ابن کنول کا سفر نامہ چار کھونٹ

ابن کنول کا سفر نامہ چار کھونٹ

آفاق حیدر

گیسٹ لیکچرر سریندر ناتھ کالج فار ویمن کولکاتا

                سفر نامہ سفر کے حقائق ہر مبنی  انفرادی  تجربے کا نام ہے۔ایک طرح سے سفر ناموں میں خودکلامی ہوتی ہے۔انگریزی میں اسے travelogue کہتے ہیں جو گریک لفظ مونو یعنی واحد اور لوگ یعنی speech ہے۔سفرنامہ میں راقم الحروف جو سفر کرتا ہے اور پھر اس سفر کو حقائق کے ساتھ بیان کرتا ہے۔لیکن سفرنامہ میں راقم الحروف کے اندر چل رہے جذبات و احساسات کو اس سے الگ نہیں کیا جا سکتا ہے۔

                اردو ادب میں سفر ناموں کے ابتدائی نقوش ہمیں 1847 میں یوسف کمبل پوش کے عجائبات فرنگ میں ملتے ہیں۔ سرسید احمد خان نے 1870 میں مسافران لندن لکھا اس کے بعد مولانا محمد حسین آزاد نے سیرایران اور شبلی نعمانی نے سفر نامہ مصر روم و شام لکھا۔20 ویں صدی میں بھی بڑے پیمانے پر سفرنامے لکھے گئے اور اکیسویں صدی میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔سفرنامہ میں مسافر جو سفر کرتا ہے اس کو من وعن بیان کرتا ہے۔مسافر جب داستان سفر بیان کرتا ہے تو اپنے آنکھوں سے دیکھے ہوئے مناظر کو دوسرے کے سامنے دہراتا ہے یا خیالی طور دوسروں کو اسی سفر پر اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔  لیکن کچھ ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو سفر تو کرتے ہیں پر اس کے بعد چپ سادھ لیتے ہیں نہ اس کے متعلق کچھ بولتے ہیں اور نہ لکھتے ہی۔لیکن وہ لوگ  قابل ستائش ہیں جو سفر کرتے ہیں اور اس کو قلم بند کرکے دوسرے لوگوں پر احسان کرتے ہیں اور اس سفر کا حصہ بناتے ہیں۔ایسے مسافر کسی بھی معاشرے زبان و تہذیب کے ارتقاء میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔بعض اوقات سفرنامے تحقیقی کاموں میں بہت اہم ثابت ہوئے ہیں۔

                  اگر واسکو ڈی گاما نے دنیا کا سفر نہیں کیا ہوتا تو آج تاریخ کچھ اور ہوتی اور نہ ہی وہ پوری دنیا میں اتنا مقبول ہوتا آج ہمیں ان سفرناموں کے ذریعے ہی پتا چلتا ہے کہ جب ہیونگ سانگ ہندوستان آیا تھا تو اس وقت کا ہندوستان کیسا تھا یہاں کے لوگ کس طرح کی زندگی گزارتے تھے معاشرہ کیسا تھا۔آج البیرونی کے سفر نامے سے ہم معلوم کر سکتے ہیں کہ اس وقت کا ہندوستان کیسا تھا۔اسی لئے کبھی کبھی سفرنامے تاریخ نویسی سے بھی زیادہ اہم ثابت ہوئے ہیں۔ ان سفر ناموں کی  بدولت ایک قاری ہزاروں کیلو میٹر دور کسی ملک کے حالات ،وہاں کی طرز زندگی اور تفریحی مقامات سے گھر بیٹھے ہی محظوظ ہو سکتا ہے اور وہاں کی طرز زندگی سے اچھی طرح واقف ہو سکتا ہے۔اکیسویں صدی میں بھی سفرنامہ لکھنے کا سفر جاری ہے اور کئی لوگ دلچسپ سفرنامے لکھ رہے ہیں ان میں ایک نام پروفیسر اب کنول کا بھی ہے ان کے بیروں ممالک اسفار پر مبنی ان کی کتاب “چار کھونٹ” میں شامل ہے۔کتاب کے نام سے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ اس میں چار سمت کی باتیں کی گئی ہے یعنی پوری دنیا کا ذکر ہے اور پوری دنیا کا ذکر اذکار اسی وقت کر سکتے ہیں جب آپ دنیا کا سفر کرتے ہیں۔چار کھونٹ پروفیسر ابن کنول کے ان سفر ناموں پر مشتمل ہے حو انہوں نے سفر حج کے علاوہ ادبی اجتماعات میں شرکت کرنے اور اپنے اہل خانہ کو مختلف ملکوں کے کی سیر و تفریح کرانے کے سلسلے میں کئے ہیں۔انہوں نے ان سفرناموں کو تحریر کرکے نہ صرف قارئیں کو ہم سفر بنایا ہے  اور ان کی معلومات میں اضافہ کیا ہے بلکہ اپنی شخصیت کے مختلف گوشے اس طرح سے واضح کر دیئے ہیں کہ سامنے نظر آنے والا ابن کنول آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا ہے اور بلکل ہی مختلف شخص سے ہماری ملاقات ہوتی ہے اوربقول زماں آزردہ “جب ہم ابن کنول کے سفر ناموں کا،مطالعہ کرتے ہیں تو ایک قد آور ،دور دور تک اپنا،سایہ پھیلانے والا ایک محیر العقل ذی روح کا سامنا ہوتا ہے۔یوں تو اس سے قبل بہت سے لوگوں نے امریکہ برطانیہ فرانس روس تاشقند افغانستان اور پاکستان اور مراقش وغیرہ کے سفر نامے لکھے ہیں لیکن کسی نے جمشیدپور ،شیلانگ،ممبء۔کلکتہ ،انڈمان ،کرناٹک تیلنگانہ یا کشمیر جیسی جگہوں کو اپنے سفرناموں کے ذریعے ہر ایک کی یاداشت کا حصہ نہیں بنایا ہے۔”

(زماں آزردہ چارکھونٹ  دیباچہ ،ص 10)

                پروفیسر ابن کنول کی زبانی ان کی پوری زندگی بھی بجائے خود ایک سفر نامہ رہی ہے۔ڈبائی آبائی وطن ہے تعلیم علی گڑھ میں پائی اور روزگار دہلی میں۔گزشتہ کئی برسوں میں ابن کنول نے تحقیق اور تنقید کی دنیا کے  ساتھ ساتھ اپنے ذہن کے مختلف دریچے کھولنے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں۔جہاں سے ہم ان کی شخصیت کی کئی اور وصف کا نظارہ کر سکتے ہیں۔انہوں نے خاکہ اور انشائیے تخلیق کرکے اپنے ذہن رسا کے ایک اور دریچے کو قارئین کے لئے وا کر دیا تھا اور اب سفر نامے نے ان کا ایسا پوشیدہ وصف سامنے لایا ہے جس میں ہم ایک منفرد ابن کنول کو دیکھتے ہیں۔جس میں ان کی وسیع النظری صاف جھلکتی ہے۔جس میں وہ چھوٹی سی چھوٹی چیزوں اور عام سے باتوں کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ ہم حیران رہ جاتے ہیں۔سفرنامے کے اسلوب اور انداز بیاں ایسا ہے کہ انکو پڑھتے وقت ایسا لگتا ہے کہ ہم ان کے ہم راہ سفر پر ساتھ ساتھ چل رہے ہوں اور الفاظ و واقعات اور مناظر صف بستہ کھڑے ہیں اور ہم سے خود بخود مخاطب ہو رہے ہیں۔

                چار کھونٹ کے سفرنامے کی نثر میں تخلیقیت اور روانی ہے وہ ان کی افسانہ نگاری کی دین ہے دوسری جانب ان کے خاکوں اور انشائیوں میں موجود ان کی حس مزاح ان کے سفرناموں بھی جا بجا نظر آتا ہے جس نے سفر نامے کو مزید دلچسپ بنا دیا ہے جس کے سبب دوران مطالعہ قاری وقفے وقفے پر طنز و مزاح کی آمیزش سے محظوظ ہوتا ہے۔

                چار کھونٹ میں ابن کنول دنیا کی جو سیر کی ہے ان اسفار کو قلمبند کرکے ایک کتاب میں یکجا کر دیا ہے۔اس میں پہلا سفر حج بیت اللہ کا ہے اس کے علاوہ آٹھ بیرو ممالک کے سفر کا حال ہے اور آخری باب میں ہندوستان کے مختلف علاقوں کے سفر کا حال ہے۔چار کھونٹ میں انہوں نے سعودی عرب ،امریکہ ،ماریشس ،پاکستان ،متحدہ عرب امارت ،ماسکو اور ازبکستان کے اسفار کے حالات لکھے ہیں۔پاکستان کا دوبار سفر کیا ہے ایک بار فیصل آباد اور دوسری بار تاریخی شہر پشاور کا سفرنامہ ہے۔

                پروفیسر ابن کنول کے سفرنامے کا آغاز حج بیت اللہ سے ہوتا ہے۔یہ ان کا پہلا بیرون ملک سفر ہے۔اس سفرنامے میں انہوں نے حج کے روانگی کے روح پرور منظر اور مکہ مدینہ کے سفر کا حال اس خوبی سے بیاں کیا ہے کہ قاری سارے مناظر کو اپنے آنکھوں کے سامنے صاف صاف دیکھ  سکتا ہے۔سفر کا حال بیان کرتے ہوئے قاری کو بھی فرحت بخش تجسس اور حیرانگی کی کیفیت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔جب پہلی بار مکہ شہر اور خانہ کعبہ کے دیدار کامنظر پیش کرتے ہیں تو قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ ابن کنول کا ہاتھ تھامے ہوئے وہ بھی مسجد الحرام می داخل ہو چکا ہے۔وہ کئی بار سنجیدگی کے ماحول میں بھی اپنے حس مزاح سے قاری کو مسکرانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔جب وہ سفا مروا کی پہاڑیوں پر سر منڈوانے کا ذکر کرتے ہیں۔۔

                ’’سعی کے بعد فارغ البالی یعنی بال کٹوانے تھے۔ویسے تو ہماری فارغ البالی کی ابتدا قدرتی طور پر ہوچکی تھی۔لیکن ابھی کچھ بہار باقی تھی،خواتین کو مروہ کے پاس چھوڑا۔میں قاضی کریم کے ساتھ سر منڈوانے کے لئے چلا آیا۔باہر مونڈنے والوں کی  دکانوں کی قطار تھی۔سر مونڈنے کے ہر نائی دس ریال لے رہا تھا۔زیادہ تر ہندوستانی اور پاکستانی تھے۔ویسے بھی برصغیر کے لوگ سر مونڈنے میں کافی مہارت رکھتے ہیں۔سہارنپور کے ایک نائی نے ہمارے سر کو بے بال و پر کردیا۔دوران استرا  درازی ہم نے حب الوطنی کا واسط دے کر کچھ رعایت کی کوشش کی لیکن اس استرے نے ہماری امیدوں کو قطع کرکے ہماری زبان درازی کو بے اثر کر دیا۔اس نے ایک چائے کی قیمت کے برابر یعنی ایک ریال کی بھی رعایت نہیں کی جب ہم اپنے منڈے ہوئے سر کو لیکر اپنی بگیمات کے پاس گئے تو انہوں نے پہچاننے سے انکار کر دیا۔شناختی کارڈ دکھا کر یقین دلایا کہ جسے آپ گنتے تھے آشنا ،جسے آپ کہتے تھے باوفامیں وہی ہوں مومن مبتلا،تمہیں یا یوکہ نہ یاد ہو”(چار کھونٹ،ابن کنول ص31)

                ابن کنول حج بیت اللہ کے سفر کے دوران جہاں ایک طرف عربوں کی ترقی پر عش عش کرتے ہیں تو وہیں دوسری جانب اسلام کے تئیں ان کی بددیانتی اور ان کے بدلتے ہوئے ترجیحات پر طنز کے نشتر سے وار کرنا نہیں بھولتے ہیں اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔

                ’’مسجد نبوی اور مسجد الحرام کے اطراف متعدد پانچ ستارہ ہوٹل ہیں ،جن کے نام انگریزوں کے نام پر ہے،یعنی ان مقدس شہروں میں جہاں غیر مسلموں کا آنا ممنوع ہے،غیر مسلموں کی ہوٹلوں کی شاخیں اصل ناموں کے ساتھ موجود ہیں،یعنی گڑ کھائیں ،گلگلوں سے پرہیز۔پہلے مسلمان اپنی ذہانت اور قوت سے دنیا میں بلند مقام حاصل کرتے تھے اور اب تیل کی دولت حاصل کرکے بلند عمارتیں تعمیر کرتے ہیں۔عیش گاہیں بناتے ہیں ،اپنی حفاظت کے لئے غیر مسلموں کی مدد مانگتے ہیں۔حج کے موقع پر لاکھوں مختلف رنگ و نسل کے مسلمانوں کو دیکھ کت طاقت کا احساس ہوتا ہے ،لیکن صرف کچھ وقت کے لئے‘‘(  چار کھونٹ ،ابن کنول ص 49)

                سعودی عرب کے سفر کے دوران عربوں کی اسلامی اقدار کے تئیں بے حسی اور قدیم شہروں کے نشانیوں کے زائل ہونے اور عربوں کی غیر سنجیدگی پر کف افسوس ملتے ہوئے نظر آتے ہیں۔عرب میں سب کچھ بدل چکا ہے وہاں کا معاشرہ وہاں کی زندگی اگر کچھ نہیں بدلا ہے تو ان کا لباس جو اسلامی نہیں بلکہ عربی لباس ہے جو زمانہ جاہلیت میں بھی یہی لباس پہنا کرتے تھے۔

                سعودی عرب سے واپسی کے ماہ کے بعد ہی امریکہ سفر کا انہوںاپنے اس سفرنامے میں ذکر کیا ہے۔ حج بیت اللہ کے سفر سے واپسی پر اردو انسٹی ٹیوٹ کیلیفورنیا کے ایک کانفرنس میں شرکت کے لئے دعوت نامہ ملا اور اس مقصد سے امریکہ جانا ہوا۔جہاں ان کے ایک ساگرد لارڈ کارڈوزا  تھے جو 1993 میں اردو زبان سیکھنے ہندوستان آئے تھے۔امریکہ کے سفر کے متعلق انہوں نے لکھا ہے کہ  امریکہ جیسے ملک میں جانا آسان نہیں ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے ویزا  حاصل کرنے کی دشواریوں کو بیان کیا ہے۔اس کے بعد امریکہ پہنچنے کے بعد کے حالات اور کس طرح سے یہاں کی طرز زندگی ہندوستان کے طرز زندگی سے کس طرح مختلف ہے اس کا تفصیل سے بیان کیا ہے۔

                جب لارڈ کارڈوزا اور ان کی اہلیہ مشل کارڈواذ ہندوستان میں اردو سیکھنے کے غرض آئے ہوئے تو اس دوران ابن کنول اور کارڈوزا کی دوستی یو جاتی ہے۔اس درمیان دونوں ملکوں کے معاشرے اور عادت و اطوار کے فرق کو واضح کرتے ہوئے واقع کا انہوں نے ذکر کیا ہے۔راڈ کارڈوذا اپنی اہلیہ کے ساتھ دہلی کے نظام الدین میں رہتے تھے۔

                ’’پہلی مرتبہ جب نظام الدین میں واقع راڈ کارڈوزا کے مکان پر گئے تو کچھ دیر بیٹھنے کے بعد کارڈوزا نے ہم سے معلوم کیا “آپ کچھ چائے یا کولڈرنک لیں گے ؟‘‘

                اپنی تہذیب کے مطابق ہم نے تکلفا انکار کیا،انہوں نے دوبارہ پوچھنے کی زحمت نہیں کی ، ہم انکار کرکے بہت پچھتائے۔معلوم ہوا کہ امریکہ میں ایک بار اگر کوئی انکار کردے تو دوبارہ اس سے نہیں پوچھتے۔پھر جب ہماری دعوت پر وہ ہمارے گھر آئے تو ہم نے انہیں یہاں کی تہذیب سمجھائی کہ پہلے مہمان ایک دو بار انکار کرتے ہیں میزبان کو کئی بار پوچھنا پڑتا ہے۔اگر پہلی بار میں مہمان ہاں کر دیتا ہے تو میزبان کو نہ صرف ناگوار گزرتا ہے بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ کھانے کے لئے ہی آئے ہیں۔راڈ کو جب یہ معلوم ہوا تو انہوں نے معذرت بھی کی۔”(چار کھونٹ،ابن کنول ص  60)

                امریکہ میں تقریباً ایک ماہ گزرے دن کے متعلق ابن کنول نے چار کھونٹ میں بہت دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے وہاں کی روزمرہ زندگی،خاندانی نظام اور مذہب سے وہاں کے لوگوں کے لگاؤ پر تفصیل باتیں کی ہے جس سے امریکی معاشرے کے کئی گوشے آشکار ہوتے ہیں  اور یہ وہم دور ہو جاتا ہے کہ جیسا ہم امریکہ کے بارے میں سوچتے اور سنتے ہیں امریکہ اس سے قدرے مختلف ہے وہاں بھی خاندانی نظام قائم مذہبی سرگرمیاں بھی ہیں اور مہمان نوازی بھی لی جاتی ہے۔

                امریکہ کے ابن کنول نے اپنی کتاب چار کھونٹ خوبصورت ملک ماریشس کے سفر کا حال بیان کیا یے۔  ماریشس کے سفر میں ان کے ساتھ ہندوستان کے اور بھی اردو کے ادیب ہمراہ ہوتے ہیں۔اس سفر کی دلچسپ پہلووں کو نیہایت ہی خوبصورت انداز میں سبن کنول نے پیش کیا ہے۔ ابن کنول ماریشس کے سفر کا حال پڑھنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کئی ہزار میل دور جزیرہ نما ملک ماریشس میں اردو زبان کی موجودگی ہے اور اس کی تاریخی پہلو سے بھی ہمیں آگاہ کرتے ہیں۔ برسوں پہلے ہندوستان سے آئے ہم وطنوں کے حال بیان کئے ہیں۔ماریشس کا سفر کا سبب بھی ادبی تھا جو انہوں نے 2003 میں کیا تھا۔

                ماریشس میں اردو زبان کی موجودگی کے حوالے سے بات کی ہے۔اس جزیرہ نما ملک میں اکثریت ان ہندوستانیوں کی ہے جنہیں انگریز مزدور بناکر لے گئے تھے اور پھر وہ وہیں کے ہو کر رہ گئے اور پھر انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد اپنے تہذیب و تمدن اور زبان کو ترقی کے لئے سعی شروع کردی۔

                ابن کنول سفر کے دوران کی دلچسپ واقعات کو اتنی خوش اسلوبی سے بیان کرتے ہیں کہ واقعات مزید دلچسپ ہو جاتے ہیں۔ماریشس کے سفر پر ان کے کئی جاننے والے بھی جا رہے تھے لہذا ہندوستان میں ادیب و شاعروں کے درمیان ایک دوسرے کے تئیں رقابت کی جو روایت ہے اس کا ذکر اس سفر کے دوران پیش آئے ایک واقع کے ذریعے اشارہ کرتے ہیں۔

                ہمیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ ہندوستان سے کون کون نامور ادیب ماریشس جائیں گے ،بس اتنا معلوم تھا کہ ہمارا جانا طے ہے۔ ہم نے بھی زیادہ ڈھنڈورا پیٹنا مناسب نہیں سمجھا ،اس لئے کہ خوش ہونے والوں کی تعداد کم ہوتی ہے۔نظر لگانے اور ٹانگ کھینچنے والے زیادہ ہو جاتے  ہیں۔کبھی کبھی تو بڑے بزرگ ادیب اپنے سے کم تر ادیب کو ایک ہی پروگرام میں دیکھ کر احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور منتظمین سے شکایت بھی کر دیتے ہیں۔

“ارے بھائی آ نے انہیں کیوں بلایا ہے۔ابھی ان کی حیثیت ہی کیا ہے۔ہمیں ان کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھنا ہوگا۔”

                سمجھدار منتظمین تو خاموش رہتے ہیں ناسمجھ بزرگوں کی بات کا احترام کرتے ہوئے نوجوان ادیبوں سے معذرت کر لیتے ہیں۔ہمارے یہاں کے بعض اداروں میں اس وقت تک کسی ادیب کو نہیں بلاتے جب تک وہ سینئر سیٹیزن نہ ہو جائے۔بزرگی سب سے بڑی سند مانی جاتی ہے۔اس کے علاوہ بعض ہم عمر بھی اپنی اپنی محرومی کے سبب برداشت نہیں کرپاتے سوچتے ہیں کہ میں نہیں تو کوئی نہیں در اصل سچ تو یہ ہے۔

دل میں نفرت کی نہاں آگ سے خطرہ ہے تمہیں

آستینوں میں پلے ناگ سے خطرہ ہے تمہیں

                                (چار کھونٹ ،ابن کنول ص 95)

                ابن کنول ہمیں ماریشس جیسے دور دراز ملک کے حسین مناظر سے لطف اندوز کراتے تو ہیں ہی ساتھ اس ملک کی تاریخ اور یہاں کے لوگوں کے بارے میں اور  ان کے  پش منظر سے بھی بہت خوبی سے ہمیں روشناس کراتے ہیںماریشس کے بارے لکھتے ہیں کہ

                “ماریشس قدرتی طور پر خوبصورت جزیرہ ہے ،لیکن اسے مزید خوبصورت بنانے میں ہندوستانی مزدوروں کا ہاتھ ہے۔برسوں انہوں نے یہاں غلامانہ زندگی گزاری ،انگریزوں کے مظالم کو برداشت کیا ،لیکن جب انہیں آزادی ہوگئی اور وہ خود اقتدار میں آ گئے تو انہوں نے اپنی قدیم ہندوستانی تہزیب اور زبانوں کا احیاء کیا،دنیا میں اپنی شناخت قائم کی۔

(ابن کنول چار کھونٹ ،ص 101)

                پھر لندن اردو اکاڈمی سے بلاوا آ گیا اور اس طرح پھر لندن کا بھی سفر ہوا۔لیکن ہر نئے سفر ہر ابن کنول حج بیت اللہ کے سفر کا ذکرنا نہیں بھولتے ہیں ایسا لگتا ہے حج بیت اللہ کے سفر نے ان کے دل پر گہرے نقوش چھوڑے تھے۔لندن کا سفر بھی ادبی تھا ان کے ساتھ ملک اور بھی کئی اردو ادب کے عالم ساتھ تھے۔اس سفر میں انہوں نے انگریزوں کے ہندوستان میں قیام اور لندن کی زندگی کو بیان کیا ہے۔لندن کے سفر کا حال بھی کچھ امریکہ جیسا ہی ہے۔وہاں کی ترقی وہاں کی جدید طرز زندگی کا حال اور لندن میں اردو زبان کے حالات اور وہاں موجود اردو کے مداح جو دیار غیر میں اردو زبان کی خدمت کر رہے ہیں ان کا حال بہت ہی خوبصورتی سے بیان کیا۔

                2003 میں لندن سے واپسی پر پاکستان کے شہر فیصل آباد کا سفر ہوا۔فیصل آباد میں ایک ادبی کانفرنس میں شرکت کی دعوت پر پاکستان جانے کا موقع ملا۔ پڑوسی ملک کا سفر کیا اور  وہاں کی زندگی و حالات جو ہمارے ملک کی طرح ہیں کا ذکر کیاہے۔یہ بھی سفر ادبی تھا وہاّ ایک عالمی سیمینار میں مقالہ پڑھنا تھا۔اس بار بھی ان کے ساتھ ہندوستان دے اعر بھی کئی ساتھی پاکستان حا رہے تھے پاکستان کے اس سفر کا بھی انہوں نے بہت دلچسپ حالات کا ذکر کیا ہے۔

                اس کے بعد پھر 2008 میں پاکستان کے شہر پشاور کا سفر کنا پڑا یہ سفر بھی ادبی تھا اد بار بھی عالمی سیمینار کا حصہ بننا تھا۔پشاور کی تاریخی حیثت سب کو پتا ہے یہاں کیمتعلق بھی لکھنے جو بہت کچھ تھا لہزا انہوں نے  پشاور شہر کے سفر کے بھی بہت دلچسپ حالات بیان کئے ہیں۔

                اس کے بعد سیر و تفریح کے غرض سے مع اہل و ایال متحدہ عرب امارت کا سفر کیا یہ سفر خالص تفریحی تھا اس سفر کے دوران انہوں نے گذشتہ  برسوں میں عرب دنیا کی صورت حال میں انقلابی تبدیلیوں اور ترقی کا ذکر بخوبی کیا ہے اور وہاں موجود ہندوستانیوں کا حال بھی بھی لکھا ہے۔

                اس کے بعد انہوں نے روس کے ماسکو سفر کا حال لکھا ہے یہ سفر بھی ادبی نوعیت کا رہا روس اور ہندوستان کے تعلقات بہت پرانے رہے ہیں۔اس سفر کے دوران اردو زبان کی روس میں ماضی اور مستقبل کا بھی حال لکھا ہے ویسے ماسکو اردو والوں کے لیے ایک زمانے میں بہت اہم ہوا کرتا تھا لیکن اس کے باوجود ابن کنول نے ماسکو شہر کااپنے آنکھول دیکھا حال بیان کیا ہے جو بہت ہی دلچسپ اور ایک بار پڑھنے لائق ہے۔۔

                چار کھونٹ میں آخری بیرو ملک کا سفر کا بیان ازبکستان کا ہے اس ملک کی تاریخ بھی بہت دلچسپ ہے۔دیومالائی کہانیوں کے حوالے سے کافی مشہور ہے اور اسلامی شناخت اور اسلامی تاریخ بھی اہم ہے۔یہ سفر بھی ادبی رہا اد سفر پر بھی انہوں نے تفصیل سے لکھا ہے اس سفر نامہ کوبد قسمتی پڑھ کر ازبکستان کے حسین وادیوں اور دیومالائی کہانیوں اور اد تاریخ سے واقفیت حاصل کر سکتا ہے۔

                آخر میں انہوں سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا کے مصداق اپنے ملک کے مختلف شہروں اور مشہور جگہوں کا احوال اور لکھا ہے۔جو عام طور پر لوگوں کے نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔اپنے ہی ملک کے کئی مقامات ہیں جن دے عام لوگ واقف نہیں ہے۔پروفیسر ابن کنول کے سفر نامہ ہمیں ایک ایسی دنیا میں لے جاتی ہے جہاں سے واپسی بہت تکلیف دہ ہے ہم انداز بیان اتنا دلچسپ ہے کہ کتاب کے آخری صفات تک پہنچتے ہی قاری کو محسوس ہونے لگتا ہے کہ یہ سلسلہ حاری رہے۔آخر میں یہی کہنا چاہوں گا کہ جو لوگ دنیا کی سیر گھر بیٹھے کرنا چاہتے ہوں چار کھونٹ کے چار چکر لگائیں۔

                آج جب ہم ن بآسانی جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے بھی موبائل فون کے ذریعے دنیا کو دیکھ سکتے ہیں لیکن پروفیسر ابن کنول کی چار کھونٹ جدید ٹیکنالوجی کے دور میں بھی اپنی طرف مائل کرتی ہے۔

ابن کنول نے اردو ادن کے کئی اصناف میں طبع آزمائی کی ہے اور اپنے نقوش ثبت کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔بعض لوگ خود نہیں بولتے ان کا کام بولتا ہے۔ادب میں آپ کا کام ہی بولتا ہے اس معاملے میں ابن کنول کے خدمات ناقابل فراموش ہیں ان کے اردو زبان و ادب کے لئے خدمات بے لوث ہیں اور ان کا یہی کام ان کو ادب میں ہمیشہ زندہ رکھے گی۔

ادب میں عہدے نہیں کام بولتا ہے میاں

وہ ایک شخص اکیلے ادارہ لگتا ہے

***

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.