اردو کے مختلف نام

Click Here for PDF File

Click Here for PDF File

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ

ہندوستاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے۱؂

داغ نے جس ’ اردو‘ پر نازکیا ہے وہ ہمیشہ سے اردو نہ تھی بلکہ مختلف ادوار میں ’اردو‘ کو مختلف ناموں سے موسوم کیا جاتا رہا ہے ۔سب سے پہلے ہندوستان کی نسبت سے اسے ’ہندوی‘ کہا گیا ۔ حافظ محمود شیرانی سے لے کر ڈاکٹر سنیی کمار چٹرجی تک لسانی محققین اس بات پر متفق ہیں۔ قدیم لغات اور ادبی تصنیفات میں بھی اس کا نام ’ہندی‘ یا’ہندوی‘ ہے۔ اسی لیے ۸۱۲ھ میں ’قاضی خاں بدر‘سے لے کر ۱۷۴۲میں’ سراج الدین خاں آرزو‘تک سبھی قدیم لغات نویسیوں نے ہندوستان کی زبان کو’ ہندی‘ یا’ہندوی‘ لکھا ہے بعض صوفیا ء کرام کی تحریریں یا اقوال میں بھی اسے ’ہندی‘ یا ’ہندوی‘ کہا گیا ہے۔ ’خواجہ نصیرالدین چراغ دہلوی (وفات۷۵۲ھ)،شرف الدین یحییٰ منیری (وفات۷۷۲ھ)‘او ر ’اشرف جہاں گیر سمنانی(وفات۸۰۸ھ) ـوغیرہ نے ’ہندی ‘یا’ ہندوی‘ استعمال کیا ہے۔شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں:

’’جس زبان کو آج ہم اردو کہتے ہیں۔پرانے زمانے میں اسی زبان کو ہندوی،ہندی،دہلوی،گجری،دکنی،اور پھر ریختہ کہا گیا۔ اور یہ نام تقریباًاسی تربیت سے استعمال میں آئے جس ترتیب سے میں نے انھیں درج کیا ہے۔‘‘۲؂

 میر اثر(پیدایش۵۹،۱۷۵۸۔وفات۱۷۹۴)نے اپنی مثنوی ’خواب و خیال‘کی ابتدا میں اپنی زبان کو’ہندوی‘ قرار دیا ہے:

فارسی سو ہیں ، ہندوی سو ہیں

باقی اشعارِ مثنوی سو ہیں۳؂

اس عہد کے دیگر صوفیاء کرام کی ادبی تصانیف میں بھی’ ہندی‘ یا’ ہندوی‘ کا ہی استعمال ہوا ہے۔’شاہ میراجی شمس العشاق‘(وفات۱۴۹۶)،’شاہ برہان الدین جانم‘ (وفات ۱۵۸۲)اور جعفر زٹلی(۱۷۱۳۔۱۶۵۷) کے ساتھ ہی ’ عبدل بیجاپور ی‘ کی کتاب ’ابراہیم نامہ(۱۶۰۳)‘،ملا وجہی کی ’سب رس(۱۶۳۵)‘،اور فضلیـ کی’ دہ مجلس(۱۷۲۳)‘ وغیرہ سب میں اردو کانام ’ہندوی‘ ہے۔

’ہندوی ‘کے بعداردو کا دوسرامقبول نام ’ریختہ ‘ ہے ۔لغت میں’ ریختہ ‘کے متعدد معنی ہیں مثلاََ بننا،ایجاد واختراح کرنا، نئے سانچے میں ڈھالنا اور موزوں کرنا،پریشان و گری پڑی چیز وغیرہ۔آب حیات میں مولانا محمدحسین آزاد لکھتے ہیں:

 ’’مختلف زبانوں نے اسے ریختہ کیا ہے جیسے دیوار کو اینٹ،مٹی،چونا،سفیدی وغیرہ پختہ کرتے ہیں یا یہ کہ ریختہ کے معنی ہیں گری ،پڑی پریشان چیز۔‘‘۴؂

لیکن شروعات میں ریختہ کا استعمال بالکل الگ معنی میں ہوایعنی مقامی راگوں اور فارسی کو ملا کر ہندوستانی موسیقی میں جو اختراع وجود میں آئی اس کو’ ریختہ ‘کہا گیا ۔ اسی لیے مختلف زبانوں اور بولیوں کے امتزاج کی بنا پر استعارۃََ اردو بھی ریختہ کہلائی۔

زبان کے لیے’ ریختہ‘ شہنشاہ اکبر کے عہد میں غالباََ پہلی بار استعمال ہوا مگر یہ استعمال صرف شاعری تک محدود تھا۔بولی جانی والی زبان یا نثری کاوشوں کے لیے ’ہندی‘ کا ہی استعمال ہوتا رہا۔اس کی وجہ بھی غالباََ موسیقی تھی کیوں کہ بعض قدیم غزلوں میں فارسی اور ہندوی کا پر لطف امتزاج ملتا ہے۔ اس سلسلے میں’ امیر خسرو‘نے خصوصی شہرت پائی:

گوری سووے سیج پہ اور مکھ پہ ڈارے کیس

چل خسرو گھر آپنے سانج بھئی چوندیس۵؂

اور ان کی یہ غزل بہت مشہور ہے:

زحال مسکیں مکن تغافل دورائے نیناں بنائے بتیاں

کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں،نہ لیہوکاہے لگائے چھتیاں

شبانِ ہجراں دراز چوں زلف و روز وصلت چو عمر کوتاہ

سکھی پیا کوں جو میں نہ دیکھوں توکیسی کاٹوں اندھیری رتیاں

یکایک ازدل دو چشم جادو بصد فریبم ببرو تسکیں

کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کوں ہماری بتیاں

چو شمع سوزاں چو ذرہ حیراں زمہر آں مہ بگشتم آخر

نہ نیند نینانہ انگ چینا نہ آپ آویں نہ بھیجیں پتیاں

بحق روزِ وصالِ دلبر کہ داد مارا فریب خسرو

سپیت منکے وراے راکھوں جو جاے پاوں پیا کی کھتیاں۶؂

خسروں کے بعد سعدی نے ریختہ گوئی میں نام پیدا کیا۔ مصحفی تک ’ہندوی‘ اور’ ریختہ‘ دونوں اردو شاعری کے لیے مستعمل تھے ۔چنانچہ مصحفی کہتے ہیں:

مصحفی فارسی کو طاق پہ رکھ

اب ہے اشعارِ ہندوی کا روا۷؂

کیا ریختہ کم ہے مصحفی کا

بو آتی ہے اس میں فارسی کی

یوں تو ’ریختہ‘ کی اصطلاح ایک خاص قسم کی شاعری کے لیے مستعمل تھا لیکن کچھ عرصہ بعد ریختہ کا لفظ تمام شاعری کے لیے مقبول ہو گیا۔بیشتر قدیم شعراء نے شاعر ی یا اردو زبان کے لیے ریختہ کا لفظ استعمال کیا۔چنانچہ شاہ حاتم،قائم،مرزا قتیل، میر تقی میر، سودا، مصحفی، سوزاور جرأت سے مرزا غالب کے وقت تک سبھی کے کلام میں یہ لفظ ملتا ہے اور سبھی نے اسے شاعری کا مترادف جانا۔ بقول غالب:

ریختہ کے تمھیں استاد نہیں ہو غالب

کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا

میر نے اپنے تذکرہ ’نکاۃ الشعراء‘ میں یوں لکھا :

’’معلوم ہو کہ ریختہ کئی قسم کا ہوتاہے۔ان تمام میں جو کچھ فقیر کو معلوم ہے وہ لکھا جا رہا ہے۔پہلا وہ کہ اس کا ایک مصرع فارسی اور ایک ہندی۔ چنانچہ حضرت امیر خسرو علیہ الرحمتہ سے ایک قطعہ لکھ دیا گیا ہے۔ دوسرا وہ کہ اس کاآ دھا مصرع ہندی اور آدھا فارسی،چنانچہ میر معزموسوی جن کا ذکر کتاب میں کیا گیا ان کا شعر لکھ دیا ہے۔تیسرا وہ جس میں فارسی کے فعل استعمال کیے جاتے ہیں اور یہ قبیح ہے۔‘‘۸؂

ولی اور سراج سے لے کر میر تقی میرکے عہد تک’ ریختہ ‘کا لفظ شاعری کے لیے ایک مخصوص انداز میں مقبول ہو چکا تھا۔ بقول ولی:

ولی تجھ حسن کی تعریف میں جب ریختہ بولے

سنے تب اس کوں جان و دل سوں حسّانِ عجم آکر۹؂

اس زمانے تک ’زبان‘کے لیے ’ہندی‘کا لفظ اورمخصوص شاعری کے لیے ’ریختہ‘کا لفظ استعمال ہوتا رہا۔ شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں:

’’شمال میں’ریختہ‘اور ’ہندی‘،ہماری زبان کے نام کی حیثیت سے یکساں مقبول تھے۔یہ حالت اٹھارویں صدی تک رہی۔وسط انیسویں صدی سے زبان کے نام کے حیثیت سے’ہندی‘ کو’ریختہ‘ پر ترجیح دی جانے لگی۔بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ انیسویں صدی میں بول چال کی زبان کو تقریباًہمیشہ’ ہندی ‘ہی کہا جاتا تھا،جب کہ اٹھارویں صدی میں’ریختہ‘کو بول چال کی زبان کے لیے بے تکلف استعمال کرتے تھے۔‘‘۱۰؂

ریختہ کے بعد ہماری زبان کے لیے لفظ ’اردو‘ کا استعمال شروع ہوا۔اردو’ترکی‘ زبان کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے لشکر یا چھاونی۔’حا فظ محمود شیرانی‘ نے لفظ اردو کے لیے تحقیقات کا دائرا ہ بہت وسیع کر دیا ہے۔بقول شیرانی:

’’یہ لفظ اصل ترکی میں مختلف شکلوں میں ملتا ہے یعنی اوردا، اوردہ، اردہ، اردا اور اردو جس کے معنی فرودگاہ،لشکر اور پڑاونیزلشکرو حصۂ لشکر ہیں۔اس کے علاوہ اس کا استعمال خیمہ،بازار،لشکر،حرم گاہ،محل و محل سرائے شاہی و قلعے پر بھی ہوتا ہے۔۱۱؂

ہندوستان میں سب سے پہلے اردو لفظ کا استعمال شہنشاہ بابر نے ـ’تزک بابری‘میں کیا ہے۔ بقول شیرانی بابر اپنی ٹکسال کو بھی اردو کہتا تھا۔ جب کہ اکبر کی لشکری ٹکسال ’اردو ظفر قرین‘یا ’اردوئے ظفر قرین‘اور خال خال موقعوں پر ’اردو‘ بھی کہلاتی تھی۔لشکر کے لیے اردو معلی اکبر کے عہد میں مروج تھا ۔ بقول شیرانی اکبر کے عہد میں یہ لفظ مقبول ہو چکا تھا۔ چنانچہ شیرانی نے اردو علیہا،اردو ئے معلی ،اردوئے لشکر ،اردو حضرت، اردو ظفرین، اردوئے عالی اور اردوئے بزرگ جیسی تراکیب گنوائی ہے۔

لفظ ’اردو‘ اپنی مختلف صورتوں میں رائج ہو چکا تھا مگر ابھی تک زبا ن کے معنی میں اس کا استعمال نہیں ہوتاتھابلکہ جہانگیر کے وقت تک اس زبان کا نام’ہندوی‘ہی تھا۔ شاہجہاں (وفات۱۶۶۶) نے اپنے شہرکے لیے اردوئے معلی کا نام تجویز کیا۔اس سلسلے میں میر امن کا’ با غ و بہار‘ میں یہ بیان قابل غور ہے:

’’ تب بادشاہ نے خوش ہو کر جشن فرمایا اور شہر کو اپنا دارالخلافت بنایا تب سے شاہجہان آباد مشہو ر ہوا(اگرچہ دلّی جُدی ہے،وہ پراناشہر اور یہ نیا شہر کہلاتا ہے) اور وہاں کے بازار کو اردوئے معلےٰ خطاب دیا۔‘‘۱۲؂

اس وقت بھی شاعری کے لیے ریختہ کا استعمال ہی مروج تھا لیکن ’اردوئے معلی‘کی مخصوص اصطلاح وجود پا چکی تھی۔ بہرحال میر تقی میر( نکات الشعراء،۱۷۵۲)اور قائم (مخزن نکات،۱۷۵۷)نے اردوئے معلی کو محاورہ کے مطابق ہی لکھا ہے۔شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں:

’’ہماری زبان کے نام کے طور پر لفظ ’اردو‘کا استعمال اٹھارویں صدی کے ربع آخر کے پہلے نہیں ملتا۔زبان کے نام کے طور پر اس لفظ(اردو)کی زندگی غالباً’زبان اردو معلائے شاہجہاں آباد‘کی شکل میں شروع ہوئی اور اس مراد تھی،’شاہجہاں آباد کے شہر معلی؍قلعہ معلی؍دربار معلی کی زبان۔‘‘۱۳؂

اردو معلی کی اصطلاح یوں تو خوبصورت تھی مگر عام نہ ہو سکی۔اورآہستہ آہستہ یہ فقرہ مختصر ہو کر صرف ’اردو‘ رہ گیا او ر پہلے ’اردو‘کا استعمال شاہجہاں آباد کے لیے ہوا مگر ۱۷۸۰تک زبان کے لیے لفظ ’اردو ‘کا استعمال ہونے لگا۔

تذکرہ گلزار ابراہیم(۱۷۸۴)اور تذکرہ ہندی از مصحفی(۱۷۹۴)میں بھی زبان کے لیے اردو کا لفظ استعمال ہوا ہے۔بقول حافظ محمود شیرانی مغربی مصنفین میں ڈاکٹر گلکرسٹ پہلے شخص ہیں جو اپنی انگریزی تالیف ’ قواعد زبان ہندوستان‘(۱۷۹۶) میں اردو کا استعمال کرتے ہیں۔۱۴؂

علامہ قاضی نے لفظ اردو کے بارے میں نئی تحقیقا تی مواد کی بنا پر لفظ اردو کو ترکی زبان کا لفظ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔وہ اس ضمن میں رقم طراز ہیں:

’’عام سندھی بول چال میں’اردو‘ ڈھیر یااشیاء کے ذخیروں اور انسانوں کے اجتماع کو کہتے ہیں۔اس لفظ کے یہ معنی عربوں کے سندھ میں وارد ہونے سے تین ہزار برس پہلے سے رائج ہیں،تاہم لفظ ارد،urdسندھ یا ہند میں پیدا نہیں ہوا․․․قدیم ناردک(Nordic)دیومالا میں لفظ ’ارد‘urdیااُرتھurthایک دیوی کا نام ہے۔جو خود تقدیر ہے۔․․․پس ہم دیکھتے ہیں کہ لفظ ’ارد‘آرائی زبان کے قدیم ترین لفظوں میں سے ہے اور آج تک زندہ چلا آتا ہے ۔یہ آرائی تمدن کی ابتدااور اسی خاصیت کا مظہر ہے۔یعنی انسانی معاشرت کا یہی وہ لفظ ہے جو لفظ ’اردو ‘ کاماخذ ہے جس کے معنی ایسے مجمع کی زبان ہے کہ جس میں ہر قسم کے لوگ شامل ہوں۔‘‘۱۵؂

اس ضمن میں ایک اور نقطۂ نظر یہ بھی ہے کہ اردو کا لفظ در اصل لاطنی الاصل ہے یہHORDEسے بنا ہے جس کے معنی گروہ ، مجمع، لشکر اور بعض اوقات خانہ بدوش بھی ہے۔ ترکی میں یہ لفظ بعد میں پہنچا ۔ حکیم شمس اﷲ قادری نے اپنی تالیف ’اردوئے قدیم‘ میں اس لفظ کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’چنگیز خان اور اس کے ا ولاد کے زمانے میں مغل بادشاہوں اور بادشاہ زادوں کے فرد گاہوں اور لشکر گاہوں کو ’اردو ‘کہا کرتے تھے یہاں تک کہ ان کا مستقر حکومت بھی اردوکہلاتا تھا اور’ قراقرم‘ کا قدیم نام ’اردو بالیغ‘ تھا ۔

چنگیز خاں کے فرزند جوجی خاں کی اولاد نے دشت قنچاق اور روس ویلغار میں ایک وسیع حکومت قائم کر لی تھی۔اسے حکمراں جب کسی مہم پرمستقرسے رواں ہوتے توزرّیں خیموں میں قیام کرتے تھے جس کے باعث ان کی لشکر گاہیں اردوئے مطلّاGolden Hordeکہلاتی تھیں ․․․خروج چنگیز خان کے بعد سلطان شمس الدین ایلتمش کے زمانے سے سلطان محمد تغلق کے عہد حکومت تک مغلوں نے ہندوستان پر گیارہ حملے کئے اور کم و بیش سو سال تک ہندوستان کا شمالی خطہ ان کی تخت و تاج کا جولانگا ہ بنا رہا ۔اسی زمانے سے ہندوستان میں لفظ اردو کا استعمال شروع ہوا اور یہاں بھی لشکر گاہ کو اردو کہنے لگے۔‘‘۱۶؂

اردو کے ناموں کے سلسلے میں بیش تر محققین نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ مختلف صوبوں اور علاقوں کی مناسبط سے اردو دکنی ، گجری ، پنجابی وغیرہ بھی کہلاتی رہی جیسا کہ شیخ بہاالدین باجن نے اپنے کلام کو ’زبان دہلوی ‘کہا تھا ۔ بقول مولوی عبدالحق :

’’ یہ زبان (یعنی اردو ) دکن میں آئی اور اس میں دکنی الفاظ اور لہجہ داخل ہوا تو دکنی کہلائی اور گجرات میں پہنچی تو اس خصوصیت کی وجہ سے گجری اور گجراتی کہی جانے لگی۔‘‘۱۷؂

اسی طرح ڈاکٹر شوکت سبزواری بھی اردو کے دہلوی ، گجری یا گوجری اور دکنی نام گنوانے بعد’اردو زبان کا ارتقا ‘میں لکھتے ہیں :

’’ یہ نام اردو کو ان مقامات کے تعلق سے دئے گئے جہاں اول اول اردو کو فروغ ہوا ۔ ‘‘

اس طرح اردو مختلف ناموں کو پاتی ہوئی آخر میں ہماری ’اردو‘ ہوئی۔

حواشی:

۱؂    داغ دہلوی:کلیات داغ(گلزارِداغ)،نئی دہلی ،کتابی دنیا،۲۰۰۸،ص۳۴۵۔

۲؂   شمس الرحمن فاروقی:اردو ادب کا ابتدائی زمانہ،نئی دہلی ،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،۲۰۱۱،ص۱۲۔

۳؂   میر اثر:خواب وخیال،مرتبہ مولوی عبد الحق،پاکستان،انجمن ترقی اردو،بار دوم،۱۹۵۰،ص۱۱۔

۴؂   محمد حسین آزاد:آب حیات،لکھنؤ،اتر پردیس اردو اکادمی،چھٹا ایڈیشن،۲۰۰۳،ص۲۰۔

۵؂   جمیل جالبی:تاریخ ادب اردو،جلد اول،دہلی،ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاوس،طبع پنجم۲۰۰۰،ص۲۹۔

۶؂   محمد حسین آزاد:آب حیات،لکھنؤ،اتر پردیس اردو اکادمی،چھٹا ایڈیشن،۲۰۰۳،ص۷۳۔

۷؂  مصحفی:کلیات مصحفی ،دیوان اول،مرتبہ نثار احمد فاروقی،دہلی ،مطبع کوہ نور پرنٹنگ پرس ۱۹۶۸،ص۱۴۵۔

۸؂   میر تقی میر:تذکرہ نکا ۃ الشعراـ،مترجم حمیدہ خاتون،دہلی،جے کے آفسیٹ پرنٹرس،۱۹۹۴،ص۱۵۸۔

۹؂   ولی:کلیات ولی،مرتبہ نور الحسن ہاشمی،نئی دہلی،قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان،اپریل۲۰۰۸،ص۱۳۳۔

۱۰؂شمس الرحمن فاروقی:اردو ادب کا ابتدائی زمانہ،نئی دہلی ،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،۲۰۱۱،ص۱۳۔

۱۱؂  حافظ محمود شیرانی:مقالات،جلد اول،مرتبہ مظہر محمود شیرانی،لاہور،مجلس ترقی اردو،جنوری ۱۹۶۶،ص۱۱۔

۱۲؂میر امن:باغ وبہار،مرتب رشید حسن خاں،دہلی،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،اکتوبر۱۹۷۰،ص۱۴۔

۱۳؂شمس الرحمن فاروقی:اردو ادب کا ابتدائی زمانہ،نئی دہلی ،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،۲۰۱۱،ص۱۶۔

۱۴؂حافظ محمود شیرانی:مقالات،جلد اول،مرتبہ مظہر محمود شیرانی،ص۴۱۔

۱۵؂بحوالہ اردو ادب کی مختصرترین تاریخ آغاز سے ۲۰۰۰تک از سلیم اختر(علامہ قاضی:مقالہ مطبوعہ سویرا،خاص شمارہ ،۱۹۷۹،مئی)دہلی۶، کتابی دینا۔ ۲۰۰۵، ص ۵۷۔۵۸

۱۶؂حکیم شمس اﷲ قادری:اردوئے قدیم،کراچی ،جنرل پبلیشنگ ہاوس برنس روڈ،طبع دوم۱۹۶۳،ص۲۰۔۲۱۔

۱۷؂مولوی عبد الحق:اردو کی ابتدائی نشو ونما میں صوفیائے کرام کا کام،کرانچی ،انجمن ترقی اردو ،طبع سوم،۱۹۵۳۔

کوثر جہاں

(ریسرچ اسکالر)

جامعہ ملیہ اسلامیہ

اردو ریسرچ جرنل میں شائع شدہ مواد کی بغیر پیشگی اجازت کے دوبارہ اشاعت منع ہے۔ ایسا کرنا قانوناً جرم ہے۔

Leave a Reply

3 Comments on "اردو کے مختلف نام"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
محمد اشفاق ایاز
Guest
اردو زبان کے ارتقا کے حوالے سے قابل قدر مضمون ہے۔
فرحت سعیدی
Guest
اچھا تحقیقی مضمون لیکن تشنگی محسوس ہوئی.
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.