جدو کرشن مورتی: شخصیت اور تعلیمی نظریات

ڈاکٹرمحمداسجدانصاری

 اسسٹنٹ پروفیسر، ڈپارٹمنٹ آف ٹیچرٹریننگ اینڈ نان فارمل ایجوکیشن(IASE)،

فیکلٹی آف ایجوکیشن، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی

Jiddu Krishnamurti: Life and Educational Thoughts by Dr. Mohammad Asjad Ansari

تعارف

                جدو کرشن مورتی ہندوستان کے ایک عظیم فلسفی ، مشہورماہرتعلیم، قدآورمفکر ، سماجی مصلح اورمشہورزمانہ دانشور ہیں جن کے روحانی، تعلیمی اور سماجی نظریات و افکار نے نہ صرف برِ صغیر ہندوپاک کو متاثر کیا بلکہ بہت بڑے پیمانے پر یورپ، امریکہ اورآسٹریلیا میں ان کو پذیرائی حاصل ہوئی۔عرب دنیا پر بھی انھوں نے اپنے گہرے نقوش چھوڑے اور ان کی کئی کتابوں کے ترجمے انگریزی،اردو، ہندی اور فرانسیسی کے ساتھ عربی زبان میں بھی شائع ہوئے۔ایک صالح اور مثالی معاشرے کی تشکیل کے لئے کرشن مورتی کے ویژن کی بنیاد کسی مخصوص مذہب ،فلسفے ،نظر یے اور ازم پر نہیں ہے بلکہ انھوں نے ایک اچھے معاشرے کی تشکیل میں فرد اور معاشرے کے مابین اچھے تعلقات کے قیام پر اپنی توجہ مرکوز کی۔ان کے نزدیک ایک صالح معاشرے کی تشکیل میں معیاری اور’ صحیح تعلیم‘(Right Education) کا اہم کردار ہے اور ’صحیح تعلیم‘ کے بغیر ایک صالح معاشرے کاوجود ناممکن ہے۔وہ کسی مخصوص تعلیمی ادارے میں متعین شدہ مدت میں ایک مقررہ نصاب مکمل کرلینے اور ڈگری حاصل کرلینے کو تعلیم نہیں مانتے۔ان کے نزدیک تعلیم کا تصور اورتعلیم کا مقصد انتہائی عظیم،بہت ہی وسیع ، مقدس اورمادی منفعت سے کہیں بلند وبرترہے۔وہ تعلیم کو طلبا وطالبات کی شخصیت سازی، ذہن سازی،کردار سازی سے تعبیرکرتے ہیں اوراخلاق فاضلہ کے قدروں کے فروغ پر اپنی توجہ مرکوزکرتے ہیں۔ساتھ ہی وہ تعصب ، جانب داری، طلبا وطالبات کے مابین منافسے اورمقابلے کی حوصلہ افزائی کے بجائے اس کی حوصلہ شکنی کرتے نظرآتے ہیں۔خودآگہی اورخودی کے حصول کے لیے تزکیۂ نفس ، اصلاح باطن، مراقبہ، یوگا اور عمیق غوروفکر پیداکرکے کائنات کے رازہائے سربستہ اورحقائق تک رسائی کے لیے وہ تعلیم کے رول کو کلیدی سمجھتے ہیں۔اس مضمون میں ہم ان کی زندگی کے اہم نقوش پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کے تعلیمی نظریات کو خصوصی طورپرسمجھنے کی کوشش کریں گے۔

 بچپن اورخاندانی پس منظر

جدوکرشن مورتی کی پیدائش 12 ؍ مئی 1895کوموجودہ ہندوستان کے آندھرپردیش صوبے میںچتور ضلع کے قصبے مدنا پلّی میں ہوئی۔ان کا تعلق تیلگو زبان بولنے والے ایک متوسط خانوادے سے تھا۔ان کے والد کا نام جدونارائن (Jiddu Narianiah) تھا جو انگریز حکومت میں محکمہ انکم ٹیکس میں سرکاری ملازم تھے۔ان کی والدہ کا نام سنجیومّہ گنٹر (Sanjeevamma Guntur) تھا۔والدین چونکہ برہمن تھے اورمذہبی بھی تھے اس لیے انھوں نے اپنے بچے کا نام ایک ہندودیوتاکرشن جی کے نام پررکھا ۔ہندودیوتاکرشن جی کی طرح آپ بھی اپنے گیارہ بھائی بہنوں میں آٹھویں نمبر پر تھے(راجیش کمارسنگھ-2020 )۔کرشن مورتی کی عمر صرف دس سال تھی جب ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔کرشن مورتی کے والدملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد 1907 میںمدراس میں اڈیار کے مقام پر منتقل ہو گئے اور تھیو سوفیکل سوسائٹی میں کلرک کے عہدے پر کام کرنے لگے۔وہ پہلے سے ہی تھیوسوفیکل سوسائٹی کے ممبر تھے۔تھیوسوفیکل سوسائٹی ایک ایسے مسیحا کے آنے کی پیشین گوئی کر چکی تھی جو سوسائٹی کے نزدیک کائنات کا نجات دہندہ ثابت ہوگا اور جسے معلم کائنات کا درجہ حاصل ہوگا۔ایک طرح سے یہ عیسی علیہ السلام اورگوتم بدھ کے بعدسماج میں پھیلی ہوئی برائیوں اورعوام کے دکھ کا مداواکرنے کے لیے ایک اورمسیحاکی آمد کے قائل تھے اور اسی کی بنا پراس تنظیم کا قیام بھی عمل میں آیا تھا۔

 دی آرڈر آف دی رائزنگ سن (The Order of the Rising Sun)

11 ؍ جنوری 1911 کوبنارس کی سرزمین میں ’دی آرڈر آف دی رائزنگ سن ‘ (The Order of Rising Sun)نامی ایک مذہبی اور روحانی تنظیم جارج سِڈنی ارُنڈیل (George Sydeny Arundale) نے ان لوگوں کو یکجا کرنے کے لیے قائم کی تھی جو حضرت عیسیؑ اور گوتم بودھ کے بعد ایک مسیحا اور روحانی پیشوا کی آمد کا شدت سے انتظار کر رہے تھے، جو انسانیت کا نجات دہندہ بن کر آنے والا تھا۔پوری دنیا میں تھیوسوفیوں کی بڑی تعدادپائی جاتی تھی جو اس نظریے کے حامل تھے۔ جارج سِڈنی ارُنڈیل اس وقت سینٹرل ہندوکالج کے پرنسپل کے عہدے پرفائز تھے اور تھیوسوفی تھے نیز تھیوسوفیکل سوسائٹی کے مشن سے عملی طورپرجڑے ہوئے تھے۔

جدوکرشن مورتی کی بطورمسیحا اورمعلم کائنات دریافت

تھیوسوفیکل سوسائٹی کاآفس اڈیارندی کے کنارے پر واقع تھا۔ کرشن مورتی اور ان کے بھائی نتیا نند وہیں اپنے والد کے ساتھ رہتے تھے اوروہیں ندی کے کنارے کھیلتے تھے۔فروری 1909 کواڈیارندی میں ایک ایسا واقعہ ہواجس نے جدوکرشن مورتی کی زندگی کو یکسرہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔جدوکرشن مورتی اپنے بھائی نتیا نند کے ساتھ پانی میں کھیل رہے تھے اور وہیں قریب میں چارلس ویبسٹر لیڈ بیٹر(Charles Webster Leadbeater)تیراکی کررہے تھے کہ اچانک ان کی نظر جدوکرشن مورتی پر پڑی۔ان کے چہرے کے خدوخال کو دیکھ کر وہ بہت زیادہ متاثر ہوئے۔کیوںکہ وہ بہت ہی سادہ تھے اور ان کے چہرے پرایک بے لوث اور خودغرضی سے پاک انسان کی علامات موجودتھیں۔ان کو اچانک یہ الہام ہوا کہ شاید جس معلم کائنات کے لیے تھیوسوفی سب منتظر ہیں وہ شاید یہی نہ ہو۔چارلس ویبسٹر لیڈ بیٹرتھیوسوفیکل سوسائٹی کی صدر اینی بیسینٹ کے بہت قریبی تھے۔ تھیوسوفیکل سوسائٹی کی صدر اینی بیسینٹ اور تھیوسوفیکل سوسائٹی کے اہم شریک کار جارج سِڈنی ارُنڈیل(George Sydney Arundale) نے کرشن مورتی کے اندر روحانیت سے بھر پور ایک عظیم انسان کی کھوج اوردریافت کی ۔ ان کو لگا کہ یہ بچہ دوسرے بچوںسے بالکل مختلف ہے جس کے اندردنیا کے روحانی پیشوا اورمعلم کائنات بننے کے سبھی جواہر پارے اوراوصاف موجود ہیں۔مختلف زاویوں سے ان پر تحقیق کی گئی اور مشاہدہ کیا گیا جسے تھیوسوفیکل جریدے میں شائع کیا گیا۔سبھی طرح کی تحقیقات ، مشاہدات وتجربات کے بعدتھیوسوفیوں کو یقین ہو گیا کہ یہ وہی عظیم بچہ ہے جس کی آمد کا تھیوسوفیوں کوشدت سے انتطارتھا اور یہی وہ بچہ ہے جو کائنات کا نجات دہندہ ثابت ہوگااوریہی وہ معلم کائنات ہے جس کی تھیوسوفیکل سوسائٹی کو تلاش تھی۔اینی بیسینٹ نے کرشن مورتی کے والد سے قانونی معاہدہ کرکے کرشن مورتی اور ان کے چھوٹے بھائی نتیا نند کو گودلے لیا۔نتیانند کو گودلینے کی وجہ یہ تھی کہ کرشن مورتی اپنے گھرمیں اپنے بھائی نتیانند سے ہی سب سے زیادہ قریب تھے۔اس طرح ان کو بھی ساتھ میں گودلینے سے والدین کی کمی کا زیادہ احساس نہیں ہوگا۔اپنے بیٹے کی بے انتہامقبولیت دیکھ کرکرشن مورتی کے والد نے کرشن مورتی کو اینی بیسینٹ کی سرپرستی سے واپس لینے کے لیے 1912 میں عدالت میں کیس کردیا ۔اینی بیسینٹ اس کیس کو جیت گئیں اوراب تقریباًڈیڑھ سال کے عرصے میں دونوں بھائی اینی بیسینٹ سے بہت زیادہ مانوس ہوچکے تھے۔ چونکہ دونوں اپنے گھرانے سے بھی جداہوچکے تھے اس لیے ایک دوسرے پر بہت انحصارکرنے لگے تھے۔

 آرڈر آف اسٹاراِن دی ایسٹ کا قیام (Establishment of Order of Star in the East)

اپریل 1911 میں بنارس میں ہی تھیوسوفیکل سوسائٹی کی سربراہ اینی بیسینٹ نے ایک عالمی تنظیم ’ آرڈرآف اسٹاراِن دی ایسٹ‘ (Order of Star in the East) کی بنیادڈالی۔اس کا اصل مقصد دنیاکو معلم کائنات کی آمد کے بارے میں ذہنی اور روحانی طورپرتیارکرناتھا۔اس کے قیام کے ساتھ ہی جنوری 1911 میں قائم کی گئی ’دی آرڈرآف رائزنگ سن‘ نامی تنظیم ختم کردی گئی۔جدوکرشن مورتی کو ’آرڈآف اسٹاراِن دی ایسٹ‘ کا روحانی پیشوااورسالارقافلہ بنایاگیا۔اینی بیسینٹ اورلیڈبیٹڑ اس کے محافظ قرارپائے۔جوں ہی کرشن مورتی کو’Order of Star in the East’ کاپیشوا بنایاگیا تو عالمی پیمانے پرکرشن مورتی کی شہرت کو چارچاندلگ گئے۔آرڈرآف اسٹاراِن دی ایسٹ کے قیام کے ساتھ ہی اس کے ممبران نے بہت سے ممالک کا سفر کیا، جریدوں اور اخبارات میں اس کی تشہیر کی گئی۔اس کے لیے موسیقی کمپوزکی گئی اورعلامات طے کی گئیں۔28 ؍دسمبر1911 کوبنارس میں تھیوسوفیکل کنووکیشن کے سالانہ اجلاس کی تقریب کا رسمی افتتاح جدوکرشن مورتی سے کرایا گیا۔وہاں پہ جولوگ موجودتھے ان کوجدوکرشن مورتی کی شکل میں ایک روحانی کشش اور روحانی طاقت سے بھرپورایک الہامی صفات کے حامل عظیم انسان سے روبروہونے کا احساس شدت سے موجزن تھا۔اس اجلاس میں تھیوسوفیکل سوسائٹی کی صدراینی بیسینٹ نے باقاعدہ اس کا اعلان کیاکہ جس معلم کائنات کا شدت سے انتظارتھا وہ جدوکرشن مورتی ہی ہیں۔ایک مسیحا اور معلمِ کائنات کاانتظارکرنے والوں کے لیے یہ عظیم خوش خبری تھی۔ان کے مسیحاکی اب دریافت جدوکرشن مورتی کی شکل میں ہوچکی تھی۔اسی لیے ۔28 ؍دسمبر1911 کی تاریخ تھیوسوفیوں کے نزدیک مقدس مقام رکھتی ہے۔ ایک طرح سے اگردیکھا جائے تو تھیوسوفیوں اور ان کے نظریات کوماننے والوں کے لیے جدوکرشن مورتی ایک طرح سے ان کے لیے پیغمبرانہ صفات کے حامل تھے جو دنیاسے ساری تکالیف کا خاتمہ کرنے کے لیے واردہوئے تھے۔اینی بیسینٹ کرشن مورتی اور ان کے بھائی کو 1911 میں ہی انگلینڈ لے گئیں جہاں ان کا والہانہ استعقبال کیا گیا۔انھوں نے بہت سے ممالک کا سفر کیااور اپنے روحانی خیالات ونظریات سے لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی۔اس پورے سفرمیں ان کے بھائی نتیانند ہمیشہ ان کے رفیق سفررہے۔ کرشن مورتی کی تعلیم وتربیت کا خصوصی نظم کیا گیا۔ان کو خصوصی روحانی اورجسمانی ریاضتیں کرائی جاتیں۔ طویل طویل وقفے کے مرقبے کرائے جاتے۔ان کو کئی ممالک کے سفرپرلے جایاگیا،عالمی تہذیب وتمدن اورطرززندگی سے ان کو روبروکرایاگیا۔1913 میں سینٹرل ہندوکالج میں آرڈرآف اسٹاراِن دی ایسٹ کے قیام پر زبردست تنازع پیداہوگیا۔اس کے بہت سے عہدیداروں اورٹرسٹیوں نے استعفی بھی دیا۔ان کو لگ رہا تھا کہ Order of Star in the East کی سرگرمیاں تعلیمی نوعیت کی نہیں ہیں اور اس کے پس پردہ کچھ مخفی مقاصد پوشیدہ ہیں جس کے تحت ہندوستانیوں کامذہب تبدیل کرنے کی یہ ایک مذموم کوشش ہے۔اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ اس وقت ہندوستان میں عیسائی مشنریاںبہت زیادہ سرگرم عمل تھیں اور بڑے پیمانے پرعیسائی مشن کام کررہے تھے جس کی وجہ سے بہت سے ہندوستانی خصوصاآدی باسی اور درج فہرست ذاتوں کے لوگوں نے عیسائی مذہب اختیارکرلیا تھا۔

 دائمی محبت کی انوبھوتی اور داخلی تجربہ کا الہام (The Experiment of Enlightenment)

1922 میں کرشن مورتی نے اپنے چھوٹے بھائی نتیانندکے ہمراہ سڈنی سے کیلیفورنیا کا سفرکیا۔یہاں اوہائی وادی(Ojai Valley) میں ایک طویل وعریض سیبوں کاباغ اور قلعہ تھا۔یہیں1922 کے اگست اور ستمبر مہینے میں کرشن مورتی ایک زندگی بدل دینے والے تجربے سے روبروہوئے۔یہاں پہ وہ حقیقت اور سچائی کی تلاش میں سرگرداں ہوگئے۔ اس کے لئے انھوں نے طویل طویل وقفے تک مراقبہ کرنا شروع کردیا۔ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا کے او ہائی(Ojai) گاؤں میں انھیں طویل مراقبے اور غوروفکر کے بعد انو بھوتی اور سچائی کاالہام (enlightenment) ہوا۔ ان پر دائمی اورلافانی محبت اور رحم کے اس جذبے کا الہام ہوا جس سے تمام دنیوی دکھ درد دور ہوجاتے ہیںاور انسان کو سچائی اور حقیقت کے ساتھ ساتھ زندگی کے مقصدکا حصول ہوجاتا ہے۔اس انوبھوتی کوتھیوسوفیکل سوسائٹی نے وحی اور نبوت سمجھ کرجدوکرشن مورتی کوایک پیغامبر اورمسیحاکے طورپرشہرت دینی شروع کی۔بہت ہی جلدریاست ہائے متحدہ امریکہ، یورپ اور آسٹریلیا جیسے ممالک میں بہت بڑی تعدادمیں ان کے پیروکاروجودمیں آگئے۔جدوکرشن مورتی نے ایک مسیحااورپیغامبرکے طورپر دنیاکا دورہ شروع کیا۔ وہ جہاں جاتے، وہاں بڑی تعدادمیں لوگ ان کی زیارت کرنے اور ان کے خطاب کوسننے کے لیے جوق درجوق حاضر ہوتے۔متمول اوراہل ثروت طبقے میں ان کی مقبولیت بہت زیادہ تھی۔یہاں سے جدوکرشن مورتی کاایک نیا دورشروع ہوتاہے جس میں وہ پوری دنیا میں گھوم گھوم کر حق ، نیکی، سچائی اورزندگی کی حقیقت اور مقصد سے لوگوں کو آگاہ کرتے جس میں خودی کا شعور، احساس خودی، تنقیدی فکر اور فیصلہ سازی کے ساتھ ساتھ نفسیاتی انقلاب کے ذریعے ایک نئے سماج کی تعمیر اورنئے نظامِ تعلیم کا انھوں نے بیڑہ اٹھایا۔مولانا محمد فاروق خاں رقم طراز ہیں کہ:

” اگست 1922 میں انھیں کیلی فورنیا کے اوہاپو(Ojai) گاؤں میں دائمی محبت کے سرچشمے کی انوبھوتی یا اندرونی تجربہ (Experience) ہوا۔وہ ایک گہرے رومانی تجربے سے ہوکرگزرے۔ان کو اس محبت وترحم کا انکشاف ہوا جس سے سارے ہی دکھ اور مصائب دورہوجاتے ہیں۔اس کے بعد ساٹھ سے زیادہ سالوں تک وہ دنیاکا سفرکرتے رہے۔ نفسیاتی انقلاب کے ذریعہ سے انسانیت کی نئی تعمیر کے لیے دنیا بھرمیں وہ آخری دم تک گھوم گھوم کر اپنا پیغام سناتے رہے۔ کرشنا مورتی آگہی(Awareness) کی بات کرتے تھے۔یہ آگہی وہی ہے جس کو مہاتما بدھ اپرماد اور مہابیر وویک کہتے ہیں۔۔۔‘‘ (رفیق منزل؍6 جنوری2016)۔

تھیوسوفیوں کے مطابق اس الہامی تجربے سے کرشن مورتی کی شہرت چہاردانگ عالم میں پھیل گئی۔یہ ان کے نزدیک مسیح موعودکی آمد تھی۔یہیں پہ ان کے ماننے والوں اور تھیوسوفیوں نے ایک ٹرسٹ قائم کرکے زمیں کا ایک بڑارقبہ خریدا اور یہی کرشن مورتی کی رہائش گاہ قرار پایا۔یہاں ان کی مجلسیں لگاکرتی تھیں جن میں وہ اپنے ماننے والوں کو وعظ ونصیحت کرتے تھے۔ساتھ ہی انھوں نے بہت سے یوروپی ممالک اور امریکہ، آسٹریلیا اورایشیاکے دورے کرنا شروع کردیے۔1924 میں ہولینڈ کے شہراومن(Ommen) میں ان کے ایک عقیدت مندBaron Fhilip van Pallandt نامی شخص نے پانچ ہزارہیکٹرکی طویل وعریض اراضی جو کہ ’اِیردے قلعہ‘(Castel Eerde) کے نام سے مشہورتھی وہ’آرڈوآف اسٹاراِن دی ایسٹ‘ کے مرکزی دفترکے لیے وقف کردی۔اس میں کئی عمارتیں تعمیر ہوئیں جہاں عقیدت مندوں کے لیے دعوتی پروگرام ہواکرتے تھے اورجدوکرشن مورتی کے پیغام کی ترویج واشاعت کے لیے یہاں داعیوں کی تربیت ہوتی تھی اور یہیں سے پوری دنیاکے لیے وفودروانہ ہوتے تھے۔13؍ نومبر1925 کو جدوکرشن مورتی کے چھوٹے بھائی نتیانندکا تپ دق کی بیماری سے 27 سال کی عمر میں کیلیفورنیا کے اوہائی کی رہائش گاہ پر انتقال ہوگیا۔اپنے عزیزبھائی کے انتقال سے ان کو شدید صدمہ پہنچا ۔ ان کا بھائی ہی ان کے خاندان کی ایک کڑی تھا جواب اس دارفانی سے کوچ کرچکا تھا۔چند دنوں بعد کرشن مورتی معمول کی زندگی گزارنے لگے۔ وہ معمول کے مطابق تقریریں اور وعظ ونصیحت کی مجلسوں میں آنے لگے لیکن ان کی تقریروں اور خطبوں کا موضوع تبدیل ہونے لگا تھا۔تھیوسوفی کے طے شدہ نکات سے منحرف ہوکر اب وہ دوسرے موضوعات اور مسائل پر کھل کر بات کرنے لگے تھے۔ان کے اندر ایک طرح کی چبھن تھی جو ان کو اندر سے کھوکھلا کررہی تھی کہ انھیں پیغمبرانہ درجہ دے دیا گیا ہے جس سے وہ خودبھی بالکل مطمئن نہیں تھے۔بالآخر انھوں نے تھیوسوفیکل سوسائٹی اور Order of Star in the East سے خودکو علاحدہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔3 ؍اگست 1929 کاوہ تاریخی دن تھا جب ’آرڈرآف اسٹاراِن دی ایسٹ‘ کی سالانہ تقریب میں انھوں نے ایک مختصرتقریرکے بعد ’آرڈرآف اسٹاراِن دی ایسٹ‘ کے خاتمے کا اعلان کردیااورخودکو اس سے الگ کرلیا۔تھیوسوفیوں اورتنظیم کے قائدین کے لیے یہ ایک صدمے سے کم نہیں تھا۔لیکن کرشن مورتی نے کسی کی پرواہ کیے بغیر تھیو سوفیوں کے سبھی معتقدات اورنظریات سے خودکو علاحدہ کرلیا اورسماجی مصلح کے طورپر سماج میں کام کرنے لگے۔1930 کے بعدوہ سماجی برائیوں کے خاتمے اور ایک صالح معاشرے کے قیام کے لیے دل وجان سے لگ گئے۔انھوں نے پوری زندگی خودکو کسی بھی نظریے سے منسلک نہیں کیا بلکہ ایک آزادمفکر کے طورپر اپنی شناخت قائم کی۔مولانا محمد فاروق خاں رقم طراز ہیں کہ:

” تعلیم یافتہ طبقہ کرشنا مورتی کو عظیم مذہبی معلموں میں شمارکرتاہے۔لیکن انھوں نے خودکوکبھی کسی خاص مذہب، فرقہ یا خاص ملک کے ساتھ منسوب نہیں کیا۔انھوں نے کبھی کسی سیاسی فکر سے بھی اپنے کو منسلک نہیں کیا۔وہ کہتے تھے کہ اس طرح کی چیزیں آدمیوں کے درمیان تفرقہ پیداکرتی ہیںاورانجام کار جنگ اور کشمکش کا سبب بنتی ہیں۔

۔۔۔ان کا خاص پیغام یہ رہا کہ انسانوں نے اپنے درمیان تفرقے کی جو دیواریں کھڑی کر رکھی ہیں وہ گرادی جائیں۔انسان اس تنگ نظری سے خودکو پاک رکھے جو مذہب کے نام سے لوگوں میں پائی جاتی ہے۔قومی تفرقے ہوں یا فرقہ وارانہ تنگ دامانی ان سب سے نجات حاصل کرنی ضروری ہے۔‘‘ (رفیق منزل؍6 جنوری2016)۔

 محبت کے جذبے کا فروغ صالح معاشرے کی تشکیل کی بنیاد

کرشن مورتی نے ایک صالح اور اچھا معاشرہ تشکیل دینے پر اپنی توجہ مرکوز کی۔ان کے نزدیک ایک صالح معاشرے کی تشکیل کی ذ مے د اری انسان پر عائد ہوتی ہے اور ایک صالح معاشرہ اسی وقت وجود میں آسکتا ہے جب فرد اور سماج کے درمیان مثبت اور مستحکم تعلقات قائم ہوں۔ اور یہ مستحکم تعلقات اسی وقت قائم ہوسکتے ہیں جب سبھی انسانوں میں ایک دوسرے لیے محبت کا جذبہ موجزن ہو۔اور محبت کا جذبہ تبھی موجزن ہوگا جب وہ ایک دوسرے کا احترام کریں اور وقار سے پیش آئیں۔ اور احترام کی بنیادیں دراصل باہمی اعتماد اور بھروسے پر قائم ہوتی ہیں۔اس طرح سے یہ ایک سلسلہ(chain) ہے جس کی کڑیاں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔محبت کا حصول ہی انسانیت کی معراج ہے اور زندگی کا ماحصل بھی۔ان کے نزدیک موجودہ صورتِ حال کے مطابق کوئی بھی خوش نہیں ہے کیونکہ انسان حسد، جلن، کینہ، بغض، عناد، غصہ اور غم کی نفسیاتی کش مکش کی دنیا میں رہتا ہے جس کی بنیا دی وجہ مادیت پرستی ہے۔ہم اپنی منفعت اور مفادات کے حصول کے لیے سماجی بندھنوں کی پرواہ نہیں کرتے جس کی وجہ سے عدم اعتماد کی فضاقائم ہوتی ہے۔جب اعتماد ختم ہوجاتا ہے تو احترام خودبخودناپید ہوجاتا ہے۔لہٰذا! جب احترام ہی ندارد ہوتو محبت کن بنیادوں پر پروان چڑھے گی۔نتیجتاً دوسروں سے محبت کے بجائے حسد، بغض، عناد اورمنافست کا جذبہ فروغ پائے گا۔وہ بچے کی ابتدائی تعلیم سے ہی اس کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے نظر آئے ہیں۔تعلیمی مطمحِ نظر سے عموماً بچوں کا مقابلہ اور موازنہ دوسرے طلبا وطالبات سے کیا جاتاہے یا ایک جماعت کے بچوں کا دوسری جماعت کے بچوں سے یا پھر ایک اسکول کا دوسرے اسکولوں سے اور آخرمیں ایک ملک کا دوسرے ملک سے۔اس کی وجہ سے بچوں پر بیجا بوجھ پڑتا ہے۔وہ دباؤاور انتشارخیالی کا شکارہوجاتے ہیں۔اپنی صلاحیتوں کو بروئے کارلانے کے بجائے وہ ان کی تقلید کرنے میں اپنی پوری توانائی صرف کرتے ہیں جن کو ان سے بہتر کہہ کر ان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔اس طرح ان کی فطری اور تخلیقی صلاحیت ظاہر نہیں ہونے پاتی۔ وہ اپنی تصنیف ‘ سیکھنے کا فن’ میں رقم طراز ہیں:

” اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ تقابل اور موزنہ حصولِ علم کے جذبے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔یہ خیال حقیقت کے برعکس ہے۔ موازنہ انتشار اور حسد کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔اسے ہی ہم مقابلہ کہتے ہیں۔ترغیب کی مختلف شکلوں کی طرح ہی موازنہ یا تقابل سیکھنے کی صلاحیت کو محدودکرکے خوف کی تخم ریزی کرتا ہے” (کرشن مورتی؍صفحہ نمبر5 :2000 )۔

تھیوسوفیکل سوسائٹی نے ان کی شناخت کائنات کے ایک مسیحا کے طورپر کی جس کا اسے شدت سے انتظارتھا۔انوبھوتی اور حقیت کے الہام کے بعد مصیبت اور دکھ سے دوچار انسانی معاشرے کے تمام دکھوں کا مداوا انھیں محبت میں نظر آیا۔ان کے نزدیک پورا معاشرہ مسابقت اور منافست کی وجہ سے کینہ، کپٹ، حسد، جلن، ایذارسانی کی آگ میں جل رہا ہے اور اپنے مفادات کو بڑھانے کی تگ ودو میں مصروف ہے۔ اس مادی تگ ودو نے اس کے اندر سے اخلاقِ فاضلہ کی قدروں کا خاتمہ کردیا ہے۔ لہٰذا! جب تک معاشرہ پیارومحبت کے جذبے سے سرشارنہیں ہوگا تب تک انسانی تکالیف کا خاتمہ ناممکن ہے۔ایک اچھے معاشرے کا قیام اسی وقت ہوسکتا ہے جب انسان مذہبی ہواورمذہب کا حصول محبت سے ہی ممکن ہے۔کیونکہ کرشن مورتی کے نزدیک محبت ہی انسانی زندگی کا جوہر ہے۔ اس طرح مذہب کی اصل بنیاد محبت پر قائم ہے اور مذہبی ہونے کا پیمانہ انسانی سماج کے ہر فرد کے ساتھ محبت اور پیارکے جذبے کا پایا جانا ہے۔اگر محبت کو ہی اچھے معاشرے کے قیام کا پیمانہ تسلیم کرلیا جائے تو عدم مساوات، سماجی ناانصافی اور وسائل پر ایک خاص قسم کے لوگوں کی اجارہ داری اور دوسروں کے حاشیے پر پہنچنے جیسے پیچیدہ مسائل ہی پیدا نہیں ہوں گے جن کے لیے سماجی اصلاحات کی کوششیں کی جاتی ہیں۔وہ رقم طراز ہیں:

’’جب تقابل درمیان میں نہ ہو تو مالی اور سائنس داں دونوں کی مکمل صلاحیت یکساں ہوجاتی ہے۔ لیکن جیسے ہی تقابل درمیان میں آتا ہے، تحقیر کا جذبہ اور حاسدانہ رد عمل سر ابھارنے لگتاہے۔ جس سے انسان اور انسان کے درمیان ٹکراؤہونے لگتا ہے۔ غم کی طرح محبت کا موازنہ بھی ممکن نہیں ہے۔ اس میں کم وبیش نہیں ہے۔محبت محبت ہے باکل ویسے ہی جیسے غم غم ہے۔ چاہے اس کا حامل غریب ہو یا دولت مند۔فرد کی ہمہ جہت نشو نما سے ایسا معاشرہ وجودمیں آتا ہے جہاں مساوات ہو۔آج معاشرے میں معاشی اور روحانی مساوات لانے کی جو کوششیں ہورہی ہیں، بے معنی ہیں۔مساوات کے لیے کی جانے والی سماجی اصلاحات کی کوششوں سے ایک علاحدہ قسم کی غیر سماجی سرگرمیاں وجود میں آجاتی ہیں۔صحیح زاویے سے تعلیم دی جائے تو سماجی اصلاحات کی کوششوں سے مساوات لانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوگی۔ اس لیے جب تقابل یا موازنہ نہیں ہوگا تو حسد کا جذبہ بھی بیدارنہیں ہوسکے گا” (کرشن مورتی؍صفحہ نمبر8 :2000 )۔

 سچائی اور حقیقت تک رسائی کا راستہ

کرشن مورتی کے مطابق سچائی سبھی مذاہب وادیان،نظریات، مکاتب فکر، ازم اوردیگر سبھی طرح کے حدودوقیود سے آزاد ہے۔سچائی کا راستہ ان سب سے ہوکر نہیں گزرتا بلکہ سچائی راستے کی قید سے بھی آزاد ہے۔”(Truth is the pathless)”۔یعنی سچائی تک رسائی راستے کی قید سے آزاد ہے۔انسان کسی تنظیم ، نظریہ، مکتبِ فکر یا مذہب پر چل کر سچائی تک نہیں پہونچ سکتا بلکہ ان سب بندھنوں سے نکل کر ہی سچائی کا حصول ممکن ہے۔ سچائی تک رسائی کے لئے انسان کو قوتِ مشاہدہ، عقلِ سلیم، قوت ِفہم ، ادراک ، شعور اور وجدان کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے ۔ وہ اگرچہ ہندوستان میں ایک برہمن ہندوگھرانے میں پیداہوئے لیکن وہ اپنی تقریروں اکثرکہاکرتے تھے کہ وہ نہ تو ہندوستانی ہیں اور نہ ہی ہندو.انھوں نے جب 3 ؍اگست 1929 کو ’آرڈرآف اسٹاراِن دی ایسٹ‘ کے خاتمے کا اعلان کیا اس وقت بھی انھوں میں اپنی مختصر سی تقریر میں یہی بات کہی تھی کہ سچائی راستے ، وسیلے اور توسط سے بالکل آزادہے۔ کسی نظریہ یا مذہب کوتسلیم کرکے آپ سچائی تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے۔وہ مذہب کے بارے میں تحریرکرتے ہیں کہ:

” جس کو ہم مذہب کہتے ہیں وہ ایک قائم شدہ منظم عقیدہ ہوتاہے جس میں متعددقول وفتوے، مختلف رسوم، غیبی امورکے تذکرے اور توہمات شامل ہوتے ہیں۔ہر مذہب کی اپنی اپنی مقدس کتاب، اپنے شفیع ورہبر، اپنے پیر اورپجاری ہوتے ہیں۔علاوہ ازیں لوگوں کو ڈرانے، دھمکانے اور قابومیں لانے کے بھی الگ الگ طریقے ہوتے ہیں۔ اکثر لوگ تو ایسی بندشوں کے پابند ہوگئے ہوتے ہیں اور اُسی پابندی کو مذہبی تعلیم کا نام دیتے ہیں۔” (کرشن مورتی؍صفحہ نمبر58 :1960 )۔

کرشن مورتی کی چونکہ اس طرح سے رسمی تعلیم نہیں ہوئی تھی جس طرح ازادانہ طورپر عام بچوں کی ہوتی ہے۔ انھیں تو ایک مقصد اور مطمحِ نظرکے تحت ڈھالا گیا تھا۔ شایدوہ جب اُس سے اُکتا گئے ہوں گے تو وہ تحلیل نفسی اورقوت مدرکہ کے ذریعے اس نتیجے پر پہنچے۔انھوں نے شاید ادیان ومذاہب کا مطالعہ نہیں کیاجس سے وہ مدلل طورپرکسی منطقی انجام تک پہنچتے۔لیکن ایک اچھے اور صالح معاشرے کی تشکیل کے لیے وہ پُرعزم تھے۔اس کے حصول کے لئے اپنی زندگی کے آخری لمحات تک ریاست ہائے متحدہ امریکہ، یورپ، ہندوستان، آسٹریلیا اور دنیا کے دیگر خطوں میں گھوم گھوم کراپنی روحانی، سماجی اور تعلیمی تقریروں ، خطابات اور انٹر ویو کے ذریعہ اپنے خیالات کی نشرواشاعت کی اور اہلِ علم کے کثیر طبقے کی توجہ اپنی جانب مبذول کی۔

کرشن مورتی کے تعلیمی نظریات (Educational Thoughts of Krishnamurti)

 صحیح اور درست تعلیم (Right Education)

کرشن مورتی پوری زندگی اس بات کا درس دیتے رہے کہ صحیح تعلیم نہ صرف باطن کی تبدیلی اور اصلاح کا ایک ذریعہ ہے بلکہ یہ سماجی تبدیلی کابھی ایک اہم اور طاقتورہتھیارہے۔ان کے نزدیک ایک صالح معاشرے کی تشکیل کے لئے تعلیم بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ تعلیم کے بغیر ایک اچھے معاشرے کا تصور ناقص اور نامکمل ہے ۔تعلیم کا بنیادی مقصد انسان کے دل و دماغ کو تعلیم یافتہ بنانا ، اس میں اخلاقِ فاضلہ کی قدروں کو پروان چڑھانا ، اچھائی اور برائی کے درمیان تمیز کرنے کا شعورپیداکرنا،خودآگہی اور خودی کا شعوربیدارکرنا،عقل سلیم اور اپنی فہم وفراست کا استعمال کرکے سچائی تک رسائی حاصل کرنا،فکر میں عمق اور گہرائی و گیرائی پیداکرنا اور نئی نسل کی ہمہ جہتی نشو ونما کرناہے۔کرشن مورتی کے نزدیک تعلیم کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ چند سالوں میں ایک مقررہ نصاب مکمل کراکے طلبا وطالبات کو ڈگری تفویض کردی جائے۔اس طرح وہ ڈگری یافتہ ضرور بن سکتے ہیں لیکن تعلیم یافتہ ہرگزنہیں۔تعلیم ایک مقدس عمل ہے جس کے ذریعے طلبا وطالبات کے برتاؤ اوررویے میں مثبت تبدیلی لانا اور انھیں کائنات کے رازہائے سربستہ کی دریافت کے لیے تیارکرناہے۔ان کے نزدیک تعلیم طلبا وطالبات کی خوابیدہ صلاحیتوں کو نکھارتا ہے، انھیں صیقل کرتا ہے اور فرد کی شخصیت کو بناسنوار کر سماج میں اپنا کردار اداکرنے کے لیے تیار کرتا ہے۔تعلیم کا مقصد ہرگزیہ نہیں کہ اسے منفعت کے حصول کے لیے استعمال کیا جائے۔آموزش کا عمل بچوں کے برتاؤاور رویے میں دیر پا مثبت تبدیلی کا نام ہے اور یہ سلسلہ کبھی بھی ختم نہیں ہوتا بلکہ تاحیات گودسے گورتک جاری رہتا ہے۔وہ اپنی کتاب ‘ تعلیم اور زندگی کہ اہمیت’ میں رقم طراز ہیں کہ:

’’تعلیم کا مقصد ایسے انسان تیارکرنا ہے جو مکمل شخصیت رکھتے ہوں، جس کی وجہ سے وہ ذی ہوش اور دانش مند بنیں۔ہم بڑی بڑی سندیں چاہے حاصل کرلیں اور بندے ڈھرّے پرخوبی سے ہرکام انجام دے سکیں۔مگر یہ لازمی نہیں ہے کہ ہم ساتھ ہی دانش مند بھی ہوں۔محض معلومات کا نام فہم وذکاوت نہیں ہے۔ فہم و دانش نہ تو کتابوں کے مطالعہ سے، نہ مشکلات سے بچنے کی ترکیبوں سے، نہ دھینگا مشتی سے حاصل ہوتی ہے۔جنھوں نے تعلیم نہ بھی پائی وہ تعلیم یافتہ لوگوں کے مقابلہ میں زیادہ صاحب فہم ہوسکتے ہیں۔ہم نے محض امتحانات اور استادکو دانش مندی کی کسوٹی بنارکھا ہے اور دنیا وی فطرت اور ترکیبوں سے کام لے کر زندگی کے اہم مسائل سے منہ چراتے رہتے ہیں۔فہم وادراک موجودہ حالات اورحقیقت کے جاننے اور سمجھنے کی صلاحیت کو کہتے ہیں۔ اور اسی قابلیت اور صلاحیت کو اپنے اورنیز دوسروں میں اجاگر کرنا تعلیم ہے۔” (کرشن مورتی؍صفحہ نمبر25-24 :1998)۔

تعلیم دراصل انسان کے برتاؤاور رویے میں مثبت تبدیلی لانے کا نام ہے۔ذریعہ معاش کا تعلق ہماری تعلیم سے براہِ راست قطاً نہیں ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں بد قسمتی سے تعلیم کا مطلب یہ اخذ کیا جاتاہے کہ ڈگریاں حاصل کرکے ایسے اعلیٰ عہدوں اورمنصبوں پر فائز ہوں جہاں تعلیم کی اہمیت کم اور منصب وعہدہ کی اہمیت زیادہ ہو۔جدوکرشن مورتی ایسی تعلیم کومعاشرے کے لیے خطرناک اورمضر قراردیتے ہیں۔ ایسی تعلیم جو ذاتی یاکسی مخصوس طبقے کے مفادات کے حصول پر مبنی ہو وہ تعلیم محبت کے جذبے سے خالی ہوتی ہے۔محبت کے ذریعے ہی زندگی اورمقاصد زندگی کا ادراک ہوتاہے۔ اگرتعلیم محبت کے جذبے سے خالی ہوجائے تو اس سے سنگ دلی پیداہوگی اور یہ سنگ دلی سماج کے مختلف طبقات میں تصام اور ٹکراؤکی صورتِ حال پیداکردے گی۔یہی وجہ سے کہ جب ہم اپنے مقاصد سے منحرف ہوگئے توتعلیم یافتہ ہونے کے باوجودہماری زندگیوں میں امن، چین اور سکون نہیں ہے۔پوراسماج کش مکش کی زندگی گزاررہاہے۔ ایک دوسرے سے رقابت اور عداوت پائی جاتی ہے۔سب جاہ ومنصب کے حصول میں سرگرمِ عمل ہیں تاکہ ذاتی منفعت اورمراعات حاصل کی جاسکیں۔وہ رقم طراز ہیں کہ:

” اگرہم صرف اس غرض سے علم حاصل کرتے ہیں کہ ہمیں امتیازحاصل ہو کوئی بڑاعہدہ ملے، زیادہ اہل بنیں، یا دوسروں پر زیادہ اقتدارحاصل کریں تو ہماری زندگی محض اوچھی اورکھوکھلی بنی رہے گی۔اگرحصول علم کا صرف یہ مقصدہے کہ ہم سائنس داں یا کتابوں پر فریفتہ عالم وفاضل یا کسی خاص علم کے ماہر بن جائیں تو دنیاکے لیے بربادی اورمصیبت پیداکرنے میں ہمارا حصہ ضروررہے گا۔زندگی ایک اعلیٰ اور وسیع اہمیت رکھتی ہے۔ اگر ہم اسے دریافت نہ کرسکیں تو ہماری تعلیم کس کام کی۔ہم اعلیٰ تعلیم یافتہ کیوں نہ ہوں، لیکن اگر ہمارے خیالات اور جذبات میں کافی ترتیب وتناسب نہ ہو توہماری زندگی قطعی نامکمل، مجموعۂ تضاد، اور طرح طرح کے خوف سے منتشراورپریشاں حال رہے گی۔‘‘ (کرشن مورتی؍صفحہ نمبر20 :1998)۔

آزادی اور محبت کے جذبے کا فروغ (Promotion of Freedom & Love)

کرشن مورتی کے نزدیک اگر انسان خودکو مذہبی، جغرافیائی خطے ، ملک وقومیت یا کسی نظریئے میں قید کرکے سوچتا ہے تو وہ متشدد ہے۔ اس لئے کہ وہ خودکو انسانیت سے علاحدہ کررہا ہے اور خودایک جزیرہ بننا چاہتا ہے۔اور جب وہ خودکو مذہب، جغرافیائی خطے، قومیت، وطنیت، نظریہ یا اور کسی بنیادپرخودکو علاحدہ کرلیتا ہے، تو اس سے تشدد کو فروغ ملتا ہے۔اس سے تعصب اور جانبداری کو بڑھاواملتا ہے اور یہی چیز انسان کو انسانیت سے دورکرتی ہے اور خانوں میں تقسیم کردیتی ہے۔اور جب انسان انسانیت سے عاری ہوجاتا ہے تو کبر، نخوت، نسل پرستی، تشدد، خودکی بالادستی، احساس برتری جیسی زنجیروں میں خودکو جکڑ لیتا ہے اور خالص محبت سے اس کا سینہ خالی ہوجاتا ہے۔محبت انسانیت کی اصل بنیاد ہے ۔ جب تک انسان خودکو ہرطرح کے بندھن سے آزاد نہیں کرلیتا اور خودکو کسی نظریئے میں جکڑا ہوا محسوس نہیں کرتا تبھی وہ محبت کے لئے کھلے ذہن سے بنیاد تیار کرتا ہے۔اس لئے ضرورت اس امر کی متقاضی ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام ایسا ہو جو طلبا وطالبات کو مذہبی، روایتی، نظریاتی، سیاسی اور سماجی خانوں سے نکالے۔ انھیں آزادانہ غوروفکر کے مواقع فراہم کرے۔ اس آزادانہ غوروفکر کو فروغ دینے کے لئے طلبہ وطالبات سے طویل مراقبے کرائے جائیں تاکہ وہ خیالات کی تہ تک رسائی حاصل کرسکیں اور ان کی فکر میں عمق، گہرائی اورگیرائی پیداہوسکے۔اس عمل کے انجام دینے سے آزادی اور محبت یکجا ہوجائیں گے اور اس طرح انسانیت کی ایک مضبوط ومستحکم بنیاد پڑے گی۔اس طرح فطری طورپرمنافست کا خاتمہ ہوجائے گا اور جوں ہی منافست کا خاتمہ ہوگا، اسی وقت اصل آموزش کا آغازہوگا۔

 تزکیۂ نفس اور اصلاح باطن (Purification of Soul)

کرشن مورتی کے نزدیک تعلیم کا اہم ترین مقصد تزکیۂ نفس اور اصلاح باطن ہے۔ اگر ہمارا باطن صاف شفاف ہوجاتا ہے تو یقینا ایک اچھااور صالح معاشرہ وجود میں آئے گا۔وہ ایک ایسے تعلیمی نظام کی وکالت کرتے ہیں جہاں طلبہ کو مذہب پر مرکوز تعلیم مہیا کرائی جاتی ہو۔ مذہب سے ان کی مراد محبت ہے۔وہ کہتے ہیں کہ وہ خدایابھگوان میں یقین نہیں رکھتے لیکن ان کے نزدیک محبت کا مقام سب سے بلند ہے۔اور محبت کاحصول اسی وقت ممکن ہے، جب نفس کو پاکیزہ کرکے، مادی اثرات سے اسے پاک کیا جائے اور روحانیت سے معمورکیا جائے۔تزکیہ ٔ نفس کے حصول کے لیے وہ وطلبا وطالبات کے لیے یو گااورمراقبہ کو لازمی سمجھتے تھے۔یوگااورمراقبے کے ذریعے فکر میں عمق اورکردارمیں پاکیزگی کے تعلق کو انھوں نے بہت اہمیت سے بیان کیاہے اور خیالات ونفس کی پاکیزگی کا حصول ہی زندگی کی معراج اورتعلیم کا ماحصل ہے۔

مراقبہ (Meditation)

کرشنا مورتی کے نزدیک مراقبہ (Meditation) نصاب کا ایک جزو لاینفک ہوناچاہیے۔مراقبے کے ذریعہ طلبا وطالبات میں نہ صرف غوروفکر کی صلاحیت پیدا ہوگی بلکہ وہ سوچ اور فکر کی تہ تک پہونچیں گے جو کہ خودآگہی اورخودی کے شعورکے لیے لازمی ہے۔ان کے مطابق اسکولوں میں مراقبے کے خصوصی مراکز ہونے چاہیے جہاں طلبہ تربیت یافتہ اساتذہ کی نگرانی میں مراقبہ کرسکیں اوران کی فکری بالیدگی ہوسکے۔اس کے بغیر ذہنی سکون اور قلبی اطمینان نصیب نہیں ہوسکتا۔ذہنی سکون ایک مذہبی انسان کو ہی نصیب ہوسکتا ہے۔اور مذہبی انسان وہی ہے جومحبت کے جذبے سے سرشار ہو اور ایسا شخص ہی منطقی سوچ اور معقولیت پسندفکر کا مالک ہوتاہے۔کرشن مورتی نے اپنی زندگی میں جن اسکولوں کو کھولا یا جو ان کی زندگی کے بعد کھولے گئے، ان میں مراقبے کے خصوصی مراکز قائم کیے گئے تھے۔ان مراکز میں طلبہ وطالبات کی مراقبے کی خصوصی کلاسز ہوتی تھیں۔

خودآگہی اور خودی کا شعور (Self-realization)

کرشن مورتی کے نزدیک تعلیمی نظام کی بنیادہی خودآگہی اورخودی کے شعورپرہے۔جب تک طلبا وطالبات میں خودآگہی نہیں پیداہوگی وہ اپنی صلاحیت، قابلیت اورجواہرپاروں کے تئیں ناواقف رہیں گے۔خودآگہی انسانی زندگی کی معراج ہے۔خودآگہی ہی وہ اہم ترین ذریعہ اور وسیلہ ہے جوطالب علم میں علم کلی کے ادراک کی صلاحیت کو جاگزیں کرتاہے جس میں تمام صلاحیتیں بیک وقت یکجاہوجاتی ہیں۔وہ علم اورمعلومات کے درمیان فرق کرتے ہیں اورقوتِ فہم، تخیل، تجسس، شعور، وجدان، مشاہدے اور تجربے کوتعلیم اور بچے کے تعلیمی تجربات کی اکائی اوران کے ذریعے کلی طورپر ادراک کے حصول کوتعلیم کامنتہا اورغایت گردانتے ہیں۔وہ اپنی کتاب ’ تعلیم اور زندگی کی اہمیت‘ میں خودآگہی اور خودشناسی میں تعلیم کی اہمیت پر زوردیتے ہوئے کہتے ہیں کہ؛

صحیح قسم کی تعلیم کا واسطہ ہرفردبشرکی آزادی سے ہے۔صرف اُسی کے ذریعے کلیات کے ساتھ اورنیز مختلف افراداوراشیاء کے ساتھ صحیح ارتباط اور تعاون قائم ہوسکتاہے۔لیکن یہ آزادی اپنی ذاتی کامیابی اورسرفرازی کے درپے رہنے سے حاصل نہیں ہوتی۔آزادی ، خودشناسی سے حاصل ہوتی ہے، جب کہ ہم اپنے دل کو ان تمام رکاوٹوں سے پرے رکھیں جو اپنی حفاظت کی آرزومیں ہم نے پیداکررکھی ہیں۔تعلیم کا مقصدیہی ہے کہ ہرفردِبشرکواپنی باطنی وحسیاتی رکاوٹوں کو دریافت کرنے میں مدددے اور کسی نئے طرزِخیال اورطرزِعمل کو اس کے گلے نہ مڑھے۔‘‘ (کرشن مورتی؍صفحہ نمبر126 :1998)۔

خودآگہی اورخودی کاشعورہی دراصل شخصیت سازی ،انسانی شرافت اوراقدار کاجوہرہے۔جو چیز بچوں پر باہر سے مسلط کردی جائے یا تھوپی جائے وہ توخارجی چرپہ کی حیثیت رکھتی ہے نہ کہ اصل جوہرکی۔ان کی کتابوں میں کوئی مخصوص طریقہ تدریس نہیں ملتا لیکن باربار وہ تعلیم کے ذریعے خود آگہی اور خودی کے شعورکے حصول کی بات کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اگر طلباوطالبات میں خودآگہی اور خودی کا شعورپروان چڑھ گیا تو تعلیم کا بنیادی مقصد حاصل ہوگیا۔خودآگہی اورخودی کا شعورجتنا زیادہ پختہ ہوگا طلبا وطالبات کی شخصیت بھی اتنی ہی زیادہ معتدل، جامع، ہموار اورمعنی خیزہوگی۔وہ لکھتے ہیں کہ:

صحیح قسم کی تعلیم کی شروعات ایسے ہی معلم سے ممکن ہے جس میں خودشناسی کی صفت ہو اورجو مقررہ اورمروجہ طرزخیال کی پابندی سے آزادہو، کیونکہ جیساکچھ استاداپنی ذات سے ہوگا ویسی ہی وہ تعلیم دے سکے گا! اگر خوداس کی صحیح تعلیم نہیں ہوئی ہے تووہ بجز اس کے اور کیا کرسکتاہے کہ جوجومقررہ طرزکی معلومات اس نے خودحاصل کی ہیں، انھیں سے اپنے شاگردوں کو واقف کرادے۔‘‘ (کرشن مورتی؍صفحہ نمبر146 :1998)۔

 کرشن مورتی کے نزدیک تعلیم کے اہم مقاصد (Aims of Education)

کرشن مورتی کے نزدیک تعلیم جز (part)یعنی اکائی نہ ہوکرکُل(whole) ہے۔تعلیم صرف علم حاصل کرنے، حقائق اورمعلومات کو جمع کرنے تک محدودنہیں ہے بلکہ یہ ایک اصلاحی (reformative) اوربچوں کی زندگی کو یکسرتبدیل کردینے (transformative)اور ان کی کایا پلٹ دینے کا عمل ہے۔تعلیم پوری انسانی زندگی کا لائحۂ عمل (scheme of life)ہے۔تعلیم کا مقصدایسے افرادکو پیداکرنا ہے جن میں انسانی شرافت کوٹ کوٹ کربھری ہو۔وہ تعلیم کے عمل میں ڈگری یافتہ نہیں تعلیم یافتہ ہونے پر زوردیتے ہیں اور تعلیم بھی وہ جو ایک آزادفضامیں آزادانہ طورپرذاتی سمجھ بوجھ کی بنیادپرحاصل کی گئی ہو۔کرشن مورتی ایک ایسے تعلیمی نظام کو چاہتے ہیں جس میں؛

٭ انسانیت سے محبت اور ہر طرح کے حدودوقیود سے آزاد ماحول میں تدریس وآموزش کاعمل انجام پاسکے۔

٭ طلبا وطالبات کی ہمہ جہتی نشو نما کا فروغ ہوسکے ۔ان کی ذہانت اور فہم وفراست کو بیداراورمتحرک کیا جاسکے۔

٭ طلبا وطالبات کی تخلیقی صلاحیتوں کا فروغ ہوسکے۔

٭ طلبا وطالبات میں سائنٹفک اور معقولیت پسندفکرکا فروغ ہوسکے۔

٭ طلبا وطالبات میںروحانیت کا فروغ ہوسکے۔

٭ طلبا وطالبات بیک وقت سائنٹفک اور روحانی فکر کے امتزاج کا عملی نمونہ بن سکیں۔

٭ طلبا وطالبات میںپیشہ ورانہ صلاحیتوں کا فروغ ہوسکے۔

٭ طلبا وطالبات میں غیر مسلط آزادی اور نظم و ضبط کوفروغ دیا جاسکے۔

٭ طلبا وطالبات سبھی نظریات ، مذاہب،ازم اور رائج شدہ حدودوقیود سے آزادہوکرتعلیم حاصل کرسکیں۔

٭ طلبا وطالبات میں ماحولیات اور فطرت سے محبت اور اس کی درست سمجھ کو فروغ دیا جاسکے۔

٭ طلبا وطالبات میں تجسس، تخیل، شعور، وجدان،مہارت ، تجربہ اور تحقیق کی صلاحیت کو فروغ دیا جاسکے۔

٭ طلبہ وطالبات میں ازسرِ نو تعلیم۔Re-educationکے جذبے کا فروغ ہوسکے۔

 ٭ طلبا وطالبات کے احساسِ خودی اورخودی کے شعور(آتما گیان) کو بالیدگی فراہم کی جاسکے۔

٭ طلبا وطالبات میں مافی الضمیر کے اظہار کی صلاحیت کو فروغ دیاجاسکے۔

کرشن مورتی کے نزدیک اسکول کا تصور (Concept of School)

کرشن مورتی اپنی تقریروں اور تحریروں میں مثالی سماج کے قیام کے لیے مثالی اسکولوں کو زیادہ اہم مانتے ہیں۔وہ باربارایسے اسکولوں کے قیام پر زوردیتے نظرآتے ہیں جہاں پر ایک بچہ خودکوبالکل اپنے گھر کی طرح محسوس کرے۔اس کے دل ودماغ میں کسی بھی طرح کاکوئی خوف نہ ہو۔قدیم ہندوستانی نظامِ تعلیم سے وہ باربار اس کی مثالیں دیتے ہیں جہاں گرو اور ششیہ (استاداورشاگرد) کے درمیاں ایک گھر کا رشتہ ہوتاتھا۔شاگرداپنے استادکے ایک گھرکے فردکی طرح رہتاتھا اورجہاں وہ بے جھجک اپنی بات پوچھ سکتاتھا اور اسے کو ئی گھبراہٹ بھی نہیں ہوتی تھی۔آج استاداورشاگرکے اسی رشتے کو استوارکرنے کی ضرورت ہے ۔درس وتدریس اور تعلیم وتعلم کے عمل میں استاداورشاگردکا رشتہ کرشن مورتی کے نزدیک بنیادکی حیثیت رکھتاہے۔اس کے بغیرعلم کی بنیادیں کمزوررہتی ہیں۔استادکی حیثیت پورے تعلیمی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی ہے جس کا جسم کے سبھی اعضاء سے مضبوط رشتہ قائم ہوتاہے ۔ان کے نزدیک اسکول ایک ایسی جگہ ہے جہاں طلبا خودکو خوش محسوس کرسکیں ، دوڑسکیں، جہاں چاہیں بیٹھ سکیں اور خودکو آزادمحسوس کرسکیں۔یہ ایک جگہ ہونی چاہیے جہاں ان کو سیکھنے کا ہنر اور سیکھنے کا فن سکھایاجائے۔ ان پر کسی بھی قسم کا خارجی نظم وضبط مسلط نہ کیا جائے اورایسی فضا قائم کی جائے کہ وہ زندگی کو بطورایک کل(as a whole) سمجھ سکیں۔یہاں پہ کسی نقطۂ نظر کے بغیر بچے پوری دنیا کاخودسے مشاہدہ کرنا سیکھیں دوسروں سے نتائج اخذ کیے بغیر۔بچوں میں فطری طورپر سیکھنے کی صلاحیت موجودہوتی ہے اور وہ اپنے نقطۂ نظر سے کائنات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔کرشن مورتی رقم طراز ہیں:

بنیادی طورپربچوںمیں کچھ سیکھنے کی خواہش اور معلومات حاصل کرنے کاتجسس ہوتاہے۔جسے کمال ہوش مندی کے ساتھ مسلسل حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے۔تاکہ آگے چل کرمسخ ہوئے بغیر یہ خواہش ان میں مستحکم رہے اور مختلف مضامین کے مطالعے کی طرف بتدریج ان کی رہنمائی ہوسکے۔اگر سیکھنے اور سمجھنے کے اس شدید جذبے کی مناسب حوصلہ افزائی مسلسل ہوتی رہے تو ریاضی، جغرافیہ، تاریخ، سائنس یا کوئی اور مضمون مطالعے کے دوران مسئلہ نہیں بنے گا۔نہ بچے کے لیے نہ معلم کے لیے ۔جب ہوش مندی کے ساتھ تربیت اور محبت وشفقت کا خوش گوارماحول بن جائے توحصول علم بہت آسان ہوجاتاہے۔‘‘ (کرشن مورتی؍صفحہ نمبر12 :2000)۔

کرشن مورتی نے اپنے نظامِ تعلیم کے نفاذ کے لیے عملی طورپرکئی اسکول کھولے جن میں (1)رِشی ویلی ایجوکیشن سینٹر، آندھرپردیش(2) بال آنند ، مہاراشٹر (3) راج گھاٹ بسنت اسکول، راج گھاٹ فورٹ ، وارانسی(4) اوک گرواسکول، اوہائی، کیلیفورنیا، ریاست ہائے متحدہ امریکہ(5) بروک ووڈ پارک اسکول، ہیمپ شاعر،برطانیہ وغیرہ ۔یہ سبھی اسکول فطری ماحول میں قائم کیے گئے ہیں تاکہ کرشن مورتی کے نظریات کے مطابق بچوں میں فطرت کی بہترین سمجھ بوجھ پیداہوسکے اور وہ فطرت سے خودکو جوڑکر دیکھ سکیں۔

کرشن مورتی کے نزدیک استادکا تصور (Concept of a Teacher)

کرشن مورتی کے نزدیک معیاری اورصحیح تعلیم کا آغازمعیاری اورصحیح استادکے ساتھ ہوتاہے جو خودکو بھی سمجھتا ہواوررائج شدہ نظام سے الگ اپنی آزادانہ سوچ اورفکر رکھتاہو۔اگر استاد کی تربیت میکانیکی طریقہ پر ہوگی تو تعلیم اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکتی۔ ان کے نزدیک اصل مسئلہ بچے نہیں بلکہ والدین اور استاد کی ناقص تربیت ہے۔استاد اگر اسکول میں بچوں کو صرف معلومات منتقل کرتا ہے، چند مضامین پڑھادیتا ہے اور بچہ امتحان میں پاس ہو جاتا ہے تو اسطرح کی تعلیم ناقص ہے۔استاد کی تربیت انتہائی پیچیدہ امر ہے۔ استاد بچوں کو رائج شدہ تعلیمی نظام کے مطابق ہی پڑھاتا ہے اور وہ رائج شدہ نظام یا تو مذہب پر مبنی ہوتا ہے یا پھر کسی نظریہ اور ازم پر۔ جب تک ہم خود کو سبھی مذاہب اور نظریات سے الگ نہیں کر تے ہم بچوں کو اصل حقیقت اور سچائی کی تعلیم نہیں فراہم کرسکتے۔استاد کو معقولیت پسند اور منطقی فکر کا مالک ہونا چاہیے جس میں تخلیقی صلاحیتوں کے جواہر پارے موجود ہوں۔وہ اپنی کتاب’ سیکھنے کا ہنر‘ میں رقم طراز ہیں کہ:

” چونکہ ہماراخاص مقصدایک اچھے ذہن کی نشوونما ہے، اس لیے بات کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کہ ایک معلم کس طرح تعلیم دے۔ تعلیم محض اطلاعات کی فراہمی کا کام نہیں ہے بلکہ ذہن کی مجموعیت کا ادراک پیداکرنا ہے۔معلومات فراہم کرنے کے عمل کے دوران معلم کو چاہیے کہ وہ گفتگوکے مختلف طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے طلبامیں آزادانہ سوچنے اور سوالات کرنے کی عادت کی حوصلہ افزائی کرے۔حصول علم میں سب کچھ جاننے والے کا تصورفرضی ہے۔معلم اورطالب علم دونوں ایک دوسرے کے درمیان استوارخصوصی رشتے کے تعلق سے سیکھتے اور علم حاصل کرتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ معلم خیالات کو مربوط ومنظم کرنے میں لاپرواہی برتے۔خیالات کا نظم معلومات کے منضبط قطعی اظہارکے ذریعے ممکن نہیں ہے۔بلکہ جب معلم اس بات کوسمجھ لیتاہے کہ احساس آزادی کے ساتھ فہم وذکاوت کی تخم ریزی ضروری ہے تو یہ فطری طورپر عمل میں آجاتاہے۔‘‘ (کرشن مورتی؍صفحہ نمبر6 :2000)۔

ان کے نزدیک ایک ایسا ذہن جس کوایک نہج پرڈھالاگیا ہواور اس کومشروط کیا گیا (conditioning) ہو تواس میں آزادی سے سوچنے اور غوروفکر کی صلاحیت ناپید ہوجاتی ہے۔اس لیے استادکو طلباو طالبات میں آزادانہ غوروفکر کی صلاحیت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ان میں اصل خیالات کی نشوونماہوسکے۔عام طورپرہوتایہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کو اسکول میں صرف اس لیے داخل کرتے ہیں تاکہ وہ یوں ہی سرسری معلومات حاصل کرکے ڈگریاں لے کراعلیٰ عہدوں پرفائز ہوسکیں۔اس لیے استادکے لیے یہ بھی لازم ہے کہ والدین پر بھی نگاہ رکھے کہ وہ تعلیم کے مقصدسے کہیں منحرف تو نہیں ہورہے ہیں۔وہ باربار مکالمے(dialogue) اوربچوں کے ساتھ بات چیت پرتوجہ مرکوزکرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتاہے کہ معلم اور طلبا کے درمیان تناسب (teacher taught ratio) ان کے نزدیک اہم ہے۔کلاس میں اتنے ہی بچے ہونے چاہئیں جن سے مکالمہ اور بات چیت ہوسکے۔طلبا وطالبات کے نقطۂ نظر کو بھی سمجھا جاسکے۔اگر کلاس روم میں طلبا کی تعدادبہت زیادہ ہوگی تو معلم اور طلبا کے مابین نتیجہ خیز مکالمہ اور بات چیت نہیں ہوسکتی۔اس طرح وہ بھیڑ بھاڑ والی کلاس روم (crowded classroom) کے خلاف نظر آتے ہیں۔جب ایک سازگارفضا میں استاداورطلبا کے مابین تعامل(interaction) ہوگا توان میں تخیل، تجسس، شعور، وجدان، تخلیقیت اورتحلیلی وتجزیاتی قابلیت پیداہوگی جو کہ تعلیم کا ماحصل ہے۔

کرشن مورتی مشن (Krishnamurti Mission)

دنیا کے عظیم مفکرین کی طرح کرشن مورتی نے نا صرف تعلیمی نظریات پیش کیے بلکہ ان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اسکول بھی قائم کیے۔کرشنا مورتی کے اسکول بہت ہی وسیع و عریض رقبے پر پھیلے ہوئے ہوتے تھے اوراسکول کیمپس کا منظر انتہائی سبزوشاداب تھاجہاں مشفق اور ماہرین اساتذہ کے لئے آرام دہ اسٹاف کوارٹرتھے لیکن انتہائی سادگی کو اپنایا گیا تھا۔طلبہ اور اساتذہ سبھی سادہ کھانا کھاتے تھے جس میں کوشت کی شمولیت نہیں ہوتی تھی۔ اسکولوں میں مراقبے اوریوگا کے مراکز قائم تھے جہاں منظم طریقے سے بچوں کو مراقبے اوریوگا کی تربیت دی جاتی تھی۔بچوں میں تخلیقی فکر کو پروان چڑھایا جاتا تھا۔روحانی تعلیم ایک لازمی مضمون کے طورپر دی جاتی تھی۔ذہنی سکون اور قلبی اطمینان نیز فکر ی گہرائی کے لئے طویل مراقبے کرائے جاتے تھے۔اسکول میں صرف مضامین کی تعلیم نہیں دی جاتی تھی بلکہ مجموعی طورپر ذہنی نشوونما کی تربیت بھی دی جاتی تھی تاکہ بچے خارجی ماحول سے مطابقت پیداکرسکیں۔

 خلاصہ

جدوکرشن مورتی بیسویں صدی عیسوی کے عظیم فلسفی ، ماہرِ تعلیم، واعظ اور مشہور زمانہ مفکرودانشور تھے۔انھوں نے تعلیم کے تصور پر کئی کتابیں بھی تصنیف کیں۔ان کے تعلیمی نظریات نے پوری دنیا کو متاثر کیا۔ان کی تعلیمات صحیح تعلیم اور محبت کے جذبے کو فروغ دے کر ایک مثالی معاشرے کے قیام پر زور دیتی ہیں۔وہ سب سے پہلے محبت کے جذبے کو فروغ دے کر سماج سے منافسہ، مقابلہ، تقابل اور موازنہ کو ختم کرکے ہر ایک بچے کی انفرادیت کو باقی رکھنے پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں۔وہ تعصب اور ہر طرح کے نظریات سے خود کو خالی کرکے سچائی کے راستے کو تلاش کرنے کی بات کرتے ہیں جو کہ اسلامی نظریات سے متعارض ہے۔کوئی بھی بچہ نظریات سے عاری ہوکر پرورش نہیں پاتا۔ بلکہ وہ موروثی طورپر سماج اور معاشرے کے تصورات کو اپنا تا ہے۔انھوں نے طلبا کی شخصیت کو نکھارنے میں مراقبہ اور فطرت پر بہت زیادہ زور دیا ہے جو عملی طورپرہندوستان کے تناظرمیں مشکل ہے۔وہ ڈگری یافتہ لوگوں کو تعلیم یافتہ نہیں سمجھتے بلکہ جو تزکیہ ٔ نفس اور اصلاحِ باطن کے ساتھ ساتھ اصلاح ظاہر پر بھی توجہ دیتا ہو اس کو اہم مانتے ہیں۔بچے کی پرورش کے لیے وہ نظم و ضبط پر بھی کافی توجہ مرکوز کرتے ہیں۔اپنی تعلیمات کوسب تک پہنچانے کے لیے انھوں نے پوری دنیا کے بے شمارسفرکیے۔ان کے مشن اور اسکول ہندوستان، امریکہ ، آسٹریلیا اور یوروپی ممالک میں پائے جاتے ہیں۔اپنے افکار سے پوری دنیا کو متاثر کرنے والا یہ عظیم فلسفی 17 ؍فروری1986 کو اس دنیا سے کوچ کرگیا اور اپنے پیچھے عظیم علمی وراثت چھوڑگیا ۔آج پوری دنیا میں جدوکرشن مورتی کو چاہنے والے بڑی تعدادمیں موجودہیں۔کرشن مورتی فاؤنڈیشن کے کئی مراکز دنیا میں موجودہیںجہاں سے ان کی تعلیمات کو پوری دنیا میں عام کیا جاتاہے۔

حوالہ جات

______________________________________

1 ۔ کرشن مورتی(1998) : تعلیم اور زندگی کی اہمیت(Education and the Significance of Life)،اردو ترجمہ ڈاکٹر اقبال نرائن گرٹو،کرشن مورتی فاؤنڈیشن، بنارس، کرشن مورتی فاؤنڈیشن،انڈیا

2 ۔ کرشن مورتی(2000) : ‘سیکھنے کا ہنر’ On Learning) ،اردو ترجمہ یعقوب یاور،کرشن مورتی فاؤنڈیشن، بنارس، کرنشن مورتی فاؤنڈیشن،انڈیا

  1. Singh. RK (2020), ‘Study of Jiddu Krishna Murti’s Philosophy of Life, Educational Philosophy and his Contribution to Alternative Education’, Journal of Emerging Technologies and Innovative Research (JETIR), Volue 7, Issue 12
  2. Lee. M (2020) ‘World Teacher the LIfe and Teachings of J. Krishnamurti, Hay House Publishers (India) Pvt. Ltd.
  3. Krishnamurti. J (2002) ‘Why Are You Being Educated?’ Krishnamurti Foundation India
  4. Krishnamurti. J (1987), Life Ahead’, California, Krishnamurti Foundation of America

****

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.