ابن کنول کی شخصیت اور ادبی خدمات
ابن کنول کی شخصیت اور ادبی خدمات
ڈاکٹر محمد شاہد زیدی ، اسٹنٹ پروفیسر اردو
گورنمنٹ پی ۔ جی۔ کالج
سوائی مادھوپور (راجستھان )
رابطہ:9461103904
m.zaidishahid@gmail.com
ابن کنول کا نام اردو افسانوی ادب میں محتاز تعارف نہیں ہے۔ وہ مایہ ناز ادیب، محقق، ناقد،افسانہ نگار ،خاکہ نگار،ڈرامہ نگار،انشائیہ پر داز، مفکر،شاعر ،مضمون نگاراور درجنوں کتابوں کے مصنف کے ساتھ ساتھ ہر دلعزیز استاد بھی تھے۔ ابن کنول کا انداز بیان اور موضوعات ان کے ہم عصروں سے مختلف ہیں ۔ ابن کنول کے ادبی کارناموں پر گفتگو کرنے سے پہلے ان کے خاندانی پس منظر اور تعلیمی سفر پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے۔ آپ 15 اکتوبر 1957کو ضلع مرادآباد کے شہر بہجوئی میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل نام ناصر محمد کمال تھا۔ آپ کے ناصر محمد کمال سے ابن کنول بننے کی وجہ ان کے والد کا تخلص تھا ان کے والد محترم قاضی شمس الحسن کنول ڈبائیوی ایک معتبر قومی شاعر تھے اور ادبی حلقوں میں کنول کے نام سے پہچانے جاتے تھے۔اسی مناسبت سے ناصر محمد کمال نے ادبی اور قلمی نام ابن کنول ڈبائیوی کے طور پر کنول اختیار کیا۔ان کے اجداد شاہجہاں کے عہد میں ہندوستان آئے اور قاضی کے عہدے سے نوازے گئے۔ حکومت کی طرف سے ان کو جاگیر دی گئی۔بعد میں آپ کے بزرگ قصبہ ڈبائی (بلند شہر)میں آکر رہائش پذیر ہوے۔ آپ کا خاندان علمی و ادبی سرگرمیوں کی وجہ سے مشہور تھا ۔آپ کے پر دادا قاضی ادہم علی فارسی اور سنسکرت کے عالم تھے۔ آپ کے دادا قاضی شریعت اللہ اپنے دور کے قابل وکیل تھے۔
ابن کنول کی ابتدائی تعلیم کا آغاز 1962 میں بدایوںکے قصبہ گنور میں ایک اردومیڈیم اسلامیہ اسکول سے ہوا ۔ جہاں آپ نے پہلی سے پانچویںجماعت تک تعلیم حاصل کی۔مزید تعلیمی سفر کا باقاعدہ آغاز علی گڑھ سے ہوا جہاں 1967 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے منٹو سرکل اسکول میں داخل ہوئے۔ 1972 میں ہائی اسکول مکمل کرنے کے بعد پری یونیورسٹی سائنس میں داخلہ لیا۔ بقول ابن کنول” والدین میڈیکل کالج میں داخلہ دلانا چاہتے تھے۔ دوسرے لوگوں کی طرح ان کی بھی خواہش تھی کہ ان کا لڑکا بڑا ہو کر ڈاکٹر یا انجینئر بنے مگر ایسا نہ ہوا آخر کار بی اے میں اردو لے کر بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد 1978 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ یہاں کی علمی فضا سے بھرپور استفادہ کیا۔ آپ خوش قسمت تھے کہ آپ کو علی گڑھ میں اردو ادب کی قدآور ہستیوں سے کسب فیض کا موقع ملا جن ادبی ہستیوں کی صحبت ابن کنول کو میسر رہی ان میں پروفیسر خورشید الاسلام،پروفیسر قاضی عبدالستار، ڈاکٹر خلیل الرحمن اعظمی، پروفیسر منظر عباس، پروفیسر شہریار، پروفیسر نورالحسن نقوی،پروفیسر عتیق احمد صدیقی،پروفیسر نعیم احمد، پروفیسر اصغر عباس شامل ہیں۔ 1978 میں ایم اے کرنے کے بعد آپ نے دہلی یونیورسٹی کا رخ کیا جہا ں آپ نے 1979میں ایم فل(اردو) کیا اور وہیں سے 1984 میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔اس کے بعد آپ نے دہلی یونیورسٹی سے اپنا رشتہ اس طرح قائم کیا کہ پھر اس دن سے لے کر آخری دم تک قائم رہا۔ پی ایچ ڈی میں آپ نے ڈاکٹر تنویر احمد علوی کی نگرانی میں “بوستان خیال کا تہذیبی و لسانی مطالعہ “کے عنوان سے تحقیقی کام کیا۔دہلی میں آپ کو خواجہ احمد فاروقی اور مشہور ترقی پسند نقاد قمر رئیس سے بھی شرف حاصل کرنے کا موقع ملا ۔ آخر میں دہلی کو ہی آپ نے اپنی علمی، ادبی اور قلمی سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔
ابن کنول تعلیم کے زمانے سے ہی ادبی دنیا میں اپنی پہچان بنا چکے تھے۔ تعلیمی سلسلہ ختم ہونے کے بعد جلد ہی آپ کو دہلی یونیورسٹی میں ملازمت مل گئی۔پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد آپ 1985 میں سی ایس آئی آر کی طرف سے شعبہ اردودہلی یونیورسٹی میں ریسرچ سائنٹسٹ کے طور پر آپ کو ملازمت ملی۔اپنی صلاحیتوں کے دم پر ترقی کرتے ہوئے 1987 سے 1990 تک دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں ریسرچ ایسوسی ایٹ کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔1990 میں ہی مستقل لیکچر کے عہدے پر آپ کی تقرری ہوئی۔ اس کے بعد 1998 میں ریڈر اور جنوری 2006 میں ترقی کرتے ہوئے پروفیسر اور 2018 میں سینئر پروفیسر کے عہدے پر پہنچے۔آپ نے 2005 سے 2008 تک اور بعد میں ریٹائرمنٹ تک صدر شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی کے فرائض بھی انجام دیے ۔آپ دہلی یونیورسٹی میں درس و تدریس سے 37 سال وابستہ رہے۔ایک طویل عرصے تک دہلی یونیورسٹی میں تعلیمی خدمات انجام دینے کے بعد 31 اکتوبر 2022 کو صدر شعبہ اردو کے عہدے سے سینئر پروفیسر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔علمی منصبی حصولیابیوں کے باوجود ابن کنول ایک سادہ زندگی گزارنے کے قائل تھے۔ وہ ایک ملنسار ہنس مکھ انسان تھے اپنے شاگردوں کے ساتھ ان کا معاملہ ایک استاد سے بڑھ کر دوست کا ہوتا تھا۔وہ سینئر استاد کی حیثیت سے طلبہ و اساتذہ میں یکساں مقبول تھےان کی نگرانی میں تقریبا 38 پی ایچ ڈی اور50 ایم فل کے تحقیقی مقالے تحریر کیے گئے ۔ملک اور بیرون ملک آپ مختلف یونیورسٹیوں میں ممتحن اور بورڈ آف اسٹڈیز کے رکن بھی رہے۔
ابن کنول ایک علمی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے والد کنول ڈبائیوی بھی ایک قومی شاعر تھے۔ظاہر ہے کہ ان کی تربیت میں رہ کر آپ کے ادبی ذوق کو جلا ملی ہوگی۔اسکول کے زمانے میں ہی آپ چھوٹی چھوٹی کہانیا لکھنے لگے تھے۔ آپ کے اسکول کے ساتھی اسلم حنیف شاعری کیا کرتے تھے اور آپکہانی لکھتے تھے۔کبھی کبھی آپ بھی ان سے متاثر ہو کر شاعری میں طبع آزمائی کر لیا کرتے تھے۔ ابن کنول کے ادبی ذوق کو جلا بخشنے میں علی گڑھ کی ادبی فضا کا بڑا رول رہا ہے ۔ایم اے میں آپ “انجمن اردوئے معلی”کے سیکریٹری رہے۔ابن کنول نے اسی زمانے میں انسان کے چاند پر قدم رکھنے پر پہلی نظم کہی تھی جو ماہنامہ نور (رامپور)میں شائع ہوئی۔ لیکن جلد ہی ابنکنول سمجھ گئے کہ ان کا حقیقی میدان شاعری نہیں افسانہ ہے۔اور اپنی پوری توجہ افسانہ نگاری پر صرف کر دی بقول ابن کنول:
جیسا کہ میں نے کہا ک گھر میں ادبی ماحول تھا،پھر بچپن ہی سے کچھ دوست بھی ایسے ملے ،اسکول ہی کے زمانے میں شعر موزوں کرنا شروع کر دیا تھا۔چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھی،گنور میں اس وقت مشاعرے بہت ہوتے تھے ۔ابرا حسنی گنوری اس وقت موجود تھے۔والد مرحوم مشاعروں میں شرکت کرتے تھے۔ میں بھی شریک ہوتا تھا۔علی گڑھ آنے کے بعد باقاعدہ افسانے لکھنے شروع کر دیے تھے۔علی گڑھ کے ماحول کا بہت اثر ہوا۔”
(بحوالہ اردو فکشن اور علی گڑھ،ڈاکٹرفرح جاوید ایچ ایس آفسیٹ پرنٹرس، دہلی 2012،ص:252)
باقاعدہ افسانہ لکھنے کا آغاز 1972 سےہوا۔ ابتدا میں ناصر کمال کے نام سے افسانے لکھے پھر 1975 سے ابن کنول کے قلمی نام سے افسانے لکھنے لگے ۔آپ کا پہلا مطبوعہ افسانہ”اپنے ملے اجنبی کی طرح”ہے جو 1974میں نامی رسالے آفتاب سحر (سکندرآباد)میں شائع ہوا۔علی گڑھ میں زمانہ تعلیم کے دوران آپ کو قاضی عبدالستار کی سرپرستیی مل گئی ۔آپ کے افسانے ملک کے معروف ادبی رسالوں میں شائع ہونے لگے جن میں شاعر، عصری ادب، آہنگ، صبح ادب اور نشانات وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ بقول ابن کنول:
“طالب علمی کے زمانے سے اردو کے مختلف رسائل میں افسانے چھپنے شروع ہو گئے تھے ،شاعر، عصری ادب، آہنگ، جیسے رسائل میں اشاعت سے میرا کافی حوصلہ بڑھا اور اسکے علاوہ علی گڑھ میں جو ادبی محفلیں منعقد ہوئی تھیں ان میں اکثر میں بھی افسانے سنایا کرتا تھا۔”
(ماہنامہ، ماہ نور، 2007،ص:23)
1976 میں ان کا ایک اور افسانہ “بند راستے” رسالہ عصری ادب میں شائع ہواتو ڈاکٹرمحمدحسن نے داد و تحسین دی اس سے ابن کنول کو بڑا حوصلہ ملا۔دہلی یونیورسٹی میں داخل ہونے کے بعد بھی افسانہ نگاری کا سلسلہ برقرار رہا یہاں آکر پروفیسر قمر رئیس اور ڈاکٹر تنویر احمد علوی کی کی تربیت میں آپ کے اندر تنقیدی اور تحقیقی صلاحیتیں پروان چڑھیں۔ابن کنول نے افسانہ، تنقید اور تحقیق ہر میدان میں ایک سے بڑھ کر ایک تخلیق پیش کی ہیں ان کا ہر کام نئی منزل کا پتا دیتا ہے۔ان کے افسانے اور علمی و ادبی مضامین ملک و بیرون ملک کے رسالوں میں شائع ہوئے ہیں۔ آپ نےبہت سی قومی اور بین الاقوامی سمیناروں میںبطور خصوصی ممبر شرکت کی ہیں۔اس کے لئے آپ نے کئی غیر ملکی سفر کئے جن میں امریکا،ماریشس، انگلینڈ، پاکستان،متحدہ عرب امارات، ازبکستان اور روس کے سفر شامل ہیں۔آپ نے ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں واقع یونیورسٹیوں کی جانب سے منعقدہ سمیناروں میں بھی شرکت کی۔اس کے علاوہ بطور ممتحن بھی آپ نے ملک اور بیرون ملک کی یونیورسٹیوں کا دورہ کیا۔ ابن کنول کے اس مختصر سے سوانحی خاکے کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک قلم کار ہیں وہ اپنے قلم کا ذائقہ بدلنے کے لیے مختلف اصناف میں سے جسے بھی چاہتے ہیں چنتے ہیں اور اپنے اندر کی آواز کو اپنے قاری تک پہنچاتے ہیں۔ ان کی تحریریں قاری کو عزم و حوصلہ دیتی ہیں۔ابن کنول کے یہاں آج کے قلم کاروں کو سیکھنے کے لیے بہت کچھ موجود ہے۔
ابن کنول نے اپنی قلمی سرگرمی کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا انہوں نے عام لوگوں کے مسائل اور مشکلات کو مرکز میں رکھتے ہوئے افسانے لکھے۔ابن کنول اپنے قلمی نام کی طرح اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے بھی منفرد تھے۔ وہ اردو دنیا میں افسانہ نگار،خاکہ نگار،محقق اور مرتب کے ساتھ ساتھ ایک منجھے ہوئے تنقید نگار کے طور پر بھی پہچانے جاتے ہیں۔انہوں نے بیش بہا علمی و ادبی سرمایہ چھوڑا ہے ۔ ان کی ادبی خدمات ناقابل فراموش ہیں اردو کی خدمت کے حوالے سے ہی وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں وائیوا کے لیے گئے تھے جہاں 11 فروری 2023 کو انہیں دل کا دورہ پڑا اور اپنے مالک حقیقی سے جا ملے عل گڑھ میں ہی انہیں سپرد خاک کیا گیا۔ان کے پسماندگان میں اہلیہ(صبیحہ ساغر) ایک فرزند(محمد عالش) اور چار بیٹیوں (اریبہ ناصر،زیانہ ناصر ،ارشیہ ناصر اور عذبہ ناصر)کے ساتھ ساتھ تقریبا دو درجن سے زیادہ کتابیں بھی شامل ہیں۔ان کی تخلیقی کاوشوں میں افسانے، ڈرامے، تحقیقی وتنقیدی مضامین، خاکے،انشائیے اور سفرنامے شامل ہیں۔ ابن کنول نے اردو ادب کی خدماتکے سلسلے میں جن کتابوںسے ہمیں سرفرازکیا وہ تحریرکردہ کتابیںادب والوںکے لئے ایک رہنماکی صورت میں ہمارےسامنےموجودہیںجن کی تفصیل درج ذیل ہے:
1۔ تیسری دنیا کے لوگ ( افسانوی مجموعہ) 1984، 2۔ ہندوستانی تہذیب (بوستان خیال کے تناظر میں)1988، 3۔ ریاض دلربا (تحقیق) 1990، 4۔ آو اردو سیکھیں(قاعدہ) 1993، 5۔ سیرت مسیح (مرتب) 1998، 6۔ بند راستے(افسانوی مجموعہ)2000، 7۔ داستان سے ناول تک(تنقید) 2001، 8۔ داستان سے ناول تک (اضافہ شدہ) 2003، 9۔انتخاب سخن (اردو شاعری کا نیا انتخاب) 2005، 10۔منتخب غزلیات (امیر خسرو سے ناصر کاظمی تک)2005، 11۔ منتخب نظمیں 2005، 12۔ اصناف پارینہ (مثنوی، قصیدہ، مرثیہ،مرتب)2005، 13۔ تنقید و تحسین (تنقیدی مضامین) 2006، 14۔ تحقیق و تدوین (مرتب) 2006، 15۔ باغ وبہار (مقدمہ ومتن،مرتب) 2008، 16۔ پہلے آپ (ڈرامے) 2008، 17۔ نظیر اکبر آبادی منتخب شاعری (مرتب) 2008، 18۔مضراب(کلیات کنول ڈبائیوی، مرتب) 2010، 19۔ اردو افسانہ(افسانوی تنقید)2011، 20۔ مونو گراف (میر امن) 2012، 21۔ اردو لوک ناناٹک روایت و اسالیب(مرتب) 2014،22۔ پچاس افسانے(افسانوی مجموعہ)2014، 23۔ نظیر اکبر آبادی (ہندی)2014، 24۔ خانہ بدوش 2014، 25۔ تنقیدی اظہار(تنقیدی مضامین)2015، 26۔ فسانہ عجائب (مقدمہ ومتن) 2016، 27۔ اہل الکہف اور الحلم (افسانے) عربی مترجم احمد قاضی، مصر، 2018، 28۔ اردو شاعری (تنقید) 2019، 29۔ بزم داغ (ڈرامے) 2020، 30۔ داستان کی جمالیات 2020، 31۔ کچھ شگفتگی کچھ سنجیدگی (خاکے) 2020، 32۔ بساط نشاط دل(انشائیے)2021، 33۔چار گھونٹ (سفرنامے) 2022، 34۔ تبریک(تقاریظ)۔
آپ کو اپنی ادبی خدمات کے لئےکئی سرکاری انجمنوں نے انعامات واعزازات سے نوازا جن میں:
1۔ افسانہ بند راستے پر 1979 میں دہلی یونیورسٹی نے ہریش چندر کٹھپالیا گولڈ میڈل دیا۔ جسے سابق نائب صدر جمہوریہ جناب بی ڈی جتی نے اپنے ہاتھوں سے پیش کیا۔
2۔ تیسری دنیا کے لوگ، ہندوستانی تہذیب بوستان خیال کے تناظر میں، داستان سے ناول تک، بند راستے، تنقید و تحسین اور اردو افسانہ پر اتر پردیش اردو اکادمی، بہار اردو اکادمیاور مغربی بنگال اردو اکادمی نے 1985میں انعامات سے نوازا۔
3۔ سرسید ملینیم ایوارڈ، دہلی برائے اردو فکشن 2001۔ ڈاکٹر من موہن سنگھ نے پیش کیا۔
4۔ دہلی اردو اکادمی ایوارڈ 2004
5۔ہریانہ اردو اکادمی کا کنور مہندر سنگھ بیدی ایوارڈ برائے ادبی خدمات 2007۔ گورنر ہریانہ جناب اخلاق الرحمن قدوائی کے ہاتھوں ملا۔
6۔ دہلی اردو اکادمی فکشن ایوارڈ 2008دہلی کی وزیر اعلی شیلا دکشت کی طرف سے ملا۔
7۔ دہلی اردو اکادمی کتاب ایوارڈ 2010
8۔ دہلی اردو اکادمی کتاب ایوارڈ 2012
9۔ پہچان اردو ایوارڈ، جامعہ اردو علی گڑھ 2016
10۔عبدالغفور نساخ ایوارڈ، مغربی بنگال اردو اکادمی کلکتہ 2017
11۔غالب اردو ایوارڈ 2022
12۔ اودھ فاونڈیشن لکھنو نے بھی ایوارڈ سے نوازا 2022
انہیں داستان کی تنقید میں ایک امتیاز حاصل تھا ہم عصر افسانہ نگاروں میں جن لوگوں نے اپنے منفرد لب و لہجے سے اردو دنیا میں اپنی پہچان بنائی ان میں ابن کا نام سرفہرست تھا ابن کنول کے افسانوں کی سب سے اہم خصوصیات جو ان کو دوسرے افسانہ نگاروں سے ممتاز کرتی ہے وہ ان کا داستانوی رنگ و آہنگ ہے۔انہوں نے کئی اصناف ادب میں طبع آزمائی کی لیکن ان کی محبوب اصناف افسانہ اور خاکہ رہی ہیں۔
پروفیسرابن کنول کی علمی و ادبی خدمات پچھلی پانچ دہائیوں پر محیط ہے۔آپ کی علمی و ادبی کاوشوں پر تبصرہ کرتے ہوئے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے استاد سابق ڈائریکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اور ورلڈ اردو ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے پروفیسر ابن کنول کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ :
اردو ادب کا ایک ایسا ستارہ غروب ہوا جس کا متبادل ممکن نہیں جو اپنی ادبی خدمات، تنقیدی بصیرت اور دانشورانہ نظریے اور اپنے مخلصانہ رویوں کی وجہ سے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔”
(آئی این بیورو، دہلی 16فروری 2023)
معروف فکشن نگار اسلم جمشیدپوری کا ابن کنول کے اسلوب اور طرز نگارش کے بارے میں کہنا ہے کہ :
افسانہ نگاری میں وہ 1970 کے بعد کے اکیلے ایسے افسانہ نگار ہیں جنہوں نے انتظار حسین کے اسلوب میں افسانے لکھے۔ داستانوی اسلوب کو آگے بڑھانے کا کام ابن کنول نے کیا۔ ان کے تین افسانوی مجموعے ان کے اسلوب اور انوکھے پن کے ثبوت کے لیے کافی ہیں۔”
( جمال عباس فہمی، قومی آواز، دہلی 13 فروری 2023)
اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر یوسف خشک نے ابن کنول کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ:
پروفیسر ابن کنول نے بیش بہا علمی و ادبی سرمایہ چھوڑا ہے، ان کی ادبی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔”
(قند یل، اسلام آباد، 15 فروری 2023)
قومی اردو کونسل کے ڈائریکٹر پروفیسر شیخ عقیل احمد نے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ:
ابن کنول محبت اور شفقت کی ایک جلی علامت تھے۔ ان کی موت سے اردو زبان و ادب کا ناقابل تلافی خسارہ ہوا ہے۔ ابن کنول نے مختلف اصناف ادب میں طبع آزمائی کی لیکن داستان ان کا خاص موضوع تھا۔ اس کے علاوہ افسانے،خاکے، انشائیےاورتحقیق و تنقید پربھی انہوں نے گراں قدر سرمایہ چھوڑا ہے۔ وہ ایک ہمہ جہت فنکار تھے۔ ان کی تخلیقات انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گی ۔”
یو این آئی اردو سروس،دہلی، 13 فروری 2023
٭٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!