بساط نشاط دل: ایک جائزہ

بساط نشاط دل: ایک جائزہ

پروفیسر فاروق بخشی سابق صدر شعبہ اردو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد

Mob.: 9829808782
Email Id : dr.farooqbakhshi@gmail.com

بساط نشاط دل عصر حاضر کے معروف افسانہ نگار ابن کنول کے ہیں انشائیوں پر مشتمل ان کا تازہ ترین ادبی کارنامہ ہے۔ ابن کنول کے تین افسانوی مجموعے شائع ہو کر مقبولیت حاصل کر چکے تھے اور ان کا نام آٹھویں دہائی میں ابھرنے والے افسانہ نگاروں میں درج ہو چکا تھا۔ جنہوں نے افسانہ کی بھٹکتی ہوئی روح کو پھر سے افسانوی ادب کے قالب میں سمونے کا کارنامہ انجام دیا تھا ورنہ اردو کہانی تو راستے سے بھٹک چکی تھی ۔ افسانوی نثر کی ڈگر سے ہٹ کرابن کنول نے غیر افسانوی نثر کے کوچے میں قدم رکھا تو یہاں بھی انواع واقسام کے پھول کھلا کر اس کو چے کو بھی گل و گلزار بنا دیا۔ دراصل کرونا کی وباء نے پچھلے دوسالوں میں عالم انسانی پر جو قہر ڈھایا ہے اور عصر حاضر کے انسانوں کی نفسیات کو جس طرح متاثر کیا ہے اس کی مثال ماضی قریب میں نظر نہیں آتی ۔ فنکار جونسبتا عام لوگوں سے زیادہ باشعور ہوتا ہے اور انسانی زندگی کے چال چلن پر گہری نظر رکھتا ہے اور اپنے عصر کے مسائل و مصائب کو بیان کرنے کا ہنر جانتا ہے۔ کیسے تماشائی بنارہ سکتا ہے؟ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں ابن کنول نے افسانوی نثر کا دامن چھوڑ کر غیر افسانوی نثر کا دامن کیوں تھا ما؟ یہ ایک الگ بحث کا موضوع ہوسکتا ہے ۔ مگر میرا خیال ہے انسان اپنی شخصیت کے اظہار اور اپنے مزاج کی افتاد کو بیان کرنے کا راستہ تلاش کر ہی لیتا ہے اور مجھے یہ لکھتے ہوئے بے انتہا مسرت ہورہی ہے کہ پروفیسر ابن کنول نے غیر افسانوی نثر میں خود کو تلاش کر لیا ہے ۔ خاکہ نگاری اور انشائیہ نگاری غیر افسانوی نثر کی دو ممتاز اصناف ہیں۔ بھیا نک وباء کے دور میں جب لوگ حیران و پریشان اپنوں کی نا گہانی اموات کا منظر بے بسی سے دیکھ رہے تھے ابن کنول خاموشی سے اپنی تخلیقی دنیا میں مگن تھے ۔ خاکوں کا مجموعہ منظر عام پر آیا تو بہت سوں کی بھنویں تن گئیں ۔ مگر ابن کنول جو اپنی صاف گوئی کے لیے خاصے بدنام ہیں اپنی بے خوفی اور بے با کی پر ڈٹے رہے۔ ان کے خاکوں کا معیار کیا ہے اور وہ ادبی تاریخ کی کس منزل تک پہونچے ہیں اس کا فیصلہ تو وقت پر چھوڑتے ہیں۔
بساط نشاط دل جو غیر افسانوی نثر کی سب سے مقبول صنف انشائیہ سے منسوب ہے اور ابن کنول کے تحریر کردہ ہیں انشائیوں پر مشتمل ہے۔ انشائیہ عربی زبان کا لفظ ہے ۔ جس کے معنی تخلیق کرنے کے ہیں۔ انگریزی میں اس کے لیے عام طور پر Light Essay Personal Essay کی اصطلاح مستعمل ہے ۔ Essay ( مضمون ) کو انشائیہ کا ہم معنی سمجھا جاتا رہا۔ یہاں ہمارا مقصد اس تفریق کی وضاحت نہیں ہے اور نہ یہ ثابت کرنا کہ انشائیہ اردو کی ایک جدید صنف ادب ہے ۔ ہاں اس امر کی وضاحت نہایت ضروری ہے کہ عصر حاضر کا اردو انشائیہ زبان و بیان اور اظہار کی سطح پر بہت سی منزلیں طے کر چکا ہے۔ اب اس کی دنیا محض اخلاقیات اور پند و نصائح کے موضوعات تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ اس نے غزل کے موضوعات کی طرح اپنا دامن کشادہ کر لیا ہے اور اب دنیا جہان کے موضوعات انشائیہ کے دامن میں سمٹ آئے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر معاصر اردو انشائیہ صنفی امتیازات کی تفسیر و تشریح کس طرح بیان کی جائے ۔ معروف انشائیہ نگار اور نقاد وزیر آغا نے ایک سوال انشائیہ کیا ہے؟ کے جواب میں کہا تھا کہ انشائیہ کیا نہیں ہے؟ جواب بہت مختصر سا ہے مگر اس جواب میں انشائیہ کی کل کائنات سمٹ آئی ہے ۔ اسی لیے انشائیہ کو ایک جامع صنف ادب کہا گیا ہے۔ اس کے موضوعات کی وسعت اور تنوع کو دیکھتے ہوئے اسے دیگر غیر افسانوی اصناف سے بہ آسانی ممتاز قرار دیا جا سکتا ہے۔ اب تخلیق کار کی تخلیقی قوت اس کا مطالعہ اور مشاہدہ اسے کہاں پہونچاتا ہے اس کا انحصارتخلیق کار کی ذہنی اپج اور اس کی فکری بساط پر ہے۔ بساط نشاط دل جیسا کہ کہا گیا ابن کنول کے بیسں انشائیوں پر مشتمل ہے ۔ کتاب کے عنوان کی اگر کوئی اہمیت ہوتی ہے تو ابن کنول نے اپنے نقطہ نظر کی وضاحت بڑے رمز اور ایمائیت سے کر دی ہے ۔ بساط نشاط دل کی ترکیب غالب کے نسبتا غیر معروف شعر سے مستعار ہے ۔
باغ شگفت تیرا، بساط نشاط دل
ابر بہار غم کدہ کس کے دماغ کا
شعر کی تشریح یہاں میرا کام نہیں ہے۔ مگر ابن کنول نے اس شعر کے وسیلے سے اپنے انشائیوں اور انشائیہ نگاری کی بھر پور تعریف بھی بیان کر دی ہے اور موضوعات اور اپنے مطمح نظر کی صراحت بھی ۔ ویسے تو کتاب کے پیش لفظ میں بھی انہوں نے اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت اور انشائیہ کی تعریف کے ساتھ اس کے اوصاف بھی بیان کر دیئے تھے۔
ملاحظہ کریں:
انشائیہ کوئی علمی یا ادبی مضمون نہیں ہوتا بلکہ انشائیہ کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ علمی واد بی یا سیاسی و سماجی مسائل کو اس انداز سے بیان کیا جائے کہ پڑھنے والا محظوظ ہو اور تحریر سے لطف اٹھائے۔
وہ مزید کہتے ہیں:
انشائیہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر انشائیہ نگار اپنی تحریر کو مشکل اور خشک انداز میں پیش کرے گا تو انبساطی مقصد فوت ہو جائے گا اور وہ ایک خشک مضمون ہو کر رہ جائے گا۔ اس لیے انشائیہ میں الفاظ کی نشست و برخاست اور عبارت کی سادگی سے مزاح پیدا کیا جاتا ہے”۔
مذکورہ بالا اقتباسات نے ان کے نقاد کی بہت سی مشکلیں آسان کر دی ہیں۔ ان کے نقاد کو ڈاکٹر اختر اورینوی کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جنہوں نے انشائیہ کو فلسفیت اور رنگینی کا مجموعہ قرار دیا تھا۔ جے پی مورٹن نے بھی انشائیہ کونثر کا ایک ایسا تکڑا قرار دیا تھا جس میں مصنف دنیا کے کسی بھی موضوع کے باب میں اپنی ذات کا انکشاف کرتا ہے ۔ عبد الماجد دریا آبادی نے حسن انشا کو انشائیے کی امتیازی خصوصیت قرار دیا تھا ۔ گویا وزیر آغا کے لفظوں میں انشائیہ جزیرہ کا وہ پھول ہے جو سب کا مرکز نگاہ ہوتا ہے ۔ ڈاکٹر آدم شیخ انشائیہ کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں:
انشائیہ ایک ایسی جامع اور فکر انگیز تحریر ہوتی ہے جس میں مصنف بے تکلفی اور شگفتگی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے۔ اس میں براہ راست تبلیغ یا تشہیر کی گنجائش نہیں ہوتی۔ انشائیہ چند الفاظ کا بھی ہوسکتا ہے اور طویل بھی۔ کائنات و ماوراء کی حقیر ترین یا اعلیٰ سے اعلی شے بھی اس کا موضوع بن سکتی ہے۔ یہ سنجیدہ، مزاحیہ یا طنزیہ ہوسکتا ہے۔ انشائیہ کے لیے لازمی بنیادی خصوصیت اس کی بے تکلف اور شگفتہ فضا ہے۔ جو تحریر کو دل نشیں اور قابل قبول بنا دیتی ہے۔ ( انشائیہ ڈاکٹر آدم شیخ صفحہ نمبر: 32)
ڈاکٹر آدم شیخ نے بڑے جامع انداز میں انشائیہ کی تعریف اور مکمل طور پر اس کی تخلیقی جہات کا احاطہ کر لیا ہے۔ اس سے قبل کہ ابن کنول کے انشائیوں پر مفصل تجزیاتی گفتگو کی جائے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ انشائیہ نگار کوکن صفات کا حامل ہونا چاہیئے اس پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر وزیر آغا سے بہتر کس کی رائے ہو سکتی ہے، جو انشائیہ کے نقاد بھی ہیں اور معروف انشائیہ نگار بھی:
انشائیہ کا خالق اس شخص کی طرح ہے جو دفتر سے چھٹی کے بعد گھر پہونچتا ہے ۔ چست اور تنگ سالباس اتار کر ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہن لیتا ہے اور ایک آرام دہ موڑ ھے پر نیم دراز ہو کر اور حقے کی نے ہاتھ میں لیے انتہائی بشاشت اور مسرت سے اپنے احباب سے مصروف گفتگو ہو جاتا ہے، انشائیہ کی صنف اسی شگفتہ موڈ کی پیداوار ہے اور اس کے تحت انشائیہ کا خالق نہ صرف رسمی طریق کار کے بجائے ایک غیر رسمی طریق کار اختیار کرتا ہے۔ بلکہ غیر شخصی موضوعات پر نقد و تبصرے سے کام لینے کے بجائے اپنی روح کے کسی گوشے کو بے نقاب اور اپنے شخصی رد عمل کے کسی پہلو کو اجاگر کرتا ہے۔
( انشائیہ کے خدو خال از وزیر آغا صفحہ نمبر: 10)
مذکورہ بالا سطور میں انشائیہ اور انشائیہ نگار کی واضح تصویر ذہن میں آگئیں کہ ایک اچھا انشائیہ کن صفات کا حامل ہوتا ہے اور ایک اچھے انشائیہ نگار کو انشائیہ لکھتے وقت کن باتوں کو پیش نظر رکھنا چاہیئے۔ ان صفات و تصورات کی روشنی میں ابن کنول کے انشائیے کس معیار تک پہونچے ہیں اس کا جائزہ پیش خدمت ہے۔
جیسا کہ مذکورہ بالا سطور میں عرض کی گئی تھی بساط نشاط دل میں 20 انشائیے شامل ہیں اور تقریبا ہر انشائیہ اپنے موضوع کی مناسبت اور انداز پیش کش کی بدولت ایک انفرادیت کا حامل ہے۔ مثلاً مجموعہ کا پہلا انشائیہ میں ایک پروفیسر ہوں ہمارے عصر کی ایسی کڑوی کسیلی حقیقتوں سے روشناس کراتا ہے کہ ایک پورے سسٹم کی نقاب کشائی ہو جاتی ہے ۔ مجھے انشائیہ کو پڑھتے ہوئے ہمارے تعلیمی نظام کے پر خچے اڑتے ہوئے نظر آئے ۔ ابن کنول کے لہجے کی سادگی اور ان کے گہرے مزاحیہ اور طنزیاتی شعور نے اسے اور ابھی دھار دے دی ہے ۔ ملاحظہ کریں:
گزشتہ صدی میں پروفیسر شپ کے مرتبے تک پہونچنا بہت مشکل عمل سمجھا جاتا تھا۔ ہر ایک کو یہ خطاب یا اعزاز نہیں حاصل ہوتا تھا۔ دراصل اس زمانے میں پروفیسر شپ کے لیے لیاقت اور اہلیت دیکھی جاتی تھی ۔ اس وجہ سے بعض ایسی شخصیات بھی پروفیسر ہو گئیں جن کے پاس پی ایچ۔ ڈی کی سند بھی نہیں تھی۔
اس ذیل میں مزید ملاحظہ فرمائیں :
گزشتہ صدی میں قریب ستر کی دہائی تک ہماری یونیورسٹیوں میں پروفیسروں کا قحط تھا۔ مشکل سے ایک یا دو پروفیسر ہوئے تھے اور جو پروفیسر صدر شعبہ بن جاتا تھا اس سے نجات کے لیے اس کا انتقال ہونا یا سبکدوش ہونا ضروری تھا۔ ضابطوں میں ترمیم کے بعد اس قحط سے بھی نجات ملی اور مستقل صدر یا چیئر مین سے بھی چھٹکارا نصیب ہوا اور اب تو لفظ پروفیسر کثرت استعمال کے بعد اس لفظ کی وقعت ہی نہیں رہی۔“
مذکورہ انشائیہ پڑھتے وقت رضا نقوی واہی کی نظم “پروفیسر ” بے ساختہ یاد آئی مگر مجھے کہنے دیجیئے کہ رضا نقوی واہی کے یہاں مزاح کو ابھارنے کی کوشش نظر آتی ہے ۔ جب کہ ابن کنول نے طنز ومزاح کے مشترکہ خمیر سے اپنے انشائیے کا مرکب تیار کیا ہے۔
مجموعہ کا دوسرا انشایہ میں صحافی بنا چاہتا تھا“ عصر حاضر میں صحافت کے بدلتے ہوئے منظر نامے کا طنزیاتی محاسبہ ہے۔ پرنٹ میڈیا سے الیکٹرانک میڈیا تک کا سفر صحافت نے کیسے طے کیا ہے اس کی تصویر ہمیں ابن کنول کے اس انشائیے میں جابجا نظر آتی ہیں۔ زبان کا تخلیقی استعمال اور کاٹ دار جملوں کا بیان دیکھتے ہی بنتا ہے۔ ملاحظہ کریں:
اندازہ ہوا کہ اب اس پیشے میں صحافت کم اور تجارت زیادہ شامل ہو گئی ۔“
بڑے ہو کر مجھے معلوم ہوا کہ لوگ اپنے آپ سے کتنے ہی بے خبر کیوں نہ ہوں دوسروں کی خبر جاننے کے لیے مضطرب رہتے ہیں”۔
اس مجموعے کے کچھ انشائیے بے ساختہ دل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوں گے ایسی توقع مجھے ہے ۔ مثلا علی گڑھ کا جغرافیہ ابن کنول کا ایساہی انشائیہ ہے۔ مسلم یو نیورٹی کی بدولت علی گڑھ کل عالم میں ایک ایسی حیثیت رکھتا ہے جس کی قدر وقیمت سے ہم سب واقف ہیں۔ ابن کنول کی تمام تعلیم اسکول تا یو نیورسٹی علی گڑھ میں ہوئی ہے۔ بھلا پھر ان سے بہتر علی گڑھ اور مسلم یونیورسٹی کو کون سمجھ سکتا ہے۔ ان کے یہ جملے ان کے مزاحیہ اسلوب کے نمائندہ ہیں:
علی گڑھ کے مشہور ہونے کی اگر کوئی وجہ ہے تو علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی ، ورنہ تالے، مچھر اور مکھیاں تو اور شہروں میں بھی مل جاتے ہیں۔“
یہاں ہرا د بی قبیلے کے اساتذہ موجود ہیں ۔ مثلا رومانوی مزاج رکھنے والے بھی ہیں اور ترقی پسندی کو فروغ دینے والے بھی بعض جدیدیت کے علم بردار بھی تھے ، ما بعد جدید اس وقت تک علی گڑھ میں داخل نہیں ہوا تھا۔“
علی گڑھ ایسا دشت جنوں ہے کہ جس کے گوشے گوشے سے دیوانوں اور وفا کے پروانوں کے لیے جوئے حیات ابلتی ہوئی نظر آتی ہے۔“
کووڈ 19 اور لاک ڈاؤن دونوں انشائیے اپنے موضوع اور مواد کی بدولت بہت یاد گار ہوئے ہیں ۔ اس وبا نے انسانوں پر جیسا قہر ڈھایا ہے اس کے دل دوز مناظر ابن کنول اپنے ہلکے پھلکے انداز نگارش اور لطیف پیرائے میں بیان کرتے ہیں۔ وہ بقول مشتاق احمد یوسفی درد کم نہیں، درد کی تکلیف کو کم کر دیتا ہے ۔ ملاحظہ کریں:
در اصل چین سے دنیا میں بہت کم لوگ خوش ہیں ۔ ملک بہت بڑا ہے لیکن
آدمی چھوٹے چھوٹے ہیں ۔ چھوٹے چھوٹے ہونے کی وجہ سے بھیڑ بھی
وہاں بہت ہوگئی ہے۔
چین کی عادت ہے کہ اپنی کوئی چیز بھی اپنے ملک تک نہیں رکھتا، پوری دنیا میں برآمد کرتا ہے ، بس اس نے کو رونا وائرس کی بھی برآمد شروع کر دی ۔ پہلے برآمد کی ہوئی اشیاء سستی تھیں اب کو رونا مفت کر دیا ۔

ہماری ہر حکومت کسی نہ کسی بندی پر ضرور توجہ دیتی ہے جو براہ راست بندوں کو متاثر کرتی ہے۔”
لاک ڈاؤن کی مزید صورت حال سے آپ بھی لطف اندوز ہوں:
حالت یہ ہوگئی کہ کوئی اپنے ہی گھر میں پھنسا کوئی غیر کے گھر میں پھنسا کسی کو میکے میں رہنے کا موقع مل گیا، کوئی سسرال میں پھنس گیا ، کوئی عیادت کو گیا، پر سے کے بعد اوٹا، کوئی تین دن کے ہنی مون کے لیے گیا، چار مہینے کا چلہ لگا کر واپس آیا ۔
ویبی نار اور چوری کے مابعد جدید طریقے عصر حاضر کی علمی وادبی صورت حال پر بھر پور تبصرے ہیں۔

سمیناروں اور مشاعروں کے علمی اور ادبی سے زیادہ غیر علمی اور ادبی فائدے زیادہ ہیں۔
“ارے بھئی چوروں نے لوگوں کو کنگال کیا لیکن ہماری زبان کو مالا مال کیا ۔”
میرے خیال میں تو ادبی چوریوں کو جائز قرار دینا چاہئے ۔ اب آپ کے کلام میں میر، غالب، یا اقبال وغیرہ کے خیال آجاتے ہیں تو اس میں آپ کی کیا غلطی ہے۔”
ابن کنول کے انشائیہ نگاری کا ایک بہت بڑا وصف ان کے انشائیوں کا موضوعاتی تنوع ہے۔ موضوعاتی بو قلمونی نے ان کے انشائیوں کو بے انتہا کارآمد اور ابن کنول کو عہد ساز انشائیہ نگار بنادیا ہے۔ مجموعی طور پر ان کے انشائیوں کے حوالے سے بلا خوف تردید کہ سکتا ہوں کہ ان کے انشائیوں کی فضا بے انتہا خوشگوار ہوتی ہے۔ ابتدا تا آخر تک ان کا انشائیہ اپنے قاری پر ایک تاثر چھوڑنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ قنوطیت سے ان کے انشائیے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ ان کے انشائیوں کا بنیادی مقصد اپنے قارئین کو مسرت و انبساط کی فراہمی کرنا ہے ۔ جو ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے جس میں وہ صد فیصد کامیاب نظر آتے ہیں۔ کیونکہ ان کے مزاج کی خصوصیت ہے کہ وہ خود خوش رہتے ہیں اور اپنے دل میں دوسروں کو خوش دیکھنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں۔ ان کا اظہار بیان فطری ہوتا ہے۔ جسے انشائیہ نگاری کا بنیادی وصف مانا گیا ہے۔
اس کتاب میں شامل ہیں انشائیوں میں کئی انشائیے مثلاً علی گڑھ کا جغرافیہ فیس بک سے واٹس ایپ تک بہو کی تلاش میرے نزدیک اردو انشائیہ نگاری کی تاریخ میں یاد گار سمجھے جائیں گے ۔ بلا شبہ ابن کنول کے یہ انشائیے اردو انشائیہ نگاری کی تاریخ میں سنگ میل کا درجہ حاصل کریں گے۔
٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.