ابن کنول کا ڈرامہ ’’خواب‘‘: ایک  تنقیدی مطالعہ

ابن کنول کا ڈرامہ ’’خواب‘‘: ایک  تنقیدی مطالعہ

ڈِمپلا دیوی ۔ ریسرچ اسکالر شعبہ اردو جموں یونیورسٹی

   ابن کنول عصر حاضر کے نامور محقق،نقاد،افسانہ نگار ، ڈرامہ نگار اور فکشن نگار تھے ۔اُردو ادب سے متعلق مختلف اصناف پر اُن کی کتابیں منظرعام پرآ چُکی ہیں۔ابن ِکنول کا ڈرامہ ’’خواب‘‘ اُن کے مجموعے ’’بزمِ داغ‘‘ میں شامل تیسرا ڈرامہ ہے جو 2020؁ٗ؁ ؁ ء میں شائع ہو کر منظر عام پر آیا۔ڈرامہ ’’خواب ‘‘ کا موضوع عصر حاضر میں عورتوں کے ساتھ ہونے والے حادثات اور جرائم و زیادتیوں پر مرکوز ہے ۔اس ڈرامہ میں مصنف نے یہ بتانے کی کامیاب کوشش کی ہے کہ عورت ہر دور میں کسی بھی غیر اور انجانے مرد کے ساتھ محفوظ نہیں ہو سکتی ،وہ چاہے پولیس ہو ،عدلیہ ہو یا کسی NGOیا رضاکارانہ جماعت کا کوئی رکن ہی کیوں نہ ہو ۔جس کو جہاں جیسے موقع ملتا ہے محافظ کے بھیس میں اپنے بھیڑیئے نما رروائیے کو انجام دیتا ہے ۔اس ڈرامہ میں ہوس پرستی کے ساتھ ساتھ عوام میں جڑ پکڑنے والی توہم پرستی اور بدنامی کا ڈر ،لوک لاج اور خاندانی عزت کو بچائے رکھنے کی کوشش میں چاہے کسی کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے پر خاندان کی عزت کو محفوظ رکھنا ہے ،جیسے سماجی عقائد پر کھل کر لکھا گیا ہے ۔

                                ڈرامہ ’’  خواب‘‘ میں ابن کنول نے ایک کردار ’’نور محل‘‘کے خواب کے ذریعے موجودہ دور کے مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔اُنھوں نے ہمارے اِردگرد سماج میں رہنے والے انواح اقسام کے لوگ جن میںسپاہی،معلم ، درویش،بزرگ اور وہ لوگ جن کو محافظ کے طور پر دیکھا جاتا ہے ،کی عکاسی کر کے یہ بتانے کی کامیاب کوشش کی ہے کہ موجودہ دور میں ایسے لوگوں سے ہم محفوظ نہیں ہیں۔عورت کی حفاظت کرنے اور اُن کی عصمت بچانے کے بجائے سماج میں رہنے والے ایسے لوگ مختلف طریقوں سے اُن کا ذہنی و جسمانی استحصال کرتے ہیں۔

                    ڈرامہ ’’خواب‘‘ میں نور محل ہر روز ایک انجانے خواب سے دو چار ہوتی ہے اور خواب میں نجمہ کو دیکھتی ہے ، جو چند روز قبل گھر سے غائب ہوئی ہوتی ہے۔ابن کنول نے موجودہ دور کے سپاہیوں کے نقاب پوش چہرے کو بے نقاب کیا ہے اور یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح نجمہ ایک محافظ سے بھی محفوظ نہ رہ سکی۔ڈرامے کا چھوٹا سا منظر پیش ِخدمت ہے :

  نجمہ:    مجھے میرے گھر پہنچا دیجئے میں بہت پریشان ہوں۔بالکل تنہا ہوں۔

[سپاہی ہنسنے لگتے ہیں]

                  ایک سپاہی:   ارے آدمی تو جہاں چاہے اُس کا گھر بن سکتا ہے۔ہم تمہارا گھر بساتے ہیں۔

                  دوسرا سپاہی:  ہم تمہاری پریشانی دور کرتے ہیں۔

                  تیسرا سپاہی :  اور ہم تمہاری تنہائی دور کرتے ہیں۔

                                                                                                                (بزم داغ  از ابن کنول ۔ص۔۹۸)

         سپاہیوں کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عوام کولوٹ مار ،دہشت گردی ،چوری ،رشوت خوری اور غنڈہ گردی سے محفوظ رکھے۔  ابن کنول نے ڈرامہ’’خواب‘‘میںکچھ ایسے سپاہیوں کے چہروں کو بے نقاب کیا ہے جو عوام کے لئے محافظ نہیں بلکہ قہر و عذاب بن جاتے ہیں ۔ڈرامے کے اس چھوٹے سے منظر سے اس بات کا بخوبی اندزہ لگایا جا سکتا ہے کہ انسان کسی بھی وقت درندے کی شکل اختیار کر سکتا ہے  ۔ موجودہ دور پر اگر ہم نظر ڈالیں تو عورتوں کی صورتِ حال اس بات کا مکمل ثبوت فراہم کرتی ہیں کہ ملک آزاد ہونے کے بعد بھی عورتیں آزادی سے گھوم پھر نہیں سکتی،رات کو اکیلی باہر نہیں جا سکتی۔اکیسویں صدی کے اس دور میںعورت خود کو محفوظ نہیں سمجھ پاتی ہے ۔ہمیشہ اس کے دل و دماغ پر دہشت و خوف طاری رہتا ہے ۔

           جہاں ایک طرف ابن کنول نے سپاہیوں کے چہروں کو بے نقاب کیا ہے ،وہیں دوسری طرف ایک معلم جیسا حُلیہ رکھنے والے شخص کو بھی بے نقاب کیا ہے جو پہلے نجمہ کے لیے ہمدردی کا جذبہ دکھانے کا ناٹک کر کے اُس کی مدد کرتا ہے جس سے نجمہ کے دل میں اُمید کی ایک نئی کرِن جاگ اُٹھتی ہے لیکن اُسی لمحہ وہ معلم جیسا حُلیہ رکھنے والا شخص بھی اپنے نا پاک ارادوں کو پورا کرنے کے لیے نجمہ کو اپنا شکار بناتا ہے۔

             ڈرامے کے آخری حصے میں ابن کنول نے انسانی معاشرے کی ایک تلخ حقیقت بیان کی ہے کہ کس طرح سے بھولے بھالے لوگ جن پیروں،فقیروں اور درویشوں کے پاس جا کر اپنی دولت لُٹاتے ہیں،جن کو بندّہ ِخدا کہا جاتا ہے، لیکن لاچار خواتین کے مشکل وقت میںایک درویش بھی اُن کی مجبوری کا فائدہ اُٹھاکراعمال کے نام پر اپنی ہوس کا شکار بناتا ہے۔ابن کنول نے’’خواب‘میں درویش کا حُلیہ اس طرح بیان کیا ہے کہ وہ درویش زرد لباس پہنے،ہاتھ میںچمٹا اور گلے میں تسبیعیں ڈال کر گھوم رہا ہوتا ہے۔نجمہ کو اُس درویش شکل کے آدمی میں ایک خدا پرست منش نظر آتا ہے اور وہ اُس کے قدموں میں سر رکھ کر آسرا مانگتی ہے۔مگر آسرا دینے کے بجائے درویش نما آدمی بھی اُس کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتا ہے ۔موجودہ دور میں خواتین کے ساتھ پیش آنے والے مختلف واقعات کو ابن کنول نے نہایت خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔آئے دن خواتین کی زندگی کن کن مسائل سے دو چار ہورہی ہے اُس پر بھر پور روشنی ڈالی ہے۔

                     زیرِ بحث ڈرامہ کے ذریعے ابن کنول نے ہمارے اِرد گرد سماج میں رہنے والی خواتین کی آپسی گفتگو کو بھی نہایت طنزیہ انداز میں پیش کیا ہے ۔نجمہ جو کہ عشرت علی کی بیٹی ہے،جو گھر سے گُم ہوتی ہے ۔اُس بچی کو حالات کے بے رحم گردش نے ماں باپ سے جُدا کیا ہوتا ہے۔حالات کے اس بے رحم گردش سے واقفیت ہونے کے باوجود بھی خواتین کس قسم کی باتیں کرتی ہیں یہ جاننے کے لیے پیش ہے ’’خواب‘‘ کا ایک چھوٹا سا منظر:

               امراؤ بیگم :     ویسے میں تو کہتی ہوں کہ اگر وہ لڑکی اب نہ ملے تو اچھا ہے۔نہ ملے گی توکچھ رو دھو کر صبر کر لیا جائے گا۔

            آخر مرنے کا بھی تو صبرآ جاتا ہے لیکن اگر مل گئی تو عمر بھر کون روئے گا۔کون اپنے گھر میں اُسے بہو بنا کر لے جائے گا۔

                          بلقیس:      ہاں یہ بات تو ہے ۔اب کون آنکھوں دیکھے اسے قبول کرے گا‘‘۔

                                                                                                                                                (بزمِ داغ  از ۔ابن کنول ،ص۔۹۰)

                     ڈرامے کے اس مختصر سے منظر سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم ایسے سماج میں رہتے ہیںجہاں والدین اپنی گُم شدہ بیٹی کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں ۔وہ یہ جانتے ہیں کہ ظالم سماج نے نجمہ کو گُم کیا ہے اُنہیں نجمہ کے غم میں رو رو کے مر جانا قبول ہے مگر اُسے واپس گھر لاکر نئی زندگی دینا منظور نہیں ہے ۔

                نور محل کو ہر روز آنے والا خوف زدہ اور ڈراونا سا خواب صرف نجمہ کے المیہ پر ختم نہیں ہوتا۔ آج بھی ظالم سماج کی بربریت لاکھوں دوشیزاؤںکو نجمہ بنا رہی ہے اور یہ بربریت اُن دوشیزائوں کو اپنے والدین سے جُدا کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔

                الغرض یہ کہ ابن کنول کا زیرِ بحث ڈرامہ موضوع کے اعتبار سے ہی منفرد نہیں ہے بلکہ یہ فن کے اصولوں پر بھی کھرا اُترتا ہے ۔اس ڈرامے کا پلاٹ ایک گمشدہ لڑکی کے گرد بُناگیا ہے جس کے ساتھ ہونے والی واردات نور محل اپنے خواب میں دیکھتی ہے۔اس ڈرامہ میں نفسیاتی کرداروں کی کشمکش اور ذہنی انتشار کو بھی پیش کیا گیا ہے ۔اس ڈرامہ کے کردار ہمارے ہی ارد گرد کے رہنے والے لوگ ہیں جو کہ عصر حاضر کے معاشرہ کی ہو بہو عکاسی کرتے ہیں ۔ابن کنول نے مکالمہ نگاری میں اپنے فن کے جوہر دکھائے ہیں اور پردہ خفا میں رہنے والی ایسی باتوں کو کرداروں کے مکالموں کے ذریعے اِس ہُنر مندی سے پیش کیا ہے کہ سب باتیں فطری معلوم ہوتی ہیں ۔اس ڈرامہ کے مناظر بھی ٹی۔وی سکرین کی طرح آنکھوں کے سامنے چھا جاتے ہیں ۔                                                                        ابن کنول کا ڈرامہ ’’خواب‘‘اکیسویں صدی میں لکھے گئے اردو ڈراموں میں ایک منفرد مقام کا حامل ہے۔یہ ڈرامہ صنف نازک کے ساتھ ہونے والے ظلم اور بربریت کی نہ صرف عکاسی کرتا ہے بلکہ ہمارے معاشرے میں رہنے والے لوگوں کی سوچ جس میں عورتیں بھی شامل ہیں سے پردہ کشائی کرتا ہے کہ کس طرح سے لوگ ایک لڑکی کی جان سے زیادہ اپنے خاندانی رتبے،عزت ،وقار کو اہمیت دیتے ہیں ۔

****

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.