ابن کنول کی کہانیوں میں داستانوی اثرات
ابن کنول کی کہانیوں میں داستانوی اثرات
ڈاکٹر محمد ارشدندوی
اسسٹنٹ پروفیسر(ایڈہاک )،شعبۂ اردو ،
دیال سنگھ کا لج ،(دہلی یونیور سٹی )
لودھی روڈ،نئی دہلی ۳
آٹھویں دہائی میں جن افسانہ نگاروں نے ایک نئی راہ اختیار کی ان میں ابن کنول کا نام بھی اہمیت کا حامل ہے ۔ابن کنول (ناصر محمودکمال )نے ۱۹۷۰ء کے بعد لکھنا شروع کیا اور چند برسوں میں ایک نمایاں مقام حاصل کر لیا ۔ان کی افسانہ نگاری کو علی گڑ ھ کے ادبی ماحول اور معروف فکشن نگار قاضی عبدالستار کی سر پرستی نے جلا بخشی ۔زمانہ طالب علمی ہی میں ان کے افسانے اردو کے معتبر رسائل میں شائع ہو کر مقبول ہوئے ۔ان کے دو افسانوی مجموعے ’’تیسری دنیا کے لو گ‘‘اور ’’بند راستے ‘‘ ہیں ،گزشتہ چھ دہائیوں میں ابن کنول کی ساٹھ سے زیادہ کہانیاں ملک و بیرون ملک کے مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوئی ہیں ۔ابن کنول اپنی افسانہ نگاری کی ابتداء کے سلسلے میں لکھتے ہیں کہ !
’’دراصل شاعری ہو یا افسانہ دونوں ہی انسانی احساسات کا اظہار ہیں،میں نے افسانے کو اپنے مزاج سے زیادہ قریب پا یا ،کبھی کبھی شعر یا نظمیں بھی لکھیں لیکن باقاعدہ کبھی شاعری نہیں کی ۔طالب علمی ہی کے زمانے سے اردو کے مختلف رسائل میں افسانے چھپنا شروع ہو گئے تھے ،شاعر ،عصری ادب ،آہنگ جیسے رسائل میں اشاعت سے میرا کا فی حو صلہ بڑھا اور اس کے علاوہ علی گڑ ھ مسلم یو نیورسٹی میں جو ادبی محفلیں منعقد ہو تی تھیں ان میں اکثر میں بھی افسانے سنا یا کر تا تھا ‘‘ (ماہنامہ ماہ نور فروری ۲۰۰۷ء ۔صفحہ ۲۳)
ابن کنول کے افسانوں میں عہد حاضر کے پیچیدہ اور گنجلک مسائل کے مضمرات کی عکاسی بیحدنمایاں ہے ۔غالبااسی وجہ سے ان کا ہر افسانہ انسانی زندگی کی مختلف پہلوؤں کی جیتی جا گتی تصویرکا غماز ہے ۔کمال امتیاز یہ کہ ان کے افسانے قصہ گوئی اور داستانوی اسلوب سے مزین ہیں ۔ایک انٹرویومیں وہ خودکہتے ہیں کہ :
’’اردو کی سبھی معروف داستانوں کا مطالعہ کیا ہے ۔داستانوں کے ذریعہ میں نے کہانی بیان کر نے کا ہنر سیکھا ہے ،داستانوں کی طرح کہانی میں کہانی پیدا کر کے میں افسا نے کا پلا ٹ تیار کر تا ہوں ،اکثر لو گ کہتے ہیں کہ انتظار حسین سے متا ثر ہو کر یہ انداز اختیار کیا ہے ،ایسا نہیں ہے ،میں نے براہ راست داستانوں کا اثر قبو ل کیا ہے ،داستانوی انداز میں لکھنا متروک نہیں ،آج کا لکھنے والا سو فیصد اسی انداز کو نہیں اپنا تا بلکہ معاصرانہ جدت سے ہم آہنگ ہے ،اس کے مو ضو عا ت اور مسائل آج کے ہیں ،اس کی تخلیق عصری تقا ضوں سے ما لا مال ہے ،داستانوی بیا نیہ اسلوب میں لکھنا اتنا آسان نہیں ہے ،آج کے بہت سے فکشن نگار داستانوی انداز بیان کو اختیار کئے ہوئے ہیں ‘‘
(سہ ماہی جمنا تٹ،ہر یا نہ اردو اکا دمی ،اپریل ۲۰۰۳۔ص۳۳)
یہاں انتظار حسین کا تذکرہ ابن کنول کے عجز بیان کا مصداق ہے، دراصل پروفیسر ابن کنول کی ادبی زندگی کا پر پیج واقعہ داستانوں سے ہو کر گزر تا ہے ۔خاطرنشان رہے کہ ابن کنول داستانوں کے معتبر ناقد و محقق تھے۔ابن کنول کے افسانوں کا اچھوتا پن اور تکنیک کاراز،اسی مطالعہ داستان میں مضمرہے ۔ افسانوں میں نئی تازگی پیدا ہو گئی ہے ساتھ ہی ساتھ ان کی بے قرارانہ عصری آگہی نے قاری سے درد کا ایک رشتہ بھی قائم کر لیا ہے ۔ابن کنول کے افسانے عصری اضطراب اور انسانی صدمات کے پیچ وخم کے غمازہیں۔ان کی مطالعۂ داستان کا ہی اعجاز ہے کہ ان کی کہانیوں میں روز مرّہ کے معمولی یا غیر معمولی حالات و واقعات ،پرآشوب سیاسی بد نظمیاں ،مکرو فریب کی جعل سازیاں،آئے دن تہذیبی وثقافتی حادثات کا بیان ،ان کی آپ بیتی جگ بیتی میں تبدیل ہو گئی ہے۔ قاری کی اپنی کہانی بن جا تی ہے ۔اور وہ کہانی کا ایک کردار بن جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے بعـض افسانوںمیں تمثیلی اسلوب (Allegorical)قاری کی زندگی کا اسلوب بن جا تا ہے ۔بلا شبہ ابن کنول کے افسانوں کا خاصہ بھی یہی ہے کہ ان کی کہانیاں سچ بولتی ہیں ،’’بند راستے ‘‘ میں ایک جگہ تحریر کر تے ہیں کہ :
’’میں اس عالمِ آبُ وگِل میں ابن آدم کے افعال و اعمال کو دیکھ کر جو کچھ محسوس کر تا ہوں قلمبند کر دیتا ہو ںاور میں چاہتا ہوں کہ میرا قاری بھی اس درد اور احساس کے دریا سے گزرے کہ جس سے میں گزررہا ہوں ‘‘
زمانہ ٔطالب علمی سے ہی افسانہ نگار ی کے میدان میں قدم رکھ دیا تھا ۔ ۱۹۸۰ء تک آتے آتے اردو کو اس کی محبوب متاع گمشدہ یعنی افسانہ واپس کر دیا ۔افسانہ کی یہ واپسی ان کے وسیع مطالعہ ٔ داستان پر دال ہے ۔سچ ہے کہ ہندوستان کی تہذیبی میراث داستانوں کے فسانوں میں کہیں گم تھی جس کی تلاش و جستجو ابن کنول جیسے تخلیق کاروں کی زندگی کا عام وطیرہ بن گیا ۔
ابن کنول کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’تیسری دنیا کے لوگ‘‘ نویں دہائی میں منظر عام پر آیا۔ابن کنول نے اپنے اس مجموعے کے بیشتر افسانوں میں داستانوی اسلوب و محرکات کو بڑی خوش اسلوبی سے اپنایاہے جو منفرد و نایاب انداز ِبیان ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے عہد کے تمام افسانہ نگاروں میں ممتاز نظرآتے ہیں ،پروفیسر قمررئیس ابن کنول کے افسانوں سے بجا طور پر متاثر ہیں۔پروفیسر قمر رئیس نے ابن کنول کے افسانوں کی اس امتیازی جہت کی طرف یوں اشارہ کیا ہے کہ :
’’اردو میں افسانہ کی اس بحالی میں بعض ممتاز ادیبوں کے علاوہ آٹھویں دہائی کے جن نو عمر اور نو جوان ادیبوں کا نمایاں حصہ رہا ہے ان میں ڈاکٹر ابن کنول کا نام اہمیت رکھتا ہے ،انہوں نے اردو کی داستانوں کے تہذیبی کردار پر ڈاکٹریٹ کی سند لی ہے ،اس لئے اردو افسانہ کی روایت کا شعور وہ اپنے ہم سنوں سے کچھ زیادہ ہی رکھتے ہیں ۔انہوں نے متعدد کہانیوں میں تکنیک کے تجربے کئے ہیں ان میں داستانی اثرات کے شنا خت آسانی سے کی جا سکتی ہے ‘‘
ابن کنول کے افسانوں میں بیسویں صدی کے حالات و کوائف کا ذکر اس انداز میں ملتا ہے جیسے قاری اسی عہد میں مو جود ہو اور بعینہ اس کا مشاہدہ کر رہا ہو ۔ان کے افسانوں میں سیاسی ،سماجی اورتہذیبی زندگی کے عنا صر کا ر فرما ہیں۔انسان کی داخلی زندگی اور زندگی کے نفسیاتی مظاہر کی سچی عکاسی ،ابن کنول کے افسانوں کا خاصہ ہے ۔اس خصوصیت کی بازیافت کا وسیلہ ان کا داستانوی انداز بیان ہے۔ ان کی کہانیاں مو جودہ عہد اور ان مسائل سے پوری طرح ہم آہنگ ہیں ۔اس میں انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی جیتی جاگتی تصویر یں ابھر کر سامنے آتی ہیں۔
پہلا افسانوی مجموعہ ’’تیسری دنیا کے لو گ‘‘کا پہلا افسانہ ’’پہلا آدمی ‘‘جس کا موضوع بغاوت پر مبنی ہے ،حاکم وقت کی نافرمانی میں رضائے الہی کے جواز متمنی ہے۔عوامی زندگی کا وہ آخری آدمی لباس زیب تن نہ کر نے کی پاداش میں جرم کا مرتکب قرار پانا ہے ،اس کے بدلے ان کو تخت دار پر چڑھا نے کا حکم دیا جا تا ہے لیکن وہ تخت دار پر چڑھنے سے قبل ’’مراۃ الغیب ‘‘ کے ذریعے حقیقت کو عیاں اور بادشاہ کو راہ راست پر لا نے کی سعی کر تا ہے لیکن بادشاہ کی لا ابالی پن کی وجہ سے اس کی محنت رائیگاں جا تی ہے اور اس کو تخت دار پر چڑھا دیا جا تا ہے ۔اقتباس دیکھیں:
’’اس نے مراۃ الغیب کو سب کے روبرورکھ دیا اور اس آئینہ میں کہ جو حقیقت بیان کر تا تھا ،ان سب لباس پہننے والوں کے ننگے اور بد نما جسم نظر آئے اور وہ جو سب کی نظروں میں برہنہ تھا ،آئینہ میں لباس زر نگار پہنے ہوئے دکھا ئی دیا ،بادشاہ نے عالم غفلت میںکہا ،تو جادو گر ہے …. تو جھوٹا ہے … فریبی ہے … لے جا ؤ اسے قید خانے میں ڈالدو،اسے دار پر کھینچوادو۔‘‘(صفحہ:۱۵)
اس افسانے کی بنیادی خوبی لباس ہے ۔ایک معمولی چیز اور روز مرہ کے استعمال میں آنے والی شئے،ہر عام و خواص لباس سے آگاہ ہے لیکن افسانہ ’’پہلاآدمی ‘‘میں لباس علامت کے پیکر میں ڈھل کر ہمہ گیر اور عالم گیر معنویت کو آشکا رکر تا ہے ۔
’’پہلا آدمی ‘‘ کی طرح ’’جیت کس کی اور ہار کس کی ‘‘ افسانے میں بھی ظالم بادشاہ کی وجہ سے یو سف کی ازدواجی زندگی ختم ہو جا تی ہے۔اس افسانے میں جنگ سے ہو نے والے نتا ئج کو پیش کیا گیا ہے یعنی جنگ منفی اثرات مرتب کر تی ہے یا مثبت۔ ظاہر ہے کہ منفی ،لیکن جنگ کے مضر بلکہ نا قابل بیان صدموں اور خون آشام منظروں کو بیا نیہ ساختوں میں ڈھالنا کوئی معمولی بات نہیں جو پرو فیسر ابن کنول کے تخلیقی قلم میں عام رنگ ہے ۔
افسانہ ’’تیسری دنیا کے لوگ‘‘دنیا میں اقلیت پر ہو نے والے مظالم کی طرف اشارہ کر تا ہے۔ اس افسانے میں بڑی طاقتیں اپنے سے کمزور کو کس طرح زیر کر تی ہیں اور ان پر طرح طرح کے مظالم ومصائب کا پہاڑ تو ڑتی ہیں ۔ان بڑی طاقتوں کی زد میں ہندوستان ،پاکستان ،افغانستان ،عراق،فلسطین وغیرہ اہم ممالک ہیں۔ جنہوں نے ان کی بالادستی کو قبول نہ کر نے کی صورت میں ان کے مظالم کے شکار ہو ئے اور آج بھی کئی اہم ممالک ان سے حراساں ہیں ، جس کے نتیجے میںہلاکت، تباہی ،ہجرت،لامکانی ودیگر مسائل سے دوچار ہو نا پڑ تا ہے ۔’’تیسری دنیا کے لوگ ‘‘ میںابن کنول نے انہی مسائل کی زندہ کہانیاں تخلیق کی ہیں نیز ہندوستانی تہذیب و ثقافت کواپنے بیانیے میں ، اس انداز سے پیش کیا ہے کہ قضا اور قدر کے پیچیدہ فلسفیانہ مسائل جو بعض محققین کے نزدیک آج بھی مسئلہ لا ینحل کی مثال ہیں ۔ابن کنول کے بیا نیوں میں زندہ دل کی صورت میں مو جود ہیں ۔جو قومیںبغیر حرکت و عمل کے صلہ خواہش مند ہیں ، تقدیر پر انحصار کرتی ہیں،اور کا میابی نہ ملنے کی صورت میں خودکشی کے رجحان میں مبتلا ہوجا تی ہیں ،ان کے لئے ایک نسخۂ کیمیا ہے یہ افسانہ ۔ غزوہ بدرکی انو کھی مثال ،کمزور ترین انسانوں میں امید کی کرن ،حو صلہ ،ہمت اور جوانمردی پیدا کرنے کی کو شش محیرالقول افسانہ ہے یہ ،آپ بھی اقتباس ملا حظہ کیجئے :
’’یہ زمین تم لو گوں کے لئے بنائی گئی لیکن تم نے اسے بانٹ لیا ،تم نے اس زمیں پر خونریزی کی ،شر پھیلایا ،کیا اب بھی تم خدا سے امید کر تے ہو کہ وہ تمہاری مد د کر ے گا ،اس نے تمہیں زمین پر خود مختار بنایا ،پھر وہ کیوں تمہاری مدد کر ے ،
’’اپنے اسی اختیار کو استعمال کر تے ہوئے ہم خود کشی کر رہے ہیں ۔
’’لیکن خودکشی کر نا زندگی سے فرار ہے اور زندگی سے فرار کم ہمتی اور بزدلی ہے ،کیا تم بزدل ہو ؟پیر و مرشد نے استفسارکیا
’’نہیں :لیکن ہم مجبور ہیں ‘‘
’’مجبوری کم ہمتی کا دوسرا نام ہے ،جا ؤ اپنا حق مانگو ،یہ زمین تم سب کے لئے ہے !
’’لیکن ہم تعداد میں کم ہیں اور بے یارو مدد گار ہیں‘‘
’’تم تین سو تیرہ سے زیادہ ہو ،کیا تم تین سو تیرہ کی فتح کے بارے میں نہیں جا نتے ،وہ سب بھی بے یارو مددگار تھے ‘‘ (تیسری دنیا کے لوگ :صفحہ :۲۲)
عہد عتیق سے لیکر عہد جدید تک ہر انسان اپنے عزیز و اقارب کو ترک کر کے اور وطن عزیز کوخیرباد کہہ کے ذریعۂ معاش کی تگ ودو میں دور دراز علاقوں کا سفر کر تا ہے ۔پہلے شام ہو نے سے پہلے ہی گھر لوٹ جایا کر تے تھے اور اب حالات بدل چکے ہیں سانجھ ڈھلے گھر واپسی کے بجائے مہینوںاو ر سالوں میں گھر لو ٹتے ہیں،جس سے ان کی ازدواجی زندگی میںدراڑپڑ جا تی ہے ۔اسی وجہ سے بیوی کا یہ اندیشہ ظاہر کر نا کہ ’’شام ہو نے سے پہلے لو ٹ آنا کہ میرا حال بھی بلقیس کا سا نہ ہو ‘‘ اور دادی کا یہ فرمان کہ ’’واپسی میں اتنی دیر نہ لگا نہ کہ یاقوت کی طرح پچھتانہ پڑے‘‘جیسے آئے دن میاں بیوی کے مابین ہو نے والے حالات و واقعات کو ابن کنول نے ’’شام ہو نے سے پہلے ‘‘ افسانے میںبیحد موثر انداز میں پیش کیا ہے ۔
اسی طرح’’ آخری کو شش ‘بندر استے ،تیسری لا ش‘‘وغیرہ ایسے افسانے ہیں جس میں آزادی وطن ،تقسیم ملک اور فرقہ وارانہ فسادات،جیسے نازک و حساس مو ضوعات کوابن کنول نے اپنے ان افسانوںکی بنت میں تکنیکی اور فنی چابکدستی کا مظاہرہ پیش کیا ہے ۔ان افسانوں کے علاوہ ’’چھوٹی آپا ،داؤد خان ،واپسی ،اشرف المخلوقات ،دوسرا پا گل ،فورتھ کلاس ،سراب ‘‘وغیرہ ایسے افسانے ہیں جس میں زندگی کے تلخ تجربوں کوجادوئی حقیقت نگاری (Magical Realism )کی تکنیکی وسیلے سے منظرعام پر لا نے کی کو شش کی گئی ہے ۔غالباًجادوئی حقیقت نگاری کا یہ طلسم ،مطالعہ ٔ داستان کے فیضان کے مر ہون منت ہے ۔اس جادونگری میں ہندوستانی معاشرے میں مغربی تہذیب کابڑھتا رجحان اور ان سے حدسے بڑھی ہوئی گروید گی ہر ذمہ دار شہری کے لئے ایک لمحۂ فکریہ ہے ۔
ابن کنول کادرد مند دل جادوئی شنا خت کا قائل ہے ۔لہذا ان کی افسانوی بنت میں یہ فیشن زدہ کلچر ایک نوع کے طنز کے ساتھ ماہیئت قلب یعنی تزکیہ (Purgation )سے ہمکنار ہے ،جو ارسطو کے ـCatharsis کو مطلوب ہے، ساتھ ہی ساتھ ان افسانوں میں انسانی درد و کسک ،جبر و تشدد ،احساس کمتری ،عدم تحفظ اور ان عام زندگی پر ڈھائے جانے والے مظالم کے منا ظر قصۂ گوئی کی صورت میں پیش ہے کہ قاری بھی اپنے آپ کو اس دردخود کو شامل محسوس کرتا ہے ۔اس طرح وہ تمام افسانوی عناصرجو افسانوں کو حیات دوام بخشے، قاری میں تجسس پیداکرے اور ان کے دلوں کو مسخر کرے ۔ابن کنول کی افسانہ نگاری کا فنّی طریق کار ہے ،اور اسی وجہ سے وہ اپنے مقصد میں کا میاب نظر آتے ہیں ۔پروفیسر قمر رئیس بجا طورپر تحریر کر تے ہیں کہ :
’’دوسرے نو جوان ادیبوں کی طرح ابن کنول کا مسئلہ بھی آج کی ۔۔ان کے اپنے عہد کی وہ پیچیدہ زندگی ہے جو کر بناک محرومیوں ،بے چینیوں ،جبر وتشدد اور عدم تحفظ کے آسیبی احساس سے اندر اندر سلگ رہی ہے ۔جو بہشت کی آرزو میں تگ ودو کرتی جہنم کے دہانے پر آکھڑی ہوئی ہے ۔لیکن ابن کنول اس صورت حال سے ہراساں اورمایوس نہیں ہیں ‘‘(تیسری دنیا کے لوگ)
جہاں تک دوسرے افسانوی مجموعہ ’’بند راستے ‘‘ کا تعلق ہے تو اس میں چھبیس افسانے ہیں ۔ ہر افسانہ اپنے آپ میں جدا گانہ حیثیت کا مالک ہے ۔ان افسانوں میں زیادہ تر ملک کے سیاسی منظر نامہ پر تبصرہ کیا گیا ہے ۔یہ افسانے بابری مسجد اور گجرات کا سانحہ فاجعہ اور دور حاـضر میں دہشت گردی ،مہنگائی ،بدعنوانی ،عصمت دری جیسے مسائل کی مصوری پیش کرتے ہیںجہاں کوئی ابہام نہیںبلکہ نہایت ہی خوبصورت اور صاف ستھرے انداز میں مسائل پیش ہیں ۔یہ وہ افسانے ہیں جوقاری کے ذہنوں کو بیدارہی نہیں بلکہ ان میں جو ش و ولولہ ،حرکت و عمل کی تحریک ،نئی سوچ کے محرک ہیں۔ پروفیسر عبدالحق اس کتاب کے حوالہ سے ایک جگہ تحر یر کر تے ہیں کہ:
’’وہ اچھے اور معتبر افسانہ نگار کی حیثیت سے معروف ہیں،’’بندراستے ‘‘کے افسانوں میں فن کی فسوں کا ر تکنیک اور مثبت فکر کا اوج و عروج کہانی کی روایت میں چراغ رہ گذر کے طور پر تسلیم کیا گیا ۔ان میں فن کے استقبال اور اضافے کی بڑی وسعت پائی گئی …. ان کی کہانیوں میں اقدار کی ارجمندی نے مجھے طما نیت بخشی ہے ،ان کے افسانے اس لئے بھی دل کشی رکھتے ہیں کہ وہ قصہ اور کہانی کے لطف خاص سے بھر پور ہیں ،کہانی جب قصہ پن سے خالی ہو کر نظریہ سازی یا فلسفہ طرازی کی بات کر تی ہے تو قاری پر تکدر طاری ہو تا ہے ۔ڈاکٹر ابن کنول نے اساطیر ی اسالیب بیان کی تجدید کو آگے بڑھا کر اپنی پہچان پیش کی ہے ۔‘‘(داستان سے ناول تک ۔صفحہ ۷)
اس طرح ہندوستان کے افسانوی منظرنامے پر ابن کنول نے واضح دستخط کئے ہیںاور ان کی یہ دستخط ان کی شناخت کی مصداق ہے۔ ’’بندراستے ‘‘ کے کئی افسانوں میں داستانوی اسلوب سے انحراف کر تے ہوئے نئے اسلوب و جدید تکنیک کا استعمال کیا ہے ۔مو جو دہ سیاسی نظام کی خرابیاں اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہو نے والے سماجی مسائل اور خانگی الجھنیں اس مجموعے میں شامل افسانوںکی متحرک موضوعی تصویریں ہیں۔ڈاکٹر فہیم اعظمی ’’بندر استے‘‘کے تبصرہ میں اس کا اجمالی جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
’’ ’’بندراستے ‘‘کے چھبیس افسانوں میں سے زیادہ تر بر صغیر ہندو پاکستان کے حالیہ معاشرے کا نہایت ہی صاف ستھرا آئینہ ہیں ۔ان افسانوں کی ساخت میں جن عنا صر کی نشاندہی کی جا سکتی ہے وہ ہیں عقیدتی ،سیاسی ،سماجی اور کسی حد تک نفسیا تی ،جہاں تک سیاسی عوامل کا تعلق ہے ،ان میں حکمرانوں کی منافقت ،عوام کو آپس میں لڑاکر حکومت کر نے کے ڈپلومیسی ،جمہوریت کا منفی پہلو ،حکمرانوں کے بہروپ ان افسانوں میں دکھا ئی دیتے ہیں ‘‘ (ماہنامہ صریر ،کراچی ،اگست:۲۰۰۲)
’’بندر استے ‘‘کاپہلا افسانہ ’’ہمارا تمہار اخدا بادشاہ ‘‘ یہ افسانہ سیاسی بدحالیوں کے خلاف ایک آوازاحتجاج ہے ۔’’ایک شب کا فاصلہ ‘‘ میںجنگ و جدال کے ذریعہ اقتدار پر قابض ہو نے کی جانب اشارہ ہے تو ساتھ ہی ساتھ یہ افسانہ ہندوستان میں لگی ایمرجنسی کی یا د تازہ کرتا ہے ۔ ’’وارث‘‘ایک بیحد انوکھا افسانہ ہے جس میں حاکم وقت ،ایماندار، سپہ سالار ،اور انتظامی امور سے واقف کارکے بجائے ایسے جانشیںکا انتخاب کر تا ہے جو شر پسندی کا شاطرہو تا کہ ملک میں انتشار پھیلا سکے ۔’’صرف ایک شب کا فاصلہ ‘‘ میں چند اصحاب ـجوجمہورپسند اقدار کے امین ہیںلیکن جمہوری نظام کی خواہش اور اس کے اظہار کے جرم کی پاداش میں ظلم کے شکار ہو تے ہیں اور کہف میں پناہ لیتے ہیں ،اس افسانے میں قاری ماضی میں حال و مستقبل کا منظر دیکھتاہے، سیاسی ملکی نظام خود مختاری اور شہنشاہیت کے جبر واستحصال سے اصحاب کہف کا وجود ہوااور یہی منظرہندوستانی سیاسی نظام کی اس ابتری کی جانب اشارہ ہے جس میں جمہوریت کی آڑ میں عوام و خواص کا استحصال کیا جاتا ہے اور انہیں ان کے بنیادی حقوق تک سے محروم کیا جا تا ہے ۔ابن کنول کی کہانیاں ہندوستان کی سیاسی بدنظمیوں اور سماجی بد اعمالیوں کا بے باک بیانیہ ہے ۔
ابن کنول کی تخلیق ہمارے عہد کے ان تمام حقائق کو پیش کر تی ہیں جسے عالمی تنا ظرمیں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔عصری حسّیت و آگہی کے منظر نامے ان کی ادبی ریاست کی رعیت ہے ۔اسی وجہ سے ان کے افسانوں میں مو ضوعات کی کمی کا احساس نہیں ہو تا وہ جو کچھ دیکھتے اور سنتے ہیں اسے افسانوی تخلیق کی شکل میں پیش کر دیتے ہیں،یہی ان کی سب سے بڑی خو بی ہے ۔ ان کے مو ضوعات میں تنوع پا یاجاتاہے لیکن انسان کی شرپسندی جودراصل قابیل کا ہی ایک روپ ہے اور یہ روپ انسانی معاشرہ کے لئے بیحد خطرناک اور مضر ہے ۔عصر رواں کاقابیل ابن کنول کا خاص مو ضوع ہے ،اس مو ضوع کے تحت وہ اپنے ایک انٹر ویو میں کہتے ہیں کہ :
’’ویسے میر ے افسانوںمیں انسان کی شرپسندی زیادہ نمایاں ہے،آج کا آدمی شرپسند نظر آتا ہے ،دنیا میں ہر طرف قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے ،آدمی آدمی کا دشمن ہے ،آج دنیامیں قابیل کی نسل کی حکومت ہے ،قابیل دنیاکا پہلا قا تل ہے ،آج ہر جا نب ہابیل کا قتل ہو رہا ہے ،خد انے یہ زمین سب کے لئے بنائی لیکن انسان نے اس کو بانٹ لیا ہے اور اس کے لئے ہر جگہ خو نریزی ہو رہی ہے ۔فسادات ہو رہے ہیں ،آدمی کی درندگی میرا خاص مو ضوع ہے ۔‘‘ (ماہنامہ ماہ نور ،فروری ۲۰۰۷ء:ص ۲۴)
اس اقتباس کے تناظر میں ابن کنول کے افسانوں’’پہلا آدمی ،خوف،ایک ہی راستہ ،لکڑبگھا زندہ ہے ،ابن آدم ‘‘وغیرہ کو دیکھیں توان میں انسان کی شرپسندی ،زیادتیوںکی زندہ مثالیں مو جود ہیںجو قاری کو باور کراتی ہیں کہ آج ملک میں دہشت گردی ،ظلم و زیادتی ، قتل و غارت گری ،اور ارباب اقتدار کا گھناؤنا کھیل نیزنفرت و عداوت کی جماعتیں ہر چہارجا نب زہر گھو لتی ہوئی نظر آرہی ہیں ۔’’ابن آدم‘‘ کا یہ اقتباس دیکھیں :
’’اُف یہ بے دردی کے مظاہرے کب تک آنکھیں دیکھتی رہیں گی ،کان سنتے رہیں گے ۔
جب تک آدمی اس زمین پر مو جو د ہے ‘‘دوسرے نے جواب دیا
’’آخر جذبہ انسانیت کہاں نا پید ہو گیا‘‘
’’جذبہ انسانیت کبھی تھا ہی نہیں ،انسان کوئی مخلوق نہیں ،یہ صرف ہمارے ذہنوں کا تشکیل دیاہو ا ایک تخیلی نام ہے، یہاں تو صرف ابن ؤدم کی حکومت ہے ،ہابیل قتل کیا جا تا رہے گا ،قابیل ہمیشہ زندہ رہے گا ،کیا تم نے کوئی انسان دیکھا ہے ؟‘‘ (ابن آدم :ص۹۹)
’’ایک ہی راستہ ‘‘اور ’’خواب ‘‘بھی انسانی بربریت ،دل سوز مناظر ،نسوانی چینچ و پکار ،عصمت دری کے ہزاروں واقعات کا عکاس ہے، جیسے کہ یہ مناظر اس عالم آب و گل کا معمول ہے ،تخلیق کار کی گرفت میں عہد حاضرکے چھوٹے اور بڑے واقعات تو ہیں ہی بالخصوص گجرات و کشمیرکے سلسلہ وار حادثات تخلیقیـ ذہن بیقرار ومضطرب کرتی ہے اور ابن کنول کی بے چین روح کا بیانیہ قصہ کی شکل میں نمودار ہو تا ہے ابن کنول کی بیقراریوں کا ایک منظرآپ بی ملا حظہ کیجیے:
’’اے خدا آگاہ میں اس دنیائے فانی میں جو کچھ دیکھ رہا ہو ں وہ نا قابل برداشت ہے ،میرے اندر غصے کی ایک آگ پھیلی ہوئی ہے ،غصہ آنا فطری بات ہے لیکن اس دور کے انسان کو برائی دیکھ کر بھی غصہ نہیں آتا ،
’’ہر چیز کی زیادتی احساس کو ماردیتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ آج کا انسان برائی کو پہچانتے ہوئے بھی بُرا محسوس نہیں کرتا ۔تم کیوں پر یشان ہو تے ہو ،تم بھی بے حس ہو جاؤ۔تمہاری پریشانی دور ہو جائے گی ‘‘یہ مشورہ دیتے وقت بزرگ کے ہو نٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ تھی ۔
اس نے نفی میں سر ہلا یا اور کہا ’’نہیں …. میں ایسا نہیں کر سکتا ،میں برائی ختم کر نا چاہتا ہوں ،اے پیر و مرشد مجھے ایک ایسی غیبی قوت چاہئے جس سے میں برائی ختم کر دوں ،کیا آپ میری مدد کر سکتے ہیں ؟‘‘
’’تم کس کس برائی کو ختم کروگے ‘‘ (ایک ہی راستہ :ص ۸۵)
’’بندراستے ‘‘افسانہ تقسیم ہند اور ہجرت کے حالات وکوائف کے المیاتی مناظر کی دل نواز پیشکش ہے جسے بعض ناقدین نے ابن کنول کی رومانیت سے تعبیر کیا ہے بلا شبہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے ،اس افسانے میں خالد نامی کردار جب پاکستان سے اپنے آبائی وطن ہندوستان آتا ہے تو یہاں کے دل سوز منا ظر دیکھ کر گھبرا جا تا ہے اور ایک مولوی صاحب سے یہاں کے حالات دریافت کرتاہے :
’’بیٹا وقت کے ہاتھوں سب کچھ لٹ گیا ،گاؤں توپہلے ہی نکل چکے تھے ،جو کچھ جائیداد بچی وہ مقدموںکی نذر ہو گئی ،تمہارے چچا میاں حویلی نیلام کر کے شہر چلے گئے ،بیٹا بڑی بری حالت ہو گئی ہے ،جب سے تم لو گ گئے ہو ،محلے کے کچھ لو گ میرے آگے بھیک کی طرح کھانا ڈال دیتے ہیں،نہ جانے خدا کب اٹھا ئے گا ،مولوی صاحب نے آنکھوں کی نمی کو رومال سے خشک کیا ۔‘‘ (بند راستے :ص ۱۳۸)
ابن کنول کے اسلامی تاریخ سے دلچسپی اور وابستگی نے افسانوی کینوس کو مزید وسعت و علویت سے ہمکنار کیا ہے ۔انہوں نے اپنے بیا نیوں ’’سویٹ ہوم ،آنکھوں کی سوئیاں ‘‘کے ذریعے عہد جدیدکے بڑے شہروںمیں مکانات کی قلت ،دن بدن کرایہ کے مکانوں میں اضافہ اور زمینی جنگ کے تنازع کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے، غربت اور متوسط طبقہ کے لئے کوئی مکان نہیں ۔اس کے علاوہ انہوں نے ’’کنیا دان ‘‘،’’مجرم کون ‘‘میں لڑکیوں کی شادی میں آنے والی دشواریوں اور اولاد کی والدین کے تئیں ہمدردی اور ان کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر نے کا نام ’’کینسر وارڈ‘‘ نامی افسانے کے ذریعے اور ’’کچے گھڑے ‘‘ میںایک ایسے المیہ کی جانب اشارہ ہے جو ہندوستان کی تقسیم کے بعد زمینداروں اور تعلقہ داروں کے عروج سے زوال کے جانب آنا ،اور اسی طرح ’’ہستک چھیپ ‘‘ میں طبقاتی کشمکش ،مندرو مسجد کے جھگڑے ،بھید بھاؤکی المناک داستان داستانوی اسلوب میں پیش ہے اور اس میں ہندوستانی معاشرہ کی برائیوں کے جانب بڑی صفائی اور ہنر مندی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔
مذکورہ افسانوں کے تجزیوں سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ ابن کنول انسانی نفسیات کادرک وشعور رکھتے ہیں ،ان کے پاس صرف ایک درد مند اورانسان دوست دل ہی نہیں بلکہ حقیقت کو پہچا ننے والی نظر اوربیان کر نے والا قلم بھی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے افسانوںکے ذریعئے زندگی کے حقائق کو پیش کر تے ہیں جس سے ان کی کہانیوں میں کئی کہانیاں جنم لیتی ہیں لیکن یہ ضمنی کہا نیاں اپنے اصل قصے سے مر بوط ہو تی ہیں ،گھر یلوحالات زندگی ،ہنداسلامی تہذیب سے بے التفاتی اور مغربی تہذیب و تمدن سے دل آویزی ،عورتوں کے مسائل ،دہشت گردی ،بے روزگاری ،انسانی رشتوںکی پامالی اور ان کے مابین تفرقہ بازی ،نفرتوں کی بوچھار ،قتل و غارت گری اور فطرت انسانی کا داخلی ہیجان ان سب مو ضوعات کا ابن کنول نے گہرائی سے مطالعہ کیاہے ، ان کے افسانوںمیںبصیرت ہے اور ایک واضح وزن ہے ،یہ وزن داستان گوئی کے راستے میں اسلامی تہذیب و تاریخ کی شمولیت ہے جو ان کی قصہ گوئی کا حصہ ہے ،اس کے ذریعے انہوں نے پندو نصائح کا راستہ بھی نکا لا ،جس طرح اہم ناول نگاروں جیسے ڈپٹی نذیر احمد ،عبدالحلیم شرر،علامہ راشدالخیری اور پریم چند وغیرہ نے اپنی قصہ گوئی کے ذریعۂ اصلاح وتزکیہ کی راہ نکا لی اسی طر ح ابن کنو ل نے بھی اپنے افسانوں کے ذریعے معاشرے میں اصلاح وتزکیہ کی راہ دریافت کی،اسلامی تعلیمات کا عمرانی و تہذیبی مطالعہ جو عدل اجتماعی ،مساوات باہمی اور آزادیٔ کل کا حامی ہے ،ابن کنول کے رگ وپے میں پیوست ہے۔معاشی ،تہذیبی ،سیاسی ہر سطح پر پاکو صاف اوربے لاگ فراست کا مظاہرہ ،اشتراکی ذہنوں کی بھی ایک شناخت تسلیم کی جا تی رہی ہے ۔اس تنقیدی کشا کش نے ابن کنول کو ہر انصاف پسند معاشرہ کا رکنِ خاص ہو نے کا امتیاز و شرف بخشا ہے ۔پروفیسر وہا ب اشرفی کا خیال متذکرہ بالا اصول زندگی کا ترجمان ہے ،موصوف کی بیش قیمت آرا پر اپنی بات ختم کرنا چاہوں گا ،پروفیسر وہاب اشرفی فرماتے ہیں:
’’ابن کنول اشتراکی ذہن رکھتے ہیں ،ترقی پسندی کل بھی ان کی جو لان گاہ تھی اورآج بھی ہے ۔شعر ہو یا افسانہ یا مضمون ان کی تحریروں میں عالمی صورت واقعہ کی پر چھائی ملتی ہے ،وہ مقامی مسائل اور احوال کی بھی وسیع تناظر میں دیکھنے کی سعی کر تے ہیں ،استحصال کے طور اورا نداز کی انہیں خبر ہے ،نتیجے میں وہ ایسی ہی نگارشات پیش کر تے ہیں جن میں آج صورتیں نما یاں ہیں …… اس امر سے کسی کو بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ وہ معاملات کو وسیع تنا ظر میں دیکھنا پسند کر تے ہیں ۔‘‘ (تاریخ ادب اردو ،جلد سوم :ص ۱۳۷۳)
٭٭٭
- MD ARSHAD NADVI
ASSISTANT PROFESSOR (AD-HOC)
DEPARTMENT OF URDU
DYAL SINGH COLLEGE (M)
(UNIVERSITY OF DELHI)
LODHI ROAD, NEW DELHI-03
MOB:9213307499
Mail. arshaddu786@gmail.com
Leave a Reply
Be the First to Comment!