زندہ رہتا ہے زمانے میں عمل اور کردار

زندہ رہتا ہے زمانے میں عمل اور کردار

ڈاکٹر ممتاز عالم رضوی

مدیر اعلی روزنامہ قومی بھارت

’’زندہ رہتا ہے زمانے میں عمل اور کردار ۔ روح کا کیا ہے کسی وقت نکل جائے گی  ‘‘راقم کا یہ شعر استاد محترم پروفیسر ابن کنول صاحب کی نذر ہے ۔ قرآن مجید میں ارشاد ہو رہا ہے ’’ ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے ۔‘‘ جو اس روح زمین پر آیا ہے اس کو پلٹ کر بارگاہ خدا وندی میں جانا ہے ۔ ’’جب احمد مرسل نہ کون رہے گا۔‘‘ موت پر نہ جانے کتنے اشعار موجود ہیں جن کو نقل کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن بہر حال ہم انسان ہیں ۔ اللہ نے ایک ایسا دل دے رکھا ہے کہ بس کیا کیا جائے کہ جب کوئی اپنا اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو دل قبول کرنے کو راضی نہیں ہوتا ۔خاص طور پر جب ہنستا بولتا انسان اللہ کو پیارہ ہو جائے جیسے استاد رخصت ہوئے ہیں ۔ گزشتہ ایک مہینے سے غور و فکر کر رہا ہوں کہ استاد پر کیا لکھا جائے ؟ کس عنوان سے لکھا جائے ؟ کیا باتیں کی جائیں ؟پروفیسر ابن کنول کے ساتھ رشتوں پر بات کی جائے ،ان کی انسان دوستی پر بات کی جائے ، ایک بہترین استاد کے سلسلہ میں بات کی جائے ، ایک اچھے افسانہ نگار کے طور پر بات کی جائے ، ایک بہترین محقق کے طور پر بات کی جائے ۔ خاکہ نگار ، انشائیہ نگار کے طور پر بات کی جائے ۔ کس پر بات کی جائے ۔کئی مرتبہ قلم اٹھایا لیکن رکھ دیا ۔ اب بھی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے ۔ میں سوچ رہا ہوں اس پر بات کروں کہ میں الہ آباد سے دہلی آیا کیسے ؟ میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ یہ میری ماں کی دعا رہی ہے کہ جب میں گائوں سے الہ آباد یونیورسٹی تعلیم حاصل کرنے کے لیے آیا تو وہاں مجھ غریب کو پروفیسر علی احمد فاطمی جیسا استاد ملا اور جب الہ آباد سے دہلی آیا تو یہاں پروفیسر ابن کنول جیسا استاد نصیب ہوا ۔ تو میں بات کر رہا ہوں 2003؍کی ۔ ایم اے کی تعلیم مکمل ہو چکی تھی اور اب پی ایچ ڈی میں داخلہ لینے کی تیاری کر رہا تھا۔ اس وقت میں الہ آباد میں پروفیسر علی احمد فاطمی کی سرپرستی میں چلنے والی نوجوانوں کی ادبی تنظیم قلم کار کا کنوینر تھا ۔ اس کے ساتھ ہی میرے ادبی مضامین اور تبصرے شائع ہو رہے تھے ۔ ادبی نشستوں اور سمیناروں میں شرکت کرنااور اس میں سوال اٹھانا میرا شوق بن گیا تھا ۔ جس موضوع پر سمینار ہوتا تھا اس موضوع پر مطالعہ کرتا تاکہ سوال اٹھا سکوں اور کچھ موقع ملے تو کچھ کہہ سکوں۔ اس دوران پروفیسر ابن کنول صاحب الہ آباد یونیورسٹی تشریف لائے تھے،انھیں وائیوا لینا تھا ۔جب بھی کوئی مہمان آتا تھا تو قلم کار اس کے لیے ایک استقبالیہ نشست کا اہتمام کرتی تھی ۔پروفیسر فاطمی صاحب کی رہائش گاہ پر نشست کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں کئی اہم شخصیات نے شرکت کی تھی ۔ اس میں پروفیسر ابن کنول صاحب نے اپنا ایک افسانہ پیش کیا ۔یہ افسانہ گجرات قتل عام 2002؍سے متاثر تھا ۔ اس پر جب تبصرہ شروع ہوا تو پروفیسر سید محمد عقیل رضوی ، پروفیسر فاطمی صاحب سے لے کر اوپیندر ناتھ اشک کے بیٹے نیلابھ بھائی ، راہی بھائی ، ڈاکٹر فخرالکریم سب نے سخت تنقید کی اور سب کا کہنا تھا کہ افسانہ لائوڈ ہو گیا ہے ۔ اس میں اٹیچمنٹ پیدا ہو گیا ہے ۔ اتنا اوپن اور لائوڈ ہونا مناسب نہیں ہے ۔ ویسے بھی ہمارے یہاں فسادات پر لکھی گئی تحریروں کو نہ جانے کیوں دوئم درجہ کا ادب تصور کیا گیا ہے ۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے ، عرض یہ کرنا ہے کہ نشست کی نظامت کرتے ہوئے میں نے بھی تبصرہ کیا اور سب سے الگ کیا ۔میرا خیال تھا کہ جب ادب زندگی کا آئینہ ہے تو جو زندگی میں ہو رہا ہے اس کا بیان کیا جا رہا ہے ۔ جلتے سلگتے ماحول میں اور کیا لکھا جا سکتا ہے ؟ آپ لوگ کیوں چاہتے ہیں کہ افسانہ نگار بنائوٹی چیز یں پیش کرے اور حقیقت سے چشم پوشی کرے ۔ خیر نشست اختتام پذیر ہوئی ۔ جب ہم لوگ کھانا کھانے لگے تو پروفیسر ابن کنول صاحب  میرے پاس آئے اور بولے میاں یہاں کیا کررہے ہو ؟ میں نے جواب دیا کہ ایم اے ہو چکا اور اب پی ایچ ڈی میں داخلہ کی تیاری کر رہا ہوں ۔ اس پر انھوں نے کہا کہ دہلی یونیورسٹی کیوں نہیں چلتے ؟ وہاں تمہارے لیے زیادہ اچھا رہے گا ؟ یہ بات دل میں لگ گئی ۔ حالانکہ سوچ رہا تھا کہ وہاں کیسے رہوں گا ؟ مالی حالات بھی میرے بہت خراب تھے ۔ الہ آباد میں رہنا مشکل ہو رہا تھا تو دہلی میں کیسے رہتا ؟ پھر والدہ کو چھوڑ کر دہلی کیسے جائوں گا کیونکہ والدہ بھی اب گھر میں تنہا ہی تھیں ۔ ساری بہنوں کی شادی ہو چکی تھی ۔ پھر الہ آباد یونیورسٹی میں کچھ ایسے حالات پیدا ہوئے کہ میرا دل بولا اب یہاں سے چلنا چاہئے ۔ میں دہلی یونیورسٹی پہنچ گیا ۔ میں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بھی انٹرنس اگزام دیاتھا ۔ یہ بات ہے 2004؍کی جب دہلی یونیورسٹی میں پروفیسر صادق صاحب صدر شعبہ تھے۔ انٹرنس اگزام میں مجھ سے تفصیل معلوم کی گئی اور کہا گیا کہ جو آپ کا پسندیدہ مضمون ہو اس پر ایک صفحہ یہیں لکھ دیجئے چنانچہ لکھنا میرے لیے کوئی مشکل عمل نہیں تھا ۔ میں نے ’’اعجاز حسین کے ادبی ڈرامے ‘‘ پر ایک صفحہ فوراً لکھ کر پیش کر دیا۔ دوسرے دن جب لسٹ آئی تو اس میں پہلا نام راقم کا تھا ۔اس وقت فیس بہت کم تھی چنانچہ میں نے ایم فل میں داخلہ لے لیا اور واپس الہ آباد آ گیا تھا ۔ دو تین مہینے بعد پروفیسر ابن کنول صاحب کا پروفیسر فاطمی صاحب کے پاس فون آتا ہے کہ ممتاز یونیورسٹی کیوں نہیں آتے ؟ پھر استاد نے بات کرائی ۔میں نے پورا قصہ بیان کیا کہ وہاں آئوں گا تو کہاں رہوں گا ؟ پھر پیسے بھی نہیں ہیں ۔ اس پر ابن کنول صاحب بولے اس کی فکر مت کرو ۔ تم کو یہاں بزم ادب تنظیم کا صدر بنا دیا گیا ہے ، بس فوراً آ جائو اور اپنی ذمہ داری سنبھالو، امتحان بھی دینا ہوگا ۔ کلاس نہیں کروگے تو ایم فل کا امتحان کیسے دوگے ؟ مجھے یاد ہے پروفیسرفاطمی صاحب اسٹیشن تک پہنچانے آئے تھے اور میرے جیب میں چار ہزار روپے بھی رکھ دیے تھے ۔ جب میں دہلی پہنچا تو استاد نے پہلے سے ہی اپنے ریسرچ اسکالر اکمل شاداب کو بلا رکھا تھا ۔ ان سے تعارف کرایا اور کہا کہ فی الحال تم اکمل کے ساتھ رہو گے ، پھر انتظام ہو جائے گا ۔ اس طرح میں اکمل شاداب بھائی کے ساتھ ان کے روم پر گیا جہاں کئی اور ساتھیوں سے ملاقات ہوئی اور سب بہت اچھے تھے ۔ پندرہ دن کے بعد ڈاکٹر نگار عظیم کی مدد سے وہیں بٹلہ ہائوس میں ایک چھوٹا سا کمرہ لے لیا جیسا کہ الہ آباد میں لے رکھا تھا ۔ اس دوران میں ریڈیو اور دوردرشن پر بھی جانے لگا تھا اور یہ نگارعظیم اور استاد کا کرم تھا ۔ ایک پروگرام کی اینکرنگ کرنے پر ایک ہزار روپے ملتے تھے اور کمرے کا کرایہ چار سو روپے تھا ۔ اگر دو پروگرام بھی مہینے میں ہو گئے تو کام ہو جاتا تھا ۔ خیر گاڑی چل نکلی ۔ پہلے ہی دن جب میں ابن کنول صاحب کے گھر پہنچا تو وہاں کا ماحول بالکل فاطمی صاحب والا تھا ۔ ایسا محسوس ہی نہیں ہوا جیسے کسی پرائے گھر میں آئے ہیں ۔ اندر سے میم نکلی تھیں اور بولیں ’’اچھا تو یہ وہی ممتاز ہیں جن کا آپ ذکر کرتے رہتے ہیں ۔ ‘‘ وہ دن تھا اور 11؍فروری 2023؍کا سیاہ دن ،بس وقت کا پتہ ہی نہیں چلا ۔ پروفیسر ابن کنول صاحب کے انڈر میں ایم فل بھی کیا اور پی ایچ ڈی بھی کی ۔ استاد کی سرپرستی میں بڑی ادبی سرگرمیاں رہیں ۔ کہیں کوئی مشکل پیش نہیں آئی ۔ قلم کار میں ہی افسانہ نگاری کا شوق پیدا ہو گیا تھا اور جب پروفیسر ابن کنول صاحب کا ساتھ ملا تو اس میں نکھار پیدا ہوا ۔ کئی افسانے قلم بند کیے ۔ 2004؍سے لے کر ان کے انتقال تک کوئی ایسی بات نہیں ہوئی جس سے کوئی من مٹائو تک ہوا ہو ۔ البتہ جب میں نے صحافت چھوڑ کر کل ہند مجلس اتحاد المسلمین جوائن کر لی تھی اور ترجمان بن گیا تھا تو یہ بات استاد کو پسند نہیں آئی ۔ حالانکہ ان کے اندر ملت سے محبت تھی ، ملت کے لیے بڑی ہمدردی تھی اور مجھے تو موضوع بتاتے تھے کہ اس پر لکھا جانا چاہئے ، اس پر بولنا چاہئے ۔ لیکن وہ بولے میاں تم کو اکیڈمک لائن میں آنا چاہئے ۔ اس دوران میرے دو ناول سمیت 6؍کتابیں شائع ہو چکی تھیں ۔پہلے ناول تعاقب پر استاد نے لکھابھی ہے اور میرا دوسرا ناول خدا گنج کو استاد نے خود پڑھا اور کہا کہ پروف کی کچھ غلطیاں ہیں اس لیے اس کو دوبارہ شائع کرانا چاہئے ۔ یہ ناول لاجواب ہے ،قبرستان کے موضوع پر لکھا گیا یہ اردو کا پہلا ناول ہے اور اس سے تمہاری ذہانت کا میں قائل ہو گیا ہوں ۔ معاف کیجئے گا ، کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کیا لکھوں ۔ میں آخر میں یہ کہوں گا کہ اب کوئی کہنے والا نہیں ہے کہ ممتاز اکیڈمک لائن میں آ جائو ۔ فارم بھرو ۔ چھوڑو سب ۔ وہ شفقت ، وہ پیار ومحبت نہیں رہی ۔ دہلی میں تنہا سا ہو گیا ہوں ۔ استاد نے بھی کمال کر دیا تھا ۔ گزشتہ دوتین برسوں میں انھوں نے جو خاکے ، انشائیے لکھے ہیں وہ لاجواب ہیں ۔انھیں وہ اودھ اور دوسرے اخباروں میں شائع بھی کراتے رہتے تھے اور فیس بک اور یوٹیوب پر لائیو بھی کرتے تھے ۔ پڑھنے کا انداز لاجواب ۔میں نے بہت پروفیسران کو دیکھا ہے جو نئی تکنیک کو اپناتے ہوئے گریز کرتے ہیں یا گھبراتے ہیں لیکن پروفیسر ابن کنول نے یوٹیوب ، فیس بک اور دوسرے جو تکنیکی ذرائع ہیں ان کا بھرپور استعمال کیا ۔ اپنا فیس بک اور یوٹیوب چینل بنایا اور ان پر انشائیہ اور خاکے اپنے منفرد انداز میں پیش کیے ۔ استاد کی کئی اہم کتابیں شائع ہوکر نہ صرف منظر عام پر آئی ہیں بلکہ کافی مقبول بھی ہوئی ہیں۔’’ہندوستانی تہذیب (بوستان خیال کے آئینہ میں)، یہ کتاب 1988؍میں شائع ہوکر منظر عام پر آئی ۔2003؍میں ’’داستان سے ناول ‘‘ تک ایک اہم فکشن پر کتاب آئی اور یہ کتاب استاد نے مجھے بھی اپنے ہاتھوں سے عنایت فرمائی تھی ۔ اس کتاب کے مطالعہ سے مجھے داستانوی ادب کو سمجھنے میں کافی مدد ملی تھی۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ’’ تیسری دنیا کے لوگ‘‘ 1984؍میں شائع ہوکر منظر عام پرآیا اور 1980؍کے بعد افسانوی ادب میں جو نئی نسل آئی اس میں آپ کا نام پیش پیش رہا ۔یہ افسانے جدیدیت سے الگ بلکہ کسی بھی نظریہ سے الگ ہوکر اپنی راہ الگ لے کر آگے بڑھ رہے تھے ۔ پروفیسر ابن کنول کا افسانوی مجموعہ ’’بند راستے ‘‘بھی کافی مقبول ہوا ہے ۔ ’’بزم داغ‘‘ کے عنوان سے ان کے ڈراموں کا بھی مجموعہ شائع ہوکر منظر عام پر آ چکا ہے ۔آپ نے کئی اہم کتابوں کو مرتب بھی کیا اور کہتے تھے کہ یہ کام بھی بہت اہم ہے کیونکہ اس سے نئی نسل فیضیاب ہوتی ہے ، اس کو آسانی سے چیزیں دستیاب ہو جاتی ہیں ۔ ان کی تنقیدی کتاب ’تنقیدی اظہار ‘ بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے ۔ اس کے علاوہ انھوں نے سفرنامے بھی لکھے ہیں اور اس کا مجموعہ بھی ’’ چار کھونٹ ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوکر منظر عام پر آچکا ہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پروفیسر ابن کنول صرف ایک مدرس نہیں تھے بلکہ وہ ایک باکمال ادیب و ناقد تھے ۔ انھوں نے اردو ادب کو ایک بڑا ادبی سرمایہ دیا ہے جس کے لیے اردو دنیا انھیں ہمیشہ یاد کرتی رہے گی ۔  جب بھی خاکوں کا ذکر ہوگا وہ یاد کیے جائیں گے ، جب بھی افسانوی ادب پر بات ہوگی وہ یاد کیے جائیں گے ۔ جب بھی انشائیہ پر بات ہوگی ان کا ذکر ضرور کیا جائے گا ۔ جب بھی سفرناموں کی بات ہوگی وہ بھی یاد کیے جائیں گے اور ان کے سفرنامے بھی موضوع بحث ہوں گے ۔ جب بھی ڈراموں پر بات ہوگی تو ان کے ڈرامے بھی حوالے کا کام کریں گے ۔ جب بھی داستان کی تنقید پر بات ہوگی پروفیسر ابن کنول کا نام ضرور لیا جائے گا ۔ انشاء اللہ میں استاد پروفیسر ابن کنول کی ادبی خدمات پر تفصیلی مقالہ بھی جلد قلم بند کروں گا ۔ اللہ استاد کی مغفرت فرمائے اور ان کو جنت میں اعلی مقام عطا کرے ۔ آمین یا رب العالمین

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.