منفی ماحول کا مثبت استعارہ: ابن کنول

منفی ماحول کا مثبت استعارہ: ابن کنول

پروفیسر محمد کاظم

ایک ایسی شخصیت پر قلم اٹھانے کا حکم ہوا ہے جن کے بارے میں لکھنے کایارا میرے اندر ابھی بالکل ہی نہیں ہے۔ دہلی آنے کے بعد اب تک جن چند شخصیات نے مجھے سنوارنے کی کوشش کی ان میں سے ایک پر قلم اٹھانے کی جسارت کر رہا ہوں۔ قلم میں روشنائی تو ہے لیکن انگلیوں میں وہ توانائی ابھی محسوس نہیں ہو رہی ہے کہ قلم کا بوجھ بھی اٹھا سکے۔ لیکن وہ شخصیت ہی ایسی ہے کہ جن پر لکھے بغیر چارہ بھی نہیںاور وہ شخصیت ہیں پروفیسر ناصر محمود کمال یعنی ابن کنول ۔ بقول فاروق بخشی ؎
سایا بھی دیں گے پھول بھی اور پھل بھی آئیں گے
پودے رفاقتوں کے یہاں بو گیا ہے وہ
گزشتہ دنوں جو کچھ ہوا اس سے تو کلیجہ منھ کو آتا ہے ۔ ایک جانب سینکڑوں لوگ افسردہ ہیںتو اسی غمناک ماحول میں کچھ لوگوں نے تو بے حسی کی حد اس قدر پار کرلی کہ انسانیت شرمسار ہوتی نظر آئی۔ بقول داغؔ دہلوی ؎ ’پر تمھیں شرمسار کون کرے‘ ۔ لیکن ان کے ساتھی، دوست، رشتہ دار اور شاگردابھی بھی نم آنکھوں سے نہ صرف انھیں یاد کر رہے ہیںبلکہ ان کی عادت اور خصلت کے مطابق منفی فکر رکھنے والے افراد کو نظر انداز کرکے اپنا کام مثبت طور پر کرنے میں مشغول ہیں۔ وہ خود کہتے تھے:’ میاں منفی باتوں اور پہلوؤں کو یاد بھی نہ کیا کیجیے اس سے آپ کے مثبت کاموں پر اثر پڑتا ہے اور آپ کی صلاحیت اور توانائی ضائع ہوتی ہے۔‘ آئیے ان کے حوالے سے چند باتیں کر لی جائیں۔
منظر : ایک
میں 1992 میں دہلی آیا۔ یہ شہر میرے لیے نہ صرف نیا تھا بلکہ یہاں کا ماحول اور زبان دونوں ہی میرے لیے اجنبی اور نامانوس تھے۔اس ماحول میں مجھے سفر کرنے میں پریشانی ہوتی تو دوسری جانب خود کو درست کرنے کا موقع فراہم ہوتا۔ لیکن ابتدائی دنوں میں درست کرنے کا موقع کم اور کرخت زبان ہی نہیں بلکہ ڈانٹ ڈپٹ سننے کا موقع زیادہ ملا ۔کلکتے میں ہم لوگ بس کے ٹکٹ کنڈکٹر کو ڈانٹتے تھے لیکن یہاںمعاملہ الٹا تھا۔
1993 میں فروری یا مارچ کا مہینہ رہا ہوگا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ان مہینوں میں جلسے جلوسوں کی بہار ہوتی ہے۔ اس زمانے میں دہلی اردو اکادمی نہ صرف فعال تھی بلکہ اچھے اچھے موضوعات پر معیاری سمینار کا انعقادبھی کیا جاتا تھا۔ غالب اکادمی اس طرح کی سرگرمی کا مرکز ہوا کرتی تھی۔ سو یہاں کی ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں میں شامل ہونے کی غرض سے میں بھی اپنے سینئر اور ساتھیوں کے ساتھ وہاںاکثر جاتا رہتا تھا۔ مختلف اجلاس میں ملک کی مختلف ریاستوں سے تشریف لانے والے اہل علم و ہنر مقالے پیش کرتے تھے۔ ایک جلسے میںان میں سے ایک قدرے پست قامت ، لمبے بال (کم و بیش کاکل)، چوڑی پیشانی، روشن آنکھیں، آواز میں خاص طرح کی کھنک، چہرے پر تازگی، مزاج میں نرمی اور ملائمیت کے ساتھ بذلہ سنج، خوش گفتار، خوش اخلاق اور خوش لباس (چار جیبوں والے سفاری سوٹ میں ملبوس) شخصیت نے داستان کے حوالے سے نہایت بے باکی سے اپنا مقالہ پیش کیا۔ چوں کہ داستان ہمارے نصاب کا اہم حصہ تھا اس لیے اس مقالے میں دلچسپی زیادہ رہی۔ مقالہ ختم ہوا۔ جیسے ہی وہ اسٹیج سے نیچے اترے میں نہایت گرم جوشی سے ان کی جانب بڑھا اور مبارکباد پیش کی۔ تب معلوم ہوا کہ آپ ابن کنول صاحب ہیں۔ اس وقت ان سے یہ جاننے کی ہمت نہیں کرسکا کہ وہ کہاں سے وابستہ ہیں۔ پھر مختلف سمیناروں میں انھیں سننے کا موقع ملا اور نہ جانے کیسے میرے ذہن میں یہ بیٹھ گیا کہ ابن کنول صاحب دہلی یونیورسٹی کے کروڑی مل کالج سے وابستہ ہیں۔ اس زمانے میں ان سے متعلق یہ ذہن نشیں ہوگیا تھا کہ وہ ہمیشہ سفاری سوٹ ہی پہنتے ہیں اور کالج میں اردو کے استاد ہیں جنھیں داستان سے خصوصی دلچسپی ہے۔اسی زمانے میں شمس الرحمن فاروقی صاحب کا داستان کے حوالے سے خصوصی خطبہ دہلی یونی ورسٹی کے شعبہ اردو میں سننے کو ملا تھا اور اس میں ابن کنول صاحب کو بہت سرگرم پایا جس سے یہ محسوس ہوا کہ اس خطبے کا انعقاد انھوں نے ہی کیا ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ شعبہ اردو کے نظام خطبات کے تحت منعقد ہوا تھا۔یہ خطبہ دراصل فاروقی صاحب کے وقیع اور بسیط مطالعے کی تلخیص تھا جو بعد میں کتابی صورت میں’ساحری، شاہی، صاحب قرانی : داستان امیر حمزہ کا مطالعہ‘ کے عنوان سے کئی جلدوں میں منظر عام پر آیا۔
منظر: دو
1995 میں ایم فل کی ڈگری مجھے مل چکی تھی اور پی ایچ ڈی میں داخلہ ہو چکا تھا۔ اسی زمانے میں دہلی یونیورسٹی میں اردو کے لکچرر کی اسامی آئی۔ اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ میں نے بھی فارم بھر دیا تھا۔ حسب معمول فارم پر کرنے کے بعد میں اسے بھول کر پی ایچ ڈی کے کام میں مصروف ہوگیا۔ اس دوران دہلی یونیورسٹی کے موڈرن انڈین لینگویجز کے شعبہ میںپروفیسر اندرا پارتھا سارتھی اور ایک تمل یا تلگو کے استاد سے ملنے کی غرض سے کئی بار جانے کا موقع ملا۔ میں ڈرامے پر کام کر رہا تھا اور یہ دونوں شخصیتیں ڈرامے کے حوالے سے نہایت اہمیت کی حامل تھیں۔ انشخصیات سے ملنے کے بعد میں شعبہ اردو میں بھی چلا جاتا تھا۔ حسن اتفاق کہ ابن کنول صاحب سے ملاقات نہیں ہوپاتی تھی۔ اس سے میرے اس خیال کو مزیدتقویت ملی کہ ابن کنول صاحب کالج کے استاد ہیں۔2002 میں لکچرر کی بحالی کے لیے انٹرویو ہوا اور اس میں مجھے بفضل خدا کامیابی ملی۔ان دنوں میں وزارت اطلاعات و نشریات، حکومت ہند، نئی دہلی سے شائع ہونے والے ادبی و ثقافتی مجلہ ’آجکل‘ کی ادارتی ٹیم میں شامل تھا۔ 21 نومبر 2002 کو جب وزارت سے ریلیو ہوکر شعبہ اردو ، دہلی یونیورسٹی میں جوائن کرنے کی غرص سے حاضر ہوا تو شعبے میں جس پہلی شخصیت سے ملاقات ہوئی وہ ابن کنول صاحب تھے۔انھوں نے نہایت محبت اور خلوص کے ساتھ مجھے گلے سے لگایا اور ہاتھ پکڑ کر صدر شعبہ اردو ، پروفیسر صادق صاحب کے پاس لے گئے اور کہا یہ لیجیے۔۔۔۔ آپ کا فعال اور متحرک نوجوان ڈرامے کا شوق رکھنے والا جن کے بارے میں آپ دریافت کر رہے تھے۔پھر وہ مجھے صدر شعبہ کے کمرے میں بٹھا کر دفتر میں گئے اور جب لوٹ کر آئے تو ان کے ساتھ دفتری شرما جی ہاتھ میںایک کاغذ لیے ہوئے تھے ۔ معلوم ہوا وہ میرا جوائننگ لیٹر ہے اور مجھے صرف دستخط کرنے ہیں۔ یہاں ایک نئے ابن کنول صاحب سے ملاقات ہوئی۔پیشانی مزید روشن، چہرے پر قدرے زیادہ سنجیدگی،چار جیبوں والے سفاری سوٹ کی جگہ کوٹ اور پتلون کے ساتھ ٹائی میں ملبوس بالکل الگ نظر آ رہے تھے۔ ہاں ان کی بذلہ سنجی اور خوش گفتاری ہنوز حسب سابق جاری تھی۔ اگر کچھ تبدیلی محسوس ہوئی تو ان کے اخلاق میں۔ اس بار وہ پہلے سے زیادہ با اخلاق اور عزیزوں پر دست شفقت رکھنے والے معلوم ہوئے۔ اس دن جاکر میری یہ غلط فہمی دور ہوئی کہ وہ کروڑی مل کالج میں نہیں بلکہ دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں ریڈر ہیں۔ اس دن میں بہت شرمندہ ہوا اور ان سے اپنے دل کی بات کہی کہ اب تک میں آپ کو کروڑی مل کالج کا استاد ہی سمجھ رہا تھا۔ انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا: ’اب آپ شعبے میں شامل ہو گئے ہیں تو رفتہ رفتہ بہت کچھ معلوم ہو جائے گا ‘۔اس دن تو بہت زیادہ گفتگو نہیں ہوئی لیکن ان کی شخصیت کا نقش ذہن میں محفوظ ہو گیا۔
ابن کنول صاحب یوں تو کم گو لیکن خوش لباس تھے ۔اچھے کپڑے، نئے نئے جوتے اور سینڈل خریدتے، کبھی کیجول میں انھیں شعبہ میں نہیں دیکھا۔ چیزوں کو بہت سنبھال کر رکھتے تھے۔ یونیورسٹی کے75 برس مکمل ہونے پر تمام اساتذہ کو کلائی گھڑی دی گئی تھی۔2022 میں یونیورسٹی کے 100 برس پورے ہونے کے بعد بھی وہ گھڑی ان کی کلائی میں تھی۔ انھیں موبائل فون کا بہت شوق تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ موبائل کی ترقی کے ساتھ ساتھ ان کے پاس بھی اس کا نمونہ موجود رہتا تھا۔ ابھی ان کے پاس نیا آئی فون آیا تھا۔نئے لباس اور گجٹ کے ساتھ ساتھ نئی نسل کی ذہانتوں کی قدر کرتے تھے اور خود بھی مسلسل پڑھتے لکھتے رہتے تھے۔ اس کے باوجود ان کے اندر علمیت کا زعم نہیں تھا۔ جب کہ ان کی کتابوں کی فہرست تیار کی جائے تو ان میں ’’چار کھونٹ (۲۰۲۲)، کچھ شگفتگی کچھ سنجیدگی(۲۰۲۰)، بزم داغ (۲۰۲۰)، تنقیدی اظہار (۲۰۱۵)، پچاس افسانے (۲۰۱۴)، میر امن (۲۰۱۲)، اردو افسانہ (۲۰۱۱)، تنقید و تحسین(مضامین، ۲۰۰۶)، داستان سے ناول تک (۲۰۰۳)، بند راستے (۲۰۰۰)، ہندوستانی تہذیب: بوستان خیال کے تناظر میں (۱۹۸۸)، تیسری دنیا کے لوگ (۱۹۸۴)‘‘ وغیرہ ان کی فکر، مطالعہ اور تحقیق و تنقید کے قابل تحسین نمونے کے طور پر ہمارے سامنے ہیں۔ اسی طرح’’(سفرنامہ حج، کنول ڈبائیوی، ۲۰۲۱)، نظیر اکبر آبادی(منتخب شاعری، ۲۰۱۳)، مضراب (کنول ڈبائیوی، ۲۰۱۰)، تحقیق و تدوین (۲۰۰۶)، اصناف پارینہ(مثنوی ،قصیدہ، مرثیہ ۲۰۰۵)، بحر تجلیات انتخاب سخن(اردو شاعری کا نیا انتخاب، ۲۰۰۵)، منتخب غزلیات(امیر خسرو سے ناصر کاظمی تک، ۲۰۰۵)، منتخب نظمیں (۲۰۰۵)، سیرت مسیح(۱۹۹۸)، ریاض دلربا(منشی گمائی لعل، ۱۹۹۰) ‘‘ وغیرہ ان کی تحقیق و تدوین کا ثبوت ہیں۔
صادق صاحب کے بعد شعبہ اردو کی صدارت10 اپریل 2005 کوتین برس کے لیے ان کے سپرد کی گئی۔ اس وقت بھی ان کے دوست اور دشمن دونوں نے چہ مگوئیاں کیں لیکن انھوں نے حسب عادت منفی باتوں پر کبھی کان نہ دھرا۔ بلکہ اپنے دشمنوں کے لیے بھی اچھے الفاظ ہی استعمال کیے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے : ’میاں آپ بھلا کرتے جائیں ،برا کرنے والوں کو اللہ پر چھوڑ دیں، بلکہ اس جانب توجہ ہی نہ دیں‘۔ اور انھوں نے ہمیشہ ایسا ہی کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا برا چاہنے والوں کو کبھی کامیابی نہ ملی بلکہ خود ہی رسوا اور ذلیل و خوار ہوئے۔ ان تین برسوں میں انھوں نے اپنے بزرگ رفقا کے تجربے، ہم عصروں کی محبت اور نئی نسل کی توانائی کو ذہن میں رکھتے ہوئے حسب ضرورت ان کی مدد لی۔ بزرگوں نے ان کی رہنمائی کی ، تو ہم عصروں نے مصلحت سے کام لیا اور نئے لوگوں نے اپنی توانائی اس غرض سے لگادی کہ کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا۔ ان میں سے کچھ کو سیکھنے کی للک تھی اور تو کچھ سہولت اور آرام پسند ثابت ہوئے تو کچھ نے اپنی دلچسپی کے مطابق صرف اپنا کام کرنے کو ترجیح دی۔
جب ہم لوگوں کی تقرری ہوئی تو اس زمانے میں اڈھاک اساتذہ کو مزید توسیع نہیں دی گئی۔ اپنی تقرری کی خوشی کسے نہیں ہوتی لیکن کسی کے بے روزگار ہو جانے کا دکھ بھی بہت ہوتا ہے۔ جب ابن کنول صاحب صدر شعبہ ہوئے تو انھوں نے پھر سے کوشش شروع کی تا کہ اڈھاک اساتذہ کے لیے کوئی گنجائش نکل سکے اور انھیں اس سلسلے میں کامیابی بھی ملی۔اور پھر یکے بعد دیگرے ان اساتذہ کوپھر سے شعبہ سے وابستہ کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ انھوں نے کب ، کن حالات میں اور کیسے کیسے ان کی مدد کی یہ ان کا دل ہی جانتا ہے۔ ان میں سے بعض اس کا اعتراف کرتے ہیں تو بعض نے احسان سوزی کی حد پار کردی۔ صرف اس زمانے میں ہی نہیں بلکہ بعد کے دنوں میں بھی مدد اور تعاون کرنے والوں کے ساتھ یہی سلوک کیا جاتا رہا ۔ابن کنول صاحب بہت سی خوبیوں کے مالک تھے مگر ان میں ایک عیب یہ تھا کہ ان کی یادداشت بہت کمزور تھی۔ وہ اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے منفی رویے اور شخص کو بہت جلد بھول جاتے تھے۔ ہاں ان کے لیے اگر کسی نے ذرہ برابر بھی مثبت رویہ رکھا تو نہ صرف ا ن کو یاد رکھتے تھے بلکہ اس کا ذکر اکثر کیا کرتے تھے۔ اور شاید یہی یادداشت ان کی خوشی اور ترقی کی ضامن تھی کہ پول آفیسر کی حیثیت سے شعبہ سے وابستہ ہوئے اور اپنی مسلسل محنت اور مثبت فکر کی وجہ سے سینئر پروفیسر کی حیثیت سے سبک دوش ہوئے۔
منظر: تین
پروفیسر ابن کنول صاحب نے دو قسطوں میں کم و بیش ساڑھے سات برس شعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی کے صدرشعبہ رہے۔ پہلی بار 10 اپریل 2005سے 9 اپریل 2009 تک اور دوسری بار 10 اپریل 2014 تا 30 ستمبر 2018 ۔ انھوں نے ان برسوں میں شعبہ میں وہ ماحول پیدا کیا کہ کیا اساتذہ بلکہ طالب علم بھی جب چاہیں ان سے نہ صرف مل سکتے ہیںبلکہ راہ چلتے ہوئے اپنے کاغذات ان کے سامنے رکھ دیں اور وہ بخوشی اس پر اپنے دستخط ثبت کردیں۔ بعض اوقات طالب علم سے ہی قلم لے کر دستخط کرنے میں خوشی محسوس کرتے تھے۔ ان کے ان ساڑھے سات برسوںکی صدارت کے دوران کبھی ان کی جیب یا میز پر سبز سیاہی والا قلم (گرین پین) نہیں دیکھا اور نہ ہی ان کے دستخط کی مہر ہی نظر آئی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ تو عہدے کی وجہ سے ان کا دماغ خراب ہوا اور نہ ہی وہ سہولت پسند تھے۔ اپنا کام نہایت سنجیدگی سے کرتے تھے۔ ہمیشہ ان کی کوشش ہوتی کہ ان کی وجہ سے کسی دوسرے کا نقصان نہ ہو۔ہاںبذات خود ان کو اس کی وجہ سے کئی بار خسارہ اٹھانا پڑا۔
پروفیسر ابن کنول صاحب نے اپنے سے چھوٹوں کو ہمیشہ عزیز رکھا۔ پہلے چائے خانے پر جاکر چائے پینے کا رواج نہیں تھا۔ ہم لوگوں کے آنے کے بعد پہلے علی جاوید صاحب اور پھر بعد میں پروفیسر ابن کنول صاحب ساتھ میں چائے پینے لگے۔ جب بھی وہ ساتھ رہتے ان کی کوشش یہی رہتی کہ ہم میں سے کسی کو چائے کے پیسے نہ دینا پڑیں۔ سمینارا ور کانفرنس میں بھی اپنے عزیزوں اور طالب علموں کا خاص خیال رکھتے تھے۔ بعد کے دنوں میں پتہ نہیں کیوں مجھے بہت عزیز رکھنے لگے۔ میں اسکول کے زمانے سے مختلف طرح کی سرگرمیوں میں شامل رہا ۔ کالج اور یونیورسٹی کے زمانے میں اس میں مزید اضافہ ہو تا گیا اور دہلی یونیورسٹی میں آنے کے بعد انتظامی امور میں بھی دلچسپی بڑھتی گئی ۔ وہ محبت کے آدمی تھے اورنوجوانوں کی قدر کرتے تھے۔شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی صدارت کی دوسری اور طویل مدت میں ان کو سمجھنے اور جاننے کا زیادہ موقع ملا۔ انھوں نے میری سرپرستی کی اور مجھ سے جو ہوسکا ان کی مدد کرنے کی کوشش کی۔میرے مشاہدے میں اب تک یہ تھا کہ سربراہ ہمیشہ خود نمائی اور Self-projection/appreciation میں لگے رہتے ہیں۔مگر پروفیسر ابن کنول صاحب کے ساتھ خود تشہیری جیسی کوئی علت نہیں تھی۔ بلکہ ابن کنول ہمیشہ اپنے شاگردوں کو آگے بڑھتے ہوئے دیکھنے کے خواہشمند رہے۔ چنانچہ ان ساڑھے چار برسوں کے دوران شعبہ میں طالب علموں کی تربیت اور ان کی صلاحیت کو اجاگر کرنے کی غرض سے ہر مہینے ادبی و ثقافتی نششت کرنے کا فیصلہ کیا۔ جن طالب علموں کو افسانہ لکھنے کا شوق تھا ان کے لیے کسی اہم افسانہ نگار کو مدعو کرکے ان کے سامنے ان بچوں کو اپنا افسانہ پیش کرنے کا موقع دیا گیا اور مہمان ان کی حوصلہ افزائی کے ساتھ تربیت بھی کرتے رہے۔ جن کو شاعری کا شوق تھا انھیں اسی طرح کی محفل میں شعر پڑھنے کا موقع دیا گیا اور جنھیں تنقیدی و تحقیقی مضامین لکھنے کی خواہش تھی انھیں ان کا شوق پورا کرنے کا پورا موقع فراہم کیا گیا۔ ان طالب علموں کی حوصلہ افزائی اور تربیت کے لیے مہمانوں کے ساتھ ساتھ شعبے کے اساتذہ بھی موجود رہتے تھے۔ آخری زمانے میں تو ان محفلوں کی نظامت سے لے کر صدارت تک کے فرائض طالب علموں نے ہی ادا کیے۔ یہی وجہ ہے کہ آج شعبے کے طالب علموں میں کئی اچھے افسانہ نگار ہیں تو کئی شعر گوئی میں مہارت حاصل کرچکے ہیں اور بہت سے طالب علم اچھے مضامین تحریر کر رہے ہیں۔ گویا انھوں نے اپنے طالب علموں میں افسانہ نگار ، شاعر اور ناقد بننے کے جراثیم پیوست کردیے جس کا نتیجہ ہم مانیں یا نہ مانیں ہمارے سامنے ہے اور ان میں سے کئی تواب صاحب کتاب بھی ہیں۔ان کی صدارت سے پہلے پی ایچ ڈی کا زبانی امتحان بند کمرے میں ہوا کرتا تھا۔ انھوں نے طالب علموں میں خود اعتمادی پیدا کرنے اور دوسرے رسرچ اسکالرس اوع طالب علموں کی تربیت کے لیے اوپن وائیوا کا سلسلہ شروع کیا اوراس کا خاطر خواہ فائدہ بھی دیکھنے کو ملا۔
پروفیسر ابن کنول صاحب نہ صرف طالب علموں کی حوصلہ افزائی فرماتے بلکہ اپنے ساتھیوں اور عزیزوں کو بھی موقع فراہم کرتے رہے۔ ہاں جن لوگوں نے سرد مہری دکھائی ان کی جانب توجہ کم ہوتی گئی۔ اس سرد مہری بلکہ بعض اوقات مخالفت کے باوجود ان کی جانب سے کبھی منفی رویہ نہیں اختیار کیا گیا۔مجھے یاد آرہا ہے کہ انھوں نے ایک بار چاروزہ جشن اردو منانے کا ارادہ کیا۔ شعبہ کی میٹنگ میں طے بھی کیا گیا اور پھر اس کی تیاری میں وہ دن رات لگ گئے۔ اخراجات کے لیے تگ و دو شروع کی اور نہ صرف یہ کہ تمام مشکلیں آسان ہو گئیں بلکہ آخری وقت میںبھی پیسوں کی ضرورت پڑی تو اس میں بھی کوئی دشواری نہیں ہوئی۔شاندار نظام اور غالب لکچر ہوئے، آل انڈیا مشاعرہ ہوا، ساحر کی طویل نظم کو اسٹیج کیا گیا، دو روزہ شاندار سمینار ہوا اور ایک شام قوالی کا پروگرام بھی رکھا گیا۔ اسی زمانے میں یونیورسٹی میں نئے نصاب بنائے گئے، پہلی بار NAAC کی ٹیم آئی اور قومی و مقامی سطح پر منعقد ہونے والے مختلف سمینار و کانفرنس، مشاعرے اور محفل افسانہ میں طالب علموں نے شعبے کی نمائندگی کی۔شعبہ کے مختلف کورس میں داخلے نہ صرف آسانی سے ہوئے بلکہ زیادہ تعدادمیں ہوئے۔اپنے ہی شعبے سے ایم فل کرنے والے فیلو شپ پانے والے طالب علموں کو باہر کا راستہ دکھانے کے بجائے فیلو شپ پانے والے درخواست گزار ایک بھی ایسے نہیں تھے جن کو داخلہ نہ ملا ہو۔وہ اکثر کہتے تھے : ’میاں! کتنی محنت اور مشکل سے یہ بچے فیلو شپ حاصل کرتے ہیں ، اس لیے اگر ذرا کمزور بھی ہیں تو داخلہ دے دیجیے ، ان کی تربیت کرنا ہی تو ہماری ذمہ داری ہے، وہ ہم لوگ کر لیں گے۔ ان میں سے بہت سے بچے ایسے ہیں جن کی فیلو شپ سے ان کے گھر کے چولہے جلتے ہیں۔‘ یہی وجہ ہے کہ ان کے زمانے میں فیلو شپ پانے والا ایک بھی طالب علم مایوس نہیں ہوا بلکہ ہمیشہ نان نیٹ کے بھی پورے داخلے ہوئے۔
پروفیسر ابن کنول صاحب کے ساتھ اندرون ملک اور بیرون ملک سفر کرنے کے کئی مواقع مجھے ملے۔ ان کے ساتھ سفر کرنے میں نہ صرف لطف آتا تھا بلکہ ایک سرپرست کے ساتھ ہونے کا احساس ہمیشہ رہا۔ اکثر انھوں نے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ’ یہ شعبے کے ایک متحرک اور مقبول استاد ہیں، ان کا خاص میدان ڈراما ہے لیکن انتظامی امور میں ماہر ہیں اور مجھے بہت عزیز ہیں۔‘
منظر: چار
11 فروری 2023 ، دن سنیچر، شام کے تقریباًچار بجے میرے ایک عزیز شاگرد نے اپنا فون دیکھ کر مجھ سے کہا کہ ابن کنول سر کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔ میں نے کہا : اللہ کا شکر ہے۔ ابھی تو پیر سے جمعرات تک ہم لوگ NCERT کے ایک ورک شاپ میں ساتھ تھے۔ وہیں انھوں نے عمرہ سے لوٹنے کے بعد علی گڑھ کے رشتہ داروں سے ملنے کا ذکر کیا۔ پھر وہیں بیٹھ کر شعبہ اردو کے چیئرمین پروفیسر محمد علی جوہر صاحب سے گفتگو کے بعد سنیچر یعنی 11 فروری 2023کو ایک پی ایچ ڈی کا وائیوا طے کیا گیاتھا۔ ابھی وہ وائیوا لے کر فارغ ہوئے ہوں یا شاید دہلی واپس آرہے ہوں گے۔ کل ہی بات ہوئی تھی میری۔شاگرد نے کہا ایک بار خیریت معلوم کر لیجیے۔ میں نے فوراً انھیں فون کیا ، فون نہیں لگا تو پھر پروفیسر محمد علی جوہر صاحب کو فون ملایا اور انھوں نے فون اٹھا یا۔ سلام کے بعد میں نے ابن کنول صاحب کی خیریت جاننی چاہی تو انھوں نے کہا: آپ سلطان صاحب سے بات کر لیجیے اور فون ان کے سپرد کر دیا۔ میرے دریافت کرنے پر رندھی ہوئی آواز میں انھوں نے جو کچھ کہا اس پر اول تو یقین ہی نہیں آیا اور پھر جب وہ خود رونے لگے تو تھوڑی دیر کے لیے تو میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ میرے شاگرد نے مجھے سنبھالا اور پھر اس کے بعد یہ معلوم ہوا کہ ؎ ’چراغوں میں روشنی نہ رہی‘ ۔ اس کے بعد اگلے دن صبح تک میرے پاس فون کا سلسلہ جاری رہا اور کم و بیش تمام لوگ تصدیق کرنا چاہتے تھے کہ کیا واقعی ابن کنول صاحب نہیں رہے اور میں مجبور و بے بس سب کو یہی جواب دیتا رہا کہ اب یقین کر لیجیے خدا کو شاید یہی منظور تھا کہ وہ وائیوا لینے کے بعد دو بجے دوپہر کو اپنے رشتہ دار کے گھر جائیں، نماز کے لیے وضو کریں اورظہر کی نماز ادا کیے بغیر دہلی لوٹنے کے بجائے اپنے معبود حقیقی کے پاس چلے جائیں۔اگلے روز12فروری 2023 کی صبح سویرے ہی میں اور احمد امتیاز صاحب اپنی اپنی کار میں جتنے ریسرچ اسکالرز کو لے جاسکتے تھے لے کر علی گڑھ پہنچے اور تقریباً گیارہ بجے دن انھیں ان کے معبود کے سپرد کردیا گیا۔ ان کے جنازے میں جس قدراساتذہ، عمائدین دہلی و علی گڑھ اور پورے ملک سے آئے ہوئے ان کے ریسرچ اسکالرز موجود تھے اس سے ان کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔گزشتہ تین مہینے میں، اپنی زندگی سے وابستہ میں نے تین اہم شخصیات کو کھویا ہے۔ یکم نومبر 2022 کو اپنے والد محترم محمد مطیع الرحمن کو، 16 جنوری 2023 کو والدہ محترمہ مستقیمہ خاتون کو اور 11 فروری 2023 کو اپنے سرپرست پروفیسر ناصر محمود کمال (پروفیسرابن کنول ) صاحب کو۔اللہ ان سب کے درجات بلند کرے ۔ اس موقع پر غالبؔ کے خط کا یہ جملہ مجھے شدت سے یاد آرہا ہے: ’’ یہ کوئی نہ سمجھے کہ میں ا پنی بے رونقی اور تباہی کے غم میں مرتا ہوں جو دکھ مجھ کو ہے اس کا بیان تو معلوم مگر اس بیان کی طرف اشارہ کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک عزیز کا ماتم کتنا سخت ہوتا ہے جو اتنے عزیزوں کا ماتم دار ہو۔ اس کو زیست کیونکر نہ دشوار ہو، ہائے اتنے یار مرے کہ جو اب میں مرونگا تو میرا رونے والا بھی نہ ہوگا۔انااللہ و انا الیہ راجعون‘‘ ۔
٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.