علی گڑھ تحریک : ایک مطالعہ

علی گڑھ تحریک کے پس منظر کو جاننے کے لیے انیسویں  صدی کے نصف اوّل کے سیاسی منظرنامے کو ذہن میں  رکھنا ضروری ہے۔ 1857 سے قبل کے سیاسی، سماجی، اقتصادی اور مذہبی حالات کو بھی بہت بہتر نہیں  کہا جاسکتا ہے۔ انیسویں  صدی کے اوائل میں  مغلیہ سلطنت برائے نام رہ گئی تھی۔ اس دور میں  ہندوستان کے اکثر صوبے سرکش جاگیرداروں  کے ماتحت تھے جو مغل بادشاہوں کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج تھا، ان کے لیے ان حالات کا مقابلہ کرنا بہت مشکل تھا۔ 1857 کی جنگ آزادی میں  آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی شکست ہوگئی، اور مکمل طور سے مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ہوگیا۔ 1857 کی جنگ آزادی سے ہندوستانی مسلمانوں  کا جانی و مالی نقصان سب سے زیادہ ہوا، اس کی وجہ یہ تھی اس جنگ میں  مسلمانوں  نے سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور انگریزوں  کا ماننا تھا کہ ہندوستانی مسلمان ان کے سب سے بڑے دشمن ہیں ، اس جنگ آزادی کے ردِّعمل میں  مسلمانوں  کا سب سے زیادہ خسارہ ہوا۔ اشفاق احمد اعظمی لکھتے ہیں :

”غدر 1857 نے حکومت کو ہندوستانیوں  خاص کر مسلمانوں  سے حد سے زیادہ برہم کردیا جس کے نتیجے میں  مسلمانوں  کی زندگی اس ملک میں  دشوار ہوگئی۔ کتنے مسلمانوں  کو غدر کے الزام میں  سزائے موت دے دی گئی کتنے کے گھروں  کو اجاڑ دیا گیا۔ ان کی جائیدادیں  اور ان کی املاک کو ان سے نہایت بے دردی سے چھین لیا گیا ان پر روزی روزگار کے تمام راستے بند کردئیے گئے مسلمان زمینداروں ، تعلقہ داروں  اور اس قوم کے سربرآوردہ اشخاص کی عزت و آبرو سبھی کچھ برباد کردی گئی، غریب مسلمانوں  کے چھوٹے موٹے پیشے اور کاروبار کو تباہ کردیا گیا جس سے صنعت گر، اور ہنرمند مسلمانوں  کی بھی روزی ماری گئی۔ اس طرح مسلمانوں  کے اندر معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی ہر اعتبار سے بدحالی پیدا ہوگئی۔” 1

سرسیداحمد خان نے 1857 کی تباہی کو اپنی آنکھوں  سے دیکھا تھا۔ اس نازک دور نے سرسید کو ذہنی کشمکش اور عجیب پریشانی میں  مبتلا کردیا تھا۔ انھوں  نے ہندوستانی مسلمانوں  کی فلاح و بہبود کے لیے برطانوی نظر سے مسلمانو ں کے خلاف قائم کو دور کرنے کی پیہم کوشش کی اور مسلمانوں  کی فوز و فلاح کے لیے مشکل سے مشکل کام کرنے کا عزم مصمم کرلیا اور وہ اپنے اس عظیم مقصد میں  کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔

سرسید احمد نے اَسّی برس کی طویل عمر پائی۔ 1817 میں  دہلی کے معزز اور شریف گھرانے میں  پیدا ہوئے۔ ان کی زندگی کے احوال کو چار حصوں  میں  تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا دور 1817 تا 1837 ہے جو ان کے بچپن جوانی اور تعلیم کا دور ہے جس دور میں  مغلیہ سلطنت کے زوال کے آثار دکھائی دے رہے تھے۔ دوسرا دور 1838 تا 1857 کا احاطہ کرتا ہے۔ اس دور میں  سرسید کی بہت سی مشہور تصانیف منظرعام پر آئیں ۔ اس دوران انھوں  نے نوکری، دیگر ادبی خدمات انجام دیں ۔ تیسرا دور 1877 تک محیط ہے۔ اس دور میں   انھوں  نے قوم کے مابین اتحاد و اتفاق میل جول اور بھائی چارے پر زور دیا ہے، اس دور میں  انھوں  نے لندن کا سفر کیا اور وہاں  کی یونیورسٹیوں  کے تعلیمی نظام سے بہت متاثر ہوئے، اور انھوں  نے لندن ہی میں  اپنے ذہن میں  ‘ایک خاکہ بنا لیا تھا کہ ہندوستان میں  ایک عظیم یونیورسٹی مسلمانوں  کے لیے قائم کریں  گے۔ اسی سفر کا نتیجہ ہے کہ سرسید نے ایک اہم کتاب ‘خطبات احمدیہ’ لکھی، یہ کتاب ‘لائف آف محمڈن’ کے جواب میں  لکھی گئی تھی۔ ان کی زندگی کا آخری دور 1877 تا 1897 ہے یہ دور اس اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل ہے کہ اس دور میں  سرسید نے مذہبی، سیاسی، تعلیمی اور علمی سرگرمیوں  میں  بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

اردو ادب میں  بہت سی تحریکیں  وجود میں  آئیں ، لیکن علی گڑھ تحریک ان تمام تحریکوں  میں  اپنی انفرادی شان رکھتی ہے، اس تحریک کو مکمل ادبی تحریک نہیں  کہا جاسکتا ہے۔ یہ سرسید کی سیاسی، سماجی، مذہبی، علمی و ادبی، کاوشوں  کی وجہ سے وجود میں  آئی اس لیے اس تحریک کو سرسید تحریک کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے، اس تحریک نے اردو شعر و ادب پر بھی گہرے نقوش ثبت کیے ہیں ۔ خلیق احمد نظامی اپنی کتاب ‘سرسید اور علی گڑھ تحریک’ کے دیباچہ میں  رقمطراز ہیں :

”ہندوستان کے مسلمانوں  کی گزشتہ ڈیڑھ سو سال کی فکری، علمی، سماجی، مذہبی، سیاسی اور ادبی تاریخ کا شاید ہی کوئی ایسا گوشہ ہو جس پر سرسید اور علی گڑھ تحریک بلا واسطہ یا بالواسطہ اپنے اثرات نہ چھوڑے ہوں  سرسید اور ان کے رفقاء کے لیے مدرسة العلوم ایک تعلیمی درس گاہ، نئے فکری رجحانات کی ایک علامت احیاء ملی کی ایک تحریک کا نام تھا۔ یہاں  ‘آدم گری’ بھی ہوتی تھی اور تعمیر ملت کا سامان بھی مہیا کیا جاتا تھا۔ یہاں  وقت کے اشاروں  کو سمجھنا بھی سکھایا جاتا تھا اور اس کے دھاروں  کو موڑنے کی صلاحیت بھی پیدا کی جاتی تھی۔ سرسید کی بلند حوصلگی، عزم راسخ خلوص نیت اور جہد مسلسل نے اس مشکل اور متنوع کام کو ایک تحریک کی شکل دے دی تھی زمانے کے پیچ و خم کے ساتھ تحریک کے خد و خال بھی بدلتے رہے لیکن سرسید کے افکار کی معنویت ہر دور کے لیے بڑھتی ہی رہی اور ان کی یہ آواز برا بر فضاؤں  میں  گونجتی رہی :

سنگ تربت ہے مرا گرویدۂ تقریر دیکھ

چشم باطن سے ذرا اس لوح کی تحریر دیکھ”  2

علی گڑھ تحریک ایک اہم تحریک تھی اس سے ادبی تحریک کو تقویت حاصل ملتی رہی ہے، سائنٹفک سوسائٹی، محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس، تہذیب الاخلاق، اور ایم او کالج کے بہی خواہوں  نے تحریر و تخلیق پر اتنا زور دیا کہ جس کی وجہ سے شعر و ادب کا ایک معیار سامنے آگیا۔ سرسید احمد خاں  نے زندگی کے آخری ایام کو ایم او کالج کے لیے وقف کردیا تھا، علی گڑھ تحریک کو با آسانی سمجھنے کے لیے اس کی فکری بنیادو ں کو چار حصوں  میں  تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

علی گڑھ کی پہلی فکری بنیاد مادیت اور ترقی پر تھی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں  کیا جاسکتا ہے کہ 1857 کی جنگ آزادی میں  ہندوستان کی شکست ہوئی، جس کا خمیازہ ہندوستانی مسلمانوں  کو زیادہ اٹھانا پڑا۔ اس کی وجہ سے ہندوستانی مسلمانوں  کو معاشی پریشانیوں  کا سامنا کرنا پڑا۔ مالی پریشانیاں  قدم قدم پر آنے لگیں ، ان مشکلات کا حل سرسید احمد خاں  نے ڈھونڈنا شروع کردیا، آخرکار اس نتیجے پر پہنچے کہ  ہندوستانی مسلمان انگریزی حکومت سے مقابلہ آرائی کے بجائے ان کا ساتھ دیں ، کیونکہ قوم کے پاس اتنی طاقت نہیں  تھی کہ انگریزی حکومت کا مقابلہ کرتے اور سرسید نے یہ واضح الفاظ میں  کہہ دیا تھا کہ مادی خوش حالی مغربی علوم و فنون کو حاصل کیے بغیر نہیں  کی جاسکتی ہے۔

سرسید احمد خاں  نے علم کے قدیم تصور کو رد کیا ہے ان کا خیال تھا ایسا علم حاصل کیا جائے جس سے قوم کی ترقی ہو اور معاشی زندگی میں  دشواریاں  نہ پیش آئیں ۔ سرسیدمسلمانوں  کے خلاف انگریزوں  کے دلوں  میں  جو نفرت تھی اس کو ختم کرنا چاہتے تھے اس لیے ‘اسباب بغاوت ہند’ لکھی۔ وہ برابر مسلمانوں کو یہ تلقین کرتے رہے کہ وہ انگریزوں  کا ساتھ دیں  اور علمی میدان میں  ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں ، ایسا کرنے سے ہی قوم کی معاشی زندگی میں  خوش حالی آئے گی:

”1857 کی بغاوت کے نتیجے میں  برطانوی ظلم اور زیادتی سے ہونے والے ذاتی نقصان اور قومی سانحے کی طرف سرسید کے حساس مزاج نے شدید ردعمل کا ثبوت دیا سرسید کے اس کامل یقین کہ ہندوستان میں  برطانوی حکومت کو دوام حاصل ہوچکا ہے انھیں  اس بات پر مائل کیا کہ وہ انگریزوں  کا ساتھ دیں  بعد میں  بغاوت پر قابو پالینے کے نتیجہ میں  انگریزوں  کی جانب سے ہندوستانیوں  پر جو ظلم اور زیادتی ہوئی اس کا کفارہ ادا کرنے کے لیے سرسید نے خود کو ملک و قوم کی خدمت کے لیے وقف کردیا۔ اس صورتِ حال نے ایک نئے سرسید کو جنم دیا۔” 3

علی گڑھ تحریک کی دوسری فکری بنیاد عقلیت پر مرکوز تھی۔ سرسید کا ماننا تھا کہ مذہبی معاملات میں  عقل کا دخل ہونا چاہیے اور بغیر عقلی استدلال کے آنکھ بند کرکے مذہبی مسائل کو قبول نہیں  کرنا چاہیے اس لیے انھوں  نے تقلید کی پرزور مخالفت کی ہے۔ سرسید نے قرآن پاک کی تشریح عقلی دلائل کی روشنی میں  کی۔ انھوں  نے قرآن شریف کے اکثر واقعات اور قصے کو عقل کے مطابق ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، مذہب اسلام کو سائنس، فلسفے اور قانون کے تناظر میں  دیکھنے کی کوشش کی  ہے اس لیے سرسید نے تمام معجزات اور کرامات کو ماننے سے انکار کردیا ہے۔ انور سدید رقمطراز ہیں :

”سرسید نے مذہب کا خول توڑنے کے بجائے اسے فعال بنانے کی کوشش کی۔ اس لحاظ سے سرسید نے مذہب کی محرک قوت سے بھی کام لینے کی کوشش کی۔ ایک ایسے زمانے میں  جب مذہب کے روایتی تصور نے ذہن کو زنگ آلود کردیا تھا سرسید نے عقل سلیم کے ذریعے اسلام کی مدافعت کی اور ثابت کردیا کہ اسلام زمانے کے نئے تقاضوں  کو نہ صرف قبول کرتا ہے بلکہ نئے حقائق کی عقلی توضیح کی صلاحیت بھی رکھتاہے۔” 4

سرسید کے مذہبی افکار و نظریات پر اس دور کے دانشوران ادب نے بہت نکتہ چینی کی تھی اور آج بھی ان کی اس مذہبی فکر سے مسلمان اتفاق نہیں  کرتے ہیں  اور سرسید کے عہد میں  یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ اگر سرسید، مذہب اسلام کو عقل کے ترازو میں  تولنے کی کوشش نہ کرتے تو اس دور میں  ان کی اتنی مخالفت نہ ہوتی۔ ان کے اہم معاصرین حالی، شبلی، نذیر اور وقار ملک وغیرہ نے ان کے اصلاحی کامو ں میں  بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے باوجود مذہبی معاملات میں  ان کی عقلیت پسندی سے اختلاف کیا۔ سرسید نے مذہبی معاملات کو عقل کے مطابق دیکھنے کی اس لیے کوشش کی تھی کیونکہ  مذہب اسلام میں  بہت سی نئی چیزیں  داخل ہوگئیں  تھیں ، سرسید ان بدعتوں  کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ نورالحسن نقوی کا یہ اقتباس قابل غور ہے:

”نتیجہ یہ کہ قرآن حکیم اور مستند حدیثوں  کی پیروی کے بجائے مسلمانوں  کو مختلف تشریحوں  اور تفسیروں  کے مطابق عمل کرنا پڑا اس راہ سے غلط اور غیرمعتبر روایتیں  بھی شامل ہوگئیں  سرسید کا عقیدہ تھا کہ روایتیں  جزو اسلام نہیں  اور المیہ مجتہدین کے قیاسی و اجتہادی مسائل کا اصل مذہب سے کوئی علاقہ نہیں ۔ سرسید ان مجتہدین کی رائے کو بس اتنی وقعت دیتے تھے جتنی کسی قانون داں  کی رائے کو دی جاسکتی ہے۔” 5

سرسید کی عقلیت پسندی کے ضمن میں  یہ ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

”سرسید نے اسلام کی ترجمانی میں  انیسویں  صدی کی عقلیت کو محدود معنوں  میں  استعمال کیا۔ انھوں  نے اسلام سے ان سارے عناصر کو نکال باہر کیا جو ان کے نزدیک ان کے عہد کی ضرورتو ں کے مطابق نہیں  تھے۔ انھو ں نے مذہب کی کورانہ تقلید کو غلط ثابت کیا اور ہر عہد میں  مجتہد کی ضرورت پر زور دیا۔” 6

سرسید عقلیت پسندی کے ذریعہ مذہبی اصلاح کرنا چاہتے تھے، انھوں  نے اپنے عہد کے تناظر کو مدنظر رکھتے ہوئے عقلیت پسندی پر زیادہ زور دیا۔ جدید تعلیم کے تعلق سے لوگوں  کا خیال تھا کہ یہ کفر اور الحاد کی طرف لے جاتا ہے اور سرسید عوام کو اس غلط فہمی سے دور رکھنا چاہتے تھے اس لیے انھو ں نے مذہب اسلام کو جدید علوم اور سائنس کی روشنی میں  دیکھنے کی کوشش کی ہے قدیم روایات جو اسلام میں  داخل ہوگئیں  تھیں  ان کو اپنی تحقیق سے ثابت کردیا کہ اسلام میں  ان کی کوئی جگہ نہیں  ہے۔ اس کی متعدد مثالیں  ان کی تفسیر ‘تبیین القرآن’ میں  مل جائیں  گی۔

سرسید نے جبرئیل اور فرشتے کے وجود، شق صدر اور معراج کا واقعہ، پیغمبرو ں کا پیدا ہونا جیسے اہم موضوعات پر اظہار کرکے مسلمانوں  کو حیرت میں  و استعجاب میں  ڈال دیا تھا اس بڑھی ہوئی عقلیت پسندی کی وجہ سے اس دور میں  ان کو کافر بھی کہا گیا تھا۔

علی گڑھ تحریک کی تیسری بنیادی فکر اجتماعیت پر تھی، سرسید نے اجتماعیت پر اس لیے زور دیا ہے کہ انفرادی کوشش سے کسی مسئلہ کا حل ممکن نہیں  ہے اور ان کا ماننا تھا کہ یہ زمانہ انفرادی کوشش کا نہیں  ہے وہ پوری قوم کو متحرک رکھنا چاہتے تھے سرسید نے اظہار رائے کی آزادی پر زور دیا ہے، اظہار رائے کی آزادی میں  گورنمنٹ،مذہب، برادری اور قوم میں  خوف بالکل نہیں  ہونا چاہیے، اس لیے انھوں  نے آزادی پر زیادہ زور دیا تاکہ اس سے قوم کی حق تلفی نہ ہو، اظہارِ رائے پر پابندی کی وجہ سے قوم و ملت کا بہت بڑا خسارہ تھا۔

سرسید کے خیال میں  تصور اجتماعیت میں  دو تصورات آتے ہیں ، ایک تصور تعلیم جو انفرادی کے بجائے اجتماعی ہونا چاہیے، وہ کہتے تھے سماج کو ذہنی طور پر آزاد ہونا چاہیے اور اجتماعی طور پر ارتقا کی منازل طے کرنے میں  منہمک رہنا چاہیے، سرسید تصور تعلیم کو بہت وسیع معنوں  میں  لیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں  نے انفرادی تعلیم کے بالمقابل ‘قومی تعلیم’ کا تصور پیش کرنے میں  تامل نہیں  کیا ہے انھوں  نے انفرادی کوششوں  کو لغو بھی قرار دیا ہے۔ سرسید نے ایک مرتبہ اپنے لکچر میں  کہا تھا:

”تعلیم و تربیت کی مثال کمہار کے آوے کی سی ہے کہ جب تک تمام کچے برتن یہ بہ ترتیب ایک جگہ نہیں  چنے جاتے اور ایک قاعدہ داں  کمہار کے ہاتھ سے نہیں  پکائے جاتے کبھی نہیں  پکتے پھر اگر تم چاہو کہ ایک ہانڈی کو آوے میں  رکھ کر پکالو ہرگز درستی سے نہیں  پک سکتی۔” 7

دوسری جگہ قومیت کے تصور کا بیان اس طرح کرتے ہیں :

”لفظ قوم سے میری مراد ہندو اور مسلمان دونوں  سے ہے یہی وہ معنی ہیں  جس میں  لفظ ‘نیشن’ کی تعبیر کرتا ہو ں میرے لیے یہ امر چنداں  لحاظ کے لائق نہیں  ہے کہ ان کا مدہبی عقیدہ کیا ہے… ہم سب کے فائدے کے مخرج ایک ہی ہیں  یہی مختلف وجوہات ہیں  جن کی بنا پر میں  ان دونوں  قوموں  کو جو ہندوستان میں  آباد ہیں  ایک لفظ سے تعبیر کرتا ہوں  کہ ‘ہندو’ یعنی ہندوستان میں  رہنے والی قوم جس زمانہ میں  میں  قانونی کونسل کا ممبر تھا تو مجھ کو خاص اسی قوم کی بہبودی کی دل سے فکر تھی۔” 8

علی گڑھ تحریک کی چوتھی فکری بنیاد نیچریت پر تھی۔ سرسید کا ماننا تھا ادب اور تہذیب میں  مبالغے اور جذباتیت کی گنجائش نہیں  ہے، وہ حقیقت اور اصلیت پر زیاد زور دیتے ہیں ، سرسید ابتدائی 30سالوں  میں  ہندو و مسلم اتحاد اور قومی یکجہتی پر زیادہ زو دیتے تھے اور ہمیشہ اس فکر میں  رہتے تھے یہ قوم کیسے ترقی کرے گی۔ سرسید نے شاہ ولی اللہ دہلوی، شاہ اسماعیل شہید، سید احمد بریلوی اور شاہ عبدالمغنی کی عظمت کا اعتراف کرنے کے باوجودان کے نظریہ جہاد کو باطل ٹھہرایا تھا اور ہمیشہ ہندوستان کے ہندو مسلم کے مابین ذہنی ہم آہنگی پیدا کرنا چاہتے تھے۔ اس حقیقت کا اظہار ضروری ہے کہ سرسید کی سائنٹفک سوسائٹی کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہوگئی تھی، اس زمانے میں  دینی معاملات میں  ان کے معاصرین نے بھی مخالفت کرنا شروع کردی۔ ور نیکلر سوسائٹی کے قیام سے اردو زبان اور ادب کے فروغ کا زیادہ امکان تھا اس لیے اس دور کے کچھ ہندوؤں  نے اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس آواز سے سرسید کا لاشعور جاگ اٹھا اور یہیں  سے ان کے فکر میں  تبدیلی آنا شروع ہوگئی سرسید کو اس بات سے بہت زیادہ رنج ہوا جب ہندوؤں  نے یہ تجویز پیش کی کہ سرکاری عدالتوں  میں  اردو زبان کو دیوناگری رسم الخط میں  لکھا جانا چاہیے اور اردو زبان جو فارسی رسم الخط میں  لکھی جاتی ہے اس میں  تبدیلی لانے کی بہت ضرورت ہے، اس واقعہ سے سرسید احمد خاں  کو یہ احساس ہوگیا کہ ہندو مسلم دونوں  کو ایک قوم ماننا میری غلط فہمی ہے، ان دونوں  کا ایک ساتھ رہنا مشکل ہے اس ردعمل کا اظہار انھوں  نے جذباتی انداز میں  کیاہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں :

”انھیں  دنوں  جب یہ چرچا بنارس میں  پھیلا ایک روز مسٹر شیکسپیئر سے جو اس وقت بنارس میں  کمشنر تھے میں  مسلمانو ں کی تعلیم کے باب میں  گفتگو کررہا تھا اور وہ متعجب ہوکر میری گفتگو سن رہے تھے تو انھوں  نے کہا کہ آج یہ پہلا موقعہ ہے کہ میں  نے تم سے خاص مسلمانوں  کی ترقی کا ذکر سنا ہے اس سے پہلے تم ہمیشہ عام ہندوستانیوں  کی بھلائی کا خیال ظاہر کرتے تھے میں  نے کہا اب مجھے یقین ہوگیا کہ دونوں  قومیں  کسی کام میں  دل سے شریک نہ ہوسکیں  گی۔” 9

ہندو اور مسلم اتحاد کو توڑنے کے لیے کچھ انتہا پسند ہندوؤں  نے زبان کے تعلق سے اس نزاعی مسئلہ کو چھیڑا تھا ہم ایک طرح سے اس کو ایک سیاسی کھیل سے تعبیر کرسکتے ہیں  سرسید کو بعد میں  اس کا اندازہ ہوپایا۔ سرسید ہندو مسلمان دونوں  کو ایک قوم تصور کرتے تھے اس لیے ہندو اور مسلمان کو دو آنکھوں  سے تعبیر کیا ہے۔ انھوں  نے لکھا ہے کہ:

”اے میرے دوستو میں  نے بارہا کہا ہے اور پھر کہتا ہو ں کہ ہندوستان ایک دلہن کی مانند ہے جس کی خوبصورت اور رسیلی دو آنکھیں  ہندو اور مسلمان ہیں  اگر وہ دونوں  آپس میں  نفاق رکھیں  گے تو پیاری دلہن بھینگی ہوجائے گی اور اگر ایک دوسرے کو برباد کردیں  گے تو وہ کانڑی بن جائے گی۔ پس اے ہندوستان کے رہنے والے ہندو مسلمانوں  اب تم کو اختیار ہے کہ چاہو اس دلہن کو بھینگا بناؤ چاہو کانڑا۔” 10

سرسید کا مطمح نظر یہ تھا کہ قوم سیاست سے دور رہے صرف تعلیم کی طرف توجہ مرکوز کرنے کا مشورہ دیا جو اس دور کا تقاضہ تھا۔ سرسید کا یہ پیغام سرسید کی زندگی تک تھا اور جب وقار ملک نے قوم کی رہنمائی کا بیڑا اٹھایا تو یہ قوم ملکی سیاست سے دور نہ رہ سکی۔

علمی و ادبی خدمات

علی گڑھ تحریک کی ادبی معنویت سرسید اور ان کے اہم رفقاء کی علمی و ادبی خدمات پر منحصر ہے، سرسید احمد خاں  نے بذات خود جن اہم موضوعات پر طبع آزمائی کی ہے دوسرا ادیب اس طرح کے موضوعات پر قلم اٹھانے کی جرأت نہیں  کرسکتا تھا۔ سرسید کی علمی تصانیف کو بھی بڑی مقبولیت حاصل ہوئی، خلیق احمد نظامی نے بجا فرمایا کہ سرسید اپنی ذات میں  ایک انجمن تھے اور ان کی حیثیت کسی ادارہ سے کم نہ تھی، سرسید نے تحقیق، تنقید، فلسفہ، مذہب، تاریخ، عمرانیات جیسے اہم موضوعات پر قلم اٹھایا اور ہر میدان میں  اپنی الگ شناخت قائم کی۔ سرسید نے مذہبی معاملات میں  عقلیت، وسیع الذہنی، اور بے تعصبی سے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی، غالباً تقابلی مطالعہ کرنے کا اولین شرف ان ہی کو حاصل ہے انھوں  نے انجیل کی تفسیر ”تبیین الکلام” کا تقابلی مطالعہ کیا ہے۔ سرسید کی مذہبی کتابوں  میں  جلاء القلوب بذکر المحبوب (1842)، تحفة حسن (1844)، کلمة الحق (1849)، راہِ سنت در ردِّ بدعت (1850)، نمیقہ دربیان مسئلہ تصور شیخ (1852)، ترجمہ رجز و کیمیائے سعادت (1862)، تبیین الکلام فی تفسیر التوراة والانجیل علی ملت السلام، (1861)، طعام اہل الکتاب (1866)، خطبات احمدیہ، (1870)، تفسیر القرآن (1876)، النظر فی بعض مسائل الامام الغزالی رسالہ (1879)، ترقیم فی قصہ اصحاب الکہف والرقیم رسالہ (1889)، ازالة الغین عن الذکر القرنین (1889)، رسالہ ابطال غلامی (1892)، الدعاء واستجابة (1892) تحریر اصول التفسیر (1892) اور تفسیر السموات وغیرہ کو غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے۔

سرسید نے مذہبی کتابو ں کے علاوہ قانون اور سائنس پر کتابیں  لکھی ہیں  نیز بہت سی کتابو ں کا ترجمہ بھی کروایا ہے۔ سرسید احمد خاں  کو تاریخ سے بھی بہت شغف تھا وہ مسلمانوں  کی تاریخ کو قومی سرمایہ سمجھتے تھے اور قوم کو مسلمانوں  کی حقیقی تاریخ سے آشنا کرنا چاہتے تھے اس لیے انھوں  نے ہندوستانی تاریخ کا گہرا مطالعہ کیا اور بہت سی تاریخی کتابوں  کو جمع کرنا شروع کیا، اسی کد وکاوش کا نتیجہ ہے کہ ‘آثار الصنادید’ جیسی اہم کتاب ہمارے سامنے آئی، اس کتاب کی ہندوستان ہی میں  نہیں  بلکہ عالمی پیمانہ پر بہت شہرت حاصل ہوئی، نیز کئی زبانوں  میں  اس کا ترجمہ بھی ہوا ہے سرسید کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں  نے ایرانی تواریخ کی کتابوں  کو ایڈٹ کیا ہے۔ جس میں  ضیاء الدین برنی  کی تاریخ فیروز شاہی، ابوالفضل کی آئین اکبری قابل ذکر ہیں ، مزید برآں  ان کتابوں  کو اپنے پرائیویٹ پریس سے شائع بھی کیا۔

سیاست پر سرسید کی دو کتابیں  منفرد نوعیت کی حامل ہیں ‘ اسباب بغاوت ہند’، ‘سرکشی ضلع بجنور’ یہ کتابیں  سرسید کے وسیع مطالعہ کی غماز ہیں ، 1857 کے حوالے سے یہ اہم کتابیں  ہیں ۔

علی گڑھ تحریک ایک اصلاحی تحریک تھی اس تحریک نے اصلاح معاشرہ کی خاطر مغربی تعلیم کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرسید نے بہت سی کتابیں  اور رسالے شائع کیے تاکہ قوم کی اصلاح ہوسکے انھوں  نے ادارے اور انجمنیں  قائم کیں  تاکہ قوم خواب غفلت سے بیدار ہو۔ سائنٹفک سوسائٹی 1864، برٹش انڈیا ایسوسی ایشن، 1966، کمیٹی برائے تبلیغ و توسیع تعلیم 1870، محمڈن سول سروس فنڈ ایسوسی ایشن، محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس 1886، انڈین پیریاٹک ایسوسی ایشن، محمڈن ایسوسی ایشن 1883، ایم اے او ڈیفنس ایسوسی ایشن 1893، محمڈن نیشنل والنسٹرس آف ایم اے او کالج 1888، یہ ایسی انجمنیں  اور ادارے ہیں  جس کے ذریعہ ہندوستانی مسلمانوں  کی ذہنی و علمی، ادبی اور تہذیبی آبیاری کی جاتی تھی، سرسید کی اس تعلیمی تحریک کے دو رس اثرات مرتب ہوئے۔

اردو ادب میں  سرسید کی اہمیت مسلم ہے اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ علی گڑھ تحریک کی وجہ سے اردو شعر و ادب کو بڑی اہمیت حاصل ہوئی ہے اس تعلق سے سرسید کی ادبی خدمات گرا نقدر اضافے کی حیثیت رکھتی ہیں  اور یہ اردو کے اولین مصنف ہیں  جنھوں  نے باضابطہ طور پر شعر اور نثر کے پیچیدہ مسائل پر اتنی سنجیدگی سے گفتگو کی ہے۔

سرسید کی تمام تحریریں  مصلحانہ نوعیت کی ہیں  اور یہی تحریریں  قاری کے ذہن پر گہرا اثر ڈالتی ہیں :

”سرسید کی ادبی خدمات دو پہلوؤں  سے قابل ذکر ہیں ۔ ایک تو ان کے وہ خیالات جو انھوں  نے شعر و ادب، تاریخ و لسان اور عروض و بیان کے سلسلے میں  ظاہر کیے اور جن کی پیروی کی اپنے ساتھیوں  اور ارادت مندوں  سے مطالبہ کیا اور دوسرے وہ جو خود انھوں  نے تخلیق کیا پہلے کے سلسلے میں  ایک تو ان کا  خط ہے۔ جو انھوں  نے مولانا محمد حسین آزاد کو لکھا اور دوسرے وہ مضمون جو مولانا کی نظم نگاری کی تحریک کی حمایت میں  انھوں  نے تہذیب الاخلاق میں  شائع کیا۔”11

سرسید احمد خاں  مولانا محمد حسین آزاد کی نظم نگاری کی تحریک سے بہت خوش ہوئے اور انجمن پنجاب کی بے حد تعریف کی، انھوں  نے نیچرل شاعری کی حمایت کی، محمد حسین آزاد کو داد تحسین دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسی مجلس میں  مشاعرہ سے میری دلی تمنا پوری ہوگئی، سرسید اس بات پر زور دیتے تھے کہ ایسی شاعری کی جانی چاہیے جس میں  سادگی، اصلیت اور حقیقت کے خیال کی پاکیزگی و ستھرائی ہو، انھوں  نے اس دور کے اردو شعرا کو انگریزی شعرا سے استفادہ کرنے کا مشورہ دیا، سرسید نے الطاف حسین حالی کی کاوشوں  کو سراہتے ہوئے ان کی دل کھول کر تعریف کی تھی اور ان ہی کی فرمائش پر حالی نے ‘مسدس’ لکھ کر اپنا نام روشن کیا اور سرسید کی دلی خواہش کی تکمیل کی۔ سرسید نے مسدس حالی کو اپنے اعمال حسنہ میں  شامل کرنے میں  تامل نہیں  کیا۔

سرسید کی ادبی خدمات صرف نیچرل شاعری تک محدودنہیں  ہے۔ انھوں  نے اردو نثر کو بھی ایک نئی جہت سے روشناس کرایا اردو نثر کو سادہ اور آسان بنانے میں  ان کا اہم رول رہا ہے۔

سرسید کا ایک اہم کارنامہ اردو صحافت ہے انھوں  ے تہذیب الاخلاق کو لندن سے واپسی کے بعد 1870 میں  جاری کیا اوریہ رسالہ ایک مشن کا کام کررہاتھا۔یہ رسالہ درمیان میں  کئی بار بند بھی ہوا۔ اس دور میں  بہت سے اخبار و رسائل نکلتے تھے لیکن تہذیب الاخلاق اور علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کو منفرد مقام حاصل تھا۔ سرسید نے اخبارات و رسائل کے ذریعہ اردو صحافت کو نئی راہ دکھائی، بالفاظ دیگر ان کی صحافت سے ایک نئے دور کاآغاز ہوا تھا۔ سرسید کے مقالات اور نثری مضامین نے اردو نثر کے فروغ میں  اہم رول ادا کیا ہے، سرسید ادب کو صرف تفریح کا ذریعہ نہیں  مانتے تھے۔ سرسید کا خیال تھا ایسا ادب لکھا جائے جس میں  زندگی کے مسائل کی بھی عکاسی ہو، گویا یہ کہا جاسکتا ہے کہ سرسید نے ادب کو افادی نقطۂ نظر سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ مولانا شبلی نعمانی لکھتے ہیں :

”سرسید کے جس قدر کارنامے ہیں  اگرچہ رفارمیشن اور اصلاح کی حیثیت ہر جگہ نظر آتی ہے لیکن جو چیزیں  خصوصیت کے ساتھ ان کی اصلاح کی بدولت ذرہ سے آفتاب بن گئیں  ان میں  ایک اردو لٹریچر بھی ہے۔ سرسید ہی کی بدولت اردو اس قابل ہوئی کہ عشق و عاشقی کے دائرہ سے نکل کر ملکی، سیاسی، اخلاقی تاریخی ہر قسم کے مضامین اس زور و اثر وسعت و جامعیت سادگی اور صفائی سے ادا کرسکتی ہے کہ خود اس کے استاد یعنی فارسی زبان کو آج تک یہ بات نصیب نہیں  ملک میں  آج بڑے بڑے انشاپرداز موجود ہیں  جو اپنے اپنے مخصوص دائرہ مضمون کے حکمران ہیں ۔ لیکن ان میں  سے ایک شخص بھی نہیں  جو سرسید کے بار احسان سے گردن اٹھا سکتا ہو بعض بالکل ان کے دامن ترتیب میں  پلے ہیں ۔” 12

علی گڑھ تحریک کو ترقی دینے میں  سرسید کے اہم معاصرین محمد حسین آزاد، الطاف حسین حالی، نذیر احمد اور شبلی نعمانی کی ادبی و علمی خدمات کا بہت بڑا دخل رہا ہے، سرسید سے نذیر احمد اور شبلی نعمانی کچھ معاملات میں  فکری اعتبار سے قدرے مختلف تھے، اس کے باوجود نذیر احمد، شبلی اور حالی کی اکثر نگارشات، مسلم معاشرے کی اصلاح کی ترجمان ہیں ۔

مولانا الطاف حسین حالی سرسید احمد سے غیرمعمولی طور پر متاثر تھے، سرسید سے قربت کا نتیجہ تھا کہ انھوں  نے ‘حیات جاوید’ لکھ کر اردو میں  سوانح نگاری کا آغاز کیا۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ سرسید جیسے اہم دانشور ادیب نے ہندوستانی معاشرے میں  عورتوں  کے مسائل پر زور نہیں  دیا ہے جس زمانے میں  مسلم عورتوں  کو گھر کی چہاردیواری میں  مقید رکھا جاتا تھا لیکن اس حقیقت کا  اظہار ضروری ہے کہ سرسید نے لندن کے سفرنامے میں  ایک انگریزعورت سے انگریزی میں  گفتگو کرکے بہت متاثر ہوئے اور انھوں  نے خواہش ظاہر کی تھی اے کاش ہمارے ملک (ہندوستان) میں  بھی اس طرح سے خواتین انگریزی تعلیم حاصل کرتیں ، لیکن سرسید نے عملی طور پر ہندوستانی معاشرے میں  مسلم عورتوں  کے مسائل کا حل نکالنے کی کوشش نہیں  کی ہے ان کے برخلاف مولانا الطاف حسین حالی اور مولوی نذیر احمد نے مسلم عورتوں  کے مسائل کو اہم موضوع بنایا ہے ان دونوں  ادیبوں  نے عورتوں  کی تعلیم و تربیت پر زیادہ زور دیا ہے۔ حالی کی نثری نگارشات کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ بغیر عورتوں  کی تعلیم و تربیت کے معاشرے کی تہذیب و ترقی نہیں  ہوسکتی۔ حالی کی شعری اور نثری نگارشات میں  یادگار غالب، حیات سعدی، حیاتِ جاوید، مقدمہ شعر و شاعری، مجالس النسائ، مسدس، چپ کی داد، مناجات بیوہ وغیرہ کو اردو ادب میں  بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔

مولانا شبلی نعمانی بھی علی گڑ تحریک کے اولین معماروں  میں  شمار ہوتے ہیں ۔ انھوں  نے سرسید احمد خاں  کی تعریف میں  ایک عربی قصیدہ بھی لکھا تھا، شبلی سیاسی نقطۂ نظر سے سرسید کے مخالف تھے اور تاحیات کانگریس کی حمایت کرتے رہے، انھوں  نے سرسید احمد خاں  سے بہت کچھ استفادہ کیا ہے، سرسید کی تحریک پر عمل کرتے ہوئے تاریخ اسلام کا مطالعہ نئے زاویہ سے کرنا شروع کیا اور اس میں  اپنی انفرادیت قائم کرلی، شبلی کی نگارشات میں  المامون، الفاروق، الغزالی، سیرة النعمان، سوانح مولانا روم، موازنہ انیس و دبیر، سفرنامہ روم و مصر و شام، مقالات شبلی، مکاتیب شبلی وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ شبلی نعمانی سرسید سے بہت زیادہ قریب تھے۔ انھوں  نے ذاتی طور پر سرسید سے بہت استفادہ کیا لیکن انھوں  نے سرسید کے تمام نظریات کو آنکھ موند کر قبول نہیں  کیا۔ شبلی ایک آزاد خیال ادیب تھے، انھوں  نے حریت نسواں  پر زور دیا ہے شبلی کاخیال تھا اسلام واحد مذہب ہے جہاں  عورتوں  کو مساوی حقوق دیے گئے ہیں  لیکن ہندوستان میں  عورتوں  کو وہ مساوی حقوق نہیں  دیے گئے جس پر اسلام نے زور دیا ہے اس ضمن میں  ایک اقتباس نقل کرتا ہوں  جس سے شبلی کی آزاد خیالی کا پتہ چلتا ہے:

”شبلی کی خواہش تھی کہ مسلم عورتوں  کو ان مضامین کے علاوہ جو مرد بھی اختیار کرتے ہیں  فن موسیقی اور پرورش اولاد کی تعلیم بھی دینی چاہیے…. شبلی مسلم عورتوں  کو گھر کی چار دیواری کے اندر مقید کرنا نہیں  چاہتے تھے۔” 13

سرسید احمد خان کے اہم رفیق نذیر احمد تھے، نذیر احمد نے علی گڑھ تحریک سے وابستہ ہونے کے باوجود یہ محسوس کیا کہ سرسید تحریک پر مغرب پسندی حد سے زیادہ بڑھ رہی ہے اس دوراندیش ادیب نے سیاسی اور مذہبی معاملات میں  سرسید کی کھل کر مخالفت نہیں  کی، البتہ انھوں  نے اپنی تخلیقات کے ذریعے اپنے ردعمل کا اظہار ضرور کیا ہے، ان کایہ ردعمل ان کے ناول ‘ابن الوقت’ اور ‘رویائے صادقہ’ میں  واضح ہے، نذیر احمد مغربی تہذیب سے تو متاثر نہیں  ہوئے تھے لیکن انگریزی تعلیم پر بہت زور دیتے تھے، نذیر احمد، سرسید احمد خاں  کی سیاسی بصیرت کا اعتراف کرتے تھے اور تاحیات سرسید کے شانہ بشانہ رہے، پروفیسر شجاع الدین زیبا رقمطرازہیں :

”سرسید اور مولوی نذیر احمد کے سیاسی نظریات میں  کامل ہم آہنگی تھی۔ سرسید کی طرح مولوی نذیر احمد کو بھی 1857 کی ناکام جنگِ آزادی کے نتائج و عواقب کا پورا پورا احساس تھا جو مسلمان قوم کو من حیث المجموع بھگتنے پڑرہے تھے۔ بجنور اور اس کے بعد ضلع مراد آباد کے مسلمانوں  کو باغیانہ سرگرمیوں  کے الزام میں  جو سختیاں  سہنی پڑیں  سرسید نے انھیں  اپنی آنکھوں  سے دیکھا تھا سرسید نے بے بس اور مجبور مسلمانوں  کو حکومت کے پنجہ عقوبت سے بچانے میں  اور انگریز حاکمان وقت کی بے رحمانہ انتقامی کارروائیوں  سے نجات دلانے میں  جو عملی ہمدردی اور بے غرضانہ کوششیں  کیں  مولوی نذیر احمد کے علم میں  تھیں  انھیں  یقین تھا کہ سرسید مسلمانوں  کے سچے ہمدرد اور بہی خواہ ہیں ، انھیں  سرسید کی سیاسی بصیرت پر پختہ ایمان تھا 1881 میں  جب مولوی نذیر احمد ابھی حیدرآباد میں  تھے سرسید کی یادگار قائم کرنے کی تحریک علی گڑھ سے اٹھی۔” 14

یہ بات پہلے ہی گزر چکی ہے کہ نذیر احمد بعض مذہبی امور میں  سرسید سے بالکل اتفاق نہیں  کرتے تھے، مولوی نذیر احمد نے مذہب کے بالمقابل عقل کو مسترد کردیا ہے،توحید پر ان کا عقیدہ اتنا پختہ تھا کہ وہ ہرگزنہیں  برداشت کرتے تھے کہ مذہب اسلام کی تعبیر و تشریح عقل، سائنس اور مغربی علوم کو مدنظر رکھ کر کی جائے، ان کا ماننا تھا کہ مذہب اور سائنس کے مابین مطابقت نہیں  ہوسکتی ہے۔ ان کا خیال تھا سائنس اور عقل کی بنیاد تجربے اور مشاہدے پر ہے جب کہ مذہب کی بنیاد صرف عقائد پر ہے۔

نذیر احمد نے اصلاح معاشرہ پر زور دیا ہے ان کی نگارشات مرآة العروس، بنات النعش، فسانہ مبتلا، رویائے صادقہ وغیرہ مسلم معاشرے کی تہذیب و ثقافت، مسلم عورتوں  کے مسائل اور مسلم خواتین کی تعلیم و تربیت کی ترجمان ہیں ۔ نذیر احمد کے یہاں  مرد سماجی اعتبار سے عورت سے افضل ہے۔ انھوں  نے اس معاملے میں  ہندوستانی فرسودہ خیالات کو جگہ دی ہے جو ہندوستانی معاشرے میں  رائج ہیں ۔ نذیر احمد کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مردوں  کو قوام بنا کر پیدا کیا ہے اسی لیے یہ عورتوں  سے افضل ہیں ، انھو ں نے مسلم معاشرے میں  مردوں  کی افضلیت اور برتری کے لیے ایسی احادیث کو پیش کیا ہے جس سے ان کے فرسودہ خیالات کا پتہ چلتا ہے، شبلی نعمانی کی طرح نذیر احمد حریت نسواں  کے قائل نہیں  تھے۔ نذیر احمد نے کٹر مذہبی ہونے کے باوجود سرسید تحریک کے ایک مخصوص مشن کو عملی جامہ پہنایا۔ نذیر احمد کا وہ کارنامہ یہ ہے کہ انھوں  نے اپنی تقاریر سے علی گڑھ تحریک کو سماجی اور اقتصادی طور پر بہت فائدہ پہنچایا اور کالج کو مضبوط و مستحکم بنانے میں  ان کا اہم رول رہا ہے۔ نذیراحمد نے علی گڑھ تحریک کے ادبی مشن کو ارتقائی منزل پر پہنچانے میں  اہم رول ادا کیا ہے۔ ان کی تصانیف تقاریر گرانقدر اضافے کی حیثیت رکھتی ہیں ، اردو نثر نگاری میں  ایک نیا اسلوب دیا، نذیر احمد نے دینی کتابوں  سے اور تراجم سے علی گڑھ تحریک کو تقویت دی ہے، اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ نذیر احمد کی مذہبی کتابیں ، الحقوق والفرائض، اجتہاد، ادعیہ القرآن و سورہ، امہات الامہ، مطالب القرآن، وغیرہ کی اہمیت مسلم ہے۔ اشفاق احمد اعظمی نے ان کی کاوشوں  کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

”نذیر احمد کی دینی کتب اور عربی تراجم بھی بے حد اہم ہیں ۔ انھوں  نے قرآن شریف کا ادبی ترجمہ کیا ور اس میں  قرآن شریف کی ادبی دلکشی کو اردو زبان کے قالب میں  ڈھالنے کی شعوری کوشش کی۔ علی گڑھ تحریک کے کسی رکن نے قرآن کا ترجمہ نہیں  کیا۔ سرسید نے خود اس کا ترجمہ کیا تھا مگر وہ زیادہ کامیاب نہیں  ہوا لیکن نذیر احمد کا یہ ترجمہ اس قدر مشہور ہوا کہ ان کی زندگی ہی میں  اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے۔  علی گڑھ تحریک کی اس کمی کو نذیر احمد نے ہی پوری کیا۔” 15

نذیر احمد نے علی گڑھ تحریک کو اپنی تقریروں  اور تحریروں  سے بہت تقویت بخشی اور سرسید کو ان کی پیہم کوشش سے بہت فائدہ ہوا۔

افسوس کہ نذیر احمد کی زندگی کے آخری ایام زیادہ خوشگوار نہیں  رہے۔ ان کو اس وقت زبردست جھٹکا لگا جب انھوں  نے 1908 میں  ازدواج رسول کے حالات زندگی پر ایک کتاب ‘امہات الامہ’ لکھی۔ اس کتاب میں  کچھ ایسی تحریریں  تھیں  جو ازواج مطہرات کی نفی کرتی تھیں  اور نذیر احمد کا یہ فعل شعوری طور پر نہیں  تھا ان کے حریفوں  نے کچھ جملے ادھر اُدھر کرکے اور محاورے سے پیچیدہ مسائل کو ابھارا جس کی وجہ سے اس دور میں  نذیر احمد کی پرزور مخالفت شروع ہوگئی اور ان پر کفر کا فتویٰ دینے سے بھی تامل نہیں  کیاگیا، پروفیسر شجاع احمد زیبا لکھتے ہیں :

”امہات الامہ کے ہنگامے کے بعد مولوی نذیر احمد بالکل بجھ کر رہ گئے تھے اول تو وہ ضعف و کہولت میں  مبتلا اوپر سے زندگی بھر کی تصنیفی سرگرمیوں  کا یہ رسواکن انجام، ان کا دل پبلک لائف سے پہلے ہی سرد ہوچکا تھا اب وہ طرزتپاک ‘اہل  دنیا’ سے بالکل ہی بے زار ہوگئے انھوں  نے اپنی طویل زندگی میں  بڑی بڑی کامیابیاں  حاصل کی تھیں ۔ مال و دولت کی بھی اُن کے پاس کمی نہ تھی۔لیکن 3 مئی 1912 کو جب وہ اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے تو اپنے ساتھ ایک مجروح روح اور ایک شکستہ دل لے کر بارگاہِ ستار الغیوب میں  حاضر ہوئے۔ اپنی ‘کفریات’ کے باوجود سرسید کو اس درجہ خطرناک اور جان لیوا صورت حال کا کبھی سامنا نہیں  ہوا جو مولوی نذیر احمد کو پیش آئی۔” 16

سرسید کے اہم رفقاء الطاف حسین حالی، مولانا محمد حسین آزاد، شبلی نعمانی، مولوی نذیر احمد، نواب محسن الملک اور چراغ دہلوی وغیرہ نے سرسید تحریک کو ترقی کی منزل پر لاکھر کھڑا کیا تھا۔ یہ اہم رفقاء بعض معاملات میں  مخالفت کے باوجود سرسید کی کاوشوں  کو سراہتے تھے، علی گڑھ تحریک کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ آخری وقت میں  سرسید کے اہم مخالفین نے سرسیدکی کاوشوں  کا اعتراف کیا اور اکبر الہ آبادی جیسا شاعر یہ کہنے پر مجبور ہوگیا

ہماری باتیں  ہی باتیں  ہیں  سید کام کرتا تھا

نہ بھولو فرق جو ہے کہنے والے کرنے والے میں

کہے جو چاہے کوئی میں  تو یہ کہتا ہوں  اے اکبر

خدا بخشے بہت سی خوبیاں  تھیں  مرنے والے میں

                                    (اکبرالٰہ آبادی)

m

حواشی:

(1)        ڈاکٹر اشفاق احمد اعظمی: نذیر احمد شخصیت اور کارنامے،  نظامی پریس، لکھنؤ اشاعت اوّل 1974، ص 39-40

(2)        پروفیسر خلیق انجم: سر سید اور علی گڑھ تحریک،  ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، ایڈیشن 1982، حسن دیباچہ

(3)        مظہر حسین: علی گڑھ تحریک سماجی اور سیاسی مطالعہ، انجمن ترقی اردو (ہند) نئی دلی، اشاعت دوم 2002، ص 37

(4)        ڈاکٹر انورسدید:اردو ادب کی تحریکیں  ابتدا تا 1975،  کتابی دنیا دہلی، 2004، ص 312

(5)        نورالحسن نقوی: سرسید اور ہندوستانی مسلمان، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، اشاعت اوّل 1979، ص 80

(6)        مظہر حسین: علی گڑھ تحریک سماجی اور سیاسی مطالعہ، انجمن ترقی ادو (ہند) نئی دلی، 2002، ص 130

(7)        پروفیسر خلیق احمد نظامی: بحوالہ سرسید اور علی گڑھ تحریک، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ 1982، ص 66

(8)        ایضاً، ص 70

(9)        انور سدید:بحوالہ اردو ادب کی تحریکیں ، کتابی دنیا، دہلی، اول، 2004، ص 304-305

(10)      عبدالحق:بحوالہ سرسید احمد خان حالات و افکار، اردو مرکز اردو بازار دہلی 1960، ص 70

(11)      ڈاکٹر منظر اعظمی: اردو ادب کے ارتقا میں  ادبی تحریکوں  اور رجحانوں  کا حصہ، اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، 1996، ص 221

(12)      عبدالحق: مطالعہ سرسیداحمد خاں ، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، ایڈیشن 2001، ص 9

(13)      مظہر مہدی: مسلم معاشرے کی تشکیل نو، ذاکر حسین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی،1996، ص 126-127

(14)      پروفیسر شجاع احمد زیبا:مولوی نذیر احمد: علی گڑھ تحریک، مکتبہ اسلوب کراچی، 1987، ص 125

(15)      اشفاق احمداعظمی: نذیر احمد شخصیت اور کارنامے،  نظامی پریس لکھنؤ 1974، ص 78

(16)      پروفیسر احمد شجاع زیبا: مولوی نذیر احمد اور علی گڑھ تحریک، مکتبہ اسلوب کراچی، 1987، ص 168

Leave a Reply

3 Comments on "علی گڑھ تحریک : ایک مطالعہ
"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] علی گڑھ تحریک : ایک مطالعہ […]

Mohammad Raghib
Guest
اس مضمون کے لے شکریہ
عفت طاہرہ
Guest
ماشاءاللہ نہایت عمدہ تحقیق اللّہ قبول کر ے
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.