آتی رہے گی یاد ہمارے قابل ستائش استاد محترم ابن کنول

آتی رہے گی یاد ہمارے قابل ستائش استاد محترم ابن کنول

محمد جنید شکروی
نائب : پرنسپل آر بی جالان انٹر کالج دربھنگہ
موبائل 9709364084:
E-mail: mdjunaid1960@gmail.com

ادب اور ادب نگار تمام تہذیبی معاشرتی عوامل، سماجی وسیاسی چڑھاؤاتار اور قوموں کی بلندی وپستی کا آئینہ دار ہوتاہے مگر اس کی بھر پور عکاسی غیر ارادی طورپر ہوتی ہے جس کے طرز اظہار کے لئے روح بے چین ہوتی اور زندگی حرکات وسکنات میں مبتلا رہتی ہے۔
سالِ نو کی آمدتہنیتی سوغات مگر دکھی دل کے ساتھ بھی کہ سال نو کے شروع ہی عشرے میں ہمیں سمندر نما گہرے زخم دے گیا ایک تاریخ کی صبح معزز و ممتاز ادیب، افسانہ نگار، خاکہ نگار شاعر، بالخصوص فکشن نگار اور استادالااساتذہ پروفیسر ابن کنول اسم گرامی( ناصر محمود کمال صاحب) کا اچانک دہلی اور علی گڑھ شاہراہ کے درمیان اس جہاں فانی سے کوچ کرجانا یقینا اردو دنیا کے لئے ناقابل برداشت حادثہ ہے خدائے پاک مرحوم کی مغفرت فرمائے اور ہم جیسے سوگوار طالب العلم کے لئے نعم البدل سے نوازے آمین ثم آمین۔موصوف اردوفکشن نگاری کی تاریخ کے خودزندہ وتابندہ ناموں میں سے ایک ایسا چمکتا ہوا نام ہے جن کی روشنی سے چمک ودمک گہری نگاہ نقدونظر کو خیرہ کررہی ہے۔ایسے بے مثل استاد کو ہم صرف عقیدت کے پھول کے ایک لفظ سے خراج تحسین پیش خدمت کر کے حق گوئی ادا نہیں کر سکتے جس استاد محترم میں والدین جیسی اعلیٰ شفقت و محبت ورفتگی ہو اسے جملوں کے حصار میںقید کرنا بھی کسی حال میں ممکن نہیں سب سے زیادہ تکلیف دہ صورت حال اور افسوس ناک پہلویہ ہے کہ صحیح بات کہنے والے درست ادب لکھنے والے روزبروز کم ہوتے جارہے ہیں ، ایک عظیم ادب نگارمیں وہ کون کون سی خوبیاں اور ترسیل علم ہونی چاہئے وہ سب کے سب اسباب موصوف میں یکجا تھی۔
یہ میری خوش نصیبی تھی کہ 1985ء میں شعبہ اردو دہلی یونیورسیٹی میںاستاد محترم لکچر رکے عہدہ پر فائز ہوئے اور اسی سال داخلہ خاکسار کا ایم اے درجہ اول میں ہوا، اس طرح شاگردی کا شرف مجھے اول سال ہی میں نصیب ہوگیا تا حال یعنی ملک الموت کے آنے تک خط وٹیلی فون سے رابطہ کا سلسلہ قائم تھا۔
دو ترقی یافتہ مرکزی یونیورسیٹی کے ماہر فن کا ر 15اکتوبر 1957ء کو یجوئی ضلع مراد آباد کے ایک زمیندار گھر میں آنکھیں کھولیں، اپنے گاؤں کے اردو اسکول سے تعلیم حاصل کر کے علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی کے زیر سایہ منٹوسرکل اسکول میں داخلہ دلوایا کیا کہ آکے چل کر ڈاکٹر کی سند حاصل کرے مگر قدرت کو ادب نگا بنانا تھا اوروہاں سے علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ ہوئے یہ ان کی خوش نصیبی تھی کہ انہوں نے ابتدا سے ایم ، اے تک زیر تعلیم رہے اس وقت جناب خورشید الاسلام، خلیل الرحمن ، آل احمد سررو، قاضی عبد الستار شہر یا جیسے لائق وفائق اور نامور پروفیسران کے زیر سایہ تعلیم اور ادبی نکتہ تربیت کو نکھار ہوئی وہاں سے شعبہ اردو دہلی یونیورسیٹی پی ، ایچ، ڈی ،و ایم فل کے واسطے 1978ء میں قدم رنجہ ہوئے اور جناب تنویر احمد علوی کی محبت میں مکمل کی، ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی خواجہ احمد فاروقی، قمر رئیس، شارب ردولوی گوپی چندر تارنگ کلیات یافتہ شاعر مغیث الدین فریدی یوسف حسین خاں پروفیسران جیسے قابل محلقین ،ناقدین، تحقیق کار سے دامن علم ورحمت کو بھری جو اس وقت شعبہ اردو دہلی سے وابستہ شخصیات تھیں، موت نے بھی ثابت کیا کہ وہ دونوں یونیورسیٹی سے بے پناہ محبت اورماہرفنکار تھے وہ اپنی طالب العلمی درسگاہ علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی میں پی ایچ ڈی کا وایئوا(زبانی امتحان) لینے کے لئے گئے ہوئے تھے امتحان سے فارغ ہو کر واپسی دہلی کے لئے چلے درمیانی راستہ میں ان کی روح قفس عصری سے پرواز ہوگئی دوسرے دن علی گڑھ کے قبرستان میں پیوندخاک ہوئے استاد محترم ادبی فضا اور زمیندارانہ تہذیب وتمدن میں پرورش پائی ان کا بچپن شاعروں اور ادیبوں کی صحبت وجھرمٹ میں گزرا ان کے والد قومی شاعر قاضی شمس الحسن کنول ڈبائیوی ایک کامیاب استاد شاعر تھے ان کے والد محترم کی خواہش تھی کہ وہ ڈاکٹر بنے مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا لاتعداد کو انہوں نے ڈاکٹر بنایا بچپن سے شاعروں کی محفل نصیب اور کہانیاں لکھنے پڑھنے کا اعلی ذوق وشوق تھا اسی کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے لکھنے پڑھنے کو اوڑھنا،بجھونا بنایا ہرگوشنہ فکشن اور اصناف سخن کے علاوہ تحقیقی وتنقیدی میدان عمل میں تسلسل وتواتر کے ساتھ قدم رنجہ رہ کر کارہائے نمایاں انجام دیئے ۔
یہ الگ گفتگو ہے کہ دونوں مرکزی ادارہ کبھی شعروادب کا دبستاں ہوا کرتا تھا اب وہ رونق اور علم وادب کی گہریت کہاں اردو تہذیب ومعاشرت اور ثقافتی کا شہر خاموش دیگر نظام تعلیمی درس وتدریس تہس نہس سیاسی اقدام کے ساتھ نظر آتاہے مگر یہ بھی حقیقت تلخ ہے کہ اردو کا جھنڈا اور معیارے تعلیم بھی یہیں کے اساتذہ کرام اور شاگردان اٹھائے ہوئے ہیں۔دہلی جیسے مصروف شہر میں رہتے ہوئے تگ ودو اور درس وتدریسی مسائل کے تمام مشکل مراحل طے کرتے ہوئے پیچیدہ سے پیچیدہ کام والجھنوں کو نہایت نیک نیتی اور استقامت کے ساتھ انجام دیا دہلی شعبہ اردو کو ایک ایسا محنتی اور فکروفن اور اعلیٰ نظریہ رکھنے والا استاد وقلم کار ملا جونہ صرف مذہبی رموز کے ہر گوشہ سے واقف تھا بلکہ ہندوستان قعرروح معتبر اور مستند استادکی شکل ولیاقت زندہ وجاویداں تھا اور رہے گا وہ جدید فنکار انہ اقدام کے ساتھ ساتھ فکشن کی جمالیات بالخصوص داستان اور افسانہ کی پیچیدگی یا شفافیت کوگہرائی قعر دریانما افکار سے سمجھا اور اس کے مطابق حکمت عملی اپنا کر پوری زندگی نوک قلم سے سنوارنے میں اذہان کھپادیا اور اپنے افکار وخیالات کی ترسیل کے لئے ہمہ وقت عمل پیرا رہے۔
موصوف کبھی کسی شاگرد کو بے روز گار کی فوج میں نہیں بھر تی کیا بلکہ علم اور صلاحیت کی روشنی سے لبریز کرکے قلم کا نایاب سپاہی کے صف اول کی جگہ میں محفوظ کر اوسط درجہ کا کم سے کم قلم کار، مصنف اور لکچر ار کے مطابق ڈھال کر چمکتا ہوا آفتاب ومہتاب بنا دیتے کیونکہ اردو زبان وادب سے انکا تعلق پیشہ ورانہ نہیں بلکہ قلبی لگاؤ ہے وہ زبان وادب سے محبت کرتے اردو کی بقا کے لئے سرگرم زندگی رہے انہوں نے اپنے مضامین میں ہر انسان کی نفع اور نقصان کے مدنظر گفتگو کی ، کبھی ذاتی مفاد پر ستی کو انسانی اقدار پر حاوی نظر آنے نہیں دیا اپنی کتابوں میں چراغ سے چراغ جلانے کا کام نہیں کیا ان حقائق، درد، اور ظلماتی نظریات کو یکجا کرنے کی سعی کی ہے جو اب تک پہلے منظر عام پر نہیں آسکے تھے، جب بھی ان کا کلام قارئین مطالعہ کرتا تب معیاری اور فکر سے عاری ہوتا اس لئے ان کو عوام پسند فکشن نگاری میں شمار کیا جاتاہے لکھاوت ان کی دل سے پڑھی اورقبول کی جاتی ہے کیونکہ وہ ہر نقطہ جو عدل و انصاف وکمزور انسانیت کے برعکس مخالف سمت میں نظر آتی بے باک انداز میں بیان کردینا اپنا فرض عین تصور کرتے ہیں۔
گذشتہ کئی صدیوں میں جن افسانہ نگاروں کا اسم گرامی فکشن کی دنیا میں چمکتا ستارہ کے مانند اور عزت وعظمت سے پڑھا جاتاہے ان میں استاد محترم کا نام بھی قابل احترام سے لیا جاتا، سماجی مسائل پر ان کی گہری نظر اور پکڑتیز تھی جس کا اظہار فکر ان کی کہانیوں میں مبتلا رہتی ہے۔
شہری اور دیہاتی زندگی اور روز مرہ کے مسائل کا ہمیشہ ہمیش اظہار خیال ان کی کہانیوں میں برملا تواتر کے ساتھ اجاگر ہوتا، خاموشی کے ساتھ ادبی کا موں میں مشغول رہنا انکا شوق عظیم اور طبع آزمائی کا ہنر گہرا تھا ، معاصر اردو فکشن کی توانائی آواز جن کی گونج سماج ومعاشرے کے ناگوار اور پریشان وپیچیدہ مسائل کو ہر گوشہ تک پہونچایا، خاموش مزاجی اور شرافت ان کی شخصیت کا خاصہ ہے اپنی باتوں کو مسکراتے ہوئے نرمی،آہنگی کے ساتھ پیش کرتے دوران گفتگو بحث وتکرار اور درجات درس وتدریس میں گردن کو جھٹکا دیکر الفاظ نکالتے جس سے اندازہ مہک ہوتاکہ غوروخوض اورناپا تلہ ہوکر ترتیب اور میزان رکھتے ان کے نزدیک علم و عروض اور اردو کی ترسیل وتبلیغ اور درس تدریس ہی زندگی کا واحد مقصد رہاوہ نہ کسی سازش کا شکار ہوکر ملوث رہے اور نہ کسی گروپ میں شرکت یا تعصبانہ اقدام اٹھایا اس لئے کامیاب روشن نما چراغ اندھیر ے ہی میں روشنی پھیلائی اور گمنامی کی لوخاموشی سے جلاتے رہے صبح سے شب تک اسی شغل میں مصروف رہ کر طمانیت محسوس کرتے آج تعلیم مقصد تجارت میں کوئی فرق نہیں سمجھا جاتا ایسے میں تنخواہ کے علاوہ کوئی معاوضہ ومعاش کا طلب گار نہیں بنے بلکہ کمزور اور ضرورت مند طالب علموںکی خاموش مدد اپنے ذرائع سے کردی، انتہا یہ بھی ہے کہ مظلوم ، دردمند کچلے ہوئے نادان کو اپنے فکشن میں بہت زور شور سے قلم کی آزادی کے لئے قلم کاری کی بہت تیز جدوجہد کی آج کی معاشرہ کے لئے ان کا دلی پیغام علم بہت اہم اور ہماری زندگی میں ایسے شمع محفل کی ابھی ضرورت تھی مگر حق تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا انہوں نے فکشن کے میدان عمل میں بڑی جانفشانی اور عرق ریزی کے اصول تنقید وتحقیق کے معیار کو بلندی پر اپنی کاوشوں کو پیش کرکے اردو زبان وادب میں معتبر اور مستند مضمون نگاری کی بہترین مثال قائم کی وہ زندگی اور ضمیر کے احکام کے مطابق ہی قلم بند کیا اور ثابت کردیا کہ دل کش ودرست وآئینہ دار ادب کو مضامین کی شکل میں قلم بند کریہ بھی ثابت کردیا کہ پتلی برف سیل پر چلنے جیساہے اور قاری کا ذہن اپنی جانب راغب کرنے میں کامیابی حاصل کی زبان پر پوری قدرت رکھتے اسلوب میں ندرت اور اظہاروخیال میں برجستگی وپختگی پر قادر ہیں اپنی زندگی کا ہر اقدام درس وتدریس کے علاوہ اردو ادب کی آبیاری میں مصروف رکھا ان کے یہاں فصاحت وبلاغت، سادگی اور سنجیدگی کا اظہار ان کی تحریر میں عمدہ ہے ان کا دائرہ قلم بندی وسیع وعریض ہے اس لئے ان کی فنکاری میں تجربات وفکروفن میں وسعت اور خلوص وعقیدت کی تجلی رنگ کا اظہار قابل قبول ہیں۔
موصوف کبھی اور کسی بھی موضوع پر کسی شاگرد اہل شعبہ حتی کہ ملازمین یونیورسیٹی یا سکی اہل ادارہ سے بھی بر ہمی یا ناراضگی اختیار نہیں کیا بلکہ اپنی بات شفقت اور معصومیت سے سنا کر مخالفین کو راضی عمل کر لیا یہ ہی لازمی عنصر ہے کہ کسی سے تعلقات کشیدگی اختیار نہیں کی اور سبھوں سے اعلیٰ ہویا ادنیٰ، خوش گوار تعلقات برقرار ہی نہیںاثر و رسوخ نہایت ملائم عمل پیرا ہوکر قائم رکھا اس طرح ملنساری میں کسی کو مشکوک وشبہات کا شکار نہیں ہونے دیا ہر تعلیمی محفل میں موصوف قابل مقبول ،احترام اور محبوب رہے ہیں ان کی اردو دوستی اور اردو پروری اپنی جگہ مکمل قائم ودائم ہیں کامیاب شخصیت اپنے شاگردوں اورنئی نسل ادب کے لئے مسلسل کو شاں اور جہد آزماتے رہتے تعلیمی سیرابی اور ان کی سرفرازی استاد محترم صاحب کا مقصد حیات بن چکا اور ایسی جنونی وابستگی کی لاتعداد مثالیں ہیں وہ شائق اردو ادب نواز معیار پسند اور بلند خیالاتی شخصیات کے صف اول میں گناجاتاہے کیونکہ ادب کو اپناحرزجاں بنائے ہوئے خوب مطالعہ گہرائی اور گیرائی سے کرتے پورے انہماک ارتکاز اور خوب غور خوض سے پڑھتے تب جاکر اچھی طرح چھان پھٹک کے بعد حوالہ قلم کرتے ادب کے ہر رنگ وآہنگ میں درک رکھتے سبک دوشی سے قبل اور بعد گذشتہ کئی برسوں سے نوک قلم کافی رواں دواں تواتر سے چلتا رہا۔
ایک معتبر اور باصلاحیت استاد ادب نگارہی نہیں بلکہ تنقید وتحقیق کے اعلیٰ گہرے پیڈ رکھنے کے خاص شغف رکھتے تھے اس لئے ان کی تمام تصنیفات اپنے موضوع اوربھرپور موادکے اعتبار ومشکل کشاں سے ایک اہم اور قابل قبول اور قابل تحقیق مطالعہ ہیں پروفیسر وہمارے استاد محترم میںچند خوبیاں نہیںتھی وہ باغ وبہار شخصیت کے مالک غیر معمولی عبقری خصوصیات کے حامل خوش گفتار خوش اخلاق وسلیقہ اور خوش مزاج، زیباس و لباس اور نابغہ وقت کے اسباب دہلی سمیت پوری دنیا میں ان کے دوستوں،شاگردوں اور چاہنے والوں کی لاتعداد تھیںجس سے وہ بے پناہ محبت ، شفقت اور اخلاق ونصیحت باٹتے،کلاس کے دنوں میں ان کی زبان سے خوبصورت، محنتی خیر مقدمی کلمات سن کر اور تہذیب داری دیکھ کر ہم سب حاضرین درجات حیرت کے ساتھ سمندری سوچ میں مبتلا ہوجاتے کیونکہ درجات میں گفتگو اور پڑھانے میں حد درجہ شیریں مزاج کا عنصر غالب رہتا جیسے زبان سے الفاظ نہی پھول برسارہے ہیں ہو وہ سنجیدہ سے سنجیدہ موضوع اور نقطہ نظر کو بحث ومیاحثہ میں خوش گفتاری اور مزاحیہ پیرائے میں سند اور مثال پیش کرنے کا ملکہ جوہر رکھتے تھے۔
اس پس منظر میں موصوف صاحب کا یہ خیال جامع اور بصیرت افروز ہے کہ انسان کے اندر عرش تافرش سب کچھ ہے صرف برہنہ آنکھ سے نظارہ کرنے کی ضرورت ہے ان کا علم وشعور اور تجربہ یہ وضاحت کرتا کہ جس آدمی کا دل روشن ہوتا وہ آگے پیچھے ہمیشہ یکساں طورپر خورشید کی طرح باعث تنویر ہوتا ہے استاد محترم ایک دور اندیش شخص تھے انہوں نے اپنی تمام زندگی تعلیمی منصوبہ بند طریقہ ولائحہ عمل مہم میں ایک مشن کی طرح گزاری۔
یہ حقیقت ہے کہ کسی شخصیت بالخصوص اہل قلم کی پہچان خوشی اور رنج کے مواقع پرہی میزان کی کسوٹی پر اتاری جاتی ہے ہندوستانی ادبیات کی اصلیت ہے کہ غالب، نظیراکبر آبادی، پر یم چندذوق، دیاشنکر نسیم اور بھی بہت استاد ادب کو تعصبی چشمہ اتار کر مرنے کے بعد ہی اونچی نگاہ اور ان کا حق دیا گیا ہے ۔
موصوف محترم صاحب کا فکشن آمد کی فکشن نگآری ہے آورد کی نہیں جو کسی مخصوص موڈ ، کاوش اور بیاض کی محتاج نہیں ہوتی ہے بلکہ بیش بہا شدت جگر واحساس کا قالب اختیار کرلیتی ہے ان کی خوبصورتی کی علامت ہے کہ شگفتہ ، شائشتہ، دل کش اثرات، اسلوب دھیما لہجہ دھڑکتی ہوئی علامتیں دید ومشاہد ے کی صداقت قاری وسامع کو اپنی جانب متوجہ ہی نہیں کشش کرلیتاہے انہوں نے داستان کی صداقت واہمیت سے لے کر افسانہ کی طاقت زور کو سامنے رکھ کر فکر اور پرواز تخیل پر بڑی کارآمد گفتگو ہی نہیں بحث ومباحثہ کر تنقید و تحقیق کے در اور دروازہ کھولنے کی پوری تخلیقی وضو کی جس کی تعارف ملکی واسفار امریکہ، انگلینڈ، روس اور پاکستانی یونیورسیٹی کے استادوں نے کی جہاں افسانہ نگاری ہو ناول یا مضمون کو سماجی پیغام اور ثقافتی مضبوطی ہر اعتبار سے نہایت پرکشش اور جاذب نظر بنا کرپیش کیا ان کی تمام تحریریں اردو ادب میں ثروت مند اضافہ ہی اضافہ شمار کی جائیگی خوبصورت معیاری اور معنی خیر تاثرات مضامین دل چھولینے والے عقل وشعور کو بھی جھنجھوڑ تے ہیں۔
الغرض لائق، فائق استاد محترم کی عنقری شخصیت نے ہندوستانی ادب بالخصوص فکشن کی دنیا میں تخم پاشی کا کام انجام دیا ان کی تحریروں کی تنوع اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ابنے مادر وطن کے ہر ادبی گوشہ گوشہ کو سرسبز وشاداب اور زندہ وتابندہ ستارہ بنانا چاہتے ان کی نوک قلم کی نثر بظاہر الفاظ وتراکیب کی آمیزش سے بلند ہی نہیں بلکہ مختلف ادبیاتی زبانوں کے استعمال نے خوبصورت نما جملہ عطا کئے جو قاری کے ذہن کو جھنجھور وجکڑکر زلف اسیرکرلیتے ہیں یہ ہی اسباب ہے کہ خود صف اول کے فکشن نگار کے ساتھ پریم چند، قرۃ العین حیدر سعادت حسن منٹو کرشن چندر، عصمت چغتائی ، الیا س احمد گدی، اختر اور نیوی جیسے نامور اہل قلم سے بھی متاثر ہو کر ان کے نقش قدم پر کھڑا اترنے اور ان کی روش اختیار کرنے کی بھر پور کوشش کی۔
موصوف کی دو درجن سے زائد کتابوں کے علاوہ شاعری، افسانہ ،ناول ، تنقیدی اور تحقیق موٹو گراف کی شکل میں ملکی اور بین الاقوامی رسائل میں لاتعداد مضامین منظر عام پر آچکے ہیں ، تیسری دنیاکے لوگ افسانہ 1984ء بندراستے افسانہ 2000ء ہندوستانی تہذیب بوستان خیال کے تناظر میں 1988ء تنقید و تحسین (تنقیدی مضامین)2006ء باغ و بہار مقدمہ و متن2008ء انتخاب سخن( شاعری کا انتخاب) داستان سے ناول تک (تنقیدی) 2001ء پہلے آپ (ڈرامہ)2008ء تنقیدی اظہار2015ء فسانہ عجائب( مرثیہ)2016ء نظیر اکبر آبادی کی شاعری 2008ء ریاض دلربا(اردو کا ا ول ناول) تحقیق 1990ء اور داستان کی جمالیات وغیرہ وغیرہ ان کی اہم کتابیں ہیں۔
مذکورہ بالا پیش نظر کتابوں میں داستان کی جمالیات میں فکشن کی تقریباً تمام اصناف نثر کی ارتقا اور ان کے مصنفین کو متعارف کرانے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے ، اگر ان نثری مضامین کی خوبیوں کو صیقل کی نظر ونگاہ سے نظارہ کیا جائے تو قریب خوردہ شاہین سے آراستہ ہو کر اپنی قوم وملت کے لئے چمکتا کوہ نور ثابت ہوسکتاہے کیونکہ ہر مضامین سے عقیدت ومحبت کی خوشبو ابھرتی ہے ان کی کتابیں اعلیٰ درجہ کی زینہ زندگی کے ساتھ طلبہ شائقین تحقیق ادب کے لئے بہت مفید اور کارآمد اسفارزندگی ہے اس لئے وہ ہمیشہ مبارک اور تحسین ستائش کے مستحق ہے دنیائے اردو سب نے ان کی ادب دوستی، ادب جنون کوبہ چشم رشک دیکھا اور مؤدبانہ سلام وتعریفی کلمات پیش کیا وہ برابر ذاتی تاثر مفید مشورے بے باک اظہار خیال،حوصلہ پروری کا سلسلہ ورابطے بنائے رکھتے جن نثری اصناف کا ارتقائی جائزہ اپنی کتابوں یا مضامین میں لیا ان کے اندر تشنگی اور کمی کا احساس نہیں ہونے دیا جس کی وجہ سے ہر باب میں آخری حروف معلوم ہوتاہے ان کی ذاتی لائبریری جس میں کئی ہزار کتابیں ہیں جو قابل دید بھی اور شوق مطالعہ ہے ۔جہاں مختلف ہر علوم وفنون کی کتابوں کے ساتھ اردو کی کلاسیکی تہذیبی اور ثقافتی کتابیں بھی سلیقہ سے الماریوں میں دستیاب ہیں اس سے ان کی بہترین علمی اور ادبی ذوق کے ساتھ گہرے مطالعہ خوش طبعی اور ان کی دلنوازی کا اندازہ ہوتاہے کہ وہ کتابوں کے درمیان رہتے خوب مطالعہ کرتے پھر قلم کو کسی موضوع کے حوالہ کرتے۔
ان کی گرانقدر خدمات اور تخلیقی اصناف کے لئے ملک وملت ہمیشہ ہمیش احساس مندرہیگی ان خدمات واحسانات کے لئے استادمحترم کو کئی ملکی اور بین الاقوامی اعزازات وانعامات سرسید میلینم ایوارڈ دہلی اردو وفکشن 2001ء افسانہ بند راستے پر1979ء میں سابق نائب صدر صدرجمہوریہ کے دست مبارک، دہلی اردو اکیڈمی فکشن ایوارڈ2008ء اترپردیش اردواکاڈمی بہار اردو اکاڈمی اور بنگال اردواکاڈمی سے سرفراز کیا گیا ہے ۔
انسانی زندگی کی زنجیر کتنی بھی مضبوط ہو ایک دن ٹوٹنا ہے موت کا وقت مقررہے آج وہ کل ہماری باری ہے مگر موت کوگلے لکانے والوں کی خوبیاں رہ جاتی ہے وہ چلاجاتاہے اتنی دور کی وہ کبھی واپس نہیں ہوسکتاسب جانتے ہی نہیں یقین کا مل بھی ہے فناسب کا مقدر ہے لیکن کچھ موت کو گلے لگاتے ہیں تو اہل خاندان کے ساتھ ہر خویش واقارب ہرآشنا تڑپتا، بلکتا، سسکتا ہے اوردل میں رنج والم کا طوفان کھڑاکرلیتاہے دل کے لہو آنسوبن کر جھلکتاہے دل سے خلق خدا کی طلب گار ہوتاہے وہ خدا کابرگزیدہ ومحبوب اور نیک بندہ تھا اور غم وافسوس کا اظہار یوں کرتے ہیںایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جیسے زمانہ، موصوف دار فانی سے داربقاء کی جانب کوچ کرگئے ان کے ہزاروں شاگرد اور فیض یافتہ مضطرب وبے چین ہیں اپنے شریف النفس، سادہ لوح مزاج انسان مربی، مشفق قابل احترام استاد کی جدائی پر ماتم کناں ہیں ۔گردن میں ذرا جنبش دی اور اخلاص ووفا، شفقت ومحبت میں سمندر کے مانند ڈوبی مخصوص لب ولہجہ والی آواز کانوں میں دستک دی، بے لوث، بے غرض مفاد پرست اور خداترس استاد ہم لوگوں سے بہت دور رحمن ورحیم کی رحمتوں کی آغوش میں سوگئے ۔میرے استاد محترم ہم لوگوں کو الوداع کہہ گئے ۔مگر اپنے شاگردوں اور لواحقین کا ہجوم کے واسطے اپنے خیالات کو جس عرق ریزی سے کاغذپر اتاراہے۔وہ ستارہ غالب ولہجہ وجدید اسلوب ان کی گہری فکر ان کا بے باک اظہاربیاں اور لاجواب موضوعات اردو شاعری، فکشن بالخصوص ادبی روایت کے دامن گلزار میں خوشبوں کی طرح صدیوں سے زائد عرصہ تک مہکتے اور چہکتے رہیں گے۔
فکشن کے زمین کی وہ جاوداں شمع جو خاموش ہوگئی مگر اپنی بیش قیمتی خیالات کی روشنی بکھیردی ہے وہ صدا یادیں دلاتی رہے گی۔
بسا شکر الٰہی

محمد جنید شکروی
نائب پرنسپل: آر،بی، جالان انٹر کالج
موضع :سہلا،پوسٹ:سنکی،ضلع: دربھنگہ(بہار)

Md. JUNAID SAKRAVI
Vice Principal:
R.B. JALLAN INTER COLLEGE
At- Sahla, P.O.: Sonki
Dist: Darbhanga, Pin-846009

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.