اردو افسانے پر جدید یت کے اثرات
نجیب الرحمان
ریسرچ اسکالر ، شعبۂ اردو ، دہلی یونی ورسٹی
احساسات کو لفظوں کا جامہ پہنانے کو ادب کہتے ہیں۔ ادب کا سماج سے گہرا رشتہ ہے بلکہ صحیح معنوں میں وہی ادب عظیم کہلانے کا مستحق ہے جس کی روح عصری تقاضوں کے مغایر نہ ہو، جو اپنے عہد کے سیاسی ، سماجی، معاشرتی ، تہذیبی اور فکری میلانات کا عکس جمیل ہو۔ جدید ادب پر یہ بات زیادہ صادق آتی ہے۔ دراصل جدیددور نظریاتی دور ہے۔ آج کا ہر قلم کار یا تو کسی مکتب فکر سے وابستہ ہے یہ کسی ادبی نظریہ اور تھیوری کا حامی ہے۔ اسی نظریاتی وابستگی کے نتیجے میں تحریک یا رجحان کا وجود عمل میں آیا۔
تحریکیں ادب کو غذا فراہم کرنے کا فریضہ انجام دیتی ہیں۔ دنیا کا ہر ادب کسی نہ کسی تحریک کے زیر اثر پروان چڑھا ہے، بالخصوص اردو ادب کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو اردو ادب نے اپنے آغاز سے لے کر عہد حاضر تک کسی نہ کسی تحریک یا رجحان کے کاندھے پر سوار ہو کر سفر طے کیا ہے۔ صوفیا کی تحریک، ایہام گوئی کی تحریک، اصلاح زبان کی تحریک، فورٹ ولیم کاج کی تحریک ، علی گڑھ تحریک، ادب لطیف کی تحریک، ترقی پسند تحریک، جدیدیت اور مابعد جدید تحریک۔ ان تمام تحریکوں نے ادب کو قوت و عظمت سے ہمکنار کیا ہے۔ قدیم تحریکوں کے مقابلے میں بیسویں صدی کی جدید تحریکیں زیادہ فعال اور کار گرثابت ہوئیں۔ ادب میں انقلابی تبدیلیوں کی وجہ بنیں اور ادب کو زندگی کے قریب ترلا کر اس کو تفسیر حیات بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ کیونکہ جدید عہد نظریاتی، افادی اور مقصدی کہلاتا ہے۔ چنانچہ جدید دور میں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ مقصدیت اور تحریکی شعور کے بغیر تخلیق کیے گئے ادب میں قوت وعظمت پیدا نہیں ہوتی۔
بیسویں صدی کی ادبی تحریکوں میں جدیدیت کی تحریک کا شمارفعال تحریکوں میں ہوتا ہے۔ جدیدیت ایک ادبی اصطلاح ہے جو عربی زبان کے لفظ جدید سے مشتق ہے جس کا معنی نیا ہے نیز جدید، قدیم کا متضاد لفظ بھی ہے۔ ادب میں جدیدیت کے کئی معنی بیان کیے گئے ہیں۔ بغاوت، معاصرت، انفرادیت، نئی معنویت ، اجتہاد اور آزادہ روی ۔
در اصل جدیدیت ایک ایسی ادبی اصطلاح ہے جس کو کسی ایک زاویے سے نہیں بیان کیا جاسکتا بلکہ اس میں ہمہ گیریت اور تنوع ہے جس میں بہت سے زاویے مل کر عصری تقاضوں کے تابع ہو کر اپنی پہچان کراتے ہیں۔ اردو ادب میں یہ اصطلاح دو طرح سے استعمال ہوتی ہے۔ ایک ۱۸۵۷ء کے بعد ہونے والی ہر ادبی وثقافتی تبدیلی پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ دوسرے اس ادب پر اس کا اطلاق ہوتا ہے جو ساتھ کی دہائی میں اپنی واضح خدوخال کے ساتھ نمودار ہوا اور جس کے پس پردہ فلسفۂ موجودیت کار فرما ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا رقم طراز ہیں:
’’جدید ہر دور میں ابھرتی ہے جو علمی انکشافات کے اعتبار سے ہنگامہ خیز اور روایات ورسوم کی جکڑ بندیوں کے باعث رجعت پسند ہوتا ہے۔ کسی بھی زمانے میں اہل فن کی مشترکہ کوشش جو اجتہاد اور تخلیقی برا نگیختگی اور احساس کے کرب سے عبارت ہوتی ہے جدیدیت کا نام پاتی ہے۔ علاوہ ازیں جدیدیت میں سماجی روحانی ارتقاء، تہذیبی نکھار اور تخلیقی سطح بھی شامل ہے۔‘‘(ڈاکٹر وزیر آغا ، نئے مقالات،ص:۴۱)
اردو میں جدیدیت کے آغاز کا تعین مشکل امر ہے کیونکہ افکار وخیالات یکا یک کسی عہد پر حاوی نہیں ہوتے بلکہ ان کی ایک تاریخ ہوتی ہے جس میں وہ گاہے بگاہے ظاہر ہوتے رہتے ہیں اور جب تک وہ اپنی الگ شناخت قائم نہ کرلیں اس وقت تک ان کو پہنچاننا ایک پیچیدہ عمل ہے۔ اردو میں جدیدیت کا رجحان آزادی کے بعد ۶۰ کی دہائی میں سامنے آیا۔ اس کا ظہور ترقی پسند تحریک کے برخلاف غیر طے شدہ منصوبے کے تحت مسلسل تدریجی عمل کے ذریعہ وجود میں آیا ۔ اردو میں جدیدیت کے کئی محرکات ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد کی سماجی وسیاسی حالات عالمی منظر نامہ اور علمی وادبی صورت حال جو جدیدیت کو سامنے لانے میں معاون ثابت ہوئے۔
ہر تحریک ایک مخصوص عہد کے سیاسی، سماجی، تہذیبی ، ثقافتی اور ادبی اثرات سے تشکیل پاتی ہے۔ اردو ادب میں جدیدیت بھی تقسیم ہند کے بعد نمودار ہونے والے نئے ہنگامی سیاسی، سماجی، تہذیبی ، ثقافتی اور ادبی حالات کی پیداوار ہے۔۱۹۴۷ء کے بعد یکایک حالات نے پلٹا کھایا۔ برصغیر دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ آگ اور خون کی ہولیاں کھیلی گئیں۔ سیاسی ، سماجی اور تعلیمی نظام بدلا، تہذیبی وثقافتی اقدار ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئیں الغرض حالات ناگفتہ بہ ہوگئے۔ آزادی سے قبل ترقی پسند تحریک کے ادبا ایک طرف حقیقت نگاری واشتراکی فکر کا حامل ادب تخلیق کر رہے تھے تو حلقۂ ارباب ذوق اجتماعی مقاصد ومفادتات اور منصوبہ بند ادب تخلیق کرنے کے بجائے انفرادی احساسات وخیالات اور ادب کے فنی تقاضوں کو اہمیت دے رہا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد ترقی پسند تحریک بھی کمزور ہو کر تعطل کا شکار ہوگئی اور حلقۂ ارباب ذوق بھی گروہ بندی کی نظر ہوگیا جس کی وجہ سے اس کی سرگرمی متاثر ہوئی ان دونوں تحریکوں کی گرفت کمزور ہوتے ہی جدیدیت کو بآسانی پھلنے پھولنے کا موقع مل گیا۔ ادبی سطح پر بھی اس عہد کی ادبی فضا میں یکسانیت کے آثار نمایاں ہیں ۔ دراصل تقسیم کے بعد فساداہم موضوع بن کر سامنے آیا جس پر اس وقت کے ہر چھوٹے بڑے نئے پرانے ادیب نے طبع آزمائی کی۔ یہ موضوع اس قدر استعمال ہوا کہ اپنی تازگی اور ندرت کھو بیٹھا اور ادب میں یکسانیت کی فضا اور جمود طاری ہونے کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ حسن عسکری نے اس عہد کو ادب کی موت قرار دیا تو مولانا صلاح الدین نے یہ اعلان کردیا کہ افسانے کا عہد زریں ختم ہو چکا اور اب معیاری افسانے نہیں لکھے جا رہے۔
یو ں تو جدیدیت نے تمام اصناف ادب کو متاثر کیا ہے لیکن افسانہ خاص تو جہ کا مرکز رہا ہے۔ افسانہ اردو کی نووارد صنف ہے جو بیسویں صدی میں مغربی ادب کے حوالے سے اردو میں وارد ہوا افسانہ مقبول ترین صنف ہے اور ادب لطیف ، ترقی پسند تحریک ،حلقۂ ارباب ذوق اور جدیدیت کے افکار وخیالات کی جولان گاہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریکات کے اثرات افسانے میں جا بجا بکھرے ہوئے ہیں۔ ادب لطیف کے ذریعہ رومان، تخیل نازک خیال، اسلوب نگارش سے افسانے کو مزین کیا گیا تو ترقی پسندوں نے اسے سماجی حقیقت نگاری اور خارجی زندگی کے نشیب وفراز کی ترجمانی کا وسیلۂ اظہار بنا یا۔ حلقۂ ارباب ذوق نے فرد کی داخلی زندگی اس کی نفسیاتی وجنسیاتی الجھنوں کو پرویا اور جدیدیت کی تحریک نے افسانے کی ظاہری شکل وصورت بدلی، اسلوب، تکنیکی اور اظہار میں ایک نئی روایت کا آغاز کیا۔
ہندو پاک میں جدیدیت کے علمبرداروں میں میراں جی، ن۔م راشد، شمس الرحمان فاروقی، وحیداختر، مجید امجد، شکیب، عمیق حنفی، بلرام کومل، کمار پاسی، خلیل الرحمن، آل احمد سرور، قاضی سلیم نے اس کی فلسفیانہ افہام و تفہیم اور احساس و ادراک کو عام کیا، علاوہ ازیں ناصر کاظمی، ظفر اقبال، منیر نیازی ،شکیب جلالی، احمد فراز، افتخار جالب، مخمور سعیدی وغیرہ نے تخلیقی سطح پر جدیدیت کے عناصر کو فکری وفلسفیانہ احساس کے ساتھ پیش کیا ہے۔ افسانہ میں جدیدیت کی خصوصیات کو برتنے میں انتظار حسین، انور سجاد، منشادیاد، خالدہ حسین، سریندر پرکاش ،بلراج مین را، احمد ہمیش ، رام لعل، شوکت حیات، انور خان ، قمر احسن، سلام بن رازق ، عابد سہیل اور غیاث احمد گدی کے نام اہم ہیں۔
ادب اور فلسفہ میں قرابت داری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر زمانے کے ادب پر کسی نہ کسی فلسفے کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔ ترقی پسند تحریک میں اشتراکی فلسفہ کا غلبہ تھا جبکہ جدیدیت میں فلسفہ موجودیت کے عناصر کی چھاپ ہے۔فسلفہ ٔ موجودیت کی ابتداء ڈنمارک کے فلسفی کیرکیگارڈ کے افکار وخیالات سے ہوئی۔ بعد ازیں ۵۰۔۱۹۴۵ء کے درمیانی عرصہ میں فرانسیسی فلسفیوں ژال پال سار تر، سیمون دی بواوار اور الیرٹ کاموس نے اس نظام فلسفہ کی تشکیل کی اور اس کے خدوخال کو واضح کیا۔ در اصل موجودیت کا فلسفہ مغرب میں اس ذہنی انتشار کی پیدا وار ہے جو مشینی ترقی اور مادیت پرستی کی بدولت وجود میں آیا ۔ وہ خوفناک عالمی جنگیں، غربت اقتصادی مسائل مہملیت، بے چہرگی، بے قدری، بے وجودی جیسے مسائل نے مجموعی طور پر یاسیت، جبریت، ناامیدی کو جنم دیا۔ فلسفۂ موجودیت اس صورت حال میں ذات کے عرفان اور فردیت کے ثابت کی ایک کوشش ہے۔بقول ڈاکٹر سی اے قادر:
’’ وجودیت کا ظہور تاریخ کے ایک ایسے دور میں ہوا جب ہر طرف سے فرد کی فردیت پر حملے ہو رہے تھے ۔ انسان کو معروض بنایا دیا گیا تھا اور جبریت کا دور دورہ تھا۔ مادیت اور مطلق تصوریت نے انسان کا دائرہ تنگ کر دیاتھا اور اسے مجبور و مقہور زندگی دے رکھی تھی۔‘‘(ڈاکٹر سی اے قادر ، فلسفۂ جدید اور اس کے دبستان،ص:۱۱۸)
جدیدیت کے تحت صنف افسانہ میں جو تبدیلیاں واقع ہوئیں وہ فکری فنی اور موضوعاتی حوالوں سے ہیں۔ جدیدیت نے افسانے کی ظاہری شکل وصورت ہی بدل کر رکھ دی اور ہیئت ، اسلوب ، تکنیک اور اظہار میں نئی روایت کا آغاز ہوا۔ فنی اعتبار سے جدید افسانے میں جوفرق وقع ہوا ان میں سے ایک پلاٹ کا خاتمہ ہے۔ پلاٹ کی بحث بہت قدیم ہے اس کی ابتدا ارسطوں سے ہوئی۔ پلاٹ سے مراد واقعات کی ایسی ترتیب ہے جس میں بالترتیب آغاز ، وسط اور انجام ہو، ترقی پسند عہد تک افسانے میں پلاٹ کو مرکزی اہمیت خالص تھی۔ جدید افسانہ نگاروں نے افسانے کی قدیم روش سے انحراف شروع کیا اور مروجہ اصول وضوابط کی دیواریں منہدم کردیں۔ پلاٹ، کردار نگاری ودیگر لوازمات سے رو گردانی کی اور محض اختصار اور تاثر کو افسانے کے لیے لازمی قرار دیا۔ جدید افسانہ نگاروں کی روایتی قصہ کہانیوں سے انحراف کی وجہ یہ ہے کہ جدید دور میں انسانی زندگی ہی مربوط نہیں لہٰذا افسانے میں اس کی تلاش عبث ہے۔اس سلسلے میں علی حیدر ملک رقمطراز ہیں:
’’ ہمارے اور ہمارے بیشتر ہم عصروں کے نزدیک افسانویت ، عنصر زیادہ جوہر یا روح کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر کسی افسانے میں پلاٹ نہیں ہے تو اس کا مطلب لازمی طور پر یہ نہیں کہ اس میں افسانویت بھی موجود نہیں ہے۔ اسی طرح کسی افسانے میں پلاٹ موجود ہے تو یہ سمجھ لینا کہ اس میں یقینی طور پر افسانویت بھی موجود ہے سراسر کم ذوقی کی دلیل ہے۔‘‘ (علی حیدر ملک ،افسانہ اور علامتی افسانہ،ص:۸۴)
علامتیت، شعریت تجریدیت، اساطیریت جدید افسانے کی بنیادی عناصر قرار پاتے ہیں ۔ جس کے ارد گرد جدید افسانہ گردش کرتا ہے جدیدیت کے نقطۂ نظر کو جن افسانہ نگاروں نے بحسن خوبی برتا ہے ان میں انتظار حسین پیش پیش ہیں انتظار حسین ماضی کی غواصی پر زیادہ توجہ دیتی ہیں ۔ انہوں نے داستانوں اور ہندو دیو مالاؤں سے اپنا رشتہ استوار کیا۔ مشرقی قصہ کہانیوں کی روایات سے علامتیں اخذ کیں، مذہبی وتاریخی قصے قوموں کے عروج وزوال اور تہذیبوں کی شکست وریخت ان کی علامتی نظام کے بنیادی دھارے ہیں۔ انہوں نے قدیم ادبی روایات کو اپنے معاشرتی شعور سے آہنگ کیا۔ اس کا اسلوب بیان اگرچہ علامتی وتمثیلی ہے لیکن ماہرانہ پیش کش وتجربے کی شدت حقیقت وعلامت کی دوری کو ختم کردیتی ہے۔’’زرد کتا‘‘ اور’’آخری آدمی‘‘ اس کی واضح مثال ہیں۔ یہ افسانے انسان کے اخلاقی’ مذہبی و تہذیبی انحطاط کی علامت اور زوال کی کہانیاں ہیں۔ انور سجاد، رشید امجد، بلراج مین را، سریندر پرکاش وغیرہ نے بھی عمدہ علامتی کہانیاں تحریر کی ہیں۔ سریندر پرکاش کا افسانہ’’ دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘‘ اردو کا اہم علامتی افسانہ ہے۔ ڈرائنگ روم اس دور کا جدید معاشرہ ہے جس میں ہمارے معاشرے کی بیگانگی کو جامہ پہنایا ہے ان کا افسانہ’’ بن باس‘‘ داستانوی پس منظر میں لکھا گیا ہے اور ہمارے دور کی اخلاقی قدروں کا زوال، انتشار، تہذیبی انحطاط کے باعث معاشرے میں رو نما ہونے والی تبدیلیوں اور بحران کی علامتوں کے سہارے عکاسی کی گئی ہے۔
تجریدیت جدید افسانے کی ایک خصوصیت ہے۔ اردو میں تجریدیت بھی مغرب کی دین ہے اور جدید علم نفسیات سے متاثر اردو افسانے کا مقبول رجحان بھی۔ جدید افسانے میں واقعات کو حقیقی شکل میں نہیں پیش کیا جاتا بلکہ افسانہ نگار فن کے مروجہ اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے اس صورت حال کی عکاسی کرتا ہے جو اس کے لاشعور میں ظاہر ہوتی ہے۔ افسانہ نگار جن احساسات کو اپنی تخلیق میں جگہ دیتا ہے وہ بظاہر تو غیر مربوط، بے ہنگم و منتشر نظر آتے ہیں مگر غور وفکر کے بعد ان میں نظم وضبط اور تسلسل کا ارتقا نظر آتا ہے۔ تجریدی افسانے میں ابہام وتہہ داری بہت ہوتی ہے۔ کیونکہ کسی کے لاشعوری تک رسائی عام قاری کے لیے مشکل ہے۔ اس ضمن میں انور سجاد کا افسانہ،’’پرندے کی کہانی‘‘ احمد جاوید کا افسانہ ’’اشرفیاں‘‘ کمار پاسی کا افسانہ’’اس کی تلاش‘‘ شفق کا افسانہ’’ آزاد بستی‘‘ تجریدیت کی تکنیک میں لکھے گئے اہم افسانے ہیں۔ انور سجاد سے تجریدیت سے بھر پور استفادہ کیا ہے۔ ان کے اکثر افسانے پلاٹ سازی ماحول بندی اور مکالمہ نگاری کے روایتی بندشوں سے آزاد ہوتے ہیں۔ وہ اساطیری، داستانی، دیومالائی، حکایتی اور ملفوظاتی انداز بیان سے بھی کام لینے کی کوشش کرتے بلکہ بیمار وزندہ ذہنی شعور سے افسانہ کا تانا بانا تیار کرتے ہیں اور زیادہ تر شعور کی رو، آزاد تلازمۂ خیال وخوابوں کی تکنیک کو استعمال میں لاتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں عصری ظلم وجبر، فرد کی محرومی، خوف کا احساس، اکیلاپن، اجنبیت اور قدروں کی زوال استعاراتی وتجریدی اسلوب میں جا بجا بکھری ہوئی ہیں۔’’ سیاہ رات‘‘،’’ چھٹی کا دن‘‘،’’ سونے کی تلاش‘‘،’’ پرندے کی کہانی‘‘، ’’روانگی‘‘ اور ’’کیکر‘‘ ان کے چند مشہور افسانے ہیں۔ اس حوالے سے رشید امجد کا نام بھی اہمیت کا حامل ہے۔ ان کے افسانے میں بھی تجریدی وعلامتی ہیں۔ واقعہ کے بجائے خیال سے کہانی تیار کرتے ہیں۔ بے نام کردار اور واحد متکلم کی تکنیک سے کام لیتے ہیں۔ اسلوبیاتی سطح پر شعری زبان استعمال کرتے ہیں۔ ’’ قطرہ سمندر قطرہ‘‘، ’’ عکس تماشا عکس‘‘، ’’ سمندر مجھے بلاتا ہے‘‘ اور’’ گمشدہ آواز کی دستک ‘‘ اس سلسلے میں چند مثالیں ہیں۔
جدید افسانے میں صرف ہیئت ، تکنیک اور اسلوب کی تبدیلی اہم نہیں ہے بلکہ موضوعاتی تبدیلی بھی قابل غور ہے۔ ترقی پسند ا فسانہ میں سماجی و سیاسی مسائل کی ترجمانی ہوتی تھی اور زندگی کے سنجیدہ، حقیقی، اجتماعی، ارضی و خارجی مسائل وغیرہ اہم موضوعات تھے۔ تقسیم کے بعد جب حالات نے پلٹا کھا یا تو نئے موضوعات سامنے آئے جن کو بیان کرنے کی خاطر ہیئت، تکنیک اور اسلوب میں تبدیلی آئی اور نئے نئے تجربات کیے گئے۔ ذات کا کرب ، وجود کی تلاش ، زندگی کی لغویت ، تنہائی، بے چہرگی،خوف کا احساس اور لاحاصلیت ایسے موضوعات ہیں جو تقسیم کے بعد ساٹھ کی دہائی میں وجودی فلسفے کے زیر اثر سامنے آئے۔ در حقیقت جدید افسانہ نگاروں کا کرب دوسری طرح کا تھا، سائنسی ترقی، مشینی وضعتی دور نے ان کا وجود مسخ کردیا تھا۔ وہ مشینوں کے غلام ہو گئے تھے ان کی ذاتی انفرادیت ختم ہوگئی تھی۔ عالمی جنگوں کے بعد بھی عالمی جنگوں کا خطرہ اور ہتھیاروں کی دوڑ کی وجہ سے ان کو اپنا مستقبل بھی غیر محفوظ نظر آ رہا تھا۔ تقسیم کے بعد فسادات کا لامتناہی سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ چین و سکون اور امن و امان کے آثار بظاہر معدوم تھے۔ آپسی خانہ جنگی و فرقہ واریت کے بادل منڈلا رہے تھے۔ عوام و خواص خوف و ہراس ، اضطراب ، تذبذب اور تشکیک میں مبتلا تھے۔ چنانچہ اس عہد کے افسانوں میںذات کا کرب، محرومی کا احساس ، بے حسی، تنہائی ، خوف ،انتشار ، لایعنیت ، مایوسی، بے چہرگی ، بے سمتی ، قدروں کا انہدام اور رشتوں کی شکست و ریخت جیسے موضوعات افسانے کا محور بنیں۔
جدید افسانہ نگاروں نے کہانی کے قدیم ڈھانچہ کو تہس نہس کیا اور اس کی جگہ نئی عمارات تعمیر کی خارجی حالات واقعات کو یکسر نظر ا نداز کرتے ہوئے ذاتی ، نفسیاتی اور داخلی موضوعات کو ترجیح دی۔ اسلوب بیان کی سطح پر وضاحتی اور بیانیہ پیرایۂ اظہار کے برخلاف علامتی ، تجریدی و شعری طرز اظہار کو عام کرنے کی کوشش کی۔ جدیدیت کے پرچم تلے بعض ایسے اہل قلم کار بھی تھے جو ادبی روایات و اقدار اور جمالیات سے کما حقہ واقف نہ ہونے کی وجہ سے اساطیری عناصر سے افسانے کو بوجھل بنا رہے تھے ان عناصر کی وجہ سے جدید افسانہ عام قاری سے محروم ہو کر نقاد کی نظر کرم کا محتاج ہو گیا جس کی باعث جدیدیت کا رجحان رفتہ رفتہ اپنی کشمکش ، تازگی، شگفتگی اور ندرت کھونے لگا۔ کوئی تحریک ہمہ وقتی نہیں ہوتی۔ جدیدیت کی تحریک بھی ۱۹۷۵ کے بعد بے اثر ہونے لگی اور تحلیل ہو کر ادبی و تخلیقی سر زمین میں اپنے بہت سے عناصر بو کر اپنی ذمہ داری سے دست بردار ہو گئی۔
حوالہ
فوزیہ اسلم۔ اردو افسانے میں اسلوب اور تکنیک کے تجربات ، پورب اکیڈمی اسلام آباد 2010
جمیل اختر محبی۔ فلسفۂ وجودیت اور جدید افسانہ ، ایجو کیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی 2002
انور سدید۔ اردو ادب کی تحریکیں، انجمن ترقی ا ردو پاکستان 1983
خلیل الرحمن اعظمی۔ اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک ، ایجوکیشنل بک ہائوس علی گڑھ 2007
شہزاد منظر ۔ علامتی افسانے کے ابلاغ کا مسئلہ ، منظر پبلیکیشنز ،کراچی 1990
انوار احمد۔ اردو افسانہ ایک صدی کا قصہ، نثار پبلشرز، فصیل آباد 2010
گوپی چند نارنگ( مرتب) انتظار حسین ا ور ان کے افسانے، ایجوکیشنل بک ہائوس علی گڑھ 1986
شمیم حنفی ۔ قاری سے مکالمہ ، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ ، نئی دہلی 1998
٭٭٭٭
Urdu Afsane par Jadeediyat ke asraat by Najeeb ur Rahman Khan
Leave a Reply
Be the First to Comment!