مثنویات میر کا پسندیدہ موضوع : عشق
مثنویات میر کا پسندیدہ موضوع : عشق
اصناف شاعری میں مثنوی وسعت بیان کی وجہ سے سب سے پسندیدہ ہے۔یہاںردیف اور قافیے کی پاپندی توہے لیکن غزل سے قدرے مختلف ۔ یعنی جہاں غزل کا قافیہ مطلعے سے مقطعے تک ایک ہوتاہے وہیں مثنوی میں ہر شعر میں قافیے کے بدلنے میں گنجائش ہوتی ہے۔ قوافی کے تغیر وتبدل کی یہی آزادی قصہ اور اس کی جزئیات نگاری میں آسانی فراہم کرتی ہے۔ اردومثنویوں میں ’نوسرہار‘ اور ’قطب مشتری‘ مضمون کے لحاظ سے دو مختلف مثنویاں ہیں۔لیکن جزئیات اور تسلسل بیان نے دونوں کو ایک دھاگے میں پرودیاہے۔ جس سے معلوم ہوتاہے کہ مثنوی کے پسندوناپسند کا انحصار اس کے فن پر ہے نہ کہ مضمون پر۔ لیکن جس طرح عام خیال ہے کہ ’مرثیہ‘ میدان کربلا میں شہادت اہل بیت کے واقعے پر مبنی نظم کو کہا جاتاہے بعینہ ’ مثنوی‘ سے ’عشقیہ داستان‘ پر مبنی نظم کا گمان ہوتاہے۔ حالانکہ آخرالذکر دونوں خیال غیردرست ہیں۔الطاف حسین حالی لکھتے ہیں:
’’ عشقیہ مضامین ہمارے ہاں کچھ غزل ہی کے ساتھ خصوصیت نہیں رکھتے، بلکہ قصیدے اور مثنوی میں بھی برابرانھی کاعمل دخل رہا ہے۔ فارسی اور اردو زبانوں میں چندے کے سوا کل مثنویاں عشقیہ مضامین پر لکھی گئی ہیں۔ اسی طرح قصائد کی تمہیدوں میں بھی زیادہ تریہی دکھڑا رویا گیاہے۔ واسوخت تو عشق کی پسلی ہی سے پیدا ہوا ہے ۔ لیکن چونکہ قصیدہ ، مثنوی اور واسوخت کا میدان وسیع ہے ، لہٰذا ان میں غریب اور اجنبی الفاظ کی بہت کچھ کھپت ہوسکتی ہے۔ بہ خلاف غزل کے، کہ یہاں ایک لفظ بھی غیر مانوس ہوتواولو معلوم ہوتاہے۔ گلاب کے تختے میں کانٹے بھی پھولوںکے ساتھ نبھ جاتے ہیں۔ مگر گل دستے میں ایک بھی کانٹا کھٹکتا ہے۔ اسی واسطے جن بزرگوں نے غزل کی بنیاد تصوف اور اخلاق پر رکھی ہے، ان کو بھی وہی زبان اختیار کرنی پڑی ہے جو غزل میں عموما برتی جاتی ہے۔ 1
اس اقتباس پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ ’عشقیہ ‘ مضامین کسی بھی صنف شاعری میں بیان کیے جاسکتے ہیں لیکن عام طور پر مثنوی میں’ردیف وقوافی‘ کی فنی آزادی کی وجہ سے مضامین کو برجستگی سے برتنے کا موقع ملتاہے۔ اس لیے زیادہ تر شعرا نے مثنوی کو ’عشقیہ داستان‘ بیان کرنے کے لیے اپنایا ہے۔ میر کی مثنویوں کا مطالعہ کریں تو اندازہ ہوتاہے کہ ان کے یہاں مضامین کا تنوع ہے۔لیکن عشقیہ مضامین پر مبنی مثنویوں کی تعداد ان کے یہاں بھی زیادہ ہے۔
میر بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں اس لیے یہ کہنا بجا ہے کہ عشق اور مضامین عشق ان کا اوڑھنا ، بچھونا ہے۔بعض شواہد ایسے بھی ہیںجو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ میر کو کسی ’قالب آرزو میں ڈھلی‘ دوشیزہ سے عشق بھی تھا۔اس لیے ان کے یہاں عشق اور جزئیات عشق کا رنگ کچھ اور ہی چوکھا نظر آتاہے۔فرمان فتحپوری میر ومصحفی کی مثنوی کا موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جو چیز مصحفی کے یہاں دیدہ اور شنیدہ ہے وہ میر کے یہاں دیدہ اور چشیدہ ہے۔اس لیے المیہ پہلوؤں کے بیان کرنے میں جو کامیابی میر کو ہوئی ہے وہ مصحفی کو نہیں ہوئی،زندگی کے بعض دیگر پہلوؤں کی ترجمانی میں مصحفی کا پلہ میر سے ہلکا نہیں ہے لیکن عشقیہ جذبات کی ترجمانی میں حقیقت یہ ہے کہ مصحفی میر تک نہیں پہنچ سکے۔‘‘ 2
اس اقتباس سے پر غور کریں تو معلوم ہوتاہے کہ میر کی وہ مثنویاں جن میں’ عشقیہ‘مضامین کو برتا گیا ہے ان میںکیفت عشق کا رنگ چشیدہ ہے۔ جزئیات عشق کا بیان واردات نفس بن کر ابھرتاہے۔دردوکرب کی ترجمانی میں وہ سارے رنگ سجے سجائے ہیںملتے ہیںجوعشق حقیقی کا پہنچان بنتے ہیں۔عشق کا روگ لگنے کے بعد کی کیفیت ترجمانی پر مبنی مثنوی’ دریائے عشق‘ کے چند اشعار دیکھیں:
عشق ہے تازہ کار وتازہ خیال
ہر جگہ اس کی اک نئی ہے چال
دل میں جاکر کہیں تودرد ہوا
کہیں سینے میں آہ سرد ہوا
کہیں آنکھوں میں خون ہوکے بہا
کہیں سر میں جنون ہوکے رہا
کہیں رونا ہوا ندامت کا
کہیں ہنسنا ہوا جراحت کا
گہ نمک اس کو داغ کا پایا
گہ پتنگا چراغ کا پایا
واں طپیدن ہوا جگر کے بیچ
یاں تبسم ہے زخم تر کے بیچ
طور پر جاکے شعلہ پیشہ رہا
بے ستوں میں شرار تیشہ رہا
کہیں بیٹھے ہے جی میں ہوکر چاہ
کہیں رہتا ہے قتل تک ہم راہ
کام میں اپنے عشق پکا ہے
ہاں یہ نیرنگ ساز یکہ ہے
ایسی تقریب ڈھونڈھ لاتاہے
کہ وہ ناچار جی سے جاتاہے
اب ان اشعار میں عشق اور اس کے سبب سے پیداہونے والی کیفیات کے بیان پر غورکریں تو معلوم ہوگا کہ میر نے’عشق‘ سے دوچار اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے تمام حالات سے واقف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کہیں’ سینے میں سرد آہ‘ ہے، تو کہیں’ جگر کے پیچ طپش‘،کہیں ’شعلہ پیشہ‘ ہے تو کہیں ’شرار تیشہ‘ ۔ یعنی میر نے عشق کے مضمون کوابھارنے کے لیے ان تمام کیفیات کو پیش کیا ہے جو ’عشق حقیقی‘ کا نتیجہ ہیں۔ مثنوی ’’شعلۂ عشق ‘‘کے درج ذیل اشعار ملاحظہ ہوں:
محبت سے یاروں کے ہیں رنگ زرد
دلوں میں محبت سے اٹھتے ہیں درد
گیا قیس ناشاد اس عشق میں
کھپی جان فرحاد اس عشق میں
ہوئی اس سے شیریں کی حالت تباہ
کیا اس سے لیلی نے خیمہ سیاہ
سنا ہوگا وامق پہ جو کچھ ہوا
نل اس عشق میں کس طرح سے موا
جو عذار پہ گذرا سو مشہور ہے
دمن کا بھی احوال مذکور ہے
ستم اس بلا کے سب سہتے گئے
سب اس عشق کو عشق کہتے گئے
کب اس عشق نے تازہ کاری نہ کی
کہاں خون سے غازہ کاری نہ کی
زمانے میں ایسا نہیں تازہ کار
غرض ہے یہ اعجوبۂ روزگار
مثنویات میر کا مطالعہ کرتے ہوئے آپ کو احساس ہوگا کہ دیگر مثنوی گویوں کی بنسبت میر کی مثنویوں کے اشعار کم ہیں لیکن داستان عشق اور واردات قلب کو جس حسن وخوبی کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ واقعہ ذہن پر نقش ہوجاتاہے۔ ’بعض ماہرین زبان وادب کا خیال ہے کہ میر کی مثنویاں دراصل طویل غزل ہیں، ان کا تصور’ عشق غزل‘ سے مستعار لیا گیا ہے۔ غزل کا عاشق ہی ان کی مثنویوں کا ہیرو ہے۔ ’خواب و خیال‘ ، ’معاملاتِ عشق‘ اور ’جوش عشق‘ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ میر خوداس کے مرکزی المیہ کردار ہیں۔جب کہ ’دریائے عشق‘ اور ’حکایتِ عشق‘ میںان کے عشقیہ قصے ہیں جن کا اختتام پر پْر اسرار بن گیاہے۔ بہر حال میرکی عشقیہ مثنویوں میںعشق کی وہی کیفیت جسے ’عشق مجازی‘ اور’ عشق حقیقی‘ سے عبارت مانا جاتاہے‘۔ ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں :
’’میر عام طور پر غزل کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں لیکن حقیقت میں میر کی مثنویاں غزل سے زیادہ ان کی شخصیت کی آئینہ دار ہیں۔ رومانی شاعروں کی طرح میر کی خاص دلچسپی ان کی اپنی ذات سے ہے اوریہ ذات ہر صنف کو اپنے رنگ میں رنگ لیتی ہے۔ ان کی مثنویوں کے سب قصے ماخوذ ہیں لیکن قصہ در اصل ان کا مسئلہ نہیں۔ وہ تو ان کے قصوں کے ذریعہ اپنی ذات کی حکایت بیان کرتے ہیں۔ ان میں قصے کی نہیں بلکہ واقعاتی تاثر اور فضا کی اہمیت ہے۔ ان مثنویوں کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ یہ خود مطالعہ (Self Study) کی حیثیت رکھتی ہیں۔ میر کی مثنویوں کے کردار بادشاہ، وزیر یا شہزادے شہزادیاں نہیں ہیں بلکہ عام انسان ہیں جن میں والہانہ پن بھی ہے اور خود سپردگی بھی۔ وہ جنگ وجدل نہیں کرتے، پریاں یا دیو ان کی مدد کو نہیں آتے بلکہ خاموشی سے عشق کے حضور میں اپنی جان ایسے نچھاور کردیتے ہیں جیسے پہلے سے وہ اس کے لیے تیار ہوں۔ انسانی دماغ کی ساخت دوقسم کی ہوتی ہے۔ ایک قاتل کا دماغ اور دوسرا قتل ہونے پر آمادہ رہنے والے کا دماغ میر کا دماغ دسری قسم کا تھا اور چونکہ میر کی مثنویوں کے کردار میر کی ذات کا عکس ہیں اس لیے یہ کردار بھی جان دینے کے لیے ہردم آمادہ رہتے ہیں۔‘‘3
اس میں کوئی شک نہیں کہ محبت ایسا جذبہ ہے جو صرف انسانوں سے مخصوص نہیں ہے،بلکہ جانوروں میں بھی اس کی کارفرمائی قدرت کی طرف سے ودیعت ہوئی ہے۔اسی کے ساتھ انسان اور جانور کے بیچ چاہت اور محبت کا تعلق ہماری دنیا کے معمولات میں ہے۔لیکن جانور اور انسان کے بیچ اگر عشق کی صورتِ حال کا بیان ہو تو اسے ضرور غیر معمولی کہا جائے گا۔’’مورنامہ‘‘ عشقیہ مضمون کے حوالے سے ایک دلچسپ اور منفردانداز کی مثنوی ہے، اگرچہ اس مثنوی میں بھی عشقیہ قصہ بیان ہوا ہے، لیکن اس میں عشق کی نوعیت مختلف بلکہ بڑی حد تک خلاف معمول صورتِ حال کی حامل ہے۔اس مثنوی میں ایک مور کو رانی سے عشق ہو جاتا ہے،لیکن اس عشق کی جو کیفیت بیان کی گئی ہے وہ کم و بیش انسانوں سے مخصوص کیفیت ہے۔جب راجا کو اس عشق کی خبر لگتی ہے تو وہ مور کو عبرت ناک سزا دینے کا فیصلہ کرتا ہے۔آخر کار وہ مور راجا کے خوف سے بستی سے نکل کر سانپوں کے جنگل میں جا چھپتا ہے۔لیکن راجاکو جب اس کا پتا چلتا ہے تو وہ ایک لشکر بھیج کر اس جنگل میں آگ لگوا دیتا ہے تاکہ مور اس میں جل کر خاک ہو جائے۔پھر پایان کار یہی آگ جنگل سے پھیلتی ہوئی بستی میں آ لگتی ہے اور اس آگ سے رانی بھی جل کر ختم ہو جاتی ہے۔ مورنامہ کے چند اشعار دملاحظہ ہو:
کیا لگی تھی دل کو رانی جل گئی
خاک ہو کر خاک ہی میں رل گئی
عشق ہی کی ہیں یہ تازہ کاریاں
عشق نے پردے میں جانیں ماریاں
مور کے بدلے جلایا دشت مار
مار و اڑدر جل گئے چندیں ہزار
جل کے لشکر ہو گیا تھا بے چراغ
یہ خبر سن ہو گیا راجا بھی داغ
عشق سے کیا میر اتنی گف وگو
خاک اڑا دی عشق نے ہر چار سو
درمیاں نے کوہ نے انبوہ ہے
رانی کا راجا کا اب اندوہ ہے
طائر وطاؤس و حیواں اژ دہے
سب کھپے کیا عشق کی کوئی کہے
یہ فسانہ رہ گیا عالم کے بیچ
بازماندہ ان کے ہیں سب غم کے بیچ
’’مورنامہ‘‘ میں عاشق یعنی مور کو جن صفات کا حامل دکھایا گیا ہے،وہ وہی ہیں جو انسانوں سے مخصوص ہیں۔یہاں دلچسپ پہلو یہ ہے کہ مور رانی کے عشق میں انھیں کیفیات سے دوچار ہوتا ہے جو کسی معمولی عاشق پر گذرتی ہیں۔عشق کے انسانی تجربے کو ایک جانور سے وابستہ کرکے اس طرح بیان کرنا کہ وہ جانور انسانی صفات کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائے،میر کے خلاقانہ کمال کی نہایت عمدہ مثال ہے۔جہاں تک اس مثنوی میں عشق کی تہذیبی صورت کا تعلق ہے، تو یہاں بھی کم وبیش وہی صورت حال دکھائی دیتی ہے جس کا نمونہ اوپر ’’شعلۂ عشق‘‘ کے بیان میں آپ نے دیکھا۔’’مورنامہ‘‘ اور ’’شعلۂ عشق‘‘ کے منقولہ اختتامی اشعار عشق کی ایک ہی تہذیبی صورت کی نشان دہی کرتے ہیں،اور یہ صورت میر کے یہاں جس رنگ میں جلوہ گر ہوئی ہے ،اس کی کوئی دوسری مثال نہیں نظرآتی۔
’مثنوی افغان پسر‘ میں ایک شادی شدہ عورت کے شوہر کی موت ہوتی ہے، وہ ستی ہوتی ہے تو اس کا عاشق اس کی آواز پر آگ میں کود پڑتا ہے، اسے کسی صورت بچا لیا جاتا ہے، نصف جل چکا ہے، اسے ایک درخت کے نیچے بٹھا دیا جاتا ہے، اس کی محبوبہ کی روح آتی ہے اور اسے ساتھ لے کر جانے، کہاں چلی جاتی ہے۔اس واقعہ کی منظر کشی پر مبنی اشعارملاحظہ ہوں:
یہ بے تاب تھاآگ پر پھر پڑا
پتنگا تھا اس شعلے پر گر پڑا
لگ آتے تھے کتنے الفار ساتھ
وہیں کھینچ لائے اسے ہاتھوں ہاتھ
چلے ادھ جلا لے کے سب اس کو گھر
ہوا گرم ہنگامہ یہ اِک اِدھر
قدم کتنے چل کر وہ آتش بجاں
ہوا یوں سخن زن کہ اے دوستاں
لے آئے مجھے گرمی سے تم نکال
کیا گھر بھی لے چلنے کا اب خیال
نہیں متصل راہ چلنے کی تاب
کہ ہوں نیم سوزآگ کا میں کباب
کہیں مجھ کو سائے میں ٹھہرائیے
جو دم ٹھہرے تو آگے لے جائیے
کوئی دم مرا کھینچے انتظار
کہ گرمی سے ہوں بے خود و بے قرار
توقف کیا سب نے زیر درخت
کہا واقعی رنج کھینچا ہے سخت
نہ آتش نہ گرمی نہ بے طاقتی
بہانے سے سب جذب ہے الفتی
اگرآنکھیں کھلتیں تو اودھر نظر
ہوئی خاک معشوقہ جل کر جدھر
کیا منتظر اس کو وہ دن تمام
نظر کر کے کیا دیکھتا ہے کہ شام
خراماں چماں آتی ہے وہ میری
وہی ناز عشوہ وہی دلبری
اسی طرز و انداز و خوبی کے ساتھ
اْٹھایا اسے ہاتھ میں لے کے ہاتھ
گئے اس طرف لے جدھر تھی چلی
نظر کرتے تھے واقعی یہ سہی
ہوئے جاتے جاتے نظر سے نہاں
گیا عشق کیا جانے لے کر کہاں
بہت سے ہوئے لوگ گرم سراغ
کنھوں نے نہ پایا نشاں غیر داغ
نہ کر میر اب عشق کی گفتگو
قلم اور کاغذ کو رکھ دے بھی تو
غرض ایک ہے عشق بے خوف و باک
کیے دونوں معشوق و عاشق ہلاک
’درحال مسافر جواں‘ میں شادی شدہ لڑکی اپنے عاشق کی قبر پر پہنچتی ہے، قبرپھٹتی ہے اور وہ قبر میں چلی جاتی ہے۔ اس کا شوہر قبر کھدواتا ہے تو ایک حیرت انگیز نظارہ سامنے آتا ہے اور لوگ دیکھتے ہیں لڑکی مٍردہ حالت میں اپنے عاشق کے جسم سے چمٹی ہوئی ہے اور دونوں کوبڑی مشکل سے جداکرکے ایک ایک الگ قبر بنا کر اس میں دفن کر اس کی رسم پوری کی گئی۔اشعار دیکھیں:
جنازے پہ آئی نہ تھی وہ پری
ہوئی گور پر اس کی جلوہ گری
برابر گئے شق ہوئی اس کی قبر
گیا اس کے دل سے سکوں او ر صبر
بگل گیر عاشق ہوئی زیر خاک
ہوئی ہم کناری میںآخر ہلاک
خبر شوے ناساز کو بھی ہوئی
کہ وہ نازنیں جا سرا میں موئی
گریباں دراں خاک افشاں گیا
لب گور خاطر پریشاں گیا
کہاگور کھولیں پھر اب بیلدار
کہ بن آنکھوں دیکھے نہیں ہے قرار
کھلی گور دیکھا تو چسپاں تھی وہ
گلے لگ رہی تھی پہ بے جاں تھی وہ
جدار کرتے مشکل جدا وہ ہوئی
کمال اشتیاق اس کو تھا جو موئی
مختصر یہ کہ میرمعاشی طور پر مفلوک الحال تھے لیکن ان کا دل گرمی عشق سے شرسارہے۔ وہ ہجر ، ناکامی اور ناقدری کا شکار ہوکربھی آرزوئے وصل میں گھلتا رہتاہے۔اس میں عشق کے حوالے سے زمانے سے ٹکرانے کی طاقت موجودہے۔اس لیے وہ زمانے سے لڑسکتا ہے لیکن اس سے سمجھوتے کا قائل نہیں ہے۔ اسی لیے ان کے یہاں ایک ایسی بے نیازی، موجود ہے جسے بے دماغی سے بھی تعبیرکیا جاتاہے۔ میر عشق کے حوالے سے انسانی رشتوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اپنے زمانے کا عرفان حاصل کرکے اسے آفاقی سطح پر لے آتے ہیں۔ عشق میر کو جلاتاتوہے لیکن جلا کر راکھ نہیں بناتا۔ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا خیال ہے کہ:
یہ بھی مسلم ہے کہ میر کو عشق میں ناکامی ہوئی اور اس کاناکامی کا اثر اان کی شخصیت پر اتنا گہرا ہے کہ وہ ہزار پردوں میں بھی صاف جھلک جاتاہے۔ اس برتی ہوئی محبت کا ہی فیضان ہے کہ جب میر عشق اور عشق کے لوازم کا ذکر کرتے ہیںتو ان کے اشعار سننے والوں کے دل دہلادیتے ہیں۔جذبہ کی صداقت اور شدت کے اعتبار سے میر کی عشقیہ شاعری میں جو اثر آفرینی، ہمہ گیری اور گھلاوٹ نظر آتی ہے وہ ابھی کسی اردو شاعرکو نصیب نہیں ہوئی۔نہ صرف غزل بلکہ ان کی مثنویوں کی بھی سب سے بڑی خصوصیت یہی ہے کہ عشق کا جیسا سچا، شدیداور اثر انگیزبیان میر کے یہاں ملتاہے، وہ مجموعی حیثیت سے اردو کے چند شعرا کے سواکسی مثنوی نگار کے یہاں موجود نہیں ہے۔4
جن مثنویوں (’خواب و خیال‘ ، ’معاملاتِ عشق‘ ، ’جوشِ عشق‘ ) میں میر خود المیہ کردار ہیں وہ بھی عشقیہ ہیں اور المیہ کے حسن کو نمایاں کرتی ہیں۔ عشق کے جذبے سے سرشارعاشق اپنی یادوں کو سمیٹے ہوئے ترکِ وطن کرتا ہے۔ لیکن جہاں کہیں جاتاہے چاند کے ساتھ ساتھ اس کے معشوق کا چہرہ ، اس کی آنکھیں، اس کا رخسار، اس کے گیسو اسے رلاتے رہتے ہیں۔ عشقیہ واردات اور کیفیات کی ترجمانی پر مبنی چند اشعار دیکھیں:
مجھے یہ زمانہ جدھر لے گیا
غریبانہ چندے بسر لے گیا
دل مضطرب اشکِ حسرت ہوا
جگر رخصتانے میں رخصت ہوا
پس از قطع رہ لائے دلّی میں بخت
بہت کھینچے یاں میں نے آزار سخت
جگر جورِ گردوں سے خوں ہو گیا
مجھے رکتے رکتے جنوں ہو گیا
ہوا خبط سے مجھ کو ربطِ تمام
لگی رہنے وحشت مجھے صبح و شام
کبھو کف بہ لب مست رہنے لگا
کبھو سنگ در دست رہنے لگا
کبھی غرقِ بحرِ تحیّر رہوں
کبھو سر بہ جیب تفکّر رہوں
یہ وہم غلط کاریاں تک کچھا
کہ کارِ جنوںآسماں تک کچھا
نظر رات کو چاند پے جا پڑی
تو گویا کہ بجلی سی دل پر پڑی
مہ چار دہ آتش کرے
ڈروں یاں تلک میں کہ جی غش کرے
توہم کا بیٹھا جو نقشِ درست
لگی ہونے وسواس سے جان سست
نظر آئی اِک شکل مہتاب میں
کمی آئی جس سے خور و خواب میں
اگر چند پرتو سے مہ کے ڈروں
ولیکن نظر اس طرف ہی کروں
معاملات عشق میں میر نے اپنے ایک عشق کی کہانی سنائی ہے مثنوی کے پہلے حصے میں عشق کی تعریف کر کے میر نے پہلے ایک مجردتصور پیش کیا ہے۔ اور پھر اس تصور کو عشق کے خالص مادی تصور سے ملا دیا ہے۔ اس مثنوی میںوہ سارے معاملات بیان کیے گئے ہیں جن سے ان کے عشق کا سارا سفر سامنے آ جا تا ہے۔ اورآخری معاملے میں وصل محبوب کا مثردہ بھی سنایاگیا ہے۔اشعار دیکھیں:
عجب رنگ پر شعلہ رخسار کا
مگر وہ تھاآئینہ گلزار کا
جوآنکھ اس کی بینی سے جا کر لڑے
دمِ تیغ پر راہ چلنی پڑی
مکاں کنج لب خواہش جان کا
تبسّم سبب کا ہش جان کا
دہن دیکھ کر کچھ نہ کہیے کہ آہ!
سخن کی نکلتی تھی مشکل سے راہ
سزا ہے جگر اس کسو کے لیے
جو سیب زقن اس کا بو کر جیے
گل تازہ شرمندہ اس روسے ہو
خجل مشک ناب اس کے گیسو سے ہو
سراپا میں جس جا نظر کیجیے
وہیں عمر اپنی بسر کیجیے
کہیں مہ کا آئینہ در دست ہے
کہیں بادۂ حسن سے مست ہے
کہیں نقشِ دیوار دیکھا اسے
کہیں گرم رفتار دیکھا اسے
کہیں دل بری اس کو درپیش ہے
کہیں مائل خوبی خویش ہے
کہیں جملہ تن مہر صرف سکوں
کہیں مجھ سے سرگرم حرف سکوں
کہیں جلوہ پرداز وہ عشوہ ساز
کہیں ایستادہ بصد رنگ ناز
رہے سامنے اس طرح پر کبھو
رکھے وضع سے پاؤں باہر کبھو
بغل میں کبھو آرمیدہ رہے
کبھو اپنے بر خویش چیدہ ہے
کبھو صورت دل کش اپنی دکھائے
کبھو اپنے بالوں میں منہ کو چھپائے
کبھو گرم کینہ کبھو مہربان
کبھو دوست نکلے کبھو خصم جان
کبھو یک بہ یک پار ہو جائے وہ
کبھو دست بردار ہو جائے وہ
ہر اِک رات چندے یہ صورت رہی
اسی شکل وہی صحبت رہی
بارے کچھ بڑھ گیا ہمارا ربط
ہوسکا پھر نہ دو طرف سے ضبط
تب ہوا بیچ سے یہ رفع حجاب
جب بدن میں رہی نہ مطلق تاب
ایک دن ہم وے متصل بیٹھے
اپنے دل خواہ دونوں مل بیٹھے
شوق کا سب کہا قبول ہوا
یعنی مقصود دل حصول ہوا
واسطے جس کے تھا میں آوارہ
ہاتھ آئی مرے وہ مہ پارہ
گہ گہے دست دی ہم آغوشی
ہم سری ہم کناری ہم دوشی
چند روز اس سے رہی صحبت
پیار اخلاص رابطہ الفت
کچھ کہوں جو انھوں کی ہو تقصیر
نارسائی تھی طالعوں کی میر
ان اشعار پر غور کریں تو شمس الرحمن فاروقی کے اس قول کی تصدیق ہوتی ہے کہ:
’’میر کا عاشق اپنے معشوق سے محبت کا طالب نہیں، صرف انسانی برتاؤ کا طالب ہے، اور اس میں وہ وفادار ہے جو خود دار انسانوں میں ہوتاہے۔ واقعہ تو یہ ہے کہ میر کا عاشق اپنے معشوق سے صرف افلاطونی محبت نہیں ، بلکہ ہم بستری کا بھی طالب ہے۔ وہ ہم بستر ہوتا بھی ہے اور ہجر کے عالم میں ہم بستری کے ان لمحات کو یاد بھی کرتاہے۔۔۔۔۔۔
میر کے عاشق کو ہم عام انسان کی سطح پر دیکھتے ہیں اور اصلی انسان کی طرح اس کا تصور کرتے ہیں۔ میر کی یہی زمینی صفت میر کے عشق میں جنسیت اور ان کی جنسیت میں امرد پستی بن کر ظاہر ہوتی ہے۔ یہی زمینی صفت انھیں معشوق سے پھکڑ پن کرنے، اپنے اوپر اپنا مذاق اڑانے ، معشوق پر طنز کرنے کاانداز سکھاتی ہے۔‘‘5
مختصر یہ کہ میر کی مثنویوں میں حسی کیفیات اور عشقیہ جزئیات سے جو منظر ابھرتا ہے اس کی دلفریبی قاری وسامع کے ذہن کومسحورکرتی ہے۔جس سے واضح ہوتا ہے کہ میر عشقیہ مضامین کو اس کی جزئیات کے ساتھ اداکرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ کائنات کے سارے رنگ وآہنگ اسی محبت اور عشق کی بدولت زندہ وتابندہ ہیں۔ دریائے عشق، معاملات عشق اور شعلۂ عشق کی ابتدا عشق کے اظہار کی متعدد نوعیتوں کے ذریعہ عشق کے مصائب ومشکلات، اور جوش وولولے کو خوب ابھاراگیا ہے۔ میر کی غزلوں میں معشوق ظالم وستم گر کی صورت میں گرچہ نظرآتاہے؛ لیکن مثنویات میر کا معشوق بھی اسی عشق کی آگ کا مظلوم ہے اور وہ زمانے سے بغاوت بھی کرنے والابھی ہے۔
حوالہ جات:
1 مقدمہ شعروشاعری، الطاف حسین حالی، مطبوعہ مکتبہ جامعہ ص، 156فروری 2007
2 دریائے عشق اور بحرالمحبت کا تقابلی مطالعہ، فرمان فتحپوری، صفحہ 45، آئینہ ادب ،چوک مینار، انارکلی لاہور،1972
3 تاریخ ادب اردو، اٹھارویں صدی، ڈاکٹر جمیل جالبی ، جلد دوم، حصہ اول، صفحہ476،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی۔۶، 1984
4 دریائے عشق اور بحرالمحبت کا تقابلی مطالعہ، فرمان فتحپوری، صفحہ 27، آئینہ ادب ،چوک مینار، انارکلی لاہور،1972
5 شعر شور انگیز، جلد اول، صحفہ 103، مطبوعہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، دہلی
Professor Diwan Hannan Khan
DEL(Department of Education in Languages)
NCERT,New Delhi:110016
Leave a Reply
Be the First to Comment!