اداریہ
اردو ریسرچ جرنل کا تازہ شمارہ پیش خدمت ہے۔ تحقیقی رسالوں کی اشاعت ایک صبر آزما کام ہے۔ اپنی ذاتی اور ادارتی مصروفیات میں سے کچھ وقت چرا کر اس کے لیے وقت نکالنا ہوتا ہے۔ مقالوں کی جانچ پرکھ، ضروری پروف ریڈنگ وغیرہ ایسے کام ہیں جن کی مشکلات سے وہی احباب واقف ہیں جو اس وادی کی سیر کرچکے ہیں۔ پہلے ادبی اور تحقیقی رسالوں کے لیے باقاعدہ ایک ٹیم ہوا کرتی تھی۔ رسالوں کے دفتر ہوا کرتے تھے جہاں بیٹھ کر لوگ کام کرتے تھے۔ عموماً رسالوں کے لیے اپنے اسٹاف ہوا کرتے تھے۔ جن کا کام ہی ان رسالوں کی اشاعت ہوا کرتا تھا۔ لیکن دھیرے دھیرے رسالوں کی اشاعت محدود ہوتی گئی اور اب نوبت یہ ہوگئی ہے کہ سرکاری رسالوں کو چھوڑ کر ادبی رسالوں نے اپنے آفسوں سے نکل کر مدیروں کے گھروں میں اپنا ڈیرہ جما لیا ہے۔ مدیر ہی پروف ریڈر، کمپوزر اور ایڈیٹر بھی ہوتا ہے۔اردو ریسرچ جرنل کا تازہ شمارہ پیش خدمت ہے۔ تحقیقی رسالوں کی اشاعت ایک صبر آزما کام ہے۔ اپنی ذاتی اور ادارتی مصروفیات میں سے کچھ وقت چرا کر اس کے لیے وقت نکالنا ہوتا ہے۔ مقالوں کی جانچ پرکھ، ضروری پروف ریڈنگ وغیرہ ایسے کام ہیں جن کی مشکلات سے وہی احباب واقف ہیں جو اس وادی کی سیر کرچکے ہیں۔ پہلے ادبی اور تحقیقی رسالوں کے لیے باقاعدہ ایک ٹیم ہوا کرتی تھی۔ رسالوں کے دفتر ہوا کرتے تھے جہاں بیٹھ کر لوگ کام کرتے تھے۔ عموماً رسالوں کے لیے اپنے اسٹاف ہوا کرتے تھے۔ جن کا کام ہی ان رسالوں کی اشاعت ہوا کرتا تھا۔ لیکن دھیرے دھیرے رسالوں کی اشاعت محدود ہوتی گئی اور اب نوبت یہ ہوگئی ہے کہ سرکاری رسالوں کو چھوڑ کر ادبی رسالوں نے اپنے آفسوں سے نکل کر مدیروں کے گھروں میں اپنا ڈیرہ جما لیا ہے۔ مدیر ہی پروف ریڈر، کمپوزر اور ایڈیٹر بھی ہوتا ہے۔ تحقیقی رسالوں کو خرید کر پڑھنے والے خال خال ہی بچے ہیں۔ ایسے میں آفس اور اسٹاف کا خرچ کون دے گا۔ جو ذاتی رسالے شائع ہوتے ہیں وہ مدیران کی ذاتی محنت کا نتیجہ ہوا کرتے ہیں۔ اب بھی کئی اچھے رسالے کچھ مدیروں کی ذاتی محنت اور اردو سے محبت کی وجہ سے شائع ہورہے ہیں۔ مستقبل کا اللہ ہی مالک ہے۔ انہی ساری پریشانیوں کو سامنے رکھتے ہوئے اردو ریسرچ جرنل کے بانی سرپرست مرحوم پروفیسر ابن کنول نے اس جرنل کو آن لائن شائع کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ذاتی خرچ سے ایک دو شمارے شائع کیے جاسکتے ہیں لیکن مسلسل اپنے خرچ سے کسی رسالے کو شائع کرنا ایک مشکل کام ہے۔ چنانچہ میں نے ان کے مشورے پر عمل کیا، اس مشورے کا نتیجہ ہے کہ ۲۰۱۴ میں پروفیسر ابن کنول کی سرپرستی میں لگایا گیا یہ پودا اب بھی ہرا بھرا ہے۔ ادھر کچھ دنوں سے کالج کی انتظامی ذمے داریوں کی وجہ سے اس کے لیے وقت نکالنا مشکل ہورہا تھا۔ جس کی وجہ سے برادرم ڈاکٹر عبدالرحمن اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو ،راجندر کالج، جے پرکاش یونی ورسٹی، چھپرہ بہار نے مدد کا ہاتھ بڑھایا اور مدیر اعزازی کی حیثیت سے اردو ریسرچ جرنل کو وقت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ اور اس کے بعد کے رسالے انہیں کی کاوشوں کا ثمرہ ہوں گے۔ موصوف ایک اچھے قلم کار اور محنتی اسکالر ہیں۔ مجھے قوی امید ہے کہ پروفیسر ابن کنول مرحوم کا لگایا ہوا یہ پودا ان کے ہاتھوں میں دن دونی رات چوگنی ترقی کرے گا۔
رہے نام اللہ کا۔
ڈاکٹر عزیر اسرائیل
چیف ایڈیٹر، اردو ریسرچ جرنل
Leave a Reply
Be the First to Comment!