پروفیسرابن کنول کے سفر ناموں کا تجزیاتی مطالعہ
پروفیسرابن کنول کے سفر ناموں کا تجزیاتی مطالعہ
محمد یوسف ۔پی ۔ایچ ۔ڈی اسکالر بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد
پروفیسرڈاکٹر کامران عباس کاظمی صدر شعبہ اردو و فارسی بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد
پروفیسرابن کنول کے سفر نامے اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ان کے سفر ناموں کا مجموعہ چار کھونٹ اپنے منفرد اسلوب، دلکش انداز تحریر، باکمال قوت مشاہدہ، طرز تفہیم کی خوب صورتی اور فکری سنجیدگی کی بدولت ایک نیا اضافہ ادبی ہے۔ان کے سفر ناموں میں فنی و فکری گہرائی کا اظہار ایک نئی جہت کا آئینہ دار ہے۔ان کے سفر نامے اپنے عہد کی تہذیبی تاریخ،معاشرت، سماج، سیاست اور ثقافت کا ایک جہان آباد کیے ہوئے ہیں۔انھوں نے اپنے سفری تجربات،تاثرات ، مشاہدات اور احساسات کو ادبی شان سے پیش کیا ہے۔سفر نامہ مختلف الجہات اور کثیر الانواع حیثیات کی بدولت اردو ادب کی مقبول صنف رہا ہے جس میں نئی دنیاؤں کی دریافت کا شوق اور خوب سے خوب تر کی تلاش کا عنصر بنیادی محرک رہا ہے۔سفر نامے کے بارے میں سعید احمد یوں رقم طراز ہیں۔
“سفر نامہ ایک بیانیہ صنف ادب ہے جس میں سیاح یا مسافر دوران سفر یا اختتام سفر
پر کسی ملک یا شہر کے بارے میں اپنے تجربات، مشاہدات اور تاثرات قلم بند کرتا ہے۔
یہ واحد صنف ہے جس میں بہت سی اصناف کی علمی خوبیاں موجود ہیں۔ اسی لیے اس
کو ام الاصناف کہا گیا ہے۔اس کو علم و اگہی کی دستاویز سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔1
یونانی مورخ ہیرو ڈوٹس اور میگس تھینز کے سفر ناموں سے شروع ہونے والی اس روایت کی بدولت اردو ادب میں سفر ناموں کی ایک مستحکم روایت موجود رہی ہے۔یوسف کمبل پوش کا عجائبات فرنگ،مولوی مسیح الدین، سر سید احمد خان، شبلی نعمانی، محمد حسین آزاد، جعفر تھانسیری، جگن ناتھ آزاد، حسن رضوی،اجمل نیازی،محمد کاظم،مولانا عبدالماجد دریا بادی، محمود نظامی، گوپی چند نارنگ، بیگم اختر ریاض الدین، مستنصر حسین تارڑ اور رضا علی عابدی سمیت کئی نام اس صنف کو باکمال بنانے میں کوشاں رہے۔سفر نامے کے فنی محاسن میں اسلوب بیان، تہذیب و ثقافت کی ترجمانی، حقیقت پسندی، راست گفتاری، لسانی شعور، ملکی تاریخ، علوم و فنون، صنعت و حرفت،مشاغل زیست،انسان فہمی اور قوت مشاہدہ کو کلیدی مقام حاصل رہا لیکن ہر سیاح کی وسعت نگاہی منفرد انداز اختیار کیے ہوئے ہے۔
ابن کنول کے سفر ناموں میں حج بیت اللہ، امریکہ، موریشس، لندن، پاکستان، متحدہ عرب امارات، ماسکو، ازبکستان اور ہندو ستان کے اسفار شامل ہیں۔جن کو چار کھونٹ کے نام سےشائع کیا گیا۔ان سفر ناموں میں ابن کنول کی انفرادیت پوری شان سے موجود ہے۔حج بیت اللہ کا سفر دلکش اسلوب،مذہبی عقیدت،اسلامی تاریخ اور مزاح کا امتزاج ہے۔یہ ان کا منفرد سفر ہے جہاں ان کا ذاتی سرمایہ استعمال ہوا اور حرم پاک کی فضاء قدس ان کی روحانی دنیا کو نئی تازگی بخشی ہے۔اسلام میں سفر کی اہمیت، حرمین شرفین کے روح پرور مناظر، جنگ بدر و خندق، منی، مزدلفہ اور عرفات کی تاریخی اہمیت اور مناسک حج کا بیان شامل ہے۔ابن کنول کو تاریخ سے خاص دل چسپی رہی جس کا اظہار انھوں نے اپنے تمام اسفار میں تاریخی صداقت سے کیا ہے۔مدینہ اور مکہ کے دل کش مناظر کے ساتھ تاریخ بیان کرنے کا انداز یوں سامنے آتا ہے۔
یہ مسلمانوں کے لیے دوسری مقدس ترین مسجد ہے۔اس کی تعمیر 623 عیسوی میں کی گئی۔رسول
اللہﷺ جب ہجرت کر کے یثرب یعنی مدینہ پہنچے تو اپنے گھر کے برابر مسجد کے لیے دو یتیموں
سےیہ زمین خریدی۔مٹی کی دیوار یں بنائی گئیں۔کھجور کے تنوں اور پتوں کی مدد سے چھت بنائی گئ
ابتدا میں مسجد اقصیٰ کی جانب قبلہ تھا، بعد میں کعبہ کی طرف تبدیل کیا گیا۔مسجد کے متصل
آنحضرت ﷺ کا گھر تھا۔وہیں آپ کا وصال ہوا،وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا حجرہ تھا۔
مدینہ کا قدیم نام یثرب تھا، حضورﷺ نے اس کا نام مدینہ تجویز کیا۔آپ کو مدینہ اور مدینہ
والوں سے اس قدر محبت تھی کہ فتح مکہ کے بعد بھی آپ نے مدینہ ہی میں رہنا پسند کیا۔2
اس کے علاوہ مسجد نبوی کی توسیع،عرب کی دیگر مساجد کی تاریخ، منی اور عرفات میں جزئیات نگاری، کنکریوں اور حجر اسود کے مزاح سے بھرپور مناظر اور تمام تفصیلات کا بیان ایک کیمرائی تکنیک سے ابھارا گیا ہے جس کی بدولت جہاں تاریخ کے دریچے کھلتے ہیں وہاں زائرین کے لیے تمام سفری مصائب و سہولیات کا اہتمام موجود ہے۔مذہبی عقیدت سفر نامے کی فضاء کو متاثر کرنے کے بجائے دیگر مذاہب کے لیے تاریخی دل چسپی کا سامان رکھتی ہے۔
ان کا دوسراسفر نامہ امریکہ کی جدید زندگی کو ایک زندہ دل ادیب کی نظر سے دیکھنے کی خواہش سے لبریز ہے۔اردو انسٹی ٹیوٹ آف کیلفورنیا کی خصوصی دعوت پر ابن کنول 22مئی 2001 سے 18جون 2001تک امریکہ میں مقیم رہے۔ان کے اندر حج بیت کی زیارت کے بعد کلیساء کا رخ کشمکش کے گرد گھومتا محسوس ہوتا ہے۔اس دوران امریکی طرز معاشرت کا ہندوستانی طرز حیات سے تقابل خاصا دل چسپ ہے۔امریکی معاشرتی ،علمی،تجارتی اور سیاحتی ترقی کا احوال نمایاں پہلو ہیں جن پر ابن کنول کی نگاہ مرکوز رہی۔انھوں نے امریکی زندگی میں تکلف کی عدم موجودگی گھروں کی سجاوٹ و بناوٹ ،کھانے کے اوقات میں عجلت پسندی اور اقدار پر سختی سے عمل پیرا ہونے کی روایت کو بیان کیا ہے۔امریکہ کی مہنگی اور مصروف زندگی میں چند ایسے بازاروں کا تذکرہ بھی شامل ہے جہاں پاکستانی اور ہندوستانی لوگ قیمتوں پر حجت بازی کا شوق پورا کرتے ہیں۔سین فرانسسکو کی تاریخ، تہذیبی زندگی کا عکس، گولڈن گیٹ برج کے اطراف کی رنگا رنگی، سٹینڈ فورڈ یونیورسٹی کی وجہ شہرت،علمی ترقی، تہذیبوں کا امتراج، ہندوستان دانش گاہوں سے تقابل، کیلی فورنیا کے سمندری مناظر اور تجارتی مراکز کا حسن سفر نامے کا انفرادہے۔امریکہ میں سرکاری و نجی دانش گاہوں کے ذکر میں ابن کنول نے سرمایہ داری نظام کے اثرات کے علاوہ وہاں کے بارے میں پائے جانے والے تخیل کو سلجھانے کی کوشش کی ہے۔وہاں کی جامعات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
یہاں کی یونیورسٹیوں کے کیمپس دیکھ کر اچھا لگتا ہے،اس طرح کا حسن ہمارے ہاں کی پرائیویٹ یونیورسٹیوںمیں دکھائی دیتا ہے،لیکن حکومت کی زیر نگرانی بیشتر سرکاری دفتروں اور بازاروں ہی کی طرح نظر آتی ہیں۔مثل مشہور ہےجتنا گڑ ڈالو گےاتنا ہی میٹھا ہو گا۔دراصل پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں فیس کی شکل میں گڑ کی مقدار زیادہ ڈالنی پڑتی ہےاس لیے چکنے چکنے پات نظر آتے ہیں۔اب کم خرچ بالانشین والی مثال بیکارہے۔خیر ہمیں تو اپنا ملک اور اپنی دانش گاہیں ہی اچھی لگتی ہیں، دور کے ڈھول بس سہانےہوتے ہیں۔3
ابن کنول کا تیسرا سفر دنیا کے خوب صورت اور رنگین دیس مرایشس سے متعلق ہے جہاں ان کا جانا متعدد مرتبہ ہوا۔اجمال اس حالیہ سفر کی نیشنل ا ردو انسٹی ٹیوٹ کا دعوت نامہ ہے ۔ابن کنول ہر مرتبہ موریشس کے جادوئی فطری مناظر کی دلکشی میں مگن ہو جاتے ہیں۔اسلام اور ہندو مت میں سری لنکا کی اہمیت، وہاں کے طرز بودوباش،مہمان نوازی، گنے کی پیداوار اور شگر کی بڑھتی بیماری، انگریزی کے بجائے فرینچ زبان کی مقبولیت کے محرکات، لباس و خوارک، اسلام و ہندو مت کا امتزاج، پاکستان اور ہندوستان کے ادبی لوگوں کااجتماع، مویشس کا جغرافیہ، طبعی خدوخال، میوزیم، جامعات کا انفرادی رنگ، اردو کی محبت، اسلامی طرز تعمیر، ہندوستانی مطالعات کا مرکز، اندرا گاندھی سینٹر، موسمی تغیر وتبدل اور ملکوتی حسن سفر نامے کو منفرد بنانے کی شعوری کوشش ہے۔ابن کنول اور موریشس کا قدرتی حسن ملاحظہ ہو۔
موریشس کی خوبصورتی کا انحصار سمندر کے ساحلوں کے نظاروں پر ہے۔ڈاکٹر صابر نے
متعدد ساحلBeachesدکھائے۔ساحل کے مناظر تقریباایک جیسے ہوتے ہیں
20۔19 ہی کا فرق ہوتا ہے۔ کہیں سورج غروب ہوتا ہوا بھی دکھائی دیتا ہے کہیں سمندر
میں طغیانی زیادہ ہوتی ہے اور کہیں کم،برسات کا موسم ہو یا نہ ہو،مویشس میں اکثر آسمان
پر دھنک نظر آتے ہیں۔پہاڑوں پر ہریالی ہے،جہاں سے جھرنے بہتے ہیں۔لوگوں میں
سادگی ہے بناوٹ نہیں۔وزیر و کبیر وامیر سے ملنے میں بھی دقت نہیں ہوتی۔گنے کی کھیتی
کے سبب یہاں کی فضاؤں میں شیرینی ہے۔4
پروفیسر ابن کنول اپنے سفر ناموں میں لندن ،وہاں کی تاریخ، انسانی محنت و ترقی ،وہاں کی معاشرت،طرز زیست اور قابل دید مقامات کو بھی خاص اہمیت دیتے ہیں۔ان کے ہاں تاریخ گوئی کا ہنر سفر ناموں کو نئی معنویت عطا کرتا ہے۔ان کی کیمرائی تکنیک جہاں منظر کشی اور جزئیات نگاری سے قاری کو مسحور کرتی ہے وہاں تاریخ اور عہد بہ عہد کا انسانی سفر بھی دل کشی کا باعث ہے۔لندن کا طرز زندگی، عمارت کا حسن ، پنجاب اور دہلی کا گمان، برٹش میوزیم کی تاریخ، ٹاور برج اور لندن ٹاور کے مناظر،انسانی لگن اور ترقی کے شہکار، سینٹ پال گرجا کے بدلتے مناظر اور لندن کی مصروف زندگی کا عکس منفرد ادبی اسلوب سے اجاگر ہوا ہے۔ایشیائی لوگوں کی کثرت اور ہندوستان میں انگریزوں کے طویل قیام سے ابن کنول کو لندن اپنا اپنا سا لگا اور پہلی بار اجنبیت کا احساس کم سے کم رہا۔وہ لکھتے ہیں
ساؤتھ لندن کو چھوٹا ہندوستان یا چھوٹا پنجاب بھی کہتے ہیں۔بازارمیں پہنچ کر ایسا لگا جیسے
دہلی یا لاہور کے بازار میں گھوم رہے ہیں۔بازار میں گھومنے والی خواتین برقعے کے علاوہ
ساڑی اور شلوار قمیص بھی پہنے ہوئے تھیں۔مغربی لباس بہت کم نظر آتا ہے۔دکانوں
پرگول گپے بھی تھے اور جلیبیاں بھی،سموسے کی پلیٹ تین پونڈ کی تھی اور کباب رول
دو پونڈ کابلیماران کی دکانوں کی طرح جوتوں کی دکانیں بھی تھیں اور برقعوں کے شو روم
بھی۔طرح طرح کے سلیم شاہی جوتے اور پاکستانی برقعے ٹنگے ہوئے تھے۔رنگ برنگ
سوٹ، دوپٹے اور چوڑیاں نظر آ رہی تھیں۔5
پروفیسر ابن کنول نے سفر ناموں میں پاکستان کے دو اسفار فیصل آباد اور پشاور کا ذکر بھی گہری اپنائیت اور محبت بھرے احساسات سے کیا ہے۔ان کے اندر دونوں ممالک کے لوگوں میں موجود محبت کا عکس نمایاں طور پر محسوس ہوتا ہے۔وہ انسانی تقسیم کے قائل نہیں ہیں اور ادب کے عالمگیر تصور کے کے ہم نوا ہیں۔ جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کی دعوت پر ابن کنول 28 اگست تا 3 ستمبر 2006 پاکستان مقیم رہے۔تقسیم کی اذیت،مذہبی شدت پسندی، فیصل آباد اور لاہور کے تاریخی مقامات کا بیان سفر نامے کا ادبی حسن ہے۔ان کے مطابق فیصل آباد کو 1849 میں زراعت کے لیے برطانوی فوجیوں نے بسایا۔اس کا نام پنجاب کے لیفٹنیٹ گورنرسر جیمس لائل کےنام پر پڑا۔1977 میں سعودی بادشاہ شاہ فیصل کے نام پر فیصل آباد ہوا۔اس شہر کی تعمیر کے وقت ایک مرکزی گھنٹہ گھر بنا کر اس کے چاروں طرف آٹھ قطاروں میں برطانوی جھنڈے کی شکل میں بازار بنائے گے۔پاکستان کا مانچسٹر آزادی سے قبل مذہبی تفریق سے بالا تر تھا۔گورنمنٹ کالج کی تاریخ، مزار اقبال کے مناظر اور لاہور کی تاریخ ابن کنول کی تاریخی دل چسپی کی عکاس ہے۔اکبر کا شاہی قلعہ، جہانگیر کی تعمیرات اور لاہور کی قدیم و جدید تاریخ سفر نامہ کو امر کر دینے کے لیے کافی ہے۔وہ لکھتے ہیں۔
لاہور،کراچی کے بعد پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے۔زمانہ قدیم میں ہر بڑا شہر کسی نہ کسی
دریا کے کنارے بسایا گیا تھا۔یہاں دریا راوی بہتا ہے۔اس کی تاریخ ہزاروں سال
پرانی ہے۔روایت ہے کہ رام چندر جی کے بیٹے راجہ لونے اس شہر کو آباد کیا۔دسویں
صدی عیسوی تک متعدد حکمرانوں نے یہاں حکومت کی۔جب محمود غزنوی نے پنجاب
کو فتح کر لیا تو اپنے غلام ایاز کو یہاں کا گورنر بنایا۔بارہویں صدی عیسوی میں یہ شہاب الدین
غوری کی حکومت میں شامل رہا اور دہلی سلطنت کا حصہ بن گیا۔مغلوں میں سبھی بادشاہوں
نے لاہور کی طرف توجہ کی۔ملکہ نور جہاں کو لاہور بہت پسند تھا۔6
ابن کنول پشاور یونیورسٹی کی دعوت پر 5 تا 13 اگست 2008 پشاور تشریف لائے۔پشاور سفر کے دوران انہوں نے ایبٹ آباد اور ہزارہ کے تاریخی اور قدرتی مناظر کے ساتھ ساتھ مہمان نوازی سے لطف اٹھایا۔پشاور کی تاریخ کے خفیہ گوشے بے نقاب کیے۔پشاور یونیورسٹی کے آغاز اور انگریزوں کی جانب سے دیسی مقامات کو اردو نام بخشنے کا ذکر بھی کیا ہے۔ابن کنول پشاور کی تاریخ کو اجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
پشاور کا شمار جنوبی ایشیاء کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔کشان راجاؤں کے راجہ کنشک کی
پشاور راجدھانی تھا اور اسے پرش پورہ کہا جاتا تھا جس کا مطلب تھا مردوں کا شہر۔واقعی پشاور
مردوں کا شہر ہے۔۔۔۔ایک انگریز اس علاقہ میں ڈپٹی کمشنر تھا ، اس نے اس علاقہ کی خوبصورتی
سے متاثر ہو کر ایک نظم بعنوان ایبٹ آباد Abbottabad لکھی اور اس بستی کا نام ہی اپنے نام
پر ایبٹ آباد رکھ دیا۔اپنے ناموں کے ساتھ اردو الفاظ ملا کر انھیں ہندوستانی بنا دیا، جیسے لائل پور7
ابن کنول نے ماسکو کے احوال بھی باتفصیل قلم بند کیے ہیں جہاں وہ ڈاکٹر اندر اگا زیوا کی دعوت پر گے۔ابن کنول نے ماسکو میں تاریخ کے بجائے فنون لطیفہ سے اپنی دلچسپی کو سامنے لایا ہے۔وہاں کی عمارات اور طرز تعمیر کی انفرادیت سفر نامے کو منفرد بناتی ہیں۔ماسکو کی خوبصورتی کریملن کے سیاحتی مقامات،لینن کا مقبرہ، فصیل، گرجے، محل،حکمرانوں کی رنگین مزاجی، اسلامی طرز تعمیر اور چرچ کا بیان خاص ہے۔عمارتوں میں موجود نقاشی، گرجوں کے منقش گنبد، مینار، مصوری اور ان کے ہندوستانی طرز تعمیر سے مماثلت کا بیان دلکشی سے لبریز ہے۔
چار کھونٹ میں متحدہ عرب امارات کی سیاحت تاریخی ،معاشرتی،تہذیبی اور سماجی عہد کا ارتقاء موجود ہے۔امارات کی ریاستوں میں ابوظہبی، دبئی،شارجہ، عجمان، فجیرہ ،راس الخیمہ اور ام القوین کا حال وماضی پوری طرح عیاں ہے۔ان کے مطابق 1971 میں انگریزی تسلط سے آزادی اور تیل و معدنیات کی فراوانی اس خطے کی ترقی کا ذریعہ ہیں ۔امارات کی جدت نے ابن کنول کا بہت متاثر کیا جہاں ان کا تاریخی شعور حالیہ ترقی میں گم ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ان کے مطابق امارات اور یورپ میں فرق کرنا انسان کے لیے بے حد مشکل ہے۔تیل کا مالیاتی حسن امارات کی پہچان ہے۔دبئی کی جدت دبئی مال، آب ایکوریم، برج العرب،جمیرا ساحل، برج خلیفہ انسانی ترقی کے ناقابل یقین نمونے ہیں۔شارجہ کا کرکٹ اسٹیڈیم، مقام القصبہ کا تفریحی ماحول، عالیشان عمارات،برقی قمقموں کا عکس انسانی عقل کے شہکار ہیں۔ان کا انداز ملاحظہ ہو۔
متحدہ عرب امارات میں ہر ریاست ایک چھوٹا سا ملک ہے، جو اتحاد کی وجہ سے ایک گلدستہ کی طرح
نظر آتا ہے۔ہر ایک کی علاحدہ اپنی اپنی شناخت ہے اور اہمیت ہے،لیکن گلدان ایک ہونے کی وجہ
خوبصورت نظر آتا ہے۔ابوظہبی متحدہ عرب امارات کی سب سے بڑی ریاست ہے اور ملک کا
داراالخلافہ بھی ہے۔دبئی کا دنیا کے جدید شہروں میں شمار ہوتا ہے اور ملک کا سب سے بڑا شہر
بھی ہے۔دبئی سے ملحقہ شارجہ بھی تجارتی اور سیاحتی اعتبار سے متحدہ عرب امارات کی
اہم ریاست اور شہر ہے۔شارجہ کرکٹ کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔8
ابن کنول نے ازبکستان کےتاریخی اور قدرتی حسن کو بھی خاص طور پر اجاگر کیا ہے۔اسلامی تاریخی یادگاروں کی دوبارہ آرائش، روسی رسم الخط کی خطاطی، مولانا عارف دیگرنی کا مزار، خواجہ بہاء الدین نقشبند کا حجرہ،کنواں، زائرین کے لیے انتظامات، خواجہ عبدالخالق کی صوفیانہ تعلیمات، مقبرے، محراب،مساجد اور اسلامی طرز زندگی کےنمایاں پہلو ہیں جو ابن کنول نے تصوف کے رنگ میں پیش کیا۔
پروفیسر ابن کنول نے اپنے ہندوستانی اسفار کو بھی وطن پرستی کے تناظر میں بیان کیا ہے۔ان کے مطابق ہندوستان دنیا کا خوب صورت ترین ملک ہے جہاں کا ہر رنگ خود میں بے مثال ہے۔ہندوستان کے علاقوں کی زبان، موسم،قدرتی مناظر، تہذیب و ثقافت اور طرز زیست میں تنوع کا رنگ ہے۔ان کا پہلا سفر ممبئی کا تھا جہاں کا ساحل،فلمی دنیا، دلکش مناظر اور طبقاتی اونچ نیچ کا اظہار موجود ہے۔اس کے ساتھ حیدر آباد کے چار مینار،قطب شاہی خاندان کی خدمات، سالار جنگ میوزیم، قلعہ گولکنڈہ، ابراہیم باغ،گوتم بت کا مجسمہ اور رات کا نظارا عمدگی سے بیان ہوا ہے۔ان کا ایک انداز ملاحظہ ہو۔
حیدر آباد کو سلطان قلی قطب شاہ نے آباد کیا،اسی لیے اس کی تعمیر میں شاعرانہ مزاج شامل
ہے۔قطب شاہی خاندان نے اردو زبان وادب کی خدمت کا جو آغاز کیا وہ آج تک جاری ہے
چار مینار کے پاس ہی مکہ مسجد ہے جس میں شاہی خاندان کے افراد کی قبریں ہیں۔اس کے پیچھے
چومحلہ پیلس ہے جس میں نظام کا خاندان رہتا تھا،بہت خوبصورت محل ہے۔پرانی کاریں بھی
نمائش کے لیے رکھی ہوئی ہیں۔حیدر آباد میں سیاحوں کی دلچسپی کے لیے خاص مقام سالار جنگ
میوزیم ہے۔9
پروفیسر ابن کنول کے سفر ناموں میں زندگی کی مسلسل حرکت موجود ہے۔ان کا اسلوب بیان سادگی اور سلاست کا دل کش نمونہ ہے۔ان کی نگاہ ظاہر وپوشیدہ مناظر کو عیاں کرنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتی ہے۔وہ شہری و دیہی مناظر اور تاریخ کو اس انداز سے بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک نقشہ یا سفری گائیڈ بن کر فرد کو حال و ماضی سے آگہی دلاتا ہے۔ان کےہاں تاریخ بیان کرنے کا خاص اہتمام ہے جوان کا مخصوص ادبی انفراد ہے۔ قاری ان کے دیکھے ہوئے مناظر کیمرائی تکنیک اور تاریخ کی بدولت اپنے شعور کا حصہ بنا لیتا ہے۔ان کے سفر ناموں میں موجود تاریخ،معاشرت،تہذیب و ثقافت کا بیان،دلکش منظر نگاری اور نسان فہمی کے علاوہ آسان و عام فہم زبان موجود ہے جو ان کو باکمال تاریخی شعور کا حامل سفر نگار بناتا ہے۔ان کے سفر ناموں میں تخلیقی لطافت اور تیز بینی کا وہی فن موجود ہے جس کو ڈاکٹر بشری رحمن نے افسانے کا حسن قرار دیا ہے جس کی بدولت انھوں نے نئی زمینوں کو کمال مہارت سے دریافت کیا۔وہ لکھتی ہیں۔
سیاح کی تیز بینی ملک کی تہہ میں پہنچنے کی کوشش کرتی ہے اور اس کوشش
کا اظہار ایک اچھے سفر نامے کی بنیادی خصوصیت ہے اور اس سے سفر نامے
کو تخلیقی لطافت اور فنی جاذبیت حاصل ہوتی ہے بلاشبہ سفر نامہ نئی زمینوں
کی دریافت کا وسیلہ ہے۔10
پروفیسر ابن کنول اپنی تخلیقات کی بدولت اردو ادب میں ہمیشہ زندہ رہیں گے لیکن ان کے سفر ناموں میں جدت اور تاریخی و تخلیقی صلاحیت ان کا منفرد تعارف بن کر ادبی افق پر روشن رہے گی۔
حوالہ جات۔
1۔سعید احمد۔آزادی کے بعد اردو سفر نامہ۔کلاسیک آرٹ پریس،دہلی۔2012،ص9
2۔ابن کنول،پروفیسر۔چار کھونٹ۔کتابی دنیا۔دہلی۔2022۔ص 37
3۔ ایضا ص81
4۔ایضا۔ص128
5۔ایضا،ص151
6۔ایضا۔ص189
7۔ایضا ص202
8۔ ایضا ص234
9۔ایضا،ص 290
10۔بشری رحمن،ڈاکٹر۔اردو میں غیر مذہبی سفر نامے۔شاندار پریس،گورکھپور،ص37۔
٭٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!