اقبال کی نظرمیںتمیزِ بندہ ٔو آقا اورفساد ِ آدمیت

مشرق و مغرب کے فکرو فلسفہ کے ذریعے اسلام کی آفاقیت کو بیان کر نے والے شاعرعلامہ اقبال کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔حرکت و عمل کے ذریعے ان کی شاعری اجتماعی سطح پر کلمتہ الحق کا نعرہ بلندکرتی ہے ۔ان کا پیغام کسی فرد واحد کے لیے نہیں بلکہ عالم انسانیت کے لیے ہے ۔ چاہے وہ عہد اقبال کے انسان ہوں یا آج کے عہد کے جدید انسان یا پھر آنے والے زمانے کا جدید تر انسان ،ان پر بہت ساری حقیقتیں آشکار تو ہیں لیکن ہم میں سے بہت سارے ایسے بھی ہیںجو ان حقائق سے نا آشنا ہیں۔اقبال انہی حقائق اور اسرار و رموز کو بیان کر تے ہیں۔خدائے وحدہ لاشریک نے آدم ِ خاکی کو مقصدیت کے تحت عالم ِ ازلی میں خلافت ِ ارضی سو نپی لیکن اولاد ِ آدم وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اوپر ظلم وزیادتی ،قتل و غارت گری ،خود پسندی ،مادّی پرستی ،جانب داری کے مر تکب ہو گئی۔عہد اقبال ایک انقلاب ِ عظیم سے دوچار تھا ۔مضبوط قوم ،ناتواں اور نحیف قوموں کو فنا کر رہی تھی ۔مزدورطبقا پر سفّاکیوں کے پہاڑتو ڑ ے جا رہے تھے ۔سرمایہ داروںکا غلبہ تھا۔ مسلمان سیاسی ، معاشی ،معاشرتی اور تہذیبی انحطاط اور انتشار کے باعث اضطراب و کشمکش میں مبتلا تھی۔پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد جو حالات رونما ہو ئے وہ کسی سے مخفی نہیں ۔اقبال کہتے ہیں کہ :

وہ فکر گستا خ جس نے عریاں کیا ہے فطرت کی طاقتوں کو

اسی کی بیتاب بجلیوں سے خطر میں ہے اس کا آشیانہ

              اقبال ان حالات کو دیکھ کردل برداشتہ تھے ۔مسلمانوں کی غفلت اور طوقِ غلامی پر نو حہ خوانی کر تے ہوئے انہوں نے ’شمع اور شاعر‘لکھا ۔’خضرِراہ ‘ کے ذریعئے اقبال نے ملوکیت اور سرمایہ داری کے مفاسد کو آشکار کیا تو وہیں زندگی کی حقیقت کے ساتھ ساتھ اسلامی مملکت کی غیر اسلامی طریق یعنی قوم پر ستی پر بھی ضرب لگائی اور مسلمانوں کو امید و رجا کا درس دیا کیو نکہ اقبال اُ فق ِ مشرق سے صبح نجات کو طلوع ہو تے دیکھ رہے تھے ۔:

 اُ ٹھ کے اب بزم ِ جہاں کا اور ہی انداز ہے

 مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

              ابھی اقبال امید و رجا کے مابین معلق تھے کہ انہیں خبر ملی کہ سرزمین ِ ترکی کے آہنی عزم و ارادے کے مالک مصطفٰے کمال پاشا نے سقاریہ کی جنگ میں یو نانیوں کو زبردست شکست دی ہے ۔ان کی اس کا میابی و کامرانی پر انہیں خراجِ عقیدت پیش کر تے ہوئے لکھا :

ہزاروں سال نر گس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

 بڑی مشکل سے ہو تا ہے چمن میں دید ہ ور پیدا

اقبال کمال پاشا کی فتح و نصرت کو عالمِ اسلام بلکہ اقوام ِ ایشیا کے لیے نیک شگون قرار دیتے ہیں۔ان کی اِس کامیابی کو ’’طلو ع اسلام ‘‘ سے تعبیر کیا ۔یہ نظم ایک معرکۃ الآرانظم ہے۔اس نظم میں اقبال نے مسلمانوں کو اپنے مقام و مرتبہ اور خود سے آگاہ کر ایا ہے ۔مغربی یلغار کے ذریعے مسلمانوں کے رگوں میں حرکت و عمل کا جذبہ پیدا کیا تاکہ وہ دنیا کی امامت کر سکیں اور قوم کو ذوقِ یقین ،عملِ پیہم کے ثمرات سے آگہی دی۔آج ہم اقبال کی اسی نظم ’’طلوع ِ اسلام‘‘ کے ایک بند پر سِیرحاصل گفتگو کر یں گے ۔بند دیکھیں :

تمیزِ بندۂ و آقا، فساد ِ آدمیت ہے

حذر اے چیرہ دستاں، سخت ہیں فطرت کی تعزیریں

              مذکورہ شعر وسیع المعانی کے ساتھ ساتھ عالم ِ انسانی کے حرکات و سکنات کے رموز پر محیط ہے ۔اقبال اس شعر کے ذریعے قوم و ملت کے رہبر و رہنما ،حاکم ومحکوم ،امیر و غیریب ،خادم و غلام اور آقا و بندہ کو درس ِ عبرت کا پیغام دیتے ہیں کیو نکہ یہ دنیا روایات کے پھندوں میں گرفتار ہے۔ یہاں پر اقبال نے’ تمیزِ بندہ ٔ و آقا‘کے خلاف ’فطرت کی تعزیریں ‘ استعمال کر کے اہلِ مشرق و مغرب کو متنبہ کیا ہے کہ انہوں نے عالم انسانی کی تاریخ میں ردّو بدل کر کے انسانوں کے مابین تمیز و تفریق کی ۔آدمیت کو مختلف زمروں میں تقسیم کیا ،جو ہمارے درمیان ذات پات ،نسل ، رنگ ،قوم ،اجاریت ،مذہبیت ،امیرو غریب ،حاکم و محکوم اور بندہ و آقا کی شکل میں عیاں ہیں :

نسل ،قومیت ،کلیسا ،سلطنت ،تہذیب ،رنگ

خواجگی نے خوب چُن چُن کر بنائے مُسکِرات

یورپ میں بہت روشنی ٔ علم و ہنر ہے

حق یہ ہے کہ بے چشمہ ٔ حیواں ہے یہ ظلمات

              جب کہ اقبال تمیزِ بندہ ٔ و آقا کو فسادِ آدمیت قرار دیتے ہیں ۔اس کی کئی وجوہات ہیں ۔عہد اقبال میں اشتراکیت کا زور تھا ۔انیسویں صدی کے وسط میں ایک عظیم فلسفی کارل مارکس پیدا ہوا جو اشتراکیت کے ذریعے ایک جمہوری نظام قائم کر نا چاہتا تھا ۔جس میں بندوں کو آقاؤں کے خلاف صف آرا ئی پر آمادہ کرنا ،ان کے حقوق کی بازیافت کا مطالبہ ،سماج سے ناہمواری جیسے برائی کو ختم کرنا ،انسانوں کے جملہ مسائل کاحل صرف طبقاتی نظام ِ حکومت کے زیر اثر اور سرمایہ کی مساویانہ تقسیم کے مسئلے کے علاوہ کچھ تنازعی مسائل اور بھی تھے۔ان ہی نظریات سے یو رپ کے ایوانوںمیں خائف طاری ہو گئی ۔اہل ِ ثروت اور سرمایہ داروں کے رونگٹھے کھڑے ہوگئے کیونکہ ان آمریت اور عنانیت پسند حکمرانوں میں لینن ،اسٹالن ،زار ،نطشے ،گورباچیف وغیرہ جو ناتواں اور نحیف قوموں کو فنا کر رہی تھی ۔اپنے قوم پر طرح طرح کے مظالم اور جائز و ناجائز ،جبر و تشد دکا گھنو نا کھیل کھیل رہے تھے ۔بندہ آقاؤں کے ہاتھوں کا آلہ کار بنے ہوئے تھے ۔جہاں ایک طرف بندائے مزدوردم تو ڑ رہی تھی تو دوسری جانب انہی کے خون پسینے کی کمائی سے رنگ رلیاں منا ئی جا رہی تھیں :۔

آبتاؤں تجھ کو رَمزِ آیۂ اِنّ المُلُوک

سلطنت اقوام ِ غالب کی ہے اک جادوگری

خواب سے بیدار ہو تا ہے ذرا محکوم اگر

پھر سُلادیتی ہے اُس کو حکمراں کی ساحری

حکمِ حق ہے لَیسَ لِلاِنسان ِ اِلاّ ما سعی

کھائے کیوں مزدورکی محنت کا پھل سرمایہ دار

              اشتراکیت اسلام کے بعد سب سے بڑی نظریاتی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی تھی۔اشتراکی نظام کے اصولوں میں ایک اصول یہ بھی تھا کہ ’’مختلف طبقوں کے اشتراک ِ عمل سے معاشرے کو ایسے سانچے میں ڈھالا جائے کہ دولت کی تقسیم مساوی ہو‘‘یہاں یہ بات عرض کر تا چلوں کہ یہ نظریہ اسلام نے بہت پہلے ہی دے دیا تھا ۔ہجرت کے دوران مدینہ کے انصاریوں نے مہاجرین مکہ کے ساتھ یہی طریق اپنا یا جو تاریخِ عالم میں اپنی مثال آپ ہے ۔یہ سلسلہ بر سہا برس تک چلتا رہا لیکن خلافت ِ راشدہ کے بعد اسلامی مملکت میں بھی مغربی تہذیب کی مادیت پرستی نے دولت پرستی پر آمادہ کردیا۔اس درمیان جتنی بھی حکو متیں بنیں ،عوام میں وہ خوشحالی نہ آئی جو عہد ِ صحابہ میں تھی ۔اقبال ابلیس کی زباں سے یو ں کہلواتا ہے :

جانتا ہوں میں یہ امتْ حامل ِ قرآں نہیں

ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مو من کا دیں

ہر نفس ڈرتا ہوں اس امت کی بیدار ی سے میں

ہے حقیقت جس کی دیں کی احتساب ِ کا ئنات

              ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اقبال کاحساس دل تڑپ اٹھا۔ان کا مطالعہ ہمہ جہت تھی ۔انہوں نے مشرق و مغرب کے مٹتے ہوئے نقوش کو دیکھا تھا ۔قرآن و احادیث پر ان کی گہری نظر تھی ۔قدیم تاریخی روایات پر عبور رکھتے تھے ۔اقبال مزاجاً انقلاب پسند تھے ۔انہوں نے اشتراکیت کے مثبت خیالات کو پیش کر تے ہوئے ملو کیت ،شہنشاہیت اور سرمایہ داری پر لعنت و ملامت کی ۔یہ بھی بتا تا چلوںکہ اقبال کو اشتراکیت کے بہت سارے امور سے شدید اختلاف تھا مگر انہوں نے انہی مسائل کو اخذ کیا جو قرآن و احادیث کی روشنی میں عالم ِ انسانیت کے لئے در کار تھی ۔انہوں نے اشتراکیت کے مثبت پہلوؤں کو اپنے مختلف نظموں کے ذریعے جیسے ’’خضر راہ ‘،’سلطنت ‘،’سرمایہ و محنت ‘،’فرمان خدا ‘،’اشتراکیت ‘،’کارل مارکس کی آواز ‘،’لینن خداکے حضور میں ‘،’ابلیس کی مجلس ِ شوری ٰ‘‘وغیرہ میں بیان کیا ہے ۔عصر حاضر کے تنا ظر میں اقبال اپنی کشت ویراں سے ناامید تو نہیں ہیں اس لیے اپنی شاعری کے ذریعے اسلامی نقطہ ٔ نظر کو مد نظر رکھتے ہوئے بندوں کو بندو کی اسیری سے نجات ،مزدوروں کو ان کا حق،ضعیفوں او ر مظلو موں کی حمایت میں کھل کر نظمیں لکھی ہیں ۔’’فرمان ِ خدا ‘‘ میں ڈنکے کی چوٹ پر بندۂ غریباں کو اس انداز میں بیدار کر تے ہیں :

اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو

کا خِ امرا کے درو دیورا ہلادو

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی

اس کھیت کے ہر خو شۂ گندم کو جلادو

اقبال ’’سرمایہ و محنت ‘‘ میں بندۂ مزدورکو اس طرح خطاب کر تے ہیں :

بندۂ مزدور کو جاکر میرا پیغام دے

خضر کا پیغام کیا ہے یہ پیام ِ کا ئنات

دستِ دولت آفریں کو مُزد یوں ملتی رہی

 اہل ِ ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوںکو زکات

اٹھ کہ اب بزم ِ جہاں کا اور ہی انداز ہے

 مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

ایک جگہ اقبال سرمایہ دارآقاؤں کے زیر تلے بندوں کو نجات دلانے کے لیے بارگاہِ ایزدی میںیوں دعاگو ہیں :

تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں

 ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات

کب ڈو بے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ

 دنیا ہے تیری منتظر روزِ مکافات

              اس طرح اقبال عصر حاضر کے تنا ظر میں انسانی دنیا کے علمبرداروں ،آقاؤں اور حاکموں کو آگاہ کر تے ہیں کہ خدا نے تمہیں جو زندگی عطاکی ہے اس کو اسلامی طریقے سے گذاروکیو نکہ اسی میں تیری بھلائی ہے ۔خیر اور شر میں تمیز کر تے ہوئے اپنے اندر حرارت ِ ایمانی پیدا کرو اور اس بات کا بھی خاص خیال رکھو کہ اپنے سے کمتر ،بے بس ،غریب بندۂ خدا کو اپنا محکوم اور غلام مت سمجھو ،ان میں اور نہ اپنے آپ میں تمیز پیدا کرو کیو نکہ خدا کو ظلم و بر بریت کر نے والے پسند نہیں ہے ۔اقبال کا یہ شعر دیکھیں :

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز

نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز

              اقبا ل عالم انسانیت کے ان خداؤں سے مخاطب ہیںجو انسانوں میں تمیز اور چیرہ دستی پیدا کر تے ہیںتو اس کا انجام ’ظہرالفساد ُ فی البرِّ والبحر‘ہو گا جیسا کہ ہر زمانے میں ہو تے ہوئے آیا ہے ۔تاریخ شاہد ہے کہ ہر دور میں بڑے بڑے امراء ،رؤسااور بادشاہ وقت ِ منکرین کا بہت برا حال ہوا ہے۔ چاہے وہ نمرود ہو یا فرعون ،ہامان ہو یا شداد ،قارون ہو یا ابو جہل ،لینن ہو یا اسٹالن ،زار ہو یاہٹلر ،الـغرض فساد پر پا کر نے والے ہمیشہ تذلیل کے شکار ہوئے ہیں کیو نکہ جو لو گ خو ف ِ خدا نہیں رکھتے ان کے لیے فطر ت کی تعزیریںبہت سخت ہیں ۔ان کے لیے خدا کا یہ پیغام ’’اِ نَّ بَطشَ رَبِّکَ لَشَدید‘‘ہے اور جو لو گ طریق اسلامی کی اطاعت اور فرمان ِ رسول کی تابع داری کر تے ہیں ان کے لیے’’ وَلَاتَھِنُوا وَلَاتَحْزَنُواوَ اَنْتُم الٓاعلونَ اِنْ کُنْتُم مُومِنین‘‘ کی بشارت ہے ۔

٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.