ابن کنول:اردو ادب کا ایک روشن باب

ابن کنول:اردو ادب کا ایک روشن باب

                   تنویر احمد

    ریسرچ اسکالرشعبہ اردو

    دہلی یونیورسٹی،دہلی-۱۱۰۰۰۷

    رابطہ نمبر:۶۰۰۶۴۹۹۳۵۲

          اردوادیبوں میں جنھوںنے درس و تدریس کے ساتھ ساتھ ادبی دنیا میں بھی اپنے نقوش ثبت کیے ہیں،ان میںایک نمایاں نام پروفیسر ابن کنول کا ہے۔ پروفیسرابن کنول کاشماراردوکے ممتازادیبوں میں ہوتاہے،وہ تخلیقی ذہن کے مالک کثیر الجہات ادیب تھے۔ابن کنول بیک وقت افسانہ نگار،خاکہ نگار،انشائیہ نگار،سفرنامہ نگار،ڈرامہ نگار،ناقد،محقق اورشاعرتھے۔ابن کنول کا اصل نام ناصر محمود کمال تھا،والد کا نام قاضی شمس الحسن کنول ڈبائیوی تھا۔ڈبائی ضلع بلند شہرآپ کاآبائی وطن ہے، ابن کنول۱۵اکتوبر ۱۹۵۷ء؁میں بہجوئی ضلع مرادآبادمیں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم گنّورضلع بدایوں کے ایک اردو میڈیم اسلامیہ اسکول میں حاصل کرنے کے بعدمزیدتعلیم کے لیے ۱۹۶۷ء؁میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مشہور اسکول منٹوسرکل میں داخلہ لیااور پھرعلی گڑھ سے ۱۹۷۸ء؁میں ایم۔ اے۔ کرنے کے بعد دہلی یونیورسٹی آگئے جہاں سے۱۹۷۹ء؁میں ایم فل(اردو)اور ۱۹۸۴ء؁میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔۱۹۸۵ء؁میں شعبہ اردو،دہلی یونیورسٹی میںہی درس و تدریس سے وابستہ ہوئے۔ ۱۹۹۸ء؁ میں ریڈر،۲۰۰۶ء؁میں پروفیسراور۲۰۲۱ء؁میں سینیئرپروفیسرکے لیے ترقی ہوئی۔ابن کنول نے تین مرتبہ صدر شعبہ اردو، دہلی یونی ورسٹی کے فرائض انجام دئیے،۳۱ اکتوبر۲۰۲۲ء؁کوملازمت سے سبکدوش ہوئے،افسوس کہ سبکدوشی کے بعدپروفیسرابن کنول زیادہ عرصہ باحیات نہیں رہے اور ۱۱فروری۲۰۲۳ ء؁کو اچانک حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے ہمیشہ ہمیش کے لیے خاموش ہو گئے۔ پروفیسر ابن کنول نے د ہلی یونیورسٹی میں طویل عرصہ تک درس و تدریس کی خدمات سرانجام دی ہیں۔ان کی نگرانی میں ۳۸پی ایچ ڈی اور ۵۰ ایم فل کے تحقیقی مقالے لکھے گئے، ملک اوربیرون ملک میں بھی مختلف یونیورسٹیوں میں ممتحن اور بورڈآف اسڈیز کے رکن بھی رہے ہیں۔انھوں نے ماریشس یونیورسٹی میں تین سال غیرملکی ممتحن کے فرائض بھی انجام دئیے ہیں۔

          پروفیسرابن کنول ا مریکہ، ماریشس، انگلینڈ، پاکستان، روس اورازبکستان کے عالمی سمیناروں میں شرکت کرچکے ہیں۔انھوںنے گزشتہ چا لیس برسوں میں متعددقومی اوربین الاقوامی سیمناروں اورکانفرنسوں میں مقالات اور کلیدی خطبات پیش کیے ہیں۔پروفیسرابن کنول کو ان کی کئی اہم کتابوں پردہلی، اتّرپردیش،ہریانہ، بہاراورمغربی بنگال کی اردو اکاڈمیاں انعامات سے نواز چکی ہیں۔ابن کنول کی تخلیقی خدمات پر دہلی اردواکیڈمی فکشن ایوارڈ،ہریانہ اردو اکیڈمی کنورمہندرسنگھ بیدی ایوارڈ،مغربی بنگال اکیڈمی عبدالغفورنساخ ایوارڈ،سرسیدملینیم ایوارڈبرائے اردوفکشن اورغالب انسٹی ٹیوٹ،نئی دہلی کے اردونثرایوارڈ سے نوازاگیا ہے۔

       اردو نثر پر ابن کنول کے ناقابل فراموش احسانات ہیں۔ابن کنول اپنے پچاس سالا ادبی سفر میںاتناوسیع ذخیرہ چھوڑ کر گئے ہیں، جس پر ایک نہیں بلکہ کئی تحقیقی مقالے لکھے جا سکتے ہیں۔ابن کنول کا ادبی سفر طالب علمی کے زمانے میں شروع ہو گیا تھا،گھر اورعلی گڑھ کے ادبی ماحول نے ان کے ادبی ذوق کوجلابخشی۔۱۹۶۹ ء؁میں ان کی پہلی نظم شائع ہوئی۔اس کے بعد مختلف رسائل میں مسلسل لکھتے رہے،پروفیسرابن کنول کاپہلا افسانوی مجموعہ ’’تیسری دنیا کے لوگ‘‘۱۹۸۴ء؁میں طبع ہوا،۲۰۰۰ء؁میں دوسراافسانوی مجموعہ’’بندراستے‘‘منظرعام پرآیا،افسانوں کاتیسرامجموعہ ’’پچاس افسانے‘‘ ۲۰۱۴ء؁میں شائع ہوا۔ ابن کنول کے خاکوں کامجموعہ ’’کچھ شگفتگی کچھ سنجیدگی‘‘۲۰۲۰ء؁میں،انشائیوں کامجموعہ ’’بساط نشاط دل‘‘۲۰۲۱ء؁میں،ڈراموں کامجموعہ’’بزم داغ‘‘۲۰۲۰ء؁میں اورسفرناموں کامجموعہ’’چارکھونٹ‘‘ ۲۰۲۲ء؁میں شائع ہوئے۔ان کی افسانوی اورغیرافسانوی نثرمیں متعددکتابیں ہیں۔پروفیسر ابن کنول کی دیگر اہم کتابوں میں ’’ہندوستانی تہذیب بوستان خیال کے تناظر میں‘‘،’’داستان سے ناول تک‘‘،داستان کی جمالیات‘‘، ’’تنقید و تحسین‘‘، ’’میرامن‘‘، ’’نظیر اکبرآبادی کی شاعری‘‘،’’اردو افسانہ‘‘،’’اردوشاعری‘‘، ’’تنقیدی اظہار‘‘،’’پہلے آپ (ڈرامہ)‘‘،’’تبریک(تقاریظ)‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ابن کنول نے تقریبا ایک درجن کتابیں طویل مقدموں کے ساتھ مرتب بھی کی ہیں،جن میں ’’انتخاب سخن‘‘،’’منتخب غزلیں‘‘،’’’منتخب نظمیں‘‘، ’’اصناف پارینہ‘‘،’’تحقیق وتدوین‘‘،مضراب (کنول ڈبائیوی)‘‘،’’لوک ناٹک:روایت اوراسالیب‘‘، ’باغ وبہار‘‘ اور’’فسانہء عجائب‘‘شامل ہیں۔اردوناول کانقش اوّل ’’ریاض دلربا‘‘ابن کنول کااہم تحقیقی کارنامہ ہے۔ ابن کنول کے دوافسانوی مجموعے عربی زبان میں ترجمہ ہو کر ’’اہل الکہف‘‘ اور’’الحلم‘‘ کے نام سے شائع ہوچکے ہیں،ان افسانوں کاترجمہ الازہریونیورسٹی،قاہرہ کے پروفیسراحمدالقاضی نے کیاہے، آپ کے افسانے روسی زبان میں ترجمہ ہو کرماسکوسے بھی شائع ہوئے ہیں۔

         ما بعد جدیداردو ادیبوں میں ابن کنول کا نام اہمیت کا حامل ہے۔ان کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ ایک نامور داستان شناس،کامیاب افسانہ نگارہونے کے ساتھ ساتھ اعلی پائے کے محقق ونقاد اور منفرد خاکہ نگار بھی تھے۔ ابن کنول کی تخلیقیت میں صرف خارجی عوامل کاہی دخل نہیں،بلکہ اس سے کہیںزیادہ ان کی تخلیقیت میں شعوری اور داخلی احساسات کارفرما ہیں،جو انھیں تخلیقیت کے اعلی مقام پر فائز کرتے ہیں۔نثر کے حوالے سے ابن کنول کی اہمیت اس بات میں مضمرہے کہ اردو نثر کولفظیات،ترکیب سازی،کردار نگاری،پیکر تراشی اور مختلف اعتبار سے بالکل ایک نئی جہت سے آشنا کیا۔روایتی ڈگر سے انحراف کر کے اور راہ تقلید سے الگ انھوں نے اردو نثر کو ایک ایسے اسلوب اور لب و لہجے سے روشناس کرایا جو کہ منفرد اور جدا گانہ ہے۔یہی ایک بڑے فنکار کی علامت ہے۔

       ابن کنول ایک تجربہ پسند اور تجربہ کار تخلیق کار تھے۔ان کے یہاں عصری مسائل،خواہ وہ سیاسی ہوں،سماجی ہوں،تہذیبی ہوں سب کے حوالے سے ابن کنول کی فکر مندی اور فنی ہنر مندی عمدہ رچائو بسائو کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ افسانوں میں فرقہ وارانہ فسادات،جاگیردارانہ نظام اور شہری زندگی ان کے اہم موضوعات ہیں۔بحیثیت افسانہ نگار جو چیز ابن کنول کو اپنے ہم عصروں میں ممتاز کرتی ہے وہ ان کا داستانوی رنگ و روپ ہے۔چوں کہ ابن کنول کے یہاں داستانوں کے کافی گہرے مطالعے کا پتہ ملتاہے۔ دور جدید میں وہ داستان شناسی کے واحد روشن منار تھے۔داستان کی قرات و تفہیم میںابن کنول اپنا ثانی نہیں رکھتے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں پر داستانوی ادب کے اثرات نمایاں ہیں۔ ’’بند راستے ‘‘میں شامل افسانے ’’وارث‘‘ سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

’’جس وقت بادشاہ کے وصال کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے قریب ترین وزیروں کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا:

عزیزو تم سب ہمیں بے حد عزیز ہو،ہماری زندگی کا سرمایہ ہو،ہم اپنے رب کے بعد تمہارے شکرگزار ہیں کہ تم نے ہماری زندگی کے سفر کوآسان کیا،ہر مشکل ساعت میں تم ہمارے مددگار ہوئے۔

 اے سلطان مہربان آپ کی خدمت کرنا ہمارے لئے اعزاز و افتخار کا باعث ہے کہ آپ کی بدولت ہمیں نجات ملے گی۔سب کے لہجے میں عاجزی و انکساری تھی‘‘

        ابن کنول کے ہر افسانے کااپنا ایک وجود ہے،ان کی ہر تحریربذات خود ایک کہانی ہے جو ان کے تجربات کی عکاسی کرتی ہے۔جس میں کردار،واقعہ،مکالمہ،فضا اور کیفیت سے ایک تحیراتی ماحول پیدا ہوتا ہے۔ابن کنول کا اسلوب نہایت ہی سادہ اور سلیس ہے۔ خیال میں تہہ داری ہے البتہ لب و لہجہ سہل ہے،کوئی پیچیدگی نہیںہے۔جملوں کی ساخت میں الفاظ کا رکھ رکھائوقابل ذکر ہے۔عبارت میں کوئی جھول نہیں ہے۔انداز تحریر یوں ہے کہ قاری اس میں اس طرح کھو جاتا ہے کہ تمام کردار صفحہ قرطاس پر چلتے پھرتے نظرآتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں جذبات نگاری،کردار نگاری اور واقعات نگاری کے اعلی و ارفع نمونے ملتے ہیں۔اس کے علاوہ ان کی تحریر شوخی،ظرافت اور شگفتگی سے مرکب ہے جو قاری کو ایک عجیب لطف فراہم کرتی ہے۔اس سلسلے میں گجرات کے فرقہ وارانہ فساد کے پس منظر میں لکھے ان کے افسانے” خانہ بدوش ”کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے:

’’پولیس کی گاڑی نے انھیں ایک کیمپ میں اتارادیا۔اسے منی کے خیمے یاد آئے،عرفات اور مزدلفہ کے بے سایہ میدان اس کی نظروں میں گھوم گئے لیکن منظر بدلا ہوا تھا،چاروں طرف آہ و بکا،بے سروسامانی،برہنہ پا،برہنہ سر خواتین کا ہجوم،بے کفن لاشیں،اس نے محسوس کیا کہ اب وہ ابرہہ کے نرغے میں ہے۔اس نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی۔ابابیلوں کا دور دورتک پتہ نہیں تھا،اس لئے کہ وہ اب تین سو تیرہ میں سے نہیں تھا‘‘

ان کے افسانوں میں موضوعات،کردار،اسلوب،آرٹ،داخلیت،خارجیت،احساس کی گرمی،جذبات کی نرمی،مطالعہ کی گہرائی،مشاہدہ کی باریک بینی وغیرہ کی بھر پور چمک دمک اورانفرادیت ہے۔جس نے ناقدین اور قارئین کی نگاہوں کو خیرہ کر دیاہے۔

         تحقیق و تدوین میں بھی ابن کنول نے اہم کارنامے سر انجام دیے ہیں۔تحقیق میں ان کاایک تاریخی کارنامہ ناول ’’ریاض دلربا‘‘ ہے۔ابن کنول نے اپنی تحقیق میں دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ اردو کا پہلا ناول ہریانہ کے ادیب منشی گمانی لعل کا ناول ’’ریاض دلربا‘‘ہے۔اس کے علاوہ ’’مضراب‘‘،’’بحر تجلیات‘‘،’’ انتخاب سخن‘‘،’’اصناف پارنیہ‘‘ وغیرہ ان کی اہم مرتب کردہ تصانیف ہیں۔تحقیق و تدوین کے ساتھ ساتھ ابن کنول نے بحیثیت نقاد بھی اپنی ایک خاص پہچان بنائی۔تنقید میں ابن کنول کا رویہ اعتدال پسندی کا ہے۔وہ نہ تو خالص روایتی انداز کی وکالت کرتے ہیںاور نہ ہی مکمل طور پر جدیدیت کے حصار میں قید ہیں۔اردو فکشن کے لئے وہ کہانی پن کو لازمی قرار دیتے ہیں اسلوب میں سادگی و لطافت کے ساتھ ساتھ وہ داستانوی آہنگ کو اہمیت دیتے ہیں۔ شاعری میں اعلی تخیل،علامتی و اشارتی انداز اور تہذیبی وتاریخی پہلووں کو مقدم مانتے ہیں۔’’تنقید و تحسین‘‘،’’داستان سے ناول تک‘‘،’’اردو افسانہ‘‘،’’تنقیدی اظہار‘‘،’’داستان کی جمالیات‘‘ وغیرہ ان کی اہم تنقیدی تصانیف ہیں۔

        ابن کنول نے خاکہ نگاری اور انشائیہ نگاری کے میدان میں افسانہ نگاری اور تحقیق و تنقید کے مقابل بہت دیر سے قدم رکھا۔لیکن انھوں نے چارپانچ برسوں کے مختصرسے عرصے میں خاکہ نگاری و انشائیہ نگاری کے میدان میں خود کو معتبر منوا لیا۔خاکہ نگاری میں ابن کنول نے ایک منفرد انداز اپنایا۔ابن کنول خاکے میںکسی شخصیت کے داخلی و خارجی پہلووں کو قلم بند کرتے ہوئے بغیر کسی جھول کے صاحب خاکہ کے عہدو سماج کے سیاسی،سماجی،علمی و ادبی زاویوں کو بھی منظر عام پر لے آتے ہیں۔ابن کنول کا جو انداز گفتگو تھا ان کی آواز میںجوبے باکی اور گھن گرج تھی ان کے تحریر کردہ خاکوںکی زبان و اسلوب میںبھی وہی دائمی اور پختگی نظرآتی ہے۔اور ان کے تحریر کردہ خاکے پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ابن کنول ہمارے سامنے بول رہے ہوں اور ہم انھیںسنتے ہوں۔گوپی چند نارنگ پر لکھے گئے خاکے میں سے ایک اقتباس:

’’ہم ذاتی یا نظریاتی اختلافات رکھتے ہوں،لیکن سچ یہ ہے کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اردو زبان کے لئے اور اردو ادب میں جو کام انجام دیا ہے وہ ناقابل فراموش ہے۔ساہتیہ اکیڈمی کی صدارت کے عہدے تک کسی اردو وا لے کا پہنچنا ہی معجزہ ہے۔ساہتیہ اکیڈمی میں نارنگ صاحب کی وجہ سے ہی اردو کو منفرد مقام حاصل ہے۔پسند اور نا پسند ہر شخص کی ہوتی ہے۔ہم بھی اگر اس عہدے پر ہوتے تو اپنی مرضی کے کنوینر بناتے اور اپنے چاہنے والوں کو ایوارڈسے نوازتے۔یہ تو انسانی فطرت ہے،اس کی شکایت غیر انسانی ہے۔نارنگ صاحب کو جاننا ہے توان کی انسانی کمزوریوںکو ہٹا کر دیکھیے۔خالص اردو کے ادیب کے طور پر دیکھیے،تب ان کے قد کا اندازہ ہو گا‘‘

ان کے تحریر کردہ خاکوں میں شارب رودولوی،گوپی چند نارنگ،ارتضی کریم،محمد کاظم،خالد محمود وغیرہ کے خاکے قابل ذکر ہیں۔

       ابن کنول غیر افسانوی نثر میں خاکہ نگاری اور انشائیہ نگاری کے ساتھ ساتھ اردو سفر نامہ نگاری میں بھی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔انھوں نے امریکہ،انگلستان،روس،ازبکستان،ماریشس اور پاکستان کے تاریخی سفر کیے۔ اوراپنے ان اسفار کو نہایت عمدگی اور فنی چابکدستی کے ساتھ قلم بند کیا ہے۔جس طرح ابن کنول خاکہ نگاری میں اپنے ٹھہرے ہوے اسلوب اور استقلالی انداز میں ادبی جوہر دکھاتے ہیں۔اسی طرح سفر نامہ لکھتے ہوئے بھی وہ مکمل فنی پختگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ان کے سفر نامے اردو ادب میں زبان و بیان اور تفصیلات سفر کے حوالے سے خاصی اہمیت رکھتے ہیں۔ابن کنول سفر نامے میں مخص سفر کی اجمالی تصویر پیش نہیں کرتے بلکہ مکمل جزیات نگاری کے ساتھ احوال سفر قلم بند کرتے ہیں۔ سفر نامہ لکھتے ہوئے ان کی زبان سلیس اور اسلوب میں روانگی رہتی ہے،کہیں کوئی اکھر پن محسوس نہیں ہوتا۔ ابن کنول کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ سفر کی تصویراتنے دلکش انداز میں پیش کرتے ہیں کہ پڑھنے والے کو اپنے ساتھ سفر میںشریک کر لیتے ہیں۔اس حوالے سے۲۰۰۶ء؁میںپاکستان فیصل آبادکے سفر پر تحریر کردہ سفر نامے سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

’’جہاز کے دروازے پر ایئر ہوسٹس سر پر دوپٹہ رکھے آداب کر رہی تھیں۔جہاز میں انگریزی کے ساتھ ساتھ اردوبھی لکھی دیکھی۔جب اعلانات ہوئے تو السلام علیکم،انشاء اللہ،شکریہ،اللہ حافظ جیسے الفاظ سننے کو ملے۔پہلی بار کسی جہاز میں ایئر ہوسٹس کواردو بولتے ہوئے سن کر ہم اردو والوں کو اچھا لگا۔ایئر ہوسٹس کے اعلان سے پہلے سفر کے دعا کی ریکارڈنگ بجائی گئی،پھراس طرح  اعلان کیا:

السلام علیکم۔معزز خواتین وحضرات ۱ پاکستان ایئر لائنز کی طرف سے ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ہم ۶۵۰۰۰ میٹر کی بلندی پر پرواز کر رہے ہیں۔انشاء اللہ ۴۵ منٹ میں ہم لاہور پہنچیں گے‘‘

المختصرابن کنول کا شعور بہت پختہ تھا۔انہوں نے انسانی زندگی کو بہت قریب سے دیکھا اور سمجھا تھا اور بحیثیت تخلیق کار ان کی بے باکی اور گہری فکران کا سب سے بڑا ہنر تھا۔ ان کی فکر کا دائرہ بہت وسیع تھا،جس کی مثال ان کے تخلیقی ادب سے دی جاسکتی ہے۔افسانہ ہو یا داستان،خاکہ نگاری ہو یا سفر نامہ نگاری،تحقیق ہو یا تنقید ابن کنول ہر مخاذ پر کامیاب نظر آتے ہیں۔

                                                                                                ٭٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.