اردو صحافت پر ایک نظر
ڈاکٹر شیخ عمران
اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو ، وسنت رائو نائیک گورنمنٹ انسٹی ٹیوٹ آف آرٹس اینڈ سوشل سائنسز،ناگپور،مہاراشٹر
موبائل : 095454398**
صحافت یا جرنلزم حقائق سے راست طور پر آگاہی کا نام ہے۔صحافت کا انسانی زندگی سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔آج کے اس برق رفتار دور میںذرائع ابلاغ انسانی زندگی میں ایک لازمی حصہ کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ ہماری زندگی میں ایک ضرورت کی شکل میں شامل ہوچکا ہے۔انسانی زندگی کے تمام حواس اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔یہ صحافت کی ہی کرشمہ سازی ہے کہ پلک جھپکتے ہی کسی واقعہ یا حادثے کی خبرپوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔اور عمل اور رد عمل کا سلسلہ مسلسل چل پڑتا ہے۔اپنی اسی متاثر کن خاصیت کے سبب صحافت آج جمہوری نظام میں چوتھے ستون کا درجہ رکھتی ہے۔واقعات یا حقائق جاننے کا نام صحافت ہے۔سچائی اور انکشافات کا پتہ لگانا ہی صحافت ہے۔عوام کو سچائی اور تمام واقعات سے باخبر رکھنا صحافت ہے۔سچائی پر ہی صحافت کی تعمیر ہوتی ہے۔ وہ لفظ جسے ہم زبان اردو میں ’’صحافت کہتے ہیں در اصل عربی زبان کے لفظ ’’صحیفہ ‘‘ سے ماخوذ ہے۔جس کے لغوی معنی صفحہ،کتاب،رسالہ،ورق کے ہیں۔اپنے وقت مقررہ پر شائع ہونے والا مطبوعہ مواد بھی صحیفہ ہے۔لہذاجدید عربی معنی میں جریدہ اور اخبار بھی لفظ صحیفہ سے مستعار ہے۔اخبار و رسائل کو ترتیب دینے اور مزین کرنے میں جن لوگوں کی شمولیت ہوتی ہے اْنہیں صحافی کہتے ہیں اور اس پیشے کو صحافت۔انگریزی میں صحافت کو Journalism اور اس پیشہ سے وابستہ افراد کو Journalist کہا جاتا ہے ۔صحافت کی تعریف کا جہاں تک معاملہ ہے مختلف ماہرین نے مختلف انداز و مختلف پیرائے میں صحافت کی تعریف و تشریح کی ہے۔لیکن سب کا ماحصل ایک ہی ہے۔
ڈاکٹر محمد شاہد حسین نے صحافت کی تعریف کچھ اس طرح سے کی ہے:
’’صحافت خبر ہے،اطلاع ہے،جانکاری ہے۔صحافت عوام کے لیے عوام کے بارے میں تخلیق کیا گیا وہ مواد ہے جو دن بھر کے واقعات کو تحریر میں نکھار کر ،آواز میں سجا کر،تصویر میں سمو کر انسان کی اس خواہش کی تکمیل کرتی ہے، جس کے تحت وہ ہر نئی بات جاننے کے لیے بے چین رہتا ہے۔
برنارڈ شاہ نے صحافت کی متعلق کہا ہے:
“All Great LIterature is Journalism”
میتھیو آرنلڈ نے صحافت کی مختصر تعریف یوں بیان کی ہے:
ـ’’صحافت عجلت میں لکھا گیا ادب ہیـ‘‘ “Journalism is a Literature in a Hurry”
ڈاکٹر عبدالسلام خورشید صحافت کے ضمن میں لکھتے ہیں:
’’صحافت ایک عظیم مشن ہے۔اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو تازہ ترین خبروں سے آگاہ کیا جائے ۔عصر حاضر کے واقعات کی تشریح کی جائے اور ان کا پس منظر واضح کیا جائے تاکہ رائے عامہ کی تشکیل کا راستہ صاف ہو۔صحافت رائے عامہ کی ترجمان اور عکاس بھی ہوتی ہے۔اور رائے عامہ کی رہنمائی کے فرائض بھی سر انجام دیتی ہے۔عوام کی خدمت اس کا مقصد فرض ہے۔اس لیے صحافت معاشرے کے ایک اہم ادارے کی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘
صحافت کا مقصد:Aim of Journalism))
صحافت بنیادی طور پر فن ابلاغ ہے۔صحافت ابلاغ کا وہ مستند ذریعہ ہے جو عوام کو حالات اور واقعات کا شعور بخشتا ہے۔صحافت کا اصل مقصد دنیا میں رونما ہونے والے واقعات اور حالات کی تازہ ترین صورت حال سے عوام کو واقف کروانا اور ان واقعات کی پیش کش میں صداقت اور راست بازی سے کام لینا ہے۔رائے عامہ کو ہموار کرنا بھی صحافت کا ایک اہم مقصد ہے۔کیونکہ جب تک عوام میں شعور پیدا نہیں ہوتا اس وقت تک رائے عامہ کی تشکیل ممکن نہیں۔عوام میں غور و فکر کی صلاحیت پیدا کرنا ،ان کے دلوں میں اخبار کی عزت و عظمت قائم کرنا ،ان کے خیالات و احساسات کی ترجمانی کرنا یہ تمام صحافت کے فرائض میں شامل ہیں۔صحافت ایک سماجی خدمت اور اخبار ایک سماجی ادارہ ہے۔سماج کو آئینہ دکھانے کا کام صحافت کا ہے۔سماج کی اچھائیاں اور برائیاں صحافت کے ذریعے ہی سامنے آتی ہیں۔سماج میں تبدیلی پیدا کرنے کے علاوہ قارئین کو بہترین تفریح مہیا کرانا اور اس تفریح کے ذریعے ان کی ذہنی تربیت کرنا بھی صحافت کے مقاصد میں شامل ہے۔غرض صحافت نہ صرف ایک فردکی ذہنی ،قلبی،جسمانی اور روحانی تربیت کا بیڑہ اْٹھاتی ہے بلکہ ایک بہتر سماج کی تشکیل بھی کرتی ہے۔
صحافت کے اقسام:(Types of Journalism)
صحافت کو درج ذیل قسموں میں بانٹا جاسکتا ہے۔
۱۔ مطبوعہ صحافت:Print Journalism
۲۔برقی صحافت :Electronic Journalism
مطبوعہ صحافت: فن صحافت کی ترسیل و اشاعت جب مطبوعہ طور پر اخبار و رسائل کی صورت میں پریس کے ذریعہ انجام پاتی ہے تو اسے ہم مطبوعہ صحافت کہتے ہیں۔روزنامے،سہ روزہ، ہفت روزہ اخبار،علمی و ادبی مجلے،پیشہ وارانہ رسالے ،سہ ماہی و سالانہ جریدے،پوسٹرز،اسٹکرز،ہینڈ بلز وغیرہ مطبوعہ صحافت کے دائرے میں آتے ہیں۔مطبوعہ صحافت میں اخبارات کو بہت اہمیت حاصل ہے۔اخبارات کو موجودہ تاریخ کا ترجمان بھی کہا جاتا ہے۔دنیا بھر میں روزانہ لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں سینکڑوں زبانوں میں اخبارات شائع ہورہے ہیں۔اخبار یہ عربی زبان کا لفظ ہے جو خبر کی جمع ہے۔اخبار کے تحت روزنامے،سہ روزہ ،ہفت روزہ کا شمار ہوتا ہے۔کچھ لوگ پندرہ روزہ کو بھی اخبار کہتے ہیں۔روزنامے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہفتہ میں کم از کم پانچ شمارے جاری ہوں ۔سہ روزہ اخبار کا چلن اب نہیں رہا ۔آج یہ صورت حال ہے کہ بہت کم سہ روزہ شائع ہورہے ہیں۔
رسائل: رسالہ یہ عربی زبان کے لفظ ’’رسل‘‘ سے ماخوذ ہے۔رسالے یہ عوام کی ترسیل کا بہترین وسیلہ تسلیم کیے جاتے ہیں۔رسائل کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ادبی،علمی،فنی،ملّی،قانونی،فلمی،خالص تفریح پیش وارانہ وغیرہ۔
برقی صحافت: برقی صحافت میں ریڈیو،ٹیلی ویژن،انٹرنیٹ،فلم ،وی سی آر ،سلائیڈز،اوورہیڈ پروجیکٹر وغیرہ کو اہمیت حاصل ہے۔
ریڈیو:(Radio) آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی ریڈیو کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔دور حاضر میں ریڈیو خبروں کا مستند ذریعہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ریڈیو نہ صرف خبریں نشر کرتا ہے بلکہ خبروں پر تبصرے،تہذیبی و ثقافتی پروگرام،موسیقی کے دلچسپ پروگرام کا فریضہ بھی ریڈیو انجام دیتا ہے۔ریڈیو یہ انیسویں صدی کی ایجاد ہے۔جس نے بہت ہی قلیل مدت میں دنیا بھر میں انقلاب برپا کردیا ہے۔ریڈیو کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے نا خواندہ لوگ بھی مستفید ہوتے ہیں۔جب کے اخبار خواندہ لوگ ہی استعمال کرتے ہیں۔ریڈیو ذرائع ابلاغ کا ایک سستا اور موثر ذریعہ ہے یعنی کوئی بھی سامعی آسانی سے اسے خرید سکتا ہے۔دور دراز کے دیہات جہاں بجلی اور دوسرے وسائل موجود نہیں وہاں ریڈیو کام کرتا ہے۔ہل چلاتے کسان بھی گلے میں ٹرانسٹر لٹکائے دنیا بھر کے حالات و واقعات سے آگاہی حاصل کرتے ہیں۔
ٹیلی ویژن:(Television) بیسویں صدی کی ایجادات میں ٹیلی ویژن ایک اہم اور موثر ایجاد ہے۔سائنسی ایجادات کے سلسلے کی ایک اہم کڑی ٹیلی ویژن ہے۔ٹیلی ویژن کا موجد جان ایل بیرڈ ہے۔ٹیلی ویژن کی سب سے نمایاں خاصیت یہ ہے کہ ٹیلی ویژن پر خبریں نہ صرف پڑھی یا سنی جاتی ہیں بلکہ دیکھی بھی جاتی ہے۔اور یہی وصف اسے دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔ٹیلی ویژن کے ذریعہ گھر بیٹھے دنیا بھر میں رونما ہونے والے واقعات کو دیکھا جاسکتا ہے۔چونکہ دیکھی ہوئی شئے زیادہ متاثر کرتی ہے اس لیے آج ہر ایک کے دل و دماغ پر ٹیلی ویژن صحافت چھائی ہوئی ہے اس بات سے انکا رنہیں کیا جاسکتا ۔
وی سی آر:VCR)) برقی صحافت میں وی سی آر کو بھی اہمیت حاصل ہے۔فلم جو کسی دور میں مقبول و موثر ذریعہ ابلاغ تھا۔اب اسکی جگہ وی سی آر نے لے لی ہے۔وہ گھرجہاں وی سی آر موجود ہے۔سنیما گھر کا متبادل بن گیا ہے۔دنیا بھر کی فلمیں گھر بیٹھے وی سی آر کے ذریعہ دیکھی جارہی ہے۔وی سی آر کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ اسے ہم ایک جگہ سے دوسری جگہ بہ آسانی منتقل کرسکتے ہیں۔
انٹرنیٹ:(Internet) انٹرنیٹ کو برقی صحافت میں انقلاب کی حیثیت حاصل ہے۔انٹرنیٹ کے ذریعہ ہر کام اتنا آسان ہوگیا ہے جس کا تصور بھی اس کے بغیر نہیں کیا جاسکتا ۔جدید ٹکنالوجی کی آمد سے اردو صحافت کو بہت فائدہ پہنچا ہے۔ہندوستان میں سب سے پہلے روزنامہ سیاست نے سن ۱۹۹۷ میں اپنا انٹرنیٹ ایڈیشن شائع کر نا شروع کیا تھا۔آج تقربیا اردو کے تمام اخبارات اپنا انٹرنیٹ ایڈیشن شائع کررہے ہیں۔یہ اردو صحافت کی بہت بری کامیابی ہے۔انٹرنیٹ کے ذریعہ سے اردو صحافت کے لیے فیس بک اور واٹس ایپ کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔جہاں آسانی سے لوگوں تک رسائی ممکن ہو پارہی ہے۔انٹرنیٹ پر کئی لوگوں نے اپنا ذاتی بلاگ بھی بنایا ہے جہاں آپکو خبریں بھی مل جاتی ہیں۔اور کسی خاص موضوع پر بحث و مباحثے میں حصہ بھی لے سکتے ہیں۔اور اپنی رائے کا اظہار بھی کرسکتے ہیں۔اگر ایسا کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ انٹرنیٹ اس وقت موثر ترین ذریعہ ابلاغ ہے۔انٹرنیٹ نے اپنے اندر ،اخبارات ،میگزین ،رسالے ،ریڈیو ،ٹیلی ویژن ،فلم وغیرہ کوسمیٹ لیا ہے۔دنیا کی کوئی ایسی چیز نہیں جو انٹرنیٹ پر موجود نہیںہے۔انٹرنیٹ کی ایک اہم خوبی یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ آپ اپنا پیغام خواہ وہ تقریری ہو یا تحریری دنیا کے کونے کونے تک پہنچا سکتے ہیں۔مختصر یہ کہ اس جدید ٹکنالوجی کے دور میں اردو صحافت بھی انٹرنیٹ کے ذریعہ دوسری زبانوں کی صحافت کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔اور اردو کے فروغ میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔
اردو صحافت کا فن:
صحافت در اصل ایک دو طرفہ ترسیلی عمل ہے اور اسی پر اسکی اساس قائم ہے۔صحافت کو ابتداء ہی سے اطلاع رسانی کے ساتھ ساتھ معاشرتی بیداری کا سب سے موثر وسیلہ تصور کیا جاتا ہے۔سماجی تبدیلی کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے میں صحافت کے رول کو اساسی سمجھا جاتا ہے۔یہی سبب ہے کہ آزادی وطن سے قبل کے متعدد سماجی مصلحتوں،سیاسی لیڈروں،مفکروں ،دانشوروںنے فرسودہ معاشرتی رسوم کے خلاف عوام میں بیداری پیدا کرنے اور غیر ملکی تسلط کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے لیے اخبار و جرائد نکالے۔ہندوستان کی تحریک آزادی میں صحافت کا کردار بہت فعال رہا ہے۔اردو صحافت نہ ہوتی تو شاید ہندوستان کی آزادی کا کو سورج دیکھنا نصیب نہ ہوتا ۔آزادی اور انقلاب کے جذبے کو بیدا ر کرنے میں سب سے اہم رول اردو صحافت کا رہا ہے۔اور زبان کو فروغ دینے میں جوخدمات صحافت کی رہی ہے اْسے فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔آج کے عہد میں اردو زبان بہ ذریعہ صحافت عوام تک پہنچ رہی ہے۔
دنیا کے تمام فنون کے کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں جو اسکی رسومیات کہلاتے ہیں۔انسان جب سے دنیا میں سماجی زندگی بسر کررہا ہے۔خبروں کی ترسیل بھی اسی عہد سے جاری ہے۔ابتدا میں انسانی معلومات کی ترسیل کا کیا معیار تھا یہ اس عہد کے مذہبی صحیفوں سے بخوبی پتہ چلتا ہے۔جیسے جیسے انسان متمدن اور مہذب طرز معاشرت کی طرف بڑھتا رہا خبروں کی ترسیل کا مرحلہ بھی فنی لحاظ سے مستحکم بننے لگا۔اور دیگر علوم کی طرح اسکے بھی اپنے کچھ اصول و ضوابط تیار کیئے گئے لیکن عہد قدیم میں یہ فن عصر حاضر کی طرح زندگی کا اہم شعبہء نہیں بن سکا تھا۔اسکی بنیادی وجہ ذرائع ابلاغ کی قلت کے علاوہ اس فن کی غیر فنی حیثیت بھی تھی۔عہد جدید میں صحافت کو باقاعدہ ایک علمی فن تسلیم کیا گیا ہے۔ماہرین صحافت نے اس فن کو جدید خطوط پر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ہندوستان میں اس فن کو انگریزوں نے ترقی دی۔اور اسے کچھ قوانین کا پابند بھی بنایا۔یہ وہی قوانین تھے جنکی بناء پر فن صحافت غیر مہذبانہ انداز گفتگو سے پاک ہوتا چلا گیا۔حالانکہ آگے چل کر انگریزوں نے فن صحافت پر قدغن بھی لگائی لیکن بہ حیثیت فن مجموعی طور پر صحافت کا میدان وسیع سے وسیع تر ہوتا رہا۔اس ضمن میں محترم محمد شکیل و نادر علی خان ہندوستانی پریس کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’ایسٹ انڈیا کمپنی کے وجود سے جہاں لامتناہی نقصانات کا سلسلہ شروع ہوا۔وہیں فنون طباعت و صحافت میں مفید اضافے بھی ہوئے چناچہ موجودہ صحافت کا سنگ بنیاد بھی اسی کا رہین منت ہے۔‘‘
(اردو دنیا ڈسمبر ۲۰۱۵۔ص۔۲۱)
صحافت کا فن علم زبان کے بغیر ادھورا ہے۔لیکن تصویری صحافت (کارٹون وغیرہ) نے اس فن کو زبان کا محتاج تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ ذیل میں فن صحافت کی تفہیم کے لیے چند رسومیات فن صحافت درج ہیں۔
* خبروں کی حصولیابی کے تمام طریقہء کار سے با خبری
* ذرائع ابلاغ سے رشتہ
* خبروں کی تفہیم پر دسترس
* الیکٹرانیک میڈیا کا شعور
* زبان و بیان پر گرفت
اس کے علاوہ بھی کچھ اور بنیادی عناصر ہیں جو صحافت کے فن میں صحافی کو امتیازی شناخت کا حامل بناتے ہیں۔مثلا صحافتی کو حق گو ہونا چاہیے،نیز سے بے باک بھی ہونا چاہیے،صحافی کا صحافی شعور انتہائی مستحکم اور پائدار ہونا چاہیے،یہی وہ عناصر ہیں جو کسی بھی صحافی کو صحافت کے میدان میں سرفراز اور کامیاب بناتے ہیں۔
صحافت کی اہمیت :(Importance of Journalism)
صحافت کو معاشرے میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ صحافت کی قوت در اصل عوام کی قوت ہے۔آج کا دور ابلاغیات کا دور ہے۔صداقت اور راست بازی صحافت کی وہ بنیادی خصوصیات ہیں جو معاشرے میں اسکی اہمیت کے غماز ہیں۔صحافت انسانی اقدار کے تحفظ کی ضامن ہوتی ہے۔مجبور و مظلوم عوام کے جذبات کی پیامبر ہوتی ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ جب کبھی سماج میں ظلم و ستم نے سر اْٹھایا تو صحافی کے نوک قلم نے ظالم کا سر قلم کرکے رکھ دیا ۔عام طور پر صحافت کو مملکت کے چوتھے ستون سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(Journalism is the Fourth pole of Democracy) کسی بھی جمہوری حکومت میں قانون ساز ادارے پارلیمنٹ ،انتظامیہ اور عدلیہ بے حد ضروری ہوتے ہیں۔ان تینوں اداروں کی بقاء اور سلامتی کے لیے صحافت کا وجود ناگزیر ہے۔صحافت کے بغیر ان تینوں اداروں کا جمہوریت پسند ہونا شک و شبہ کی گنجائش پیدا کرتا ہے۔اگر ان تینوں اداروں میں صحافت کا عمل دخل نہ ہوتو ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ پارلیمنٹ میں کس موضو ع پر بحث ہورہی ہے،کون سے نئے قوانین تیار ہورہے ہیں،بجٹ کس طرح کا ہے وغیرہ وغیرہ۔عوام کی بات حکومت اور حکومت کی بات عوام تک پہچانے کا فریضہ صحافت انجام دیتی ہے۔صحافت کی اہمیت و افادیت سے اس کے مثبت و منفی پہلوئوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کنور محمد دلشاد اپنی تصنیف ’’ابلاغ نامہ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’صحافت ایک جادو ہے۔جس کے بول میں خیر و شر کی بجلیاں روپوش ہیں۔ایک معمولی سی خبر ،ایک افواہ یا ایک غلط بیانی کے دو رس نتائج مرتب ہوتے ہیں جن پر قابو پانا مشکل ہوجاتا ہے۔کسی شخص کو بام عروج پر پہنچانا ہومذلت میں ڈھکیلنا ہو،کسی یا تحریک کو قبولیت کی سند عطا کرنا ہوگا یا اس سے متفر کرنا ہوگا ،حکومت کی کسی پالیسی کو کامیاب بنانا یا ناکام کرنا ہو،یا مختلف اقوام میں جذبات نفرت یا دوستی پیدا کرنا ہوتو یہ صحافت کا ادنی سا کرشمہ ہے۔‘‘
ایک اچھا ذی اثر حق گو اور بے باک اخبار خود بہ خود معاشرے میں اپنی دھاک بٹھاتا ہے۔اخبارات کی بدولت حکومت بنتی بھی ہے اور ٹوٹتی بھی ہے۔اسی لیے نیپولین بوناپارٹ نے اخبار کی بے پناہ قوت اور اس کے جادوئی اثر سے متاثر ہو کر کہا تھا۔۔۔
’’ میں سو فوجی دستوں کے مقابلے میں ایک اخبار سے زیادہ ڈرتا ہوں۔‘‘ اردو کے مشہور و معروف شاعر اکبر الہ آبادی نے اخبارات کی اہمیت سے متاثر ہوکر کہا تھا۔۔
کھینچو نہ کمانو کو نہ تلوا ر نکالو
جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکا
اردو صحافت کا آغاز و ارتقاء:(Origin of Urdu Journalism)
اردو صحافت کا جنم اردو شاعری کی طرح فارسی صحافت کی کوکھ سے ہوا۔ہندوستان میں فارسی زبان کے اخبارات مغل حکومت کے سنہری دور میں جاری ہوئے ۔لیکن یہ فارسی اخبارات بھی فارسی شاعری کی طرح عام ہندوستانی معاشرے سے لاتعلق تھے فارسی اخبار تک صرف طبقہ اشرافیہ کی دسترس تھی۔علامہ عتیق صدیقی کی مشہور کتاب ’’فوزی‘‘کے حوالے سے گروبچن چندن نے اپنے ایک مضمون میں مغلیہ اخبار کے متعلق گفتگو کی ہے:
’’ اورنگ زیب عالمگیر ر ح کے زمانے میں شاہی محل کے لیے روزانہ ایک اخبار شائع کیا جاتا تھا۔یہ اخبار آج کی طرح چاندنی چوک میں آواز لگا کر بیچا نہیں جاتا تھا۔مزید ان کے پیش رومغل بادشاہوں کے وقت میں بھی ایک اخبار شاہی محل کے لیے جاری ہوتا تھا۔اور اسکی نقلیں دور دراز کے علاقوں کے امرا وغیرہ کو بھیجی جاتی تھیں۔مغل عہد کے کئی سو اخبارات لندن کے رائل ایشیا ٹک سوسائٹی کی لائبریری میں محفوظ ہیں۔‘‘
ہندوستان میں اردو صحافت کا باضابطہ آغاز سن ۱۸۲۲ سے ہوا۔ حالاں کہ اس قبل ہندوستان میں فارسی صحافت کا رواج تھا ۔لیکن کلکتہ کی سرزمین سے اردو کے اْفق پر ایک تابندہ تارا’’جام جہاں نما‘‘ طلوع ہوا۔’’ جام جہاں نما‘‘ اردو کا اولین مطبوعہ اخبار ہے۔جو ۲۷ مارچ ۱۸۲۲ کو کلکتہ سے جاری ہوا۔اس اخبار کے ایڈیٹر منشی سداسکھ لعل اور مالک ہری ہر دت تھے۔ یہ ایک ہفت روزہ اخبار تھا ۔یہ اخبار فارسی ٹائپ میں چھپتا تھا۔چوں کہ اْس وقت فارسی ٹائپ کا ہی رواج تھا اس اخبار کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ یہ اردو کا پہلا اخبار تھااور اسکے ایڈیٹر اور مالک غیر مسلم تھے۔جدو جہد آزادی ۱۸۵۷ سے قبل ہندوستان کے مختلف شہروں سے متعدد اردواخبارات جاری ہوچکے تھے ۔۱۸۳۴ میں ممبئی سے ’’آئینہ سکندری‘‘ یہ اخبار اردو میں جاری ہوا۔حالاں کہ فارسی زبان میں یہ اخبار ۱۸۲۲ سے ہی جاری تھا۔یہ ایک نیم سرکاری اخبار اور ممبئی کے گورنر کی ایما پر جاری ہوا تھا۔انیسویں صدی میں جو سب سے بڑا اردو اخبار سامنے آیا وہ ’’دلی اردو اخبار‘‘ تھا۔اردو کے مشہور و معروف ادیب مولانامحمد حسین آزاد کے والد مولوی محمد باقر نے ۱۸۳۶ میں جاری کیا تھا۔یہ اخبار اپنے عہد کی عکاسی کرتا تھا۔جدوجہد آزادی میں مولوی محمد باقر کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔اردو کے پہلے شہید صحافی کے طورپر آپکو موسوم کیا جاتا ہے۔مولوی محمدباقر کا اپنا ایک چھاپا خانہ اور ایک بڑی لائبریری بھی تھی۔جو ۱۸۵۷ کی لڑائی میں تباہ ہوگئی۔لیکن ’’دلی اردو اخبار‘‘ نے ایک تاریخ ضرور ثبت کردی۔سن ۱۸۳۷ میں مرزا پور اترپردیش سے ایک اخبار ’’خیرخواہ ہند‘‘جاری ہوا۔یہ ایک مذہبی اخبار تھا جسے ایک پادری نے جاری کیا تھا۔اس اخبار کا مقصد عیسائیت کی تبلیغ تھا۔سن ۱۸۴۱ میں دہلی سے ’’سید الاخبار‘‘ جاری ہوا۔جسے مصلح قوم سرسید احمد خاں کے بڑے بھائی سید محمود نے جاری کیا تھا۔سید محمود کے انتقال کے بعد سرسید نے اس اخبار کے ایڈیٹر کے فرائض انجام دیئے۔۱۸۴۲ میں چنئی سے ’’جامع الاخبار‘‘ جاری ہوا۔اسے جنوبی ہند کا پہلا اردو اخبار تسلیم کیا جاتا ہے۔سید رحمت اللہ اس اخبار کے ایڈیٹر تھے ۔یہ اخبار اپنے عہد کا دلچسپ مرقع اور دل کش ترجمان تھا۔سن ۱۸۴۵ میں دہلی کالج سے ہفت روزہ ’’قرآن السعدین‘‘ جاری ہوا۔اس کے پہلے ایڈیٹر پنڈت دھرم نارائن بھاسکر تھے جو غیر معمولی صلاحیت کے مالک تھے۔اس اخبار میں سائنسی ،ادبی اور سیاسی مضامین شائع ہوتے۔علمی افادیت اور اردو مضامین کے تنوع کے اعتبار سے ہندوستان کے ممتاز اخبارات میں اس اخبار کا شمار تھا۔
لکھنئو کا پہلا اخبار’’لکھنئواخبار‘‘ کے نام سے۱۸۴۷ میں جاری ہوا۔اس کے ایڈیٹر لال جی تھے۔اسی سن میرٹھ سے ’’جام جمشیدی‘‘ جاری ہوا۔اس اخبار کے ایڈیٹر بابو شیو چندر ناتھ تھے۔اس سے قبل آگرہ سے ۱۸۴۶ میں ’’صدرالاخبار‘‘ جاری ہوا جسے آگرہ کا پہلا اردو اخبار تسلیم کیا جاتا ہے۔سن ۱۸۴۹ میں چنئی سے ایک اور اخبار ’’آفتاب عالم تاب‘‘ جاری ہوا۔ اس کی خبروں کا حوالہ مشہور ریاضی داں ماسٹر رام چند ر کے اخبار ’’فوائد الناظرین ‘‘ میں پایا جاتا ہے۔۱۸۵۰ میں لاہور سے ’’کوہ نور‘‘ جاری ہوا ۔اس اخبار کے ایڈیٹر منشی ہری سکھ رائے تھے۔یہ اردو زبان اور فارسی رسم الخط میں جاری ہونے پہلا اخبار تھا۔سن ۱۸۵۶ میں لکھنئو سے کئی اخبار ات جاری ہوئے۔رجب علی بیگ سرور کے دوست مولوی محمد یعقوب انصاری نے ’’اخبار طلسم لکھنو‘‘ جاری کیا۔اس کے علاوہ امیر مینائی اور رگھوویر پرشاد نے’’سحر سامری‘‘ اور عبد اللہ نے’’مخزن الاخبار ‘‘جاری کیا۔اردو عربی اور فارسی کی کتابوں کی طباعت میں گراں قدر خدمات انجام دینے والے منشی نول کشور نے ۱۸۵۸ میں لکھنو سے ’’اودھ اخبار‘‘شروع کیا۔یہ اخبار پہلے ہفت روزہ تھا پھر یہ سہ روزہ ہوااور ۱۸۷۷ میں یہ اخبار روزنامہ ہوگیا۔اپنے دور کا اردو کا یہ بہت بڑا اخبار تھا۔یہ پہلا اردو اخبار تھا جس کے رپورٹرمختلف صوبوں کی راجدھانیوں میں نمائندے رہے۔اردو کے نامور ادیب و شاعر اس اخبار سے وابستہ تھے۔آج بھی اس اخبار کی تحریریں بڑے ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔۱۸۶۶ میں ’’سائنٹفک سوسائٹی‘‘ کا اجرا عمل میں آیا ۔جس کے روح رواں اور مرکز اور محور سرسید احمد خان تھے۔سن ۱۸۷۷ میں لکھنو سے ایک بڑا اخبار’’اودھ پنچ‘‘ منظر عام پر آیا۔اسے منشی سجاد حسین نے ’’لندن پنچ‘‘ کے طرز پر جاری کیا تھا۔یہ اخبار ۳۵ برس تک جاری رہا۔
انیسویں صدی کے آخر میں ایک اخبار’’پیسہ اخبار‘‘ نام سے جاری ہوا۔جسے منشی محبوب عالم نے جاری کیا تھا۔بیسویں صدی کے آتے آتے سب کچھ بدل چکا تھا۔سیاسی بیداری اور آزادی کی تحریک تیز ہوچکی تھی۔دنیا بھر کے حالات میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہورہی تھیں۔اردو اخبارات بھی آزمائشوں سے گذر چکے تھے۔مذہبی ،سیاسی ،ادبی،ثقافتی ،طنزیہ و مزاحیہ ہر طرح کے اخبارات و سائل نکل چکے تھے۔منشی محبوب عالم کا ’’پیسہ اخبار‘‘ اور شیخ غلام محمد کا اخبار ’’وکیل ‘‘ ابھی نکل رہا تھا۔ جس سے مولانا ابوالکلام آزاد بھی وابستہ رہے۔جنہوں نے بعد میں’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘جیسے موقر اخبارات جاری کیے۔اردو صحافت کی تاریخ مولانا ابوالکلام آزاد کے ان اخبارات کے ذکر کے بنا ادھوری تسلیم کی جاتی ہے۔’’الہلال ‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ یہ تاریخ ساز اخبارات تھے۔سن ۱۹۰۱ میں شیخ عبدالقادر نے لاہور سے ’’مخزن‘‘ جاری کیا۔اردو کے مشہور و معروف شاعر حسرت موہانی نے سن ۱۹۰۳ میں ’’اردوئے معلی‘‘ اخبار جاری کیا۔یہ ایک ادبی رسالہ تھا۔لیکن سیاسی موضوعات پر بھی اسمیں مضامین شائع ہوتے تھے۔سن ۱۹۰۸ میں خواتین کا رسالہ ’’عصمت‘‘دہلی سے جاری ہوا۔اس کے ایڈیٹر شیخ محمد اکرام اور پھر علامہ راشد الخیری رہے۔اردو کے ایک عظیم صحافی مولانا محمد علی جوہر نے ۱۹۱۲ میں دہلی سے ’’ہمدرد‘‘ اخبار جاری کیا۔یہ اخبار حکومت کا نکتہ چیں تھا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ۱۹۱۵ میں یہ اخبار بند ہوگیا۔اور پھر کچھ عرصہ بعد جاری ہوا۔مولانا محمد علی جوہر کی ساری زندگی جدوجہد آزادی میں گذری ۔اْنہوں نے اپنے اخبارات کے لیے باضابطہ اخلاق بھی مرتب کیاجو آج کے ضابطہ اخلاق سے بہت کچھ ملتاجلتا ہے۔سن ۱۹۲۰ میں لالہ لچپت رائے نے ایک کثیر سرمایہ کے ساتھ لاہور سے ’’وندے ماترم‘‘ جاری کیا۔لاہور ہی سے مہاشے کرشن نے ’’پرتاپ ‘‘جاری کیا۔جو دہلی سے آج بھی نکل رہا ہے۔
سن ۱۹۲۱ میں شہر حیدرآباد دکن سے ’’رہبر دکن‘‘جاری ہوا۔جو بعد میں ’’رہنمائے دکن ‘‘ کہلایا۔آج یہ اخبار سید وقاراالدین قادری کی ادرات میں شائع ہو رہا ہے۔ حیدرآباد کے چند بڑے اخبارات میں اس اخبار کا شمار ہوتا ہے۔فروغ اردو زبان میں اس اخبار نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
۱۹۲۵ میں مولانا عبدالماجد دریا بادی نے ’’سچ ‘‘ جاری کیا۔اس کا نام بعد میں ’’صدق‘‘ ہوگیا اور پھر ’’صدق جدید‘‘ کے نام سے نکلا۔آزادی سے قبل ایک اہم اخبار’’قومی آواز‘‘ جاری ہوا۔جو پنڈت جواہر لعل نہروکی سرپرستی اور حیات اللہ انصاری کی ادارت میں ۱۹۴۵ میں شہر لکھنو سے جاری ہوا۔اس اخبار نے اردو میں جدید صحافت کی بنیاد ڈالی۔اور بہت سے معیارات قائم کیئے۔ممبئی شہر ’’روزنامہ انقلاب‘‘ اور ’’روزنامہ اردو ٹائمز‘‘ ایک طویل مدت سے کامیابی کے ساتھ شائع ہورہے ہیں۔ہندوستان کو آزادی ملنے کے بعد اخبارات کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا اور اخبارات نے تیزی سے ترقی کی۔ملک کے مختلف حصوں سے بہت سے اخبارات جاری ہوئے۔اگست ۱۹۴۹ کو شہر حیدرآباد سے پدم شری عابد علی خان نے محبوب حسین جگر کے ساتھ مل کر ’’روزنامہ سیاست‘‘ جاری کیا۔یہ اخبار صرف اخبار ہی نہیں بلکہ ایک تحریک تھا۔جس نے اقلیتوں کے مسائل حل کرنے ،اردو زبان کو فروغ دینے،میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔اس اخبار کی خاصیت یہ ہے کہ یہ اخبار نہ صرف حیدرآباد اور ہندوستان بلکہ بیرون ہندوستان میں بھی بڑے ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے۔آج یہ اخبار عابد علی خان صاحب کے فرزند زاہد علی خان صاحب کی زیر نگرانی شائع ہورہا ہے ۔سن ۱۹۷۹ میں محمود انصاری کی ادارت میں حیدرآباد ہی سے ’’روزنامہ منصف ‘‘ جاری ہوا۔اس اخبار کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہ ہندوستان کا ایک کثیر الااشاعت اخبار تسلیم کیا جاتا ہے۔آج یہ اخبار جناب خان لطیف خان کی ادارت میں نکل رہا ہے۔ واضح رہے کہ ڈسمبر ۲۰۱۷ میں اس اخبار نے خان لطیف خان صاحب کی سرپرستی میں پورے ۲۰ برس مکمل کرلیے ہیں۔علاوہ ازیں ’’راشٹریہ سہارا‘‘ ’’صحافی دکن‘‘ ’’روزنامہ ملاپ‘‘ بھی شہر حیدرآباد ہی سے شائع ہورہے ہیں۔سن ۱۹۶۳ میں اترپردیش لکھنو سے روزنامہ ’’آگ‘‘جاری ہوا۔ دہلی سے ’’سہ روزہ دعوت‘‘ ’’عوام ‘‘ اور ’’سویرا‘‘ جاری ہوئے۔پٹنہ سے ایک نامور اخبار ’’قومی آواز‘‘ جاری ہوا۔پنجاب سے نکلنے والے اخبارات میں سرفہرست ’’ہند سماچار‘‘ جدید سہولیات سے آراستہ ہے۔اس اخبار کا سرکیولیشن ایک زمانے میں ۷۳ ہزار تک پہنچ گیا تھا۔کرناٹک بنگلور سے روزنامہ’’سالار‘‘ (۱۹۶۴ ) ہبلی سے ’’کرناٹک ٹائمز‘‘ شائع ہورہے ہیں۔
ان کے علاوہ سینکڑوں اخبارات جاری ہوئے ۔لیکن ان کی اشاعت ،مالی وسائل اور قارئین کی کمی کے باعث بند ہوگئے۔لیکن بعض اخبارات مختلف مسائل کے باوجود آج بھی جاری ہیں اور قابل تحسین خدمات انجا م دے رہے ہیں۔اردو اخبارات کی ایک طویل تاریخ رہی ہے۔اردو صحافت نے معاشرے کو ایک خاص ڈگر پر لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور آج بھی کررہے ہیں۔جس کا اعتراف ہمیں کھلے دل سے کرنا چاہیے۔ ******
حوالہ جات:(References)
۱۔ ابلاغیات۔۔از ڈاکٹر محمد شاہد حسین ص ۴۴ ۲۔فن صحافت۔از ڈاکٹر عبدالسلام خورشید ص ۰۹
۳۔اردو صحافت ماضی اور حال۔ از خالد محمودو سرور الہدی ص ۱۰۶ ۴۔اردو صحافت مسائل اور امکانات۔ از ڈاکٹر ہمایوں اشرف ص ۴۱ ، ۵۳ ، ۵۴ ۵۔اردو دنیا شمارا ڈسمبر ۲۰۱۵ ص ۲۱
***
Leave a Reply
Be the First to Comment!