھ گئی ہے۔ ایک معمولی کنیز کا اکبر اعظم کو اس طرح مخاطب کرنا غیر فطری معلوم ہوتا ہے۔

ثریا: (اکبر سے مخاطب ہوکر) اس سے ’’ شہنشاہ تم سے نہیں تم بچ جائوں گے؟

                آسماں نہ ٹوٹے ،بجلیاں نہ گریں، زلزلے نہ اٹھیں؟ لیکن یہ جنگاری جسے دوزخ کی ہوائیں سرخ کررہی ہیں۔ تم کو تمہارے محلوں کو تمہاری سلطنت کو سب کو پھونک کر راکھ بنادے گی‘‘۔

 لیکن چوں کہ ثریا کاکردار ایک شوخ او رچنچل لڑکی کا کردار ہے او رپھر یہ کہ اس کی بہن کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ اس لیے وہ جذبات سے مغلوب ہوگئی ہے۔

 مجموعی طورپر ڈراما نگاری کی دنیامیں امتیاز علی تاج کا نام بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ اردو ڈراما نگاری میں ڈراما انارکلی فنی پختگی کی حیثیت سے بھی بقائے دوام کا درجہ رکھتا ہے۔

 ٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.