داستانوی رنگ و آہنگ کا تخلیق کار:ابنِ کنول

داستانوی رنگ و آہنگ کا تخلیق کار:ابنِ کنول

پروفیسر آفتاب احمد آفاقی

شعبۂ اردو ،بنارس ہندو یونیورسٹی، وارانسی

 ناصر محمود کمال بہ موسوم ابنِ کنول ادب کے موجودہ منظر نامے پر اپنی تخلیقی و تنقیدی تحریروں کی بنا پر سب سے فعال تصور کئے جاتے تھے۔ وہ ایک علمی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ۔ان کے والد کنول ڈبائیوی ایک قومی شاعر کے طور پر مشہور ہیں۔ شعرو ادب سے ان کا شغف ، ان کے والد کی ذہنی و فکری تربیت کا ثمرہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا ۔بعد کو اعلی تعلیم کے دوران علی گڑھ کی علمی و ادبی فضا اور اساتذہ خصو صاً قاضی عبدالستار کی تربیت نے ناصر محمد کمال کو ادبی دنیا کا ابنِ کنول بنا دیا ۔انھوں نے اپنا ادبی سفر کا آغاز شاعری سے کیا ایک نظم ماہ نامہ نور ،رام پور میں شائع ہوئی لیکن انھیں جلد ہی یہ احساس ہوگیا کہ وہ اپنے احساس وجذبات کا اظہار شاعری کے بجائے نثر میں بہتر طور پر کر سکتے ہیں ۔چناچہ وہ ۱۹۷۲ء سے افسانہ نویسی کی طرف راغب ہوئے ان کا پہلا افسانہ ’اپنے ملے اجنبی کی طرح‘ ۱۹۷۴ء میں آفتابِ سحر (سکندرآباد) نامی رسالے میں شائع ہوا۔زمانہ طالب علمی میں ہی ان کا افسانہ ’بند راستے‘ (جو بعد میں ایک مجموعے کی شکل میں منظرِ عام پر آیا )اشاعت پذیر ہواتو ادبی حلقے میں بڑی پذیرائی ہوئی۔

  ابن کنول کا اختصاصی میدان داستان تھا ، وہ داستان کی ترتیب و تدوین نیز تنقید سے دلچسپی لیتے رہے۔وہ بیک وقت افسانہ نگار، نقاد ،ڈراما نگار، خاکہ نگار تھے۔ انھوں نے ڈراموں اور سیریل میں اداکاری بھی کی تھی ۔ داستانوں سے دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ وہ کسی بھی سلیکشن کمیٹی میں زیادہ تر سوالات داستانوں سے ہی پوچھتے تھے اور اچھے اچھوں کو پریشان کر دیتے تھے ۔ وہ بنیادی طور پر افسانہ نگار تھے جن کے افسانوں پر داستانوی رنگ و آہنگ نمایاں ہے ۔ انھوں نے درس و تدریس میں بھی بڑی فعالیت کا ثبوت دیا اور تصنیف و تالیف میں بھی ہمیشہ تازہ بہ دم رہے ۔ ’بند راستے‘،بزمِ داغ، چار کھونٹ، داستان سے ناول تک، ہندوستانی تہذیب بوستانِ خیال کے تناظر میں ،تنقیدی اظہار، تنقید و تحسین، اردو افسانہ ،تیسری دنیا کے لوگ، اصنافِ پارینہ،اردو شاعری، مضراب، اصنافِ سخن، بحرِ تجلّیات( سفر نامۂ حج)وغیرہ جیسی کتابیں ان کی اسی فعالیت کا بین ثبوت ہیں۔ہر چند کہ انھوں نے نثری ادب پر اپنی بنائے ترجیح رکھی لیکن بحیثیت استاد کلاسیکی شعرو ادب سے ان کی دلچسپی ایک فطری بات تھی ۔ انھوں نے ایک طرف اردو کے کلاسیکی شعرا سے دلچسپی لی تو بعد کے اہم شعرا کی شخصیت اور فن پر مضامین لکھے ۔انھوں نے ’اردو شاعری‘ کے موضوع پر ایک کتاب لکھی جس میں افضل پانی پتی، ولی دکنی، میر، نظیر اکبر آبادی، مصحفی، غالب، مومن کے علاوہ اقبال، حسرت، فراق، مخدوم، فیض ،ن۔م راشد اور کیفی اعظمی پر مضامین شامل ہیں ۔

 ابنِ کنول ادب کا ایک گہرا شعور رکھتے ہیں اور فن وفنکار کے تقاضوں اور ذمہ داریوں سے کماحقہ واقف ہیں ۔ان کے نزدیک ادب میں تخلیق کو اساسی حیثیت حاصل ہے اس لئے وہ تنقید پر تخلیق کو مقدم تصور کرتے ہیں ۔ان کے خیال میں تخلیق ہمیشہ زندہ رہتی ہے جب کے تنقید وقت کے ساتھ بدل جاتی ہے اس لحاظ سے ناقدین کی اہمیت اور ضرورت وقتی ہے ۔وہ اس بات سے شاقی تھے کہ موجودہ عہد میں تخلیق کاروں کی اہمیت دوئم درجہ کی ہو کررہ گئی ہے جب کہ تنقید کا پیشہ مال و منعفت اور خیر و برکت کا سبب بن گیا ہے۔ اپنی کتاب ’تنقید و تحسین‘ میں وہ لکھتے ہیں ؛’’ آج کا دور ناقدین کے لئے خیرو برکت کا دور ہے ادبی سماج میں ناقدین نے اس قدر اپنی اہمیت اور ضرورت کا احساس دلا رکھا ہے کہ ہر جگہ ناقد نظر آتا ہے جب کہ تخلیق کار کی ضرورت ناقد نہیں بلکہ ناقد کی ضرورت تخلیق کار ہے ۔تخلیق کے بغیر ناقد کی اہمیت صفر ہے ۔میرؔ، غالبؔ ،اقبالؔ، پریم چندیا منٹو اس لئے بڑے فن کار نہیں ہیں کہ ان کے فن پر بہت تنقید لکھی گئی بلکہ اس لئے بڑے ہیں کہ ان کا فن بڑا ہے۔اگر کوئی ماہرِ غالب یا ماہرِ اقبال ہے تو اس کی وجہ غالبؔ یا اقبالؔ کی عظمت میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ غالبؔ اور اقبال کی وجہ سے اسے شہرت نصیب ہوئی ۔‘‘ یہ درست ہے کہ ادب میں تخلیقی نگارشات کو اساسی حیثیت حاصل ہے اس لحاظ سے تخلیق کار کو ناقدین پر برتری ہونی چاہیے ۔لیکن یہ بھی سچائی ہے ک فن اور فنکار کی عظمت کا دارومدار فن پاروں کی افہام و تفہیم اور تعین قدر پر منحصر ہے۔ اور یہ ذمہ دارانہ عمل بغیر تنقید کے ممکن نہیں ۔ آج میرؔ ،غالبؔ، اقبال ؔ ،پریم چند۔ منٹو ،بیدی، اگر ادب کا حوالہ ہیں تو اس میں بلاشبہ ناقدین کا بڑا ہاتھ ہے ۔مشکل یہ ہے کہ ہم یہ تفریق نہیں کر پاتے کہ ’’ہر تحریر تخلیق نہیںہے اور نہ ہر لکھاری کی حیثیت نقاد کی ہے‘‘ ۔ہاں موجودہ دور کی ادبی صورتحال اور رویوں پر سولات قائم کئے جا سکتے ہیں کہ ہر شخص ممتاز ادیب، نقاد اور دانشور کی صف میں کھڑا ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابنِ کنول موجودہ ادبی صورتحال اور جینوئن تخلیق کاروں اور ادیبوں کی ناقدری سے افسردہ تھے ورنہ اس طرح کے خیالات رقم نہ کرتے انھیں ناقدین کی اہمیت کا بخوبی اندازہ تھا ورنہ وہ خود تنقیدی تحریریں نہ لکھتے ۔وہ معاصر اہم ناقدین کاعقیدت کی حد تک احترام کرتے تھے۔

 ابنِ کنول بنیادی طور پر افسانہ نگار تھے اور اسی حیثت سے وہ معروف بھی ہوئے اور تین افسانوی مجموعے ’تیسری دنیاے لوگ‘،’ بند راستے‘ اور’ خانہ بدوش‘یادگار چھوڑے ۔ وہ تخلیق کے تعلق سے ایک واضح نظریہ رکھتے تھے جس کی رو سے یہ ایک بے حد ذمہ دارانہ عمل ہے ۔تخلیق نہ تو تفنن طبع کے لئے وجود میں آتی ہے اور ناہی یہ وقت گزاری کا ذریعہ ہے بلکہ اس کا بنیادی مقصد بنی نوع انسان کی صلاح و فلاح ہے ۔حالی نے بھی مقدمہ شعرو شاعری میں شاعری کی یہی غرض و غایت بتائی ہے ۔اس خیال سے اتفاق و اختلاف کی پوری گنجائش ہے لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ ادب ہمارے ذہن و فکر میں اگر گرمی اور تازگی،روشنی اور بصیرت نہ پیدا کرے تو پھر اس کی ضرورت کیا ہے؟اپنے افسانوی مجموعہ ’بند راستے‘ کے دیباچے میں ابنِ کنول نے جو کچھ لکھا ہے اس سے جہاں ایک طرف ان کے نظریۂ فن سے واقفیت بہم پہنچتی ہے وہیں ادب اور زندگی سے متعلق ان کے مثبت رویوں اور تقاضوں کا بھی اندازہ ہوتا ہے ۔وہ لکھتے ہیں ؛

’’ بعد ورق گردانی کے ایک قاری نے یوں استفسار کیا ،اے قلمکار ذی ہوش تو کیا بیان کرنا چاہتا ہے؟تیرا مقصد کیا ہے؟قاری کے اس سوال پر قلمکارنے نگاہ اٹھائی اور کہا ’’میں اس عالمِ آب و گل میں ابنِ آدم کے افعال و اعمال کو دیکھ کر جو کچھ محسوس کرتا ہوں قلمبند کردیتا ہوں اور میں چاہتاہوں کہ میرا قاری بھی اسی درد اور احساس کے دریا سے گزرے کہ جس سے میں گزررہا ہوں ‘‘(ص۸)

اس اقتباس کے چند جملے بے حد بلیغ ہیںجس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ انھیں ادب کا ایک واضح شعور تھا ،اور ادیب کو ایک بیحد ذمہ دار اور حساس انسان سمجھتے تھے۔وہ ’عالم آب و گل میں ابنِ آدم کے افعال و اعمال ‘کا احتساب کرنے کے خواہاں تھے ۔دوسرے لفظوں میں کہہ سکتے ہیں کہ وہ ’ادب کوحیاتِ انسانی کی انفرادی یا اجتماعی جدوجہدکے ادراک اور اس میں ادیب کی شمولیت کے حمایتی ہیں‘ زندگی کی مثبت قدروں سے وابستگی اور اخلاص و مروت کی یکجائی سے پیدا ہونے والے احساس کو تخلیق کے قالب میں ڈھالنے کے عمل سے جو تخلیق وجود میں آتی ہے وہ ہمارے فکرو شعور کو روشن اور منور کرتی ہے ۔

جیسا کہ اوپر ذکر عرض کیا جا چکا ہے کہ ابنِ کنول کی ادبی سطح پر جو شناخت ہے وہ ایک معتبر افسانہ نگار کی ہے ۔ ان افسانوں پر داستانوی اسلوب کے پرتو موجود ہیں ۔اپنے معاصر افسانہ نگاروں میں اپنے اسی لہجے کی وجہ سے انفرادیت رکھتے ہیں ۔یہ لہجہ ان کی داستانوں سے دلچسپی اور گہرے مطالعے کی آئینہ دار ہے یہی سبب ہے کہ داستانوی لفظیات ان کے افسانوں میں بدیہی طور پر نظر آتے ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ دوسرے کئی افسانہ نگاروں کے یہاں داستانوی رنگ کی کارفرمائی ہے ان تخلیق کاروں کے یہاں داستانوں سے استفادہ کی مختلف صورتیں پائی جاتی ہیں لیکن ماضی قریب میں اس نوع کی سب سے توانا اسلوب انتظار حسین کے یہاں نظر آتا ہے ۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ بیشتر افسانہ نگاروں کے یہاں یہ اسلوب انتظار حسین کاہی فیضان ہے ۔جب کہ ابنِ کنول اس خیال سے متفق نہیں ان کا خیال ہے کہ یہ داستانوی رنگ اصلاً داستانوں کے عمیق مطالعے کا ثمرہ ہے اس ضمن میں اپنے مضمون ’’ اردو افسانہ اور داستانوی طرزِ اظہار‘ میں وہ رقمطراز ہیں ؛

’’مختصر افسانہ نگاروں نے داستانوں سے مختلف انداز میں استفادہ کیا ہے ۔بعض نے اپنے افسانوں کے عنوانات اس طرح رکھے ہیں کہ ان پر داستانوں کا گمان ہوتا ہے ۔مثلاً آئینہ فروش شہر کوراں ، سات منزلہ بھوت، خار پشت، چوپال میں سنا ہوا قصہ ، سر بریدہ آدمی، من کا توتا ، داخل ہونا بے نظیر کا بیابان میں ، طلسمات وغیرہ، کچھ افسانہ نگاروں نے داستانوں کے پُرشکوہ اسلوب کو اختیار کرکے اپنے افسانوں میں داستانوی فضا تیار کی ۔بعض نے اسطور سازی کے عمل کو اپنایا ۔تمثیلی پیرائے میں بھی افسانے لکھے گئے اور جانوروں کو کردار بنا کر عصری مسائل کی طرف اشارہ کیا گیا ۔چھوٹی چھوٹی حکایتوں کے انداز پر افسانے لکھے گئے ۔داستانوں کی طرح مختصر افسانہ کو ضمنی کہانیوں کی شمولیت کے انداز میں بھی لکھا گیا ۔بعض افسانہ نگاروں نے داستانوں کے مافوق الفطرت عناصر اور طلسمی ماحول کے زیرِ اثر اپنے افسانوں میں طلسمی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی ‘‘( داستان سے افسانے تک ص۷۷)

 ابنِ کنول نے اپنے افسانوں میں داستانوں کے مختلف رنگ و آہنگ کو بروئے کار لایا ہے کبھی زبان کی سطح پر کبھی عنوان کے طور پر تو کبھی لب و لہجے میں مسجع و پُرشکوہ عبارت آرائی کر کے پوری افسانوی فضا کو داستان میں تبدیل کر دیتے ہیں ۔اس ضمن میں ہمارا تمہارا خدا بادشاہ، صرف ایک شب کا فاصلہ اور وارث جیسے افسانوں کو بطورِ مثال پیش کیا جاسکتا ہے ۔ابنِ کنول کا افسانہ ’’ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ‘ ہمارے عہد کی سیاست پر گہرا طنز ہے ۔ہم جس عہد میں سانس لے رہے ہیں اس میں سیاست ایک پاور کا روپ دھار گئی ہے ۔عوام کٹھ پتلی کے مانند ہے اور اس کی ڈور سدھے ہوئے سیاست دانوں کے ہاتھ میں ہیں افسانے کی پوری فضا داستانوی ہے لیکن پردے میں موجودہ نظام پر گہری ضرب لگائی گئی ہے جس سے حکمراں طبقہ کی شعبدہ بازی ،عیاری اور مکاری پوری طرح بے نقاب ہوجاتی ہے ۔ حکومت کا کام اپنے عوام اور شہری کی فلاح و بہبود ، اس کی ترقی و کامرانی کے امکانات وا کرنااور اس کو تحفظ فراہم کرنا ہے ۔لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے۔یہ اقتباس دیکھیے ؛’’ سانپ انہیں کی گردنوں پر کیوں گرتے ہیں جن کے سروں پر اونچے مکانوں کی چھتیں نہیں ہوتیں ۔ جن کی زندگی کا تمام سفر پیدل طے کرنا ہوتا ہے ۔جو موسموں کی تبدیلیوں کو اپنے جسموں پر برداشت کرتے ہیں۔ سوچتے سوچتے جب ان کے ذہن تھک گئے تو سب نے فیصلہ کیا ہم سب جہاں پناہ کے روبرو جا کر اپنی اس مصیبت کا حال بیان کریں گے اور اس سے دتخواست کریں گے کہ وہ ہمیں اس عذاب سے نجات دلائے کہ خدانے رعایا کی سرپرستی و محافظت اس کے ذمہ کی ہے‘‘ اسی طرح ’صرف ایک شب کا فاصلہ ‘میں داستانوی رنگ غالب ہے ایمرجنسی کے زمانے کو محیط اس افسانے کا خمیر اصحابِ کہف کے واقعہ سے تیار ہوا ہے تاہم اس کے پسِ پردہ ہمارا عہد اور اس کے مسائل ہیں ۔اصحابِ کہف کو اسلامی اسطور کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ایک ایسی تخلیق پیش کی ہے جس میں معنی کی کئی پرتیں موجود ہیں ۔سیاست کے محور پر گردش کرنے والا حکمراں طبقہ کس قدر ظالم اور جابر ہوتا ہے اور کس حکمت ،عیاری اور چالاکی سے مثبت قدروں کو تہس نہس کردیتا ہے اس کی عمدہ مثال یہاں موجود ہے ۔اصحابِ کہف جب تین سو برس کے خواب سے بیدار ہوتے ہیں تو حکومت بدل چکی ہے انہیں یہ جان کر خوشی ہوتی ہے کہ ملک میں ایک چُنی ہوئی سرکار ہے اور عوام کو اظہارے رائے کی آز ادی نصیب ہے ۔تاہم ان کی خوشی اس وقت کافور ہوگئی جب ان کی مقبولیت کو حکومت اپنے لئے خطرہ محسوس کرتے ہوئے ان کو گرفتار کرالیتی ہے ۔ان کا افسانہ ’ صرف ایک دن کے لئے‘ سیاسی دوروں سے متعلق ایک حقیقت کا تخلیق اظہار ہے جس میں وزرا اور بادشاہِ وقت کے دوروں کے دوران چھونپڑیوں ،بدحال سڑکوں اور غلاظت کے ڈھیروں کو ڈھک دینے کا رواج عام ہوچکا ہے تاکہ ان کی نظر ان غلیظ افراد،ان کی جھگی جھونپڑیوں اور گندگی کے انبار پر نہ پڑ ے۔ابنِ کنول کے افسانوں کے موضوعات میں بڑا تنوع ہے ۔جاگیردارانہ نظام کی شکست و ریخت ،لہو لہان معاشرہ، سیاست کی شعبدہ بازی ، فسادات،اور زندگی کے گوناگوں مسائل پر کئی اچھے افسانے لکھے ۔

 ابنِ کنول ایک زندہ دل انسان تھے ۔وہ مشکل وقت میں ہنسنے مسکرانے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ اپنے دوستوں اور عزیزوں کے درمیان اپنی گل افشانیوں اور ظریفانہ جملوں سے محفل کو خوشگوار بنا دیتے تھے۔کورونا کے دوران جب ہر شخص اپنی جان کی امان مانگ رہا تھا ابن کنول صاحب اپنی شگفتگی تحریروں اور فیس بک لائیو کے ذریعہ غم غلط کرنے میں مصروف تھے۔ بعد میں جب ان کے خاکوں کا مجموعہ بہ موسوم ’’کچھ شگفتگی‘‘ شائع ہوا تو ان کی بے تکلفی ،بذلہ سنجی اور ظرافت کا اندازہ ہوا جوزمانۂ طالب علمی میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی علمی ،ادبی اورتہذیبی فضا میں پروان چڑھے تھے اور جسے رشید احمد صدیقی میں وقار عطا کیا تھا ۔ان خاکوں کی تمام شخصیتیں ہمارے عہد سے تعلق رکھتی ہیں ۔ابنِ کنول نے کسی بھی شخص کی تضحیک نہیں کی ، چاہتے تو کدورت ،خوشونت اور سفاکیت کی بدولت انھیں زیرِ وزبر کرسکتے تھے ۔لیکن ابنِ کنول کے یہاں جو قدریں ملتی ہیں ان میں اس طرح کی گنجائش نہیں تھی ۔وہ بات سے بات پیدا کرتے تھے لیکن کسی کی دل آزاری یا تضحیک ان کا شیوہ نہ تھا ۔ان خاکوں میں اشخاص کے تعلق سے ان کے رشتوں کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے جن میں خلوص ،احترام اور عقیدت بدرجہ اتم موجود انھوں نے حسبِ ضرورت شوخی اور سنجیدگی کا بھر پور مظاہرہ کیا ہے ۔ان کی تحریروں میں آپ قہقہے نہیں لگا سکتے بلکہ زیرِ لب مسکراہٹ دیر تک قائم رہتی ہے۔مثلاً اردو کے ممتاز محقق تنویر احمد علوی کے بارے میں لکھتے ہیں؛

’’ جو سامنے آتا تعریف میں ایسے رطب اللسان ہوتے کہ وہ بیچارہ اسی سرشاری میں کئی مہینے سو نہیں پاتا ۔پروفیسر ظہیر احمد صدیقی نے بتایا کہ علوی صاحب نے ان کی اتنی تعریف کی کہ وہ آسمان پر اڑنے لگے ،ان کے لئے زمین پر چلنا دشوار ہوگیا ،لیکن ایک روز دہلی کالج گیٹ پر دیکھا کہ تعریف کے ہوبہو وہی الفاظ علوی صاحب دربان کی شان میں بھی استعمال کر رہے تھے۔یہ دیکھ کر ان کا نشہ ہرن ہوگیا اور وہ دھڑام سے آسمان سے زمین پر آگرے‘‘

واقعہ یہ ہے کہ ان کے خاکوں کے مطالعے سے ان کی شگفتگیٔ طبع ،خلوص ،متانت ، اور ذہنی اعتدال و توازن کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے یہ ساری خوبیاں ان کی شخصیت میں موجود تھیں ۔

٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.