مخلص استاد پروفیسر ابن کنول             

مخلص استاد پروفیسر ابن کنول

ڈاکٹر سدھارتھ سدیپ

اسسٹنٹ پروفیسر

 شعبۂ اردو، خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی، لکھنؤ

ہندوستانی تہذیب میں استاد کی اہمیت و حیثیت  مسلم ہے ،   استاد کو باپ کا درجہ دیا گیا ہے، یہاں تک کہا جاتا ہے کہ باپ تین طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو پیدائش کا سبب بنتا ہے، دوسرے وہ جو اپنی اولاد کو  کسی کی زوجیت میں دیتا ہے یعنی سسر اور تیسرا وہ جو طلبہ کی تربیت کرکے کسی لائق بناتا ہے یعنی استاد  ۔ استاد ہی وہ شخصیت ہے جو نہ صرف  انسانیت بلکہ دنیاوی علوم بھی عطا  کرتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ استاد کی تربیت سے ہی کسی ملک ومذہب اور بہتر سماج کی تشکیل ہوتی  ہے۔ جس سماج میں استاد کا احترام   ہوتا ہے اس   کی ترقی ہونے سے کوئی روک نہیں سکتا ہے اور  جو سماج استاد کا احترام  چھوڑ دیتا ہے، اس کا زوال بھی  کوئی  نہیں روک سکتا ہے، مگر یہ ضروری ہے کہ استاد ،استاد کہلانے کا حقدار ہو۔ غور کرنے والی بات یہ کہ ہندوستان میں دونوں طرح کے استاد موجود  ہیں۔ کچھ لوگ استاد تو بن جاتے ہیں لیکن استاد وں  جیسا کردار نہیں رکھتے اور کئی طرح کی تفریق   کے قائل ہوتے ہیں۔ مجھے اپنی زندگی میں بھی   دونوں طرح کے اساتذہ سے سابقہ پڑا ہے،  لیکن افسوس کہ ایسے استاد کم ہی نظر آئے جو صحیح معنوں میں استاد کہلانے کے لائق رہے ہوں۔  پر جو اچھے تھے   ان کی رہنمائی ہی کی بدولت آج یہ سب بیان کر پا رہا ہوں۔ اس لیے ان سب لائق و فائق اساتذہ کا شکریہ  تو بنتا ہے ۔ جن اساتذہ سے میں نے کچھ سیکھا ہے ان میں ایک اہم نام پروفیسر ابن کنول کا بھی ہے، جو استادیت کی کئی خوبیوں سے لبریز تھے۔

دہلی یونیورسٹی میں ایم فل کے لئےمیرا داخلہ جولائی 2011 میں ہوا تھا تب سے  ستمبر 2020 تک میں شعبہ سے منسلک رہا۔ اس  درمیان کئی اچھے برے لمحات سے دو چار ہونا پڑا۔ جب میں نے  شعبۂ اردو  میں  داخلہ لیا  تھا تو اس  وقت پروفیسر ابن کنول ایک سینئر استاد کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہے تھے،  پی۔ایچ۔ ڈی کے لئے تحقیقی مقالہ مکمل کرنے کے بعد شعبۂ اردو سے میں بھی 2019 میں درس و  تدریس سے وابستہ ہوا ۔  دہلی میں قیام کے دوران پروفیسر ابن کنول سے جب بھی ملاقات ہوتی بڑے خوش دلی سے ملتے اور مسکراتے ہوئے حال چال دریافت کرتے۔ چلتے پھرتے جب کبھی ملاقات ہو جاتی، آداب و تسلیم کرنے پر فورا ًرک کر جواب دیتے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ وہ تمام طالب علموں سے ایسے ہی پیش آتے تھے۔ ان سے ملاقات کرنا راحت  بھرا پل  ہوتا تھا ۔ ان سے مل کر اپنے پن کا احساس ہوتا تھا۔ اس لیے ان کے لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا  کہ “پروفیسر ابن کنول طالب علموں کے لیے کنول جیسے تھے جو ہمیشہ سکون بھرا ا حساس دے جاتے تھے۔” ہندوستان میں ایسے  استادوں کی ایک لمبی فہرست ہے جو تعصب،  ذات ،مذہب اورسماج کے لئے ہزاروں  تیر لئے پھرتے ہیں۔جن سے مل کر ایک طالب علم  کچھ سیکھنے کے بجائے خوف زدہ رہنے لگتا ہے۔ پروفیسر ابن کنول ان اساتذہ کی فہرست میں شامل نہیں تھے جن سے کوئی طالب علم دور بھاگتا ہو ۔بلکہ” ان کی پوری شخصیت ہی کنول کی طرح کومل تھی” جو نہ صرف طالب علموں کو اپنی طرف مائل کرتی تھی بلکہ ان کی شخصیت ہم جیسوں کے لیے مشعل راہ ہے اور جو ادبی  تربیت میں ذوق کا کام کرتی ہے۔ایسے اساتذہ ہمیشہ اپنے طالب علموں کے درمیان  زندہ و جاوید رہتے ہیں۔

مارچ 2021 میں “داستان کی جمالیات” پر خطبہ دینے کے لئے شعبۂ اردو ، خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی میں آپ کی تشریف آوری ہوئی۔  مجھے شعبۂ اردو  میں دیکھ کر پروفیسر ابن کنول صاحب بہت خوش ہوئے نیز میری محنت اور ایمانداری کی تعریف کرکے ایک بار پھر میرا حوصلہ بڑھایا۔

پروگرام کے اختتام پر شعبۂ اردو کے طلبہ پروفیسر ابن کنول کے ساتھ بطور یادگار چند تصاویر لینا چاہتے تھے مگر جھجھک اور لحاظ کی وجہ سے ان سے کہہ نہیں پا رہے تھے۔ طلبہ نے مجھ سے کہا کہ ہم لوگ سر کے ساتھ کچھ تصویریں  لینا چاہتے ہیں لیکن کہنے کی جسارت  نہیں کر پا رہے ہیں۔ پروفیسر ابن کنول یونیورسٹی کے اساتذہ کے درمیان گھرے ہوئے تھے اور ان سے باتیں کر رہے تھے۔   ابن کنول صاحب نے مجھے اپنی طرف آتے دیکھ کے میری جانب قدم بڑھا دیا،  میں نے  موقع کی نزاکت دیکھ کر فوراً ہی عرض کیا کہ سر یہ ہمارے طلبہ ہیں اور آپ کے ساتھ تصویر لینا چاہتے ہیں۔ تو وہ بڑے شوق سے مسکراتے ہوئے بچّوں سے مخاطب ہوئے اور ان سے باتیں کرنے لگے۔ بچّوں نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ سدھارتھ سر ہم لوگوں  کے استاد ہیں تو  پھر انہوں نے بڑے تپاک سے  کہا  تب تومیں آپ لوگوں کا دادا استاد ہوں اور پھر دوستانہ لہجے میں بچوں سے بہت ساری باتیں کیں اورکچھ مفید مشوروں کے ساتھ ڈھیر ساری دعائیں بھی دیں۔شعبے کے طلبہ  جو تھوڑی دیر پہلےجھجھک محسوس کر رہے تھے اب  ان سے بے تکلف ہو کر بالکل گھل مل گئے تھے۔ بچّوں کے ساتھ خوب ساری تصویریں کھنچوانے کے بعد دوبارہ ملنے کا وعدہ کرکے ہم سب سے رخصت ہوئے۔ کون جانتا تھا کہ سر کی یہ رخصتی   آخری رخصتی ثابت ہوگی۔

٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.