ابن کنول بحیثیت خاکہ نگار

ابن کنول بحیثیت خاکہ نگار

شاہد اقبال
ریسرچ اسکالر،دہلی یونیورسٹی،دہلی

اردو ادب میں خاکہ نگاری کے ابتدائی نقوش اٹھارہویں صدی کے نصف دہائی میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اگر تذکرے کو اردو تنقید کے اولین نقوش کہا جاتا ہے تو ہمیں ان تذکروں کو بھی خاکہ نگاری کے ابتدائی نقوش کہنے میں کوئی حیرانی نہیں ہونی چاہیے،یہ اس لئے کہ ان تذکروں میں نہ صرف کسی تخلیق کار کے فن پر بات ہوئی ہے بلکہ اس کی سیرت وصورت کو بھی ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے ساتھ ہی اس کے عادات واطوار وغیرہ کا ذکر بھی ہواہے۔ اردو میں خاکہ نگاری کا باضابطہ آغاز فرحت اللہ بیگ کے قلم سے ہوا۔ اردو میں بہت سے خاکے لکھے گئے ہیں مگر چند خاکوں کو چھوڑ کر زیادہ تر خاکے گمنامی کے شکار ہوگئے یا پھر لوگوں نے اسے پڑھنے کے لائق ہی نہیں سمجھا۔ اس کی وجوہات کیا ہیں یہ ایک اہم سوال ہے۔ خاکہ عام طور پر ان لوگوں پر لکھا جاتا ہے جو خاکہ نگار یا راوی کے بہت قریب ہوتا ہے، اس کے علاوہ براہ راست جس کا تعلق راوی سے ہو۔ خاکہ نگار سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ حقیقت نگاری سے کام لے کر ممدوح کی منفی و مثبت پہلووں کو اشاروںو کنایوں میں ادا کرے۔ اردو خاکے کی تاریخ میں ایسے کئی خاکے ہیں جس میں مبالغہ آرائی اور جھوٹ کا سہارا لیا گیا ہے، اس سے خاکہ نگار اور ممدوح دونوںکی شخصیت مجروح ہوئی ہے۔
ابن کنول کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں،یہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ بڑے افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ محقق، شاعر، ڈرامہ نگار اور زیرک ناقد بھی ہیں۔ پچیس خاکوں پر مبنی ان کی کتاب ’’کچھ شگفتگی اور کچھ سنجیدگی‘‘حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے۔ ان تمام خاکوں میں ابن کنول کی شخصیت بھی جھلکتی ہے کیونکہ یہ تمام لوگ ان کے بہت قریب رہے ہیں، سب سے اہم بات انہوں نے بہت ہی ایمانداری اور بے باکی سے خاکے لکھے ہیں جس کی جو شخصیت تھی ہو بہ ہو پیش کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ راقم بھی ان میں سے بہت سے لوگوں کو جانتا ہے جن پر خاکے لکھے ہیں۔ خاکہ ایمانداری کے ساتھ ’ہلکے پھلکے انداز‘ میں بیان کرنے کا فن ہے۔ یعنی نہ کسی کی بے جا تعریف کی جائے اور نہ ہی برائی ۔ ابن کنول نے ان تمام باتوں کا خیال رکھتے ہوئے اپنے ممدوح کے متعلق خاکہ لکھا ہے۔
اکیسویں صدی میں خاکہ نگاری کی روایت کافی ماند پڑ گئی ہے۔ اب خاکے کی جگہ پر عام طور پر خاکہ نگار تنقید اور تنقیص کر رہا ہے۔ مگر ابن کنول نے اس رجحان سے انحراف کرتے ہوئے خاکہ نگاری کی کلاسیکی روایت اور فن کی پیروی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ،بلکہ یہ کہا جائے کہ انہوں نے خاکہ نگاری میں پھر سے روح ڈال دی ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے دلکش اندازِ بیان اور دلچسپ اسلوب کے ذریعہ ہر طرح کے قاری کو خاکہ پڑھنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ عام طور پر خاکہ نگار صرف ممدوح پر ہی طنز کرتا ہے، مگر ابن کنول کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے خود پر بھی طنز کیا ہے۔ خاکہ نگاری کی روایت میں خود پر طنز کرنا جدیدروش معلوم ہوتی ہے ،یہ ہر کوئی نہیں کر سکتا۔ افسانوی ادب ہو یا پھر غیر افسانوی دونوں میں تخیل اور تفکرکی کار فرمائی ضرور ہوتی ہے جس کے وجہ سے تخلیقیت جنم لیتی ہے جس سے قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس کے زندگی کا حصہ ہے۔ ابن کنول نے ان باتوں کا لحاظ رکھتے ہوئے فن کا بہترین نمونہ پیش کیا ہے۔ خاکے کے مطالعہ کے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ افسانوی ادب کا حصہ ہے۔ جس شخص کا خاکہ لکھا ہے اس کے تمام پہلوئوں کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ ساتھ میں یہ بھی خیال رکھا ہے کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ممدوح سے قاری کو ہمدردی ہونے لگتی ہے۔
ابن کنول نے خاکہ نگاری کی روایت میں ایک ایسی تکنیک کا استعمال کیا ہے جوکہ بالکل نئی معلوم ہوتی ہے۔ انہوں نے جس ادیب پر خاکہ لکھا ہے اس کے خصائص کو اس کے ادبی کارناموں کے نام سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور اس میں وہ کامیاب بھی نظر آتے ہیں۔ مثلا قاضی عبدالستار کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’قاضی صاحب نے زندگی چاہے ’غالب‘ کی طرح گزاری ہو لیکن ’خالد بن ولید‘ کی طرح رسولِ خدا سے محبت کرتے ، مجاہدانہ انداز ’صلاح الدین ایوبی‘ جیسا تھا۔ داراہ شکوہ سے گنگا جمنی تہذیب کا درس لیا تھا۔‘‘ (ص:۳۴)
اس کے علاوہ انہوں نے عصمت چغتائی، قرۃ العین حید روغیرہ کے تعلق سے بھی لکھا ہے اور اس انداز میں تحریر کیاہے کہ قاری خاکہ کا حصہ سمجھنے لگتا ہے۔ اسی طرح ان کے خاکے میںمنظر کشی بھی کمال کی ہے۔ ابن کنول کا امتیازیہ ہے کہ انہوں نے منظر کشی میں ڈرامائی عناصرپیدا کیا ہے، ایسا لگتا ہے کہ ہم اس جگہ کو اپنی آنکھ سے دیکھ رہے ہوں۔
’’کبھی کلکتہ ،کبھی احمد آباد،کبھی جبل پور،کبھی پونا،کبھی ممبئی،کبھی بنگلہ دیش،
کبھی مصر،کبھی ترکی،کبھی تاشقند،کبھی ماریشس ۔یہ آدمی ہے یا جن؟
’’ ارے یہ جن نہیں،ادکار ہے۔۔باادب،با ملاحظہ ہوشیار۔‘‘
اسٹیج پر سناٹا تھا ،اچانک اندھیرے کو چیرتا ہوا روشنی کی زد میں ایک شخص چلاتا ہوا
اسٹیج پر آیا۔‘‘ ص ۲۲۶(مشکل کشا;محمد کاظم)
اس کے علاوہ انہوں نے گاہے بہ گاہے زندگی کی پیچ و خم کے ساتھ انسانی نفسیات کو بھی عیاں کیا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’اس زمانے میں پڑھا لکھا اسے ہی کہا جاتا تھا جو اللہ رسول کو برا بھلا کہے اور روزے نماز کو فضول سمجھے بلکہ بہت سے ایسے بھی تھے جو اس تعلیم کو حاصل کرنے کے بعد باپ کو خبطی سمجھنے لگتے ہیں۔‘‘ ص:۴۳(قمر رئیس)
آج بھی اس طرح کے نظریات کا جم غفیر موجود ہیں جو اللہ کے وجود کو برا بھلا کہتے ہو ئے نظر آتے ہیں اور کچھ لوگ ان کی باتوں سے خوب محظوظ ہوتے ہیں حالانکہ وہ غلط ہوتے ہیں۔ مختصر یہ ہے کہ ابن کنول نے خاکہ نگاری کی روایت کو پھر سے زندہ کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ آنے والی نسلیں ان ہی خاکوں سے کسی بھی ادیب کی حالات زندگی اور اس کی شخصیت سے روبرو ہو سکتے ہیں۔ خاکے کو ایک طرح سے اردو ادیبوں کے حالات زندگی کے انسائیکلوپیڈیا کہناچاہئے کیونکہ خاکہ نگار کسی بھی ادیب کا جب خاکہ لکھتا ہے تو اس کی زندگی کے علاوہ اس کے شکل وصورت اور کارنامے کو بھی پیش کرتا ہے۔
ابن کنول نے اپنے خاکے میں ہر ممکن جدت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ ضروری بھی ہے کیوں کہ کسی بھی اصناف ادب کو زندہ رکھنے کے لیے اس میں ہمیشہ زمانے کے حساب سے رد و بدل کرتے رہنا چاہیے اس میں نئی نئی جدت و ندرت کا استعمال کرنی چاہیے۔ ابن کنول نے بہار کے جتنے بھی ادیب پر خاکہ لکھا ہے اس میں اس کی شخصیت کے خصائص بیان کرنے کے ساتھ ساتھ صوبہ بہار کی خوبیوں کو بھی سامنے لانے کی کوشش کی ہے کیوں کہ ان کو معلوم ہے کہ سیتا، بھگوان مہاویر،سکھوں کے دسویں گرو ،گرو گو وند سنگھ کی پیدائش سر زمین بہار ہے اس کے علاوہ بھگوان بدھ کو بھی نروان بہار ہی میں حاصل ہوا تھا ،اسی طرح گپت عہد میں نا لندہ یونیورسٹی دنیا میں تعلیم و تدریس کی اہم درسگاہ تھی،اس کے علاوہ اشوک،شیر شاہ سوری وغیرہ نے پوری دنیا کو اپنی طرف متو جہ کیا تھا ۔اقتباس ملاحظہ ہو
’’ اردو ہی کیا زندگی کے ہر شعبہ پر بہار کے لوگوں کا قبضہ ہے ۔منتری سے لے کر
افسر تک اور سنتری سے لے کر مزدور تک،ہر صوبہ میں بہار سے ہی آتے ہیں۔بہار
ہے تو بہار ہے۔۔۔۔ورنہ بہار جیسی ذہانت اور زرخیزی تو کسی صوبے میں نہیں
پائی جاتی ‘‘۔ص۱۸۸ (ارتضی کریم; ہمدم دیرینہ)
ابن کنول نے اپنے خاکوں کو زندہ وجاوید رکھنے کے لئے نئے نئے جدت اور دلچسپ اسلوب کا سہارا لیا ہے جس سے ہر قسم کا قاری محظوظ ہونے کے ساتھ ساتھ زیر لب مسکراتا بھی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے خاکے کی ہر کوئی تعریف کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔
***

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.