پروفیسر ابن کنول کی سفرنامہ نگاری
پروفیسر ابن کنول کی سفرنامہ نگاری
ڈاکٹرمحمد عامر،002-نرمدا ہاسٹل، جے این یو، نئی دہلی
موبائل نمبر: 9868561984
ای میل: mohdamir56@gmail.com
پروفیسر ابن کنول کا شمار اکیسویں صدی عیسوی کے ان ادیبوں میں ہوتا ہے، جنھوںنے اردوادب کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ پروفیسرابن کنول بیک وقت شاعر، افسانہ نگار، خاکہ نگار، نقاد، محقق اور سفرنامہ نگار ہیں۔ انھوں نے جس صنف پر بھی قلم اٹھایااس کا پورا حق ادا کردیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کی تخلیقات ادبی دنیا میں ہاتھوں ہاتھ لی جاتی رہی ہیں۔ جہاں انھوں نے افسانہ، خاکہ اور تحقیق وتنقید کو اپنی گراں مایہ تصنیفات دی ہیں، وہیں سفرنامہ لکھ کر اس کی روایت کو مستحکم بھی بنایا ہے۔ پروفیسر ابن کنول کے سفرناموں کا مجموعہ ’چارکھونٹ‘ اکیسویں صدی عیسوی کے اہم سفرناموں میں کافی اہمیت کا حامل ہے۔ ’چار کھونٹ‘ میں ہندوستان کے مختلف شہروں کے علاوہ غیرممالک کی بھی روداد سفر کو بیان کیا ہے۔ ہاں! اس میں ہندوستان کے مختلف شہروں کی جو روداد سفر بیان کی گئی ہے اس میں وہ تفصیلات نظر نہیں آتی ہیں جو غیرممالک کے روداد سفر میں ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ مصنف نے غیرممالک کے روداد کو تفصیل سے بیان کرکے ان کی تہذیبی، سماجی، سیاسی اورترقیاتی زندگی کوقاری کے سامنے لانے کی سعی کی ہے۔ ’چارکھونٹ‘ میں پروفیسرابن کنول نے ان تمام غیر ضروری تفصیلات کو نظر انداز کیا ہے،جو قاری کی دلچسپی میں کوئی اضافہ نہیں کرسکتا تھا۔ جیسا کہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ ’چارکھونٹ‘ کے مصنف پروفیسر ابن کنول درس وتدریس سے لمبی مدت تک وابستہ تھے۔ علاوہ ازیں اردو ادب کی مختلف اصناف میں بھی طبع آزمائی کرچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مطالعے میں وسعت اور تجربات ومشاہدات میں پختگی دیکھنے کوملتی ہے۔
’چار کھونٹ‘ سعودی عربیہ، موریشس، امریکہ، انگلینڈ اور متحدہ عرب امارات کے علاوہ ہندوستان کے مختلف شہروں کی روداد سفر پر محیط ہے، جس میں ہم ان شہروں کی سماجی، تہذیبی، سیاسی اور ترقیاتی زندگی کو پروفیسر ابن کنول کے تجربات ومشاہدات کی روشنی میں دیکھ سکتے ہیں۔ جیساکہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ سفرنامہ دوران سفر پیش آنے والے ان واقعات وحادثات کا دلچسپ بیان ہے، جس کو مصنف اپنے تجربات ومشاہدات کی روشنی میں پیش کرتا ہے۔واقعات وحادثات میں اہم اور غیر اہم کی پہچان ہی سفرنامے کی جان ہے۔ ظاہر ہے کہ اہم اور غیر اہم کی تفریق تبھی کی جاسکتی ہے جب مطالعے میں وسعت اور تجربات ومشاہدات میں پختگی ہو۔ اس بات کااندازہ اپنے آس پاس کے لوگوں سے بخوبی کرسکتے ہیں، کیوں کہ جب ایک عام آدمی روداد سفر بیان کرتا ہے تو ایسی باتوں کا بھی ذکرکردیتا ہے ، جس کا نہ تو سماجی اور نہ ہی تہذیبی زندگی سے کوئی سروکار ہوتا ہے۔وہیں دوسری طرف جب ایک ادیب اور دانش ور روداد سفر بیان کرتا ہے تو اس کی نظر دوران سفر اہم چیزوں اور جزئیات پر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ادیب اور دانش ور کے سفرناموں کو ہر دور میں سراہا گیا ہے۔ لہٰذا جب ہم ’چار کھونٹ‘ میں شامل سفرناموں کا مطالعہ کرتے ہیں تویہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں پیش کی گئی روداد سفر مستقبل میں مستند ماخذ تصور کیے جائیں گے۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا جاچکا ہے کہ ’چار کھونٹ‘ کے مصنف پروفیسر ابن کنول لمبی مدت تک درس وتدریس سے وابستہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے بیشتر سفر بحیثیت ادیب کیا ہے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ ان تمام ممالک اور شہروں میں جن میں انھیں سیمیناریا کانفرنس کے لیے مدعو کیا گیا تھاان کا ذکر جب وہ اپنے سفرنامے میں کرتے ہیںتو ان میں سیمینار کی روداد اور ادبی سرگرمیاں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ہاں! سعودی عربیہ کا سفرایک خاص مذہبی عقیدت کے تحت کیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کے روداد سفر میں ہمیں نہ تو کہیں ادبی سرگرمیاں نظر آتی ہیں اور نہ ہی وہ سیاحت نظر آتی ہے جو دیگر سفرناموں میں دیکھنے کو ملتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سفر پروفیسر ابن کنول نے بغرض حج بیت اللہ کے کیا تھا۔ اسی لیے اس سفرنامے میں مذہبی مقامات اور اس کے تئیں تاثرات ہی زیادہ دیکھنے کو ملتے ہیں ، لیکن اس سفرنامے کو بھی پروفیسرابن کنول نے اپنے وسیع مطالعے اور تجربات ومشاہدات کی بدولت ایک دستاویز بنادیا ہے ، کیوں کہ اس میں بہت سی ایسی باتوں کا ذکر ہے جو کہ روداد سفر ہونے کے ساتھ معلوماتی ذخیرہ ہے، اور ان تمام لوگوں کے لیے مشعل راہ ہے جو حج بیت اللہ کا ارادہ رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس سفرنامے میں ان تمام مقامات کی انفرادیت و اہمیت پر بھی روشنی ڈالی ہے جو اسلامی نقطۂ نظر سے اہم ہیں۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’30/جنوری کو مسجد نبوی میں پہلی نماز ادا کی۔ یہ مسلمانوں کے لیے دوسری مقدس ترین مسجد ہے۔ اس کی تعمیر623عیسوی میں کی گئی۔ رسول اللہ ﷺنے جب ہجرت کرکے یثرب یعنی مدینہ پہنچے تو اپنے گھر کے برابر مسجد کے لیے دو یتیموں سے یہ زمین خریدی۔۔۔۔۔ ابتدا میں مسجد اقصیٰ کی جانب قبلہ تھا، بعد میں کعبہ کی طرف تبدیل کیا گیا۔ ۔۔۔۔۔ مدینہ کا قدیم نام یثرب تھا، حضور ﷺنے اس کا نام مدینہ تجویز کیا۔۔۔۔۔ مسجد نبوی 623عیسوی میں جب تعمیر ہوئی تھی تو اس کا کل رقبہ 1050میٹر تھا اور صرف تین دروازے تھے۔ مختلف ادوار میں توسیع کے بعد اس کا رقبہ 235000مربع میٹر میں ہے اور 41دروازے ہیں۔ میناروں کی تعداد بھی دس ہے۔ یہ توسیع شاہ فہد بن عبدالعزیز نے1994ء میں کرائی‘‘۔ 1
درج بالا اقتباس سے ہم پرفیسرابن کنول کے وسیع مطالعے کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ حج بیت اللہ کے روداد سفر میں پروفیسرابن کنول نے صرف جزئیات پر ہی نظر نہیں رکھی ، بلکہ وہ تمام مقامات جو اسلامی نقطۂ نظر سے اہم تھے ان کی تاریخی حیثیت کو بھی بیان کیا ہے ، جس سے ان کا تحقیقی، تخلیقی اور تنقیدی مزاج عیاں ہوتا ہے۔ پروفیسرابن کنول نے سعودی عرب کے روداد سفر میں صرف مذہبی مقامات کی ہی تاریخی حیثیت کو واضح نہیں کیا ہے، بلکہ انھوںنے حضور ﷺ کے دور کے اس شہر کو بھی ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے جس کا ذکر احادیث وتواریخ کی کتابوں میں ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انھوں نے سعودی عربیہ کی مقدس سرزمین پر قدم رکھا تو ان کی نگاہ قدیم سعودی عربیہ کوہی ڈھونڈرہی تھی۔ ایک اقتباس دیکھیے:
’’سڑک کے دونوں طرف پتھریلا میدان تھا، نگاہیں اونٹوں اور کھجور کے باغوں کو تلاش کررہی تھیں، لیکن نہ اونٹ نظر آئے نہ باغات۔ البتہ میدانوں کو دیکھ کر ذہن میں تاریخ کے ابواب کھل گئے۔ حبشہ کی ہجرت سے لے کر بیسویں صدی کے اوائل تک کے واقعات یا د آگئے۔ ریت میں اَٹے قافلے نظر آنے لگے، گھوڑوں کے ٹاپوں کی آوازیں کانوں میں گونجنے لگیں۔ اونٹ دوڑتے ہوئے دکھائی دینے لگے۔تاریخ کے اوراق جب کھلتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ان بے یارومددگار لوگوں نے صرف ایمانی طاقت کی بنیاد پر دنیا کو فتح کرلیاتھا اور آج دولت کی فراوانی اور تمام سہولتوں کے باوجود دنیا کی سب سے کمزور قوم مسلمان ہے‘‘۔2
درج بالا اقتباس میں ماضی کی بازیافت کو جس جذباتی انداز میں پروفیسرابن کنول نے پیش کیا ہے اس میں سعودی عرب کی ترقی اور قدیم تہذیب کا تصادم نظر آتا ہے، کیوں کہ مصنف کو یہاں پر وہ سعودی نظر نہیں آیا جس کو انھوں نے احادیث وتواریخ کی کتابوں میں پڑھا تھا یا بزرگوں سے سن رکھا تھا۔بہر حال سعودی عرب کے روداد سفر میں وہاں کی تہذیبی وسماجی زندگی کا وہ منظر نہیں دکھائی دیتا ہے جو دیگر سفرناموں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس سفر میں مصنف ایک مذہبی فریضہ ادا کررہے تھے، جس میں ایام قیام کی ایک مدت اور جگہ متعین کی گئی تھی۔یہی وجہ ہے کہ اس سفرنامے میں حج بیت اللہ کے وہ تمام فرائض اور جزئیات نظر آتی ہیں جو دوران حج ضروری ہیں، جسے پروفیسرابن کنول نے پوری باریک بینی سے پیش کرکے اس کی تاریخی اہمیت کوبھی صفحۂ قرطاس پررقم کردیا ہے۔
’چارکھونٹ‘ کا دوسرا سفرنامہ امریکہ کے روداد سفر پر محیط ہے۔ پروفیسرابن کنول کا یہ وہ پہلا سفرنامہ ہے، جو سیاحتی نقطۂ نظر سے کافی اہم ہے۔ ویسے تو انھوں نے یہ سفر ایک امریکی باشندے کے دعوت نامے پر ایک سیمینار میں شرکت کی غرض سے کیا تھا۔ اس سفرنامہ میںپروفیسرابن کنول سفر کی ابتدا سے لے کر واپسی تک کی ان تمام باتوں کا ذکر بڑی خوش اسلوبی سے کیا ہے، جو فن سفرنامہ کے نقطۂ نظر اہم ہیں۔ اس سفر میں پروفیسرابن کنول کی حیثیت ایک ادیب کی تھی، لیکن روداد سفر رقم کرتے وقت سیمینار کی روداد بیان کرنے سے شعوری طورپر گریز کیاہے، کیوں کہپروفیسر ابن کنول کی نظر نے امریکہ کی ترقی یافتہ زندگی کو زیادہ ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے، جس کے لیے امریکہ عالمی سطح پر جانا جاتا ہے۔ امریکہ کی ترقیات کے علاوہ پروفیسرابن کنول نے وہاں کے قدرتی مناظر اور تہذیبی زندگی کو بھی بے باکی سے پیش کیا ہے۔ اور امریکہ کو اپنے تجربات ومشاہدات کی روشنی میں دیکھنے کی کو شش کی ہے۔ پروفیسرابن کنول نے امریکہ کی تہذیبی وسماجی زندگی کی تاریخ کو رقم کرکے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ امریکہ کے لوگوں کی طرز زندگی کیسی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے روداد سفرمیں کھانے کے انواع واقسام اور بازاروں کی رونقیں صاف طور پر دکھائی دیتی ہیں۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
سین فرانسسکو کے بازار میں پیدل گھومے، سڑکوں کے اطراف بڑے شوروم تھے۔ کشادہ سڑکیں تھیں۔ فٹ پاتھ بنانے میں بھی فراخ دلی سے کام لیا گیا تھا۔ جن پر کرتب دکھانے والے اپنے کرتب بھی دکھا رہے تھے۔ مصور لوگوں کو سامنے بٹھاکر تصویریں بھی بنارہے تھے، زیادہ مصور تھائی لینڈ، ملیشیا اور انڈونیشیا کے تھے۔ ایک جگہ رک کر ہم لوگوں نے مچھلی کے کباب کھائے، کباب کھاتے وقت ذرا سی جھجک محسوس نہیں ہوئی، اس لیے کہ مچھلی تو ہر حال میں حلال ہے۔ قریب دس بجے رات کو وہاں سے گھر کے لیے روانہ ہوئے۔ رات کا منظر بڑا خوبصورت لگ رہا تھا، تمام پہاڑوں پر روشنیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ لگتا تھا ستارے نیچے اتر آئے ہیں یا زمین آئینہ بن گئی ہے اور ستاروں کا عکس نظر آرہا ہے‘‘۔3
درج بالااقتباس سے یہ اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ پروفیسر ابن کنول کو امریکہ کے سفرمیں کن چیزوں میں زیادہ دلچسپی تھی۔ اور یہ بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مذکورہ اقتبا س میں جن مناظر کی تصویر کشی کی ہے اس کے پیچھے سفرنامہ نگار کا کیا مقصد ہے۔ ’چارکھونٹ‘ کے تقریباً سبھی سفرناموں میں جو یکسانیت نظر آتی ہے وہ غیر ممالک کی ترقیات کے ساتھ اس کی تہذیبی زندگی کی تصویر کشی بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی روداد سفر رقم کرتے وقت مصنف نے جہاں اس کی سماجی وتہذیبی زندگی کو پیش کیا ہے، وہیں اس کے دوسرے رخ کو بھی پیش کرکے اس ملک کی حقیقت کو واضح کرکے اپنے قارئین کو امریکہ کے دوسرے رخ سے روشناس کرایا۔ امریکہ جیسے ملک کانام سنتے ہی ہمارے ذہن میں ایسے خیالات گردش کرنے لگتے ہیںگوکہ امریکہ میں مذکورہ بالااقتباس میں پیش کیے گئے مناظر ہوہی نہیں سکتے ہیں، مگر ہم اس سفرنامے سے اس امریکہ کوجان سکے جسے پروفیسرابن کنول نے پیش کیا ہے۔ تقریباًیہی انفرادیت ان کے تمام سفرناموں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ پروفیسرابن کنول امریکہ تو بحیثیت ادیب مدعو کیے گئے تھے، مگر روداد سفر رقم کرتے وقت اجمالاً ادبی سرگرمیوں کو بیان کیا ہے اور ایک سیاح کی طرح ہمہ وقت وہاں کے قدرتی مناظر کو ہی دیکھنے کے متمنی نظرآتے ہیں۔ سفرنامے کے مطالعے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ امریکہ کے تاریخی مقامات اور قدرتی مناظر کو دیکھنے میں ہی زیادہ دلچسپی لیاکرتے تھے۔ ہاں! غیر ضروری تفصیلات سے گریز کرکے اہم اور منفرد چیزوں کو اپنے تجربات ومشاہدات کی روشنی میں بیان کیا ہے، جس میں نظر جزئیات پر مرکوز ہوتی ہے اور ہم امریکہ کی اس زندگی سے واقف ہوجاتے ہیں جسے اکثر لوگ بیان کرنے سے گریز کرجاتے ہیں۔ بہر حال امریکہ کی روداد سفر رقم کرنے میں پروفیسرابن کنول نے جہاں امریکہ کی سماجی زندگی کو پیش کیا ہے، وہیں اس کے قدرتی مناظر کوبھی پیش کیا ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہوں:
14 /جون کو Red Wood Grove Nature Cantre چلنے کا پروگرام بنایاگیا۔ قدرتی مناظر کا یہ مرکزSanta Cruzمیں ہے۔ یہاں زیادہ ترایسے درخت ہیں جن کی لکڑی سرخی مائل ہے اور ڈیڑھ دوہزار سال پرانے ہیں۔ درختوں کی لمبائی بہت زیادہ ہے، سب سے بڑا درخت 280فٹ لمبا ہے، جس کے تنے کی موٹائی17فٹ ہے۔ ایسے ہی سروقد اور طویل القامت درختوں کے تنے بجلی کے کھمبوں کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ کیلی فورنیامیں تو جنگلات بہت زیادہ ہیں۔ میں نے دیکھا کہ لوہے یا سیمنٹ کی جگہ بجلی کے تاروں کو ان اونچے اور سیدھے درختوں سے باندھا گیاہے۔ اس قدرتی مرکز کو دیکھنے ہزاروں سیاح آتے ہیں۔ پہاڑوں اور سمندروں نے مناظر کو اور خوبصورت کردیا ہے‘‘۔4
’چارکھونٹ‘ میں موریشس کا سفرنامہ کا فی اہم اور معلوماتی ہے۔ موریشس بھی پروفیسرابن کنول بحیثیت ادیب عالمی اردو کانفرنس کے لیے مدعو کیے گئے تھے۔ جیسا کہ اوپر ذکرکیا جاچکاہے کہ حج بیت اللہ کے علاوہ تقریباً تمام غیر ملکی سفرپروفیسر ابن کنول نے بحیثیت ادیب کیے تھے، لیکن انھوں نے ایک سیاح کی حیثیت سے ان ممالک کو دیکھنے و سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اکثر سفرناموں میں تحقیق وتاریخ سے دلچسپی نمایاں طورپر نظر آتی ہے۔ موریشس کو بھی پروفیسرابن کنول ایک سیاح کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کی ہے، ساتھ ہی اس کی تاریخ کومد نظر رکھتے ہوئے اس کی سماجی و تہذیبی زندگی کو دیکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موریشس کا سفرنامہ تاریخی نوعیت سے کافی اہم ہوجاتا ہے۔ موریشس میں پروفیسرابن کنول نے اپنی زیادہ تر توجہ قدرتی مناظر ، اس کی آب وہوااور کاشت کاری پر صرف کی ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’اگست میں موریشس کا موسم اچھا ہوتا ہے، کبھی بارش بھی ہونے لگتی ہے۔ ہلکی ہلکی سردی تھی۔ رات کے سناٹے میں سمندر کی لہروں کی آوازیں خوف بھی پیدا کرتی ہیں۔ سمندر میں دور جہازوں کی روشنیاں بھی نظر آتی ہیں۔ فضامیں بالکل آلودگی نہیںتھی، اسی لیے آسمان پر جگمگاتے ہوئے ستارے صاف نظر آرہے تھے، جو دہلی میں ڈھونڈنے پڑتے ہیں‘‘۔5
بہر حال موریشس کے سفرمیں پروفیسرابن کنول نے وہاں کے قدرتی مناظر کے علاوہ وہاں کی سماجی زندگی، رہن سہن اور تقریبات وغیرہ کو بھی قریب سے دیکھااور اپنے سفرنامے میں بخوبی پیش کردیا۔
’چارکھونٹ‘ کے اہم سفرناموں میںانگلینڈ کا سفرنامہ منفرد مقام رکھتا ہے، کیوں کہ اس سفر میں بھی پروفیسرابن کنول ایک ادیب کے ساتھ ایک سیاح کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پروفیسرابن کنول نے انگلینڈ کو علمی وادبی نظریے سے دیکھنے کے ساتھ اس کی ترقیات کو بھی دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس سفرنامے میں پروفیسرابن کنول کے تجربات ومشاہدات دوسرے سفرناموں کی بہ نسبت الگ دکھا ئی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس سفرنامے میں انھوںنے انگلینڈ کی سماجی وتہذیبی زندگی کے ساتھ یہاں کی ترقیات اور علمی وادبی شخصیات کا ذکر بڑی ہی خوش اسلوبی کے ساتھ کیا ہے۔ انگلینڈ کے سفر میں پروفیسرابن کنول نے مختلف تاریخی مقامات کی سیر وتفریح کے علاوہ وہاں کے بازاروں، ریستوران، یونیورسٹی اور میوزیم وغیرہ کوبھی باریکی سے دیکھا اورسفرنامہ کی شکل میں رقم کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ انگلینڈ کے روداد سفر میں جہاں ہمیں کھانے کی انواع واقسام ، سماجی وتہذیبی زندگی، بازار اور گلی کوچے دکھائی دیتے ہیں وہیں وہاں کی عالیشان عمارت، یونیورسٹیز اور میوزیم کے علاوہ وہاں کی مشہورومعروف علمی وادبی شخصیات سے بھی واقف ہونے کا موقع ملتا ہے۔ انگلینڈ کی ادبی، علمی اور تہذیبی وراثت کے تعلق سے لکھتے ہیں:
’’برٹش میوزیم کی عمارت دیکھ کر انگریزوں کی اس بات کا قائل ہونا پڑا کہ یہ لوگ اپنی علمی، ادبی اور تہذیبی وراثت کی حفاظت پر کس قدر توجہ دیتے ہیں۔ انتہائی عظیم الشان عمارت ہے، دیکھ کر کسی محل کا ساگمان ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کے بادشاہ قلعے اور مقبرے بنانے میں لگے رہے اور اسی میں ہمیشہ کے لیے دفن ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا میوزیم ہے۔ اس میں پوری دنیا کی تاریخ وتہذیب کی نشانیاں محفوظ ہیں۔ انگریزوں کو قدیم وجدید ہر طرح کی چیزیں اکٹھا کرنے کا شوق ہے، انھیں چاہے وہ نوادرات خریدنے پڑیں یا لوٹنے پڑیں۔ جن ملکوں پرانھوں نے قبضہ کیا وہاں لوٹ مار کرناتو ان کا قانونی حق بن گیا تھا‘‘۔6
انگریزوں کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ ان کی حکومت میں ایک وقت ایسا تھا جس میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ ظاہر ہے کہ انھوں نے دنیا کے مختلف ممالک کو اپنے قبضے میں علم وحکمت کی بنیاد پر لیا تھا، وہ جس ملک میں بھی رہے وہاں کی دولت کے ساتھ وہاں کے نایاب ذخیرے( جن میں کتب بھی شامل تھی) اپنے ملک لے گئے جن کی انھوں نے صرف قدر ہی نہیں کی ،بلکہ اسے تہذیبی وراثت کے طورپر آج بھی محفوظ رکھا ہے۔ درج بالااقتباس میں پروفیسرابن کنول نے جن مشاہدات کو بیان کیا ہے وہ کئی باتوں کی طرف دعوت فکر دیتے ہیں۔ اول یہ کہ دنیا میں اسی قوم نے ترقی حاصل کی جنھوں نے اپنی تہذیبی وراثت کو سنبھال کر رکھا، دوسرے یہ کہ محنت ومشقت اور دور اندیشی ہی اصل ترقی کا راز ہے۔ آج ہم ان ممالک سے ترقیات میں پیچھے اس لیے ہیں کہ ہم نے اپنی تہذیبی وراثت کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔اس سلسلے میں ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ اگر آدمی ذراسی ہمت کرے تو لندن کے تمام اہم مقامات کو قدموں ہی سے روند سکتا ہے۔ دراصل شاہانِ برطانیہ زیادہ فضول خرچ نہیں تھے۔ باپ دادا کی عمارتوں میں ہی تھوڑے بہت ردوبدل کے ساتھ رہتے رہے، جب کہ انھوں نے پوری دنیا سے اتنی دولت لوٹی کہ خاندان کے ہر فرد کے لیے قلعہ بنواسکتے تھے۔ انھوںنے یہ دولت دیگر ترقیاتی کاموں اورتعلیمی اداروں پر خرچ کی۔ ہمارے بادشاہوں نے تمام وقت اوردولت قلعے بنوانے میں صرف کی۔ ہر بادشاہ نے اپنے لیے نیا قلعہ بنوایا۔ باپ کے بنوائے ہوئے قلعے میں بھی رہنا پسند نہیں کیا‘‘۔7
بہرحال انگلینڈ کے روداد سفر میں پروفیسرابن کنول نے وہاں کی ترقیاتی زندگی کے ساتھ وہاں کے علمی وادبی ماحول کابھی احاطہ کیا ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے وہاں کی طرز رہائش کے ساتھ بازاروں کی رونق کو بھی دائرۂ کار میں لایا ہے، جس سے کہ ہم انگلینڈ کی سماجی زندگی کے بہت سے اہم گوشوں سے واقف ہوجاتے ہیں۔
متحدہ عرب امارات کا نام سنتے ہی ہمارا ذہن برج خلیفہ کی آسمان چھوتی عمارت کی طرف چلاجاتا ہے۔ ذہن کا اس طرف جانا بھی لازمی ہے، کیوں کہ قدرت نے قیمتی ذخیروں کو اس کی زمین کے اندر پوشیدہ کیا ہے، جسے یہ لوگ نکالنے میں کامیاب ہوگئے ہیں، جس کی وجہ سے یہاں کے لوگ عالیشان زندگی کے ساتھ عالیشان عمارت بنواکر دنیا پر فوقیت لے جانا چاہتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ متحدہ عرب امارات ایک مدت تک غیر ممالک کے قبضے میں رہا ہے۔ جس کے چلتے یہاں کے باشندوں نے ایک مدت تک غلامی کی زندگی گزاری تھی، لیکن آزادی ملنے کے بعد متحدہ عرب امارات نے ایسی برق رفتاری سے ترقی کی کہ تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ آج ان ممالک کے حالات معاشی اعتبار سے اتنے بہتر ہوگئے ہیں کہ دنیا کے دوسرے ممالک کے لوگ یا تو سیر وتفریح کی غرض سے وہاں جاتے ہیں یا تو تجارت کے سلسلے میں۔ متحدہ عرب امارات جہاں سیر وتفریح کا مرکز بنا ہوا ہے، وہیں اس نے روزگار کے بہت سارے وسائل بھی پیداکیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں دوسرے ملک سے لوگ بغرض سلسلۂ روزگار جاتے ہیں۔ پروفیسر ابن کنول نے متحدہ عرب امارات کا سفر محض سیر وتفریح کی غرض سے اپنے اہل خانہ کے ساتھ کیا تھا۔ اس سفر میں بھی پروفیسرابن کنول خالص سیاح کی حیثیت سے نظر آتے ہیں۔اور ایک سیاح کی طرح وہاں کی ترقیاتی زندگی اور قدرتی مناظر کودیکھا اور اسے اپنے تجربات ومشاہدات کی روشنی میں صفحۂ قرطاس پر رقم کردیا۔ متحدہ عرب امارات کے روداد سفر میں جہاں ہم وہاں کی ترقیات کو دیکھتے ہیں، وہیں ہم دوسرے ممالک سے بغرض سلسلۂ روزگار آئے ہوئے ان مزدوروں کوبھی دیکھتے ہیں جو چند پیسوں کی خاطر اپنے اہل خانہ سے دور وہاں خستہ حالی میں زندگی گزاررہے ہیں۔ پروفیسرابن کنول نے اس سفرنامے میں جہاں متحدہ عرب امارات کی چکا چوند زندگی کو پیش کیا ہے، وہیں وہاں کی اس زندگی کو بھی دائرۂ کار میں لایا ہے، جس سے اکثر لوگ نابلد ہیں۔ ہم نے خلیجی ممالک سے متعلق جب بھی کہیں پڑھا یا کسی سے سناتو اس کی چکا چوند بھری زندگی اور آسمان چھوتی بلند عمارتوں کو ہی سن کرمحوہوجاتیہیں۔ پروفیسرابن کنول نے بھی اپنے اس سفرنامے میں وہاں کی آسمان چھوتی عمارت اور چکاچوند بھری زندگی کو پیش کیا ہے، لیکن انھوں نے ان مزدوروں کی زندگی کو بھی قریب سے دیکھنے کی کوشش کی ، جو دوسرے ملکوں سے بغرض تلاش معاش کے سلسلے میں وہاں جاتیہیں۔ پروفیسرابن کنول ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ہم بھی دیکھنا چاہتے تھے کہ یہاںآخر ایسا کیا ہے جو ان لوگوں کو ہندوستان آکر آلودگی، گندگی اور لوگوں کی طرز زندگی دیکھ کر افسوس ہوتاہے، جب کہ اسی آلودگی اور گندگی میں رہ کر جوان ہوئے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ جب ہمارے ملک سے لوگ باہر جاتے ہیں تو پلٹ کر آنا نہیں چاہتے۔ انھیں اپنے وطن کی ہر چیز میں عیب نظر آنے لگتا ہے۔ دوسرے ملک کا کالا رنگ بھی اچھا لگتا ہے‘‘۔8
درج بالا اقتباس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پروفیسرابن کنول وہاں کی طرز زندگی کا مشاہدہ کرنا چاہتے تھے۔ جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ ادیب حساس طبیعت کا مالک ہوتا ہے۔ پروفیسرابن کنول ایک فعال ادیب ہیں، جن کاسماجی زندگی سے گہرا تعلق رہاہے۔ یہی وجہ ہے کہ متحدہ عرب امارات کی چکا چوند بھری زندگی کے درمیان کئی ایک حقیقت کا انکشاف کیا ہے، جس سے اکثر ہندوستانی نابلد ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ متحدہ عرب امارات کی عالیشان زندگی کے بیچ ایک اور زندگی ہے ، جسے اکثر لوگ بیان کرنے سے گریز کرجاتے ہیں، لیکن پروفیسرابن کنول تو سیاح کے ساتھ ادیب بھی ہیں، تبھی تو ان کی نگاہوں سے مزدوروں کی زندگی اوجھل نہ ہوسکی، اور اسے بیان کرنے میں بالکل دریغ محسوس نہیں کیا۔ اقتباس دیکھیے:
’’سونا پور کی زندگی دبئی سے بالکل الگ ہے۔ مزدوروں کی یہ بستی دبئی میں آکر بھی اپنے ہی وطن جیسی زندگی گزاررہی ہے۔ گھر والے خوش ہیں کہ بیٹا یا شوہر دبئی میں ہے، یہ نہیں جانتے کہ وہ سب کے آرام وآسائش کے لیے کتنی جدوجہد کررہا ہے۔۔۔۔۔سونا پور میں لاکھوں مزدور رہتے ہیں، علی الصباح اٹھتے ہیں، نہانے دھونے کے بعد ناشتہ کرکے بسوں میں شہر کی طرف چلے جاتے ہیں۔ رات کو تھکے ہارے واپس آتے ہیں۔ اپنے اپنے گھر ٹیلی فون پر باتیں کرتے ہیں، ٹیلی ویژن دیکھ کر وقت گزارتے ہیں۔ ٹیلی ویژن ان مزدوروں کی تفریح کا اہم ذریعہ ہے۔ یہاں مقامی لوگوں نے کرایے کے لیے یہ عمارتیں بنارکھی ہیں، ہزاروں درہم ان مزدوروں سے کرایے کے طورپر وصول کیے جاتے ہیں۔ رومی نے مجھے کمرے بھی دکھائے اور غسل خانے اور باورچی خانے میں بھی لے گیا۔ ایک بڑے سے ہال میں بہت سے گیس کے چولھے رکھے ہوئے تھے، جن کے درمیان چھوٹی چھوٹی دیواریں کھڑی کر کے تقسیم کردیا گیا تھا، انہی چولھوں پر مزدور اپنا کھانا بناتے ہیں۔ یہاں خواتین نہیں رہتیں، صرف مردوں کی بستی ہے۔ یہاں کے رہنے والے برصغیر کے لوگ یہ سوچ کر خوش ہیں کہ ہم سونا پور یعنی The City of Goldenمیں رہتے ہیں‘‘۔9
درج بالا اقتباس ان مزدوروں کی زندگی کو عیاں کرتا ہے جو تلاش معاش کے لیے خلیجی ممالک جاکر اپنے اہل وعیال کو چند خوشیاں دینا چاہتے ہیں، لیکن اپنے اہل وعیال کی خوشیوں کی خاطر یہ مزدور کس اذیت ناک زندگی میں مبتلا ہوتے ہیں، شاید کہ اس کا ان کے اہل خانہ کے لوگ تصور تک نہیں کرسکتے ہیںاورہم ان کے متعلق اکثر یہی سوچتے ہیں کہ جو مزدور خلیجی ممالک میں تلاش معاش کے سلسلے میں جاتے ہیں وہاں کے شیوخ کی طرح نہیں تو کم ازکم اچھی زندگی ضرور گزارتے ہوں گے۔ ایسا ہم اس لیے بھی سوچتے ہیںیہ لوگ اپنے وطن آکرجب وہاں کی روداد زندگی بیان کرتے ہیں تو کہیں سے خود کومظلوم ومجبور ثابت نہیں ہونے دیتے اورایسا اکثر لوگ کرتے ہیں جو خلیجی ممالک میں تلاش معاش کے سلسلے میں جاتے ہیں، چوں کہہم ان ممالک کی عالیشان زندگی سے کچھ اس قدر واقف ہیں کہ پروفیسر ابن کنول نے متحدہ عرب امارات میں برصغیر کے مزدوروں کی جس طرز زندگی کو بیان کیا ہے،اس کا گمان تک نہیں کرتے کہ واقعی ایسی طرز زندگی اور رہائش وہاں بھی ہوتی ہوگی۔ جیسا کہ ہم سبھی جانتے ہیں ادیب حساس طبیعت کا مالک ہوتا ہے۔ پروفیسرابن کنول سفر میں ایک سیاح کے ساتھ ایک ادیب کی حیثیت سے بھی موجود ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی حساس طبیعت نے متحدہ عرب امارات کی چکا چوند بھری زندگی کے بیچ ایسی طرز زندگی سے ہمیں روشناس کرایا ہے، جسے بیان کرنے سے اکثر لوگ گریز کرجاتے ہیں، لیکن انھوں نے اس طرز زندگی اور رہائش سے پردہ اٹھا کر اپنے سفرنامے کو زندگی کا ترجمان بنادیا ہے، بلکہ بہت سارے لوگوں کی غلط فہمیوں کا ازالہ بھی کیا ہے۔ ایک طرح سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان ممالک کی چکا چوند بھری زندگی ان مزدوروں کی قربانیوں پر منحصر ہے جو چند خوشیوں کے لیے جانوروں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور مار شرم کی وجہ سے اپنے عزیز واقارب سے حقیقت بھی بیان نہیں کرپا تے ہیں۔
’چار کھونٹ‘ میں پاکستان، ماسکو اور ازبکستان کا سفرنامہ بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان کا سفر بھی پروفیسرابن کنول نے بحیثیت ادیب کیا تھا، لیکن رودادسفر رقم کرتے وقت انھوں نے ہندوستان کی مشتر کہ تہذیب اور تقسیم ہند کے سانحے کوبھی یاد کیاہے۔علاوہ ازیں انھوں نے پشاور اور دلی کے بازاروں کا تقابل بھی کیاہے ، جس میں انھیں کچھ خاص فرق کا احساس نہیں ہوا، حتیٰ کہ انھیںوہاں کی سماجی زندگی میں بھی کچھ خاص فرق نظر نہیں آیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ دونوں ملک 1947ء سے قبل ایک ہی تہذیب کے پروردہ تھے۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’خداجانے ہندوستان کی تقسیم کس نے کی تھی۔ ہندوستان کی قدیم تاریخ تو پاکستان میں چلی گئی، وادیٔ سندھ کی تہذیب کے آثار، موہن جوداڑو اور ٹکسلا سب کچھ تو پاکستان میںہے۔ ہندوستان میں تو تاج محل، لال قلعہ اور قطب مینار ہیں۔ گرونانک جی مقام پیدائش پاکستان میںہے۔ گرودوارہ پنجہ صاحب پاکستان میںہے۔۔۔۔۔ سرحدپر آکر دکھ ہوتا ہے، کسے معلوم تھا کہ ایک دن یہ ملک مذہب کے نام پر تقسیم ہوجائے گا، صدیوں کے رشتے ایک پل میں چند لوگوں کی خواہش پر ختم ہوجائیں گے‘‘۔10
ماسکو کے روداد سفر میں پروفیسرابن کنول نے وہاں کی علمی وادبی ماحول اور انقلاب روس کو اپنے تجربات ومشاہدات کے ذریعہ جس اندازمیں بیان کیا ہے، اس سے ماسکو کی پوری علمی وادبی فضا ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ علاوہ ازیں پروفیسرابن کنول نے وہاں کے اہم مقامات کی سیر وتفریح بھی ایک سیاح وادیب کی حیثیت سے کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہماسکو کے روداد سفر میں علمی، ادبی اور سیاسی فضا خوشگوار انداز میں سامنے آتی ہے۔ علاوہ ازیںپروفیسرابن کنول نے وہاں کے قدرتی مناظر کو دلکش انداز میں پیش کرکے روس کی تہذیبی زندگی کوبھی عیاں کیا ہے۔ اسی طرح ازبکستان کے سفرنامے میں بھی وہاں کی سماجی زندگی کے ساتھ وہاں کے علمی ماحول کا بیان دلکش انداز میں ملتا ہے۔ جیسا کہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ سیاسی اور مذہبی اعتبار سے ازبکستان تاریخی حیثیت کا حامل رہاہے۔ جہاں اس سرزمین پر نامور بادشاہ پیدا ہوئے وہیں اس ملک نے جید عالم دین بھی دیے ہیں، جنھوں نے مذہب اسلام کے لیے وہ خدمات انجام دیں جسے تاریخ اسلام کے باب میں کبھی بھلایا نہیں جاسکتا ہے۔ پروفیسرابن کنول نے ازبکستان کے سفر میں جہاں قدرتی مناظر کو نظر میںرکھا، وہیں انھوں نے عالم دین کے مزارات کی زیارت کوبھی رقم کیا ہے۔ علاوہ ازیں اس ملک کا آزادی کے بعد اور قبل کاسماجی وتہذیبی تقابل بھی کیا ہے، جس کی وجہ سے قارئین پوری طرح سے ازبکستان سے روشناس ہوجاتے ہیں۔
بہرحال ’چارکھونٹ‘ کے مطالعے کے بعد یہ کہاجاسکتا ہے کہ پروفیسرابن کنول نے جس فن کاری سے اپنے تجربات ومشاہدات اور افکار ونظریات کو صفحۂ قرطاس پر رقم کیا ہے، وہ ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ دستاویز اس معنی میں کہپروفیسر ابن کنول نے جس طرح ان ممالک اور شہروں کی سماجی، تہذیبی اور سیاسی زندگی کو پیش کیا ہے، اس کو انھوں نے تحقیق وتاریخ کی پس منظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ دوسرے یہ کہ ’چارکھونٹ‘ میں سفرنامہ کی شکل میں ان ممالک کی تہذیبی، سماجی، سیاسی اور قدرتی مناظر کو رقم کیا ہے، وہ آنے والے زمانے میں جب ان ممالک کی تہذیبی، سماجی اور سیاسی زندگی بدل چکی ہوگی، اس وقت یہ سفرنامہ اس کی تہذیبی، سماجی اور سیاسی وراثت کو بیان کرے گا۔علاوہ ازیں آنے والی نسل جب ان ملکوں کا رختِ سفر باندھے گی تو پروفیسر ابن کنول کا یہ سفرنامہ رہنمائی کا کام کرے گا۔ ’چار کھونٹ‘ کے آخر میں پروفیسر ابن کنول نے ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ کے عنوان سے بھی روداد سفر بیان کیاہے ، جس میں انھوں نے ہندوستان کے مختلف تاریخی مقامات اور شہروں کی روداد سفربیان کی ہے۔ اور یہ ثابت کرنے کی کو شش کی ہے کہ سیر وتفریح کے علاوہ بھی ہمارے ملک میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں، جس کے لیے ہم دوردراز کے ملکوں کا سفر کرتے ہیں، تبھی تو انھوں نے ہندوستان کے مختلف شہروں کے رودادسفر کا عنوان ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ کے نام سے قائم کیا ہے۔مجموعی طورپر ’چارکھونٹ‘ کے حوالے سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس میں شامل سفرنامے غیرممالک کی سماجی، سیاسی، تہذیبی، علمی وادبی زندگی سے روشناس کراتے ہیں۔یہ سفرنامے دور حاضر میں اہمیت تو رکھتے ہی ہیں آنے والے زمانے میں ان کی دستاویزی حیثیت بھی مسلم رہے گی۔
حواشی:
1۔ ابن کنول؛ چار کھونٹ،نئی دہلی؛ناشر مصنف،2022ء،ص37
2۔ ایضاً،ص۔ ایضاً،27
3۔ ایضاً،ص80
4۔ ایضاً،ص83
5۔ ایضاً،ص106
6۔ ایضاً،ص158
7۔ ایضاً،ص169
8۔ ایضاً،ص217
9۔ ایضاً،ص226
10۔ ایضاً،ص204-211
Dr. Mohammad Amir
Jawaharlal Nehru University, New Delhi
Mob: 9868561984
Email: mohdamir56@gmail.com
Leave a Reply
Be the First to Comment!