شبلی بحیثیت مؤرخ مقالات شبلی کی روشنی میں
علامہ شبلی قدیم وجدید علوم کے جامع تھے وہ ایک طرف فقیہ، محدث، متکلم اور فلسفی تھے تودوسری طرف انھیں انشاپردازی ،شاعر ی سخن فہمی، سخن سنجی میں کمال حاصل تھا۔ آپ مجمع البحرین تھے۔ جدید علوم کے ماہر اور قدیم علوم کے شناور تھے۔ ان گونا گوں صلاحیتوں کے ساتھ انھوں نے دماغ اور ہاتھ دونوں کو دینی وملی کارناموں کے لیے استعمال کیا، قومی تعلیمی مذہبی ادبی سیاسی اوراجتماعی میدانوں میں آپ کی خدمات نہایت اہم ہیں ۔آپ کا مخصوص فن علم کلام اور تاریخ تھا ۔علامہ شبلی نے مکمل تعلیم بڑی محنت اور قابل اساتذہ سے حاصل کی تھی۔ یہ بات مشہور ہے کہ علامہ شبلی کی ذہنی تربیت علی گڑھ میں ہوئی ۔اگر شبلی علی گڑھ نہ آتے تو شاید ان کا جوہر عالی اتنا نہ چمکتا ۔وہ علی گڑھ میں بحیثیت استاد تشریف لائے تھے ۔مگر برابر تحصیل علم کے لئے کوشاں رہے۔سرسید کے کتب خانہ سے فائدہ اٹھاتے رہے ۔پروفیسر آرنلڈ سے فرانسیسی سیکھی اور ساتھ یورپ کے علماء کے طرز فکر، انداز نگارش، علمی تحقیقات اور تصانیف سے متعارف ہوئے ۔علی گڑھ کا یہ قیام شبلی کے علمی وذہنی سفر میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔انیسویں صدی کا یہی نصف آخر ایسا زمانہ تھا جب اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یوروپ کے مستشرقین نے اپنے حملے تیز کر دیئے تھے۔سلطنت عثمانیہ بھی کمزور ہو چکی تھی ۔تباہ حال سلطنت آپسی خانہ جنگی کی وجہ سے مسلمان پسماندگی اور احساس کمتری کے شکار تھے۔مستشرقین نے مسلمانوں کو ان کے مذہب اور ان کی تاریخ سے بدظن کرنے کے لئے اعتراضات تیز کر دیئے ۔ان کے الزامات اعتراضات اور سوالات کا جواب دینے کے لئے جس شخصیت کو قدرت نے منتخب کیا وہ علامہ شبلی کی شخصیت تھی۔ چونکہ علامہ شبلی مختلف علوم وفنون کے ماہرتھے مشرق ومغرب کے تاریخی نظریات سے بخوبی واقف تھے،مولانا شبلی کے سامنے جوماحول تھا کہ مسلمانوں پر اسلامی تاریخ کے حوالے سے مختلف اعتراضات کئے جارہے تھے اورالزامات عائد کئے جارہے تھے یہ اس وقت کابہت بڑاچیلنج تھاعلامہ شبلی نے اس چیلنج کوقبول کیااورتاریخ اسلام کا عرق ریزی سے مطالعہ کرکے شبلی نے تاریخ میںا تنی اہمیت حاصل کرلی کہ ان کی شخصیت کے دوسرے پہلو اس ک
ے مقابلے مدھم پڑگئے ، مولانا شبلی نے تاریخی واقعات میںر وایت اوردرایت دونوں کوملحوظ رکھا،صرف تاریخ کی کتابوں پراکتفا نہ کرتے ہوئے تاریخی مواد کے حصول کے لئے تراجم، طبقات، سفرنامہ جغرافیہ وغیرہ سے بھی مفید معلومات اخذ کیں اورہمیشہ معتبر اورقابل اعتماد کتابوں سے مستفید ہوئے اورصحیح ترین روایتوں پراعتماد کیامولانا شبلی وہ پہلے شخص ہیں جنہوںنے تاریخ کے مفہوم میں وسعت پیداکی اوراپنی وسیع النظری سے ان خانوں کوپرکردیاجن کو اسلامی مؤرخین خالی چھوڑگئے تھے تاریخ نویسی کے لئے غیرجانب داری رگِ جاں کی حیثیت رکھتی ہے ،مولانا شبلی کے یہاں یہ چیز بدرجۂ اتم موجودتھی مولانا شبلی نے اسلامی اور ایرانی مؤرخین کے تاریخی اصول،افکار وخیالات کے ساتھ مغربی مؤرخین کے عمدہ اصولوں سے استفادہ کیاہے اس فن میں علامہ شبلی کی کاملیت وجامعیت اورقابلیت کی وجہ سے ان کی گرانقدر خدمات کااعتراف کیاجاتاہے ،ڈاکٹر سیدعبداللہ لکھتے ہیں :
’’شبلی درحقیقت ایک مسلم مورخ تھے۔اسلامی تاریخ کی تائید وحمایت میں جو خیال انہیں پسند آتاتھا اس کو حسب مطلب استعمال کرلیتے تھے۔جہاں تک راقم کا خیال ہے وہ کسی خاص مغربی نظریہ اورمسلک کے پابند نہ تھے۔‘‘ ۱۔ شبلی اورجہان شبلی،ص:۲۳
مولانا شبلی نے اپنی تاریخی تصانیف میں متکلمانہ طرز اختیار کیاہے اورمستشرقین کے مقالات اورتصانیف میں کئے جانے والے اعتراضات کانہایت مدلل جواب دیاہے،شبلی کسی بات کو تحقیق تدقیق اورتعدیل کے بغیر نہیں مانتے تھے ان کاکہنا ہے کہ یہ چیزیں تاریخ نویسی کے لئے جزء ایمان کی حیثیت رکھتی ہیں شبلی کی تصانیف اورمقالات میں سرسری معلومات نہیں ہوتی ہیں کسی بھی چیز کولکھنے کے لئے مولانا شبلی پوری پوری تصانیف چھان ڈالتے تھے اوریہ کوشش کرتے تھے کہ جس موضوع پروہ لکھ رہے ہیں اس موضوع پرلکھی جانے والی کوئی کتاب ان کی نظر سے رہ نہ جائے مولانا شبلی اردو فارسی اورعربی کے خودہی عالم تھے دوسری زبانوں میں ملنے والے مواد کااپنے دوستوں سے اورشاگردوں سے ترجمہ کرواتے تھے ۔شبلی کی اسی محنت اورمشقت کانتیجہ ہے کہ ان کے دوست ودشمن ان کی عظمت اورتصانیف کی اہمیت کے معترف ہیں اختروقارعظیم رقمطرازہیں :
’’بلاشبہ شبلی نے جوکچھ کردکھایاجتنا کچھ دیا اس کی مثالیں ہمارے یہاں بہت کم ہیں ،باقی میدانوں میں شبلی کے ہاتھوں سرانجام پانے والے کارناموں کاذکر جانے دیجئے،صرف مورخ شبلی ہی کے کارناموں کی ایک طویل فہرست تیار کی جاسکتی ہے۔المامون،النعمان،الفاروق،الغزالی،سوانح مولاناروم،اورنگ زیب عالمگیر پرایک نظربدء الاسلام اورسیرت النبی جیسی مستقل تاریخی تصانیف کے علاوہ مقالات شبلی کے دوحصے بھی ان کے تاریخی مقالات کے لئے مخصوص ہیں ۔ان کے علاوہ مقالا ت کی دوسری جلدوں میں بھی جابجا شبلی کے تاریخی مقالات بکھرے پڑے ہیں۔اس طویل فہرست اورشبلی کی تاریخ نویسی کے فن کاجائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کیاتصانیف کی ضخامت،کیا کیفیت ،کسی بھی اعتبار سے ان کا مرتبہ کم نہیں،وہ بلاشبہ ایک بڑے مورخ تھے،ایک ایسے بڑے مورخ جنہوں نے کہیں بھی تاریخ نویسی کی فنی ضروریات اورمقتضیات کونظر انداز نہیں کیا۔اسی بات کودیکھتے ہوئے مہدی افادی نے کہاہے:’’ہم میں صرف شبلی ایسا شخص ہے جوبہ لحاظِ جامعیت اوروسیع النظری مورخانہ تدقیق اورمذاقِ فن کی حیثیت سے آج یورپ کے بڑے بڑے مورخوں سے پہلو بہ پہلو ہوسکتاہے۔‘‘(شبلی بحیثیت مورخ،ص:۶۸۔۶۹)
مولانا نے تاریخ میں سے ان ہی لوگوں کواپنا ہیرومنتخب کیاجنہوں نے اپنے عہد میں تہذیب وتمدن کوزیادہ ترقی دی تھی اوران کے حالات کے ضمن میں اسلامی تمدنی وتہذیبی کارناموں کو نہایت واضح طورپرنمایاں کیاجاسکتاتھا۔شبلی نے کسی عہد یازمانے کی کوئی باقاعدہ تاریخ نہیں لکھی ضرورت کے تحت کبھی کبھی مختلف موقعوں پروہ تاریخی موضوعات پرمضامین لکھتے تھے شبلی کی یہ عادت تھی کہ وہ ادبی وعلمی موضوع کابھی تاریخ سے رشتہ ملادیتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ وہ سوانح لکھنے میں بھی صاحب سوانح کے حالات سے زیادہ زمانے کی تاریخ کواہمیت دیتے ہیں۔مولانا نے جس وقت تصنیف وتالیف کے میدان میں قدم رکھا اس وقت یورپین مصنفین اسلام کے بعض مذہبی تمدنی اور معاشرتی مسائل پربڑے زورشورکے ساتھ تنقید کررہے تھے انہیں میں ایک اہم مسئلہ جزیہ کابھی تھامولانا شبلی نے اس موضوع پرنہایت تحقیقی مضمون لکھا۔دوسرے اہم الزامات میں اسلام کابزورشمشیر پھیلانا مسلمانوں کادوسری قوموں پرنہایت ظالمانہ وجابرانہ حکومت کرنامسلمانوں کونہایت وحشی جنگجو اورغیر متمدن قرار دینا وغیرہ تھامولانا شبلی نے اپنی تصانیف اورمقالات میں ان کے دعووں کی غلطیاں دکھائیں اورمسلمانوں کے تہذیب وتمدن انکشاف وایجادات سماجی وحکومتی ترقی کوبڑے آب وتاب کے ساتھ پیش کیا اورانہوں نے نامورانِ اسلام کے نام سے عظیم مسلمان رہنمائوں پرکتابیں لکھ کر مسلمانوں کوان کے آبائو اجداد کی عظمت کے گیت سنائے ۔شبلی حساس دل اورباریک بیں تھے انہو ں نے مسلمانوں کی عظمت کے کارنامے اپنی نثری تصانیف میںبیان کئے شبلی ایک انشاء پرداز بھی تھے مگر کبھی وہ انشاء پردازی میں اس حدتک گرفتار نہیں ہوئے کہ اس کے خاطر اپنے مقاصد کوقربان کردیں ۔شبلی کو جہاں کہیں بھی اپنے ہیرو کی خامی نظر آتی ہے وہ کھلے لفظوں میں اسکا اعتراف کرلیتے ہیں۔شبلی غیر جانب دار رہنے کی برابر کوشش کرتے ہیں اورتصویر کے دونوں رخ دکھاتے ہیں شبلی ایک نہایت منصف مؤرخ ہیں جو کچھ لکھتے ہیں اسے پہلے تاریخ کے ترازو میں تول لیتے ہیں شبلی کی حیثیت بحیثیت مؤرخ مسلم ہے شبلی نے جس میدان میں بھی قدم رکھا ،کامیاب رہے ،شبلی کو اردو کامؤرخ اول کہاجاتاہے ،شبلی نے اپنی تاریخ نویسی کے ذریعہ غیر مسلم مورخین کے ذریعہ پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کودورکیا اورپریشان حال شکست خوردہ ہندوستانی مسلمانوں کوان کے آبائو اجداد کی عظمت کی داستان سناکر احساس کمتری دورکرنے کی کوشش کی جوان کے دلوں میں جنگ آزادی میں شکست کی وجہ سے پیداہوگیاتھاتاریخ لکھتے وقت شبلی نے کبھی اپنے مقصد کونظرانداز نہیں کیا اورانہوںنے تاریخ اسلامی پرگرانقدر کتابیں اورمقالات تصنیف کئے ،بزرگانِ دین کے حالات میں خوارقِ عادت اورخلاف عقل واقعات سے پرہیز کیامولانا شبلی مغربی تمدن کی بہت سی خوبیوں کوپسند کرتے تھے مگروہ اس سے متاثربالکل نہیں تھے،مغربی تمدن کی برائیوں پربھی انکی نظر تھی اوروہ اس پرنکتہ چینی بھی کرتے رہتے تھے ،ڈاکٹر آفتاب احمدصدیقی مولانا کی تاریخی تصنیفات کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’مولانا نے اپنی تاریخی تصنیفات کے دوحصے کئے ہیں ،پہلے میں معمولی واقعات کابیان ہے جوعموماً تاریخوں میں مل سکتے ہیں ۔لیکن دوسرے حصے کے لئے جس قسم کے واقعات درکار ہیں ان کی تلاش وجستجوانہوں نے نہ صرف تاریخی تصنیفات میں کی ہے بلکہ تراجم،طبقات،مقامی جغرافیے،سفر نامے،نقشہ جات وغیرہ سے جہاں سے بھی ان کومفید معلومات حاصل ہوسکی ان سے فائدہ اٹھایا۔یہی وجہ ہے کہ ان کی تاریخی تصنیفات مختلف علوم وفنون مثلاً فقہ،حدیث،تفسیر،ادب اور دوسرے علوم وفنون کامجموعہ بن گئی ہیں۔جن کی تصدیق ان کی تصنیفات اورمضامین کے حوالوں سے ہوتی ہے۔اس تفصیل سے معلوم ہوتاہے کہ مولانا پریورپین تصنیفات کامحض اس قدر اثر پڑاکہ انہوںنے اسلامی تاریخ کاایک نیاخاکہ تیارکیا،لیکن اس خاکے میںانہوںنے جوآب ورنگ بھراوہ تمام تراسلامی تصنیفات سے ماخوذ ہے۔انہوںنے یورپین مصنفین کی کبھی کو رانہ تقلید نہیں کی،اورمصروشام کے بعض مصنفین سے توکسی قسم کابھی فائدہ نہیں اٹھایا۔‘‘ (شبلی ایک دبستان،۷۲)
علامہ شبلی نے ہندوستانی تاریخ اور اسلامی تاریخ دونوں پر ہونے والے حملوں کا جواب دیا ہے۔ہندوستان میں صدیوں سے مسلمانوں کی حکومت رہی ۔ان میں بڑے بڑے بادشاہ بھی ہوئے اورنگ زیب عالمگیر پر طرح طرح کی الزام تراشیاں کی گئیں ،بہت سے اعتراضات اور الزام تراشیاں اہل وطن ہندو بھائیوں کی طرف سے بھی تھیں اور کچھ موضوعات ایسے تھے ۔جو تاریخی اعتبار سے نہایت اہمیت کے حامل تھے لیکن ان کو صحیح مقام نہ مل پایا تھا ۔اس لئے علامہ شبلی نے اورنگ زیب عالمگیر پر ایک نظر کتاب لکھ کر انگریز مؤرخوں اور آنکھ بند کر کے انگریزوں کی پیروی کرنے والے ہندوستانیوں کو مدلل جواب دیا ۔ہمایوں نامہ ،تزک جہانگیری مآثر رحیمی زیب النساء وغیرہ ایسے مضامین ہیں جن کا مقصد ہندوستان کے مسلم حکمرانوں اور امراء کے شاندار کارناموں کو اجاگر کرنا ہے ۔اورنگ زیب کی بیٹی زیب النسا کے بارے میں اس وقت ایک انگریزی رسالہ میں ایک مضمون چھپا تھا ۔جس میں شہزادی سے متعلق بے بنیاد اور گمراہ کن باتیں لکھی گئیں تھیں ۔ علامہ شبلی نے شہزادی کی زندگی کے حالات اور اس کے کمالات وخدمات مستند حوالوں اور بنیادی ماخذ کے ذریعہ بیان کی ہیں۔اس کے علاوہ ہندوستان میں اسلامی حکومت کے تمدن کا اثر بھاشا زبان اور مسلمان تحفتہ الہند مسلمانوں کی علمی بے تعصبی اور ہمارے ہندوبھائیوں کی سیاسی بھی وہ اہم مقالات ہیں ۔جس میں تاریخی حقائق بیان کرکے غلط فہمیوں کا ازالہ کیا گیا ہے اور اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے۔عالم اسلام کی تاریخ پر علامہ شبلی نے جو قیمتی گراں قدر رفیع مفید اور اہم مقالات وکتب لکھی ہیں ۔ان میں مسلمانوں کی گذشتہ تعلیم، المامون،کتب خانہ اسکندریہ ،الفاروق ،سیرت انعمان اسلامی حکومتیں اور شفا خانہ ،الغزالی، سوانح مولانا روم وغیرہ ایسی کتابیں ہیں جو مسلمانوں کی تمدن تاریخ اسلامی تہذیب وثقافت اور دستور حکومت سے متعلق ہیں۔ ڈاکٹر الیاس الاعظمی رقمطرازہیں:
’’تاریخ میں علامہ شبلی کاسب سے عظیم الشان کارنامہ یہ ہے کہ انہوںنے تاریخ نگاری کے بلند اورمعیار ی اصول وضع کئے اورنہ صرف علامہ ابن خلدون کی طرح اس کے اصول وآئین منضبط کئے بلکہ انہیں عملی طورپر بھی پیش کرنے کی کوشش کی۔مسلمانوں کی گزشتہ تعلیم،المامون،سیرۃ النعمان،الفاروق،اورنگ زیب عالمگیر پرایک نظر اورسیرۃ النبیؐ جیسی بلند پایہ اورمہتم بالشان کتابیں اورمتعدد معرکۃ الآراء تاریخی مقالات ہمارے اس دعویٰ کے شاہد عدل ہیں۔‘‘(شبلی اورجہان شبلی،۳۴)
علامہ شبلی کا مقام ومرتبہ مؤرخ اسلام کی حیثیت سے بھی اہمیت کا حامل ہے اور ہندوستانی تاریخ پر آپ کی گہری نظر کا پتہ چلتا ہے۔علامہ شبلی نے سیرۃ النبی کی ابتدا کر دی تھی اس کی دو جلدیںآپ مکمل کر پائے تھے کہ وقت قضا آگیا علامہ شبلی اس کتاب کو اپنی زندگی کا حاصل سمجھتے تھے اور آخری وقت میں تن من دھن اور پوری توجہ سے سیرت کی تصنیف کی طرف متوجہ ہو گئے تھے لیکن شبلی کا کمال ہے کہ عشق ومحبت اور عقیدت سے سرشارہونے کے باوجود بھی اعتدال اور احتیاط کا دامن نہیں چھوڑتے ہیں ۔سیرۃ النبی کی تصنیف میں تاریخ نگاری کے اصول وضوابط کا کس قدر خیال رکھا اس کے بارے میں ضیاء الحسن فاروقی لکھتے ہیں:
’’جہاں اخلاص وعقیدت اور اشکِ محبت کا نذر انہ ہو وہاں مصنف کے حرم واحتیاط کا اندازہ کر نا مشکل ہے،یہ بندۂ حقیرتو اس پر اظہار خیال کی جرأت بھی نہیں کر سکتا۔ البتہ اپنے ناظرین کی توجہ اس مقدمے کی طرف مبذول کراسکتا ہے جو سیرۃ لنبی ﷺکے شروع میں ۱۰۳؍صفحات پر پھیلا ہواہے اور جس میں مصنف نے اپنی علمیت ،ذہانت ،گہرے مطالعے ، تنقیدی صلاحیت اور مورخانہ ژرف نگاہی سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ سیرت ِنبوی ﷺ پر قلم اٹھانے کا حق انھیں کا تھا ،یہ گو ایک طرح سے ان کی تمام عمر کی کمائی ہے۔روایت وروایت سیرت ِ مغازی،مشہور سیرت نگار وں مثلاً امام زہری ،موسیٰ بن عقبہ،محمدبن اسحاق،واقدی،ابن ہشام،ابن سعد،امام بخاری،امام طبری کی کتابیں ،اسماء الرجال ،محدثین کے اصول ِ روایت وروایت ِ ،فن سیرت ،اہل یورپ کی تصنیفات ِ سیرت ،الغرض کی کوئی گوشہ ایسا نہیں جسے شبلی نے چھوڑا ہو ابس یہ سمجھ لیجیے کہ ’الفاروق‘ کا دیباچہ اور سیرۃ النبی ﷺ کا یہ مقدمہ ،اگر یہی دو چیزیں ہمارے مصنف نے لکھی ہوتیں تو اس کا شمار اونچے پایے کے محققین اور بڑے مرتبے کے مورخین ِ اسلام میں ہوتا۔ ‘‘ (صحیفہ۔ شبلی نمبر۔ص:۴۴۵)
علامہ شبلی ایک ایسے مؤرخ تھے جو تاریخ نگاری کے فن سے متعلق واضح نکتۂ نظر کے حامل تھے جدید عہد کی علمیت کے تقاضوں سے واقف تھے علمی تحقیق کے لئے معیاروں کے ماہر تھے وہ اپنے سے پیشتر متقدمین مسلم مؤرخین کی خصوصیات کو اہمیت دیتے تھے لیکن تاریخ نویسی کی ترقی اور عہد جدید کے معیارکو تاریخ نگاری کے لئے بڑا اہم سمجھتے تھے اور انھیں اپنا کر تاریخ نویسی کرنا مفیدخیال کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ علامہ شبلی عہد جدید کے ایک بڑے مؤرخ بن کر ابھرے واقعات کی صحت قیاس اور اجتہاد اسباب وعلل اعتدال واحتیاط کا صحیح طریقہ استعمال کرکے انھوں نے تاریخ نگارکے عمدہ نمونہ پیش کئے ہیں انھیں انشا پردازی اور تاریخ نگاری کی حدوں سے بھی اچھی واقفیت تھی ان چیزوں کا ستعمال انھوں نے اپنی تاریخ نگاری میں بھر پور طریقہ سے کیا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی تاریخ نگاری میں حقیقت پسندی مؤرخانہ بے باکی توازن اور اعتدال موجود ہے تحقیق تدقیق مستند واقعات کی فراہمی ایسی چیزیں ہیں جنھوں نے علامہ شبلی کو تاریخ نگاری میں اعلیٰ مقام عطاکیا ہے اور آج بھی انھیں بحیثیت مؤرخ بلند و بالامقام حاصل ہے۔
٭٭٭
سراج الحق
ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردو،دہلی یونیورسٹی
9891317391
Leave a Reply
Be the First to Comment!