ایسا کہا ں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
ایسا کہا ں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے!
استاد محترم پروفیسر ابن کنول کی زندگی میں ہی میں نے ان کی حیات و خدمات پر مشتمل ایک کتاب مرتب کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ ان کے دوستوں اور شاگردوں سے ان کی ادبی خدمات پر لکھنے کی گزارش بھی کی تھی۔ میری خواہش تھی استاد محترم کو ریٹائرمنٹ کے وقت اس کتاب کی شکل میں ایک یادگار تحفہ دیا جائے۔کئی احباب نے مضامین بھی ارسال کیے تھے لیکن ان کے ریٹائرمنٹ تک اس سلسلے میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوسکی تھی۔
11 فروری 2023 کو ان کی اچانک موت کی خبر نے پوری ادبی دنیا کو غم و الم کی کیفیت سے دوچار کردیا۔ میرے لیے یہ صدمہ اتنا بڑا تھا کہ کئی دنوں تک دماغ کچھ سوچنے اور سمجھنے کی حالت میں نہ تھا۔ دل کسی صورت یہ حقیقت تسلیم کرنے پر آمادہ نہ تھا کہ مجھے اپنے بیٹے کی طرح عزیز رکھنے والا استاد اچانک ہم سے رخصت ہوجائے گا۔ لیکن موت ایک حقیقت ہے۔ اس حقیقت کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔
ابن کنول اپنے شاگردوں کو بہت عزیز رکھتے تھے۔ ان کے شاگرد بھی ان سے والہانہ محبت کرتے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے شاگردوں نے ایک واٹس ایپ گروپ بنایا جس نے تمام شاگردان ابن کنول کو ایک پلٹ فارم پر جمع کردیا۔ اسی گروپ میں مشورہ کے بعد اردو ریسرچ جرنل کے اس خصوصی شمارے کا خاکہ تیار کیا گیا۔ کتاب مرتب کرنے کا خیال اس لیے ترک کرنا پڑا کہ غالب انسٹی ٹیوٹ نے پروفیسر محمد کاظم صاحب کی نگرانی میں ایک کتاب مرتب کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ جلد ہی یہ کتاب منظرعام پر آجائے گی۔
پروفیسر ابن کنول سر اردو ریسرچ جرنل کے بانی تھے۔ انھیں کے مشورہ اور سرپرستی میں اس رسالے کا پہلا شمارہ 2014 میں شائع کیا گیا تھا۔ وہ اس رسالے کی ترقی کے لیے مسلسل کوشش کرتے رہتے تھے۔ ان کی محنت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسالہ تیار کرنے بعد اس کی پی ڈی ایف کاپی میں ای میل کے ذریعہ انہیں بھیجتا تھا۔ وہ ایک ایک مضمون کو پڑھتے تھے۔ دوسرے یا تیسرے دن فون کرتے اور حکم دیتے کہ کاپی قلم لے کر بیٹھو اور جو جو نکات میں بول رہا ہوں نوٹ کرلو۔ اگر کوئی مضمون غیر معیاری ہوتا تو اس کو نکالنے کو کہتے ۔ مضامین کو مرتب کرتے وقت سینئر قلم کاروں پہلے رکھنے کو کہتے۔ اگر کہیں املا کی غلطی ہوتی تو اس کی اصلاح کرتے۔ ان کے بتائے طریقے کے مطابق رسالے کو مرتب کرنے کے دوبارہ بھیجتا تھا۔ جب انہیں اطمینان ہوجاتا تو شائع کرنے کی اجازت دے دیتے تھے۔ پچھلے شمارے کو میں جب انہیں دیکھنے کے لیے دیا تو ان کا جواب آیا “ٹھیک ہے۔” میں نے یہ سمجھ کر کہ سر نے اس کو شائع کرنے کو کہہ دیا ہے، رسالے کو شائع کردیا۔ بعد میں حسب انہوں نے کاپی قلم لے کر بیٹھنے کو کہا تو میں نے انہیں اطلاع دی کہ رسالہ تو شائع ہوگیا ہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ آپ نے ہی کہا تھا کہ ٹھیک ہے۔” وہ ہنسنے لگے۔ کہنے لگے کہ میں نے ای میل ملنے کی اطلاع دی تھی۔
ابن کنول سر سے متعلق بہت ساری پرانی یادیں ہیں جو ہمارے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہیں۔ 2008 کی بات ہے، میں نےشعبہ اردو دہلی یونی ورسٹی میں ایم اے سال اول میں داخلہ لیا تو اساتذہ کرام کی فہرست میں ابن کنول کا نام دیکھ کر میں نے انہیں ایک غیر مسلم استاد سمجھا۔ بعد میں اکمل بھائی نے بتایا کہ وہ بھی مسلمان ہیں۔ بلکہ صوم و صلاۃ کے بھی پابند ہیں۔ ایم اے اور ایم فل تک ان سے زیادہ شناسائی نہیں تھی ۔ بس ایسے ہی سلام دعا کی حد تک۔ ایم فل میں نے پروفیسر توقیر احمد خان کی نگرانی میں کیا تھا اس لیے ارادہ تھا کہ پی ایچ ڈی بھی انہیں کی نگرانی میں کروں گا۔ لیکن حالات کچھ ایسے بنے کہ مجھے ابن کنول صاحب کے پاس آنا پڑا۔ ہوا یہ کہ مجھے یونی ورسٹی کی طرف سے ایک فیلوشپ (یو ٹی اے) ملا تھا جس کی شرائط میں شامل تھا کہ ایک سال کے اندر ہی پی ایچ ڈی میں داخلہ لازمی ہے۔ توقیر صاحب کے پاس سیٹ خالی نہیں تھی اس کے باوجود وہ مجھے چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھے۔ لیکن جب ڈیڈلائن ختم ہونے میں صرف ایک ہفتہ رہ گیا تو انہوں نے بھی یہ سوچ کر کہ کہیں فیلو شپ ضائع نہ ہوجائے مجھے کسی بھی استاد کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کرنے کی اجازت دے دی۔ ابن کنول سر نے جب یہ کیفیت سنی تو اکمل بھائی سے کہہ کر مجھے اپنے پاس بلوایا۔ پوچھا کہ میری نگرانی میں پی ایچ ڈی کروگے۔ اندھا کیا چاہے ، دو آنکھیں۔ میں نے کہا کہ سر یہ خوش نصیبی ہوگی۔ یہاں طلبا آپ کی سرپرستی کا خواب دیکھتے ہیں۔ مجھے تو بنا مانگے مل رہا ہے۔ خیر، سر نے میری فائل منگائی، ساتھ میں چل کر ڈین آفس گئے اور ضروری کاروائیاں مکمل کیں۔ داخلہ کی پوری کاروائی سر کی کوششوں سےاسی دن مکمل ہوگئی۔ اس کے بعد مجھے ایسا محسوس ہوا کہ انھوں نے مجھے گود لے لیا ہے۔ ابن کنول سر کی خاص بات یہ تھی کہ ان کے قریبی شاگردوں میں ہر ایک کو یہ احساس ہوتا تھا کہ سر سب سے زیادہ اسی کو عزیز رکھتے ہیں۔
ابن کنول سر اپنے طلبا کو ہمیشہ آگے دیکھنا چاہتے تھے۔ دہلی اور اس کے آس کہیں بھی سیمینار یا وائیوا کے سلسلے میں جانا ہوتا ساتھ میں لے جاتے۔ سیمیناروں میں کوشش کرتے کہ میں بھی مقالہ نگار کی حیثیت سے شامل رہوں۔ سر کے ساتھ جے این یو ، جامعہ اور علی گڑھ کتنی مرتبہ جانا ہوا یاد نہیں ۔ انہیں چھوٹی چھوٹی چیزوں کی تعریف کرکے حوصلہ افزائی کرنے کا ہنر آتا تھا۔ وائیوا کے لیے جاتے تو کہتے کہ تحقیقی مقالہ کو پڑھ کر بنیادی سوالات قائم کرو۔ جو سوال بھی تیار کرتا اس کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے۔ اسی بہانے وہ طلبا کی تربیت کیا کرتے تھے۔
مجھے یاد ہے کہ جب میں ان کے افسانوں پر لکھ رہا تھا تو دہلی یونی ورٹی کے راستے میں ان کے افسانوں کے بارے میں برابر پوچھتا رہتا تھا۔ ایک مرتبہ انہیں شک ہوا، کہنے لگے کہ کچھ لکھ رہے ہو کیا؟ میں کام مکمل ہونے سے پہلے سر کو بتانا نہیں چاہتا تھا اس لیے گول مول سا جواب دیا کہ آج کل آپ کے افسانے پڑھ رہا ہوں۔ کچھ دنوں کے بعد جب ان کے افسانوں پر لکھ چکا تو انہیں ای میل کیا اور کہا کہ سر یہ ایک مضمون ہے ،آپ دیکھ لیں۔ دس منٹ کے اندر ہی سر کا فون آیا۔ خوشی کا اظہار کیا اور کہنے لگے کہ یہ تو مکمل کتاب ہے۔ میں نے کہا کہ جی سر،کتاب ہی لکھنے کا ارادہ تھا۔ سر نے کہا کہ دوسرے مضامین میں آپ کی اصلاح کردیا کرتا ہوں لیکن یہ کتاب چوں کہ میرے افسانوں پر ہے اس لیے اس پر اصلاح کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ میں آپ سے یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ اس کو شائع کرو اور نہ ہی اس کو شائع کرنے سے روک سکتا ہوں۔ آپ جو مناسب سمجھیں کریں۔ سر کی یہ اصول پسندی مجھے اچھی معلوم ہوئی۔ یہی کتاب میں نے”ابن کنول بحیثیت افسانہ نگار” کے نام سے شائع کی۔ ابن کنول پر یہ پہلی مکمل کتاب ہے۔
لاک ڈاؤن میں انہوں نے خود کو تصنیف و تالیف کے لیے وقف کردیا۔ اس درمیان انہوں نے زیادہ تر خاکے اور انشائیے لکھے۔ وہ جب بھی انشائیہ یا کسی شخصیت پر خاکہ لکھتے اس کو پڑھنے کے لیے بھیجتے ، میری رائے لیتے۔ ایک طالب علم اپنے استاد کو کیا رائے دے سکتا ہے۔ میں پسندیدگی کا اظہار کرتا اور بس۔ میں نے مشورہ دیا کہ خاکوں اور انشائیوں کو ریکارڈ کرکے یو ٹیوب میں ڈال دیا جائے تو ان کی پہنچ بڑھ جائے گی۔ انہوں نے مشورہ مانا اور اس کے بعد اردو ریسرچ جرنل کے یو ٹیوب چینل کا لاگ ان پاس ورڈ ان کے پاس رہتا تھا۔ کوئی بھی خاکہ لکھتے تو اس کو یوٹیوب پر ڈال دیتے تھے۔ ابتدا میں ان ویڈیو کو میں ایڈیٹ بھی کرتا تھا لیکن بعد ان کو اسی حالت میں رکھا جانے لگا اس لیے کہ ان کی قرات کا انداز اتنا اچھا اور نرالا ہوتا تھا کہ پوری ریکارڈنگ میں کہیں کٹ کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی تھی۔
جب میں نے ذاکر نگر میں رہائش اختیار کی تو سر نے اپنی گاڑی میں دہلی یونی ورسٹی چلنے کو کہا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ یونی ورسٹی کی لائبریری سے مستقل استفادہ کا موقع ملا اور پی ایچ ڈی کے مقالے کو وقت سے پہلے تین سال میں ہی جمع کرسکا۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ سر اپنی گاڑی کے ساتھ جامعہ کے گیٹ پر پہنچ جاتے اور میں ابھی گھر سے نکلا بھی نہیں ہوتا۔ ایسے موقع پر میں سر سے کہتا کہ سرآپ انتظار نہ کریں میں بس سے آجاؤں گا۔ سر کا جواب ہوتا، کوئی بات نہیں میں یہیں گاڑی میں بیٹھ کر انتظار کرتا ہوں۔ کئی دفعہ سر کو میری وجہ سے بیس منٹ تک انتظار کرنا پڑا لیکن آپ کی پیشانی پر ذرا بھی شکن نہیں آتی۔ شرمندگی کی وجہ سے کچھ دیر تک میں خاموش رہتا۔ پھر سر ہی کوئی موضوع چھیڑ دیا کرتے تھے۔
ایک مرتبہ کہنے لگے کہ عزیر تم بہت خوش قسمت ہو، تمہیں جتنے فیلو شپ ملے، شاید ہی کسی کو ملے ہوں۔ یو ٹی اے اور جے آر ایف ساتھ ساتھ ملا۔ اس کے بعد فورا ہی دیال سنگھ کالج میں گیسٹ کے طور پر لگ گئے۔ اسی درمیان پوسٹ ڈاکٹورل فیلوشپ بھی مل گئی ہے۔ اس درمیان معاش کے لیے کبھی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ میں نے کہا کہ میری سب سے بڑی خوش نصیبی یہ ہےکہ آپ استاد کی شکل میں ملے۔ اگر میں آوا گوان (پنرجنم) کا قائل ہوتا تو یہی کہتا کہ میں نے پچھلے جنم میں کچھ اچھا کیا ہوگا جس کی وجہ سے آپ کی صحبت نصیب ہوئی۔
11 فروری کو ان کے موت کی خبر کی سن کر ایسا محسوس ہوا کہ میں یتیم ہوگیا۔ یہی تاثرات ان کے دوسرے شاگردوں کے بھی تھے۔ ادبی دنیا نے اردو کا ایک بڑا ادیب کھویا لیکن ہم جیسے شاگردوں نے اپنا مشفق مجازی باپ کھویا ہے۔ خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں!
اس شمارے میں ابن کنول کی شخصیت اورادبی خدمات پر کئی اہم قلم کاروں کے مضامین شامل ہیں۔ کچھ منظوم تاثرات بھی ہیں جن کو اس میں شامل کرلیا گیا ہے۔ میری پوری کوشش ہے کہ اس شمارے میں ابن کنول کی زندگی اور ادبی کارناموں کا ایک خاکہ تیار ہوجائے تاکہ آنے والے دنوں میں ان پر کام کرنے والوں کو کوئی پریشانی نہ ہو۔ میں اس کوشش میں کس حد تک کامیاب ہوا ؟ آپ لوگ اپنی رائے سے نوازیں۔
والسلام
عزیر اسرائیل
ایڈیٹر اردو ریسرچ جرنل
Leave a Reply
Be the First to Comment!