ابن کنول (خاص وضع قطع کا مخلص انسان)

ابن کنول

(خاص وضع قطع کا مخلص انسان)

صغیر افراہیم

سابق صدر شعبہ اردو ، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ

 دراز قد، بھرا ہوا بدن، گندمی رنگ، گول چہرہ، سیال بال، چوڑی پیشانی، روشن آنکھیں، موٹی ناک، خشخشی مونچھیں، مُسکراتے لب، مختصر تھوڑی، چھوٹی گردن مگر کشادہ سینہ اور اُس سے بھی زیادہ وسیع قلب ۔ یہ ہے شبیہ باغِ سرسید کے اُس نونہال کی جسے بچپن کے دوست اور عزیز واقارب ناصر محمودکمال اور دانشورانِ ادب ابن کنول کے نام سے جانتے پہچانتے ہیں۔ ناصر اور محمود کے جملہ صفات وکمالات سے مزین، کنول کی طرح کھِلتے ہوئے فقرے اور تھرکتے ہوئے جملے، پچھلی کئی دہائیوں سے ہمارے کانوں میں رس گھول رہے تھے۔ وہ طالب علمی کا زمانہ رہا ہو، بادِ صبا کی تیزوتند ملازمت کا دور یا پھر سبک دوشی کے بعد کے پُرسکون وفرحت بخش لمحات۔ پروفیسر ابن کنول محفل اپنے زعفران زار طرزِ بیان اور اندازِ تخاطب سے ہر جگہ چھائے رہتے تھے، اِس فہمائش کے ساتھ    ؎

اکیلا ہوں مگر آباد کردیتا ہوں ویرانہ

بہت روئے گی میرے بعد میری شام تنہائی

حسابِ دوستاں کے طویل سائے ہیں اور سبھی خوشگوار یادوں سے مزین ۔ اُن کو چُننے اورترتیب دینے کی استطاعت نہیں پارہا ہوں۔ رزم ہو یا بزم،وقفہ وقفہ سے مزاج کی پُھل جھڑیاں چھوڑنے والے اِس مخلص دوست کا مزاج ظریفانہ اورانداز کجکلاہانہ تھا۔ چہرہ سے متانت ٹپکتی تھی۔ ابن کنول کی شخصیت کوصیقل کرنے میں بدایوں کی روحانیت وقناعت، منٹوسرکل کی ظرافت وشرارت، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ذہانت وفطانت اور دہلی کی معاملہ فہمی اورمصلحت اندیشی رچی بسی تھی۔ قاضی شمس الحسن کنول ڈبائیوی کے گھر کی پرورش اور صحیح سمت میں آگے بڑھنے کی تلقین کے ساتھ ابن کنول کو اساتذہ بھی ایسے ملے جو قابل رشک تھے۔ اُن کا حلقۂ احباب بھی چُنندہ تھا۔ میرا، اُن کا ساتھ مادرِ درس گاہ علی گڑھ میں بھی رہا اور علی گڑھ سے باہر بھی، اُن مذاکروں اور مباحثوں میں بھی جہاں اتفاق اور اختلاف سے گزرنا پڑتا مگر یہ شریفانہ تربیت ہی کا اثر تھا کہ اُن کی خوش اطواری،خوش بیانی اور خوش اخلاقی میںکبھی فرق نہیں آیا۔ وہ جامہ زیب بھی تھے،گھر میںاور مہمان خانہ میں عموماً کُرتا اور علی گڑھ کٹ پاجامہ۔ باہر، محفلوں میں شرٹ، کوٹ اور کبھی کبھی شیروانی۔ پیراہن کے اعتبار سے جسم کی جو آخری زینت بنی وہ چیک کی شرٹ اور انگلش کیپ۔

مرحوم ۱۵؍اکتوبر ۱۹۵۷ء کو قصبہ بہجوئی، ضلع مرادآباد میں پیدا ہوئے۔ والد قاضی شمس الحسن سرکاری ملازم اور معروف ادیب وشاعر تھے۔ کنول ڈبائیوی کے نام سے شاعری کرتے تھے۔ ڈراموں اور نوٹنکیوں پر بھی ان کا تحقیقی کام ہے۔ دادا قاضی شریعت اللہ عالم باعمل تھے۔ اُن کے اجداد مغل شہنشاہ شاہ جہاں کے عہد میں ہندوستان آئے اور قاضی کے عہدہ پر سرفراز کیے گئے۔ اِس علمی ماحول میں ابن کنول (ناصر محمود کمال) کی پرورش وپرداخت ہوئی۔ گنور، ضلع بدایوں کے اسلامیہ اسکول میں ابتدائی تعلیم پانچویں جماعت تک حاصل کرنے کے بعد، ۱۹۶۷ء میں علی گڑھ کے سیدنا طاہر سیف الدین اسکول (منٹوسرکل) میں داخلہ لیا۔ ۱۹۷۲ء میں ہائی اسکول کرنے کے بعد پری یونیورسٹی سائنس میں داخل ہوئے۔ ۱۹۷۸ء میں اردو سے ایم۔اے۔ کیا۔ اگلے سال دہلی یونیورسٹی سے ایم۔فل کے بعد پھر دہلی ہی کے ہوکر رہ گئے۔ علی گڑھ سے کچھ ایسا تعلق تھاکہ آخری دن بھی علی گڑھ ہی میں گُزرا۔    ع

پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

وقت گُزرجاتا ہے، اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے رنگ برنگی یادوں کا طویل سلسلہ۔ ماضی قریب سے ماضی بعید کی طرف مڑ کر دیکھیں تو وہ ناصر محمود کمال کے نام سے اسکول کے ایام میں لکھنے لگے تھے۔یونیورسٹی میں آکر اُن کی تحریر میں نکھار پیدا ہوا۔ ادبی جلسوں میں مضامین سُنانے لگے۔ ’’انجمن اردوئے معلی‘‘ کے سکریٹری ہوئے تو خوب محفلیں جمائیں اور اسی زمانہ میں ’’ابن کنول‘‘ نام اختیار کیا۔ قاضی عبدالستار کی نگہہ داشت میں اُن کے افسانوں میں مزید نکھار آیا ۔ پہلا افسانوی مجموعہ ’’تیسری دنیا کے لوگ‘‘ ۱۹۸۴ء میں اور ’’بند راستے‘‘ ۲۰۰۰ء میں شائع ہوا۔ منتخب افسانوں کا اُن کا انتخاب بھی منظر عام پر آچکا ہے۔ قدروں کے زوال اور رشتوں کے بکھراؤ کو بنیادی موضوع بنانے والے اِس انتخاب میں بچھڑنے کا غم، کھوجانے کی کسک اور گلے لگانے کی تڑپ شدّت سے ملتی ہے۔ موجودہ منظر نامے کے تناظر میں دیکھیں تو ’’بند راستے‘‘ میں وہ بڑی سادگی سے ہندوپاک کی بدلتی صورت حال کا ذکر کرتے ہیں۔ تبدیلئ وقت کے تئیں وہ ماضی، حال اور مستقبل کی قصباتی فضا کو مدغم کرتے ہوئے دکھاتے ہیں کہ مٹی کے ٹوٹے پھوٹے گھروں کی جگہ سیمنٹ کے پختہ مکانوں نے لے لی ہے۔ سڑک اورگلیوں میں لگے ہوئے بجلی کے اونچے اونچے کھمبے پُرانی لگی ہوئی لالٹینوں کے منہ چڑھارہے ہیں۔ لیکن کیا ترقی بس اِسی کا نام ہے۔آزادی کے خواب کی تعبیر وتفسیر یہی ہے؟ کہ خاں صاحب کی ڈیوڑھی، لالہ جی کے گودام میں بدل چکی ہے۔ داغ داغ اُجالے کی دُھند سے نکلتی ہوئی اُن کی معروف کہانی ’’بند راستے‘‘ کا مرکزی کردار ’’خالد‘‘ محسوس کرتا ہے کہ تبدیلی کے اس برق رفتار دور میں بھی اگر کچھ نہیں بدلا ہے تو چاہت اور محبت کا رشتہ جو ذہنی تناؤ کے باوجود پائیدار ہے۔ اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اب رحیم گڑھ، زمین دار کے رحم وکرم پر نہیں ہے۔ حق وانصاف کے دائرے وسیع ہوئے ہیں۔ البتہ شدّت پسندی کی بنا پر تعصب، تنگ نظری اور استحصالی رویوں کا غبار نئی شکل میں اُبھررہا ہے جو مساوات اور یکجہتی کی فضا کو مکدر کررہا ہے۔

خیال وخواب کی تصوراتی دُنیا میں بسنے والوں کو وہ اپنے تحقیقی مقالہ بہ عنوان ’’بوستانِ خیال کا تہذیبی ولسانی مطالعہ‘‘ میںایک نئے طلسماتی ماحول سے آگاہ کرتے ہیں ۔انھوںنے یہ لائق قدر مقالہ ڈاکٹر تنویر احمد علوی کی نگرانی میں لکھا تھا۔ علوی صاحب فارسی اور اردو زبان کی باریکیوں سے واقف، فنِ طب کے رمز آشنا، ہندی کے شناسا اوراصول تحقیق وتنقید کے نبض شناس تھے۔

ابن کنول نے اپنے دیرینہ شوق کی بنا پر داستانوں کا عمیق مطالعہ کیا تھا۔ وہ قدیم ترین قصوں سے لے کر جدید افسانوں کو اپنے احاطۂ تحریر میں لائے۔ تحقیق کے جدید طریقِ کار پر انھوںنے ان گنت مقالے پیش کیے۔ اس موضوع پر ’’تحقیق وتدوین‘‘ کے عنوان سے ان کی ایک ضخیم کتاب بھی ہے ۔ قدرت کے حسین مناظر سے عشق اور سیروسیاحت کے شوق نے ابنِ بطوطہ کے اسفار کی ورق گردانی پر مجبور کیا۔ اِس ذہنی سفر نے عملی شکل اختیار کی تو بخارا، سمرقند،تاشقنداور وسط ایشیا کے دوسرے شہروں کی خوب سیر کی۔    ؎

سیر کر دنیا کی غافل زندگانی پھرکہاں

 پر عمل کرتے ہوئے یورپ، امریکہ وافریقہ ہی نہیں مکہ اورمدینہ کی بھی زیارت کی۔

اسفار کی نیرنگیوںنے خاکوں کی شکل اختیار کی تو کووڈ-۱۹ کے زمانے میں ایک سے بڑھ کر ایک خاکہ قلم بند کیا۔ ہر خاکہ لطفِ زبان اور لطفِ بیان کا ایسا مرقع، جس میں ادبی نکات اور مزاحیہ عناصر مدغم ہوتے ہیں اورصاحبِ کردار کی شخصیت نمایاں ہوتی ہے۔ وہ خاکوں کی ابتدا نہایت شگفتہ انداز سے کرتے، پھردرمیان میں سادہ اور عام فہم انداز میں ایسی چٹکیاں لیتے کہ قاری وسامع باغ باغ ہوجاتا۔

اِس شگفتہ مزاج شخصیت سے میرے مراسم ۱۹۷۵ء سے شروع ہوئے تھے۔ شعبۂ اردو کے علاوہ ڈاکٹر نعیم احمد اورقاضی عبدالستار کے یہاں اُن سے گفتگو رہتی تھی۔ میں آفتاب ہال کے ممتاز ہوسٹل میں رہتا تھا۔ شام کو ٹہلتے ہوئے شمشاد مارکیٹ ضرور جاتا تھا۔ یونیورسٹی کی یہ مارکیٹ انوپ شہر روڈ پر واقع ہے۔ سوئمنگ پول کے سامنے صاحب زادہ آفتاب احمد خاں کی کوٹھی ہے۔ اِسی آفتاب منزل کے ایک حصہ میں ڈاکٹر نعیم احمد رہتے تھے۔ تھوڑے فاصلے پر سلیمان ہال کے صدر دروازہ کے بالمقابل یونیورسٹی کی عمارت کے بالائی حصہ میں قاضی عبدالستار رہتے تھے۔ ان کی رہائش کے نیچے کے حصے میں کشن سنگھ کی کتابوں کی دوکان ’’کتاب گھر‘‘ کے نام سے تھی۔

حبیب ہال سے تصویر محل تک، انوپ شہر روڈ کے ڈیڑھ کلو میٹر کا یہ حصّہ شام کو طلبہ سے آباد رہتا۔ چاہے بُوم کلب کے متوالے ہوں یا سنڈے کلب کے دیوانے، کسی نہ کسی ڈھابے کی رونق میں اضافہ کرتے نظر آتے۔ پیغام آفاقی، آشفتہ چنگیزی، فرحت احساس، خورشیداحمد، نسیم احمد، کفیل احمد، غضنفر، مہتاب حیدر نقوی، غیاث الرحمن، طارق چھتاری، سید محمداشرف، ذوالفقار علی جیسے ادب نواز طالب علم،جن میں کچھ نیا کرنے اور ادبی اُفق پر چھاجانے کی لگن۔ ان بھری پری اور رونق دارمحفلوں کوچھوڑ کر، ابن کنول دہلی چلے گئے۔ اچانک اُن کے چلے جانے کا سب ساتھیوں نے درد محسوس کیا۔ دہلی میں جلد ہی اُنھیں تنویر احمد علوی اورقمر رئیس جیسے اساتذہ میسّر آئے مگر علی گڑھ کے دوست احباب نہیں مل سکے۔ اِسی کسک کی وجہ سے وہ ہمیشہ علی گڑھ کے احباب سے ملنے کی کوئی نہ کوئی صورت نکالا کرتے تھے   ؎

تم آگئے زہے قسمت تمہاری عمر دراز

تمہارا نام لیا تھا ابھی ابھی میں نے

اپنی وضع خاص کے اِس مُخلص انسان نے زندگی کی آخری رات بھی علی گڑھ کی نمائش میں گُزاری۔ ۱۱؍فروری بروز سنیچر شعبۂ اردو میں آئے ۔ اپنے دوست سید محمدامین سے ہنستے، مسکراتے، قہقہے لگاتے، جمال پور کے لیے رُخصت ہوئے۔ جمال پور میں اُن کی بیگم ان کے سب سے بڑے بھائی قاضی جاوید ناصر کے یہاں ٹھہری ہوئی تھیں۔ ظہر کی نماز کے لیے وضو کیا مگر قلب کے شدید دورہ نے مزید مہلت نہیں دی بقول ظفرؔ زیدی    ؎

چل دیا ایک اور پتہ ٹوٹ کر

آندھیوں کے دوش پر تکیہ کیے

ہنستا، مسکراتا ، نئے نئے تقاضوں کو قبول کرنے والا یہ خوبصورت انسان ایسی راہ پر گامزن ہوا کہ   ؎

درپیش وہ سفر ہے شناسا جہاں نہیں

نکلے ہیں خالی ہاتھ لئے اپنے گھر سے ہم

پروفیسرصغیر افراہیم

سابق صدر شعبہ اردو

وسابق مدیر تہذیب الاخلاق

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ۔۲

s.afraheim@yahoo.in

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.