و جو دیت کے فلسفیا نہ عقا ئد و نظر یا ت

 (Existentialism : Theories and Philosophical Principles)

                                                ABSTRACT

Existentialism: Theories and Philosophical Principles Existentialism is a philosophy of scarcity and lackness. Exixtentialism brings forth its external demerits into the form of terror, boredom, disgust, hope, crime, disappointment and consciencelessness. According to this philosophy individual is a central character of the world. If there lays no existance then there will be no world. Existenance without freedom is incomplete. After having division in different groups i.e religious and non-religious its main subjects were destruction, dominasm, cruelty, tyranny, agression and insignificance of life. In this research article different themes and philosophical approaches about Existentialism are critically discussed.

تلخیص:

 فلسفہء و جو دیت کے مطا بق فرد کے داخل کی دنیا جذبوں کی دنیا ہے لیکن فرد سماج اورمعاشرے سے کٹ کر بھی زندگی بسر نہیں کرسکتا جبکہ سماج اور سماجی قدروں کے پیمانے مختلف ہوتے ہیں اورفرد کوقدم قدم پر مزاحمت اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔انسان دنیا میں پہلے سے بنا بنایا جوہر لے کر نہیں آتا۔اس کودنیا میںپھینک دیا گیاہے۔ اس کے پاس وجود ہے۔ جوہراس نے خود بنانا ہے۔ ہرموڑ پر انسان کے سامنے مختلف راستے ہوتے ہیں۔ ان میںسے کسی ایک کوچننا پڑتا ہے۔  انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ اس کاتعلق زندگی کے کسی بھی شعبے سے ہوسکتا  ہے۔ اس انتخاب سے بہت سے رستوں کوچھوڑنا پڑتا ہے اورجب انسان کسی رستے کوچھوڑتاہے تواس کے اندر ایک کرب،تڑپ، اینگویشن پیدا ہوتی ہے۔

وجو دیت کے فلسفیا نہ عقا ئد و نظر یا ت

      وجودیت عربی زبان کے لفظ ’’وجود‘‘سے ماخوذہے۔ یہ لاطینی میں Existention،فرانسیسی میں Existence ، جرمن میں Existenz ،فارسی میں ہست، سنسکرت میں ایشتو کہلاتا ہے۔ تمام الفاظ کم و بیش ہم معانی  ہیں۔فر ہنگ ِ آ صفیہ کے مطا بق :

 ’’و جو د کے لغو ی معا نی حصو لِ مقصدیا مطلو ب کا پا نا ، مجا زاً بد ن ، جسم ،نقیض، عدم ہستی،ذات، زند گی ، و جو د گی، بود، تکوین، تد وین،پیدا ئش، حیا ت، تنفس، ظہو ر، نما ئش و غیرہ‘‘۔(۱)

      کو لینز انسا ئیکلوپیڈیا کے مطا بق:

           “Existentialism, a philosiphical movement which holds               that there is no fixed human nature, that man is free                to act as he will and that this the source office                      anguish”.(2)

و جود یت نفسیا ت اور جد ید فلسفے کی اہم اصطلا ح ہے ۔یہ تحر یک فر د کی غیر مشرو ط آ زا دی پر زور دیتی ہے اور حقیقت یا ہستی کے تصو ر کو فرد کے انتہا ئی مو ضو عی تجر بے کے حو الے سے سمجھنے کی کو شش کر تی ہے ۔

       سارتروجودیت کے بارے میں لکھتے ہیں:

 ’’ وجودیت سے مراد ایک ایسا نظریہ ہے جس کے ذریعے انسانی زندگی ممکن نظر آتی ہے۔ مزید برآں یہی نظر یہ اس بات کی خبر دیتا ہے کہ ہرسچائی اور ہرعمل انسانی ماحول اورانسانی داخلیت کاپرتو ہے۔‘‘(۳)

وجودیت (Existentialism) کا فلسفہ سورین کرکیگارڈ نے دیا۔ اس کے نزدیک وجود جوہرپر مقدم ہے۔ اور آدمی اس کے سوا کچھ نہیں جو خود کو بناتا ہے۔اس کے نز دیک وجودیت کے فلسفے کی تین بڑی خصوصیات ہیں:-

      ۱ ۔وجود کی حیران کن اثرپذیری فطرت کے لگے بندھے رویے کا نام نہیںبلکہ بہتر سے بہترین کی تلاش کا نام ہے۔

         ۲۔ وجود ہر لحاظ سے مقدم اورلاثانی ہے یہ کسی دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتا ۔

         ۳۔وجود خود آگاہ و خودبین  ہوتا ہے کیونکہ وہ عرفان اورآگاہی کامرکز ہوتا ہے۔

قاضی جاوید کے مطا بق :

’’تمام تسلیم شدہ روایات کے خلاف بغاوت، مادہ پرستی ، تخیل کاافلاس، فکر، ادب وفن میں جذبہ وحدت کاانتشار،عدم تحفظ کا احساس،سماجی،سیاسی،مذہبی، اخلاقی و جمالیاتی اقدار کی شکست وریخت جن سے ہماری ثقافت صورت پذیرہوسکتی ہے نے وجودی فلسفے کو خام موادفراہم کیا۔(۴)

      وجودیت چونکہ بحران کا فلسفہ ہے اس لیے جنگوںکے دوران شکست وریخت ، مغلوبیت، ظلم و تشدد، اذیت اورموت کی ارزانی اس کے موضوعات ٹھہرے۔وجودیفلاسفہ مختلف گروہوںمیںبٹ کراس کی داخلی وارداتوں کودہشت، بوریت،کراہت، امید،خوشی،جرم،مایوسی اور ضمیربد کی صورتوں میںسامنے لاتے ہیں۔

         سا ئنسی تر قی اور مشینو ں کی انسا نو ں پر فوقیت حا صل کر نے کے بعد جہا ں انسا ن تنہا ئی کا شکا ر ہو گیا و ہا ں انسا نی اقدا ر بھی اہمیت کھو تی چلی گئیں۔ انسا ن کر ب میں مبتلا ہو گیااور اس کی با طن سے جنگ شر و ع ہو گئی با طن کی کشمکش پر مبنی ایک تحر یک

 کا ظہو ر ہوا جسے و جو د یت کا نا م دیا گیا۔

      اس سلسلے میں ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں:

’’ و جو دیت کی اسا س اس امر پر استوا ر ہے کہ انسا ن اس د نیا میں آ زا د اور منفر د پیدا ہو ا لیکن معا شر ے میں ر ہنے کی بناپر وہ اپنے لیے ایک خا ص نو ع کا طر زِ عمل منتخب کر نے پر مجبو ر ر ہے۔ بحثیت ایک فرد انتخا ب اس کا حق ہے جبکہ معا شر ے کا ایک ر کن ہو نے کی بنا پر یہی انتخاب ایک مجبو ر ی بن جا تا ہے اور اسی کر ب کا وہ احسا س جنم لیتا ہے جو جد ید انسا ن کا سب سے بڑا المیہ ہے۔‘‘(۵)

      اس تحر یک نے جہا ں سیا ست، نفسیا ت ، مذ ہب اور معا شر ے کو متا ثر کیا و ہا ںاس کے ادب پر بھی گہر ے اثرا تمر تب ہو ئے۔ اس تحر یک میں دو گرو ہ مذہبی اور غیر مذ ہبی سا منے آ ئے ۔ مذ ہبی گروہ سورین کر کیگا ر ڈکو اپنا ر ہنما سمجھنے لگے جن میں ما ر ٹن ہو، جیزز،جبر یل ما ر سل اور ر چر ڈ کر و نر کے نا م قا بل ذکر ہیں جبکہ غیر مذ ہبی گر و ہ کے نما ئندے ژاں پال سا ر تر کو اپنا امام سمجھنے لگے جن میں نطشے، پا سکل، ہیڈگر کے نام شامل ہیں۔ان فلا سفہ میں ہیگل کے و جو د ی نظر یا ت میں معر و ضیت ہے کہ جس کے نز د یک “Rational is Real”،کر کیگا ر ڈ و جود کے امتیا ز اور انفرا دیت کی جستجو ، مو ضو عیت ، داخلیت اور احسا س کی شد ت سے ہیگل سے اختلا ف کر تے ہو ئے “Personal is Real”کا نقطہء نظر رکھتا ہے۔ ڈیکارڈ عقل کی اہمیت پر زور دیتے ہو ئے “I think therefore i exist”کا جوا ز پیش کر تا ہے تو جیسپر ز بھی “Existenz only becomes clear through Reason”کہہ کر اس سے متفق نظر آ تا ہے ۔ہا ئیڈ گر فر د کی ما ضی ، حا ل اور مستقبل کی حا لتو ں کو “Now”میں دیکھ کر “Only existent man is historical, nature has no history”کہہ کر فطر ت کے کردا کی نفی کر تا نظر آ تا ہے۔ما ر سل انسا ن کے اس د نیا میں زبر دستی پھینکے جا نے پر صدا ئے احتجا ج بلند کر تا نظر آ تا ہے”The universe into which we have been thrown can not satisfy our Reason”   الغر ض وجو دی فلا سفہ نے مختلف ر نگو ں سے اس فلسفے کی تشر یح و تو ضیح کر کے سو چ و فکر کی نئی را ہیں کھو ل دی ہیں۔

       ان کے علاوہ وجودیت کوموضوع  بنانے والوں میں کامیوں، ریکے ،کافکا اور دستوفسکی شامل ہیں۔ اوپر و الا حملہ انھو ں نے ادب کو ز ند گی کا آ ئینہ تسلیم کر نے سے انکا ر کر دیا اور اسے انسا نی و جود کے اظہا ر کا و سیلہ قرا ر دیا۔ انھو ں نے اپنے نظا مِ فلسفہ سے خا لق کا ئنا ت کی مو جو د گی کو بلا ضرو ر ت قرا ر دیا اور صر ف او ر  صر ف فرد کے و جو د کو اہمیت دی جو افعا ل کا خا لق اورتعبیر سا ز ہے۔ سا ر تر نے اس تصو ر میں فرا نس کی روح سمو دی اور اس سے وہ کا م لیا جس سے ز ند گی، ادب اور فن کے شعبے متا ثر ہو ئے ۔ وہ انسا ن کو اپنی تقد یر کا خا لق تصو ر کر تا ہے۔

       ژاں پا ل سا ر ترکے بقو ل:

’’ انسا ن کچھ نہیں سوااس کے جو کچھ وہ اپنے آ پ کو بنا تا ہے۔ یہ و جو د یت کا پہلا اصول ہے۔ اسی کو لو گ دا خلت کہہ کر اس پر طنز کر تے ہیں لیکن ہما را اس سے بجز اس کے اور کیا مطلب ہے کہ انسا ن کا پہلے فر ق مو جود ہو تا ہے۔ با قی سب سے مقد م اس کا ہو نا ہے جو اسے ایک مستقبل کی جا نب دھکیلتا ہے اور اسے اپنے اس عمل کا پو را شعور ہو تا ہے۔‘‘ (۶)

      کر کیگار ڈ خدا کے و جو د سے انسا ن کو جو ڑتا ہے اس کے نز دیک انسا ن کے بغیرخدا کا و جود بے معنی ہے۔ اشرف کمال کر کیگا ر ڈ کے حوا لے سے بتا تے ہیں:

’’ حقیقت صر ف مو ضو عی ہے اور مو ضو عی حقیقت جذ با تی ہو تی ہے عقلی نہیں، خدا ایک حقیقت ہے لیکن یہ معر و ضی نہیں ہے اور وہ اپنے و جو د کے لیے انسا ن کا محتا ج ہے کیو ں کہ انسا نی و جو د کے بغیر خدا کا تصو ر ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘(۷)

 انسان کا وجود پہلے اور جوہربعد میں ہے یعنی انسان پہلے اور اس کی خوبیاں و کمال بعد میں ہیں۔ اس کے نزدیک وجود ہر لحاظ سے یکتا اور لاثانی ہے یعنی فرد اپنے ہونے کے حوالے سے کسی بھی دوسرے فرد سے مماثلت نہیں رکھتا۔ فرد معروضی دنیا کی بجائے ذاتی تجربے اور جذب دروں پر یقین رکھتا ہے وہ اپنے رویے اور قدریں خود تخلیق یامتعین کرتا ہے۔

فلسفہء و جو دیت کے مطا بق فرد کے داخل کی دنیا جذبوں کی دنیا ہے لیکن فرد سماج اورمعاشرے سے کٹ کر بھی زندگی بسر نہیں کرسکتا جبکہ سماج اور سماجی قدروں کے پیمانے مختلف ہوتے ہیں اورفرد کوقدم قدم پر مزاحمت اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وجودی فلاسفہ کے بارے میں عائشہ سلیم لکھتی ہیں:

’’ انسان ہرچیزکوحاصل کرنا چاہتا ہے جس کوترک کرتا ہے تووہ اس کے لیے تکلیف بن جاتی ہے۔ہر انتخاب یا Choice  اپنے ساتھ ایک کرب لے کر آتا ہے کیونکہ ہم ایک راستہ چھوڑتے  ہیں اور ایک چنتے ہیں اس سے انسان کی زندگی میں بحران یا Crisis پیدا ہوتے ہیں۔ اس طرح انسان کی ذات درحقیقت بحران پربحران اورپھربحران کا سامنا کرتی ہے کیونکہ انتخاب ختم نہیں ہوتے۔ اس بحران سے گزرتے اورانتخاب کرتے ہوئے انسان کی جو شخصیت بنتی ہے وہ اس کاجوہر ہے۔(۸)

فرد میںکیفیات جنم لیتی ہیں ان کیفیات کو وجودی فلاسفہ نے بہت اہمیت دی ہے اور انھیں داخلی وارداتوں کا نام دیا ہے۔ ان میں دہشت  یا کرب، نیستی، ناامیدی، خوشی، بے چارگی، گھِن اور  بوریت شامل ہیںوجودیت کے فلسفے کے مطابق فرد دنیا کامرکزی کردارہے۔ اگروجود نہ ہوتو دنیا دنیا نہیں اگروجود نہ ہو تو دنیا کے مفاہیم بھی ختم ہوجائیں یعنی وجود کی انفرادیت، بے مثالیت،آزادی اور کیف آوری، اس کی خود ذہنی اورخود نگینی سبھی اس دنیا کے لیے ناگزیر ہیں۔ وجودی فلاسفہ کے نزدیک آزادی وجود کے لیے ناگزیر ہے۔ وجود آزادی کے بغیر نامکمل ہے اورآزادی ہی وجود کو دنیا اور مستقبل کے ساتھ نبرد آزما ہونے کا حوصلہ دیتی ہے۔ یہ آزاد سوچ فکروشعور سے لے کرسماجی  اورمعاشرتی اقدار و زندگی کے نصب العین تک محیط ہے۔

اس سلسلے میں افتخاربیگ لکھتے ہیں:

’’ وجودیت پسندوں کے نزدیک فرد کبھی بھی اپنے حالات پر قانع نہیں ہوتا وہ ہمیشہ  بہتر سے بہتر کی تلاش میںاپنا سفرجاری رکھتا ہے۔ اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ آزادی کی اساس عمل ہے اورآزادی کا تصور وجودیت کے بنیادی تصورات میں سے ایک ہے۔ تقریباً سبھی وجودی فلاسفہ کے ہاں آزادی کا تصور موجود ہے۔‘‘(۹)

وجودیت کی دو حالتیں ہیں To live اورTo exist ۔ فرد حالات، ماحول اور اقدار کاپابند ہوکر ایک ایسی زندگی گزارتا ہے جس میں اس کے اپنے ذاتی شعور میں آگاہی، مرضی و منشا اور دروں بینی کا عمل دخل ہرگز نہیں ہوتا۔ فرد اپنے تمام تر شعور، آگہی، داخلی کیفیات، داخلی جذبات و احساسات کے ساتھ ساتھ آزادانہ طور پرزندگی بسر کرتاہے۔

وجودیت کے فلسفے کے مطابق وجود خود آگاہ اور خود بین ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے وجود کو خود نگین کہاجاسکتا ہے کیونکہ وہ آگاہی اورعرفان کامرکز اور آگاہی اورعرفان سے متحد و متصل ہوتا ہے یعنی فرد نہ صرف خود آگاہ ہوتا ہے بلکہ آگاہی کامرکز بھی اوراس لحاظ سے وہ دنیا کی اشیامیں ممتاز ہوتا ہے اور امکانات کے حصول کے لیے کوشاںبھی۔ وجودی فلاسفہ کے ہاں اس  کے لیے مصدقہ وجود(Aunthantic Existant) کی اصطلاح مروج ہے۔ ان کے نزدیک سچائی اور نیکی معروضی حقائق نہیں بلکہ موضوعی مسائل سچائی اورنیکی کامعیارفرد ہی ہے فرد کے بغیر سچائی بے معنی ہے۔ سچائی سے فرد کومسرت ملتی ہے اوروہ اس کے اندر کی پیداوار ہے۔

اس سلسلے میں وحید عشرت رقمطراز ہیں:

’’ دیماقریطس نے موضوعیت کو یہ کہہ کر انتہاتک پہنچا دیا کہ مسرت خارجی اسبا ب اور  سازوسامان سے حاصل نہیںہوتی اس کا سرچشمہ خود انسان کے بطون میں ہے۔‘‘(۱۰)

وجودیت کے فلسفے کے مطابق داخلیت کی روشنی میں فرد اپنی انفرادیت کو برقراررکھتے ہوئے امکانات کی جدوجہد کرتاہے جبکہ ہروہ شے یا فرد جو امکانات کے حصول میں رکاوٹ بنے غیر مصدقہ وجود کی حیثیت رکھتا ہے۔ وجودی فلاسفہ  داخلیت کو مرکزہ کی حیثیت دیتے ہیں۔اس سلسلے میں ڈاکٹرجمیل جالبی لکھتے ہیں:

’’وجودیت نے لوگوں کو محسوس کرایا کہ داخلی رویہ خارجی حقیقت کوبدل سکتا ہے۔‘‘(۱۱)

       وجو دی تحر یک انسا نو ں کے مذ ہب و رو ایا ت سے دور ہو نے اور مشینی ز ند گی کے منفی اثرا ت کے نتیجے میں سا منے آ ئی جس کے نتیجے میں انسا ن خا ر جیت سے دور ہو نے لگا:

’’ وجو دیت کا نکتہ خا ص اس کی دا خلیت ہے اور اس کا مقصدیہ ہے کہ انسا ن کا جہا ں ایسی اقدا ر کی مد د سے تخلیق کیا جا ئے جو جہا ں مر غ و ما ہی اور جہا ں شجر و حجر سے علیحدہ ایک حقیقت رکھتا ہو‘‘۔(۱۲)

      و جو دیت کا فلسفہ انسا نی ز ند گی کا فلسفہ ہے یہ فر د کے با طن کی کش مکش پر مبنی تحر یک ہے۔ یہ انسا نی ز ند گی کی انفرا دیت کو اہمیت دیتا ہے اور امید، حو صلے ، لگن اور اعتما د سے اپنے آ پ کو منو ا نے کی را ہ ہموا ر کر تا ہے۔ آ ج کا انسان مشینی ز ند گی سے اکتا کر منفی قو تو ں کے دام میں آ کر مقامِ بلند حا صل کر نے میں نا کام ہے یہ و جو دیت کا دوسرا اور تکلیف دہ احسا س ہے۔

      بقو ل ممتا ز احمد:

’’گز شتہ کئی صد یو ں سے یو ر پی فلسفے کا غا لب حصہ مجرد تصورات اور نظا موں ہی سے بحث کر تا ر ہا اور فرد مسلسل نظر انداز ہو تا ر ہا۔ پھر یو ں ہوا کہ انسا ن معر و ضی حقا ئق ، سا ئنسی تر قیو ں اور عقلیت پر ستی کسی سے بھی مطمئن نہ ہو سکا اور خو د کی تلا ش میں نکل کھڑا ہوا‘‘۔(۱۳)

      وجودیت کے فلسفہ کے مطابق  وجود ہرلحاظ سے یکتااور لاثانی ہے اس کا مطلب ہے کہ فرد اپنے ہونے کے حوالے سے کسی بھی دوسرے فرد سے مماثلت نہیں رکھتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فرد معروضی دنیا کی بجائے ذاتی تجربے اورجذب دروں پر یقین رکھتا ہے۔ وہ اپنے رویے اورقدریں خود تخلیق کرتا ہے۔ وہ اپنے لیے معیارات خود متعین کرتاہے۔ قرا ٓ نی نقطہء نظر سے بھی انسا ن کی شخصیت پر قسم کی پا بند ی نہیں ہے وہ آ زا د ہے اس نے اپنے اوپر ذ مہ دا ر یو ں کا بو جھ اپنی مر ضی اور ر ضا سے لا دا ہو ا ہے:

’’ بے شک ہم نے اما نت کا یہ بو جھ آ سما نو ں ، ز مین اور پہا ڑو ں کے سا منے ر کھا تو وہ اسے اٹھا نے کے لیے تیا ر نہ ہو ئے اور اس سے ڈر گئے مگر انسا ن نے اٹھا لیا بے شک وہ بڑا ظا لم اور جا ہل ہے۔‘‘(۱۴)

’’ پھر انسا ن کو اس کے ر ب نے با اختیا ر بنا دیا ۔ پس اس کی طر ف ر جو ع کیا اور ہدا یت کی۔‘‘(۱۵)

      علا مہ اقبا ل فر د کے اس و جو د کے حا می ہیںجو انسا ن کو تسخیر ِکا ئنا ت پر مجبو ر کر دے۔ وہ اس کی خو دی کو اس قد ر اعلیٰ و  ار فع بنا دے کہ اسے اپنی منز ل آ سما نو ں میں نظر آ نے لگے۔وہ اپنے خطبے”The Human Ego-His Freedom and Immortality” میں لکھتے ہیں:

                   “The ego reveals itself as a unity of what we call mental              states…another important characteristics of the unity of  the              ego is its essential privacy which reveals the uniqueness of                every ego.”(16)

      وجودیت کے فلسفے کے مطابق آزادی وجود کے لیے ناگزیرہے۔ وجود آزادی کے بغیر نامکمل ہے اور آزادی ہی وجود کو دنیا اور مستقبل کے ساتھ نبردآزما ہونے کا حوصلہ دیتی ہے۔ یہ آزادی سوچ، فکر اورشعور سے لے کر سماجی اورمعاشرتی اقدار اور زندگی کے نصب العین تک محیط ہے۔اس کے نز دیک وجود سو چ اور عزم کا مجمو عہ ہے جو فرد کو عمل کی تر غیب دیتا ہے:

’’ ایک و جو دی کے نز دیک کل کا بُزدل آ ج کا ہیر و بن سکتا ہے کیو نکہ آ دمی کی ز ند گی کی جہت ما ضی متعین نہیں کر تا بلکہ اس کا وہ عمل کر ے گا جس کا تعلق اس کی تسلیم کر دہ ذمہ دا ریو ں سے ہے‘‘۔(۱۷)

      فرد کے داخل کی دنیا جذبوں کی دنیا ہے لیکن فرد سماج اورمعاشرے سے کٹ کرزندگی بسرنہیں کرسکتا ۔ سماج میں رہ کر اسے کئی مسائل اور مزاحمتوں کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے داخل کی دنیا میں ناخوشگوار احساسات پیدا ہوتے ہیں ۔وجودی فلاسفہ نے فرد کی ان داخلی وارداتوں کو ناامید،بے چارگی،دہشت،بوریت اور گھن کانام دیا ہے۔

      فلسفہء و جو دیت داخلیت، فر دیت ، انفرا دی آ زا دی، عر فانِ ذا ت اور عرفا نِ حقیقت پر زور دیتی ہے ۔ اسلام کی  تعلیما ت بھی یہی ہیں۔ بقو ل یو سف حسین:

’’ مذ ہبی با طنیت چا ہے وہ مسیحیت کی ہو یا اسلام کی اس میں ایسی کیفیتیں پیدا ہو تی ہیں جو وجود یت کے فلسفے سے بہت کچھ مشا بہت ر کھتی ہیں‘‘۔(۱۸)

      سقرا ط کا فلسفہ “Know thyself”، کر کیگا ر ڈ کے و جو دی نظر یا ت کہ جس میں خو دپر غو ر و فکر کے بعد عرفانِ ذات حا صل کر نے پر زور دیا گیا ہے دراصل ابنِ عر بی کے فلسفے کہ جس کی بنیا د ـ”من عرف نفسہ، فقد عرف ربہ”کے قر یب    قر یب ہے اس طر ح دیگر کئی مسلم فلا سفہ کے افکا ر و نظر یا ت میں بھی وجود ی نقطہء نظر مو جو د ہے۔ ڈا کٹر شمیم حنفی کے نز د یک:

’’و جو دی فکر جسے جد ید یت کے نظام افکا ر میں کلید ی حیثیت دی جا تی ہے اس کے نقو ش ابنِ عر بی ، رو می، غا لب، اقبال اور ازمنہ و سطیٰ کی پو ری متصفا نہ تحر یک میں تلا ش کیے جا سکتے ہیں‘‘۔(۱۹)

      و جو د یت کے چند بنیا دی عقا ئد اور اصو ل یہ ہیں:-

۱۔   وجو د جو ہر پر مقد م ہے یعنی آدمی اپنے آ پ کوجو کچھ بنا تا ہے اس کے سوا وہ کچھ اور نہیں ہو تا۔ ۲۔           اگر یہ صحیح ہے کہ و جو د جو ہر پر مقد م ہے تو آ د می جو کچھ ہے وہ اس کا ذ مہ دا ر ہے آ دمی اپنی ذا ت کے لئے ہی ذمہ دا ر        نہیں بلکہ پو ر ی د نیا کے انسا نیت کے لیے ذ مہ دا ر ہے۔

۳۔    انسا ن کر ب کے عالم میں ہے اس کر ب کی نو عیت ان تما م لو گو ں کو معلو م ہے جنہو ں نے ذ مہ دا ریا ں اٹھا ئی ہیں۔

 ۴۔  و جو د جو ہر پر مقد م ہے تو انسا ن اپنے کسی عمل کی تشر یح یا تو جہیہ کسی دی ہو ئی مخصو ص انسا نی فطر ت کے حوا لے سے     نہیں کر سکتا با لفا ظ دیگر انسا ن کی سزا یہ ہے کہ وہ آ زا د ہے۔ سزا ان معنو ں میں کہ انسا ن نے اپنے آ پ کو تخلیق نہیں     کیاپھر بھی وہ آ زا د ہے اور اسی لمحے سے جب وہ اس کا ئنا ت میں پھینکا گیا ( وجو دیت انسا ن کی تخلیق کو اس طر ح          بیا ن کر تی ہے کہ انسا ن اس کا ئنا ت میں پھینکا گیاہے) وہ جو کچھ کر تا ہے اس کی ذمہ دا ری اس کے اوپر ہے وہ اپنا            قا نو ن سا ز آ پ ہے۔ وہ اقدا ر کا خا لق اور اپنی شخصی تکمیل کا اہل ہے۔

۵۔  و جو د یت کے فلسفے کے سا تھ انسا ن کی بے چا ر گی اور نا امید ی کا تصو ر بھی وا بستہ ہے۔ بیچا ر گی سے مراد یہ ہے کہ           انسا ن اپنے و جو د کے با ر ے میں خو د فیصلہ کر تا ہے یا فیصلہ کر نے پر مجبو ر ہے۔ نا امید ی سے مرا د یہ ہے کہ انسا ن کو      کسی امید کے بغیر عمل کر نا چا ہیے۔

۶۔   انسا نی فطر ت نا م کی کو ئی شے نہیں ہے جسے بنیا د بنا یا جا سکے اس لیے نہ تو انسا نی خیر پر اعتما د کی بنیا د رکھی جا سکتی ہے          اور نہ معا شر ے کی فلا ح سے انسا نی دلچسپی پر بھر و سہ کیا جا سکتا ہے اس کے نز دیک اسے اس بات کا بھی بھر و سہ نہیں    ہے کہ اس کے رفقا ء اس کے مر نے کے بعد اس کے کا م کو جا ر ی ر کھیں گے اور اسے در جہ کما ل تک پہنچا ئیںگے           کیو نکہ وہ لو گ آ زا د ہیں۔

۷۔  تو کل پر ستی ان لو گو ں کا رو یہ ہے جو یہ کہتے ہیں کہ جو میں نہیں کر سکتا اسے دو سر ے کو کر نے دو۔ و جو د یت تو کل پر ستی کی با لکل ضد ہے و جو د یت کے اعتبا ر سے آ د می کا و جو د وہیں تک ہے جہا ں تک وہ اپنے امکا نا ت کو بر ؤے کا ر لا تا           ہے۔ با الفا ظ دیگر ہر آ د می اپنے اعما ل کا جو اب دہ ہے جس نے اپنی ز ند گی کو کا میا ب نہیں بنا یا ۔یہ خیا ل ہر آ د می کو یہ      سمجھنے کے لا ئق بنا تا ہے کہ صر ف حقیقت قا بلِ اعتبار ہے، خرا ب تو قعا ت اور امید یں آ د می کی تعر یف منفی اندا ز میں   کر تی ہیں نہ کہ مثبت انداز میں۔ ان با تو ں سے مرا د یہ ہے کہ آ د می ذ مہ دا ر یو ں کو قبو ل کر نے کے سلسلہ کے سوا کچھ اور نہیں۔ غر ض یہ کہ و جو دیت تو کل پر ستی کا فلسفہ نہیںہے کیو نکہ اس میں انسا ن کی تعر یف کے عمل کے حو الے سے    ہو تی ہے و جو د یت انسا ن کا یا سیت پر ستا نہ بیا ن نہیں ہے و جو د یت انسا ن سے صر ف یہی کہتی ہے کہ انسا نی عمل       کے سوا کہیں کو ئی امید نہیں ہے ۔

۸۔  وجو د یت ان معنو ں میں ملحدانہ نہیں ہے کہ اگر خدا ہے بھی تو وہ وجو دی نقطہء نظر سے اس کے ہو نے سے بھی کو ئی فر ق پیدا نہیں ہو تا۔ اصل مسئلہ خدا کے و جو د کا نہیں۔ انسا ن کی ضرو ر ت یہ ہے کہ وہ اپنے آ پ کو در یا فت کر ے اور یہ      سمجھے کہ اس ذا ت سے کو ئی چیز بچ نہیں سکتی یہا ں تک کہ خدا کے و جو د کا کو ئی ٹھو س ثبو ت بھی نہیں۔

۹۔   انسان کے با ر ے میں یہ پہلے ہی سے متعین نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کیسا ہو گا بلکہ یہ اس با ت پر منحصر ہے کہ وہ خود کو کیا بنا نا چا ہتا ہے۔

۱۰۔ و جو دیت کے نز د یک صدا قت دا خلی ہے اور یہ عقل کی گر فت سے ماورا ہے۔ انسا ن آزاد ہے اور اسے یہ سزا مِلی ہے      کہ وہ تمام تر صو رت حا ل میں مختا ر کُل ہے۔

۱۱۔  سا ر تر انسا ن کی تکمیل کے لیے بے بسی ، ما یو سی اور نا امید ی کو ضر و ر ی خیا ل کر تا ہے کیو نکہ کسی بھی امید کے بغیر عمل    اسے طا قت ور بنا تا ہے۔

۱۲۔ ذمہ داری کا احسا س فر د کو کر ب میں مبتلا کر تا ہے جہا ں وہ امکا نا ت سے رو شنا س ہو کر فیصلہ کر نے کی صلا حیت حا صل     کر لیتا ہے۔

۱۳۔ دینی اور لا دینی دونو ں اقسام کی و جو دیت میں مر کز ی حیثیت فر د کی ذات کو حا صل ہے۔ ان کے مطا بق گر و ہ یا          جما عت میں فر د کی انفرا دی صلا حیتیں ماند پڑ جا تی ہیں اس لیے اجتما ع سے گر یز ضر وری ہے۔۱۴۔           فردِ وا حد کا ہر فیصلہ درا صل نوعِ انسا نی کا فیصلہ ہے وہ انسا نی مو ضو عیت سے ما روا جا نے پر قا در نہیں۔۱۵۔      و جو دیت صرف اور صر ف عمل پر زور دیتی ہے، امکا نا ت ، خو ا ہشا ت اور خد شا ت کی اس فلسفے میں کو ئی جگہ نہیں۔۱۶۔  و جو د یت بقو ل سا ر تر آ گے بڑ ھنے کی راہ ہموا ر کر تی ہے کیو نکہ و جود ہر لمحہ مکمل اور تکمیل پذ یر ہے، یہ سر گرمِ عمل ہے۔ صر ف حا لات بد لتے ہیں وجود نہیں۔

۱۷۔ ملحدانہ و دہر یت پسند وجود یت کے نز  دیک کو ئی ایسا خدا نہیں جو ہما ری مدد کے لیے مو جود ہو اس لیے انسان صرف        وہی بنتا ہے جس کا وہ وجود میں آ نے کے بعد تصور کر تا ہے۔ اس سلسلے میں وہ بے بس ہے۔

۱۸۔ انسا ن کو بے بس اور مجبو ر بنا نے والا سب سے بڑا خو ف مو ت کا ہے ۔ مو ت ز ند گی کی ضد ہے جو درا صل دعوتِ عمل کا    شعور ہے۔

۱۹۔  جیسپرز کے نز  دیک عقل اور و جود کا تعلق ہے۔ اس کے نز دیک عقل و و جود ز ند گی کے حقا ئق کو سمجھنے کے لیے ضر و ری ہے۔ وہ ملحدا نہ وجو دیت کے بر عکس خدا اور رو حانیت سے گہر ی وابستگی کا قا ئل ہے لیکن خدا کی ذات کو با قا عدہ ہستی    قرار دینے کی مخا لفت کر تا ہے۔

۲۰۔ ما ر سل کے و جو دی افکا ر پر نظر دوڑا ئیں تو اس کے ہا ں سا ئنس اور فلسفے میں تمیز نظر آ تی ہے۔ اس کے نز دیک سا ئنس    اگر چہ عا لم ِ معرو ضا ت کا مطا لعہ کر تی ہے مگر و جو دی تجر بے تک ر سا ئی نہیں ر کھتی ۔ ما ر سل کے و جودی نظر یے میں    مسئلہ اور بھید کو کلید ی حیثیت حا صل ہے۔

۲۱۔ کو لن و لیسن اپنے افکا ر کو جد ید و جو دیت کا نام دیتا ہے۔ اپنی تصنیف “آؤٹ سا ئیڈ ر”میں وہ نئی و جو دیت یعنی رجا ئی    نقطئہ نظر کا حا می ہے۔ اس نے و جو دیت کو رو مانیت کے سا تھ جو ڑ کر سا ر تر کے نظر یے سے اختلا ف کر تے ہو ئے         اسے کمرا ہ کن، خا م اور ر یا ست سے پُر قرا ر دیا۔ اپنی تخلیق “عہدِ شکست”میں امید کا پیغا م دے کر فرا ئیڈ اور کا ر ل          ما ر کس کے تصور ات کو با طل سمجھتا ہے۔

۲۲۔ کر کیگا ر ڈ انسا نی و جو دکو اولیت دے کر عقل و شعور سے ممتا ز سمجھتا ہے وہ اپنی کتا ب “خو ف اور لرزہ”میں بتا تا ہے کہ      انسا نی ز ند گی بحرا ن در بحرا ن کا شکا ر ر ہتی ہے۔

۲۳۔ سارتر کے نز دیک فلسفہء وجود یت کے پھیلا ؤ کی و جہ جنگو ں اور اس کے نتیجے میں پیدا ہو نے والے خیالا ت کو قرا ر         دیا۔خدا کے انکا ر کے ساتھ اس نے انسا نی شعور کی آ زا دی کے نظر یے میں وجود کو جو ہر پر مقد م جانا۔

۲۴۔ دوستو فسکی کے و جو دی نظر یا ت کے مطا بق انسان کی ز ند گی بد تر ین حا لت میں ہے۔ اپنی تخلیق “بھا ئی کر یما ز وو”       میں انسان کے نا معلوم لا شعور اور تنہا ئی کو مو ضو ع بنا کر ز ند گی کو موت تک نہ سمجھ میں آ نے والا معمہ قرا ر دیاہے۔

۲۵۔ ما ر ٹن ہیڈ یگر اپنی تصنیف “ہستی و ز مان”میں ما ضی ، حا ل اور مستقبل تینو ں ز ما نو ں میں انسان کے مختلف خو ف کا ذکر     کر تا ہے لیکن اس کے نز د یک مو جو دہ ز ما نہ اور مو جو دہ انسان ہی تا ر یخ ہے اور فطر ت اس سلسلے میں اپنا کو ئی کردا ر        نہیں ر کھتی ۔

۲۶۔ کا میو اپنی تحر یر “اسطور سسی فیس”میں دنیا کو لغو قرار دیتا ہے جس میں انسان کو اس کی مر ضی کے خلا ف پھینک دیا گیا ہے لہذا انسا نی ز ند گی حقیقتاً مقصدیت سے خا لی ہے۔

۲۷۔            نطشے کے فلسفے “فوق البشر “کے مطا بق طا قت، عقل اور تکبر سے تمام انسانوں پر بر تر ی حا صل کی جا سکتی ہے۔ وہ         اپنی کتا ب”المیہ کا جنم”میں محبت ، اخلاق، ہمد ردی، رحم اور مد د کے جذ با ت کو رد کر تے ہو ئے انسان کو اپنی قسمت کا   مختا ر کُل سمجھتا ہے۔

۲۸۔ اسلامی طر زِ فکر میں و جو دی تصورات کی جھلک ملتی ہے۔”من عر ف فنسہ، فقد عر ف ربہ”قو ل میں عر فا نِ ذات کی      منزل تک ر سا ئی کا فا ر مو لہ مو جو د ہے۔ صو فیا نہ افکا ر میں و جو دیت کا ر نگ مو جو د ہے جو و حدت الو جود کے فلسفے سے    ما خو ذ ہے۔ ابن عر بی، رو می، غا لب، اقبا ل و دیگرمشا ہیر کی تحر یر و ں میں و جو دی نظر یا ت مو جو دہیں۔

۲۹۔ ر یکے اور کا فکا نے اپنی تخلیقا ت میں وجو دیت کا نکتہ خا ص اس کی دا خلیت کو قرا ردیا اور و جو دحقیقی صر ف اس کو سمجھا جو    انسان کی با طنی یا دا خلی دنیا سے عبا ر ت ہے۔

۳۰۔ ر چڑ ڈ کر ونر اور کیر کے گو ر کے و جو دی نظر یا ت میں مذ ہب کو مر کز ی حیثیت حا صل ہے۔ انھو ں نے د اخلیت کو          صدا قت قرار دیا اور ما یو سی و بے دلی میں فرد کو خدا ئی حقیقت سے روشنا س ہو کر قوی ہو نے کی طر ف تو جہ دلا ئی۔

       و جو دیت ایک ایسا ر جا ئیت پر ستا نہ فلسفہ اور نظر یہ عمل ہے جس نے سیا ست، نفسیا ت ، مذہب، ادب یہا ں تک کہ  انسا نی معا شر ے کے ہر جزو پر اپنے گہر ے اثرا ت مر تب کیے ہیں۔اس فلسفے کے اثرا ت ادب میں ہوا کے تا ز ہ جھو نکے کی    ما نند آ ئے اور ا یکسپر یشن ازم، سمبو لزم اور ر یلزم جیسی تحر یکو ں نے اُ س سے جنم لیا۔سار تر نے و جو دی فلسفے کو تحر یک کی شکل دینے کے لیے ادب تخلیق کیا۔ اس کے نز د یک ادب اگر چہ ز ند گی کا آ ئینہ تو نہیں لیکن یہ انسان کے و جو د کو ثا بت کر نے کا و سیلہ ضرو ر ہے اور ایک ادیب کرداروں کو تخلیق نہیں کر تا بلکہ وہ اس کی مدد سے اپنے وجود کا متلا شی ہو تا ہے۔

  حوا شی

۱۔   سید احمد دہلو ی، مو لو ی: فر ہنگِ آ صفیہ ؛ دہلی؛ ۱۹۷۴ء؛جلد چہا ر م۔

  1. James Mallory: Collins Concise Encyclopedia;UK;1977;P.198

۳۔  نسیم شاہد:سارتر کے مضامین (مشمولہ وجودیت) ؛ملتان؛ کاروان ادب؛۱۹۹۱ء؛ ص ۶۲

۴۔  قاضی جاوید : وجودیت ؛ لاہور؛ فکشن ہائوس ؛۲۰۰۵ء؛  ص ۱۱

۵۔  سلیم اختر ، ڈاکٹر: مغر ب میں نفسیا تی تنقید؛ لا ہو ر ؛ سنگ ِمیل پبلی کیشنز؛۲۰۰۸ء؛ ص ۱۴۷

۶۔   ژاںپا ل سار تر: و جو د یت اور انسا ن دوستی (متر جم: ظہو ر الحق شیخ، مشمو لہ: نئی تنقید، مر تب: صد یق کلیم):

       اسلام آ باد؛ نیشنل بک فا ؤ نڈیشن: ۲۰۰۷ء؛ ص ۳۲۸

۷۔  محمد اشر ف کما ل، ڈا کٹرـ: تنقید ی تھیو ری اور اصطلا حا ت؛ فیصل آ با د ؛ مثا ل پبلی کیشنز؛ ۲۰۱۶ء؛ص۷

۸۔    عائشہ سلیم : وجودیت  : روایت  اور ارتقا؛ لاہور؛راوی ( مجلہ )؛  جی سی جامعہ؛۲۰۰۸ء ؛ ص ۱۶۱۔۱۶۲

۹۔   افتخار بیگ : مجید امجد کی شاعری اور فلسفہ وجودیت ؛ اسلام آباد؛ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، مقالہ برائے ایم

      فل اردو؛۱۹۹۵ء؛ ص ۲۸

۱۰۔ وحید عشرت ، ڈاکٹر، ژال پال سارتر(مشمولہ: وجودیت) مرتب : جاوید  اقبال؛ ساہیوال؛ ندیم وکٹری بک  بینک؛

      ص ۹۸

۱۱۔  جمیل جالبی، ڈاکٹر : تنقید و تجزیہ؛ لاہور، یونیورسل بکس ؛۱۹۸۸ء طبع دوم؛ص ۳۱۶

۱۲۔ ر یا ض احمد: ر یا ضتیںـ؛ لا ہو ر؛ سنگِ میل پبلی کیشنز؛ ۱۹۸۶ء؛ ص ۲۷۶

۱۳۔ ممتا ز احمد ، و جو دیت ۔منظر و پس منظر ، لا ہو ر ، مشمو لہ : فنو ن ، جولا ئی/اگست۱۹۶۶شما ر ہ ۳۔۴،ص۸۸

۱۴۔ سو ر ۃ الا حزاب (۳۳): ۷۲

۱۵۔ سورۃ طہٰ (۲۰):۱۲۲

  1. Muhammad Iqbal: Reconstruction of Religious Thought in Islam;

      Lahore; Iqbal Academy;2015;P.79

۱۷۔ غلام جیلا نی اصغر، وجو دیت کیا ہے؟لا ہو ر، مشمولہ :ادبی دنیا،شمارہ دواز دہم،۱۹۶۴ءص۲۵۵

۱۸۔ یو سف حسین، ڈاکٹر:فرا نسیسی ادب؛ حید ر آ باد؛ ۱۹۶۹ء؛ص۵۴۹

۱۹۔  شمیم حنفی، ڈاکٹر: نئی شعری رو ایا ت؛ نئی د ہلی؛ مکتبہ جا معہ؛ س ن؛ ص۱۸

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.