مسلم خواتین: تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی میں مواقع اور چیلنجز
مسلم خواتین: تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی میں مواقع اور چیلنجز
تلخیص
اسلامی تعلیمات میں علم حاصل کرنے کو ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض قرار دیا گیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلم خواتین نے ابتدائی اسلامی ادوار میں تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں نمایاں کردار ادا کیا۔ قرون وسطیٰ میں مسلم خواتین ماہرینِ فلکیات، طبیبہ، فلسفی اور معلمہ کے طور پر جانی جاتی تھیں۔ لیکن جدید دور میں مسلم خواتین کی تعلیمی ترقی کو کئی چیلنجز درپیش ہیں، جن میں سماجی رکاوٹیں، پدرشاہی نظام، تعلیمی عدم مساوات، اور سائنسی و تکنیکی شعبوں میں کم نمائندگی شامل ہیں۔
ہندوستان میں مسلم خواتین کی تعلیمی، سائنسی، اور تکنیکی میدانوں میں شمولیت ایک اہم موضوع ہے جو معاشرتی ترقی اور اقتصادی بہتری کے لیے ضروری ہے۔ اس باب میں مسلم خواتین کی تعلیمی پیش رفت، سائنسی میدان میں کردار، طبی شعبے میں شمولیت، انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی میں حصہ داری، اور درپیش چیلنجز کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔
2011 کی مردم شماری کے مطابق، مسلم خواتین کی خواندگی کی شرح 51.9% تھی، جو دیگر مذاہب کی خواتین کے مقابلے میں کم ہے۔ سچر کمیٹی رپورٹ (2006) نے بھی مسلم خواتین کی تعلیمی پسماندگی کی نشاندہی کی ہے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں حکومتی اور غیر حکومتی تنظیموں کی کوششوں سے مسلم خواتین کی تعلیم میں بہتری آئی ہے۔اس مقالہ میں مسلم خواتین کی تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی اور مسائل کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ سب سے پہلے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں خواتین کے تعلیمی حقوق پر بات کی گئی ہے۔ اس کے بعد تاریخی تناظر میں مسلم خواتین کی سائنسی خدمات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ جدید دور میں مسلم خواتین کی تعلیمی ترقی کے اعداد و شمار اور سائنسی شعبوں میں ان کی شمولیت پر بھی تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔
اس تحقیق میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ جدید دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں مسلم خواتین کے لیے کیا مواقع موجود ہیں، اور انہیں کن چیلنجز کا سامنا ہے۔ ترقی پذیر مسلم ممالک میں خواتین کو تعلیمی اور سائنسی میدان میں آگے بڑھنے کے لیے مختلف اقدامات کی ضرورت ہے، جن میں حکومتی اصلاحات، بین الاقوامی اسکالرشپس، اور ڈیجیٹل لرننگ کے مواقع شامل ہیں۔ مزید برآں، اس تحقیق میں مسلم خواتین کی ترقی میں حائل رکاوٹوں، جیسے کہ ثقافتی اور سماجی قیود، مالی مشکلات، اور سائنسی تعلیم کے محدود مواقع، پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ آخر میں، سفارشات پیش کی گئی ہیں کہ اسلامی اقدار کو برقرار رکھتے ہوئے خواتین کو تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی میں زیادہ مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ عالمی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکیں۔یہ مقالہ نہ صرف اسلامی خواتین کی تعلیمی اور سائنسی ترقی کے مسائل کو اجاگر کرتا ہے بلکہ ان کے حل کے لیے عملی تجاویز بھی فراہم کرتا ہے، تاکہ مسلم خواتین ایک ترقی یافتہ اور جدید معاشرے میں اپنی پہچان بنا سکیں۔
کلیدی الفاظ: اسلامی خواتین، تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی، مواقع، چیلنجز
تعارف
اسلام میں علم کو اعلیٰ مقام حاصل ہے، اور قرآن و حدیث میں تعلیم کی اہمیت پر بار بار زور دیا گیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: “علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔” (ابن ماجہ)۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائی اسلامی دور میں خواتین علمی سرگرمیوں میں بھرپور طریقے سے شریک تھیں۔ حضرت عائشہؓ کو اسلامی تاریخ کی سب سے بڑی عالمہ مانا جاتا ہے، جنہوں نے حدیث، فقہ اور طب جیسے علوم میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔
قرون وسطیٰ میں بھی کئی مسلم خواتین سائنس اور ٹیکنالوجی میں نمایاں مقام رکھتی تھیں۔ فاطمہ الفہری نے مراکش میں دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی القرونیہ کی بنیاد رکھی، جبکہ مریم الاسطرلابی نے جدید اسطرلاب (Astrolabe) کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن جدید دور میں مسلم خواتین کو تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں کئی مشکلات کا سامنا ہے، جن میں ثقافتی اور سماجی رکاوٹیں، تعلیمی وسائل کی کمی، اور پیشہ ورانہ مواقع کی محدود دستیابی شامل ہیں۔
آج کے ترقی یافتہ دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرنا کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ تاہم، کئی مسلم ممالک میں خواتین کو جدید سائنسی اور تکنیکی تعلیم تک مساوی رسائی حاصل نہیں ہے۔ عالمی سطح پر STEM (سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، ریاضی) کے شعبوں میں خواتین کی نمائندگی پہلے ہی کم ہے، اور مسلم خواتین کے لیے یہ فرق مزید نمایاں ہے۔ اس عدم مساوات کی بنیادی وجوہات میں خاندانی دباؤ، شادی کے بعد تعلیمی سلسلہ منقطع ہونا، اور قدامت پسند سماجی رویے شامل ہیں۔
تاہم، حالیہ دہائیوں میں کئی اسلامی ممالک نے خواتین کی تعلیمی ترقی کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں۔ سعودی عرب میں شہزادی نورة یونیورسٹی، ملائیشیا میں خواتین کے لیے سائنسی تحقیقاتی مراکز، اور ہندوستان، پاکستان، ترکی، انڈونیشیا، اور بنگلہ دیش میں خواتین کے لیے تکنیکی تعلیم کے فروغ جیسے منصوبے اس بات کا ثبوت ہیں کہ مسلم خواتین سائنس اور ٹیکنالوجی میں آگے بڑھنے کی خواہشمند ہیں۔
یہ مقالہ اسلامی خواتین کی تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی میں شمولیت کا ایک جامع جائزہ فراہم کرے گا۔ اس میں تاریخی، سماجی اور تعلیمی تناظر میں مسلم خواتین کی ترقی کا تجزیہ کیا جائے گا، اور یہ بھی دیکھا جائے گا کہ وہ کن مشکلات سے دوچار ہیں اور ان کے کیا ممکنہ حل ہو سکتے ہیں۔ اس تحقیق کا مقصد مسلم دنیا میں خواتین کی تعلیمی اور سائنسی ترقی کے امکانات کو اجاگر کرنا اور عملی سفارشات پیش کرنا ہے، تاکہ اسلامی اقدار کے دائرے میں رہتے ہوئے خواتین جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو سکیں۔
ہندوستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے، اور مسلم خواتین اس معاشرے کا اہم جزو ہیں۔ ان کی تعلیمی، سائنسی، اور تکنیکی میدانوں میں شمولیت نہ صرف ان کی ذاتی ترقی کے لیے بلکہ ملک کی مجموعی ترقی کے لیے بھی ضروری ہے۔ تاہم، تاریخی، سماجی، اور معاشی عوامل کی بنا پر مسلم خواتین کو مختلف چیلنجز کا سامنا رہا ہے۔
2011 کی مردم شماری کے مطابق، مسلم خواتین کی خواندگی کی شرح 51.9% تھی، جو کہ قومی اوسط سے کم ہے۔ سچر کمیٹی رپورٹ (2006) نے بھی اس پسماندگی کی نشاندہی کی ہے، جس میں مسلم خواتین کی تعلیمی، سماجی، اور معاشی حالت کو بہتر بنانے کی سفارشات پیش کی گئی ہیں۔ ان رپورٹس کے بعد، حکومت اور مختلف تنظیموں نے مسلم خواتین کی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کے لیے متعدد پروگرامز کا آغاز کیا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی مسلم خواتین کی موجودگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر شبانہ خان، جو ISRO میں کام کر رہی ہیں، اور ڈاکٹر نکہت آراء، جو فارماسیوٹیکل سائنسز میں تحقیق کر رہی ہیں، ہندوستانی مسلم خواتین کی کامیابی کی مثالیں ہیں۔ تاہم، STEM (سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، اور ریاضی) میں مسلم خواتین کی شمولیت اب بھی کم ہے۔
اس مقالے میں، ہم ہندوستانی مسلم خواتین کی تعلیمی، سائنسی، اور تکنیکی شعبوں میں شمولیت پر تفصیلی بحث کریں گے۔ ہم ان کے ترقیاتی سفر، درپیش چیلنجز، اور ان کے حل کے لیے تجاویز کا جائزہ لیں گے۔
سائنسی اور تکنیکی میدانوں میں مسلم خواتین کی شمولیت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ متعدد مسلم خواتین سائنسدانوں، انجینئرز، اور ڈاکٹروں نے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر نمایاں کارنامے انجام دیے ہیں۔ ان کی کامیابیاں نہ صرف مسلم کمیونٹی بلکہ پورے ملک کے لیے باعث فخر ہیں۔تاہم، ابھی بھی بہت سے چیلنجز باقی ہیں۔ سماجی اور ثقافتی رکاوٹیں، مالی مشکلات، اور تعلیمی اداروں تک محدود رسائی مسلم خواتین کی ترقی میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ ان مسائل کے حل کے لیے جامع حکمت عملی، پالیسی اصلاحات، اور سماجی شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔
اسلامی تعلیمات اور خواتین کی تعلیمی اہمیت
اسلام میں علم کی اہمیت کو بہت زیادہ اجاگر کیا گیا ہے، اور یہ حصولِ تعلیم کو مرد و عورت دونوں کے لیے یکساں فرض قرار دیتا ہے۔ قرآن اور احادیث میں بار بار تعلیم پر زور دیا گیا ہے اور اسے انسانی ترقی کا بنیادی ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔
قرآن و حدیث میں تعلیم کی تاکید
قرآن مجید میں فرمایا گیا:کہو، کیا وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں اور وہ لوگ جو علم نہیں رکھتے، برابر ہو سکتے ہیں؟)سورہ الزمر: 9 (
اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے”: پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔)سورہ العلق: 1 ” (
یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ اسلام میں تعلیم کی کتنی اہمیت ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے بھی حصولِ علم پر زور دیا اور فرمایا:
“علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے”۔) ابن ماجہ (
یہ حدیث اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ خواتین کو بھی وہی تعلیمی حقوق حاصل ہیں جو مردوں کو دیے گئے ہیں۔
خواتین کے تعلیمی حقوق اور اسلامی تاریخ
اسلامی تاریخ میں خواتین کی تعلیم کو کبھی نظرانداز نہیں کیا گیا۔ حضرت عائشہؓ ایک جید عالمہ تھیں، جنہوں نے ہزاروں احادیث روایت کیں اور فقہ، طب، اور تاریخ میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ اسی طرح قرون وسطیٰ میں فاطمہ الفہری نے مراکش میں دنیا کی سب سے پرانی یونیورسٹی “جامعہ القرویین” کی بنیاد رکھی، جو آج بھی علم کی روشنی پھیلا رہی ہے۔
جدید دور میں خواتین کی تعلیم محض مذہبی یا ثقافتی معاملہ نہیں بلکہ ایک سماجی اور اقتصادی ضرورت بن چکی ہے۔ اسلامی ممالک میں جہاں خواتین اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں، وہاں کی معیشت اور سماجی ترقی بھی زیادہ مستحکم ہے۔ تعلیم یافتہ خواتین بہتر والدین بنتی ہیں، صحت کی دیکھ بھال میں بہتری لاتی ہیں، اور بچوں کی تربیت میں مؤثر کردار ادا کرتی ہیں۔
کچھ روایتی معاشروں میں یہ غلط تصور پایا جاتا ہے کہ خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت نہیں، یا اعلیٰ تعلیم ان کے لیے غیر ضروری ہے۔ لیکن اسلامی تعلیمات ایسی کسی بھی سوچ کو رد کرتی ہیں اور خواتین کو نہ صرف تعلیم حاصل کرنے بلکہ علم کی اشاعت میں بھی کردار ادا کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔
اسلام خواتین کو مساوی تعلیمی حقوق فراہم کرتا ہے اور ان کے سیکھنے اور سکھانے کے عمل کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ جدید دور میں مسلم خواتین کے لیے ضروری ہے کہ وہ تعلیم کے میدان میں مزید ترقی کریں تاکہ وہ خود مختار بن سکیں اور امت مسلمہ کی مجموعی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکیں۔
تاریخی تناظر: مسلم خواتین کا سائنسی و تعلیمی کردار
مسلم خواتین نے تاریخ کے مختلف ادوار میں تعلیمی اور سائنسی میدان میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ ابتدائی اسلامی دور سے لے کر قرونِ وسطیٰ تک، خواتین نے نہ صرف تعلیم حاصل کی بلکہ تدریس، تحقیق اور سائنس کے مختلف شعبوں میں نمایاں کردار ادا کیا۔
اسلام کے ابتدائی دور میں خواتین کی تعلیم پر خاص توجہ دی گئی۔ حضرت عائشہؓ کو اسلامی تاریخ کی سب سے بڑی عالمہ مانا جاتا ہے، جنہوں نے حدیث، فقہ، طب اور ادب میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ ان سے سیکڑوں صحابہ اور تابعین نے علم حاصل کیا۔
حضرت شفاء بنت عبد اللہؓ کو طبی علوم میں مہارت حاصل تھی، اور وہ اسلامی ریاست میں صحت کے انتظامات میں مشورے دیا کرتی تھیں۔ حضرت رفیدہ الاسلمیہؓ کو اسلام کی پہلی نرس کہا جاتا ہے، جنہوں نے جنگوں کے دوران زخمیوں کی تیمارداری کی اور ایک تربیتی مرکز قائم کیا۔
اسلامی سنہری دور/ قرونِ وسطیٰ (8ویں سے 14ویں صدی) میں مسلم خواتین سائنسدان اور اسکالرز نے سائنسی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ فاطمہ الفہری (9ویں صدی) – انہوں نے مراکش میں جامعہ القرویین کی بنیاد رکھی، جو دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہے۔ مریم الاسطرلابی (10ویں صدی) – ایک ماہر فلکیات اور انجینئر، جنہوں نے اسطرلاب (Astrolabe) کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا، جو قدیم نیویگیشن کا ایک اہم آلہ تھا۔عطیہ العفیفیہ – ایک معروف مسلم طبیبہ تھیں، جو عباسی خلافت کے دور میں بغداد میں طب کی تعلیم دیا کرتی تھیں۔
مسلم خواتین کی علمی سرپرستی
بہت سی مسلم خواتین نے علمی مراکز اور تعلیمی ادارے قائم کیے۔زبیدہ خاتون، جو عباسی خلیفہ ہارون الرشید کی زوجہ تھیں، نے بغداد میں نہری نظام کی تعمیر اور تعلیمی اداروں کی سرپرستی کی۔ملکہ رضیہ سلطانہ (دہلی سلطنت) اور نور جہاں (مغل سلطنت) بھی تعلیمی و علمی ترقی میں معاون رہیں۔
جدید مسلم خواتین اور سائنسی ترقی
اگرچہ مسلم خواتین کی سائنسی ترقی قرونِ وسطیٰ میں اپنے عروج پر تھی، لیکن نوآبادیاتی دور اور جدید دور میں ان کی شرکت محدود ہو گئی۔ تاہم، حالیہ دہائیوں میں مسلم خواتین دوبارہ سائنس اور تعلیم میں اپنا مقام حاصل کر رہی ہیں، جن میں ڈاکٹر حیات سندی (سعودی عرب کی معروف بایوٹیکنالوجی سائنسدان) اور نرگس ماولوالا (پاکستانی نژاد ماہر فلکیات) جیسے نام نمایاں ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ مسلم خواتین نے سائنس، تعلیم اور تحقیق میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تاریخی شخصیات سے سبق حاصل کرتے ہوئے مسلم خواتین کو تعلیمی اور سائنسی میدان میں مزید آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
عصری دور میں مسلم خواتین کی تعلیمی ترقی
جدید دور میں مسلم خواتین کی تعلیم میں نمایاں بہتری دیکھی گئی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے تعلیمی ادارے یونیسکو (UNESCO) کی رپورٹ کے مطابق کئی اسلامی ممالک میں خواتین کی تعلیم کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر: ملائیشیا میں یونیورسٹیوں میں خواتین کے داخلے کی شرح 55% سے زائد ہے۔ایران میں 60% سے زیادہ یونیورسٹی طلبہ خواتین پر مشتمل ہیں۔ترکی میں 2010 کے بعد خواتین کے لیے اعلیٰ تعلیم میں مواقع میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ہندوستان میں کئی مسلم خواتین سائنسدانوں نے نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں، جن میں ڈاکٹر نوشین فاطمہ (بایوٹیکنالوجی)، ڈاکٹر فوزیہ پروین (نیورو سائنس)، اور ڈاکٹر شبانہ خان (ISRO) شامل ہیں۔ تاہم، مسلم خواتین کو سائنسی تحقیق میں کم مواقع ملتے ہیں، جس کی بنیادی وجوہات مالی مشکلات، کمزور تعلیمی نظام، اور سماجی رکاوٹیں ہیں۔تاہم، کچھ ممالک جیسے ہندوستان، پاکستان، افغانستان اور بعض افریقی مسلم ریاستوں میں اب بھی لڑکیوں کی تعلیم کے راستے میں رکاوٹیں موجود ہیں۔
مسلم خواتین کی تعلیم میں درپیش رکاوٹیں
اگرچہ ترقی ہو رہی ہے، لیکن کئی مسلم ممالک میں خواتین کی تعلیمی ترقی کو متعدد چیلنجز درپیش ہیں، جن میں درج ذیل مسائل شامل ہیں:سماجی اور ثقافتی رکاوٹیں: قدامت پسند روایات کی وجہ سے بعض علاقوں میں لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔معاشی مسائل: کئی خاندان مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے لڑکیوں کی تعلیم کو ترجیح نہیں دیتے۔حفاظتی خدشات: بعض مسلم ممالک میں لڑکیوں کو اسکول جانے میں سیکیورٹی خدشات کا سامنا رہتا ہے۔تعلیمی اداروں کی کمی: دیہی اور دور دراز علاقوں میں خواتین کے لیے تعلیمی اداروں کی تعداد کم ہے۔
جدید دور میں تعلیمی مواقع
مسلم ممالک میں خواتین کے لیے تعلیمی ترقی کے کئی مثبت اقدامات کیے گئے ہیں، جن میں درج ذیل شامل ہیں:
- آن لائن تعلیم: ڈیجیٹل لرننگ پلیٹ فارمز جیسے Coursera، EdX اور Udemy کے ذریعے مسلم خواتین گھر بیٹھے اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
- اسکالرشپس: کئی اسلامی ممالک میں خواتین کے لیے خصوصی اسکالرشپس اور گرانٹس فراہم کی جا رہی ہیں۔ مثال کے طور پر، سعودی عرب کا کنگ عبداللہ اسکالرشپ پروگرام اور ترکی کی حکومت کی تعلیمی اسکالرشپس۔
- حکومتی اصلاحات: متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، ملائیشیا اور انڈونیشیا جیسے ممالک میں خواتین کی اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے پالیسی اصلاحات متعارف کروائی گئی ہیں۔
مسلم خواتین کی تعلیم کے روشن پہلو
حالیہ برسوں میں مسلم خواتین کی تعلیم کے حوالے سے کئی مثبت مثالیں سامنے آئی ہیں:
- نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی، جو خواتین کی تعلیم کے لیے ایک عالمی علامت بن چکی ہیں۔
- ڈاکٹر حیات سندی، جو سعودی عرب کی پہلی خاتون سائنسدانوں میں سے ایک ہیں۔
- شیخہ موزہ بنت نصر (قطر) جنہوں نے “ایجوکیشن فار آل” مہم کی قیادت کی۔
عصری دور میں مسلم خواتین کی تعلیم میں قابلِ ذکر پیشرفت ہوئی ہے، لیکن کئی چیلنجز بدستور موجود ہیں۔ ان چیلنجز کے حل کے لیے ضروری ہے کہ حکومتیں، تعلیمی ادارے اور عالمی تنظیمیں مل کر کام کریں تاکہ مسلم خواتین کے لیے تعلیمی مواقع کو مزید وسیع کیا جا سکے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی میں مسلم خواتین کی شمولیت
مسلم خواتین آج کے دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ STEM (سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، ریاضی)کے میدان میں اگرچہ مسلم خواتین کی تعداد دیگر ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں کم ہے، لیکن ان کی موجودگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
- نرگس ماولوالا (پاکستانی نژاد امریکی سائنسدان) نے لیگو پروجیکٹ کے ذریعے گریویٹیشنل ویوز (کششی موجوں) کی دریافت میں کلیدی کردار ادا کیا۔
- ڈاکٹر حیات سندی (سعودی عرب) بایوٹیکنالوجی میں نمایاں خدمات انجام دے رہی ہیں۔
- گھالیہ الانصاری (متحدہ عرب امارات) مصنوعی ذہانت اور روبوٹکس کے شعبے میں کام کر رہی ہیں۔
- ہندوستان میں مسلم خواتین ڈاکٹروں نے طب اور ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں میں خدمات انجام دی ہیں۔ڈاکٹر رضیہ سلطانہ(گائناکولوجی)، ڈاکٹر نکہت پروین (کارڈیولوجی)، نرس فاطمہ شیخ (نرسنگ)، سائرہ بانو (سافٹ ویئر انجینئرنگ)، زینب خان (روبوٹکس) وغیرہ۔
مسلم ممالک میں خواتین اور سائنسی تعلیم
بعض اسلامی ممالک میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم حاصل کرنے والی خواتین کی شرح حوصلہ افزا ہے۔
- ایران میں 70% سے زائد سائنس اور انجینئرنگ کے طلبہ خواتین ہیں۔
- ملائیشیا میں خواتین کی بڑی تعداد بایوٹیکنالوجی، فارمیسی، اور ڈیٹا سائنس جیسے شعبوں میں داخل ہو رہی ہے۔
- ترکی میں حالیہ دہائیوں میں خواتین کو STEM فیلڈز میں داخلے کے لیے حکومتی سپورٹ حاصل ہوئی ہے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی میں مسلم خواتین کو درپیش چیلنجز
مسلم خواتین کو سائنسی میدان میں کئی چیلنجز کا سامنا ہے:
- ثقافتی و سماجی رکاوٹیں: کئی قدامت پسند معاشروں میں سائنسی شعبوں کو مردوں کے لیے مخصوص سمجھا جاتا ہے۔
- تعلیمی وسائل کی کمی: جدید لیبارٹریز اور تحقیقاتی مواقع کی محدود دستیابی خواتین کی سائنسی ترقی کو متاثر کرتی ہے۔
- محدود مواقع: STEM فیلڈز میں مسلم خواتین کے لیے پیشہ ورانہ مواقع دیگر فیلڈز کے مقابلے میں کم ہیں۔
سائنس اور ٹیکنالوجی میں مسلم خواتین کے لیے مواقع
کئی عالمی ادارے مسلم خواتین کو سائنس میں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کر رہے ہیں:
- اسلامک ڈویلپمنٹ بینک (IDB) خواتین کے لیے سائنسی اسکالرشپس فراہم کر رہا ہے۔
- یونیسکو ترقی پذیر مسلم ممالک میں خواتین کے لیے سائنسی تعلیم کے فروغ پر کام کر رہا ہے۔
- Google اور Microsoft نے مسلم خواتین کے لیے خصوصی STEM پروگرام شروع کیے ہیں۔
مسلم خواتین سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنی صلاحیتیں منوا رہی ہیں، لیکن ان کی ترقی کے لیے مزید مواقع اور حکومتی اقدامات کی ضرورت ہے۔ جدید سائنسی تعلیم، ڈیجیٹل لرننگ، اور تحقیقاتی سہولیات میں بہتری کے ذریعے مسلم خواتین عالمی سطح پر مزید مؤثر کردار ادا کر سکتی ہیں۔
مسلم ممالک میں خواتین کے لیے تکنیکی تعلیم کے فروغ کے اقدامات
جدید دنیا میں تکنیکی مہارتیں کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے نہایت اہم ہیں۔ ٹیکنیکل ایجوکیشن نہ صرف ملازمتوں کے مواقع بڑھاتی ہے بلکہ خواتین کو خودمختار بھی بناتی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی (IT)، انجینئرنگ، اور ڈیجیٹل مہارتوں میں خواتین کی شمولیت کسی بھی قوم کے لیے ترقی کی راہیں ہموار کر سکتی ہے۔
مسلم ممالک میں خواتین کے لیے تکنیکی تعلیم میں ترقی کی مختلف سطحیں دیکھی جا سکتی ہیں:
- ترکی اور ملائیشیا میں خواتین کو IT، روبوٹکس، اور انجینئرنگ کی تعلیم میں بڑی حد تک مواقع دیے جا رہے ہیں۔
- سعودی عرب نے حالیہ برسوں میں خواتین کی تکنیکی تعلیم کے لیے دروازے کھولے ہیں، جہاں اب خواتین انجینئرنگ اور کمپیوٹر سائنس جیسے شعبوں میں نمایاں ہو رہی ہیں۔ ہندوستان ،پاکستان اور بنگلہ دیش میں خواتین کے لیے تکنیکی ادارے قائم کیے جا رہے ہیں، لیکن اب بھی کئی چیلنجز موجود ہیں۔کئی مسلم ممالک میں خواتین کو تکنیکی تعلیم میں شامل کرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں، جن میں درج ذیل نمایاں ہیں:
- اسکالرشپس اور فنی تعلیمی ادارے:
ہندوستان میں تعلیمی ترقی کے لیے حکومتی اقدامات:
- بیگم حضرت محل اسکالرشپ: اقلیتی طالبات کو مالی امداد فراہم کرنا۔
- مدرسہ ماڈرنائزیشن اسکیم: مدرسہ تعلیم کو جدید نصاب کے مطابق بنانا۔
- سدھارتھ اسکالرشپ: اقلیتی برادری کے طلبہ کے لیے خصوصی اسکالرشپ پروگرام۔
o ترکی اور ملائیشیا میں خواتین کے لیے خصوصی اسکالرشپس دی جا رہی ہیں تاکہ وہ انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں آگے بڑھ سکیں۔
o سعودی عرب نے “وژن 2030” کے تحت خواتین کے لیے فنی و تکنیکی تعلیم کو فروغ دیا ہے۔
- آن لائن لرننگ پلیٹ فارمز:
o Coursera، Udemy، اور edX جیسے پلیٹ فارمز پر مسلم خواتین آن لائن IT، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، اور ڈیٹا سائنس کے کورسز کر رہی ہیں۔
o کئی اسلامی ممالک میں آن لائن لرننگ کو فروغ دینے کے لیے سرکاری سطح پر بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
- اسٹارٹ اپ سپورٹ اور انٹرپرینیورشپ پروگرامز:
o متحدہ عرب امارات میں خواتین کے لیے تکنیکی کاروبار (Tech Startups) کے لیے فنڈنگ اور سپورٹ فراہم کی جا رہی ہے۔
o بنگلہ دیش میں “SheMeansBusiness” جیسے پروگرامز خواتین کو تکنیکی مہارتیں سکھا رہے ہیں۔
درپیش چیلنجز اور ان کا حل
- روایتی سوچ: کئی مسلم ممالک میں یہ خیال عام ہے کہ خواتین کو تکنیکی تعلیم کی ضرورت نہیں۔ اس سوچ کو بدلنے کے لیے آگاہی مہمات ضروری ہیں۔
- تعلیمی اداروں کی کمی: دیہی علاقوں میں تکنیکی تعلیم کے ادارے محدود ہیں، جس کے لیے حکومتوں کو مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔
محدود ملازمت کے مواقع: کئی جگہوں پر تکنیکی تعلیم حاصل کرنے کے بعد خواتین کے لیے ملازمت کے مواقع کم ہوتے ہیں، جس کے لیے نجی و سرکاری سیکٹر میں زیادہ مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
مسلم خواتین اور ڈیجیٹل انقلاب
ڈیجیٹل انقلاب نے دنیا کے تمام شعبوں کو متاثر کیا ہے، اور مسلم خواتین بھی اس سے مستفید ہو رہی ہیں۔ انٹرنیٹ، مصنوعی ذہانت (AI)، کلاؤڈ کمپیوٹنگ، اور ای-کامرس جیسے شعبے مسلم خواتین کو نئے مواقع فراہم کر رہے ہیں۔
- آن لائن تعلیم: مسلم خواتین Coursera، Udemy، اور Khan Academy جیسے پلیٹ فارمز سے تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
- ڈیجیٹل کاروبار: بہت سی مسلم خواتین نے آن لائن بزنس اور فری لانسنگ میں قدم رکھا ہے، جس سے وہ مالی خودمختاری حاصل کر رہی ہیں۔
- ریموٹ ورک: ٹیکنالوجی کے ذریعے خواتین گھروں سے کام کر کے بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ منسلک ہو رہی ہیں۔
مسلم ممالک میں ڈیجیٹل مہارتوں کے فروغ کے اقدامات
کئی اسلامی ممالک خواتین کو ڈیجیٹل مہارتیں سکھانے کے لیے خصوصی اقدامات کر رہے ہیں:
- سعودی عرب: وژن 2030 کے تحت خواتین کو IT اور ڈیجیٹل بزنس میں مواقع دیے جا رہے ہیں۔
- ملائیشیا: خواتین کے لیے ڈیجیٹل انٹرپرینیورشپ پروگرامز متعارف کرائے گئے ہیں۔
- پاکستان: “DigiSkills” پروگرام کے ذریعے خواتین کو آن لائن فری لانسنگ سکھائی جا رہی ہے۔
مسلم خواتین کے لیے ڈیجیٹل مواقع
ڈیجیٹل انقلاب کے نتیجے میں مسلم خواتین کو کئی نئے مواقع حاصل ہوئے ہیں:
- فری لانسنگ:
o ویب ڈویلپمنٹ، گرافک ڈیزائننگ، کانٹینٹ رائٹنگ، اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ جیسے شعبے مقبول ہو رہے ہیں۔
o Upwork اور Fiverr جیسے پلیٹ فارمز پر مسلم خواتین کی شرکت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
- ای-کامرس:
o کئی مسلم خواتین نے Shopify اور Amazon پر اپنے کاروبار شروع کیے ہیں۔
o انسٹاگرام اور فیس بک پر آن لائن بزنس کرنے والی خواتین کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
- سوشل میڈیا انفلوئنسنگ:
o مسلم خواتین یوٹیوب، انسٹاگرام، اور ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز پر ایجوکیشنل اور بزنس کنٹینٹ بنا رہی ہیں۔
چیلنجز اور ان کا حل
- ڈیجیٹل خواندگی کی کمی: کئی مسلم ممالک میں خواتین کو بنیادی ڈیجیٹل مہارتیں حاصل کرنے میں مشکلات ہیں۔ اس کے لیے مفت آن لائن کورسز کی فراہمی ضروری ہے۔
- انٹرنیٹ تک محدود رسائی: دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ تک رسائی ایک بڑا مسئلہ ہے، جسے حل کرنے کے لیے حکومتوں کو سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔
- آن لائن سیکیورٹی کے مسائل: خواتین کو سائبر سیکیورٹی اور آن لائن حراسانی کے مسائل کا سامنا ہے، جس کے لیے بہتر قوانین اور آگاہی کی ضرورت ہے۔
ڈیجیٹل انقلاب مسلم خواتین کے لیے ایک سنہری موقع ہے۔ اگر انہیں ضروری مہارتیں، وسائل، اور مواقع فراہم کیے جائیں تو وہ ڈیجیٹل معیشت میں ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔
مسلم خواتین اور تحقیقی میدان میں شمولیت
تحقیق کسی بھی قوم کی علمی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، اور مسلم خواتین اب اس میدان میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔ سائنسی، سماجی، اور اسلامی علوم میں مسلم خواتین کی شمولیت بتدریج بڑھ رہی ہے۔
- سائنس اور ٹیکنالوجی: نرگس ماولوالا (فلکیاتی طبیعات)، ڈاکٹر حیات سندی (بایوٹیکنالوجی)، اور ڈاکٹر عاتکہ قادر (طبی تحقیق) جیسے نام اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ مسلم خواتین تحقیق کے میدان میں نمایاں کارکردگی دکھا رہی ہیں۔
- سماجی علوم: مسلم خواتین نے تعلیمی تحقیق، سماجی مسائل، اور صنفی مساوات جیسے موضوعات پر متعدد تحقیقی مقالے لکھے ہیں۔
- اسلامی مطالعات: کئی مسلم خواتین اسکالرز نے اسلامی علوم میں تحقیق کر کے خواتین کے حقوق، اسلامی فقہ، اور جدید اسلامی تعلیمات پر گراں قدر کام کیا ہے۔
مسلم ممالک میں خواتین کے لیے تحقیقی مواقع
کئی مسلم ممالک میں تحقیقی کام کو فروغ دینے کے لیے خواتین کو مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں:
- سعودی عرب: “کنگ عبدالعزیز سٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی” میں خواتین کو ریسرچ مواقع دیے جا رہے ہیں۔
- ترکی: “TÜBİTAK” (ترک سائنسی و تکنیکی ریسرچ کونسل) کے ذریعے خواتین محققین کو اسکالرشپس دی جا رہی ہیں۔
- ہندوستان اور پاکستان: ہائر ایجوکیشن میں خواتین محققین کو گرانٹس اور فنڈنگ فراہم کر رہا ہے۔
مسلم خواتین کے تحقیقی میدان میں درپیش چیلنجز
مسلم خواتین کو تحقیق کے میدان میں کئی چیلنجز کا سامنا ہے:
- وسائل کی کمی: تحقیقی منصوبوں کے لیے فنڈنگ اور لیبارٹریز تک رسائی محدود ہے۔
- سماجی پابندیاں: بعض قدامت پسند معاشروں میں خواتین کے لیے اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔
- بین الاقوامی مواقع کی محدود دستیابی: کئی مسلم خواتین کو بیرون ملک تحقیقی کانفرنسوں اور اسکالرشپس کے مواقع نہیں ملتے۔
مسلم خواتین کے لیے تحقیقی مواقع بڑھانے کے اقدامات
- اسکالرشپس اور فنڈنگ: خواتین کے لیے خصوصی تحقیقاتی فنڈنگ پروگرامز متعارف کروانے کی ضرورت ہے۔
- بین الاقوامی تعاون: مسلم خواتین محققین کو عالمی تحقیقی اداروں سے منسلک کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
- تحقیقی مراکز کا قیام: مسلم ممالک میں خواتین کے لیے مخصوص تحقیقی ادارے اور لیبارٹریز بنائی جائیں۔
مسلم خواتین کا تحقیقی میدان میں بڑھتا ہوا کردار حوصلہ افزا ہے، لیکن ان کے لیے مزید مواقع، وسائل، اور حکومتی معاونت کی ضرورت ہے تاکہ وہ علمی ترقی میں مؤثر کردار ادا کر سکیں۔
مسلم خواتین اور طبی سائنس میں پیش رفت
مسلم خواتین کا طبی سائنس میں کردار صدیوں پر محیط ہے۔ ابتدائی اسلامی دور میں کئی خواتین طبی خدمات انجام دیتی رہی ہیں:
- رفیدہ الاسلمیہ (پہلی مسلم خاتون سرجن) نے غزوات کے دوران زخمیوں کی دیکھ بھال کی اور میڈیکل کیمپ قائم کیے۔
- امہ سنان بھی ابتدائی اسلامی دور میں طبی خدمات سرانجام دیتی تھیں۔
- عالیہ بیت المکیہ نے جراحی (سرجری) میں مہارت حاصل کی اور جدید طریقہ علاج میں اپنا حصہ ڈالا۔
جدید دور میں مسلم خواتین اور طبی سائنس
آج کے دور میں مسلم خواتین میڈیکل سائنس، فارمیسی، بایوٹیکنالوجی، اور نیوروسائنس جیسے شعبوں میں کامیابیاں حاصل کر رہی ہیں:
- ڈاکٹر حیام النصیر (سعودی عرب) نیوروسرجری کی ماہر ہیں اور دماغی بیماریوں پر تحقیق کر رہی ہیں۔
- ڈاکٹر عاتکہ قادر (پاکستان) متعدی امراض پر کام کر رہی ہیں اور عالمی سطح پر سراہا جا رہا ہے۔
- ڈاکٹر یاسمین الطراوی (مصر) جینیٹک میڈیسن میں تحقیق کر رہی ہیں۔
مسلم ممالک میں خواتین کے لیے طبی تعلیم کے مواقع
کئی مسلم ممالک میں خواتین کو طبی سائنس کے شعبے میں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں:
- سعودی عرب: “کنگ سعود یونیورسٹی” اور “پرنس نورة یونیورسٹی” میں میڈیکل اور نرسنگ کے خصوصی پروگرامز۔
- ترکی: خواتین کو میڈیکل تحقیق میں حکومتی اسکالرشپس دی جا رہی ہیں۔
- ہندوستان اور دیگر ممالک : میڈیکل کالجز میں خواتین کی بڑی تعداد داخلہ لے رہی ہے، اور کئی ممتاز خواتین ڈاکٹرز اور محققین سامنے آ رہی ہیں۔
طبی سائنس میں مسلم خواتین کو درپیش چیلنجز
- ثقافتی رکاوٹیں: بعض معاشروں میں خواتین کے لیے میڈیکل فیلڈ میں کام کرنا مشکل سمجھا جاتا ہے۔
- تحقیقی فنڈنگ کی کمی: کئی مسلم خواتین سائنسدانوں کو تحقیق کے لیے مناسب فنڈز دستیاب نہیں ہوتے۔
- روزگار کے مواقع کی محدودیت: کچھ مسلم ممالک میں خواتین کے لیے اسپتالوں اور تحقیقی اداروں میں نوکریاں حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے۔
ترقی کے امکانات اور اقدامات
- اسکالرشپس اور تحقیقی گرانٹس: مسلم ممالک میں خواتین کے لیے میڈیکل سائنس میں اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے مزید مواقع فراہم کیے جائیں۔
- ڈیجیٹل اور آن لائن میڈیکل لرننگ: خواتین کو جدید طبی مہارتیں سکھانے کے لیے آن لائن کورسز اور ورچوئل لیبارٹریز متعارف کرائی جائیں۔
- خواتین کے لیے طبی ادارے: مسلم ممالک میں خواتین کے لیے مخصوص اسپتال اور تحقیقی مراکز بنائے جائیں تاکہ وہ آزادانہ کام کر سکیں۔
مسلم خواتین طبی سائنس میں اپنی قابلیت کا لوہا منوا رہی ہیں، لیکن انہیں مزید مواقع، حکومتی تعاون، اور تحقیقی وسائل فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ صحت عامہ میں مؤثر کردار ادا کر سکیں۔
مسلم خواتین اور انجینئرنگ کے میدان میں ترقی
انجینئرنگ ایک ایسا شعبہ ہے جو تکنیکی ترقی اور جدید سائنسی ایجادات میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ مسلم خواتین اس میدان میں بھی نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں، خاص طور پر سول، الیکٹریکل، مکینیکل، اور سافٹ ویئر انجینئرنگ میں۔
- ڈاکٹر حیام حسان (مصر) روبوٹکس اور مصنوعی ذہانت میں تحقیق کر رہی ہیں۔
- ڈاکٹر مریم مرزا (پاکستان) ڈیٹا سائنس اور انجینئرنگ میں نمایاں خدمات انجام دے رہی ہیں۔
- ڈاکٹر منال التمیمی (سعودی عرب) اسپیس انجینئرنگ کے شعبے میں کام کر رہی ہیں۔
مسلم ممالک میں خواتین کے لیے انجینئرنگ کے تعلیمی مواقع
کئی مسلم ممالک میں خواتین کو انجینئرنگ کے شعبے میں آگے بڑھنے کے لیے تعلیمی مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں:
- سعودی عرب: وژن 2030 کے تحت خواتین کو انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی میں شامل کیا جا رہا ہے۔
- ملائیشیا: یونیورسٹی آف مالایا اور دیگر ادارے خواتین کے لیے انجینئرنگ اسکالرشپس فراہم کر رہے ہیں۔
- پاکستان: نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (NUST) اور دیگر ادارے خواتین کو انجینئرنگ میں آگے بڑھنے کے مواقع دے رہے ہیں۔
- ہندوستان: اسکل انڈیا پروگرام،میک اِن انڈیا، ڈیجیٹل انڈیا انیشی ایٹو وغیرہ۔
مسلم خواتین کے لیے انجینئرنگ کے شعبے میں درپیش چیلنجز
- ثقافتی رکاوٹیں: کئی معاشروں میں انجینئرنگ کو مردوں کا شعبہ سمجھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے خواتین کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
- روزگار کے مواقع کی کمی: کچھ مسلم ممالک میں خواتین انجینئرز کے لیے مناسب نوکریاں دستیاب نہیں ہوتیں۔
- تحقیقی وسائل کی محدودیت: انجینئرنگ میں تحقیق کے لیے مسلم خواتین کو فنڈنگ اور جدید سہولیات میسر نہیں ہوتیں۔
ترقی کے امکانات اور ضروری اقدامات
- خصوصی اسکالرشپس اور فنڈنگ: انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے والی مسلم خواتین کے لیے گرانٹس اور وظائف کا آغاز کیا جائے۔
- انٹرن شپ اور فیلڈ ٹریننگ: خواتین کو عملی تجربہ حاصل کرنے کے لیے انٹرن شپ پروگرامز میں زیادہ شامل کیا جائے۔
- انجینئرنگ کمپنیوں میں خواتین کے لیے مواقع: نجی اور سرکاری سطح پر انجینئرنگ میں خواتین کی شمولیت کو بڑھایا جائے۔
مسلم خواتین انجینئرنگ میں اپنی جگہ بنا رہی ہیں، لیکن انہیں مزید تعاون، مواقع، اور وسائل کی ضرورت ہے تاکہ وہ جدید دنیا کی ترقی میں مؤثر کردار ادا کر سکیں۔
مسلم خواتین اور جدید ٹیکنالوجی میں شمولیت
ٹیکنالوجی دنیا میں تیزی سے ترقی کر رہی ہے، اور مسلم خواتین بھی اس میدان میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔ مصنوعی ذہانت (AI)، سائبر سیکیورٹی، ڈیٹا سائنس، اور بائیو ٹیکنالوجی جیسے شعبے خواتین کے لیے نئے مواقع پیدا کر رہے ہیں۔
- ڈاکٹر فاطمہ النعیمی (متحدہ عرب امارات) ڈیٹا سائنس اور AI میں نمایاں خدمات انجام دے رہی ہیں۔
- ڈاکٹر ریحان ہارون (پاکستان) بائیو ٹیکنالوجی میں جدید تحقیق کر رہی ہیں۔
- ڈاکٹر نور الہدیٰ (مصر) سائبر سیکیورٹی میں عالمی سطح پر پہچانی جا رہی ہیں۔
مسلم ممالک میں خواتین کے لیے ٹیکنالوجی کے مواقع
کئی مسلم ممالک خواتین کو ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھانے کے لیے اہم اقدامات کر رہے ہیں:
- سعودی عرب: وژن 2030 کے تحت خواتین کو IT اور AI میں زیادہ مواقع دیے جا رہے ہیں۔
- ملائیشیا: خواتین کے لیے سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں اسکالرشپس اور تربیتی پروگرام فراہم کیے جا رہے ہیں۔
- ہندوستان اور پاکستان”DigiSkills”: اور “Women in Tech” جیسے پروگرامز کے ذریعے خواتین کو ڈیجیٹل مہارتیں سکھائی جا رہی ہیں۔
مسلم خواتین کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے شعبے میں درپیش چیلنجز
- تعلیمی مواقع کی محدودیت: کئی مسلم ممالک میں ٹیکنالوجی کے جدید کورسز تک خواتین کی رسائی محدود ہے۔
- خواتین کے لیے ورک پلیس چیلنجز: ٹیکنالوجی کے میدان میں خواتین کی نمائندگی کم ہے، جس کی وجہ سے انہیں کام کی جگہ پر مشکلات پیش آتی ہیں۔
- تحقیقی سہولیات کی کمی: مسلم خواتین کے لیے ٹیکنالوجی کے میدان میں جدید تحقیقی وسائل کم دستیاب ہیں۔
ترقی کے امکانات اور ضروری اقدامات
- ڈیجیٹل لرننگ پلیٹ فارمز: مسلم خواتین کے لیے آن لائن ٹیکنالوجی کورسز اور ورچوئل لرننگ کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
- خواتین کے لیے اسٹارٹ اپ انکیوبیٹرز: مسلم ممالک میں خواتین کے لیے خصوصی IT اسٹارٹ اپ سپورٹ پروگرامز بنائے جائیں۔
- بین الاقوامی نیٹ ورکنگ کے مواقع: مسلم خواتین کو عالمی ٹیکنالوجی کانفرنسوں اور نیٹ ورکنگ ایونٹس میں شامل ہونے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔مسلم خواتین جدید ٹیکنالوجی میں اپنا لوہا منوا رہی ہیں، لیکن انہیں مزید تعلیمی مواقع، حکومتی معاونت، اور جدید سہولیات کی ضرورت ہے تاکہ وہ عالمی ٹیک انڈسٹری میں نمایاں مقام حاصل کر سکیں۔
نتیجہ
مسلم خواتین نے تعلیمی، سائنسی، اور تکنیکی شعبوں میں شاندار ترقی کی ہے، لیکن اب بھی کئی چیلنجز اور رکاوٹیں ان کے راستے میں حائل ہیں۔ اس تحقیقی مطالعے میں ہم نے مسلم خواتین کی تعلیم، سائنس، طب، انجینئرنگ، اور جدید ٹیکنالوجی میں شمولیت کا تفصیلی جائزہ لیا اور ان کے ترقیاتی سفر میں درپیش مسائل اور مواقع کو اجاگر کیا۔
تعلیم مسلم خواتین کی ترقی کی بنیاد ہے، اور کئی اسلامی ممالک نے خواتین کی تعلیم کے فروغ کے لیے مثبت اقدامات کیے ہیں۔ تاہم، کچھ روایتی اور قدامت پسند معاشروں میں خواتین کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تعلیمی اداروں، اسکالرشپس، اور آن لائن لرننگ پلیٹ فارمز کی دستیابی سے مسلم خواتین کے لیے تعلیم کے دروازے کھل رہے ہیں، لیکن ان مواقع کو مزید وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔
مسلم خواتین سائنسی اور تحقیقی میدان میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ بائیوٹیکنالوجی، نیوروسائنس، اور طبی تحقیق میں ان کی شرکت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ہندوستان، سعودی عرب، پاکستان، ترکی، اور ملائیشیا جیسے ممالک میں خواتین محققین کے لیے اسکالرشپس اور فنڈنگ کے مواقع موجود ہیں، لیکن تحقیقی وسائل، لیبارٹریز، اور جدید سہولیات کی مزید فراہمی کی ضرورت ہے تاکہ مسلم خواتین عالمی سطح پر نمایاں تحقیقی کامیابیاں حاصل کر سکیں۔
مسلم خواتین نے طبی سائنس میں شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ رفیدہ الاسلمیہ سے لے کر آج کی جدید مسلم خواتین سائنسدانوں تک، یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسلم خواتین طبی تحقیق اور مریضوں کی دیکھ بھال میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہیں۔ تاہم، کچھ مسلم ممالک میں خواتین ڈاکٹروں کے لیے کام کے محدود مواقع اور ثقافتی پابندیاں ان کی ترقی میں رکاوٹ بن سکتی ہیں، جنہیں پالیسی اصلاحات اور شعور بیدار کرنے سے ختم کیا جا سکتا ہے۔
انجینئرنگ اور جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں مسلم خواتین کی شمولیت قابل ستائش ہے۔ مصنوعی ذہانت (AI)، روبوٹکس، ڈیٹا سائنس، اور سائبر سیکیورٹی جیسے جدید شعبوں میں مسلم خواتین کا کردار بڑھ رہا ہے۔ تاہم، STEM (سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، اور ریاضی) کے شعبے میں خواتین کی کم نمائندگی، ورک پلیس چیلنجز، اور تحقیقی مواقع کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے خصوصی اسکالرشپس، انٹرن شپ، اور خواتین کے لیے سازگار کام کے ماحول کی ضرورت ہے۔ہر مسلم ملک میں خواتین کی اعلیٰ تعلیم کے لیے مزید اسکالرشپس، آن لائن کورسز، اور ڈیجیٹل لرننگ پلیٹ فارمز مہیا کیے جائیں۔ مسلم خواتین کو سائنسی اور تکنیکی تحقیق میں بہتر وسائل اور جدید تجربہ گاہیں فراہم کی جائیں۔ ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ میں خواتین کے اسٹارٹ اپس کو سپورٹ کرنے کے لیے خصوصی پروگرامز متعارف کرائے جائیں۔ دفاتر، اسپتالوں، اور تحقیقی اداروں میں خواتین کے لیے دوستانہ ماحول، لچکدار ورکنگ اوقات، اور لیڈرشپ کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
مسلم خواتین نے تمام شعبوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں، لیکن ان کی ترقی کو مزید فروغ دینے کے لیے تعلیمی اور تحقیقی مواقع، حکومتی معاونت، اور سماجی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ اسلامی دنیا میں خواتین کی صلاحیتوں کو مکمل طور پر بروئے کار لانے سے نہ صرف انفرادی ترقی ممکن ہوگی بلکہ مسلم معاشرے بھی مجموعی طور پر علمی، سائنسی، اور معاشی ترقی میں نمایاں پیش رفت کریں گے۔
حوالہ جات
- Ministry of Education, Government of India. Educational Development of Minorities, Retrieved from https://www.education.gov.in/educational-development-minorities
- UNESCO. (2019). Empowering women through education: A case study of Muslim women in South Asia. UNESCO Reports. Retrieved from https://unesdoc.unesco.org/ark:/48223/pf0000369000
- World Bank. (2022). Gender and economic empowerment: The role of education in Muslim women’s employment in India. Retrieved from https://www.worldbank.org/en/topic/gender/overview
- Mansoor. S, (2024). Women’s education in the Muslim world: Literacy rates and economic development. Tahqiqat, Retrieved from https://tahqiqaat.pk/article/2105
- Rubina. (2023). Muslim women in science, National Council for Promotion of Urdu Language Blog. Retrieved from https://ncpulblog.blogspot.com/2023/10/blog-post_30.html
- Hasan, Z. (2004). Structural disempowerment of Muslim women: An Indian perspective. Journal of Sociology, 18(3), 45-59.
- Sayyedin, S. (1999). Educational backwardness of Muslim women: Causes and solutions. Educational Journal, 7(2), 33-47.
- National Sample Survey Office. (2006). Participation of Muslim women in higher education: An analytical study. University Grants Commission Report.
- Sachar Committee Report. (2006). Social, economic, and educational status of Muslims in India. Government of India. Retrieved from https://www.minorityaffairs.gov.in/WriteReadData/RTF1984/7830578798.pdf
- Press Information Bureau. (2021). CSIR-NIScPR virtual conference on science and technology in India. Government of India. Retrieved from https://pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=1746911
- https://en.wikipedia.org/wiki/Hamida_Saiduzzafar
- https://www.ias.ac.in/Initiatives/Women_in
- http://www.niehs.nih.go
- https://en.wikipedia.org/wiki/Qamar_Rahman
Leave a Reply
Be the First to Comment!