ہمدمِ دیرینہ – پروفیسر ابنِ کنول

ہمدمِ دیرینہ – پروفیسر ابنِ کنول

ڈاکٹر صابر گودڑ

۱۹۷۷ء؁ کی بات ہے۔  پروفیسر ابنِ کنول میرے سینئر تھے۔  علی گڑھ میں ان سے زیادہ ملاقاتیں نہیں ہوئیں۔ لیکن تعلیم مکمل کرنے کے بعد ماریشس سے ان سے میل جول کا سلسلہ اس طرح شروع ہوا کہ ہمارے درمیان کا فاصلہ قربت میں استواری کی بنیاد پر مٹ چکا۔  ہم ایک دوسرے سے اتنے قریب ہو گئے کہ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔  ہفتہ دو ہفتے بعد ان سے مختلف موضوعات پر بالخصوص عالمی تناظر میں اردو، ان کی تخلیقات حتیٰ کہ شب و روز کے مشاغل کے حوالے سے گفتگو ہوتی رہتی ہے۔  یہ سب جدید ٹکنالوجی کا فیض ہے کہ ہم غالبؔ کی طرح ہجر میں بھی وصل کے مزے حاصل کرتے ہیں۔  اگست۲۰۰۳ء؁ میں اردو اسپیکنگ یونین نے ماریشس میں بڑے پیمانے پر دوسری عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد کیا تھا۔  دنیائے اردو سے تعلق رکھنے والے مختلف ممالک کے مشاہیر اور نابغۂ روزگار تشریف لائے تھے۔  بلاشبہ وہ ایک یادگار کانفرنس تھا۔  مندوبین میں کیرالہ کے گورنر عزت مآب سکندر بخت، پروفیسر ظہورالدین، پروفیسر فتح محمد ملک، احمدفراز، کشورناہید،پروفیسر شمیم حنفی، پروفیسر عبد الحق، پروفیسر زماں آزردہ، پروفیسر اصغر عباس، پروفیسر ابو الکلام قاسمی، پروفیسر محمد زاہد، پروفیسر انیس اشفاق، ندا فاضلی،ڈکٹر خلیق انجم، ڈاکٹر شاہدماہلی، ڈاکٹر ڈیوڈ میتھیوز، ڈاکٹر لدمیلہ واسی لیوا،ایرینامیکسی مینکو، پروفیسرتاش مرزا، پروفیسر آزادشماتوف، پروفیسرامیرعارفی اور پروفیسر ابنِ کنول وغیرہ شامل تھے، کانفرنس کے لیے انہوں نے ’’اردو میں ناول ‘‘ مقالہ پڑھا تھا۔  ہماری دوستی جیسے رشتہ داری میں تبدیل ہو گئی۔

ابنِ کنول نے ان برسوں میں بہت کچھ لکھا۔  ان کی تحریریںتقریباً چار پانچ دہائیوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔  عالمی وباکی قیدِتنہائی میں انہوں نے جس قدر اپنے قلم کے گھوڑے دوڑائے اس سے ان کے فن، اسلوب، طرزِ تحریر اور فطری جہت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔  اس درمیان انہوںنے مسلسل خاکے اور انشائیے قلمبند کیے جو کتابی صورت میں منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔

ادیب جب کسی تخلیقی عمل سے گزرتا ہے اور اپنے تجربات، خیالات، جذبات اور احساسات کو کاغذی پیرہن عطا کرتا ہے تو وہ قارئین تک پہنچتا ہے۔  ہر قاری انفرادی طور پر اس کا مطالعہ کرتا ہے اور نتیجہ اخذ کرتا ہے۔  ابنِ کنول کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف اپنے فن کو قارئین تک پہنچایا ہے بلکہ بزبانِ خود خاکوں اور انشائیوں کی قرأت سے چار چاند لگا دئے ہیں۔  سلیس، عام فہم، بامحاورہ زبان، لب و لہجہ کے اتار چڑھاؤ، اندازِ بیاں، مکالماتی انداز، موقع و محل کی مناسبت سے طنز کے نشتر سے ہر تخلیق کی عکاسی اس قدر واضح ہو گئی ہے کہ پوری تصویر اور منظر آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے اور سمجھنے اور نتیجہ اخذ کرنے کے لیے ذہنی کاوش درکار نہیں ہوتی۔  یہ ادبی فن پارے یقیناً اصنافِ مذکورہ میں اضافے کے باعث ہیں۔   بات چلی تھی ماریشس میں عالمی اردو کانفرنس کی۔  ان کی تشریف آوری سے ہماری پرانی یادیں تازہ ہو گئیں۔  علی گڑھ یونیورسٹی اور شعبۂ اردو کے حوالہ سے بہت ساری باتیں ہوئیں۔  یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کل کی بات ہو۔ فیکلٹی، مولانا آزاد لائبریری، کنیڈی ہال کے ادبی و تفریحی پروگرام، شمشاد مارکیٹ، تصویر محل کی چائے، علی گڑھ کی سالانہ نمائش، یونین کا الیکشن، غرض کہ علی گڑھ کا پوراعلمی، تہذیبی و ثقافتی نقشہ سامنے تھا۔  ابنِ کنول ہی نہیں بلکہ سبھی کہتے ہیں کہ جو علی گڑھ جاتا ہے علی گڑھ کا اسیر ہو جاتا ہے۔  چاہے وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں ہو اس کی شناخت علی گڑھ ہی سے ہوتی ہے۔

جب میں مہاتما گاندھی انسٹی ٹیوٹ کے شعبۂ اردو کا صدر ہوا تو بی اے اردو امتحانات کے لیے بحیثیتِ بیرونی ممتحن ان کا نام انتظامیہ کو تجویز کیاا ور تین سال کے لیے منظوری دی گئی۔  ابنِ کنول نے اپنے فرائض خوش اسلوبی سے نبھائے اور اپنی مفید آراء سے ہمیں نوازتے رہے۔  شعبے کے اساتذہ کے ساتھ دوستانہ ماحول میں میٹنگ ہوتی لیکن کبھی ان کی شخصیت میں انا کا پہلو نظر نہیں آیا۔  ان کے اعزاز میںنیشنل اردو انسٹی ٹیوٹ اور اردو اسپیکنگ یونین میں استقبالیہ پروگرام منعقد ہوئے۔  ادبی نشستیں بھی لگیں جن میں خاصی تعداد میں طلباء اور کالج کے اساتذہ نے شرکت کر کے ان کے علمی خطابات سے استفادہ کیا۔  ایک مرتبہ ان کے ساتھ ’’افسانہ کی ایک شام‘‘ نامی پروگرام اردو اسپیکنگ یونین میں رکھا گیا۔  انہوں نے اپنے مشہور افسانہ لکچھمی جب حاضرین کو اپنے مخصوص انداز میں پڑھکر سنایا تو کئی لوگوں میں رقت طاری ہو گئی۔  حقیقت اور جذبات سے مملو اس افسانہ کو اگر ایک شاہکار کہا جائے تو شاید مبالغہ نہ ہوگا۔  ابنِ کنول کی منتخب اور مرتب شدہ شعری و نثری اصناف پر کتابیں ماریشس کے طلباء کے لیے کارآمد اور مفید ثابت ہوئیں۔  اور جو قلت اس ضمن میں کئی برسوں سے محسوس کی جا رہی تھی وہ دور ہو گئی۔  ان کے افسانے یہاں کے جامعۂ اردو اور نیشنل اردو انسٹی ٹیوٹ امتحانات بورڈ کی مجوزہ نصابی کتب میں شامل کئے گئے ہیں۔  علاوہ ازیں، ان کی کتاب ’’داستان سے ناول تک‘‘ طلباء اور اساتذہ شوق سے مطالعہ کرتے ہیں۔  بلاشبہ امتحان کے نقطۂ نظر سے یہ ایک بے حد مفید کتاب ہے۔  اب جبکہ ان کی کتاب ’’ داستان کی جمالیات‘‘ شائع ہو کر منظرِ عام پر آ چکی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہاں کے ایم اے کے طلباء اور رسرچ اسکالرز ضرور استفادہ کریں گے۔

قیام ماریشس کے دوران ابنِ کنول صاحب نے تارکینِ وطن کی تاریخ، یہاں کے قدرتی مناظر، رسم و رواج، تہذیب و ثقافت، کثیر المذاہب معاشرہ اور مذہبی و سماجی سرگرمیوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔  انہوں نے ماریشس کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ کو اپنی ایک طویل نظم بعنوان ’’ماریشس کا سونا‘‘ میں اتنی وضاحت اور خوبی کے ساتھ پیش کیا ہے جیسے کہ وہ خود یہاں کا باشندہ ہو۔  اگرچہ انگریزوں نے کہا تھا کہ یہاں پتھر الٹنے سے سونا ملتا ہے جوکہ سراسر دھوکا تھا۔  لیکن ابنِ کنول نے اپنے قلم کے جادو سے ان محنت کش مزدوروں کے ذریعے خون پسینے سے بنجر نما جزیرے کو دلکش اور خوبصورت ملک میں تبدیل کر کے حقیقی سونا پانے پر سچ ثابت کیا ہے۔  نظم میں وطن پرستی کی جو کیفیت پیدا ہو گئی ہے وہ واقعی قابلِ تحسین ہے۔  یہ نظم اردو اسپیکنگ یونین کے سہ لسانی رسالہ ’’ صدائے اردو‘‘ میں شایع ہو چکی ہے۔  اور ریڈیو انٹرویو میں نشر ہوئی ہے جسے سامعین نے بہت سراہا تھا۔

ابنِ کنول صاحب کی سادہ مزاجی اور سادگی نے ہم سب کو متاثر کیا۔  یہاں کے اردو طبقے اور دیگر شعبہ ٔحیات کے لوگوں سے ملاقات اور گفتگو کے دوران ان کی ساری خصوصیات ہم پر واضح ہو جاتیں۔  وہ غیر ملکی طلباء کی اردو کو بہتر بنانے اور ان کی رہنمائی کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہتے۔  آج بھی ان کی زیرِ نگرانی یہاں کے طلباء اور اساتذہ پی۔ایچ۔ڈی کا مقالہ لکھنے میں ملوث ہیں۔  یہاں کی جن ادبی اور غیر ادبی شخصیات سے وہ ملتے رہے ان میں سابق صدرِ جمہوریہ ٔماریشس عبد الرؤف بندھن،مرحوم احمد عبداﷲاحمد، قاسم ہیرا، عنایت حسین عیدن ، شہزاد عبد اﷲ احمد، مرحوم ڈاکٹر ریاض گوکھول، ڈاکٹر رحمت علی، انور دوست محمد، ڈاکٹر آصف علی محمد، ڈاکٹر نازیہ جافو خان، سکینہ رسم علی، فاروق رجل، رشید نیروا ،فاروق بوچا، خالق بوچا، سعید میاں جان، زینب جومن، گلناز جومن، فاروق حسنو، قاسم علی محمد وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہے۔  یہ فہرست کافی طویل ہے۔  وہ یہاں کے قلم کاروں کی تحریریں پڑھتے رہتے ہیں اور ان پر اپنی رائے دیتے رہتے ہیں۔  بعض احباب کی کتابوں پر تحسینی کلمات بھی قلمبند کیے ہیں۔

۲۰۱۸ء؁ میں قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان کے جانب سے دلی میں عالمی اردو کانفرنس ہوئی۔  ابنِ کنول صاحب کے ایما پر اس ادارے کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد کی طرف سے دعوت نامہ موصول ہوا۔  ابنِ کنول کی ہمیشہ دلی خواہش رہی کہ اردو کی نئی بستیوں میں ماریشس کی اردو خدمات کو سراہا جائے۔  ماریشس کے لیے ان کے دل میں یہ نرم گوشہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ہمیں اپنا سمجھتے ہیں۔  کانفرنس کے بعد ہم نے ان سے علی گڑھ جانے کی خواہش ظاہر کی۔  کہنے کی دیر تھی۔  سارا انتظام انہوں نے خود کیا۔  شعبۂ اردو کے صدر پروفیسر ہاشم سے رابطہ قائم کر کے مقالہ پڑھنے کا تذکرہ بھی کیا۔  یہ سب کچھ تھوڑے عرصے میں طے ہو گیا اور ہم علی گڑھ گاڑی کے ذریعے پہنچے۔

شعبۂ اردو میں اساتذہ اور دیگر احباب سے مل کر بے انتہا مسرت حاصل ہوئی۔  شفیق استاد، پروفیسر ابو الکلام قاسمی اور کینڈا سے ولی عالم شاہین بھی موجود تھے۔  شاہین صاحب نے اپنے مجموعے سے چند نظمیں گوش گزار کرائیں۔  قاسمی صاحب نے شاہین صاحب کے کلام پر اظہارِ خیال کیا اور میرے متعلق چند باتیں کیں۔  ابنِ کنول نے افسانے کے حوالہ سے گفتگو کی اور میں نے ماریشس کی اردو تخلیقات پر پیپر پڑھا۔  ایم اے اور ایم فل کے طلباء نے کئی سوالات کیے۔  مجھے اپنا زمانہ یاد آگیا۔  شعبہ کے سمینار میں حاضر ہو کر ادبی محافل سے مستفیض ہونا۔  وہ دن بھی یاد آیا جب علی گڑھ کو الوداع کہتے وقت میں نے استاد محترم قاضی عبد الستار کو اپنی ڈائڑی میں اوٹوگراف لکھنے کی درخواست کی۔  انہوں نے جو حوصلہ افزا جملہ تحریر کیا تھا وہ آج بھی میرے دل و دماغ میں نقش ہے۔  ’’خدا کرے تم ماریشس میں اردو کی شمع روشن کر سکو‘‘ ۔  ابنِ کنول نے ہلکی سی مسکراہٹ زیرِ لب لاتے ہوئے کہا ؛ ہم دونوں خوش قسمت ہیں کہ قاضی عبد الستار جیسے عظیم  استاد سے پڑھنے کا موقع ملا۔  ابنِ کنول کا خاکہ منٹو سرکل اورعلی گڑھ کاجغرافیہ پڑھنے کے بعد Aligarianکے دل میں وہ حسین یادیں کیسے مٹ سکتی ہیں۔  وہ جب دلی آئے تو یہیں کے ہو کر رہ گئے لیکن علی گڑھ سے ان کا رشتہ منقطع نہیں ہوا۔  آج بھی جب ہم محوِ گفتگو ہوتے ہیں تو ذکرِ علی گڑھ موضوعِ سخن ضرور ہوتا ہے۔ ابنِ کنول کے دوست واحباب اور شناسا کئی ملکوں میں مقیم پذیر ہیں۔  ان سے با قاعدہ رابطے میںرہتے ہیں۔  کئی بیرونی ممالک کا سفر بھی کیا۔  کبھی ممتحن تو کبھی کانفرنس میں شرکاء کی حیثیت سے۔  ان کی شناسائیوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں اردو زبان سیکھنے کا شوق ہے۔  اس کے پیشِ نظر انہوں نے ’’آؤ اردو سیکھیں‘‘ نامی کتاب بچوں کی سطح پر اترکر تحریر کی اور یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ بھی نہیں کہ ادب ِ اطفال پر قلم اٹھاناہر کس و ناکس کی بات نہیں۔  بقولِ غالب جوئے شیر لانے کی مترادف ہے۔
میرے تخلیقِ سفر میں ابنِ کنول نے ہمیشہ ساتھ دیا ہے۔  میرے شعری مجموعہ ’’ درد کا سفر‘‘ کے لیے اپنی مفید اور گراں قدر آراء سے نوازا ہے۔  اس مجموعہ میں ان کی پیش گفتار اور پروفیسر فاروق بخشی اور پروفیسر محمد کاظم کی تقاریظ بھی شامل ہیں۔  جس سے میری ہمت افزائی ہوئی ہے۔  میں ان کے بے حد مشکور ہوں ۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ دنیا میں کچھ لوگ جب بڑے عہدوں میں فائز ہو جاتے ہیں یا شہرت کی بلندیوں تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں تو اپنی انا کالبادہ اتارنا باعثِ توہین سمجھتے ہیں۔  اپنی انا کے خول سے نکل کر دوسروں کی معاونت تو دور کی بات ہے بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتے۔   دیارِ غیرمیں ہم جیسے اردو کی بجھتی ہوئی لو میں تیل ڈالنے پر ہوا کو روکنے کے بجائے مزید پھونک مارتے ہیں۔ مگر بلا مبالغہ میں یہ کہنے کی جرأت کر سکتا ہوں کہ ابنِ کنول میں یہ منفی سوچ قطعی نہیں پائی جاتی۔ ابنِ کنول جتنے اچھے انسان ہیں اتنے مخلص مہمان نواز بھی ہیں۔ ضروری نہیں کہ انسان عالیشان محلوں میں رہائش پذیر ہو مختصر مکان میں رہ کر بھی مہمان نوازی کے لیے اپنے دل کے دروازے کو وارکھتے ہیں۔  یہ جان کر بے حد خوشی حاصل ہوئی کہ ان کے شاگرد اردو ریسرچ جرنل کے ایڈیٹر عزیر احمد صاحب استادِ محترم ابنِ کنول اور ان کی ادبی خدمات پر کتاب مرتب کر رہے ہیں۔  میں ان کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں اور دعاگو ہوں کہ ان کی یہ سعی ضرور پایۂ تکمیل تک پہنچے گی۔؎ دشوار ہے مگر وہی منزل تلاش کر ہمت نہ ہار موج میں ساحل تلاش کر؎ E-mail: swabirgood@yahoo.com

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.