پروفیسر ابن کنول: ایک مشفق استاد کی باتیں اور یادیں
پروفیسر ابن کنول: ایک مشفق استاد کی باتیں اور یادیں
ڈاکٹر یامین انصاری
ایڈیٹر، روزنامہ انقلاب، نوئیڈا، یوپی
yameen@inquilab.com
راقم الحروف کے مضامین اور کالم کا محورسیاسی،سماجی اور ثقافتی مسائل ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے صرف دو مواقع ایسے آئے جب اپنے جذبات اور احساسات کو قلم بند کرنے سے نہیں روک سکا۔ پہلی بار جب مارچ ۲۰۱۴ء میں خانوادہ قادریہ بدایوں کی علمی، روحانی اور تہذیبی وراثتوں کے امین علامہ اسید الحق قادری کی بغداد میں ایک دہشت گردانہ حملے میں شہادت کی خبر ملی اور دوسرے اکتوبر ۲۰۲۰ء میںجب میرے سر سے والد گرامی کا سایہ اٹھ گیا۔ اس کے بعد۱۱؍ فروری ۲۰۲۳ء کو جب یہ خبر سنی کہ ایک مشفق اور مربی استاد پروفیسر ابن کنول ( ناصر محمود کمال) بھی اچانک راہی ملک عدم ہوئے۔ یہ خبر نہ صرف میرے لئے، بلکہ ان کے رفقا اورسیکڑوں شاگردوں پر بجلی بن کر گری۔یہ خبر ہر کسی کے لئے نا قابل یقین تھی کہ چند روز پہلے اللہ کے گھر کا دیدار کرکے آئے پروفیسر ابن کنول کو اللہ نے اپنے پاس ہی بلا لیا۔ادبی دنیا کی فضائیں سوگوار ہیںاور گزشتہ تقریباً بیس بائیس سال پر محیط میری یادوں کی تمام کھڑکیاں کھل گئی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کب استاد کا فون آئے گا اور کہیں گے کہ ’ہاں بھئی کیا حال ہیں‘ ۔میں انہیں اپنے مخصوص انداز میں باتیں کرتے ہوئے دیکھ رہاہوں ۔ دل مانتا ہے نہ یقین آتا ہے کہ ہم ایک مشفق استاد سے محروم ہو گئے۔وہ نہ صرف ادبی محفلوں کی جان تھے، بلکہ اردو ادب کا مان بھی تھے ۔بقول شاعر؎
فضا اداس ہے،لہجوں میں سوگواری ہے
یہ کس کے جانے پہ اہلِ زباں اُداس ہوئے
کہتے ہیں کہ آپ کو قابل قدر استاد کا ملنا کسی غنیمت سے کم نہیں ہوتا جو آپ کی چھپی صلاحیتوں کو نکھارتا ہے، آپ کی خامیوں کو خوبیوں میں بدلتا ہے، اچھے برے کی تمیز، حلال و حرام کا فرق سکھاتا ہے۔ راقم نے آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے کے بعد جب ایم فل کے لئے دہلی یونیورسٹی کی دہلیز پر قدم رکھا تو یہاں کی درس و تدریس اور ادبی ماحول سے بالکل نابلد تھا۔ایم فل کے مقالے کے لئے کسی نگراں کی ضرورت تھی، مگر یہاں کے اساتذہ میرے لئے اجنبی تھے۔ اس وقت یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ پروفیسر عبد الحق، ڈاکٹر علی جاوید، پروفیسر عتیق اللہ، پروفیسر صادق اور پروفیسر ابن کنول وغیرہ سے میری کوئی شناسائی نہیں تھی۔ایسے میں پروفیسر ابن کنول کی شفقت بھری نظر مجھ پر پڑی اور انھوں نے اپنی نگرانی میں لے لیا۔ اس کے بعد ان سے ایک مشفق استاد کی حیثیت سے جو تعلق قائم ہوا، وہ ہمیشہ قائم رہا۔ اس میں بدایوں کی نسبت کا بھی کافی دخل رہا۔طالب علمی کے زمانے سے لے کر آج تک جب بھی ملاقات یا بات ہوتی تو اس میں ذرہ برابر بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ایسا محسوس ہوتا کہ جیسے کسی استاد سے نہیں، بلکہ ایک انتہائی مشفق، مخلص اور مربی انسان سے گفتگو ہو رہی ہے۔ کتابی شکل میں میری دو کوششیں منظر عام پر آئی ہیں۔ دونوں میں ہی استاد محترم نے اپنے دعائیہ کلمات سے نوازا۔ سفرنامہ ’عراق جو میں نے دیکھا‘ پر ’نقطہ نگاہ‘ کے تحت انھوں نے لکھا ’یامین انصاری ایک تجربہ کار صحافی ہیں اور صحافی کا مطالعہ اور مشاہدہ بہت گہرا ہوتا ہے۔ انھوں نے عراق میں جن مقامات کو دیکھا، ان کی تاریخی و تہذیبی و مذہبی اہمیت کو اپنے سفر نامے میں تفصیل سے بیان کیا۔ ان کا سفر نامہ پڑھ کر عراق کی تاریخی عظمت کا احساس ہوتا ہے۔‘ اسی طرح میرے مضامین کے مجموعہ ’صدائے دل‘ میں انہوں نے لکھا کہ ’ڈاکٹر یامین انصاری کو میں تقریباً دو دہائی سے زیادہ عرصہ سے جانتا ہوں، ان کا تعلق ہندوستان کے اس شہر سے ہے جو تاریخ میں علم و فضل کے لئے ہر دور میں مشہور رہا ہے، یامین انصاری نے اپنے شہر بدایوں کی فضا سے بہت کچھ حاصل کیاہے۔ انھیں زبان پر بھی قدرت حاصل ہے اور اس کے اظہار پر بھی۔ عاجزی، انکساری اور ایمانداری ان کے خمیر میں شامل ہے، جو ایک دیانتدار صحافی کے لئے ضروری ہے۔ انھوں نے اپنے مطالعے اور مشاہدے کی وسعت کے سبب ہر موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ ’’صدائے دل‘‘ واقعی ان کے دل کی صدا ہے۔ ’صدائے دل‘ کے مطالعہ سے تمام جہان کا نظارہ ہو جاتا ہے۔مجھے امید ہے کہ وہ اپنے اس قلمی سفر کو جاری رکھیں گے۔‘ ان کے یہ الفاظ میرے لئے حرف زر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک شاگرد کے لئے اپنے استاد کی جانب سے اس بڑا اور کوئی اعزاز و انعام نہیں ہو سکتا۔ ان کی شفقت کا یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ دہلی میں ہونے والی ادبی سرگرمیوں سے بھی مجھے ابن کنول صاحب نے متعارف کروایا۔ دہلی اردواکادمی، ایوان غالب اور غالب اکیڈمی جیسے اداروں کے زیر اہتمام ہونے والے ادبی جلسوں اور سمیناروں میں مقالہ نگار یا ناظم کی حیثیت سے شرکت انہی کے سبب ممکن ہو سکی۔ اس کے علاوہ آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس اور اردو مجلس میں ابن کنول صاحب نے ہی متعارف کروایا۔ یہ سلسلہ آج بھی بدستور جاری ہے۔ دہلی میں ادب کےحوالے سے ان کے ساتھ بہت سی یادیں وابستہ ہیں ۔جنھیں ایک مضمون میں سمیٹنا نا ممکن ہے۔
یہ میری خوش بختی ہے کہ مجھے پروفیسر ابن کنول صاحب جیسے استاد سے شرف تلمذ حاصل ہوا۔ اردو دنیا میں پروفیسر ابن کنول کی شناخت ایک عظیم افسانہ نگار، خاکہ نگار، محقق، اور مرتب کے ساتھ ساتھ ایک منجھے ہوئے تنقید نگار کے طور پر ہوتی ہے۔مختلف موضوعات پر ان کی تقریباً تین درجن کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ اپنے اس اصل اور قلمی نام کی خصوصیات ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں۔ یعنی ان کی شخصیت واقعی کنول جیسی تھی۔پروفیسر ابن کنول نے ملک کی آزادی کے ۱۰؍ سال بعد ۱۵؍ اکتوبر ۱۹۵۷ء کو مرادآباد اور بدایوں کی سرحد پر واقع بہجوئی قصبہ میں آنکھیں کھولیں۔ ابتدائی تعلیم بدایوں میں حاصل کی اور پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ہوتے ہوئے دہلی کا سفر کیا۔ پروفیسرابن کنول کا دہلی یونیورسٹی سے ایسا رشتہ قائم ہوا ، جو تا دم مرگ قائم رہا۔ وہ دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے کئی بار سربراہ رہے۔ پی ایچ ڈی میں آپ نے ڈاکٹر تنویر احمد علوی کی نگرانی میں ’بوستان خیال کا تہذیبی و لسانی مطالعہ ‘ کے عنوان سے تحقیقی کام کیا۔ دہلی یونیورسٹی میں آپ کو بانی شعبۂ اردو خواجہ احمد فاروقی اور مشہور ترقی پسند نقاد قمر رئیس جیسے نامور ادیبوں سے شرف تلمذ حاصل کیا۔ اسی طرح علی گڑھ میں بھی انہیں پروفیسر قاضی عبد الستار، ڈاکٹر منظر عباس، پروفیسر شہر یار، پروفیسر نور الحسن نقوی، پروفیسر نعیم احمد اور ڈاکٹر خلیل الرحمان اعظمی وغیرہ جیسی اردو ادب کی قد آور ہستیوں سے کسب فیض کا موقع ملا۔ انھوں نے نسل ِ نو کی ہمیشہ حوصلہ افزائی اور پذیرائی کی۔اسی کا نتیجہ ہے کہ پروفیسر ابن کنول نے اپنے پیچھے نہ صرف بیش قیمتی علمی و ادبی سرمایہ چھوڑا ہے، بلکہ اپنے شاگردوں کی شکل میں اردو کی ایک پوری نسل تیار کی ہے ۔
اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیںکہ زندگی فانی ہے، لیکن اس سچائی سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتاکہ جب کسی کی زندگی کاآفتاب ڈوب جاتا ہے تو اس کی یادوں کاسورج طلوع ہوجاتا ہے۔ استاد محترم کی یادیں او ر باتیں اسی اجالے کی مانند ہمارےارد گردہیں۔ اب ہمیںان کی انہی یادوں کے اجالوںکے ساتھ رہناہے ۔ پروفیسر ابن کنول کل بھی دہلی کی ادبی محفلوں کی جان تھے اور آئندہ جب بھی محفلیں سجیں گی ، انہیں یادکیا جائے گا ۔٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!