ذوق کی غزلیہ شاعری اور محمد حسین آزاد
شیخ محمد ابراہیم ذوق (۱۷۸۸۔ ۱۸۵۴) کا شمار اردو ادب کے ان نامور شعرا میں ہوتا ہے، جو کئی اعتبار سے اہمیت کے حامل ہیں۔ وہ بلند پایہ شاعر ہونے کے ساتھ اس میدان کے مسلم الثبوت استاد بھی تھے۔ دربار تک رسائی اور بہادر شاہ ظفر کے استاذ ہونے کی وجہ سے انھیں ملک الشعراکے خطاب سے نوازا گیا۔ تشبیہات و استعارات، زبان کی صفائی اور صنائع بدائع کے استعمال کے علاوہ انھیں محمد حسین آزاد کی صورت میں ایک ایسا شاگرد رشید نصیب ہوا، جس نے اپنی سحر بیانی سے ان کی شخصیت کو شاعری کے میدان میں قد آور بلکہ دیو قامت بنا کر پیش کیا۔ حسین آزاد نے ’آب حیات‘ میںذوق کے باب میں جس طرح کے تمہیدی جملوں کا استعمال کیا ہے اسے ’نثری قصیدہ‘ کہا جائے تو بعید از مبالغہ نہ ہوگا۔ وہ لکھتے ہیں:’’جب وہ صاحب کمال عالم ارواح سے کشور اجسام کی طرف چلا تو فصاحت کے فرشتوں نے باغ قدس کے پھولوں کا تاج سجایا۔ جن کی خوشبو شہرت عام بن کر جہان میں پھیلی اور رنگ نے بقائے دوام سے آنکھوں کو طراوت بخشی۔ وہ تاج سر پر رکھا گیا تو آب حیات اس پر شبنم ہو کر برسا کہ شادابی کو کملاہٹ کا اثر نہ پہنچے۔ ملک الشعرا کا سکہ اس کے نام سے موزوں ہوا اور اس کے طغرائے شاہی میں یہ نقش ہوا کہ اس پر نظم اردو کا خاتمہ کیا گیا۔ چنانچہ اب ہرگز امید نہیں کہ ایسا قادر الکلام پھر ہندوستان میں پیدا ہو۔‘‘ ۱؎درج بالا اقتباس کو انشا پردازی کا اعلیٰ نمونہ کہا جاسکتا ہے ، تنقید نہیں۔ اس اقتباس میں محمد حسین آزاد نے جس انداز سے ذوق کی مدح سرائی کی ہے یا تعریف کے پل باندھے ہیں اس کی بنیاد سراسر غلو پر ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باعتبار شاعر کیا ذوق کا مرتبہ اتنا بلند تھا کہ ان پر نظم اردو کے خاتمے کی مہر ثبت کردی جائے؟ اگر محمد حسین آزاد کی بات کو من و عن تسلیم کرلیا جائے تو غالب، مومن، داغ، اقبال، اکبر الٰہ بادی، شاد، فراق، فیض اور ان جیسے دوسرے شعرا کی حیثیت ثانوی بلکہ معدوم ہو کر رہ جائے گی۔ لہٰذا محمد حسین آزاد کے ان جملوں کو قبول کرنا کسی بھی عقل سلیم کو زیبا نہیں۔محمد حسین آزاد، ذوق کی اسی مدح سرائی پر خاموش نہیں ہوتے بلکہ ان کی قادرالکلامی، مضامین کی رنگا رنگی، باریک بینی، زبان کی صفائی و برجستگی اور خوش آہنگی وغیرہ کا ذکر کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں:’’کلام کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ مضامین کے ستارے آسمان سے اتارے ہیں مگر اپنے لفظوں کی ترکیب سے انھیں ایسی شان و شکوہ کی کرسیوں پر بٹھایا ہے کہ پہلے سے بھی اونچے نظر آتے ہیں۔ انھیں قادر الکلامی کے دربار سے ملک سخن پر حکومت مل گئی ہے کہ ہر قسم کے خیال کو جس رنگ سے چاہتے ہیں کہہ جاتے ہیں۔۔۔ مگر ایسا کچھ کہہ جاتے ہیں کہ دل میں نشتر سا کھٹک جاتا ہے اور منھ سے کبھی واہ نکلتی ہے اور کبھی آہ نکلتی ہے۔۔۔۔ وہ طبیب کامل کی طرح ہر مضمون کی طبیعت کو پہچانتے تھے۔۔۔ انہیں اس بات کا کمال تھا کہ باریک سے باریک مطلب اورپیچیدہ سے پیچیدہ مضمون کو اس صفائی سے ادا کرجاتے تھے، گویا ایک شربت کا گھونٹ تھا کہ کانوں کے رستے سے پلا دیا۔‘‘ ۲؎قاری واقعی ذوق کی شاعری سے متاثر ہو کہ نہ ہو محمد حسین آزاد کی زبان دانی کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔ اسی انداز بیان سے متاثر ہو کر شبلی نے کہا تھا ’’وہ گپیں بھی ہانک دے تو وحی معلوم ہوتی ہے۔‘‘ قطع نظر ان باتوں کے مذکورہ بالا اقتباس میں محمد حسین آزاد نے ذوق کی جن شاعرانہ خصوصیات کا ذکر کیا ہے، اس میں وہ شاذ و نادر ہی کھرے اترتے ہیں۔ اوّل تو ان کی شاعری میں برتے گئے تمام مضامین اس درجے کے نہیں جن پر بلند خیالی یا معنی آفرینی کا گمان گزرے۔ دوسرے یہ کہ ذوق کی شاعری میں ’’نشتر کی چبھن‘‘ کی صفت کچھ عجیب معلوم ہوتی ہے۔ ذوق کے کلام کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر داخلیت کے نہیں، خارجیت کے شاعر ہیں۔ لہٰذا ان کے کلام میں ’واہ‘ کا عنصر تو غالب ہے، پر ’آہ‘ کے لیے تنگ دامنی کا احساس ہوتا ہے۔یہاں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ محمد حسین آزاد نے ذوق کے انتقال کے تقریباً تینتیس برس بعد ’آب حیات‘ (۱۸۸۷)لکھ کر ان کی ثنا خوانی اس انداز سے کی، جیسے میدان شاعری کے وہ تنہا شہسوار ہوں۔ ’آب حیات‘ میں ذوق کا تذکرہ جس انداز سے کیا گیا ہے اسے پڑھ کر جوبات ہمارے ذہن میں فوری طور پر ابھرتی ہے، وہ یہ کہ ذوق مولوی محمد باقر (محمد حسین آزاد کے والد) کے دوست ہونے کے علاوہ حسین آزاد کے استاذ بھی تھے، جن سے آزاد کو بے پناہ عقیدت و محبت تھی۔ یہ بات بلا مبالغہ کہی جاسکتی ہے کہ جس کو جس سے عقیدت و محبت ہوتی ہے اس کی ہر ادا، یہاں تک کہ اس کی خامی اور کوتاہی حرز جاں کی حیثیت اختیار کرلیتی ہے۔ محمد حسین آزاد کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ذوق کے انتقال کے بعد ان کی شہرت ، مقبولیت اور شاعرانہ عظمت پر اس تیزی سے گہن چھانے لگا تھا کہ حسین آزاد کو یہ خدشہ لاحق ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو استاذ کی شاعری اور شخصیت قصۂ پارینہ کی حیثیت اختیار کر جائے۔ حسین آزاد کا یہ گمان بے جا نہ تھا۔ کیوں کہ اس زمانے میں غالب، مومن، آتش ، ناسخ اور شیفتہ وغیرہ نے غزلیہ شاعری کے میدان میں ایک انقلاب برپا کر رکھا تھا۔ قصیدے میں ذوق کی قادر الکلامی اور بلند خیالی کا ایک زمانہ معترف دکھائی دیتا ہے، لیکن غزل میں بھی ان کو اسی مرتبے پر فائز کرنے کے لیے حسین آزاد نے جس قسم کے واقعات اور جملوں کا استعمال کیا وہ ذوق کے حق میں بارآور ثابت نہ ہوسکا۔شمس الرحمن فاروقی نے ایک مضمون میں وقار عظیم کا ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ ذوق کو بالکل پسند نہ کرتے تھے، جب کہ ان کے دوست ذوق کے بہت قائل تھے ۔ بہر حال بحث و مباحثہ کے بعد ڈھائی اشعار ایسے نکالے گئے جسے وقارعظیم نے پسند کیا۔ یہاں اس واقعہ کے ذریعہ یہ بتانا مقصود نہیں کہ وقار عظیم کی بات حرف آخر کا درجہ رکھتی ہے یا ذوق کی شاعری با استثنائے قصائد اس پائے کی نہیں کہ انھیں اعلیٰ شاعری کے زمرے میں شمار کیا جاسکے۔ بلکہ یہاں صرف اس نکتے کی طرف توجہ مبذول کرانا مقصود ہے کہ ایک ایسا شاعر جس کو اس کے بہت سے معاصرین غالب و مومن سے بھی برتر تصور کرتے تھے، آخر کیوں اسی صدی میں اپنی اہمیت کھونے لگا تھا؟ان تمام حالات و واقعات پر جب تنقیدی نگاہ ڈالی جاتی ہے تو ذوق کے تئیں محمد حسین آزاد کے تراشے ہوئے جملے پر از مبالغہ معلوم ہوتے ہیں۔ حسین آزاد نے ذوق کی مدح یا انھیں برتر ثابت کرنے میں حد سے تجاوز کیا۔ ’آب حیات‘ میں ذوق کو ’خاقانیٔ ہند‘ کے خطاب سے سرفراز کیے جانے کے متعلق لکھتے ہیں:’’چند سال کے بعد انھوں نے ایک قصیدہ اکبر شاہ کے دربار میں کہہ کر سنایا کہ جس کے مختلف شعروں میں انواع و اقسام کے صنائع و بدائع صرف کیے تھے۔ اس کے علاوہ ایک ایک زبان میں جو ایک ایک شعر تھا۔ ان کی تعداد اٹھارہ تھی۔ مطلع اس کا یہ ہے:جبکہ سرطان و اسد مہر کا ٹھیرا مسکنآب و ایلولہ ہوئے نشو و نمائے گلشناس پر بادشاہ نے خاقانی ٔ ہند کا خطاب عطا کیا۔ اس وقت شیخ مرحوم کی عمر ۱۹ برس کی تھی۔‘‘ ۳؎مندرجہ بالا اقتباس میں کئی باتیں قابل گرفت ہیں۔ مثال کے طور پر اٹھارہ زبانوں میں اٹھارہ شعر کہنا۔ حسین آزاد نے اٹھارہ زبانوں کا ذکر تو کیا لیکن مثالیں پیش کرنے سے قاصر رہے۔ اس کے علاوہ کسی تذکرہ نگار نے ذوق کو اٹھارہ زبانوں کا عالم یا اٹھارہ زبانوں کا جاننے والا نہیں لکھا ہے۔ دوسری بات ۱۹ برس کی عمر میں خاقانیٔ ہند کے خطاب سے سرفراز ہونا ہے۔ اس ضمن میں ابرار عبدالسلام لکھتے ہیں:’’جہاں تک ۱۹ برس کی عمر میں خاقانیٔ ہند کے خطاب کا تعلق ہے وہ بھی سہی نہیں۔ ممکن ہے آزاد سے سہو ہوا ہو۔ ۔۔۔۔۔ مجموعہ نغز ۱۲۲۱ھ میں۔۔۔ قاسم ذوق کو نومشق لکھ رہے ہیں اور انھیں ضمیمے میں جگہ دے رہے ہیں۔۔۔ شیفتہ نے بھی ان کی شاعری کا آغاز ۱۲۲۰ھ بتایا ہے۔۔۔ یعنی تقریباً ۱۶۔۱۷ سال کی عمر میں ذوق ابھی نومشق اور مبتدی ہیں اور ۱۹ سال کی عمر میں انھیں خاقانیٔ ہندکا خطاب مل جائے قرین قیاس نہیں۔‘‘ ۴؎درج بالا مثالوں کے علاوہ بھی ’آب حیات‘ سے کئی ایسی مثالیں رقم کی جاسکتی ہیں جس میں ذوق کو بلند پایہ، قادر الکلام اور مسلم الثبوت استاد کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔ یہاں تک تو بات پھر بھی سمجھ میں آتی ہے کہ آپ کسی کو برتر ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن کسی کے قد کو بڑھانے کے لیے دوسروں کو کمتر اور حقیر بتانا چہ معنی دارد۔ ’دیوان ذوق‘ کو ترتیب دیتے ہوئے بھی حسین آزاد نے ایسے ہی من گھڑت واقعات درج کردیے ہیں جو گرفت کے قابل ہیں۔ مثلاً ’دیوان ذوق‘ میں ایک مشاعرے کا ذکر کرتے ہوئے ذوق کی مقبولیت اور غالب کی بے وقعتی کو یوں بیان کیا ہے:’’غالب آئے تو سلام و کلام ہوتے ہی بولے ، استاد آج تو جی چاہتا ہے کہ آپ کچھ سنائیے۔ لیکن اس کے پہلے کہ غالب اور ذوق وغیرہ کے پڑھنے کی باری آتی، ذوق کو بادشاہ کا بلاوا آگیا۔ مجبوراً ذوق کو اسی وقت غزل پڑھ کر رخصت ہونا پڑا۔ ان کے اٹھتے ہی مشاعرہ برخاست ہوگیا۔ غالب وغیرہ کے پڑھنے کی نوبت ہی نہ آئی۔۔۔۔ یہ ادھر رخصت ہوکر حضور میں گئے، ادھر مشاعرہ برہم ہوگیا۔ ہر شخص یہ کہہ کر اٹھتا گیا کہ جو سننا تھا سن لیا، اب چلو اور سو رہو۔‘‘ ۵؎مذکورہ اقتباس کے پیش نظر ذوق کے اٹھتے ہی مشاعرے کا درہم برہم ہوجانا، غالب اور دوسرے شعرا کی باری کا نہ آنا وغیرہ سے گمان گزرتا ہے کہ ذوق کی اہمیت و مقبولیت اس زمانے میں آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی تھی۔ اگر بہ فرض محال مان بھی لیا جائے کہ یہ واقعہ درست ہے تو پھر وہی سوال قائم ہوتا ہے کہ آخر کیوں ذوق کی وفات کے بعد ان کی مقبولیت میں کمی واقع ہوتی گئی؟ یہاں تک کہ ہمارے جدید نقاد بھی ذوق سے کسی حد تک بیزار دکھائی دیتے ہیں۔ رشید حسن خاں تو غزل گوئی کی حد تک مومن اور غالب کے مقابلے میں ذوق کا نام لینا بھی گناہ سمجھتے ہیں۔ البتہ اس ضمن میں شمس الرحمن فاروقی کی بات میں اعتدال کا پہلو نظر آتا ہے:’’میں ذوق کو بڑاغزل گو نہیں مانتا چہ جائے کہ میں ذوق کے بارے میں محمد حسین آزاد کی لن ترانیوں کو صحیح اور حق پر مبنی سمجھوں۔ لیکن کسی شاعر سے لطف اندوز ہونے کے لیے اس شاعر کا عظیم ہونا ضروری نہیں۔ اب یہ اور بات ہے کہ بعض لوگ شاعری کو لطف اندوز ہونے کی چیز نہیں، بلکہ جوشاندہ یا نمک جالینوس کی طرح فائدہ مند بنانا چاہتے ہیں ۔ ایسے لوگوںسے میرا کوئی جھگڑا نہیں ، میں تو شاعری کو لطف کی خاطر پڑھتا ہوں اور اگر مجھے ذوق کے بہت سارے کلام سے لطف حاصل ہوتا ہے تو میں ذوق کی قدر کرتا ہوں۔ لیکن یہ سوال ضرور رہ جاتا ہے کہ مجھے ذوق کی غزل میں لطف کیوں آتا ہے؟‘‘ ۶؎شمس الرحمن فاروقی بھی ذوق کو بڑا غزل گو تسلیم نہیں کرتے، لیکن ان کی شاعری کی قدر ضرور کرتے ہیں۔ ان کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ کسی شاعرکے کلام سے لطف اندوز ہونے کے لیے اس کا عظیم ہونا ضروری نہیں۔ یعنی اگر اس کی شاعری اس قابل ہے کہ اس سے لطف اندوز ہوا جاسکے تو کھلے دل سے اس کا اعتراف کرنا چاہیے۔ اقتباس کا آخری جملہ ’’مجھے ذوق کی غزل میں لطف کیوں آتا ہے؟‘‘ قابل توجہ ہے۔خاص کر اس وقت جب وقار عظیم ’کلیات ذوق‘ میں صرف ڈھائی اشعار کے معترف ہوں اور دوسری طرف رشید حسن خاں غالب و مومن کے ساتھ غزل کی حد تک ذوق کا نام لینا بھی گناہ سمجھتے ہوں، ایسے میں شمس الرحمن فاروقی کا جملہ معنی خیز دکھائی دیتا ہے۔ جہاں تک راقم کا خیال ہے ذوق کے یہاں موجود آزاد تنوع اور اپنے خیالات کو پیش کرنے کی جو آزاد فضا ملتی ہے ، ممکن ہے وہی غزل میں لطف اندوزی کا باعث ہو۔درج ذیل میں ذوق کی غزلیہ شاعری سے چند مثالیں پیش کی گئیں ہیں۔ آئیے ان مثالوں کو پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا ذوق کے کلام بالخصوص غزلیہ شاعری میںایسے عناصر موجود ہیں، جن سے ذہن و دل کو لطف و انبساط حاصل ہو؟ اگر ایسا ہے یعنی شعر پڑھ کر بے ساختہ داد دینے کو جی چاہے تو ’کلیات ذوق‘ سے فقط ڈھائی اشعار کے انتخاب کو ’ذوق بے زاری‘ کا ہی نام دیا جاسکتا ہے۔ شعر ملاحظہ فرمائیں ؎اب توگھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گےمر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گےاے ذوقؔ کسی ہمدم دیرینہ سے ملنابہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سےمذکور تری بزم میں کس کا نہیں آتاپر ذکر ہمارا نہیں آتا، نہیں آتاپھول تو دو دن بہار جانفزاں دکھلا گئےحسرت تو ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھاگئےاے ذوقؔ تکلف میں ہے تکلیف سراسرآرام سے ہے وہ جو تکلف نہیں کرتےاے ذوقؔ اتنا دختر رز کو نہ منہ لگاچھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئیاے شمع تیری عمر طبیعی ہے ایک راترو کر گزار یا اسے ہنس کر گزار دےان اشعار کے علاوہ ذوق کے یہاں ایسے اشعار کی تعداد بھی خاصی ہے، جو ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرچکی ہیں ؎تو ہماری زندگی پر زندگی کی کیا امیدتو ہماری جان لیکن کیا بھروسہ جان کاکہے جسے عالم اسے بجا سمجھوزبان خلق کو نقارۂ خدا سمجھولائی حیات آئے قضا لے چلی چلےاپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلےہنسی کے ساتھ یاں رونا ہے مثل قلقل میناکسی نے قہقہہ اے بے خبر مارا تو کیا مارادرج بالا میں پیش کیے گئے اشعار اس قابل نہیں کہ انھیں پڑھ کر فراموش کردیا جائے یا قاری کے قلب و ذہن اس سے متاثرنہ ہوں۔ تشبیہ، استعارہ، تلمیح، کنایہ ، مجاز مرسل وغیرہ کیا ہے، جو ان کے کلام میں موجود نہیں۔ سہل ممتنع کی مثالیں بھی ذوق کے کلام سے بکثرت پیش کی جاسکتی ہیں۔ ضرب الامثال اور محاورے کا برمحل استعمال قاری اور سامع دونوں کو واہ کہنے پر مجبور کردیتا ہے۔ اب اگر کوئی اس طرح کی شاعری سے لطف اندوز نہ ہو تو ’’فہم کا اپنے قصور ہے‘‘۔ جہاں تک غالب اور مومن کے مد مقابل ذوق کی غزلیہ شاعری کا موازنہ مقصود ہے، وہاں یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ ذوق کا کلام افہام و تفہیم یا معنوی اعتبار سے اس بلندی کامتحمل نہیں، جہاں غالب و مومن کے اشعار قیام کرتے ہیں۔کلام غالب و مومن کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎غالب:نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کاکاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کازخم پر چھڑکیں کہاں طفلان بے پروا نمککیا مزا ہوتا اگر پتھر میں بھی ہوتا نمککرتا ہوں پھر جگر لخت لخت کوعرصہ ہوا ہے دعوت مژگاں کیا ہوئےمومنتشنہ لب ایسے ہم گرے مے پرکہ کبھی سیر عیدگاہ نہ کیلے چلا جوش جنوں جانب صحرا افسوسجب مرے کوچے میں آکر وہ پری زاد رہاکچھ قفس میں ان دنوں لگتا ہے جیآشیاں اپنا ہوا برباد کیایہ تو فقط چند مثالیں تھیں اس قسم کے اور بھی اشعار ان شعرا کے کلام سے پیش کیے جاسکتے ہیں۔ بہرحال ان مثالوں کے پیش نظر (یا ان شعرا کے دیگر کلام کے پیش نظر)یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ذوق کا تخیل اس بلندی پر پہنچنے سے بہت پہلے ہی دم توڑ دیتا ہے ۔ لیکن اس سے قطعی یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ’کلیات ذوق‘ طاق نسیاں کے قابل ہے۔ اس ضمن میں شمس الرحمن فاروقی کی بات اعتدال پر مبنی اور صد فی صد درست ہے کہ اگر ہم شاعری سے جوشاندہ یا نمک جالینوس کی توقع نہ رکھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم کلام ذوق سے لطف اندوز نہ ہوں۔مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ذوق کے کلام میں رنگینی بھی ہے اور معنی آفرینی بھی، طنز کی کاٹ بھی ہے اور زبان کی صفائی اور برجستگی بھی، روزمرہ کا استعمال بھی ہے اور محاوروں کی کثرت بھی ۔ اس کے علاوہ بھاری بھرکم الفاظ، نادر تشبیہات و استعارات اور پرشکوہ الفاظ کے استعمال میں بھی انھوں نے اپنی صناعی اور فنکاری کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔ لیکن مذکورہ تمام خوبیوں کا اظہار جس آب و تاب کے ساتھ قصیدے میں ہوا ہے غزلیہ شاعری میں اس کی چمک مدھم دکھائی دیتی ہے۔ محمد حسین آزاد نے جن بے بنیاد اور من گھڑت واقعات کا ذکر کر کے ذوق کو بلند تر مرتبے پر فائز کرنے کی کوشش کی تھی، اس میں وہ پوری طرح ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ بالفاظ دیگر ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ حسین آزاد نے ذوق کو اردو ادب کے دوسرے تمام شعرا کے مدمقابل برتر ثابت کرنے کا جو رویہ اختیار کیا تھا، شاید وہی ذوق کے حق میں سم قاتل ثابت ہوا۔
٭٭٭٭
حواشی:
۱: آب حیات، محمد حسین آزاد، اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، چھٹا ایڈیشن، ۲۰۰۳،ص۴۲۰۱: آب حیات، محمد حسین آزاد، اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، چھٹا ایڈیشن، ۲۰۰۳،ص۴۲۰
۲: ایضاً، ص۴۵۵
۳: ایضاً، ص ۴۳۹
۴: آب حیات(مع حواشی، تعلیقات اور اختلاف نسخ)، ترتیب و تدوین: ابرار عبدالسلام، جویریہ پرنٹنگ پریس، ملتان، لاہور، مارچ ۲۰۰۶، ص ۵۶۴
۵: شیخ محمد ابراہیم ذوق، مرتبہ: اسلیم پرویز، انجمن ترقی اردو ہند، ۱۹۹۹، ص۲۹۶
۶: ایضاً ، ص۲۹۷

Leave a Reply
Be the First to Comment!