ماں کے تقدس کا امین شاعر منور رانا ؔ
ماں کے تقدس کا امین شاعر منور رانا ؔ
دنیا میں بہت سارے زبان اور بولیاں ہیں جن میں کچھ بڑے اور کچھ چھوٹے ہیں، زبان بڑی اور چھوٹی کیسے ہوتی ہے ؟ اس سوال کے جواب میں بس اتنا کہا جاتا ہے کہ اہل زبان جب اپنی مادری زبان کو کم استعمال کرنے لگتے ہیں تو وہ زبان روز بروز زوال پزیر ہونے لگ جاتی ہے ۔ اسی طرح اس دنیا میں کئی ایک زبانیں جو اپنے وقت میں سکہ رائج الوقت تھے معدوم ہوگئے اور کچھ زبانیں معدوم ہونے کے قریب ہیں۔ جن میں ارد و زبان بھی ایک شامل ہے ۔ اردو زبان گزرتے وقت کی طرح تیزی سے روبہ زوال ہورہی ہے۔ اس کے زوال پزیر ہونے والے محرکات میںمذکورہ بالا عمل کے علاوہ اس زبان کے شعرا و ادیب کا انتقال کر جانا اس کے زوال پزیرائی کے عمل کو تیز کردیتا ہے ۔ ( اور ایسے میں اردو زبان و ادب کے اخبار و رسائل بھی اگر اپنی اشاعت میں کوتائی کرتے دیکھائی دے تو سمجھ لو کے جلتی پر پیٹرول چھیڑکنے کے مترادف ہو گا ) ۔
جب کوئی انسان پیدا ہوتا ہے تو مرنا اس کا حق ہے چاہے وہ معمولی انسان ہوکہ غیرمعمولی شخصیت ہو ۔ ادیب ہوکہ شاعر ہو اسکو تو جانا ہی ہے اسکو کیا سب کو ایک دن جانا ہے ۔ اس طریقہ کو کوئی روک نہیں سکتا ،معمولی انسان کی کمی محسوس نہیں کی جاتی لیکن غیر معمولی شخصیت وہ شاعر ہوں کہ ادیب جب اس کا انتقال کرجاتا ہے تو ان کی کمی محسوس کی جاتی ہے یہ احساس صرف انفرادی ہی نہیں ہے بلکہ اجتماعی بھی ہو تا ہے ، کچھ توشعرا ودایب ایسے قدآور ہوتے ہیں کہ ان کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا وہ جگہ ہمیشہ خالی ہی متصور ہو تی ہے ۔
ان ہی قد آور شخصیتوں میں منور رانا ؔ بھی ایک اہم شخصیت متصور ہوتے ہیں ، منور رانا ؔ کی خدمات اور ان کی اردو دوستی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ ان کی خدمات کو اجاگر کرسکے ،لیکن اسلامی طریقہ کار ہے کہ مرنے والے کے محاسن بیان کئے جاتے ہیں اور یہ اسلامی حکم بھی ہے اسی لئے بھی منور رانا کی شخصیت اور بھی اہم ہوجاتی ہے ، اور یہ بھی کہ ان کی شخصیت پر اور ان کی ادبی خدامات پر مضامین ، مقالے ، اورکتب اور مشاعرے منعقدکئے جاتے ہیں یہ تمام کی تمام کوششیں منور رنا کی خدمات کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے ۔
اسی خراج عقیدت کی یہ ایک ادنی کوشش ہے ۔
منور رانا کا اصل نام سید منور علی ہے وہ ۲۶؍ نومبر ۱۹۵۲ ء کو اتر پردیش کے رائے بریلی میں پیدا ہو ئے ان کے والد کا نام سید انور علی اور والدہ کا نام عائیشہ خاتون ہے ،منور رانا اپنی ابتدائی تعلیم شعیب ودھیالیہ اور گورنمٹ کالج رائے بریلی سے حاصل کی مزید تعلیمی ترقی کے لئے نوابوں کے شہر لکھئوں بھیجا گیا ،جہاں ان کا داخلہ سینٹ جانسس ہائی اسکول میں ہوا ،لکھنئوں میں قیام کے دوران انھوںنے وہاں کی روایتی ماحول سے اپنی زبان و بیان کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا اسکے بعد حالات کے نا سازی کے بنا ان کے والد کلکتہ چلے گئے ۔ ۱۹۶۸ کو ان کے والدین نے منور رانا کو بھی کلکتہ بلوالیا ،جہاں انہوں نے محمدجان ہائر سیکنڈری اسکول سے ہائر سکینڈری کی تعلیم مکمل کی اور گریجوشن کی ڈگری کے لئے کلکتہ کے ہی امیش چندر کالج میں B COM میں داخلہ لیا ۔
منور رانا ایسے ہی منور رانا نہیںبن گئے سید منور علی کو منوررانا بننے کے لئے نا صرو نوابوں کے شہر لکھنئوں کی ادبی فضا محرک ہے بلکہ کسی روشناس ،دانشور حال کے ساتھ ساتھ مستقبل پر نظر رکھنے والے ذوق نظر ، اہل نظر کی محنت شاقہ اور ان کی کرم نوازی بھی شامل رہی ،ان ہی نیک لوگوں میں ان کے جد مرحوم سید صادق علی بھی ایک ہیں ۔ انہوں نے عہد طفلی میں منور رانا کو باقاعدہ غزلیں اشعار پڑھوایا کرتے تھے تاکہ ادب کا بیج ان میں بو سکے اور وہ اپنے اس کوشش میں صد فیصد کامیاب بھی ہو ئے ،عہد طفلی میں ان کے جدنے کئی اشعار ذہن نشین کروادے تھے تاکہ آگے جل کر یہ اشعار ان کے لئے معاون مدد گار ثابت ہو سکے ،زمانہ طالب علمی سے منور رانا کو شعر و شاعری سے بڑی دلچسبی تھی ۔
۷۰؍ ۱۹۶۹ میں سید منورعلی نے قلبی واردات ، احساسات اور جدبات کی چنگاری سے پہلی مرتبہ شعر و سخن کے میدان میں ’’ منورعلی آتش ‘‘ بن کر شاعری کی دنیا میں قدم رکھا ۔عہد طفلی کے ذہن نشین اشعار دیگر مقاصد میں ناکامی کے صدمے نے سید منور علی کو منورعلی آتش بنا دیا وہ اپنی طور پر اشعار لکھتے گئے پھر منور علی آتش کی ملاقات پرو فیسر اعزاز ؔ افضل سے ہوئی اعزازافضل نے منور علی آتش کو شعر گوئی بطور خاص غزل گوئی میں بہتر پایا تو انہوں نے سید منور علی کو اپنی شاگردی میں لے کر سید منور علی کے اندر موجود صلاحیتوں کو پہچان کر انھیں اس جانب پروان چرھانا شروع کیا ۔
ابھی سید منور علی ۱۶سال ہی کے تھے کہ ان کی پہلی نظم جو محمد جان ہائر سکینڈری اسکول کے مجلہ میں چھپی لیکن بحیثیت شاعر ان کی پہلی تخلیق ۱۹۷۲میں منور علی آتش کے نام سے کلکتہ کے ایک معیاری رسالہ مہنامہ ’’ شہود‘‘ میں شائع ہوئی ، اس کے بعد منور رانا مستقل طور پر اشعار لکھتے رہے اور ان کی تخلقات اخبار و مجلات میں زیور طبع سے آراستہ ہوتی رہی ، منور علی آتش کا لکھنئوںکے ادبی محافل میں بھی رسائی ہونے لگی ،پھر ان کی ملاقات نازش پرتاب گڑی اور راز الہ آبادی سے ہوئی ان کے اشعار سنیاور پھر انہیں اپنے کچھ قیمتی گراں قدر مشوروں سے بھی سر فرازکیا جن میں ان کا تخلص بھی شامل ہے ،سید منور علی پہلے منور علی آتش تخلص کرتے تھے ان کے مشورے کے بعد انہوں نے اپنا تخلص بدل کر ’’شاداںؔ‘‘ کرلیا، سید منور علی اب ادبی محفلوں میں منور علی شادں کے نام سے یادکئے جانے اور پہچانے جانے لگے ، منور کی شعری خصوصیت اور ان کا منفرد لب و لہجہ سے مزید ترقی کرنے لگے پہلے سے زیادہ ادبی محفلوں میں رسائی ہونے لگی اور بھی بڑے قدآور اساتذہ سخن سے ملاقاتیں ہونے لگی ان کے بیش بہا قیمتی مشورںسے ان کے کلام میں بہتری آنے لگی بروقت قیمتی مشوروں سے کلام میں گہرائی اور رانی آنے لگی ۔
پھر اس کے بعد منورعلی شاداں کی ملاقات لکھنئوں کے ایک اور استاد سخن شاعر ’’والی آسی ؔ‘‘ سے منورعلی شاداں کی ملاقات ہوئی تو انہوںنے بھی انہوں نے بھی ان کا کلام سنا اور کچھ قیمتی اور لاثانی مشورے دئے جن میں ان کا تخلص بھی شامل ہے ، جی ہاں سید منور علی کا تخلص اب پھر سے بدلنے والا ہے والی آسی نے شاداں کی جگہ ’’ راناؔ‘‘ کا مشورہ دیا اس طرح سید منور علی پہلے پہل آتش ، پھر شاداں پھر رانا بنے پھر تادم آخیر سید منور علی منور رانا کے نام سے ہی یاد کئے جانے لگے اور یہ نام اتنا مشہور ہوا کہ اس کی چمک دمک میں اصل نام ماندہ پڑگیا ۔
منور رانا کی شاعری کا کمال یہ ہے کہ وہ جس کسی بھی موضوع کو اپنے اشعار کے لئے منتخب کرتے ہیں اسے اپنے اشعار کے سانچے میں اس دلیری ،بہادری اور برجستگی سے ڈھالیتے ہیں کہ اسمیں ذرابرابر ملمع سازی ،ملاوٹ کی بو تک نہیںآتی ۔
منور رانا اپنے اشعار کے ذریعہ آپ بیتی اور جگہ بیتی کی ایک ایسی تصویر پیش کرتے ہیں کہ جسے دیکھنے سے معاشرے کی ابتری ، حاکموں کی لاپرواہی ، ذمداروں کی کوتاہی سب کھل کر سامنے آتی ہے ۔منور رانا کی شاعری میں ایک مقناطیسی کیفیت ہوتی ہے ، جس قاری منور رانا کی طرف کھینچے چلے آتا ہے ،یہ مقنا طیسی کشش یوں ہی ان کی شاعری کا حصہ نہیں بنی اس عنصر کو شاعری کے اورزان اور ان کے الفاظ ،اور خوافی کے ساتھ اپنا ذاتی تجربہ ،حادثات دنیا اور عصر حاضر کے تلخ اور تھیکے مشاہدات ایسا ملا یاکہ وہ جزلابنفک ہوگئے جب جاکر ان کی شاعری میں یہ مقنا طیسی کیفیت پیدا ہوئی ہے ۔
سوجاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بھچا کر
مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے
بوجھ اٹھانا شوق کہاں ہے مجبوری ہے سودا ہے
رہتے رہتے اسٹیشن پر لوگ قلی ہوجاتے ہیں
عدالتوں ہی سے انصاف سرخ روہے مگر
عدالتوں ہی میں انصاف ہار جاتا ہے
اس میں بچوں کی جلی لاشوں کی تصویریں ہیں
دیکھنا ہا تھ سے اخبار نہ گر نے پائے
بھٹکتی ہے ہوس دن رات سونے کی دکانوں پر
غریبی کان چھدواتی ہے تنکا ڈال لیتی ہے
صنف نازک پر اردو شاعری میں دنیا کی دیگر زبانوں کی طرح بہت شاعری ہوئی ہے اس کی بابت بہت سارے شعراو اساتذہ سخن کے نام گرامی آتاہے ،سب نے صنف نازک کے بارے میں بہت کہا اور خوب خوب کہا ،لیکن منور رانا کے نزدیک صنف نازک کا جو معیار جو مقام و مرتبہ ہے وہ بہت کم ہی دوسروںکے پاس پایاجاتا ہے ، دنیا میں بہت سارے رشتہ ونا تھے اور بندھن ہوتے ہیں ان سب رشیوں میں ’’ماں‘‘ کا جو مقام ہے وہ ہر ایک کے پاس سب سے افضل و اعلی وارفع رشتہ ہے اس بارے میں کسی کی دورائے نہیںچاہے وہ کسی بھی مکتب فکرکا حامل کیوں نہ ہو ۔ان سب کی نسبت منور رانا کے یہاں سب سے زیادہ قدر و قیمت ہے صنف نازک پہ ایسی پاک شاعری ہے جسے ہرکوئی سنیے سے لگائے اور سرپر رکھے یہ حصہ میری اپنی دانست میںمنور رانا کے حصہ میں کچھ زیادہ ہی آیاہے جس کی دلیل اس موضوع پر ان کے کثیر اشعار ہیں جو مقبول ملت ہوکر مقائے دوام کالباس پہن لیاہے جن میں چند ایک اشعار دئے جاتے ہیں دد۔
چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے آذاں دیکھی ہے
میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی ہے
ابھی ذندہ ہے ماں میری مجھے کچھ بھی نہیں ہوگا
میں گھر سے جب نکلتا ہوں دعا بھی ساتھ چلتی ہے
اس طرح میرے گناہوں کو وہ دھودتی ہے
ماں بہت غصے میں ہوتی ہے تو رو دیتی ہے
کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی
میں گھرمیں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی
جب بھی کشتی مری سیلاب میں آجاتی ہے
ماں دعا کرتی ہوئی خواب میں آجاتی ہے
تیرے دامن ستارے ہیں تو ہوں گے اے فلک
مجھ کو اپنی ماں کی میلی اوڈھنی اچھی لگی
یہ سوچ کے ماں باپ کی خدمت میں لگاہوں
اس پیڑ کا سایا مرے بچوں کو ملے گا
منور ماں کے آگے یوں کبھی کھل کر نہیں رونا
جہاں بنیا د ہو اتنی نمی اچھی نہیں ہوتی
شعر و شاعری کے علاوہ منور رانا دیگر ادبی اداروں اور مجلوں سے وابستہ تھے جن میں اترپردیش اردو اکادمی کے سابق صدر ،والی آسیؔ اکیڈمی کے چیر مین اور رکن مجلس انتظامیہ مغربی بنگال اردو اکادمی جسیے اہم عہدوں پر رہے اس کے علاوہ اردو روزنامہ مسلم دنیا لکھئوں اور ہندی ہفت روزہ ’’ جن بیان ‘‘ لکھنوں کی ادارت سے منسلک رہے ۔
منور رانا کی شعری مجموعہ کلام نیم کا پھول ،۱۹۹۳ کہو ظل الہی سے ، ۲۰۰۰ منورراناکی سوغزلیں ۲۰۰۰ گھر اکیلا ہوگا ،۲۰۰۰ ماں ۲۰۰۵، جنگلی پھول ۲۰۰۸، نئے موسم کے پھول ۲۰۰۹، مہاجر نامہ ،۲۰۱۰، کترن میرے خوابوں کی ،۲۰۱۰۔
منور راناکی نثر ی تصانیف : بغیر نقشے کا مکان ۲۰۰۰ سفید جنگلی کبوتر ۲۰۰۵ چہرے سے یاد رہتے ہیں ۲۰۰۸ ، ڈھلان سے اترے ہوئے ، پھنگ تال
منور رانا کے اعزازات :
میرتقی میر ایوارڈ ، غالب ایوارڈ ، امیر خسرو ایوارڈ ، اجنگ ایوارڈ کراچی ، بزم سخن ایوارڈ، وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
منورراناکی وفات حسرت آیات پر تنویر پھول ؔ کا قطعہ تاریخ کے ساتھ مضمون کا اختام کرتاہوں جو کہ زیر نظر دیا جاتاہے
یہ خبر ہم کو ملی دل کو ہوا ہے افسوس
چھوڑ کر جگ کو گئے راہ عدم پر رانا
پھولؔ اس لہجہ پرنور کی شاں تھی عالی
کہہ دو ’’ آہنگ ضیا اوج منور رانا‘‘ ۱۴۴۵ ھ
قطعہ تاریخ عسوی
ہوگئی بزم سخن آج بہت ہی سونی
چل دیئے چھوڑ کر اس کو ہیں سخنور راناؔ
دل سے پیاری رہی راناؔ کو زبان اردو
پھول ؔ کہہ ’’ سطر ادب رخت منور رانا‘‘۲۰۲۴ء
Leave a Reply
Be the First to Comment!