افسانہ’’ پہلا آدمی‘‘ ایک تجزیہ
افسانہ’’ پہلا آدمی‘‘ ایک تجزیہ
عبید الرحمن نصیر
ریسرچ اسکالر،شعبہ اردو ،دہلی یونیورسٹی ،نئی دہلی،۱۱۰۰۰۷
Email:-Abaid9001@gmail.com
Mob:-7889634099
پروفیسر ابن کنول اردو ادب کی بیشتر اصناف مثلا خاکہ نگاری ــــــــ،سفرنامہ نگاری، انشائیہ نگاری اردو شاعری اور تحقیق و تنقید کے ساتھ ساتھ اردو افسانہ نگاری میں بلندپایہ مقام رکھتے ہیں۔انہوں نے اپنی چھیاسٹھ سالہ زندگی میں ابتدائی حصول تعلیم کے بعد جامعیات کا رخ کیا جہاں سے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انیس سو پچاسی سے دہلی یونیورسٹی میں بطور مدرس اپنے فرائض انجام دینے لگے۔جامعہ دہلی میں ہی سال۲۰۰۶ء میں وہ پروفیسر بنے اور۲۰۲۱ء میں سینئر پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اس دوران وہ دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں تین مرتبہ صدر شعبہ بھی رہے۔پروفیسر ابن کنول نے ۳۱ اکتوبر۲۰۲۲ء کو دہلی یونیورسٹی میں اپنی ملازمت کے ایام مکمل کیے اور ۱۱ فروری ۲۰۲۳ء بروز ہفتہ دن کے تقریبا ڈھائی بجے اس دار فانی کو الوداع کہا اور تیسری دنیا کے مسافر ہو گئے۔پروفیسر ابن کنول کی اچانک موت سے ان کے اہل خانہ پر کیا گزری اس کا اندازہ لگانا تو ناممکن ہے البتہ ان کے متعلقین ،ساتھیوں اور طالب علموں کو میں نے کئی دنوں تک عالم یاس اور سقتے کی حالت میں دیکھا۔بہرحال موت تو ہر ذی روح کو آنی ہے اور ہر فرد گزرتے ایام کے ساتھ اپنی موت کے قریب تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ پروفیسر ابن کنول کی وفات کے بعد ۱۴فروری ۲۰۲۳ء بروز منگل شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی کی طرف سے ایک تعزیتی نشست کا انعقاد کیا گیا جہاں صدر شعبہ اردو پروفیسر نجمہ رحمانی کے ہمراہ شعبہ اور دیگر شعبہ جات کے اساتذہ کے علاوہ غیر تدریسی عملہ اور طلباء سینکڑوں کی تعداد میں موجود تھے۔ ہر آنکھ پر نم تھی اور ہر دل اشکبار۔تعزیت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ اساتذہ اور مرحوم پروفیسر ابن کنول کی زیرنگرانی تحقیق کرنے والے ایک اسکالر کو اپنے تاثرات پیش کرنے کا موقع دیا گیا لیکن موت کے غم سے سب نڈھال تھے اور ان تمام کی حالت ناقابل دید تھی اور یوں معلوم ہوتا تھا گویا سب کے کلیجے پھٹے جاتے ہیں۔پروفیسر ابن کنول کی یاد میں ملک کی کئی جامعیات اور دیگر ادبی اداروں نے تعزیتی پروگرام منعقد کرائے جہاں ان کی حیات اور ادبی خدمات کو یاد کرتے ہوئے انہیں زبردست خراج عقیدت پیش کیا گیا۔پروفیسر ابن کنول ہم سب کو داغ مفارقت دے کر خالق حقیقی سے جا ملے لیکن انہوں نے ہم سب کے لیے وہ ادبی سرمایہ چھوڑا ہے جو ہمارے ذہنوں کو ہمیشہ تازگی بخشے گا اور انھیں اردو ادب میں زندہ و تابندہ رکھے گا۔
پروفیسر ابن کنول نے اردو نثر میں وسیع ذخیرہ چھوڑا ہے۔ ان کی حیات اور ادبی خدمات کے متعلق بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور آئندہ دنوں میں بھی لکھا جاتا رہے گا۔ اردو نثر کی تقریبا تمام اصناف پر انہوں نے طبع آزمائی کی اور خود کو ایک بہترین افسانہ نگار کے طور پر متعارف کرایا۔دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے۱۹۷۹ء میں ایم فل کے دوران ہی انہوں نے افسانہ نگاری میں طبع آزمائی شروع کر دی تھی اور ۱۹۸۴ء میں پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا پہلا افسانوی مجموع’تیسری دنیا کے لوگ‘بھی شائع ہوا جس کا انتساب انہوں نے اپنی امی اور والد محترم کنول ڈبائیوی کے نام کیا۔اس افسانوی مجموعے میں پروفیسر ابن کنول کے پندرہ افسانے شامل ہیں۔ان افسانوں میں موضوعاتی تنوع پایا جاتا ہے اور سماج میں پنپنے والی ہر برائی کا تذکرہ ملتا ہے۔انہوں نے بڑی بے باکی سے ذات پات،طبقاتی کشمکش اور فرقہ پرستی کے خلاف آواز بلند کی۔ افسانوی مجموعہ’ تیسری دنیا کے لوگ‘ کے حرف آغاز میں ابن کنول لکھتے ہیں۔
’’ایک طرف اگرنئی ضروریات کا ہجوم خوفناک اژدہوں کی طرح منہ کھولے زبانیں لپلپا رہا ہے اور خوف زدہ آدمی سمٹتے سمٹتے اپنے وجود کو کھو رہا ہے، تو دوسری جانب ذات پات طبقات اور فرقہ مذہب کی چمکتی ہوئی قبائیں زیب جسم کیے بھیڑیے اپنے جبڑوں سے ٹپکتا لہو چاٹ رہے ہیں۔۔۔۔ جو تخلیق کار اس بھیانک منظر کی طرف سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں، کیا وہ اس سے بھی زیادہ بھیانک جرم کے مرتکب نہیں ہوتے۔‘‘؟ ۱؎
پروفیسر ابن کنول اردو افسانہ نگاری میں منفرد لب و لہجے کے مالک تھے اور ان کے افسانوں پر داستانوی رنگ کے گہرے اثرات نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں داستانوی کرداروں کو پیش کیا ہے اور وحدت تاثر کی ایک ایسی فضا قائم کی ہے جس سے قاری کا ذہین کبھی اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتا اور وہ کہانی مکمل پڑھے بنا نہیں رہ پاتا۔پروفیسر ابن کنول کو قدرت نے بچپن سے ہی تخلیقیت کے ہنر سے نوازا تھا اور وقت کے ساتھ حاصل کی گئی تعلیم اور روزمرہ حالات و مشاہدات نے ان کے اس ہنر کو مزید نکھارا۔وہ اپنے افسانوں کی بالکل شروعاتی سطور میں ہی قاری پر وحدت تاثر کی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں۔ اپنے پہلے افسانوی مجموعہ کے پہلے افسانہ ’پہلا آدمی ‘کی شروعات وہ اس طرح کرتے ہیں۔
’’اور جب بادشاہ نے سفر سے مراجعت کی۔دارالخلافہ میں پہنچ کر اس نے اپنے وزیر اعظم کو حکم دیا کہ کل دن کے پہلے پہر میں ہم دربار عام کریں گے، شہر میں اعلان کرا دیا جائے۔ تمام خلائق شہر دیوان عام میں جمع ہوں،، حکم شاہی برفتار برق شہر کے ایک ایک گوشے میں پھیلا دیا گیا۔ روز فردہ تمام مرد و زن، پیر و جوان، خردوکلاں اس طرح اپنے چہروں پر بے تابیاں لیے دیوان عام میں اکٹھے ہوئے جیسے غیب سے کوئی معجزہ ظہور میں آنے والا ہو۔ ہر نظر میں ایک ہی سوال تھا کہ آج بادشاہ ایسا کیا اعلان کرے گا جس کے لئے زچہ و بچہ کو بھی دربار میں حاضر ہونے کا حکم ہوا ہے۔ وزیراعظم نے جو تخت شاہی کے قریب استادہ تھا، ایک گہری نظر اس مجمع پر ڈالی اور باآواز بلند پوچھا۔،،کیا ابھی کوئی اور باقی ہے جو دربار میں حاضر نہیں ہوا۔‘‘ ۲؎
اس افسانے میں پروفیسر ابن کنول نے مراۃ الغیب کے ذریعے ان لوگوں کو حقیقت سے آشنا کیا ہے جو اپنی صدیوں سے چلی آ رہی روایات اور آداب و اقدار کو بھول کر غیروں کی تقلید میں مگن ہوجاتے ہیں،ان کے ہی طریقہ کار اپنا لیتے ہیں اور جو اس بھیڑ کے ساتھ نہیں چلتا اسے حقیر، کمتراور دقیانوس قسم کا آدمی سمجھا جاتا ہے۔اپنی تہذیب وتمدن اور روایات کا پاسدار انسان سودیشی اور بائیکاٹ تحریک کا حامی ہوتا ہے۔ اسے غیروں کی تقلید سے کوفت محسوس ہوتی ہے اور وہ اپنے ملک و سماج کی خاطر ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار رہتا ہے۔ ایسا ہی ایک کردار،پہلا آدمی،میں ہے جسے بادشاہ نے’ شاہ بہروپ‘ کے دیے ہوئے تحفے میں سے اس کے جسم کی پیمائش کے مطابق لباس پہننے کے لئے دیا۔ بادشاہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اس شخص نے لباس زیب تن کیالیکن اس کے شعور نے اس غیر ملکی لبادے کو قبول
نہ کیا اور اسے گھبراہٹ محسوس ہونے لگی۔ابن کنول نے افسانے میں اس منظر کو یوں بیان کیا ہے۔
’’اس نے بھی اس پوشاک کو اپنے جسم پر پہنا۔ تھوڑی دیر تک وہ ستاروں کی طرح چمکتے ہوئے لباس کے سنہری تاروں کو دیکھ دیکھ کر دل ہی دل میں مسکراتا رہا۔لیکن اچانک اسے محسوس ہوا جیسے وہ لباس تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ اور اس کا بدن پھول رہا ہے۔ وہ گھبرایا۔ لیکن لباس لمحہ بہ لمحہ سکڑتا گیا اور آہستہ آہستہ گناہ گار کی قبر کی طرح تنگ ہو گیا۔ اسے لگا جیسے چند لمحوں کے بعد اس کی دونوں جانب کی پسلیاں ہاتھ کی انگلیوں کی طرح آپس میں بھینچ جائیں گی۔ اور اسی خوف کے سبب اس نے اپنے بدن پر چڑھے ہوئے لباس کو ہاتھوں سے نوچنا شروع کر دیا۔،، ۳؎
افسانہ،پہلا آدمی، میں متذکرہ آدمی کی بہروپ لبادے میں ہوئی حالت و کیفیت کا تذکرہ کرنے کے بعد ان لوگوں کا احوال سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے جو اندھی تقلید کے قائل ہیں اور اپنی تہذیب و تمدن سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ قومی اقدار کا پاسباں آدمی جب اپنے بدن پر چڑھے بہروپ کپڑے کو نوچتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ ملک کے ماندہ افراد نے بھی اس کی طرح غیروں کے کپڑے کو جسم سے اتار پھینکا ہوگا لیکن معاملہ دید اس سے بالکل مختلف تھا جس کا تذکرہ افسانے میں کچھ اس طرح کیا گیا ہے۔
’’وہ شہر کی سڑک پر آیا لیکن اسے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ہر شخص اس اجنبی لباس کو پہن کر فخر محسوس کر رہا تھا اور جب لوگوں کی نگاہیں اس کے برہنہ جسم پر پڑیں تو سب ہنسنے لگے۔۔۔۔ اور اس نے محسوس کیا کہ وہ سب اسے پاگل سمجھ رہے ہیں۔‘‘ ۴؎
بادشاہ کے حکم شاہی کو تسلیم نہ کرنے پر اسے جلا وطن کر دیا گیا۔اس غریب الوطنی کے عالم میں بھی وہ پرسکون تھا۔بقول پروفیسر ابن کنول’’اسے سکون حاصل تھا ان لوگوں سے زیادہ جنہوں نے لباس پہن کر اپنی ہیئت تبدیل کر لی تھی ‘‘۔پروفیسر ابن کنول نے یہاں داستانوی رنگ میں افسانے کو ایسا رخ دیا ہے جس سے قاری کو یہ گماں ہوتا ہے کہ وہ کوئی داستان پڑھ رہا ہے اور اسے میر امن کی’’باغ و بہار‘‘کے قصے یاد آنے لگتے ہیں۔ اس افسانے میں بھی جلا وطن آدمی صحرا بہ صحرا بھٹکتا ہوا کہیں دور ایک دراز العمر صوفی بزرگ سے جا ملتا ہے اور اپنا قصہ کچھ یوں بیان کرتا ہے۔
’’اے خدا آگاہ! میں جلاوطن کر دیا گیا اس سبب سے کہ میں نے وہ لباس نہیں پہنا جو ایک غیر قوم نے ہمارے بادشاہ کو تحفے میں دیا تھا۔ کہ وہ لباس میرے بدن پر گنہگار کی قبر کی طرح تنگ ہو گیا تھا۔ اے پیرومرشد کیا میں گنہگار ہوں؟۔ چند لمحے بعد بزرگ کی پلکوں کو جنبش ہوئی۔ انھوں نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔۔۔ اور پھر حضرت نے اسے ایک آئینہ دیا جس کا نام مرات الغیب تھا اور جس میں ہر چیز کا حقیقی روپ نظر آتا تھا۔۔۔ اس نے دریافت کیا۔ اے مخزن اسرار الہی! اس آئینہ کا کیا مصرف ہے؟ حضرت نے فرمایا جا اور اسے اپنی قوم کے روبرو رکھ شاید وہ خود کو پہچان کر راہ راست پر آجائے۔،، ۵؎
اس درویشانہ محفل کے اختتام پہ وہ آدمی مراۃ الغیب لیے اپنے شہر کی طرف لوٹتا ہے اور بعض لوگوں میں نمایاں تبدیلی محسوس کرتا ہے جو اسے حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ بادشاہ اس آدمی کی حکم عدولی سے خفا نہیں ہوا بلکہ اسے ایک موقع دیا تاکہ وہ ثابت کر سکے کہ دیگر ماندہ لوگوں کے افعال غلط ہیں اور وہ صحیح راہ پر ہے۔اس نے اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے مراۃ الغیب کو سب کے سامنے رکھ دیا۔ افسانہ پہلا آدمی میں یہ منظر کچھ اس طرح بیان ہوا ہے۔
’’اس نے مراۃ الغیب کو سب کے روبرو رکھ دیا۔ اور اس آئینہ میں کہ جو حقیقت بیان کرتا تھا سب لباس پہننے والوں کے ننگے اور بدنما جسم نظر آئے اور وہ جو سب کی نظروں میں برہنہ تھا۔ آئینہ میں لباس زرنگار پہنے ہوئے دکھائی دیا۔،، ۶؎
دراصل انسان کی اصل شناخت اس کی حق گوئی اور تہذیبی پاسداری ہے۔حق گو انسان بلا خوف و خطر اپنے ملک و ملت کی رہبری اور رہنمائی کرسکتا ہے اور سماج کو اصلاحی فکر دے سکتا ہے۔ پروفیسر ابن کنول کے تمام تر افسانے اصلاحی ہیں اور سماج کے آئینہ دار ہیں۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں ہر ذی شعور قاری کے لیے اصلاحی پہلوؤں کو نمایاں رکھا ہے اور اپنی دور اندیشی نیز تخیلّانہ گہرائی کو عام فہم الفاظ میں پیش کیا ہے اور افسانہ’ پہلا آدمی‘ عصری آگاہی کی ہی ایک کڑی ہے۔
حوالہ جات:۔
۱۔’’تیسری دنیا کے لوگ‘‘ حرف آغاز از ابن کنول ،جمال پرنٹنگ پریس دہلی جون۱۹۸۴ء صفحہ ۸۔
۲۔’’پہلا آدمی ‘‘از ابن کنول مشمولہ تیسری دنیا کے لوگ جمال پرنٹنگ پریس دہلی جون ۱۹۸۴ء ص ۹۔
۳۔ایضاً ص ۱۲۔
۴۔ایضاًص ۱۲۔
۵۔ایضاًص ۱۴۔
۶۔ایضاً ص ۱۵۔
٭٭٭٭
(۱)
Leave a Reply
Be the First to Comment!