جمیلہ ہاشمی کے تاریخی ناول
فکشن نے ہر سطح پر تاریخ کو متاثر کیا ہے او رتاریخ بھی اس سے زیادہ فاصلے پر نظر نہیں آتی ۔دونوں کاتعلق واقعات کے بیان سے ہے اور ان میں پیش کیے جانے والے واقعات کاسروکار انسانی زندگی سے ہوتاہے۔لہٰذا دونوں ایک دوسرے کے قریب ہیں ‘ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دونوں میں ایک حد فاصل بھی ہے۔فکشن میں واقعات تخلیق کیے جاتے ہیں جب کہ تاریخ میں پہلے سے رونما ہوئے واقعات کابیان ہوتاہے ۔فکشن کی بنیاد تخیل او رتخلیقیت پر ہے جب کہ تاریخ کی بنیاد ٹھوس حقائق کی پیش کش پر۔یہاں یہ بات بھی مد نظررہے کہ فکشن میں ٹھوس حقائق یعنی ماضی کے واقعات کا بیان بھی ہوتاہے ۔مثال کے طور پر تاریخی ناول او رتاریخی افسانے ۔ان میں بھی ماضی میں رونما ہوئے واقعات کابیان ہوتاہے لیکن جو چیز انہیں فکشن بناتی ہے وہ تخیل او رتخلیقیت ہی ہے ‘کیوں کہ فکشن میں مصنف کی اولین کوشش دلچسپی پیدا کرنا ہوتا ہے جب کہ مئورخ کامقصد صرف ماضی کی بازیافت ہوتاہے ۔اس کے نزدیک تاثیر اوردلچسپی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ دنیا کی کوئی بھی تاریخ مکمل نہیں ہے ۔ہر تاریخ میں قومی مفادات‘ مذہبی تعصبات‘ نسلی امتیازات‘ ذاتی پسند یا نا پسند اور نظریات جیسے عناصر شامل رہتے ہیں ۔لہٰذا کسی بھی تاریخ کو سو فیصد صحیح قرار نہیں دیا جاسکتا۔بعض تاریخوں میں اپنوں کوصحیح اور غیروں کوبرابنا کر پیش کرنے کی سعی کی جاتی ہے جس وجہ سے اصل حقائق دھندلی صورتوں میں سامنے آتے ہیں او راس طرح تاریخ او رفکشن کے درمیان فرق کرپانا نہایت ہی مشکل ہوجاتا ہے۔بہت سی تاریخیں کمزور تاریخی استناد کی وجہ سے فکشن کی ذیل میں آنے کی سزاوار ہیں او راسی طرح فکشن کاکافی سرمایہ ایساہے جو تاریخ کے زمرے میں شامل کیاجاسکتاہے۔فکشن اور تاریخ ایک دوسرے میں اس طرح مدغم ہیں کہ دونوں میں فرق کرنا دشوار ہوجاتاہے۔
اگر ناول او رافسانے کے علاوہ داستان اورڈرامے کی بات کریں تو یہ بھی تاریخ میں شامل نظر آتے ہیں ۔ان میں بھی انسانی زندگی کے واقعات کابیان ملتا ہے۔ داستانوں میں اگرچہ مافوق الفطری عناصر کی بھر مار ملتی ہے لیکن اس کے باوجود بہت سی داستانیں تاریخ سے منسوب کی جاتی رہی ہیں ۔ابتداء میں داستان اورتاریخ کوایک سمجھا جاتا تھا۔تاریخ کے بانی ہیرو ڈوٹس کو بھی داستان گو قرار دیا گیا ہے کیوں کہ ان کی تاریخیں داستانوں سے قریب نظر آتی ہیں ۔لیکن جب بعد میں تاریخ اور داستان کے پیمانے مقرر کیے گئے تو دونوں میں فرق کیا جانے لگا۔ لیکن اس کے باوجود آج بھی بعض داستانیں تاریخ سے منسوب کی جاتی ہیں ۔کسی بھی مذہب کی کتابوں میں ایسے واقعات کی کمی نہیں ہے جو داستانی واقعات سے ملتے جلتے ہیں ۔کچھ داستانیں مذہبی واقعات کی بنیاد پر ہی لکھی گئی ہیں اور بعض داستانیں ایسی ہیں جن کے بارے میں آج تک یہ ثابت نہیں ہوسکا ہے کہ یہ داستانیں ہیں کہ حقائق۔لہٰذا داستانوں کوبھی ناول‘ افسانہ او رڈراما کی طرح حقیقت سے الگ نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ ان کاہماری زندگی کے ساتھ بہت گہرا رشتہ ہے۔ ادب کے سبھی اصناف میں تاریخ اورتاریخی عناصر کو دیکھا جاسکتا ہے ۔کوئی بھی فن پارہ اس سے الگ نہیں ہوسکتا۔کسی میں یہ عیاں او رکسی میں مبہم ہوتی ہے۔لیکن اس کے بغیر ادب کاتصور ممکن نہیں ۔ادب کی تخلیق انسان کرتاہے لہٰذا انسانی زندگی کااس میں در آنا فطری ہے ۔ادب میں خصوصاً فکشن ،او رفکشن میں ناول انسانی زندگی کے زیادہ قریب نظر آتاہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری زندگی جن حالات او رمرحلوں سے گزرتی ہے ناول میں ویسے ہی حالات و واقعات کو پیش کیا جاتا ہے۔ اس میں ہماری زندگی کے بیشتر حالات سمائے جاتے ہیں ۔ناول میں نہ صرف عصری حالات کو خوب صورتی کے ساتھ پیش کیاجاتاہے بلکہ اس میں ماضی میں رونما ہوئے واقعات کو تاریخی تناظرات کے ساتھ بھی پیش کیا جاتاہے۔میرا اشارہ تاریخی ناول کی طرف ہے ۔تاریخی ناول میں وہ واقعات جنہیں ہم تاریخ کہتے ہیں ناول کے فنی لوازمات کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں ۔ اس میں تاریخ بھی ہوتی ہے اور فکشن کے لوازم بھی۔ لہٰذا یہاں تاریخ اورفکشن ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔
ادب کی باقی اصناف کی نسبت تاریخی ناول تاریخ سے زیادہ متاثر ہوتاہے۔یہ تاریخ کے بطن سے ہی جنم لیتاہے۔اس میں تاریخ‘ تخیل اور تخلیقیت ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور یہ مل کر ایک ایسے فن پارے کووجود بخشتے ہیں جو تاریخ نہ ہوتے ہوئے بھی تاریخ سے بہتر ہوتاہے۔جہاں تاریخ کے اوراق دھندلے نظر آتے ہیں وہاں یہ اپنی روشنی سے انہیں منور کرتاہے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کبھی کبھار یہ تاریخ کو ایسے پیش کرتاہے کہ تاریخ اورفکشن میں فرق کرنا دشوار ہوجاتا ہے ۔ ایسی صور ت میں یہ تاریخ کو مجروح یا مسنح کردیتاہے ۔
جہاں تک جمیلہ ہاشمی کے تاریخی ناولوں کا تعلق ہے تو ان کے یہاں فکشن اور تاریخ کا حسین سنگم نظر آتا ہے۔ حالاں کہ انہوں نے صرف دو تاریخی ناول لکھے لیکن اپنی ذہانت ، لگن اور فنی بصیرت سے ان میں ایسا مظاہرہ کیا ہے کہ جب جب تاریخی ناول کی تاریخ مرتب کی جائے گی جمیلہ ہاشمی کا نام بلند پایہ تاریخی ناول نگاروں میں لیا جائے گا۔
جمیلہ ہاشمی اردوادب کی ایک مایہ ناز فکشن نگار ہیں ۔ انہوں نے افسانہ نویسی اور ناول نگاری میں خاصی مقبولیت حاصل کی ۔ ناول نگاری میں انہوں نے انفرادیت کے وہ نقوش چھوڑے ہیں کہ جنہیں اردو کے ادبی حلقے کبھی فراموش نہیں کرسکتے ۔ناول کے وسیع کینوس سے فائدہ اٹھاکر انہوں نے معاشرے کے مختلف پہلوؤں کو خوب صورتی کے ساتھ اجاگر کیاہے جن میں عورت پرمرد کی بالادستی ایک اہم پہلو کی صورت میں سامنے آتاہے۔جمیلہ ہاشمی کے کئی ناول منظر عام پر آچکے ہیں ۔ان کے معاشرتی ناولوں میں ’’تلاش بہاراں ‘‘،’’جوگ کی رات‘‘،’’آتش رفتہ‘‘ اور ’’روہی‘‘شامل ہیں ۔ ’’ تلاش بہاراں ‘‘ ان کاسب سے بہترین ناول ہے۔اس پر انہیں آدم جی ایوارڈ سے بھی نوازاگیا ہے ۔یہ پہلی مرتبہ جون۱۹۶۱ء میں اردو اکیڈیمی سندھ ‘کراچی سے شائع ہوا۔ معاشرتی ناولوں کے ساتھ ساتھ جمیلہ ہاشمی نے’’ چہر ہ بہ چہر ہ رو برو‘‘ اور ’’دشت سوس‘‘ کے عنوان سے دوکامیاب تاریخی ناول بھی لکھے ہیں ۔ ناول’’ چہرہ بہ چہرہ روبرو‘‘ ۱۹۷۷ء میں شائع ہوا۔یہ ایران کی تاریخی شخصیت اور بابی تحریک کی ایک رکن رکین فاطمہ زریں تاج لقبقرۃ العین طاہرہ کی زندگی پر مشتمل ہے ۔ اس میں ایران کے متوسط طبقے کی طرزِ زندگی کو بھی پیش کیاگیا ہے ۔ناول کامرکزی کردار ام سلمیٰ یعنی قرۃ العین طاہرہ ہے۔
بابیہ ایران کا ایک اہم مذہب ہے جس کا داعی علی محمد باب تھا۔وہ ۱۸۲۰ء میں پیدا ہو ا ۔۲۴ سال کی عمر میں اس نے باب ہونے کا دعویٰ کیا۔اس نے خود کو ایک ایسا دروازہ قرار دیا جس سے گزرکر لوگ بارہویں امام کا علم حاصل کریں گے۔اس نے مذہب میں نئی نئی تبدیلیاں کرکے مذہب اسلام کو ایک نیا رخ دینے کی کوشش کی۔جس پر ان کی سخت مخالفت ہوئی یہاں تک کہ شیراز سے جہاں وہ اپنے مذہب کو پھیلا رہا تھا جان بچاکر بھاگنا پڑا۔لیکن آخر کار علماء کے فتوے سے تبریز میں اسے ۱۸۵۰ء میں مروادیا گیا۔مرزا علی محمد کے پیدا کردہ مذہب کو بہائیت کا نام بھی دیا گیا ہے۔وہ اپنے ابتدائی پیروکاروں کو حروف’’ حی‘‘ کے نام سے منسوب کرتے تھے؎۲۔قرۃالعین طاہرہ اس مذہب کی ایک سرگرم رکن اور حروف ــ’’حی‘‘ تھی۔ ام سلمیٰ قزوین کی رہنے والی تھی۔وہ شیعہ مجتہدملا صالح قزوینی کے گھر پیدا ہوئی۔ابتدائی تعلیم کے بعد اپنے چچا محمد تقی اور چھوٹے چچا کے استادملا علی رشتی سے فیض پایا۔وہ اعلیٰ پائے کی شاعرہ اور بہترین مقرر بھی تھی۔ملاکاظم رشتی نے اسے’’ قرۃالعین‘‘کا خطاب دیا۔مرزا علی محمد نے اسے طاہرہ کا لقب دیا۔نو عمری میں ملا علی محمد کے بیٹے ملا محمد سے رشتہ ازدواج میں منسلک کردیا گیا جس سے تین بچے پیدا ہوئے۔رشتہ ازدواج کی جکڑ بندیوں سے آزاد رہ کر وہ آزادئی نسواں کی خاطر اور مصروف ہوگئی۔عورتوں کو معاشرے کی کمزور مخلوق سمجھ کر ان کی حمایت میں جدوجہد شروع کر دی۔قرۃالعین طاہرہ پر یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے اپنے چچا اور خسر ملا محمد تقی کو راستے کی دیوار بنتے دیکھا تو ایک بابی کی مدد سے اسے قتل کروادیا اور خود قزوین سے تہران چلی گئی۔اس کے بعد وہ بابیہ مذہب کی ترویج و ترقی میں منہمک ہوگئی۔ ۱۸۵۲ء میں ایک بابی نے ناصرالدین شاہ پر قاتلانہ حملہ کیا لیکن وہ بچ گیا۔نتیجے میں ناصرالدین شاہ قاچار نے بابیوں کے قتل عام کا حکم دیا۔اس رستاخیز میں قرۃالعین بھی گرفتار ہوئی اور دربار میں پیش کی گئی جہاں بادشاہ اس کے حسن سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔تاہم اسے نظر بند کر دیا گیا جہاں جیل کے داروغہ نے ۱۸۵۲ء میں اسے گلا گھونٹ کر مار ڈالا اور لاش کو ایک گڑھے میں پھینک کر مٹی اور پتھروں سے بھر دیا۔ جمیلہ ہاشمی نے ناول میں اس تاریخی شخصیت کو ذرا سا ہٹ کر اور ایک نئے تناظرمیں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔امِ سلمیٰ ایران کے اس پابند معاشرے میں رہتی ہیں جہاں عورت کی زندگی کو خانگی امور تک ہی محدود رکھا جاتا ہے او رجہاں عورت کاگھر سے باہر نکلنا اور تعلیم حاصل کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے ۔ لیکن ام سلمیٰ جسے بعد میں قرۃ العین طاہرہ کے خطاب سے نوازا جاتاہے آزاد طبیعت کی مالک ہے۔وہ تمام روائتی دائروں کو توڑ کر اپنی زندگی کی اڑان بھرتی ہے۔نہ صرف کتابوں کامطالعہ کرتی ہے بلکہ ایسی حقیقتوں سے بھی آشنا ہوتی ہے کہ جنہیں جاننا عورتوں کے لیے معیوب سمجھا جاتا تھا۔ یہ ایسا معاشرہ تھا جہاں شاعری کوحقارت کی نظر سے دیکھا جاتاتھا لیکن قرۃ العین طاہرہ نہ صرف شعر کہتی ہے بلکہ انہیں سرود پر گاتی بھی ہے۔ان کے اشعار رومانی ہیں ۔ امِ سلمیٰ ان تمام زنجیروں کو توڑتی ہے جوانہیں جکڑ کے رکھنا چاہتی ہیں ۔ان کی شاعری کی شہرت دور دور تک پھیلتی ہے لیکن یہ وہ دور تھا جب عورت کے لیے ایسے کام کی گنجائش موجود نہیں تھی۔ لہٰذا ان کے مخالفین کی تعداد بڑھتی گئی او رانہیں طرح طرح کے مصائب جھیلنے پڑے۔ قرۃ العین طاہرہ کی آزاد روی نے ان کی زندگی کو دشوار بنادیا لیکن وہ مشکلات کا سامنا کرکے آگے بڑھتی رہی۔یہاں تک کہ رشتہ ازدواج او راولاد بھی ان کے قدموں کو روک نہ سکے۔ آخر کاروہ اپنے تمام سابقہ رشتے منقطع کرکے گھر سے فرار ہوجاتی ہے۔ملا محمد سے رشتۂ ازدو اج منقطع ہونے کے بعد جب وہ محمد علی بارفروش سے باقاعدہ سلسلۂ مناکحت قائم کرلیتی ہے تو انہیں مضبوط سہارا مل جاتا ہے ۔ لیکن ادھر عورتوں کاشیدائی ناصر الدین ان کو ملکہ بنانے کاپیغام بھیجتا ہے جسے وہ مسترد کردیتی ہے۔ اس انکار سے بادشاہ کی انا کو ٹھیس پہنچتی ہے او روہ قرۃ العین کو گلا گھونٹ کر موت کے گھاٹ اتار دینے کا حکم دیتاہے ۔قرۃ العین کو مارکر کنویں میں پھینک دیا جاتا ہے۔
’’ناصر الدین قاچار اس رات اکیلا اپنے محل کی چھت پر ٹہلتا رہا۔وہ اس عورت کی شان قلندری،اس کے استغنا اور موت کی خواہش سے نہایت مرعوب ہوا تھا ،مگر وہ اس از خود رفتگی کو دیوانگی کے سوا اور کوئی نام نہیں دے سکتا تھا۔۔۔۔ناصرالدین خوش قسمتی سے بچ گیا تھا۔موت اسے چھو کر گزرگئی تھی،اور باخبر بابیوں کے مقدر پراس واقعے کے بعد بطور ایک فرقے کے مہر لگ گئی۔خود وہ اپنے انجام سے باخبر تھی۔ ناصرالدین کی نگاہ بھی اب اسے بچا نہ سکتی تھی۔‘‘؎۳ ناول’’چہر بہ چہرہ روبرو‘‘ میں قرۃ العین طاہرہ کی تاریخی شخصیت کوموضوع بنا کر کئی حقائق سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اس میں تفاوت کی خلیج وسیع المنی ہے ۔ناول میں انسانوں ‘مذہبوں ‘ جنسوں اورملکوں کی منافرت ابھر کر سامنے آتی ہے۔ جمیلہ ہاشمی کے علاوہ کلاراایج اور مارتھا روٹ نے بھی قرۃالعین طاہرہ کے کردار کو موضوع بنایا ہے۔لیکن صرف امریکی بہائی خاتون مارتھاروٹ ہی موضوع کے ساتھ کسی قدر انصاف کرپائی ہے۔ان کی تصنیف’’طاہرہ۔قرۃالعین‘‘سے ہی استفادہ کرکے جمیلہ ہاشمی نے ناول’’ چہرہ بہ چہرہ روبرو‘‘ کی تخلیق کی ہے۔ڈاکٹر جمیل جالبی اس حوالے سے لکھتے ہیں :
’’جمیلہ ہاشمی نے اپنے اس ناول میں ایک ایسی متنازعہ لیکن عظیم ہستی کو موضوع بنایا ہے، جس کا نام آج تک خود ایک افسانہ ہے۔ام سلمیٰ، جسے ہم قرۃالعین طاہرہ کے نام سے جانتے ہیں ،ایک ایسی بے قرار روح کی مالک تھی جس کے پاس دل بھی بڑا تھا اور دماغ بھی۔جو حق کی تلاش میں ساری عمر سرگرداں رہی اور حق کی تلاش ہی میں جان دے دی۔‘‘ ؎۴
قرۃالعین طاہرہ ایک عظیم شخصیت کی مالک تھی جو اصلاح نسواں کے لئے اپنی پوری زندگی وقف کرنا چاہتی تھی لیکن وہ بابیوں کے فریب میں آگئی اور اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ جمیلہ ہاشمی نے اپنے ناول میں یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ اگر قرۃالعین اپنے مقصد کے حصول کے لئے کسی سیاسی یا مذہبی گروہ کا سہارا نہیں لیتی بلکہ آزاد ہوکر عورتوں کے حقوق کے لئے رائے عامہ ہموار کرتی تو شاید اسے کامیابی نصیب ہوتی۔لیکن ان گروہوں سے وابستگی نے ان کے سپنوں کو پورا نہیں ہونے دیا۔جمیلہ ہاشمی اپنے اس ناول کے بارے میں لکھتی ہے:
’’بات یہ ہے کہ تاریخ نے مجھے ہمیشہ مسحور کیا ہے اور میں نے تاریخ کا مطالعہ عہد حاضر کی تاریخ کے تناظر میں کیا ہے۔کیا آپ کے خیال میں قرۃالعین طاہرہ جیسی عورتیں آج پیدا نہیں ہوتیں ؟یہ جو آزادی نسواں کی تحریکیں یا اپنے ماحول سے نبرد آزما ہونے کی کوششیں ہیں ،قرۃالعین طاہرہ اسی کی پیش رو ہے۔اسی طرح وہ لوگ جو اپنے کسی خواب کے لئے،کسی اعلیٰ مقصد کے لئے دار پر چڑھ گئے،میں نے انہیں لوگوں کو،اپنے ناول کا موضوع بنایا ہے۔۔۔۔میں نے ہمیشہ تاریخ سے ایسے کرداروں کا انتخاب کیا ہے جس کی آفاقیت نے مجھے متاثر کیا ہے۔‘‘ ؎۵
’’دشتِ سوس‘‘ ۱۹۸۳ء کو رائٹر زبک کلب لاہور کی جانب سے منظر عام پرآیا۔ یہ جمیلہ ہاشمی کاایک اہم تاریخی ناول ہے جو عظیم تاریخی او رمتنازعہ فیہ کردار حسین بن منصور حلاج کی زندگی سے متعلق ہے ۔اس میں منصور کے متنازعہ افکار اور ان سے پیدا ہونے والی صورت حال کااحاطہ کیاگیاہے۔اس کے علاوہ ناول میں دسویں صدی کے عباسی دور کے سیاسی‘ سماجی او رمعاشی حالات کی بھی بہترین عکاسی کی گئی ہے۔ڈاکٹر سید جاوید اختر ناول’’دشت سوس‘‘ کے بارے میں رقم طراز ہیں :
’’ ’’دشت سوس‘‘ایک کرداری ناول ہے جس کی کہانی آتش پرست محمی کے پوتے او رنو مسلم منصورکے بیٹے حسین کے گرد گھومتی ہے ۔’’چہرہ بہ چہرہ روبرو‘‘ کی طرح یہ ناول بھی تاریخ کے پسِ منظر ہی میں لکھاگیاہے۔حسین ابن منصور کے مخصوص فکری تناظر کی روشنی میں تحریر کردہ یہ ایک خوبصورت ناول ہے جس میں مصنفہ نے ثابت کیاہے کہ اگرچہ عشق مزرع گلاب بھی ہے اور مزرع زندگی بھی__لیکن کبھی کبھی یہ اپنی جان سے گذر جانے کانام بھی بن جاتا ہے‘‘ ؎۶
حسین بن منصور حلاج ۲۴۴ھ میں ایران کے شہر طوس میں پیدا ہوئے۔سولہ برس کی عمر میں انہوں نے قرآن شریف حفظ کیا او رسہیل بن عبداللہ تستری کے مرید ہوگئے ۔وہ صوم وصلوۃ کے پابند اور سیر وسیاحت کے دلدادہ تھے۔ بیس سال کی عمر میں حسن بصری کے مدرسہ میں پہنچے۔ بصرہ میں جب حکومت وقت نے انہیں پریشان کیاتو وہ بغداد چلے گئے جہاں وہ ایک صوفی کے طورپر ابھرے ۔یہاں انہوں نے شادی بھی کی اور ان کے چار بچے بھی ہوئے۔ بغداد میں بھی جب ان کے مریدوں کی تعداد بڑھنے لگی تو وہ حکومت کی نظروں میں کھٹکنے لگے اور انہیں طرح طرح سے تنگ کیاجانے لگا۔ ان پر رعایا کوحکومت کے خلاف بھڑکانے کے الزامات لگائے گئے۔ یہاں سے نکل کر وہ حج پرروانہ ہوئے اور تین سال تک وہاں رہنے کے بعد خراسا ن چلے گئے۔اس کے بعد مشرقی ایران میں پانچ سال گزارنے کے بعد واپس تستر لوٹ آئے۔پھر ہندوستان کادورہ کیا اوریہاں ہندو فلسفہ کامطالعہ کیا۔ ترکستان میں بدھ مذہب کامطالعہ کیا۔تیسرا حج کرنے کے بعد واپس بغداد چلے گئے جہاں انہوں نے خانۂ کعبہ کاایک ماڈل تیار کیا ۔وہ عبادت اورتبلیغ میں دن رات مشغول رہتے تھے۔ حسین ذہنی اعتبار سے ایک نئی روایت کے علمبردار تھے ۔ان کی شاعری باغیانہ او ران کے خیالات اس عہد کی فکری رویوں کے بالکل برعکس تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ بعض لوگوں نے انہیں دیوانہ قرار دیا ۔وہ انسان کومرکزی حیثیت دیتے تھے۔ان کے مطابق انسان کی ذات کے اندر ہی خدا کاوجود ہے ۔ وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ فرد میں خودی اورعزت نفس کااحساس اس قدر اجاگر ہونا چاہیے کہ و ہ اپنی انفرادیت کو منواسکے۔ اس بات پران کی مخالفت ہوئی اورانہیں طرح طرح کے مصائب کاسامنا کرنا پڑا۔اس وقت عرب میں بغاوتیں ہورہی تھیں او رلوگ عباسی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہورہے تھے۔حسین بن منصور کے کارناموں اور ان کے پیرو کاروں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے حکومت خوفزدہ تھی۔ چنانچہ حاکم وقت حامد بن عباس نے ۲۹۷ھ کو ابن داؤداصفہانی سے حسین بن منصور حلاج کے قتل کافتویٰ لے کر ان کو گرفتار کروایا۔ ایک سال کے بعد وہ فرار ہوگئے او رعلاقہ خوزستان (سوس) چلے گئے ۔۳۰۱ھ میں انہیں پھر گرفتار کیاگیا۔ کئی سال تک جیل میں رہنے کے بعد جب رہا ہوئے تو حامد بن عباس کے اسرار پر پھر گرفتار ہوئے۔ ایک سال تک ان پرمقدمہ چلنے کے بعد۳۰۹ھ میں انہیں بے دردی سے قتل کیاگیا او ر لاش جلا کر راکھ کو دریا میں بہا دیاگیا:
’’حامد نے چیخ کر کہا ۔’’جاؤ او راس کے جسد خاکی کو جلادو۔ خاک اڑادو ۔اس کی انا کو میں نے قتل کردیا ہے۔اب وہ کیسے حق کو پکارے گی‘‘وہ پھر رقص کرنے لگا۔ عمار نے سوچا ‘ حامد بن عباس وزیر مملکت دیوانہ ہوگیا ہے۔پھر وہ بھاگا او راس نے خلقت کے ہجوم کو چیر کر راستہ بنایا۔پل کے ایک حصہ کو توڑ کر جمع کیا او راس کے کٹے ہوئے سر بریدہ لاشے کو ان مثلہ کیے ہوئے بازوؤں او رپاؤں کو اس ڈھیر پر رکھ کر آگ لگادی۔ ہجوم برابر نعرے لگارہا تھا او رواویلا کررہا تھا او رہوامیں شعلے او رچنگاریاں او ر ذرے’’ اناالحق‘‘ پکار رہے تھے۔ اتنی بہت سی آنکھیں اس پر نگراں تھیں او رمحمی کاپوتا حسین خود آتش کدہ بن گیا تھا تاکہ اس آگ کو فروزاں رکھ سکے جو اسے خون کی امانتوں کے طور پر ملی تھی۔وہ ایک شعلے میں تبدیل ہورہا تھا کہ خود شعلہ تھا۔انا الحق کہہ رہا تھا کہ وہ حق تھا۔ انا الحق۔اناالحق۔اناا لحق‘‘ ؎۷
اسلامی تاریخ میں حسین بن منصور حلاج کی شخصیت متنازعہ فیہ رہی ہے ۔ لیکن جمیلہ ہاشمی نے انہیں ایک نئے تناظر میں موضوع بنا کر ایک اہم کارنامہ انجام دیا ہے۔ تاریخی اعتبار سے ناول میں کچھ خامیاں ہیں جن کی طرف ڈاکٹر حسن اختر اور اسلم سراج الدین نے بھی اپنے مضامین میں توجہ دلائی ہے۔مثال کے طور پر ناول میں دکھایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ جب اللہ سے ہم کلام ہوئے او ران سے دیدار کی خواہش ظاہر کی تو رب نے منع کیا۔لیکن جب موسیٰ بضد رہے تو آخر اللہ تعالیٰ نے کہا پھر اس درخت کی طرف دیکھو او ردرخت طور میں سے آواز آئی کہ میں خدا ہوں :
’’حضرت موسیٰؑ نے جب خدا سے مکالمہ بہت کیا تو انہیں دوست کو دیکھنے کی خواہش ہوئی۔ انہوں نے کہا’’رب ارنی‘‘ اے میرے رب میں تجھے دیکھنا چاہتا ہوں او رخدا نے کہا تم میرا جلوہ نہیں دیکھ سکو گے ۔ موسیٰؑ پھر بھی بضد رہے ۔آخر اللہ تعالیٰ نے کہا پھر اس درخت کی طرف دیکھ سکوگے۔ موسیٰؑ پھر بھی بضد رہے ۔آخر اللہ تعالیٰ نے کہا پھر اس درخت کی طرف دیکھو اور درخت طور میں سے آواز آئی ’میں خدا ہوں ‘‘ ؎۸
لیکن قرآن شریف کے ’’سورۃ الاعراف‘‘آیت نمبر۱۴۳ میں یہ واقعہ اس کے برعکس بیان ہوا ہے۔اصل واقعہ یہ ہے کہ جب موسیٰؑ نے خدا سے دیدا ر کی خواہش ظاہر کی تو رب نے کہا تو مجھے ہرگز نہ دیکھ سکے گا۔ پھر موسیٰؑ کو پہاڑ کی طرف دیکھنے کو کہا او رجب اللہ تعالیٰ نمودار ہوئے تو موسیٰؑ بے ہوش گر پڑا۔درخت والا واقعہ بھی قرآن شریف کے ’’ سورۃ القصص‘‘ آیت نمبر۲۹۔۳۰ میں بیان ہوا ہے لیکن وہ واقعہ حضرت موسیٰؑ کو پیغمبری عطا کرنے سے متعلق ہے ۔ جمیلہ ہاشمی پر یہ اعتراض بھی کیاگیا ہے کہ انہوں نے حسین بن منصور کے دعویٰ انا الحق کاغلط مفہوم لیا ہے۔ ڈاکٹر حسن اختر کے مطابق حسین کے دعویٰ’ انا الحق‘ سے مراد یہ نہیں تھا کہ وہ خدا ہیں جب کہ مصنفہ نے ناول میں ’اناالحق ‘سے مراد بندے اور خدا کا اتصال لیا ہے ۔ اس کے علاوہ جمیلہ ہاشمی نے حامد بن عباس اور ابنِ منصور کے درمیان تضاد کی وجہ اغول کو بتا یا ہے ۔کیوں کہ اغول حامد بن عباس کی بیوی تھی او ر حسین اس سے محبت کرتا تھا۔ ناول میں دکھایا گیاہے کہ حامد جب اپنی بیوی اغول کے دل میں اپنی مضبوط جگہ بنانے میں ناکام ہوتاہے تو وہ اپنی شکست کو چھپانے کے لیے حسین کا قتل کرواتا ہے۔لیکن تاریخ میں اس کا ذکر نہیں ملتا۔ تاریخ کے مطابق حسین بن منصور اورحامد بن عباس کی دشمنی سیاسی او رمذہبی بنیادوں پر تھی۔ ناول میں حسین بن منصور کو ایک مظلوم کے طور پر پیش کیاگیا ہے ۔ عشق کاعنصر تخلیق کرکے حسین کے سادہ اورسپاٹ کردار میں دلکشی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔حسین بن منصور سیاسی دشمنی کی بھینٹ چڑھا لیکن جمیلہ ہاشمی نے ان کے قتل کے دیگر محرکات کو تلاش کرنے کی سعی کی ہے۔انہوں نے اغول کو حسین او رحامد کے درمیان رقابت کی وجہ قرار دیا ہے او ریہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ ایک حاکم کس طرح شخصی دشمنی کو سیاسی دشمنی کارنگ دے کر ایک بے گناہ کو قتل کرواتاہے۔ لیکن اس عشقیہ داستان سے ناول پر افسانویت غالب آگئی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ’’دشت سوس‘‘ تاریخ کے پسِ منظر میں لکھاگیا ہے لیکن اس میں کہیں کہیں تاریخ مجروح ہوگئی ہے ۔کامیاب تاریخی ناول نگار تاریخ اور فکشن کے لوازمات میں توازن برقرار رکھتاہے۔وہ حتی الامکان یہ کوشش کرتاہے کہ کہیں تاریخ مسخ نہ ہونے پائے ۔لیکن جہاں تک اس ناول کاتعلق ہے اس میں مصنفہ نے ایک ایسی عشقیہ داستان پیش کی ہے جو حقیقت سے بعید نظر آتی ہے۔ حالاں کہ تاریخی ناول میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے کچھ کردار اورواقعات تخلیق کیے جاسکتے ہیں لیکن ایسا کرتے ہوئے اس بات کو مدنظر رکھنا لازمی ہے کہ ان کااستعمال تاریخی صداقتوں پر اثر انداز نہ ہونے پائے۔تاریخ میں اگر چہ اغول نام کی کسی عورت کاذکر نہیں ملتا ہے تاہم جمیلہ ہاشمی نے اس کردار کو تخلیق کرکے ان محرکات تک پہنچنے کی سعی کی ہے جو حسین ابن منصور کے قتل کا سبب بنیں ۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ تاریخی ناول خالص تاریخ نہیں ہوتا بلکہ اس میں قدم قدم پر ناول کے تقاضوں کا بھی خیال رکھنا پڑتاہے۔ مصنفہ نے بھی انہی لوازمات کو مدنظر رکھ کر تاریخ کو ناول کے پیرائے میں اس انداز سے برتنے کی کوشش کی ہے کہ ایک تو قارئین اس میں دلچسپی لیں او ردوسرا تاریخ کے اس اہم کردار کے تئیں ان کے دل میں ہمدردی پیدا ہو۔جمیلہ ہاشمی ناول پر اپنے خیالات کااظہار یوں کرتی ہیں :
’’ حسین بن منصور حلاج کے متعلق میرے ذہن میں کئی سوالات ابھرے۔ مثلاً وہ کون سے عوامل تھے جس نے اسے دار تک پہنچایا او روہ کیا چیز تھی جس کے پیش نظر وہ ہنستا کھیلتا اس منزل تک پہنچ گیا۔ان سوالوں کاجواب تلاش کرنے کے لیے مجھے اس دور تک کا سفر کرنا پڑا۔میں نے حسین بن منصور حلاج کے فلسفے کامطالعہ کیا او رپھر اس تصادم او ر ٹکراؤ پر غور کیا جس کے نتیجے میں منصور کی موت واقع ہوئی او ریوں میرے ناول کاخاکہ تیار ہوا‘‘؎۹
ناول میں دسویں صدی کے عباسی خلافت کے دور کو خوب صورت زبان وبیان کے ساتھ پیش کیاگیاہے ۔اس میں اس عہد کی نمایاں شخصیتیں آنکھوں کے سامنے چلتی پھرتی نظر آتی ہیں ۔اس کے علاوہ جگہ جگہ پر قدرتی او رثقافتی مناظر کی بھر پور عکاسی کی گئی ہے ۔ ڈاکٹر خالد اشرف ناول’’دشت سوس‘‘ پر اپنے خیالات کااظہار یوں کرتے ہیں :
’’یہ اس شخص کاانجام ہے جس کی ’’کتاب الطواسین‘‘ کے لفظ لفظ سے رسولِ خداؐ سے والہانہ محبت او رعشقِ خداوندی جھلکتا نظر آتاہے۔موت کے بعدبھی منصور حلاج او راس کی تعلیمات کی مقبولیت کایہ عالم تھا کہ شاعر معریٰ کے مطابق لوگ دجلہ کے کنارے اس انتظار میں کھڑے رہتے تھے کہ ابھی دجلہ کی لہریں منصور کے جسم کی راکھ کو واپس ان کے سپرد کردیں گی۔جمیلہ ہاشمی نے اس ناول میں کہیں کہیں تاریخی حقائق سے چشم پوشی کی ہے تا ہم ان کا یہ آخری ناول اردو کے اہم تاریخی ناولوں میں شمار کیے جانے کے لائق ہے ۔دسویں صدی کے عباسی خلافت کے دور کو انہوں نے خوبصورت زبان و بیان کے سہارے دو بارہ زندہ کردکھایاہے‘‘ ؎۱۰
’’دشت سوس‘‘جمیلہ ہاشمی کاایک حزنیہ ناول ہے جس میں تاریخی شخصیت حسین بن منصور حلاج پر ہوئے مظالم کی دل سوز تصویریں دکھائی گئی ہیں ۔ اس میں جہاں زندگی کے دیگر پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے وہیں مصنفہ کا مظلوم کے ساتھ ہمدردی کاجذبہ بھی نمایاں ہوا ہے۔ناول میں مظلوم کی لاچاریوں ‘ سیاست میں عوام الناس کی کسمپرسیوں او ر میدان عشق میں جذبۂ رقابت کی نذر ہونے والوں کی بے بسیوں پر ہمدردانہ نگاہ ڈالی گئی ہے ۔اس میں حالات گو اصل حقائق سے بڑی حد تک مطابقت رکھتے ہیں تاہم جمیلہ ہاشمی کااساسی نظریہ ہر جگہ غالب ہے۔ جمیلہ ہاشمی ایک اور ضخیم تاریخی ناول اسپین کے تاریخی پس منظر میں لکھنے کاارادہ رکھتی تھیں ۔ اس کے لیے انہوں نے اسپین کاسفر بھی کیا تھا۔ لیکن موت نے ان کی اس خواہش کو پورا نہ ہونے دیا۔ جمیلہ ہاشمی نے تاریخی ناولوں میں عہد‘ حالات وکوائف او رجزئیات کاانتخاب اپنے مخصوص مقاصد کے پیش نظرکیاہے۔یہاں بھی انہوں نے قدیم سماج میں عورت کو در پیش مسائل کو کامیابی سے اجاگر کیاہے۔ماضی سے ان کی گہری وابستگی ہے ۔وہ حال کوبھی ماضی کے آئینے میں دیکھتی ہیں ۔تاریخی پس منظر میں انہوں نے اپنے تجربات اورمشاہدات کو پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ڈاکٹر جمیل جالبی اس حوالے سے لکھتے ہیں :
’’ماضی جمیلہ ہاشمی کارویہ ہے‘سوچنے کاانداز ہے جس نے ان کے فن میں نرمی او ر رچاوٹ پیدا کی ہے او رلہجہ میں ہلکی ہلکی سی‘ دبی دبی سی آنچ کے احساس کو جنم دیاہے۔وہ حال کو بھی ماضی کے حوالے سے دیکھتی ہیں ۔حقیقت جب تک یادنہ بن جائے اور پھر وہ یاد ایک بار پھر حقیقت نہ بن جائے ‘ ان کے اندر لکھنے کی خواہش نہیں جاگتی۔اس لیے وہ اخباری افسانہ نگار کی طرح کسی تجربہ کو، کسی واقعہ کو‘کسی مشاہدہ کو اس وقت تک نہیں لکھ سکتیں جب تک وہ ان کے کل وجود کاحصہ بن کران کے خون میں گردش نہ کرنے لگے اور پھر یاد بن کر ان کے احساس کو دوبارہ بیدار نہ کردے‘‘ ۱۱؎
جمیلہ ہاشمی تاریخی ناول نگاروں میں منفرد مقام رکھتی ہیں ۔ان کااسلوب خو ب صو رت ہے ۔وہ دلکش تشبیہات اورحسین جملوں سے اپنے ناولوں میں مینا کاری کے بہترین نمونے پیش کرتی ہیں ۔اگرچہ انہوں نے معاشرتی ناولوں میں کئی تکنیکوں کااستعمال کیاہے وہیں ناول’’چہرہ بہ چہر ہ روبرو‘‘ او ر’’دشت سوس‘‘ میں اظہار کابیانیہ انداز اختیار کرکے نہ صرف روایت سے اپنے انسلاک کاثبوت فراہم کیاہے بلکہ ٹھوس تاریخی حقائق کو ایک نئے پسِ منظر میں نہایت ہی ہنر مندی کے ساتھ پیش بھی کیاہے۔انہوں نے اپنے ناولوں کے لئے تاریخ کی ان شخصیات کا انتخاب کیا ہے جن میں آفاقیت ہے۔جو ہر طرح کی سماجی جکڑ بندیوں سے اوپر اٹھ کر عالم انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے سرگرداں رہے۔اس کے لئے انہیں سخت ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن آخری سانس تک وہ اس کاالم اپنے ہاتھ میں لئے رہے۔جمیلہ ہاشمی مذکورہ تاریخی شخصیات سے خاصی متاثر نظر آتی ہیں ۔دونوں ناول گو اصل کے مطابق ہیں تاہم مصنفہ کا اساسی نظریہ جگہ جگہ غالب ہے۔
حواشی
۱۔پروفیسر مقبول بیگ بدخشانی،تاریخ ایران،جلد دوم،طبع اول(مجلس ترقی ادب،لاہور،۱۹۷۱ئ)ص:۴۵۹
۲۔امیر حمزہ،بہائیوں اور بابیوں کے مہدی،نئے نبی اور رب اعلیٰ،الدعوۃ،جلد ۶ شمارہ ۱۰ (اکتوبر،۱۹۹۵ئ)ص:۱۱
۳۔جمیلہ ہاشمی،چہرہ بہ چہرہ روبرو(رائٹرز بک کلب،لاہور،س ن)ص:۱۱۰
۴۔ جمیل جالبی،’’جمیلہ ہاشمی کے دو ناول‘‘ معاصر ادب(سنگ میل پبلی کیشنز،۱۹۹۱ئ)ص:۱۱۶
۵۔ بحوالہ طاہر مسعود، یہ صورت گر کچھ خوابوں کے(مکتبہ تخلیق ادب،کراچی،۱۹۸۵ئ)ص:۲۹۷
۶۔ ڈاکٹرسید جاوید اختر‘ اردو کی ناول نگار خواتین (بسمہ کتاب گھر ‘دہلی‘۲۰۰۲ء ) ص ۱۵۳
۷۔ جمیلہ ہاشمی‘ دشت سوس (رائٹرز بک کلب‘ لاہور‘۱۹۸۳ئ) ص ۴۹۲
۸۔ بحوالہ ڈاکٹر حسن اختر ’’دشت سوس‘‘ روزنامہ امروز‘ ۲۷ دسمبر۱۹۸۴ئ‘ لاہور
۹۔بحوالہ طاہر مسعود‘ یہ صورت گر کچھ خوابوں کے ص ۲۹۹
۱۰۔ڈاکٹر خالد اشرف‘ برصغیر میں اردو ناول (کتابی دنیا‘ دہلی‘۲۰۰۳ئ) ص ۳۳۹
۱۱۔ڈاکٹر جمیل جالبی‘ ادب ‘کلچر او رمسائل مرتب خاور جمیل (رائل بک کمپنی‘کراچی‘۱۹۸۶ئ) ص۲۰۱
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر فردوس احمد بٹ
لیکچرار اردو،ہائرسکنڈری اسکول ٹاڈ
کرناہ،کپوارہ،کشمیر
موبائل:9797964917
Leave a Reply
Be the First to Comment!