آغا حشر کی کردار نگاری: ایک جائزہ

ڈاکٹر محمدشہنواز عالم

اسسٹنٹ پروفیسرشعبۂ اردو، اسلام پور کالج

اتر دیناج پور، مغربی بنگال

Agha Hashr Ki kirdar Nigari by Dr Md Shahnwaz Alam

یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے پاس جو ہے اس کی قدر دانی کے بجائے جو نہیں ہے اس کا رونا دھونا، اس کے نا ہونے پر پچھتانا اور ہاتھوں کا ملنا ہمارا معمول ہوتا ہے، یہ بات حسیاتِ انسانی کے لئے جتنی درست اور معنی خیز ہے اتنی ہی دنیائے ادب کے لئے بھی، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ معاملہ چاہے ادب کی تخلیق کا ہویا تنقید کا، ہر جگہ ہمیں احساسِ محرومی اور ناقدری کے نمونے مل جاتے ہیں۔ گو یہ کہ آغا حشر کے قلم کاروں کا عمل بھی اس سے مستثنیٰ نہیں رہا ہے۔ یعنی آغا حشر کے متعلق صرف یہ کہہ دینا کہ آغا حشر کے ڈرامے شیکسپیئر کے ڈرامے جیسے، سماجی شعور نظیر اکبر آبادی جیسا، فلسفۂ حیات اقبال جیسا اور زندگی منٹو کے کرداروں جیسی ہے جو بالکل درست نہیں ہے کیوں کہ آغا حشر کا سب کچھ ان کے جیسا تھا۔ ان کی تمام خوبیاں، خامیاں اور ان کی زندگی کا ایک ایک عمل ان کا اپنا ہے چنانچہ ہم اس بات کو پوری ذمہ داری کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ نہ تو ان کے ڈرامے شیکسپیئر کے ڈراموں کے متبادل ہوسکتے ہیں، نا ان کی شخصیت منٹو کے کردارجیسی ہے، نہ ان کا فلسفۂ حیات اقبالؔ کے فلسفۂ حیات جیساہے اور نہ ہی آغا حشر کا سماجی شعور نظیر سے کوئی مطابقت رکھتا ہے۔ غرض یہ کہ آغا حشر نے اپنے عہد کے تلخ حقائق اور شیرین آواز کو اپنے فن کے قالب میں ڈھال کر اسے ڈراموں کا جامہ پہنا کر دنیا والوں کے سامنے تا عمر پیش کرتے رہے۔ اور یہ وہی سچائی ہے جو انہیں اپنے ہم عصروں میں قد آور اور ممتاز کرتی ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر محمد شاہد حسین رقمطراز ہیں۔

’’احسن و بیتاب کے ہم عصروں میں ڈرامے کی دنیا کا ایک بہت ہی اہم اور معروف نام آغا حشر کا ہے ہمارے ڈرامے کی تقریباً سوا سو برس کی تاریخ میں عوام اور خواص دونوں میں امانت کے بعد جو مقبولیت آغا حشر کے حصہ میں آئی اس سے دوسرے ڈراما نگار محروم ہیں۔

آغا حشر احسنؔ و بیتابؔ کے ہم عصر ضرور ہیں مگرا نہوں نے ڈراما نگاری اس وقت شروع کی جب احسنؔ و بیتابؔ اپنا عروج حاصل کرچکے تھے۔ اور ان کی عظمت و اہمیت تسلیم کی جا چکی تھی، مگر آغا حشر نے ڈراما نگاری اس شان سے شروع کی کہ اپنے ہم عصروں کو پیچھے چھوڑ دیا۔‘‘ ۱؎

آغا حشر کے کرداروں پر گفتگو کرنے سے پہلے بہتر یہ ہوگا کہ ہم کردار نگاری کی اہمیت و افادیت اور اس کے اصول و ضوابط پر ایک نظر ڈال لیں تاکہ اس سے آگے کی باتیں ہمارے لئے ذرا آسان ہوجائیں۔ ان باتوں سے ہم بخوبی واقف ہیں کہ ناظرین و سامعین کی دلچسپیوں کو ابھارنے اور قائم رکھنے میں ڈرامے میں جو چیز اولیت کا درجہ رکھتی ہے وہ کہانی ہے۔ جس طرح ڈرامائی تشکیل کی کامیابی زیادہ تر پلاٹ اور قصہ پر منحصر ہوتی ہے ٹھیک اسی طرح قصے کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار کردار پر ہوتا ہے۔ کیوں کہ قصے کے واقعات و حالات کا تعلق جب تک کردار سے گہرا نہیں ہوجاتا ہے تب تک وہ لغو و بے معنی ہی رہتا ہے۔کیوں کہ واقعات کو فطری بنانے اور پلاٹ کی حقیت کو واضح کرنے میں کردار ہی نمایاں کارنامہ انجام دیتا ہے۔ کردار اپنے افعال، حرکات و سکنات سے زندگی کی حقیقی عکاسی کرتا ہے یا پھر کامیاب ترین واقعہ یا تمام واقعات کی کڑیوں کو بے جوڑ اور ناکام کردیتا ہے۔ غرض یہ کہ کسی معاشرے کی سچی تصویر کشی کردار کے صحیح افعال، حرکات و سکنات کے نتائج ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں عشرت رحمانی کاخیال دیکھیں۔اقتباس ملاحظہ ہو۔

’’کسی ڈراما کے افراد اس کے موضوع اور پلاٹ کے مطابق اس دنیا کی جیتی جاگتی مخلوق ہیں۔ اس نظریہ کے ماتحت سیرت نگاری کے فرض کی ادائیگی بہت آسان ہوجاتی ہے۔ ڈراما نگار جو اس مخلوق کا خالق مطلق ہے۔ اپنے ہر فرد کی سیرت اور شخصیت کا بخوبی اندازہ رکھتا ہے۔ اگر وہ ان میں سے ہر ایک کا نفسیاتی تجزیہ کرنے کے بعد اپنے ذہن کے مطابق مشخص کی ہوئی سیرت کو موزوں و مناسب الفاظ میں ادا کردیتا ہے۔ اور ان کی باطنی کیفیات و جذبات کو موقع محل کے لحاظ سے متعینہ انداز میں واضح کرنے کی قدرت رکھتا ہے تو اس کی تدبیر گیری کردار نگاری کا حق ادا کرکے اداکاری کے فرائض میں پوری پوری سہولیتں مہیا کرسکتی ہیں۔ اور وہ بلا شبہ کردار اور سیرت نگاری کے فن میں کامیاب ثابت ہوتا ہے۔‘‘ ۲؎

 آغا حشر کے فن کے متعلق جب ہم گفتگو کرتے ہیں تو ہم پر یہ بات پوری طرح آشکار ہوتی ہے کہ اس عہد کے متبذل ڈراما نگاری کی پامال روش میں بھی اپنی فنکارانہ انفرادیت قائم کی، وہ اسٹیج پر اپنے ڈراموں کے کرداروں کے ذریعے ایسے ایسے کارنامے پیش کرتے ہیںجن کو دیکھ کر ناظرین کی تفریح بھی ہوجاتی ہے اور زندہ رہنے کی ایک نئی امنگ بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ ان کے ڈراموں میں جدید فنی تدبیر کاری کی خامیاں اور ہیتی کمزوریاں ہوسکتی ہیں۔ لیکن ان کے ڈرامے اپنے وقت کے بہترین فنکاری کے نمونے اور زبان و بیان کی صحت و سلاست میں اپنی مثال آپ ہیں۔ اس متعلق یعقوب یاور اپنی رائے قائم کرتے ہیں۔ اقتباس دیکھیں۔

’’انہیں اس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ آنے والے زمانے کے تقاضے کچھ اور ہیں۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ داستانوی فضاء میں عام اور معاشرے کے نچلے طبقے سے متعلق کرداروں کو داخل کیا بلکہ بتدریج اس فضا ہی کو بدل دینے کی کوشش کی، جو کسی مقصد سے عاری بس دل بہلانے اور عوام کو سستی تفریح فراہم کرنے کی روایت کی پیروی میں چلی آرہی تھی، ان کا ہر اگلا قدم پچھلے ڈرامے کے مقابلے میں معاشرے کے مسائل کو زیادہ بہتر طور پر اٹھاتے دکھائی دیتا ہے۔‘‘ ۳؎

 مذکورہ اقتباس سے اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ آغا حشر نے جب اپنے شعور کی آنکھیں کھولیں اور ڈرامے کی دنیا میں قدم رکھا تو فوق الفطرت واقعات، درباری اور ماورائی ماحول، خیالی مضامین اور مثالی کرداروں کا زور تھا، عام کرداروں کا گذر بمشکل تھا، لیکن انہوں نے ڈراموں کو ان فرسودہ روایتوں کی جکڑ بندیوں سے آزاد کراکر اسے نتیجہ خیز، سنجیدہ، سماجی اور اصلاحی مسائل کی ترجمانی کا ایک موثر وسیلہ بنادیا۔ آغا حشر کے کردار معاشرے کے کسی نہ کسی طبقے کے نمائندہ اور زندگی کے ایسے جیتے جاگتے نمونے ہیں جو ناظرین کے سامنے اپنی سیرت و صورت اور حسن و قبح کی روداد خود اپنی زبانی پیش کرتے ہیں۔

 آغا حشر کے ڈراموں کے مطالعے سے یہ بات صاف ہوتی ہے کہ ان کے یہاں ہر قسم کے کردار ہیں جو مختلف طبقوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مثلاً بادشاہ، وزیر، محب وطن، وفاشعار بیویاں، جواری، شرابی، طوائفیں، دغاباز دوست، قاتل، سرمایہ دار، غریب، طاقت ور، کمزور، بوالہوس، فرض شناس اور جاںنثار ملازم وغیرہ۔

 نادر جنگ، بیرم، دل آرا، ماہ پارہ، عباسی اور شمسہ کے کردار ایسے ہیں جو اپنے مفاد اور اقتدار کے لئے کسی کی جان لے بھی سکتے ہیں اور اپنی جان دے بھی سکتے ہیں۔ وہ اپنی ہوس ناکی اور ذہنی تسکین کے لئے اپنے بال بچوں کو داؤ پر لگا سکتے ہیں۔ جن کی حیوانیت سے پوری انسانیت شرم شار ہے۔

 افضل، عارف، بلوا منگل اور جگل ہمارے معاشرے کے اس طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں جن کے یہاں دولت کی ریل پیل ہوتی ہے جس کے نشے میں وہ دیوانے ہوجاتے ہیں اور ان کی یہ دیوانگی اس قدر ان پر چھاجاتی ہے کہ ان کے نزدیک اچھائی اور برائی میں کوئی فرق نہیں رہتا ہے۔ وہ دنیا کی ہر برائی کو اپنا فعل بنالیتے ہیںاچھے کاموں کا کرنا ان کے لئے دشوار اور برے کاموں کا کرنا آسان ہوجاتا ہے یعنی قمار بازی، عیاشی اور شراب نوشی ان کی شان بن جاتی ہے۔

 ’’پھول کماری‘‘، ’’کام لتا‘‘، ’’چنتا منی‘‘ ہمارے سماج کے ایسے کردار ہیں جن کی زندگی کو دیکھ کر کلیجہ منھ کو آتا ہے۔ یہ سماج کے ان درندوں کو قابو میں رکھتے ہیں جن کے نزدیک ہوس ہی سب کچھ ہے۔ ماں، بہن اور بیٹی کوئی معنی نہیں رکھتی ہے۔

 سعیدہ، زارا، نوشابہ، پروین، رشیدہ، سروجنی، رنبھا، حسنہ، طاہرہ، راحیل، ایاز اور تحسین، فرض شناسی، وفاداری، ایمانداری اور احسان مندی جیسی اعلیٰ انسانی اقدار کے ترجمان ہیں۔ یہ کردار ایسے ہیں جو صحت مند سماج صاف ستھرے اور پاکیزہ معاشرے کی بنیاد کو مضبوط اور مستحکم بناتے ہیں۔ آغا حشر اپنے کرداروں کے انتخاب کے متعلق رقمطراز ہیں۔

’’میں اپنے ڈرامے کے کردار اپنے دوستوں، آشناؤں اور ملاقاتیوں کے حلقے میں انتخاب کرلیا کرتا ہوں اور بعض اوقات انہیں اپنی دنیائے تخیل ہی سے پیدا کرلیتا ہوں۔‘‘ ۴؎

 درج بالا اقتباس کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ آغا حشر کے تخلیق کردہ جتنے بھی کردار ہیں وہ ہمارے سماج کے جانے اور پہچانے انسان ہیں۔ جو انسانی احساسات و جذبات کی زندہ اور متحرک تصویر یں ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اس سلسلے کی گفتگو طوائف ’’چنتا منی‘‘ اور ’’بلوا منگل‘‘ کی ملاحظہ ہو۔

چنتا منی- سوچو اور انصاف کرو۔ ایک ہندو جو خاوند کے گھر کو اپنا مندر اور خاوند کی محبت کو اپنی پوجا اور خاوند کی خدمت کرتے کرتے مرجانا اپنی مکتی سمجھتی ہے۔ ایسی محبت والی ایسی پتی ورتا بیوی کو اندھیرے گھر میں روتے بلبلاتے چھوڑ کر ، اس کتے کی طرح جو لذید نعمتیں چھوڑ کر ایک ہڈی کی طرف دوڑتا ہے۔ اندھیری راتوںمیں رنڈیوں کے پیچھے چور اور ڈاکو کی طرح بھٹکتے پھرنا کیا برا کام نہیں۔ کیا خاوند کو بیوی پرحق ہے اور بیوی کو خاوند پر کوئی حق نہیں۔

چنتا منی- اگر برہمن کو جھوٹا کھانا، دوسرے کے منھ کا اگلا ہوا نوالہ دیا جائے تو وہ کھائے گا؟

بلوا منگل- شو۔ شو۔ برہمن مرجائے گا مگر جھوٹے کھانے کی طرف آنکھیں نہ اٹھائے گا۔

چنتا منی- تو اب سوچو اور انصاف کرو جب برہمن جھوٹا کھانا، دوسرے کا اگلا ہوا نوالہ نہیں کھا سکتا تو ایک بازاری رنڈی، جس کی آنکھ، ناک، گال، ہونٹ، منھ، انگ کو دوسروں نے جھوٹا کرکے چھوڑا ہے جو اس ہڈی کی مانند ہے جس کو سینکڑوں کتوں نے چچوڑا ہے،تو اسے کیسے برداشت کرسکتا ہے۔

 آغا حشر نے ’’بلوا منگل‘‘ اور ’’آنکھ کا نشہ‘‘ میں طوائف اور طوائف زدہ اشخاص کے کردار کو بڑی محتاطی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ آغا حشر کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ ایک طوائف سے معاشرے کی اصلاح کا کام لیتے ہیں۔ بلوا منگل ایک رئیس ہے دولت کے نشوں میں دھت ہوکر کوٹھوں پر آتا اور جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میںوہ ’چنتا منی‘ نامی طوائف کو اپنا دل دے بیٹھتا ہے۔ لیکن چنتا منی طوائف ہوتے ہوئے بھی اپنے سینے میں ایک عورت کا دل رکھتی ہے۔ اسے شوہر بیوی کے رشتوں کے ساتھ ہی ساتھ اپنی حیثیت کابھی اندازہ ہے۔ لہٰذا چنتا منی اپنے خریدار بلوا منگل کو مثالیں دے دے کر سمجھاتی ہے چنتا منی کی باتیں بلوا منگل کی سمجھ میں آجاتی ہیں یعنی وہ برے کاموں سے توبہ کرلیتا ہے اور سادھو بن جاتا ہے۔

’’دل کی پیاس‘‘ آغا حشر کا بہترین ڈراما ہے۔ اس ڈرامے کے کردار مختلف نوعیت کے حامل ہیں۔ اس ڈرامے کے ’منورما‘ اور ’مدن‘ فعال کردار ہیں۔ در اصل اس ڈراما کے پس پردہ ڈرامانگار نے ملک کے سیاسی، سماجی، تہذیبی حالات کو بیان کرنے کے ساتھ ہی ساتھ مغربی تہذیب، فیشن پرستی،عورت کی بے راہ روی اور بدلتے نظام کے نقصانات کی بھرپور عکاسی کی ہے۔

مدن- پتی کی مرضی اور خوشی کی طرف سے تمہاری بے پروائی، تمہارے کرتویہ کی گراوٹ، تمہاری حد سے زیادہ بڑھی ہوئی آزادی وہ ٹھنڈی آگ ہے جو میری تندرستی کو دھیرے دھیرے جلا رہی ہے۔ تم ہی میری اصل بیماری اور تم ہی میری دوا ہو۔

منورما- اگر تم اچھے ہوسکتے ہو تو میں تمہارے لئے آٹھ دس روز ٹھیٹر اور کلب جانا بند کرسکتی ہوں۔ دن میں دو تین بار آکر تمہیں دلاسا دے سکتی ہوں،لیکن تمہارے پلنگ کے پاس نہیں بیٹھ سکتی۔

ڈاکٹر- افسوس۔ میں دیکھتا ہوں ایجوکیشن اور آزادی پاکر عورت نہ عورت ہی رہتی ہے اور نہ مرد ہی بن سکتی ہے بلکہ دنیا کی ایک نئی چیز ہوتی ہے۔

منورما- ویل ڈن۔ یہ کہو کہ تم بھی عورت کی آزادی اور ایجوکیشن کے اگینسٹ ہو۔

ڈاکٹر- ہم پسند کریں یا نہ کریں لیکن ہندوستان بدل رہا ہے اور دھیرے دھیرے بدل جائے گا۔ جو لوگ زبان اور قلم سے اس پریورتن کوروکنا چاہتے ہیں وہ ہوا میں گرہ دے رہے ہیں۔ ماڈرن سویلائزیشن کو کوسنے اور گالیاں دینے کے بدلے انہیں کیوں نہ یہ کوشش کرنی چاہئے کہ یورپ سے آئی ہوئی آزادی کی لہر بھارت کے شریر پر جمے ہوئے میل کے ساتھ ساتھ بھارت کی تمام خوبصورتی کو بھی بہا نہ لے جائے۔ میں فیملی ایجوکیشن اور فیملی فریڈم کے اگینسٹ نہیںہوں مگر میری یہ ایک اِچھّا ہے کہ ایجوکیشن پانے کے بعد بھی عورت کو عورت ہی رہنا چاہئے۔

’’سفید خون‘‘ آغا حشر کاایک کامیاب ڈراما ہے۔ حشر نے اس ڈرامے میں شہنشاہ خاقان کی کارکردگی کو موثر انداز میں پیش کیا ہے۔ خاقان کی تین بیٹیاں ہیں۔ ان تینوں میں دو چالاک، چال باز، چاپ لوس اور مفاد پرست ہیں لیکن ان دونوں کے برعکس چھوٹی بیٹی ایماندار، حق پرست ہے جسے خاقان پسند نہیںکرتا ہے اسی لئے وہ اپنی چھوٹی بیٹی کو اپنی جائیداد سے بے دخل اور دیگر بیٹیوں کو اپنی ملکیت کا وارث بنادیتا ہے۔ لیکن کچھ دن گذر جانے کے بعد جب وہ اپنی ان بیٹیوںکے پاس جاتا ہے جنہیں اپنی ساری جائداد کا مالک بنایا تھا تو ان دونوں لڑکیوں پر یہ بات منکشف ہوتی ہے کہ خاقان ان کے یہاں مستقل قیام کی غرض سے آیا ہے چنانچہ یہ دونوں لڑکیاں خاقان کو گھر سے نکل جانے کو کہتی ہیں۔ یہ سن کر خاقان کے شاہانہ وقار کو ٹھیس پہنچتی ہے شہنشاہ کے روحانی کرب اور ذہنی اذیت کا اندازہ ہمیں ذیل کی گفتگو سے ہوتا ہے۔

خاقان- خوب برسو،خوب چمکو، ہوا،آگ، مٹی، پانی، ان سب کو رشوت دی گئی ہے۔ یہ سب میری بیٹیوں سے مل گئے ہیں۔ تو۔ (ارسلان وزیر خاقان) ان سے جامل۔

ارسلان- حضور برف گر رہی ہے۔

خاقان- گرنے دے۔ گرنے دے۔ چل اے ہوا خوب زورسے چل، اے بادلو! اتنی شدت سے برسو کہ پہاڑوں کی چوٹیاں محلوں کے گنبد، قلعوں کے مینار سب تہِ آب ہوجائیں۔

ارسلان- ایسی اولاد پر لعنت ہو جس کے دل میں ایسا زہریلا مادہ پیدا ہوجاتا ہے۔

خاقان- ہاں۔ اور اس باپ پر بھی لعنت ہو جو اپنے نطفے سے ایسی ناخلف اولاد پیدا کرتا ہے۔ اور اس ماں پر لعنت ہو جو اپنی چھاتیوں کا دودھ پلا کر دنیا کی مصیبتوں کو بڑھاتی ہے۔ اور اس محبت پر بھی لعنت ہو جو ایسے زہریلے دانت والے کتوں کو پالتی ہے۔

 شہید ناز آغا حشر کا ایک منفرد ڈراما ہے۔ اس ڈراما میں آغا حشر نے بادشاہ صفدر جنگ کے عدل و انصاف پرجہاں روشنی ڈالی ہے وہیں صفدر جنگ کی بشری کمزوریوں کو بے نقاب بھی کیا ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ سعیدہ کا بھائی جمیل ایک زانی ہے اس کی سزا بھی سنائی جاچکی ہے لیکن سعیدہ اپنے بھائی کی محبت میں بادشاہ صفدر جنگ کی خدمت میں حاضر ہوتی ہے اور اپنی غرض بیان کرتی ہے۔ بادشاہ سعیدہ کی خوبصورتی سے مرعوب ہوکر کہتا ہے کہ جمیل کی سزا معاف تو ہوجائے گی لیکن اس کے لئے ایک شرط ہے۔ یعنی بادشاہ کی شرط سعیدہ کی عصمت ہے جو سعیدہ کو کسی طرح منظور نہیں۔ سعیدہ بادشاہ کی اس شرط کو ٹھکرا دیتی ہے۔ اور ایک مضبوط چٹان بن کر بادشاہ کی جانب سے کئے گئے ہر وار کا مقابلہ کرتی ہے۔

 یہی وہ عمل ہے جو سعیدہ کے کردار کو عظمت اور بلندی بخشتا ہے۔ صفدر جنگ اور سعیدہ کی گفتگو سے ان کے کرداروںکا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔

صفدر- تو جو کچھ میںمانگوں گا پاؤں گا۔

سعیدہ- بیشک یہ تابع مال و جان۔ ساز و سامان جسم و جان بلکہ دوجہاں تک نذر کرنے کو تیا رہے۔ البتہ دو چیزوں کے دینے سے انکار ہے۔

صفدر- ان چیزوں کا نام و نشان۔

سعیدہ- ایک کا نام عصمت اور دوسرے کا نام ایمان۔

صفدر- ان دو چیزوں کا لیکر کوئی کیا نفع اٹھائے گا۔ اوڑھے بچھائے گا۔ مگر بالفرض اگر دونوں چیزوں میں سے کسی نے کوئی چیز چاہی۔

سعیدہ- تو وہ مجھ سے لعنت پائے گا اور خدا سے روسیاہی۔

صفدر- اگر تمہارا ایسا ہی خیال ہے تو تمہارے بھائی کا چھوٹنا مشکل ہے۔

سعیدہ- اگر ایک ہزار بھائی ہوں تو میں سب کو اپنے ہاتھوں سے پھانسی پر چڑھاؤں گی مگر ان دونوں چیزوں میںسے ایک کو بھی نہ گنواؤں گی۔

اس ضمن میں انجمن آرا انجم آغا حشر کی کردار نگاری کے متعلق اپنی رائے قائم کرتے ہوئے لکھتی ہیں۔

’’حشر نے جن کرداروں کو اپنی تخلیقات میں جگہ دی ہے وہ مافوق الفطرت کردار نہ ہوکر اس جانی پہچانی دنیا اور سماج میں بسنے والے افراد ہیں۔ اور زندگی کے گوناگوں پہلوؤں کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں۔ حشر نے اسکا بڑا خیال رکھا ہے کہ کرداروں کی گفتگو اور ان کا عمل ان کے مقام، ماحول اور ان کی حیثیت کے عین مطابق ہو۔ انہوں نے اپنے کرداروں کے ذریعہ ایسے بہت سے افراد کی تصویر پیش کی ہے جو کسی نہ کسی طرح سماجی زندگی کوبنانے بگاڑنے اور سنوارنے میں ایک موثر رول ادا کرتے ہیں۔‘‘ ۵؎

 بہرکیف آغا حشر کی کردار نگاری کا جائزہ لینے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ آغا حشر کے تمام کردار اپنی فنی خوبیوں کے مظہر ہیں۔ ان کے کرداروں کی گفتگو ان کے عمل، مرتبے، مقام اور ماحول کے مطابق ہوتی ہے۔ آغا حشر نے اپنے کرداروں کے ذریعہ سماجی، سیاسی اور تہذیبی مسائل کو پیش کرکے ڈرامے کو زندگی سے قریب تر کرنے کی جو جسارت کی ہے وہ قابل قدر ہی نہیں بلکہ قابل رشک بھی ہیں۔

حواشی:

                ۱) آغا حشر کاشمیری۔ ڈراما فن اور روایت، ڈاکٹر محمد شاہد حسین۔ صفحہ: ۱۶۸، سن اشاعت۔ جنوری ۲۰۰۲؁ء، ناشر: ڈاکٹر طلعت پروین

۲) ’’کردار و سیرت نگاری‘‘ ’’اردو ڈرامے کی تاریخ و تنقید‘‘ عشرت رحمانی۔ صفحہ: ۲۴، سن اشاعت:  ۲۰۰۱؁ء، ایجوکیشنل بک ہاؤس

۳) ’’آغا حشر کی ڈراما نگاری مونو گراف آغا حشر کاشمیری‘‘ یعقوب یاور، صفحہ: ۴۴، سنِ اشاعت۔ ۲۰۱۶؁ء، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی۔

۴) منصور احمد، ادبی سالنامہ، صفحہ: ۹، سنِ اشاعت: ۱۹۳۵؁ء ، بحوالہ آغا حشر کاشمیری، صفحہ: ۶۳، انجمن آرا انجم۔

۵) ’’آغا حشر کی کردار نگاری‘‘ آغا حشر کاشمیری اور اردو ڈراما، ڈاکٹر انجمن انجم، صفحہ: ۲۵۶، ناشر: الکتاب کلکتہ

 MD.SHAHNAWAZ ALAM

Assistant professor, Deptt. of urdu

Islam Pur College, Uttar Dinaj Pur

Pin: 733202

WEST BENGAL

Mobile no. 9874430252

eamail: shahnawazalam_26@yahoo.com

٭٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.