جموں  و کشمیرمیں  اُردو کی ترویج و ترقی کی اِبتداِ

ریاست جموں  وکشمیر ایشیاء کا ایک ایسا حصّہ ہے جہاں  ہمیشہ مختلف تجربوں  اور مختلف تہذیبوں  کی آمیزش ہوتی رہی یہاں  کے لوگ قدیم زمانے سے مختلف حملہ آوروں  اور ظالم بادشاہوں  اور راجائوں  کے ظلم و جبر کے نتیجہ میں  غلامی ، جہالت، اور پسماندگی کا شکار رہے ہیں ۔ اور اس آمیزش کی وجہ سے یہاں  کی زبان وادب میں  کئی پہلو پیدا ہوتے ہیں  ۔اس کے باوجود وادی کے لوگوں  نے اپنی فطری ذہانت ، قابلیت اور ہوش مندی سے علم وادب ،موسیقی وغیرہ میں  وہ کمالات دکھائے ہیں  نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرونی ممالک کو بھی گہرے طور پر متاثر کیا ہے۔یہ تخلیقی ذہن نہ صرف کشمیری زبان میں محدودہے۔بلکہ سنسکرت،ہندی،فارسی اور اردو میں  بھی پوری آب وتاب کے ساتھ جھلکتا ہے ۔

وادی کشمیرتین صوبوں پر مشتمل ہے ۔  (١) جموں   (٢) لدّاخ (٣) کشمیر ۔تینوں  صوبوں  کے درمیان وسیع و عریض پہاڑی علاقے ہیں  جن کی وجہ سے تینوں صوبوں  کی زبانیں  ایک دوسرے سے مختلف ہیں  ۔

لکھن پور سے بانہال تک کا علاقہ جموں  کہلاتاہے ۔ جموں  رقبے کے لحاظ سے ٨٨٠،٩مربع میل ہے جموں  کی مقامی زبان ڈوگری ہے ۔جموں  کو سنسکرت میں  دوگرت کہتے ہیں  جس کا مطلب دشوار گذار راستوں  والا علاقہ اور ڈگر میں  بولی جانے والی بولی ڈوگری کہلائی یہ بولی جموں  ،ادھم پور ، را م نگر، کٹھوعہ، بسوہلی اور کانگڈہ میں  بولی جاتی ہے۔   ڈوگرہ زبان لسانی اعتبار سے پنجابی اور اُردو سے قریب ہے ۔

”جموں  اور اس کے نواح میں  پنجابی لہٰذا پہاڑی یا ڈوگری جوزبانیں  رائج ہیں  وہ اردوکی ہمزادہیں ۔ ان میں  جو زبانیں  رائج ہیں  وہ اردو کی ہمزاد ہیں  ان    میں  صرف لفظی سرمایے کااشتراک ہی نہیں  بلکہ لسانی قالب اور جملوں  کی ساخت پرداخت کی مشابہت بھی موجودہے اس لئے اُردو ان علاقوں میں  پہنچتے ہی ابتدائی جان پہچان کے بعد ان کی ہمجولی بننے لگی”

”پروفیسرعبدل قادر سروری”  ” کشمیر میں  اردو”

دوسرا صوبہ لدّاخ ہے لدّاخ کشمیرکے ایک پہاڑی علاقے سونہ مرگ سے شروع ہوکر چین کی سرحد پر ختم ہوجاتاہے ۔لدّاخ کو تبّت صغیر بھی کہا جاتا ہے۔ لدّاخ کی علاقائی زبان لدّاخی ہے۔

قاضی گنڈ سے کشمیر کا علاقہ شروع ہوکر پاکستان کی سرحد پر ختم ہو جاتا ہے۔کشمیر رقبے کے لحاظ سے ٨٣٩،٦اور کشمیر کی علاقائی زبان کشمیر ی ہے۔ اور لوگ اسے مادری زبان کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں  ۔کشمیر ی زبان کارسم الخط فارسی ہے۔یہ رسم الخط ” سلطان زین العابدین” کے دور میں  حاصل ہوا تھا۔اس نے کشمیری ادب کے فروغ پر کافی  توجہ دی تھی۔ کشمیری اور اردو زبان کے بہت سے الفاظ مشترک ہیں  لیکن قواعد میں  ایک دوسرے سے بہت مختلف ہے۔

تینوں  صوبوں  کی علاقائی زبانیں  ایک دوسرے سے مختلف تھیں ۔اسکے علاوہ گوجری،بلتی،شنا، پنجابی، پہاڑی، بھدرواہی، بروشتکی اور بکروالی وغیرہ بھی چھوٹی چھوٹی زبانیں  ہیں ۔  لہٰذا ضرورت اس بات کی تھی کہ کوئی ایسی زبان ہوجو تینوں  صوبوں  میں  رابطے کا ذریعہ بنے، او ر تین لسانی اور تہذیبی خطّوں  یعنی جموں ، لداخ اور کشمیر کے درمیان رابطے کی زبان کا درجہ حاصل کرے۔جموں  کے باشندے کشمیری سے ناآشنا تھے اور کشمیر کے لوگ ڈوگری سے ۔اور لدّاخ کے لوگ ڈوگری اور کشمیری دونوں  سے ناواقف تھے۔مواصلات کا انتظام کچھ بھی اچھا نہیں تھا کہ ہندوستان کے لوگوں  کی آمد رفت عام ہوتی۔ کچھ عرصہ کے بعد مواصلاتی انتظام بہتر ہونے لگا اور ہندوستان اور پنجاب سے لوگ کشمیر آنے لگے ۔حکومت نے انہیں  اپنے مفاد کے لئے ملازمتیں  دیں  اور اچھے اچھے عہدوں  پر فائز کیا۔یہ لوگ اپنے ساتھ اپنی اردو زبان لائے تھے اور مقامی لوگوں  کے میل میلاپ سے کشمیر میں  اردو کی ترویج کی سبیل نکل آئی۔

اردو زبان کے توسط سے ہی ریاست کی مختلف اور متعدد لسانی اکائیوں  کے درمیان تہذیبی ، سماجی اور سیاسی رشتوں  کو استحکام حاصل ہوتا ہے۔بات یہی ختم نہیں  ہوتی بر صغیر کے مختلف علاقوں سے کشمیر کے رابطے کا وسیلہ بھی یہی زبان ہے۔مزید برآں یہ کہ اردو زبان سے ریاست کی عوام کا بے حد جذباتی رشتہ ہے۔

”کوئی بھی صاحب ذہن شخص اس حقیقت سے انکار نہیں  کر سکتا کہ ایک صدی بھر سے اردو ریاست کی تین اکائیوں  کشمیر،جموں اور لداخ میں  رابطے کی زبان کا کام خوش اسلوبی سے انجام دیتی ہے اور اس زبان میں  آئندہ یہ فرض ادا کرنے کی اہلیت ہے۔ایک قدم آگے یہی زبان پورے ملک کے ساتھ ہمارے رابطے کی زبان کا کام انجام دیتی ہے ۔اس وقت بھی ہماری ریاست ننانوے فیصدی اخبارات اردو میں  ہی نکلتے ہیں ۔جن کے قارئین کی تعدادلاکھوں  تک پہنچتی ہے۔اور اردو اخباروافکا رکی ترسیل کے لیے ریاست میں  اب بھی سب سے بڑاذریعہ ہیں ۔اظہار کے زبان کے طور پر تہذیبی اور سماجی سطحوں  پر یہی زبان ان اکائیوں  کے میل میلاپ کی بنیادی ضمانت فراہم کرتی ہے۔اعتراف احسان کے طور پر یہ بات عرض کرنا بر محل سمجھتا ہوں  کہ ریاست کی آزادی کے خدوخال اسی زبان کی مرہون منت رہے ہیں  ۔ہمارے لیے یہ بھول جانا ممکن ہی نہیں کہ ہماری آزادی کی تحریک میں  اس زبان کا ایک زبردست کردار رہا ہے۔”

    (شیخ محمد عبداللہ  ریاستی کلچرل اکادمی پہلی اردو کی پہلی کانفرنس ١٩٨١ئ)

جموں  و کشمیر ہندوستان کی واحد ریاست ہے۔جہاں  اردو کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ اس کثیر لسانی صورتحال کے پیش نظر اردو ایک اہم ضرورت بن گئی تھی۔ڈوگرہ راج سے قبل سکھوں  نے کشمیر پر ٢٧ سال ١٨١٩ء ١٨٤٦ء تک حکومت کی۔” رنجیت سنگھ” سکھ سلطنت کا حکمران اعلیٰ تھا۔اس نے کشمیر پر یکے بعد دیگرے دس گورنر تعینات کئے۔” گلاب سنگھ” اسی سلطنت کا ایک سپاہی تھا۔”رنجیت سنگھ”  ”گلاب سنگھ” کی خدمت سے خوش ہو ا اور ریاست کے ایک صوبے جموں  پر اسکو گورنر مقرر کر دیا۔ اس وقت کشمیر پر سکھوں  کی طرف سے امام الدین گورنر مقرر تھا۔ اور ہندوستان میں  انگریز حکومت اپنے پر پھلانے میں  مصروف تھی اور ”گلاب سنگھ”خفیہ طور پر انگریزوں  سے ساز باز کر چکا تھا۔اور لاہور دربار پر قبضہ کرانے میں  ان کی مدد کی۔اس وقت ریاست کی سرکاری زبان فارسی تھی۔

اور اس کے بعد ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ نے ١٨٤٦ء میں  انگریزوں سے کشمیرکی حسین وادی ٧٥ لاکھ روپے کے عوض خریدلی اسی سودے بازی پر علامہ اقبال نے فرمایا  :

دہقاں و کشت وجوو خیاباں  فروختند

قومے فروختند و چہ ارزاں  فروختند

کشمیرپر قبضے کے بعد تک ریاست کی دفتری زبان فارسی رہی۔ اور ڈوگرہ راجہ نے ڈوگری زبان کو ریاست کی سرکاری زبان کا درجہ دینے کی کافی کوششیں کی لیکن ان کی کوششیں  کامیاب نہیں  ہوئی اس لئے کہ اس میں  وہ اہلیت ہی نہیں  تھی جو سرکاری زبان کے لئے ضروری ہے۔ ڈوگرہ زبان بول چال کی زبان سے زیادہ مقبولیت حاصل نہیں  کر پائی۔ کیونکہ ڈوگرہ زبان کا رسم الخط مہاجنی سے ملتا جلتا ہے اور کافی مشکل بھی ہے۔ڈوگرہ زبان مشکل اس لئے ہے کہ ایک کا لکھا ہوا دوسرے کے لئے وہی پڑھنا جو لکھا گیا ہے مشکل ہے۔اگرچہ اسے آسان بنانے کی بھی کوشش کی گئی لیکن یہ تعلیمی اور سرکاری زبان نہیں  بن سکی۔ڈوگری زبان کے ایک شاعر کے گیت سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے رہے لیکن لکھے کبھی نہیں  گئے۔یہی وجہ ہے کہ نہ تو یہ تعلیمی اور ادبی زبان بن سکی اور نہ ہی اس میں  ڈوگری کا سرمایئہ ادب محفوظ ہو سکا۔

 اگرچہ کشمیری زبان میں  اس کاسرمایۂ ادب موجوداور محفوظ تھا تا ہم یہ علاقائی زبان تھی۔یہاں  کے لوگوں  نے ایک صدی سے زیادہ عرصے سے اپنی تمنّاؤں اور خوابوں کے اظہار وسیلہ بنایاتھا۔۔ اس وادی کے لوگ جنہیں  قدرت نے شاعرانہ ذوق بھی بخشا ہے ۔ قدرت کی فیاضیوں کی دِل کھول کر داد دیتے ہیں ۔ چنانچہ کشمیر کے شاعروں  نے اپنے وطن کی رعنائیوں  اور حب الوطنی کے گیت جس کثرت سے گائے ہیں  شاید ہی دنیاکی کوئی اورزبان اس سلسلے میں  اس کامقابلہ کرسکے ۔لیکن اس میں  کشمیری زبان کے شاعروں  کابھی حصہ ہے اور فارسی اور اردو شاعروں کابھی۔

١٨٥٧ء کی جنگ آزادی  :

 ١٨٥٧ء کی جنگ آزادی بھی جموں وکشمیرمیں  اردو کی ترویج کااہم سبب بن گئی۔ انگریزوں نے تحریک آزادی کو ناکام کرنے کے لیے” گلاب سنگھ ”سے فوجی امدادطلب کی۔ ”گلاب سنگھ” خوداگرچہ ١٨٥٧ء میں  حکومت کے کاموں سے دستبردارہوچکاتھا۔ پھر بھی انہوں  نے انگریزوں کی مددکے لئے ڈوگرہ فوج کو دہلی کے لئے روانہ کیا۔ جب یہ جنگ ختم ہوئی تو یہ ڈوگرہ فوج عرصہ دہلی میں  رکی رہی جہاں  انہیں  مزید تربیت دی گئی۔ یہ فوج اس دوران ایسے لوگوں  سے ملتے رہے۔ جن کی زبان اردو اور پنجابی تھی۔ اور اس طرح یہ فوج ٹوٹی پپھوٹی ا ردو بولنے لگے اور جب یہ فوج ریاست میں  واپس آئی تو اپنے ساتھ اردو کے چند الفاظ لائیں  اور ان الفاظ کی مددسے کشمیر میں  اردو کے رائج ہونے میں  بڑی مددملی۔

 کشمیر میں  عیسائی مشینریوں  کی آمد:

کشمیرمیں  ١٨٦٢ء میں  مسیحی مبلغوں کی آمدکاسلسلہ شروع ہوتاتھا ۔ ایک یورپین پادری”ینگسن” کے ہاتھوں  جموں  کے ایک کلیساکی بنیادپڑی تھی ۔ بہت اہم بات یہ ہے کہ ان مشینریوں کی آمدبھی اردو کی ترقی کاباعث ہوئی۔کیونکہ یہ مشینریاں عیسائی مذہب کی اشاعت  کے لئے اردومیں  تصویروں کے ساتھ رسالے ،کتابچے اور شائع کرکے عوام میں  مفت تقسیم کر تی تھیں ۔ یہ رسالے زیادہ سے زیادہ لوگوں  تک پہنچ جاتے تھے۔ اور اس کے وسیلے سے ریاست میں  اردو زبان کو پھلنے پھولنے کاخاصا موقع ملا۔

کشمیرمیں  ناٹک کمپنی اور اردو ترقی  :

عرصۂ دراز سے دوسری ریاستوں سے وقتاً فوقتاًاور عموماً کمپنیاں  کشمیر میں  آتی رہتیں  تھیں  دکھائے جانے والے ڈراموں  سے ریاست کی عوام بڑی دلچسپی لیتی تھی۔ اور عموما ًکمپنیاں  کامیاب واپس جاتی تھیں ۔ اس سے دربار کو خیال ہواکہ کیوں  نہ ریاست میں  ناٹک کمپنی قائم کی جائے ۔ جس سے عوام کو تفریح بھی حاصل ہوجائے اور ملک کا روپیہ ملک ہی میں  رہے ۔ چنانچہ ”محکمۂ دھرم ارتھ” کی طرف سے جموں  کے ایک ”روگھناتھ”مندر میں  ایک ناٹک کمپنی کی تشکیل دی گئی ۔ اس کمپنی نے شروع میں  ”آغاحشرکاشمیری” کے مشہورڈرامے ہیلمٹ، خوبصورت بلااور اللہ دین کا چراغ وغیرہ اسٹیج کئے تھے۔ جس کے اداکار کچھ تو ہندوستان کی مشہور کمپنیوں سے لائے جاتے تھے اور کچھ مقامی طور پر ریاست کے خوش ذوق گلوکار نوجوانوں  کو تیار کیاجاتاتھا اور جو لوگ ایک بار ڈرامہ دیکھ لیتے بار بار دیکھنے کی کوشش کرتے اور اداکاروں  کے لب و لہجہ میں  مکالمے ادا کرتے تھے۔ بظاہر تو یہ کھیل تماشے تھے۔ لیکن ان کے ذریعہ ایک تو اردو کو عوام کی زبان پر چڑھنے کاموقع ملتارہااور ساتھ ہی ساتھ غیر شعوری طور پر اردو کی اشاعت کاکام ہورہاتھا اور اردو کی ہر دلعزیزی روزبروز ریاست میں  بڑھتی رہی۔اور بعدمیں  نئے ڈرامیٹک کلب بھی وجودمیں  آئے ۔

محرم کی مجلسیں   :

ریاست جموں  و کشمیرمیں  اردو کے فروغ اور ترقی کے سلسلے میں  کئی اور عوامل بھی شامل رہے ہیں ۔ جن میں  محرم کی مجلسیں بھی شامل ہیں ۔ ان مجلسوں میں لکھنؤ سے ذاکر بلوائے جاتے تھے اور ذاکروں  سے ریاست کے لوگ لکھنوی لب و لہجہ میں  مرثیے اور سلام سنتے تھے ۔ ذاکروں  کا انداز بیان سننے والوں  کو متاثر کرتاتھا اور متعددمرثیوں کے ان گنت مصرعے عوام کی زبانوں پر چڑھ جاتے تھے۔

ریاست میں  رہنے والے وہ بوڑھے لوگ جو اردو سے بالکل ناآشنا تھے ان کو بھی شعر سننے کا شوق تھا ۔ وہ اکثر ”نظیراکبرآبادی ”کی نظمیں  سنتے سنتے ان کو زبانی یاد بھی کرنے لگے انہیں  اردو کے کسی اور شاعر کانام بھی معلوم نہیں  تھا۔ لیکن وہ نظیرکا کلام سنتے وقت خوش ہوتے ان کی زبانوں  پر کس طرح چڑھ گیا تو معلوم ہواکہ مناقب پڑھنے والے فقیر اکثر ریاست میں  آتے جاتے تھے۔ اور لوگوں  کو مناقب او”ر نظیر ”کی نظمیں  سناتے تھے۔اور نظمیں  سننے سے ان کے بہت سے حصّے حافظوں  میں  محفوظ ہوجایاکرتے تھے۔ اپنے کاموں  سے فراغت پاکر ریاست کے لوگ ان نظموں  کو دہراتے اور خوش ہوتے تھے۔ یہ فقیر جس موضوع پر گفتگو کرتے تھے۔ عموماً سندنظیر کے کلام سے لائی جاتی تھی۔

            ”سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ”

            سب کی زبان پر ہوتاتھا۔

اس طرح نظیر نے اردو سے ناآشنا لوگوں میں  مقبولیت حاصل کرکے جموں  وکشمیرمیں  اردو کی ترویج میں  آسانیاں  پیداکیں ۔

کشمیر میں  ہندوستان کے سیاحوں کی آمد:

پھر یہ کہ کشمیریوں کے اردو سے مزید مانوس ہونے کی ایک کڑی یہاں  ہندوستانی سیاّحوں کی آمدورفت بھی رہی۔ جموں  تو بہر حال پنجاب سے ملحق تھا اس لئے رابطہ آسانی سے ہونے لگا لیکن کشمیر کا معاملہ اس سے مختلف تھا لیکن جب ”مری کو ہالہ” اور ” بانہال”کا روڈ کی تعمیر ہوا تو کشمیر پہنچنے میں  آسانی پیدا ہوگئی اور قریبی رابطہ قائم ہونے کے سبب کشمیر میں  اردو کو روز بروز فروغ حاصل ہونے لگا پھر یہ بھی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہر طبقے اور علاقے کے لوگ کشمیر پہنچنے لگے پھر یہ بھی ہے کہ سیّاحوں کی آمدسے کشمیرکی صنعت کوبھی بڑی ترقی حاصل ہوئی۔ مقامی لوگوں  اور سیّاحوں کو ایک دوسرے کی بات سمجھنے کے لئے رابطہ کاواحد ذریعہ جو زبان بنی وہ اردو ہی تھی۔ اس لئے تجارتی فروغ کے لیے تاجروں اور صنعت کاروں  نے اردومیں  گفتگو کرنے کی زیادہ سے زیادہ ضرورت محسوس کی۔ حالانکہ وہ کاروباری زبان بولتے تھے جس میں  نہ تذکیروتانیث کاکوئی لحاظ تھا اور نہ ہی جملوں  کی ترتیب کا۔ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں  کیا جاسکتاکہ سیّاحت کاروبار کی ترقی اور دوسرے علاقے کے لوگوں  سے رابطے نے یہاں  اردو کو رائج کرنے اور مقبول بنانے میں  اہم کردار اداکیا۔ اس طرح ریاست کے تینوں  صوبوں  میں  مواصلات، اور لوگوں  کی آمدورفت سے لوگوں  کی معمولی محنت سے اردو سیکھنے میں  کامیاب ہوگئے ۔

کشمیر دربار میں  دہلی کے نقیب:

ڈوگرہ حکمرانوں  نے اپنے دربار کی شان بڑھانے کے لئے دہلی سے نقیب بلوائے جن کو ملازمتیں  دی گئیں  یہ نقیب ڈوگرہ دربار میں  مغلیہ دربار کے روایتی انداز میں  مہاراجہ کی آمد کا اعلان کر تے تھے۔

کشمیرمیں  اردو کی پہلی تحریر  :

حبیب کیفوی نے اپنی مشہورتصنیف ”کشمیر میں  اُردو” میں  سفرنامۂ بخاراکو سرکاری طور پر ریاست میں  اردو کی پہلی تحریر قرار دیاہے ۔

واقعہ یوں  ہے کہ مہاراجہ رنبیرسنگھ نے (٧٥۔١٨٧٤ئ) ”چودھری شیر سنگھ ” کو١٨٦٤ء میں  سیاسی و تجارتی تعلقات کے امکان کاجائز ہ لینے کے لئے بخارابھیجاتھا۔ شیرسنگھ نے واپس آکر ١٨٦٥ء میں  اردومیں  ١٨٠  صفحات پر مشتمل سفر کے نتائج مرتب کرکے پیش کئے ۔جسے اردو کی پہلی تحریر بھی کہا جاتا ہے۔

کشمیر میں  اردو کی پہلی مثنوی   :

آزاد کشمیرکا ایک علاقہ ”میرپور”جو جہلم سے ٣٥ میل کے فاصلے پر ہے ۔ میاں  غلام محی الدین میرپوری نے ١١٣١ھ میں  ”گلزار فقیر” کے نام سے ایک مثنوی لکھی۔ یہ مثنوی ٤٠ صفحات پر مشتمل ہے اور ہر صفحہ پر ١٣  اشعار ہیں   :

کلمۂ پاک پر ختم کلام

نیک مبارک سعد تمام

غلام محی الدین ایک فقیر

جس کا حضرت آپ ہیں  پیر

اس مثنوی سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ اردو کے ابتدائی زمانے کاکلام ہے ۔اور اس دور کی یادگار ہے جب اردو ابھی گہوارے میں  تھی۔

”گجرات و دکن میں  اگرچہ اردو تالیفات دسویں  صدی ہجری سے شروع ہو جاتی ہیں  لیکن شمالی ہندوستان میں  دو صدی بعد تک ان کا پتہ نہیں  چلتا ۔دہلی میں ابھی اردو دبستان قائم بھی نہیں  ہوچکتا  ہے کہ پنجاب میں  لوگ اردو زبان میں  مثنویاں  لکھنی شروع کر دیتے ہیں  ۔میر پور (کشمیر)کے شیخ غلام محی الدین مثنوی ”گلزار فقیر”  ١١٣١ء میں  ختم کرتے ہیں  ۔

(مقالات محمود شیرانی  جلد نمبر ٢  صفحہ نمبر ٢٨ )

       چونکہ ماضی کے راجہ مہاراجہ عوام کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کے حق میں  نہیں  ہوتے تھے۔ اس باعث  ” گلاب سنگھ” کے دورمیں  تعلیم کا کوئی معقول انتظام نہیں  تھا۔ لیکن ”رنبیرسنگھ ”کے زمانے میں  جب ابتدائی برسوں  کی مشکلات کے بعد حکومت میں  استحکام پیدا ہواتو مہاراجہ” رنبیرسنگھ” کو علم و ادب کی اشاعت کا خیال آیا۔”رنبیر سنگھ ” نے جموں  میں  ایک دارالترجمہ قائم کیا۔اس ادارے سے سنسکرت اور فارسی کی کتابوں  شائع ہوتی تھی اور بہت سے مسودے اردو میں  ترجمہ ہوتے تھے۔

       اردو کی کتابیں  جو عربی میں  یا دوسری زبانوں سے اردو منتقل ہوئی تھیں  ان کو باضابطہ طور پر شائع کیا جاتا تھا۔اس عہد کے کئی مسودات ملتے ہیں  جن میں  سے اکثر انگریزی ،فارسی اور عربی سے اردو میں  ترجمہ ہوئے ہیں  ان مسودات کی تیاری میں غلام غوث خان ، پنڈت بخشی رام، مولوی فضل الدین ،لالہ بسنت رائے وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں ۔(” برج پریمی ”  جموں  و کشمیر میں  اردو ادب کی نشو و نما)

 چنانچہ ہندوستان اور پنجاب کے بعض علمی گھرانے بھی ریاست میں  آکر آبادہوگئے اور ان کاحکومت کے کاموں میں  عمل دخل بڑھا۔ تو انہوں  نے عوام کی تعلیم کی طرف بھی توجہ مبذول کی۔ اس طرح ریاست میں  پاٹ شالا اور مکتب کھولے گئے جہاں  پنجاب کے مکتبوں  کے طرز پر اردو اور فارسی نصاب جاری کیاگیا۔ اس کے بعد ”پرتاب سنگھ” کے دورمیں  پنجاب کی تقلیدوادی کشمیرمیں  بھی اسکولوں  اور کالجوں  کاقیام عمل میں  آیااور استادباہر سے منگوائے جانے لگے ۔ اردو سے کشمیریوں کے جذباتی دلچسپی کے باعث تعلیم کے عام ہونے کے ساتھ ہی اردو کی مقبولیت میں  اضافہ ہوا۔

اس کے علاوہ ١٨٥٨  میں  ”احمدی پریس” بھی قائم ہوا۔جس میں  فارسی ،سنسکرت اور ڈوگری زبان کی کتابیں  اور دفتروں  کے فارم طبع ہوتے تھے۔ اس کے بعد ”وکرم بلاس ” کے نام سے ایک سرکاری مطبع قائم ہوا ۔ ریاست میں  گورنمنٹ پریس کے علاوہ جموں  اور سرینگر میں  کئی پریس قائم ہونے سے اردو کی اشاعت عام ہونے لگی تھی۔ جموں  میں  ”پبلک پنٹنگ پریس” ”دیوان پریس” اونکار پریس”اور سرینگر میں  ”مارتنڈ پریس” اور ” ہمدرد پریس” قائم ہوئے جن میں  درسی، علمی و ادبی کتابیں  بھی چھپنے لگیں ۔ ١٩٤٠ء میں ”مسٹر  اے آر ساغر” اور پروفیسر اسحاق قریشی” نے  ”جاوید پریس” قائم کیا۔اس پریس میں  اخبار بھی چھپتے تھے اور درسی کتابیں  بھی شائع ہوتی تھی۔

١٨٧٢ء میں  مشہور صحافی و لیڈر ”ہر گوپال خستہ”  اپنی مشہور کتاب ”گلدستئہ کشمیر” میں  لکھتے ہیں   یہ کتاب  کشمیر میں  اردو نثر کی پہلی تاریخ ہے

”گلی کوچوں  اور بازاروں  میں  لوگ اردو بولتے ہیں  اور ہابخیوں   وغیرہ طائفوں  کے لوگ سیاّح سیلانیوں  کے ساتھ اسی زبان میں   ٹوٹی پھوٹی گفتگو کر لیتے تھے”

اس عہد کے اہم ادیبوں  میں  اہم نام ”ہر گوپال خستہ” کا نام سر فہرست ہے۔ وہ کشمیری الاصل تھے اور انجمن پنجاب کی کاکرد گیوں  سے واقف تھے ۔ وہ اپنے عہد کے خیالات اور نئے تصورات سے واقف ہونے کے علاوہ اردو وادب کے مزاج سے بھی واقف تھے۔وہ ”تحفئہ کشمیر” کے نام سے اخبار بھی نکالتے تھے۔

کشمیر میں  اردو کی ترقی و ترویج کے سلسلے میں  اخبارات نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔اس طرح آہستہ آہستہ اردو صحافت نے بھی زور پکڑا ۔ ٩١٢٤ء سے ریاست میں  باقائدہ اردو صحافت کا آغاز ہوتا ہے۔”ملک راج صراف ”  نے ”رنبیر” کے نام سے با اثر اخبار شائع کیا ۔اس لحاظ سے ”ملک راج صراف” ریاست جموں  و کشمیر میں  اردو صحافت کے باوا آدم ہیں ۔صحافتی میدان میں  ان کی قابل قدر خدمات کو فراموش نہیں  کیا جا سکتا ۔١٩٤٧ء تک جموں  سے کئی روزنامچہ اور درجنوں  ہفتہ وار اخبار شائع ہونے لگے تھے۔

١٩٢٥ء کے بعد تو کشمیرکے نظام میں  بڑی اصلاحیں  ہوئیں ۔ اضلاع میں  بھی ہائی اسکول کھولے گئے اور تعلیم کے عام ہونے سے تعلیم کی برکات سے عوام کا سیاسی شعوربھی بلندہوا۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی یہ بھی تھی کہ حکومت سے تقاضہ کرکے کالجوں میں  اردو ادب کے فروغ کے لئے ادبی انجمنوں کاقیام بھی عمل میں  آیااور متعدد کالجوں نے اردومیں  رسالے جاری کئے۔

(١)        پرنس آف ویلزکالج

(٢)        امر سنگھ کالج سرینگر سے ”لالہ رخ”کے نام سے رسالہ نکلتاتھا۔

(٣)        ایس، پی،کالج” سرینگرکاترجمان” ایک الگ رسالہ تھا۔

(٤)        دیہات سدھا کا محکمۂ ”دیہاتی دنیا”کے نام سے اردو کا رسالہ شائع کرتاتھا

(٥)        محکمۂ تعلیم کی سرپرستی میں  ”تعلیم جدید” ایک معیاری رسالہ شائع ہوتاتھا۔

(٦)     ”شیرازہ ”جو اردو اور کشمیری دونوں  زبانوں میں  شائع ہوتا ہے۔

اس نوع کے رسالوں  کو اردو کی تاریخ میں  کبھی فراموش نہیں  کیا جا سکتا۔

ظاہرہے کہ اسکولوں  اور کالجوں  میں  اردو کی تعلیم و تدریس کے عام ہونے کے ساتھ ہی شعر وادب کا ذوق بھی خاصا عام ہوا۔بہت سے لوگ نظموں  اور غزلوں  کی صورت میں  طبع آزمائی کرنے لگے۔ چناچہ شعری محفلوں  اور چھوٹے موٹے مشاعروں  کا انعقاد بھی شروع ہوا۔”منشی محمد دین فوق” نے ریاست میں  شعری محفلوں  کا سلسلہ عام کرکے اردو کی مقبولیت کو زیادہ یقینی بنایا۔ کشمیر میں  داخلی طور پر اردو کے فروغ اور ترویج کا ماحول متذکرہ عوامل کے سبب ہو ہی رہا تھا کہ تعلیم کی غرض سے کشمیری نوجوانوں  کو ریاست سے باہر علی گڈھ ،دہلی،پنجاب،کانپور اور بعض دوسرے مراکز میں        جا کرتعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔جب یہ طلباء تعلیم حاصل کرکے واپس کشمیر اتے تووہ نہایت عمدہ لب و لہجہ میں  معیاری اردو بولتے اور اس طرح اس کو مزید مقبول ہونے کا موقع ملتا۔ان معروضات سے اندازہ لگایا جاسکتا کہ وہ اردو زبان جوبرسہا برس سے کشمیری اور فارسی زبان کے غلبے کے سبب بہت زیادہ پنپ نہیں  پائی تھی۔بیسویں  صدی کے نصف  آخر میں  بڑی تیزی سے مقبول ہوئی اور کشمیر میں  محض اردو زبان ہی نہیں  بلکہ اردو ادب کو بھی اپنی بنیادیں  مستحکم کرنے کا موقع ملا ۔چنانچہ ادھر تقریباً نصف صدی میں  یہاں  ان گنت شعرائ، فکشن نگار،اور انشاپرداز ادبی افق پر محض نمودار ہی نہیں  ہوئے بلکہ پورے ادبی منظر نامے میں  انہو ں  نے اپنی حیثیت اور اہمیت تسلیم کرالی ہے۔ بیسویں  صدی کے نصف اوّل میں  میر غلام رسول نازکی، شہ زور کاشمیری، تنہا انصاری، طالب کاشمیری اور میکش کاشمیری نے شہرت حاصل کی اور ١٩٦٠ء کے بعد جدیدیت کے زیر اثر حامدی کاشمیری،حکیم منظور،رفیق راز، محمد یاسین اور رخسانہ جبیں  نے تخلیقیت کو فروغ دیا ۔ حامدی کاشمیری نے معاصر شاعری اور تنقید میں  عالمی سطح پر اونچا مقام حاصل کر لیا ہے۔ان کی تنقیدی تصانیف میں  نئی حسّیت اور عصری شاعری اپنے موضوع کے اعتبار سے اہم ہے۔ اس کے علاو ہ سرینگرسے بین الاقوامی سطح کا”جہات ” کے نام سے ایک ادبی رسالہ جاری کیا۔ ۔نثر میں اکبر حیدری،محمد زماں  آزردہ،نذیر احمد ملکاور مجید مضمر نے قابل قدر کتابیں  شائع کی ہیں ۔ ان معروضات کے با وصف اس بات میں  دو رائے نہیں  ہو سکیں  کہ ریاست میں  اردو زبان و ادب کا مستقبل درخشندہ و تابندہ ہے۔کشمیر بذات خود اردو کے ایک نئے دبستان کی صورت میں  ابھر رہا ہے۔

Leave a Reply

1 Comment on "   جموں  و کشمیرمیں  اُردو کی ترویج و ترقی کی اِبتداِ
"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] 127.     جموں  و کشمیرمیں  اُردو کی ترویج و ترقی کی اِبتداِ […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.