’چوتھی کا جوڑا‘اصلاح کا ایک پہلو

ڈاکٹرانور سدید اردو ادب کی ’مختصر تاریخ ‘ میں   لکھتے ہیں  ’۔’عصمت چغتائی کی شہرت میں عظمت کم اورحیرت زیادہ ہے‘‘۔عصمت نے اپنے افسانوں میں رشید جہاں کے جذبات واحساسات کی نسوانی بغاوت کو پروان چڑھایااوراپنے افسانوں  میں معاشرتی حقیقت نگاری کا فریضہ انجام دینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔عزیز احمدکے مطابق:

’’ عصمت رجعت پسندانہ اورمریضانہ رجحان کی افسانہ نگارہیں  ۔‘‘

انھوں نے اس عہد کے تہذیبی رویے سے انحراف کیاہے جس کی مثال ان کے یہ افسانے ہیں اورانحراف کی بہت سی مثالیں ان افسانوں میں موجود ہیں ۔ان کے وہ افسانے جن میں اس دور کے تہذیبی رویے سے انحراف ملتاہے گیندا،فسادی،لحاف،پردے کے پیچھے،بہوبیٹیاں ،بیکار،چوتھی کا جوڑا اوردوہاتھ ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عصمت اردوفکشن کی بے تاج بادشاہ ہیں ۔انھوں نے مسلم معاشرے میں متوسط گھرانوں کی پردہ نشیں لڑکیوں کی ذہنی اورنفسیاتی الجھنوں کو اور ان سے جنم لینے والے مسائل کو بڑے سلیقے سے اپنے ناولوں اورافسانوں کا موضوع بنایاہے۔ان افسانوں میں چوتھی کا جوڑا ان کا مشہور افسانہ ہے جو ان کے جذبات، مشاہدات اوراحساسات کا فن کارانہ اظہار ہے۔اس شاہکار افسانے میں عصمت نے غریب اورلاچار سماج کی تصویر کشی کی ہے ۔یہ دردر بھری کہانی ایک مجبور ،بے بس بیوہ اوراس کی دوبیٹیوں کی کہانی ہے ۔بیوہ جو بی اماں  کے کردار میں ہے ، اس کو کپڑے سینے میں بڑی مہارت حاصل ہے اور یہی اس کا ذریعہ معاش بھی ہے۔محلے کی عورتیں نہ صرف ان سے کپڑے سلواتیں ،بلکہ اس دوران اور بھی کئی مشورے لیتیں ۔بڑی بیٹی کبریٰ اورچھوٹی حمیدہ ہے ۔عصمت اس ضمن میں لکھتی ہیں :

’’ٹاٹ کے پردے کے پیچھے ایک کی جوانی آخری سسکیاں لے رہی ہے اورایک نئی جوانی سانپ کے پھن کی طرح اٹھ رہی ہے۔‘‘

بی اماں وہ بدنصیب بیوہ ہے جو اپنی بیٹی کی شادی کے ارمان دل میں لیے چوتھی کے خوبصورت جوڑے کو تیار کرکے بڑی احتیاط اورحفاظت سے صندوق کے حوالے کردیتی ہے ۔اس طرح خوبصور ت جوڑے تیار ہوتے رہے لیکن وہ صرف صندوق ہی کی زینت بنتے رہے جیساکہ اکثر ہوتاہے ۔کبریٰ کے والد کے انتقال کے بعد دوست واحباب نے آنکھیں پھیر لیں اورلاکھ کوششوں کے باوجود غریب اوربے بس بیوہ کی بیٹی کو کوئی اپنانے کو تیار نہ ہوا۔لیکن ایک دن اچانک یوں ہواکہ کبریٰ کے منجھلے ماموں کا بڑابیٹاراحت جس کا تقررپولس میں ہوگیاتھاٹریننگ کے لیے آرہاتھاجیسے ہی یہ خبر بی اماں اورکبریٰ کو ہوئی مانوان کے دل میں شہنائیاں بجنے لگتی ہیں ،ان کو یقین کامل ہوجاتاہے کہ بیٹی کا نصیب کھل گیاہے۔پروردگار عالم نے ان کی سن لی،اب ان کی تمام مشکلات کا مداواہوگیا۔وہ ایک نئے جوش اورجذبے کے ساتھ کبریٰ کا خوبصورت دوپٹہ تیار کرتی ہے ،اس دوران راحت کا پرتپاک خیرمقدم کیاجاتاہے اوروہ اپنے قیمتی زیوارت بیچ کر اس کے آسائش وآرام اور خوردو نوش کا انتظام کرتی ہے ۔

بی اماں اورکبریٰ اپنی ساری امیدیں راحت سے وابستہ کرلیتی ہیں ،ہزاروں ارمان دل میں لیے لیکن خاموشی سے اس کی خدمت میں کوئی کمی نہیں چھوڑتی ہیں لیکن اسے خدمت کا صلہ کچھ یوں ملتاہے کہ ایک دن اچانک راحت یہ کہہ کر اپنارخت سفر باندھ لیتاہے کہ اس کی شادی کی تاریخ طے ہوگئی ہے۔کبریٰ دق کے مرض میں مبتلاء ہوجاتی اورآہستہ آہستہ یہ مرض اسے مکمل اپنی گرفت میں لے لیتاہے۔ اس طرح وہ بد نصیب اورنامراد کبریٰ جس کا ہاتھ تھامنے کوئی مرد اس لیے تیار نہ تھاکہ وہ جہیز میں ٹھوس کڑے یا بھرت پایوں کاپلنگ بھی نہیں لاسکتی تھی۔آخر کا ر موت اس کا ہاتھ تھام لیتی ہے اوروہ بڑے سکون اوراطمینان کے ساتھ اپنے آپ کو موت کے حوالے کردیتی ہے ۔وہ ماں جس نے بڑے ارمانوں سے چوتھی کے خوبصورت جوڑے تیارکیے تھے صبروتحمل سے بیٹی کو کفن پہناتی ہے ۔اس پورے واقعہ کو عصمت نے بڑے مؤثر اور دردمندانہ انداز میں پیش کیاہے جسے کبھی بھلایانہیں جاسکتا۔افسانے میں انھوں نے مشاہدے کو نہ صرف تصویرکی رنگینی کے ساتھ پیش کیاہے بلکہ اس کے ساتھ جذبے کا گداز بھی شامل ہے جس کی وجہ سے اسے نقش دوام حاصل ہوا۔وہ سرگوشی کے انداز میں کچھ کہناچاہتی ہے ۔افسانہ پڑھنے کے بعد عجیب وغریب کیفیت دیر تک قائم رہتی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ عصمت نے انسانی زندگی کی تلخ حقیقتوں کو پیش کرنے میں بڑی مہارت سے کام لیاہے ،ایک بیوہ کی زندگی کی تلخ حقیقت اس سے زیادہ کیاہوسکتی ہے کہ اس کے گھر میں دوجوان بیٹیاں ہوں اوران کے رشتوں کی تلاش سے بڑھ کر کوئی اہم مسئلہ ہوہی نہیں سکتا۔انھوں نے افسانے میں ایک ماہرنفسیات کا کردار اداکیاہے اورانسانی فطرت کے پیچ وخم کا بڑی گہرائی اور گیرائی سے مشاہدہ کیاہے۔انسانی زندگی میں چھوٹے چھوٹے کاموں اورذہنی جذبات واحساسات کا گہرادخل ہے۔وہ ظاہری حقیقت سے کہیں زیادہ اس کے پیچھے تہہ میں چھپی گہری حقیقت کی بہترین مصور ہیں ۔وہ کرداروں کے ذہن وروح میں اترکر ان کے ایک ایک راز کو جاننے اورآشکار کرنے کا ہنر جانتی ہیں ۔کبریٰ جس نے بظاہر اپنی زبان سے کچھ نہیں کہالیکن ایسامحسوس ہوتاہے کہ اس کا دل چیر کر دیکھ لیاہے کہ وہ کیاسوچتی ہے اورکیاچاہتی ہے جب راحت کے آنے کی اطلاع ملتی ہے تو وہ اپنے ہاتھوں سے کمرہ پوتتی ہے۔ہاتھ کی تکلیف اس کے لیے بے معنیٰ ہوکر رہ جاتی ہے ۔اس لیے کہ وہ اس کا اپناہونے والاہے۔اس کے لیے اتنی تکلیف سہہ لیناتو معمولی بات ہے۔وہ راحت کی کس انداز سے خدمت کرتی ہے خود عصمت کے الفاظ میں دیکھیے:

’’اور وہ راحت بھائی کے کمرے کو پلکوں سے جھاڑتیں ۔اس کے کپڑوں کو پیار سے تہہ کرتیں جیسے وہ کچھ ان سے کہتے ہوں ،وہ ان کے بدبودار چوہوں جیسے سڑے ہوئے موزے دھوتیں  ، بُساندی بنیان اورناک سے لِتھڑے ہوئے رومال صاف کرتیں ،اس کے تیل میں  چپچپاتے ہوئے تکیے کے غلاف پر سوئٹ ڈریم کاڑھتیں ۔‘‘

عصمت کا کمال یہ ہے کہ الفاظ سے کہیں زیادہ احساسات سے اس افسانے کو نمایاں کیاہے۔پوری کہانی میں کبریٰ کی آواز بہت کم سنائی دیتی ہے لیکن اس کی خاموشی ہی اس کی داستان بیان کرتی ہے۔وہ سرتاپاجذبات سے سرشار ہے لیکن اس کے اظہار کو گناہ سمجھتی ہے ۔یہ سچ ہے کہ کردار نگاری محض لفظوں کے پل باندھ کر نہیں کی جاتی ۔انھوں نے عورت کے مسائل کو عورت ہی کے زاویہ نگاہ سے دیکھنے  اورسمجھنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔مسلم سماج میں کنواری لڑکی کی نفسیات اوراس کی دکھتی رگوں پر جس طرح عصمت نے ہاتھ رکھاہے شاید اس سے پہلے اردوافسانے کو یہ بات نصیب نہ ہوئی ہو۔کبریٰ کے جذبات سے تو ہم بخوبی واقف ہوجاتے ہیں لیکن بدنصیبی کے آگے وہ اپنے آپ کو بے بس اورمجبور محسوس کرتی ہے ۔چھوٹی بہن حمیدہ کی زبانی ملاحظہ ہو:

’’ان کا بس چلتاتو زمین کی چھاتی پھاڑ کر اپنے کنوارے پن کی لعنت سمیت اس میں سماجاتی ‘‘۔

یقین جانیے اس طرح کے دلخراش الفاظ ذہن پر گہرااثر چھوڑتے ہیں ،یہ ایسے تجربات ہیں جن کو اس قدر سچائی اورشدت کے ساتھ بیان کیاگیاہے کہ آپ بیتی کے بجائے جگ بیتی معلوم ہوتے ہیں ۔عصمت نے مسلمانوں میں پھیلی اکثر برائیوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے ۔برائیاں بے نقاب کرنے کا ان کا مقصدصرف اورصرف ان برائیوں کا مداواکرنامقصودتھا۔افسانہ میں جوپختہ کاری ہے،اس نے مصنفہ کو افسانہ نگاری کی دنیاسے نکال کر معاشرے کے اہم مسائل کی تہہ تک پہنچادیاہے کہ وہ سماج سے یہ مطالبہ کرنا چاہتی ہیں کہ لڑکیوں کو کم از کم اتنی تعلیم دی جانی چاہیے کہ وہ کسی کے رحم وکرم پر نہ رہیں بلکہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکیں اوروقت ضرورت انھیں کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلاناپڑے۔اس ضمن میں حمیدہ ایک جگہ کچھ اس طرح سوچتی ہے:

’’کیامیری آپامرد کی بھوکی ہے؟نہیں وہ بھوک کے احساس سے پہلے ہی سہم چکی ہے،مرد کا تصوراس کے ذہن میں ایک امنگ بن کر نہیں ابھرابلکہ روٹی کپڑے کا سوال بن کر ابھراہے،وہ ایک بیوہ کی چھاتی کو بوجھ ہے ،اس بوجھ کو ڈھکیلناہی ہوگا‘‘۔

عصمت نے خود اس افسانے کے متعلق کہاتھاکہ میرامقصد سماج کو اس طرف متوجہ کرناہے کہ روٹی اورکپڑے کے لیے عورت مرد کی محتاج نہ رہے۔افسانے کا فن اس قدر نازک ہوتاہے کہ وہ تبلیغ کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا۔جب کبھی افسانہ نگار قصہ گوئی کے فن کو ترک کرکے معلم اخلاق بننے کی کوشش کرتاہے تو فن کی بارگاہ میں لائق تعزیر ٹھہرایاجاتاہے لیکن اس افسانے میں عصمت لائق تعزیر نہیں بلکہ لائق تعظیم نظر آتی ہے کہ اصلاحی درس کے باوجود ان کا فن پھیکااوربے مزہ نہیں ہوتا،جن حالات سے متأثر ہوکر عصمت نے یہ افسانہ لکھااورجس گھر کی چہار دیواری کو اپناخاص ماحول بناکر ان کرداروں کو پیش کیاگیاہے اس کے علاوہ اوربھی بہت کچھ ہے جس کا انھوں نے بڑی باریک بینی سے مشاہدہ کیاہے۔غیرضروری تفصیلات سے گریز کیاہے،اسی لیے ان کے فن میں کمی محسوس نہیں ہوتی ،ہندوستان جیسے عظیم ملک میں  سب سے بڑی بیماری غربت کو واضح طور پر پیش کیاگیاہے۔سماج میں عورتوں کے حرکات ،ان کی گفتگوجو مخصوص موقعوں پر سامنے آتی ہیں ،بی اماں اوران کی منہ بولی بہن کی کھسرپھسرکو بڑی مہارت اورچابک دستی سے پیش کیاہے۔رمزیت اورطنزیاتی انداز قابل تعریف ہے ،مصنفہ کا طنز چھپاہوااوربھرپور ہوتاہے ۔افسانے میں کئی ایسے طنزیاتی جملے ملتے ہیں گویاانھوں نے ان جملوں کے ذریعے اپنے دل کا غبار نکال لیاہے۔مثلاً:

’’میراجی چاہاکہ ا س کا منہ نوچ لوں ،کمینے مٹی کے تودے یہ سوئٹران ہاتھوں نے بنے ہیں  جو جیتے جاگتے غلام ہیں ،اس کے ایک ایک پھندے میں کسی نصیبوں جلی کی گردنیں  پھنسی ہوئی ہیں ،یہ ان ہاتھوں  کا بنا ہوا ہے جو ننھے پنگورے جھلانے کے لئے بنائے گئے ہیں ۔ان کو تھام لو،گدھے کہیں کے۔۔۔ انھیں پیانوں پر رقص کرنانہیں سکھایاگیا،انھیں پھولوں سے کھیلنا نہیں نصیب ہوامگر یہ ہاتھ تمہارے جسم پر چربی چڑھانے کے لیے صبح سے شام تک سلائی کرتے ہیں ،صابون اورسوڈے میں ڈبکیاں لگاتے ہیں ،چولہے کی آنچ سہتے ہیں ،تمھاری غلاظتیں  دھوتے ہیں  تاکہ تم اجلے ،چٹے بگلابھگتی کا ڈھونگ رچائے رہو، محنت نے ان میں  زخم ڈال دیے ہیں ، ان میں  کبھی چوڑیاں  نہیں  کھنکتی ہیں ۔‘‘

 اس طرح کے اور بھی بہت سے جملے افسانے میں بکھرے پڑے ہیں ۔زبان وبیان کے اعتبار سے بھی یہ افسانہ قابل توجہ ہے،اس کی نثر اپنے اندر بے ساختگی اورتیکھے پن کے علاوہ تخلیقی جوہر بھی رکھتی ہے ۔افسانہ نگار کو الفاظ کے انتخاب میں غیرمعمولی احتیاط سے کام لیناپڑتاہے۔اس بات کو انھوں نے پوری طرح ملحوظ خاطر رکھاہے،جیساکہ افسانے میں بیان کیاگیاہے کہ کبریٰ تکیے کے غلاف پر گل بوٹے کاڑھتی ہیں  تو اس میں وہ لطف باقی نہیں رہتا جو سوئٹ ڈریم کاڑھنے میں ہے،کیوں کہ کبریٰ جو سہانے سپنے دیکھاکرتی،اسی مناسبت سے یہ الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔اظہار کا سب سے بڑاذریعہ زبان ہے اورزبان صرف الفاظ کا کام ہی نہیں  کرتی بلکہ زبان میں لب ولہجہ اورطرزِ اداسب کچھ شامل ہے۔اس ضمن میں بی اماں اوران کی منہ بولی بہن کی گفتگو سنیے:

’’اے نوج خدانہ کرے جو مری لونڈیاآنکھیں لڑائیں ۔اس کا آنچل بھی نہیں دیکھاہے کسی نے،بی اماں  فخر سے کہتیں ،اے توپردہ تڑوانے کو کون کہے ہے،بی آپاکے پکے آنسوئوں  کو دیکھ کر انھیں  بی اماں  کی دوراندیشی کی داد دینی پڑتی ۔اے بہن تم تو سچ مچ میں  بہت بھولی ہو ۔یہ میں  کب کہوں ہوں ۔یہ چھوٹی نگوڑی کون سی بقرہ عید کو کام آئے گی۔‘‘

افسانے میں الفاظ ،تشبیہات اورعلامات کا نیااستعمال ملتاہے ۔ان الفاظ سے اورنفسیات سے قاری لطف اندوز ہوتاہے ۔تشبیہ کی یہ صورت بظاہر بڑی عجیب وغریب معلوم ہوتی ہے ۔

افسانے میں کچھ الفاظ ایسے استعمال ہوئے ہیں جو صرف اور صرف عورتوں کی معاشرتی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں ،ویسے تو یہ الفاظ بارہاسنے معلوم ہوتے ہیں لیکن جب ان الفاظ کو تخلیقی قوتوں سے سجایاجاتاہے تو انھیں احساسات وجذبات کا جامہ پہنانابڑامشکل کام ہوتاہے لیکن عصمت نے ان تمام مشکل کاموں کو بڑی کامیابی اورکامران سے طے کیاہے۔کبریٰ کے انتقال کے بعد بی اماں  کے جذبات کو جس طرح پیش کیاہے اس کا ایک نمونہ ملاحظہ کیجیے:

’’اور پھر اسی سہ دری میں  چوکی پر صاف ستھری جازم بچھائی گئی۔محلے کی بہو بیٹیاں  جڑیں ، کفن کاسفید سفید لَٹھا۔موت کے آنچ کی طرح بی اماں  کے سامنے پھیل گیا ۔ تحمل کے بوجھ سے ان کا چہرہ لرز رہاتھا،بائیں ابروپھڑک رہی تھی،گالوں کی سنسان جھریاں بائیں بائیں کررہی تھیں ،جیسے ان میں لاکھوں اژدہے پھُنکاررہے ہوں ،لٹھے کے کان تھان نکال کر انھوں نے جو تہیہ کیا،ان کے دل میں اَن گنت قینچیاں چل گئیں ۔‘‘

بقول انور سدید:

’’ عصمت چغتائی بنیادی طور پر عورت کے معاشرے کی مشاہدہ بیں اوراس کی حقیقت نگار ہیں ،انھوں نے عورت کے داخلی جذبوں اورسماجی کردار کو اجاگر کیا۔‘‘

مختصر یہ کہ یہ افسانہ اپنی تمام تر قوتِ مشاہدہ ،نفسیات اورجذبات کی عملی حقیقت ،موزوں طرز بیاں ،دلچسپ مواداوراس کے فنکارانہ اظہار کی وجہ سے ہمیشہ اردوافسانے کی صف اول میں اپنی تمام ترکامیابیوں اورکامرانیوں کے ساتھ شمار ہوتارہے گا۔میں اپنی بات غالب کے اس شعر پر مکمل کرتاہوں جو مجھے اس موقعے پر موزوں معلوم ہوتاہے    ؎

نہ گل نغمہ ہوں  نہ پردہ ساز

میں ہوں اپنی شکست کی آواز

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.