پروفیسر ’’ابن کنول‘‘ اردو ادب کی روشنی میں

پروفیسر ’’ابن کنول‘‘ اردو ادب کی روشنی میں

ڈاکٹر محمد طالب انصاری

Dr. Mohd. Talib Ather Ansari

(Associate Professor)

Maulana Azad National Urdu University

College of Teacher Education

Bidar -Karnataka

 E-mail: talib@manuu.edu.in, talibmanuu@rediffmail.com

8171861845

تلخیص

                 ہر معاشرہ اپنے ادب سے ہی اپنی اقداروں ، کلچر اور ثقافت کو حاصل کرتا ہے اور ان کلچر، ثقافت اور اقداروں کی حفاظت، توسیع اور ان کو نئی نسلوں تک منتقلی ایک ادیب کا ذمہ ہوتا ہے۔ ’’اردو ادب‘‘ کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اسے وقت بر وقت ایسے ادیب حاصل ہوتے رہے ہیں جو اردو ادب کی فلاح و بہبود کے لیے کوشا ں رہے ہیں۔  پروفیسر ناسر محمود کمال لقب ’’ابن کنول‘‘ صاحب ایسے ہی اردو ادب کے چمکتے ستارے تھے جنہوں نے اپنی تصانیف سے اردو ادب کو روشن کیا۔  پروفیسر ابن کنول ایک ممتاز اردو ادیب، افسانہ نگار،خاکہ نگار، انشائیہ نگار، شاعر اور استاد تھے جنہوں نے بیسیوں کتابیں تحریر کیںاور ساتھ ہی ساتھ بے بہا مقالوں سے اردو ادب کو منور کرنے کے ساتھ ہی ملک و ملت اور قوم کی فلاح کرنے کے لیے بھی کوشا ںرہے۔ اس مقالے میں ہم پروفیسر ابن کنول صاحب کی زندگی، ان کی اردو خدمات اور تحقیق و تنقید کی چند تصانیف پر مختصراّّ نظر ثانی کریں گے۔

                کلیدی اصطلاحات:  تحقیق، تدوین،  تنقید، تیسری دنیا،  اھل الکھف

                تمہید

                پروفیسر ناسر محمود کمال قلمی نام’’ ابن کنول‘‘  15 اکتوبر 1957 ؁ء میںاتر پردیش کے ضلع مرادآباد کے قصبہ بہجوئی کے ایک زمیندار خاندان میں پیدا ہوے۔والد محترم مشہور شاعر’’ قاضی شمس الحسن کنول ڈبائیوی‘‘ تھے اور والدہ’’ آمنہ خاتون ہاشمی کنول‘‘ ۔ان کے آ بائو اجداد بادشاہ’’ شاہ جہاں‘‘ کے عہد میں ہندوستان آئے اور ’’قاضی‘‘ کے عہدہ سے نوازے گئے۔ انہیں حکومت کی طرف سے جاگیریں عطا کی گئیں۔ بعد میں ان کے بزرگ بدایوں کے قصبہ’’ ڈبائی‘‘ میں آکر مقیم ہوے۔ ان کا خاندان ہمیشہ سے ہی علمی و ادبی سر گرمیوں کے سبب کا فی مشہور رہا۔دادا ’’قاضی شریت ا للہ‘‘( 1930 ؁ء)  ایک قابل وکیل تھے اور پر دادا ’’قاضی اوہم علی ‘‘فارسی اور سنسکرت کے عالم تھے۔ ان کے والد’’ کنول ڈبائیوی ‘‘کی شاعری حب الوطنی کے جذبہ سے معمور ہے۔

                ان کے والد قاضی شمس الحسن کنول ڈبائیوی کی شاعری کے دو مجموعے ’’بسات زیست‘‘ اور’’ سوز وطن‘‘ ان کی زندگی میں ہی شائع ہو چکے تھے۔ بعد میں ان کے فرزندپروفیسر’’ ابن کنول‘‘ صاحب نے اپنے والد کی شاعری کو ایک کلیات کی شکل میں ’’مضراب‘‘ نام سے شائع کیا۔ کنول ڈوائیوی کی شاعری کو پروفیسر آل احمد سرور ، پروفیسر مسعود حسن خان،خواجہ احمد فاروقی اور پروفیسر عبد الحق جیسے مشہور ناقدین فن نے سراہا۔

                پروفیسر ابن کنول کی ابتدائی تعلیم بدایوں شہر کے قصبہ گننور کے ایک اسلامیہ اسکول سے سن1962 ؁ء میںپہلی جماعت کے داخلہ سے شروع ہوئی۔ ان کے پہلے استاد حاجی صفدر علی تھے۔پانچوی جماعت کے بعد علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے’’ منٹو سرکل‘‘ کے اسکول جو کہ سیف الدین طاہر ہائی اسکول کے نام سے بھی جانا جاتا ہے سے دسویں کلاس سن 1972 ؁ء میں پاس کرنے کے بعد’’ پری یونی ورسٹی سائنس‘‘ میں داخلہ لیا سن 1978 ؁ء میں ایم اے کی تعلیم حاصل کی آپ کی خوش نصیبی تھی کہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں آپ کو پروفیسر خورشید الاسلام، پروفیسر قاضی عبدالستار،، ڈاکٹر خلیل الرحمٰان اعظمی، پروفیسر شہریار، پروفیسر نورالحسن نقوی، پروفیسر عتیق احمد صدیقی، پروفیسر منظر عباس، پروفیسرنعیم احمداور پروفیسر اصغر عباس جیسے با کمال اساتذہ سے علم حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ ایم اے مکمل کرنے کے بعد آپ دہلی آ گئے اور سن 1979 ؁ء میں دہلی یونیورسٹی سے ماسٹر آف فلاسفی(M.Phil) کی ڈگری حاصل کی اور پی ایچ ڈی کی ڈگری سن 1984 ؁ء میں حاصل کر ریسرچ کائونسل فار سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل رسرچ، نئی دہلی میں ملازمت اختیارکی اس کے بعددو سال تک تحقیق پر کا م کیا اور دہلی یونی ورسٹی میں ہی 1987؁ء میں رسرچ اسو سیئٹ کے عہدہ پر فائز ہوے۔ سن 1990 ؁ء میں دہلی یونیورسٹی میں تدریس کے عمل سے منسلک ہو کر لیکچرر کے عہدہ پر فائزرہتے ہوے 2006 ؁ء میں اردو پروفیسر کے عہدہ کی ذمہ داری سنبھالی اور ڈپارٹمینٹ آف اردو کے ہیڈ کے عہدہ  پر بھی فائز رہے۔ پرو فیسر ابن کنول نے اپنی بے بہا تصایف سے اردو ادب کی نمایاں خدمات انجام دیں۔ آپ ایک جانے مانے اردو کے مصنف ہیں اور آپ کئی کتابوں کے مترجم بھی ہیں، ابن کنول نے اپنے شروعاتی دور میں ہی افسانہ نگاری میں گولڈ میڈل حاصل کیا تھا، اس کے بعد متعدد اعزازوں سے بھی آپکو نوازا گیا جن میں میلینیم فکشن اوارڈ،دہلی ،بہار، بنگال اردو اکیڈمی اوارڈ وں  وغیرہ سے نوازے گئے۔

                 پرو فیسر ابن کنول بیسیوں کتابوںکے مصنف تھے۔ تخلیقی کاوشوں میں شاہکار افسانے، خاکے ، انشائیے، ڈرامے اور سفرنامے وغیرہ قابل رشک تصنیفات ہیں۔ تنقید میں بھی انکا کوئی ثانی نہیں تھا۔ان کی رہنمائی میں ان گنت طلبا و طالبات نے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریا حاصل کیں۔ تقریباّّپانچ دہائیووں سے وہ اردو زبان و ادب کے فروغ میں ہمہ تن مصروف تھے چنانچہ اب تک ا نہوں نے اردو کی مختلف اصناف میں متعدد تحقیقی، تنقیدی، علمی و ادبی مضامین قلم بند کیے ان کے افسانے قارئین کو خط بہم پہنچا رہے ہیں۔ پروفیسر ابن کنول اب تک اپنی 28 سے بھی زائدکتابیں اردو دنیا کے قارئین تک پہنچا چکے ہیں ۔ جن میں ’’تیسری دنیا کے لوگ‘‘ افسانے) 1984 ؁ء(، ’’بند راستے‘‘ (افسانے) 2000 ؁ء، ’’ہندوستانی تہذیب بوستان خیال کے تناظر میں‘‘ 1988 ؁ء، ’’ریاض دلربا‘‘ (تحقیق) 1990 ؁ء، ’’آئو اردو سیکھیں‘‘ (قاعدہ)1993  ؁ء، ’’داستان سے ناول تک‘‘(تنقید)2001 ؁ء، ’’انتخاب سخن‘‘(اردو شاعری کا انتخاب)2005 ؁ء، ’’منتخب غزلیات‘‘2005 ؁ء، ’’اصناف پارینہ‘‘(قصیدہ مثنوی اور مرژیہ) 2005 ؁ء، ’’منتخب نظمیں‘‘2005؁ء،  ’’تنقید و تحسین‘‘(تنقیدی مضامین کا مجموعہ)2006 ؁ء، ’’تحقیق و تدوین‘‘ (ترتیب) 2007 ؁ء، ’’میر امن‘‘ (مونو گراف)  2007 ؁ء،  ’’باغ و بہار‘‘ (مقدمہ و متن)  2008 ؁ء، ’’پہلے آپ‘‘ (ڈرامہ) 2008 ؁ء، ’’نظیر اکبر آبادی کی شاعری‘‘2008 ؁ء، ’’مضراب‘‘(کنول ڈوائیوی کا کلیات معہ مقدمہ) 2010 ؁ء، ’’اردو افسانہ‘‘(افسانوی تنقید) 2011 ؁ء،  ’’پچاس افسانے‘‘ (افسانوی مجموعہ) 2014 ؁ء، ’’تنقیدی اظہار‘‘ (تنقید) 2015 ؁ء، ’’فسانہ عجائب‘‘(مرتبہ) 2016 ؁ء، ’’اردو لوک ناٹک اور رواسالیب( ڈبائیوی)‘‘ (مرتبہ)2014 ؁ء، ’’اھل الکیف‘‘(افسانے)عربی مترجم: احمد قاضی، مصر 2018 ؁ء، ’’اردو شاعری‘‘ (تنقید) 2019 ؁ء، ’’داستان کی جمالیات‘‘2020 ؁ء، ’’بساط نشاط دل‘‘(انشائیے) اور ’’تبریک‘‘(تقاریظ) وغیرہ شامل ہیں۔

                پروفیسر ابن کنول صاحب نے اپنی تصانیف میں مختلف عنوانات پرطبع آزمائی کی ہے جس پر ہم درج ذیل میں مختصراّّ روشنی ڈالیں گے۔

  1.   ’’تیسری دنیا کے لوگ‘‘ جمال پرنٹنگ پریس، دہلی سے  (جون 1984 ؁ء) میں شائع ہوئی: یہ کتاب کنول صاحب نے اپنے والد ین کو پیش کی اور وہ لکھتے ہیں ’’ایک طرف اگر نئی ضروریات کا ہجوم خوفناک اژدہوں کی طرح منہ کھولے زبانیںلپلپا رہا ہے اور خوف زدہ آدمی سمٹتے سمٹتے اپنے وجود کو کھو رہا ہے، تو دوسری جانب ذات پات، طبقات اور فرقہ و مذہب کی چمکتی ہوئی قبائیں زیب جسم کیے بھیڑیے اپنے جبڑوں سے ٹپکتا ہوا لہو چاٹ رہے ہیں، اورپھر نئی نئی اقداریں سیاہ جونکوں کی طرح تیسری دنیا کے تندو مند جسموں سے لپٹی چپکے چپکے توانا عزائم کا خون پی رہی ہیں۔ جو تخلیق کار اس بھیانک پیش منظر کی طرف سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں، کیا وہ اس سے بھی زیادہ بھیانک جرم کے مرتکب نہیں ہوتے؟‘‘

                ’’تیسری دنیا کے لوگ‘‘ افسانوں کا ایک مجموعہ ہے جس میں ابن کنول صاحب کے مختلف سماجی عنوانات کے افسانوں کی شمولیت ہے اور یہ تمام افسانے معاشرہ میں رائج مختلف برائیوں، بزدلانہ حرکات اور معاشرے میں صرف اپنے لیے زندہ رہنے والوں کے لیے کئی سبق آمیزقصوں ، سے شعور جگانے کی کوشش کی ہے۔

  1. ’’ہندوستانی تہذیب‘‘:  نیا سفر پبلیکیشن، دہلی سے  1988 ؁ء میں شائع ہوئی: یہ فارسی کتب بوستان خیال کا اردو ترجمہ اور اس کی نظر ثانی پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کے بارے میں تجزیہ کرتے ہوے ابن کنول صاحب لکھتے ہیں کہ’’ صنعتی زندگی کی تیز رفتاری نے ہمیں ایک طرف آسان بے شمار آسائشیں فراہم کی ہیں وہیںہماری سالوں ، دنوں اور لمحوں کی آزادی چھین لی ہے، انہیں وجوہات کی بنیاد پر کچھ فن ناپید ہوتے جا رہے ہیں، جیسے داستان کا فن ۔ داستانیںافسانوی ادب کا ایک قیمتی سرمایا ہیں‘‘

                اردو ادب میں جو داستانیںاپنی طوالت کے اعتبار سے یاد کی جاتی ہیں ان میںمیر تقی خیال کی ’’بوستان خیال‘‘ایک اہم داستان ہے۔ ابن کنول صاحب میر تقی خیال کی ’’بوستان خیال‘‘ کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوے کہتے ہیں کہ ’’بوستان خیال‘‘ صرف ایک داستان نہیں بلکہ اپنے عہد کی تہذیبی اقداروں کی آئینہ داری کارتی ہے۔ راقم نے ماضی کی ان تمام تہذیبی اقداروں کو بوستان خیال  کے تناظر میں ترتیب دینے کی کوشش کی ہے اور اس عہد کے معاشرتی حالات اور ماحول کو پیش نظر رکھا ہے جس میں داستان لکھی جا رہی تھی۔ جگہ جگہ مثالیں دے کر اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ داستان میں موجود تہذیب ہندوستان کے عہد وسطیٰ خاص کر مغل عہد کی عکا سی کرتی ہے۔ــ‘‘

                 ’’ہندوستانی تہذیب‘‘ تصنیف کے موضوعات کو  دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلے حصہ میں داستان کی تحقیق ، تنقید اور تاریخی ورثہ کو پیش کیا گیا ہے۔ جس میں داستان نگاری کے تاریخ اور فنی مہارتوں کا احاطہ کیا گیا ہے اوراس وقت کے سیاسی حالات کی وضاحت بھی کی گئی ہے ساتھ ہی  بوستان خیال کے مصنف محمد تقی خیال سے تعلق رکھتے ہوے تحقیقی نکات کو بھی پیش کیا گیا ہے۔ دوسرا حصہ مغلیہ حکومت کی تہذیبی اقداروں  پر مشتمل ہے۔ جس میں بادشاہ ’’شکوہ سلطنت‘‘ اور اسکی حکومت کے انتظامیہ، شاہی رہن سہن، لباس، شاہی حرم تک کا تفصیل سے جائزہ پیش کیا گیا ہے، ساتھ ہی ساتھ اس دور کے معاشرتی حالات، اقداروں،اخلاقیات، مہمان نوازی غرض یہ کہ معاشرے کے تمام حالات پر تنقیدی تبصرہ کر موجودہ دور کے لیے سبق آمیز حکایات پیش کی گئی ہیں جو آج کے دور میں بھی اسی طرح کار آمد ہیں جس طرح اس دور میں تھی۔

  1. ’’داستان سے ناول تک‘‘  ایس این لینگوئج اکیڈمی دہلی سے شائع کتاب سن 2003 ؁ء میںمنظر عام پر آئی:  اس  کتاب میں ابن کنول صاحب نے داستان نگاری سے اپنے لگائو اور قربت کو بیان کرتے ہوے مختلف قصوں کو پیش کیا ہے جو مختلف حالات میں تحریر کیے گئے۔ ’’داستان سے ناول تک ‘‘ تصنیف میں داستان کے فن کے ساتھ ساتھ اردو کے تمام مختلف مشہور داستانوں کے عنوانات کی شمولیت ہے جس میں  باغ و بہار، فسانہ عجائب ، نو طرز مرصع وغیرہ پر تفصیلی مضامین کی شمولیت ہے۔ اس تصنیف میں داستان کی تحقیق بھی ہے اور تنقید بھی اور داستان کے فن کا مظاہرہ بھی۔ ان تمام کے مطالعہ سے اردو ادب اور اردو زبان کے ارتقا کا علم ہوتا ہے، اردو ادب میںنئے الفاظوںکی طرز اور ان کے استعمال کا بھی علم ہوتا ہے، اپنی تہذیبی، تاریخی ورثہ کے مطالعہ کا علم بھی اس سے حاصل کر سکتے ہیں اور ہم معاشرے کے حالات اور جدید اقداروں کی نشاندہی بھی کر سکتے ہیں۔
  2. ’’بحر تجلیات‘‘ کتابی دنیا  دہلی سے سن 2021 ؁ء میں شائع ہوئی : اس کتاب میں ابن کنول صاحب نے اپنے والد قاضی شمس الحسن کنول ڈوائیوی کے سفر حج کی ڈائری کو داستان کی شکل میں پیش کیا ہے۔’’بحر تجلیات‘‘  ابن کنول صاحب کے والد محترم شمس الحسن کنول ڈبائیوی کے سفر حج  (1988)؁ء کی مکمل داستان ہے جو ابن کنوال صاحب نے بڑی خوبصورتی سے داستان کی شکل میں تحریر کی ہے۔ اس سفر حج کی تمام یادیںابن کنول صاحب نے اپنے والد محترم کی ڈائری کی جانب سے ایک ایک وقت ایک ایک جگہ اور ایک ایک لمحہ کی روئے دادکو اور حج کے فرائض اور بحری جہاز کی تین ماہ کی بحری سفرکے ساتھ ساتھ مدینہ اور مکہ معظمہ کی زیارت کے اوقاف اور دیگر روز مرہ کے حالات زندگی کوبے حد خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں’’کہ مدینہ منورہ چونکہ رحمتوں کا شہر ہے اس لیے یہاں کے لوگ زیادہ نرم مزاج ہوتے ہیں جبکہ مکہ معظمہ جلال عظمت کا شہر ہے تو یہاں کے لوگ سخت قانون کی پابندی کرتے ہیں‘‘  اس سفر حج کی داستان کی یادیں کنول صاحب بحری جہاز سے سفر حج کی اپلیکیشن اوراس کی منظوری کے قصہ کے ساتھ شروع کرتے ہوے، تمام سفر حج کی کھٹی میٹھی اور معاشرہ میں موجود ناقص یا ’’حج کم تجارتی نظریعہ‘‘ کی بھی تفصیل سے وضاحت پیش کرتے ہیں ۔ یہ سفرنامہ حج انکی ایک یاد گار تصنیف ہے جس کا جتنی بار بھی مطالعہ کیا جائے ہر بارقاری اس کے علمی فن سے محظوظ ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی ابن کنول صاحب نے اپنے  خود کے سفر کے مجموعہ کو  ’’چار کھونٹ‘‘ کے نام سے 2022؁ء شائع کیا  جس میں مختلف ملک اور بیرونی ملک کے سفر کو اپنے تحریری نظریہ سے پیش کیا ہے۔
  3. ’’تنقیدی اظہار‘‘ کتابی دنیادہلی سے سن 2015؁ء میں شائع ہوئی: ابن کنول صاحب نے اس کتاب میں اردو ادب کی مختلف اصناف پر تنقید کے ساتھ ساتھ تحقیق اور مختلف عنوانات کی اہمیت وافادیت پر بحث کی ہے، جس میں داستان ، داستان میں کردار سازی، داستان کی ترقی اور انکے ترقی پسند ناقدین پر تبصرہ کیا ہے اس کے ساتھ ہی اصناف نثر کی قدر و قیمت، اردو مرثیہ نگاری کے رجز و رزم اور مرزا انیس کے مرثیو ں میں ہندوستانی معاشرت، شمالی ہند کی مثنویوں میں ہندوستانی معاشرت، حالی کی نثری تصانیف، علامہ اقبال کی قصہ گوئی،بچوں کا ادب، فراق کی تنقید،تحریک آزادی اور اردو کے ساتھ ساتھ اردو ادب اور ہندوستان و پاکستان کے رشتے،ناول نگاری  وغیرہ تمام عنوانات کو اس کتاب مین پیش کرنے اور اس پر مثالی تجربات کرنے کے ساتھ ساتھ ہندوستانی معاشرت و تہذیب کے اور اردو کی اہمیت اور اس کی مختلف اصناف کی ترقی کی طرف مائل کرنے کی کوشش کا ایک نتیجہ تسلیم کیا جا سکتا ہے۔

                ابن کنول صاحب ’’بچوں کا ادب اور اردو‘‘ عنوان میں لکھتے ہیں کہ’’پنڈت جواہرلال نہرو نے لکھا تھا کہ بچے باغیچہ کی کلی کی طرح ہیں ، ان کو احتیاط اور پیار کے ساتھ پالنا چاہیے، کیوں کہ وہ قوم کا مستقبل اور کل کے عوام ہیں۔‘‘ یہ آواز صرف جواہر لال نہرو کی ہی نہیں بلکہ ہر اس با شعور شخص کی ہونی چاہیے جو ملک و ملت کی ترقی اورخوبصورتی کے ساتھ ساتھ ہندوستانی تہذیب اور ہندوستانی معاشرہ کی فلاح کی طرف مائل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ابن کنول آگے لکھتے ہیں کہ ’’ بچے کسی بھی ملک اور تہذیب کی بنیاد ہوتے ہیں، ملک کے مستقبل اور اور تہذیب کے تحفظ کا انحصار بچوں کی تربیت اور پر ورش پر ہے، ہمیں بچوں کو مشرقی تہذیب و اقداروں سے بھی روشناس کروانا ہوگا، جس سے ملک و ملت اور قوم کی فلاح ہو سکے‘‘

  1. ’’انتخاب سخن‘‘ کتابی دنیا سے سن 2005  ؁ء شائع شدہ ااردو شاعری پر ایک نظریاتی تحقیق و تنقید کے ساتھ پرانے کلام پر ایک نظرثانی بھی ہے۔ ابن کنوول صاحب لکھتے ہیں کہ انکی ایک خواہش تھی کہ اردو شاعری کے تما عہد کو قلم بند کیا جائے، اس کام کو مکمل کرنے کے لیے ’’انتخاب سخن‘‘ نام سے اردو شاعری پر نظر ثانی کرتے ہوے  طلبا کے لیے ایک عظیم کتاب کو منظر عام پر رکھا۔ جس میں اردو شاعری کے عام طور پر تما م شعرا کے کلام کو شامل کیا گیا ہے۔ ’’انتخاب سخن‘‘ میں کنول صاحب نے نمائندہ شعرا کی غزلیات، قصائد،مثنویات، مراثی اور منظومات کو شامل کیا ہے۔ ’انتخاب سخن‘‘ تصنیف کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصہ میں حضرت امیر خسرو سے لے کر ناصر کاظمی تک کی منتخب غزلیں شامل ہیں۔ دوسرے حصہ ’’ اصناف پارینہ‘‘  اردو کی قدیم اصناف یعنی مثنوی،قصیدہ، مرثیہ پر مشتمل ہے۔ تیسرے حصہ میں نظیر اکبر آبادی سے لے کر قتیل شفائی تک کی منتخب نظموں کا احاطہ کیا گیا ہے۔  انتخاب سخن منظوم کلام کے جملہ49 مختلف اصناف کا مجموعہ ہے جو کہ اردو شاعری کے مختلف ادوار کی سنہری یادوں کو تازہ کرتا ہے۔

                ابن کنول کی تصانیف صرف کسی ایک عنوان یا کسی ایک اردو کی صنف تک ہی محدود نہیں ہیں، بلکہ ابن کنول صاحب نے  اردو کی تمام اصناف سخن چاہے وہ نثر ہو یا نظم تمام پر بڑے ہی اثر انداز طریقہ سے گفتگو کی ہے۔ پروفیسر ابن کنول باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ اردو ادب میں ان کے دوستوں ، شاگردوں اور ہمنوائوں کی بڑی تعداد موجود ہے جن سے وہ بے پناہ محبت کرتے تھے اور سبھی کے دلوں میں پروفیسر صاحب کی بڑی قدر تھی۔ پروفیسر ابن کنول صاحب گفتگو میں حد درجہ مزاح کا عنصر تھا وہ ہر گفتگو میں سوالوں کے جواب بڑی بے ساختگی سے دیتے تھے۔ ان کا سب کے ساتھ خلوص کا رشتہ تھا، سبھی کی خیریت دریافت کرتے اور طلبہ کے مسائل حل کرنے میں ایک خاص دلچسپی رکھتے تھے۔

                پرو فیسر ابن کنول صاحب اس دنیا ئے فانی کو 11 فروری 2023؁ء الوداع کہ گئے۔ پرو فیسر ابن کنول صاحب علی گڑہ مسلم یونیورسٹی سے بہت پیار کرتے تھے ۔ شاید اسی وجہ سے ان کی آخری سانس کا گھونٹ بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے احاطہ میں ہی رہا اور انکی آخری رسومات بھی علی گڑھ میں ہی مکمل ہویں۔ پروفیسر صاحب کا انتقال ان کے وطن علی گڑھ میں ہوا ۔ وہ اپنی درسگاہ علی گڑہ مسلم یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کا وائیوا لینے گئے تھے اور اس وائیوا کے گھنٹہ دو گھنٹہ کے اندر ہی ان کی روح اس دنیا ئے فانی کو خیر باد کہ گئی۔دوسرے دن وہ علی گڑھ کے قبرستان میں ہی سپرد خاک کئے گئے اور ایسا محسوس ہوا کہ ابن کنول صاحب اپنے مخصوص انداز میں  اپنے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تمام احباب کا شکریہ ادا کر رہے ہوں کہ ان کا آغاز بھی علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے ہوا اور آخری رسومات بھی کنول صاحب کے ادبی گہوارہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ہی میں مکمل ہویں۔پروفیسر ابن کنول صاحب کا گزر جانا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ ایسے دور میں جب کہ اساتذہ کے یہاں اخلاقی پستی اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے۔ ادب و تہذیب کی جگہ دنیا داری اور با زار ی مزاج اپنے عروج پر ہے، ابن کنول صاحب کی خالی جگہ کو پر کرنا ایک مشکل کام ہے۔ وہ ہمیشہ یاد آتے رہیں گے چونکہ انھوںنے اساتذہ اور طلبہ کو محبت کرنے کا ایک سلیقہ سکھایا اور علم و ادب سے رشتہ قائم کرنے پر زور دیا ۔ادبی دنیا میں اب ایسے اساتذہ کم ہی ہیں اس لیے پروفیسر ابن کنول کا اس دنیا کو خیرباد کہ دینا اردو ادبی دنیا کے لیے ایک بڑا صدمہ اور سانحہ ہے۔

References

  1. 1. https://prabook.com/web/ibne.kanwal/227398

2.https://www.rekhta.org/ebooks/intikhab-e-sukhan-urdu-shairi-ka-naya-intikhab-ebooks

  1. 3. Shahzad, A. (2023) “maut uski hai kre jiska zmana afsos” Inqalab, Delhi edition, 12th Feb-2023.
  2. 4. https://epaper.inquilab.com/ePaperImg/
  3. 5. Ahmad, U.(2014) “Ibne kanwal ba haisiat afsana nigar” ISBN. 81-89506-15-3, H.S offset Printers, Dehli-2014

Mohd. Talib Ather Ansari

Maulana Azad National Urdu University

College of Teacher Education

Bidar -Karnataka

 E-mail: talib@manuu.edu.in, talibmanuu@rediffmail.com

8171861845

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.