پروفیسر ابن کنول: ایک بے مثال استاد، لاثانی شخصیت

پروفیسر ابن کنول: ایک بے مثال استاد، لاثانی شخصیت

ڈاکٹر محمد شمس الدین
اسسٹنٹ ڈائرکٹر، مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی اسٹدی سنٹر، بنارس، اترپردیش

انسان کی زندگی میں کئی اہم شخصیات کا تعلق ہوتا ہے۔ مگر اس میں استاد کی اہمیت کچھ اورہی ہوتی ہے۔ خصوصی طور پر اگر بہترین استاد کی شاگردی حاصل ہوجائے تو اللہ کی عظیم نعمت سے کم نہیں ہے۔ پروفیسر ابن کنول صاحب کی شخصیت ایک ایسے ہی عظیم استاد کی رہی۔ شعبہ اردو، دہلی یونی ورسٹی میں جب وہ اپنے چیمبر میں بیٹھتے تو طلبا ان کے چیمبر میں بلا جھجھک داخل ہوجاتے اور اپنے عزیز استاد سے مختلف تعلیمی و تحقیقی موضوعات پر رہنمائی کی درخواست کرتے اور استاد محترم تشفی بخش رہنمائی کرتے تھے۔ استاد محترم کا دلچسپ انداز بیاں سبھی کو بہت پسند آتا تھا، جی کرتا کہ استاد کو مزید سنتے رہیں مگر وقت کی کمی ہوجاتی تھی۔ استاد محترم کی شخصیت ایسی تھی کہ شعبہ اردو، دہلی یونی ورسٹی کا ہر طالب علم ان سےملنے کا خواہش مند ہوتا تھا۔ وہ سبھی طلبا سے شفقت و محبت سے پیش آتے اور انہیں زندگی کے نشیب و فراز کے بارے میں سمجھاتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرنے، تنقیدی صلاحیت پیدا کرنے اور اخلاقی اقدار کی پاسداری کرنے پر متوجہ کرتے تھے۔ ان کے شاگردوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جنہوں نے ان کی نصیحتوں پر عمل کیا اور آج زندگی کے مختلف شعبوں میں کامیاب و کامران ہیں۔
استاد محترم جب جامعہ نگر سے دہلی یونی ورسٹی کے لیے نکلتے تو اگر کوئی طالب علم جانا چاہتا تو اس کو بھی کار میں بیٹھا لیتے۔ راستے میں بھی کوئی شاگر ددکھ جاتا تو اسے بھی ساتھ بیٹھا لیتے تھے۔ ایک بار میں جب میں کار میں بیٹھا تو کرتا پائجامہ پہنا ہوا تھا، استاد نے کہا آپ یونی ورسٹی جارہے ہیں ایسے میں اپنا لباس کا ضروری خیال رکھیں۔ استاد کی یہ نصیحت مجھے آج بھی یاد ہے۔اسی طرح جب میں نے ایم فل مکمل کیا اور وائیوا کا وقت ہواتو کئی ساتھیوں نے کہا کہ وائیوا کے وقت طالب علم کی طرف سے ہائی ٹی اور سویٹس کے انتظام کرنے کی روایت ہے ۔ استاد محترم نے مجھے بلایا اور کہا کہ ہاں بھئی! کل کے وائیوا کی تیاری ہوگئی؟ میں نےمثبت جواب دیا ۔ پھر انہوں نے کہا کہ دیکھووائیوا کی خوشی میں کوئی ایک سویٹ کھلا سکتے ہو مگر فضول خرچی مت کرنا، جوبھی پیسہ ہو، اسے ماں باپ کو دو تو انہیں بہت خوشی ہوگی۔اسی طرح مختلف اوقات وہ نصیحت سے نوازتے تھے۔
میری کافی خواہش تھی کہ پروفیسر ابن کنول صاحب کے زیر نگرانی اپنے ایم فل کا مقالہ تحریر کروں، جسے انہوں نے بخوشی قبول فرمایا۔تحقیقی مقالہ موضوع کے تعلق سے کافی غور و فکر کے بعد پروفیسر محمود الٰہی کی تحقیقی و تنقیدی خدمات: ایک جائزہ موضوع منتخب ہوا۔ پروفیسر محمود الٰہی شعبہ اردو ، گورکھپور یونی ورسٹی کے بنیاد گزار اور اترپردیش اردو اکادمی کے چیئرمین رہ کر کافی اہم ادبی، تحقیقی و تنقیدی خدمات انجام دیا تھا مگر ان کی خدمات کے متعلق کوئی تحقیقی کام نہیں ہوا تھا۔ استاد محترم کے حکم پر میں نے مختلف لائبریریوں اور اداروں خصوصاً شعبہ اردو، گورکھپور یونی ورسٹی اور اترپردیش اردو کادمی، لکھنؤ کا سفر کرکے مواد اکٹھا کیا۔ پروفیسر محمود الٰہی پریہ پہلا تحقیقی کام تھا۔ استاد محترم نہ صرف رہنمائی کرتے تھے بلکہ اپنے شاگردوں کو زمینی سطح پر ریسرچ کیسے کی جاتی ہے، اس پر عمل بھی کراتے تھے۔
پروفیسر ابن کنول ہمیشہ طلباکی مدد کرتے تھے۔ خصوصاً اپنے شاگردوں کا کافی خیال رکھتے تھے۔ خود فون کرکے خیریت پوچھتے اور رہنمائی کرتے۔ زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرنے، تحقیقی اور معیاری مقالات تحریر کرنے پر توجہ دلاتے تھے۔ ڈاکٹر محمد اکمل، ڈاکٹر افضل مصباحی، ڈاکٹر عزیر احمد، ڈاکٹر محمد ارشداور مجھے کافی شفقت سے نوازتے تھے۔ نہ صرف تعلیم بلکہ نوکری کے سلسلے میں بھی شاگردوں کی ہر ممکن مدد کرتے تھے۔ اشتہارات کے بارے میں معلومات، فارم بھرنے کا طریقہ، انٹرویو دینے کی تکنیک بتاتے تھے۔ شاید استاد محترم کی یہی وہ رہنمائی ہے کہ آج بڑی تعداد میں ان کے شاگرد برسرروزگار ہیں۔
استاد محترم خود اعلیٰ اخلاقیات کے مالک تھے اور دوسروں کو بھی اخلاقیات کی نصیحت کرتے تھے۔ میں نے کبھی بھی، کہیں بھی ان کا نام سنا تو وہ یہ ضرور سنا کہ پروفیسر ابن کنول ایک نہایت ہی بااخلاق شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کے چاہنے والے ہوں یا نہ چاہنے والے سبھی ان کے اخلاقی معاملات کے قائل ہیں۔ چھوٹوں سے شفقت و محبت سے پیش آنا، اپنے ماتحتوں سے خوشی خوشی کام لینا ، اور بڑوں کی قدر کرنا انہیں بہت اچھی طرح آتا تھا۔ انہوں نے اپنی زندگی کے معاملات کا اظہار ا اپنی کتاب ’’چار کھونٹ‘‘ میں کیا ہے۔
پروفیسر ابن کنول اسلامی معاملات میں بھی کافی پابند عمل تھے۔ پنجگانہ نماز کی ادائیگی ہمیشہ کرتے تھے۔ جہاں کہیں سفر میں بھی رہتے تو نماز کی ادائیگی ضرور کرتے تھے۔ نماز، روزہ، حج، زکاۃ کے ساتھ انہوں نے کئی عمرہ بھی کیا۔ اللہ کی مصلحت کہ عمرہ ادا کرنے کے چند دنوں بعد ہی وہ اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ اس وقت ان کی روح پرواز کی جب وہ وضو کرکے نماز ادا کرنے جارہے تھے۔
٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.