قلمی چہرہ :پروفیسر ابن کنول
قلمی چہرہ :پروفیسر ابن کنول
ڈاکٹر شفیع ایوب ، سی آئی ایل، جے این یو، نئی دہلی۔ 110067
shafiayub75@rediffmail.com
Mob. 9810027532
جنت مکانی حضرت کنول ڈبائیوی کے پسر ہیں۔ ہر ظلم سے لڑنے کو سینہ سپر ہیں۔ انھیں اردو افسانے کا تاج محل کہتے ہیں۔ یعنی ناصر محمود کمال کو ابن کنول کہتے ہیں۔ سر پہ بال ذرا کم ، آنکھوں میں چمک زیادہ ہے۔ آواز میں رعب ، لہجے میں خنک زیادہ ہے۔ درمیانہ قد، گندمی رنگت، آنکھوں میں ذہانت۔ چال میں قیامت۔ متانت و شوخی کا حسین امتزاج ۔ ادا دلفریب، نگہہ دلنواز۔ حاضر جوابی میں کوئی جواب نہیں رکھتے۔ جھٹ سے کہہ دیتے ہیں، حساب نہیں رکھتے۔ باز ہیں، یہ نہ سمجھو کہ فاختہ ہیں۔ چمن سر سید کے تربیت یافتہ ہیں۔ جھپٹتے ہیں، پلٹتے ہیں، پلٹ کر وار کرتے ہیں۔ ہر یزید وقت کی بیعت سے انکار کرتے ہیں۔ فرعونِ وقت پر یلغار کرتے ہیں۔ یہ کام فقط صاحب کردار کرتے ہیں۔ اپنے طلبہ کے لئے اک شجر سایہ دار ہیں ابن کنول۔ دوستوں کے لئے بہت دلدار ہیں ابن کنول۔ یاران نکتہ داں کے لئے جان حاضر ہے مگر۔ منافقوں کے لئے تلوار ہیں ابن کنول۔ حاکمانِ وقت کو خاطر میں نہیں لاتے مگر، اپنے چھوٹوں سے جھک کر ملتے ہیں۔ یوں تو ہر لباس جچتا ہے مگر، شیروانی میں خوب کھلتے ہیں۔ گفتگو سن لیں تو لگتا ہے ، بہت کچھ دل کے اندر ہے۔ وہ علم کا دریا نہیں، سمندر ہے۔کبھی سنئے کی تقریر میں کیا روانی ہے۔ موضوع بھی پانی پانی ہے۔
علم و ادب کی محفل میں ابن کنول ۔ جیسے ذہن شاعر میں تازہ غزل۔ تدریسی فرائض میں چاک چوبند۔ ہمیشہ وقت کے پابند۔ جس نے کیا ہو داستان سے ناول تک سفر۔ وہی رکھتا ہے داستانوں پہ گہری نظر۔ وہ ذہن میں بوستان خیال رکھتا ہے۔ داستانوی ادب میں کمال رکھتا ہے۔ تحقیق کی کتنی منزلوں سے سر خرو آیا۔ دریائے ادب کا شناور تھا ، گہر بھی ساتھ لایا۔ ابنِ کنول شاعر بھی ہیں ، ادیب بھی ہیں۔ خوابیدہ قوم کو جگانے والے خطیب بھی ہیں۔شاعری میں گل و بلبل کی کہانی نہیں کہتے ۔ ایک تھا راجہ ، ایک تھی رانی نہیں کہتے۔ زندگی کے ہر زخم کو موضوع سخن بنایا ہے ۔ بڑی محنت سے اک معیارِ فکر و فن بنایا ہے۔ شعر کی تہذیب نبھاتے ہیں، لیکن دنیا کے حالات بھی لکھتے ہیں۔ ذکرِ قبائے گل بھی کرتے ہیں ، کڑوی کسیلی بات بھی لکھتے ہیں۔ با شعور بھی ہیں، ذہین بھی ہیں۔ فکر ِ اسلامی کے امین بھی ہیں۔ صالح قدروں کے طرفدار بھی ہیں۔فکرِ نو کے علمبردار بھی ہیں۔ بزرگوں کی وراثت پہ ناز بہت ہے۔ فکر کی بلندی ہے ، تخیل کی پرواز بہت ہے۔
انسانیت کا نوحہ جس کی ہر کہانی ہے۔ اسلوب دلکش ہے ، رنگ داستانی ہے۔ یہ شخص انسانی درندوں کی کہانی لکھ رہا ہے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں داستان پرانی لکھ رہا ہے۔ یہاں چپ ہیں سب سپاہی، فقط سردار بولتے ہیں۔ مگر ان کے افسانوں میں کردار بولتے ہیں۔مختصر افسانوں میں درد کا اک دریا بہاتے ہیں۔ بے رحم سماج کو بس آئینہ دکھاتے ہیں۔
داستانوں سے پُر اسراریت، ناولوں سے زندگی کی حقیقت لی ہے۔ فکر اسلامی سے شان طریقت لی ہے۔ افسانوں سے اختصار کا ہنر پایا۔ اسلاف سے تہذیب کا لعل و گہر پایا۔درس و تدریس سے شان قلندری پائی۔ شخصیت کو بھاتی ہے ادائے کج کلاہی۔ اردو تہذیب سے ادائے دلربائی لی ہے۔ گنگا کی موجوں سے پارسائی لی ہے۔ گھر کے بزرگوں سے کچھ طرز ڈبائی لی ہے۔ تب جاکے اسلوب کنول نے انگڑائی لی ہے۔
عملاً سیاست سے دور بہت ہیں۔ نالہ آتا ہے مگر لب پہ تو مجبور بہت ہیں۔ عموماً عزیزوں کا لحاظ و پاس رکھتے ہیں۔ حق پرستوں کا خیالِ خاص رکھتے ہیں۔ مگر جب بات صداقت کی، حق گوئی کی آ جائے ۔ تو کس میں ہمت ہے جو ابن کنول کو روک پائے۔ چھوٹوں کی مدد کرتے ہیں ، اپنے شاگردوں کے لئے اشک بار بھی ہوتے ہیں۔ سخن فہم تو ہیں پر غالب کے طرفدار بھی ہوتے ہیں۔ عاجزی ایسی کہ طفلانِ مکتب کو سر پہ بٹھا لیتے ہیں۔ انا ایسی کہ شاہِ وقت کو نظروں سے گرا دیتے ہیں۔ دل جو مائل ہو تو دشمن کو سینے سے لگا لیتے ہیں۔ ضد پہ آ جائیں تو اچھے اچھوں کو ہوا میں اُڑا دیتے ہیں۔
کائنات ابن کنول بہت حسین ہے۔آپ کے احباب کی دنیا بڑی رنگین ہے۔ آپ کے احباب میں صوفی بھی ہیں، زاہد بھی، رند بھی ، گنہ گار بھی ہیں۔ آپ کے اساتذہ میں قاضی بھی ہیں ، شہریار بھی ہیں۔ دوست کچھ دور چلے گئے، کچھ بہت پاس ہیں۔ یاروں میں فرحت احساس تو اساتذہ میں اصغر عباس ہیں۔آپ کے سر پہ سجی ہے علم کی دستار۔ کہ آپ کے استاد ہیں قاضی عبد الستار۔ کتاب زیست میں اک مکمل باب افسانہ نگاری کا ہے۔ آپ کے احباب میں اک محترم نام طارق چھتاری کا ہے۔ صلاح الدین پرویز، اسعد بدایونی اور آشفتہ چنگیزی نے اب بہت دور اپنی دنیا بسا لی ہے۔ مگر ابن کنول نے دل کے ویرانے میں ان کی یادوں کی اک محفل سجا لی ہے۔ ان کی یادوں میں پیغام آفاقی بھی بستے ہیں۔ وہ یاران دل نشیں کو خوب سمجھتے ہیں۔ حلقہ ارادتمنداں میں کاظم و شفیع خوش نصیب رہتے ہیں۔ ’’ڈار سے بچھڑے‘‘ ایس ایم اشرف دلّی سے دور ، دل کے قریب رہتے ہیں۔ غیاث الرحمٰن و غضنفر پاس پاس رہتے ہیں۔ ذرا دور نوئیڈا میں فرحت احساس رہتے ہیں۔ دوست سب ، دھُن کے پکّے ، ارادے کے قوی۔ جیسے علی گڑھ میں مہتاب حیدر نقوی۔ اہل خانہ میں صبیحہ ساغر نے زندگی کے پیمانے کو بھر دیا۔ ذہن ابن کنول کو منور کر دیا۔ پاک طینت ، پاک باطن شریک سفر نے زندگی آسان کر دیا۔ سفر میں خوشیوں کا سب سامان کر دیا۔ اریبہ اور زیانہ ۔ بن گئیں خوشیوں کا بہانہ۔ عائش کمال کا جذبہ ۔ پیاری بہن ہو اریشہ اور عذبہ۔ لمحے زندگی کے مزید مسرت آمیز ہو گئے۔ عزیز از جان ایمن ابن اسلم پرویز ہو گئے۔
کبھی وہ ’’ کچے گھڑے ‘‘ سے دریا پار کرنے کی ’’ آخری کوشش ‘‘ کرتے ہیں۔ کبھی ’’ شام ہونے سے پہلے ‘‘ گھر پہنچنے کو لمبے ڈگ بھرتے ہیں۔ ابن کنول ہیں ، ’’ ابن آدم ‘‘ کو ’’ سراب ‘‘ سے بچاتے ہیں۔ ’’دائود خاں ‘‘ کو ’’ سوئٹ ہوم ‘‘ کا ’’خواب ‘‘ دکھاتے ہیں۔ وہ ’’ اشرف المخلوقات ‘‘ سے ’’ اجتہاد ‘‘ کی بات کرتے ہیں۔ ’’ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ ‘‘ کے ذریعے اتحاد کی بات کرتے ہیں۔ ’’ بند راستے ‘‘ ہیں ، کیسے کوئی پرندہ آئے گا۔ انھیں ’’ خدشہ ‘‘ ہے کہ کوئی ’’ نیا درندہ ‘‘ آئے گا۔ وہ جانتے ہیں کہ ’’ ریٹا ئرمنٹ ‘‘ میں ’’ صرف ایک شب کا فاصلہ ‘‘ ہے۔ لیکن ’’ واپسی ‘‘ نہیں کرنی کہ ان میں بہت حوصلہ ہے۔ یہ سوچ کر وہ اداس لگتے ہیں۔ کیوں ’’ تیسری دنیا کے لوگ ‘‘ ’’فورتھ کلاس ‘‘ لگتے ہیں۔ ہر ’’ دوسرا پاگل ‘‘ کسی ’’ چھوٹی آپا ‘‘ کو تنگ کرتا ہے۔ کوئی ’’ کینسر وارڈ ‘‘ میں زندگی سے جنگ کرتا ہے۔ ’’ بولو مت ‘‘ ’’ خوف ‘‘ کی گھڑی ہے۔ سامنے ’’ تیسری لاش ‘‘ پڑی ہے۔ جو ’ ’ وارث ‘‘ تھے، سر فروش جا رہے ہیں۔ ’’ گھر جلا کر ‘‘ ’’خانہ بدوش ‘‘ جا رہے ہیں ۔ اب بھی ’’ لکڑبگھا زندہ ہے ‘‘ وہ معصوم کدھر جائے ۔ ’’ ایک ہی راستہ ہے ‘‘ ’’ مٹی کی گڑیا ‘‘ مر جائے۔ رسم دنیا کا سمّان نہیں کرتے ؟ ’’ سپر اسٹار ‘‘ تھے تو کیا ’’ کنیا دان ‘‘ نہیں کرتے؟ کِیا ، رسموں کا سمّان کِیا ۔’’ صرف ایک دن کے لئے ‘‘ سب کو مہمان کیا ۔سب کا انتظام کرتے ہیں۔ چھوٹے بڑوں کا احترام کرتے ہیں۔ خدا عمر دراز کرے۔ دین و دنیا میں سرفراز کرے۔ آمین۔
)بتاریخ : 23 فروری 2019 (
Leave a Reply
Be the First to Comment!